پاکستان تحریک انصاف کے رہنما علی محمد خان کا کہنا ہے کہ جیل کوئی آسان جگہ نہیں ہے، جیل کا ایک پریشر ہوتا ہے، لیکن اللہ کی مدد شامل حال ہو تو کوئی ایسی مشکل بھی نہیں ہے
ایک نیوز چینل سے گفتگو کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ کہا کہ اگر کسی نے کچھ غلط کیا ہے تو اس کو نتائج کا سامنا کرنا چاہئے، میں نے غلط نہیں کیا تو میں کیوں اپنی جماعت چھوڑوں، اللہ کے کرم سے میں نے اپنے خلاف الزامات کا سامنا کیا اور 9 مئی کا کیس ختم ہوگیا۔
انہوں نے کہا کہ میں نے کور کمیٹی میں بھی یہ رائے دی ہے کہ اگر آپ پر الزامات ہیں تو عدالت میں اس کا سامنا کریں، جیل چلے جائیں، اگر آپ نے کچھ نہیں کیا تو آپ کو عدالت سے ایک آئینی تحفظ بھی مل جائیگا۔
علی محمد خان نے بتایا کہ احتجاج والے دن ہمارے گاؤں میں ایک بزرگ فوت ہوگئے تھے تو مجھے وہاں جانا پڑ گیا، وہاں پر خاں صاحب کی گرفتاری کی اطلاع ملی تو میں اسلام آباد آگیا، مجھے پورا دن لگا کیونکہ سارے روڈ چوک تھے۔اس وجہ سے اس دن میں احتجاج میں نہیں تھا، اگلے دن میں قانونی ٹیم کی ساتھ سپریم کورٹ جارہا تھا جہاں خان صاحب کی پیشی تھی تو راستے میں گرفتاری ہوگئی۔انہوں نے کہا کہ جن لوگوں نے احتجاج میں حصہ لیا اور پرامن احتجاج کیا وہ ان کا حق ہے، لیکن جنہوں نے حدود پار کی ہیں تو میں بارہا کہہ چکا ہوں وہ پارٹی کی پالیسی نہیں تھی، نہ میرے سامنے کسی بھی میٹنگ میں خان صاحب نے اس حوالے سے کوئی ہدایت دی تھی۔ اب اگر کسی نے غلط کیا ہے تو ظاہر ہے انہوں نے چارجز کا سامنا کرنا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ غلطی کرنے والے بھی پاکستانی ہیں، ریاست ماں کی طرح ہوتی ہے، ماں سزا کے ساتھ درگزر اور نصیحت بھی کرتی ہے۔انہوں نے کہا کہ پوری جماعت اور چئیرمین صاحب کو موقع ملنا چاہیے کہ وہ الیکشن میں آئیں تاکہ عوام فیصلہ کرسکیں۔
علی محمد خان نے مطالبہ کیا کہ ایوانِ صدر میں سیاسی مکالمہ ہو، اس میں اسٹبلشمنٹ بھی شامل ہو، سب بیٹھیں اور 9 مئی کے واقعے سے ملک کو آگے لے کر جائیں تاکہ ملک آگے بڑھے۔