All posts by ghulam mustafa

گھریلو رنجش: کراچی میں بھائی کے ہاتھوں بھائی اور بھابی قتل



کراچی کے علاقے اتحاد ٹائون میں افسوسناک واقعہ پیش آیا ہے جہاں بھائی نے گھریلو رنجش کی بنیاد پر اپنے ہی بھائی اور بھابھی کو فائرنگ کر کے قتل کر دیا ہے۔

پولیس نے فوری کارروائی کرتے ہوئے ملزم کو گرفتار کر لیا ہے اور تفتیش شروع کر دی ہے۔

ایس ایس پی کیماڑی عارف اسلم نے بتایا ہے کہ اتحاد ٹائون کے علاقے جدہ ہزارہ کالونی میں بڑے بھائی نے فائرنگ کر کے چھوٹے بھائی اور بھابھی کو موت کے گھاٹ اتار دیا۔

انہوں نے بتایا کہ فائرنگ کرنے والے شخص کو گرفتار کر کے اس کے قبضے سے اسلحہ بھی برآمد کر لیا گیا ہے۔

ایس ایس پی کے مطابق ملزم کی جانب سے فائرنگ کا اعتراف کر لیا گیا ہے مگر ابھی تک اس نے یہ نہیں بتایا کہ اس نے انتہائی اقدام کیوں اٹھایا۔

عمر گل نے قومی کرکٹ ٹیم کو اہم مشورہ دے دیا



پاکستان کرکٹ ٹیم کے سابق فاسٹ بولر عمر گل نے ورلڈ کپ کھیلنے والی قومی ٹیم کو مشورہ دیا ہے کہ غلطیوں سے سیکھ کر آگے بڑھیں، اتنے بڑے ایونٹ میں غلطی کی کوئی گنجائش نہیں ہوتی۔

نجی ٹی وی سے گفتگو کرتے ہوئے عمر گل نے کہاکہ قومی کرکٹ ٹیم بھرپور صلاحیتوں کی مالک ہے، ہماری ٹیم سپر فور میں جگہ بنا سکتی ہے۔

سابق فاسٹ بولر نے کہا کہ نسیم شاہ کے ورلڈ کپ میں نہ ہونے کی وجہ سے ہمارے بولنگ اٹیک پر فرق پڑا ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ شاہین آفریدی نے پچھلے میچ میں پانچ وکٹیں لی ہیں جس سے ان کو کافی اعتماد ملا ہو گا، بولرز کو چاہیے کہ پچھلے میچز بھول جائیں اور مستقبل پر نظر رکھیں۔

عمر گل نے کہا کہ بھارتی وکٹیں بولرز کے لیے زیادہ سود مند ثابت نہیں ہوتیں مگر امید ہے کہ ہمیں اگلے میچز میں کوئی مسئلہ نہیں ہو گا۔

9 مئی واقعہ میں ملوث افراد کو معافی دلوانا زندگی کا مشن ہے، شیخ رشید



سابق وفاقی وزیر داخلہ و سربراہ عوامی مسلم لیگ شیخ رشید نے کہا ہے کہ میری زندگی کا مشن ہے کہ جیلوں میں موجود بیگناہ لوگوں کو رہائی دلوائوں۔

سماجی رابطے کی ویب سائٹ ایکس پر اپنے ایک بیان میں شیخ رشید نے کہاکہ میں چلا کاٹ کر واپس آیا ہوں مگر مجھے اس دوران کسی تکلیف کا سامنا نہیں کرنا پڑا۔

شیخ رشید نے ان لوگوں کا شکریہ ادا کیا جنہوں نے چلے کے دوران انہیں دعائوں میں یاد رکھا۔

سربراہ عوامی مسلم لیگ نے کہا کہ جن لوگوں سے 9 مئی کی غلطی سرزد ہوئی اور اس کے بعد گرفتار یا روپوش ہیں انہیں معافی دلوانا میری زندگی کا مشن ہے۔

انہوں نے اپیل کی کہ 9 مئی واقعہ کے ذمہ داران کی عام معافی کے مشن میں عوام میرا ساتھ دیں۔ کل سے اس مشن کا آغاز ہو جائے گا۔

نجکاری؟ لاحول ولا!



تحریر:۔ عطاالحق قاسمی

بہت دنوں سے اسکول اساتذہ کا بھرپور احتجاج جاری تھا، جو اسکولوں کی نجکاری کے حوالے سے تھا، اساتذہ اس مبینہ منصوبے کے خلاف صدائے احتجاج بلند کر رہے تھے، اب اس حوالے سے تین خبریں سامنے آئی ہیں کہ مریم نواز سے اساتذہ کے قائدین کا ایک وفد ملا اور انہیں اس مسئلے سے آگاہ کیا، جس پر انہوں نے انہیں تسلی دی اور کہا کہ ایسا نہیں ہوگا، دوسری خبر یہ کہ عدالت نے اساتذہ کی رہائی کا حکم دیا ہے جن پر پولیس نےبہت بے دردی سے تشدد کیا تھا اور انہیں ایک ہی بیرک میں جانوروں کی طرح رکھاگیاتھا اور تیسری سب سے اہم خبر یہ ہے کہ پنجاب کے نگران وزیر اعلیٰ محسن نقوی نے صحافیوں کے سوالوں کا جواب دیتے ہوئےکہا کہ اسکولوں کی نجکاری کا کوئی ارادہ نہیں اور نہ ہی یہ تجویز کسی بھی میٹنگ میں زیر غور آئی۔

یہ تینوں حوالے بہت خوش آئند ہیں،مگر سوال یہ ہے کہ اساتذہ جن میں خواتین اور مرد شامل ہیں، کئی ہفتوں سے سڑکوں پر بھرپور احتجاجی مظاہرے کر رہے تھے۔بعض مقامات پر ان کے طلبہ بھی اس مظاہرے میں شریک تھے، ان پر آنسو گیس بھی پھینکی گئی، لاٹھی چارج بھی ہوا اور بہت بری طرح گھسیٹتے ہوئے انہیں پولیس وین میں پھینک دیاگیا۔ تو سوال یہ بنتا ہے کہ اگر ایسا کچھ نہیں تھا تو اس احتجاج کی نوبت کیوں آئی اور احتجاج کو اتنا طویل کیوں ہونے دیاگیا اگر پہلے دن اس’ ’افواہ‘‘کی تردید کر دی جاتی تو یہ چنگاری شعلہ بننے سے پہلےبجھ جاتی اور ویسے بھی نجکاری کی ’’افواہ‘‘ کی کچھ نہ کچھ بنیاد ضرور تھی ورنہ اساتذہ کو احتجاج کرنے اور اس ذلت آمیز سلوک کو برداشت کرنے کی ضرورت ہی نہیں تھی۔ یہ ’’شرلی‘‘ کسی نے کہیں نہ کہیںضرور چھوڑی تھی اور یہ اس قدر خطرناک تھی کہ اساتذہ ہی نہیں، تعلیم سے محبت کرنے والے افراد بھی اس پر سیخ پا تھے اور ان کے یہ جذبات غیر حقیقی نہیں تھے۔

اسکولوں کی نجکاری کا مطلب یہ ہے کہ سرکاری اسکولوں میں بچوں کو جو تعلیم تقریباً مفت دی جاتی تھی اب ان کے والدین سے اتنی بھاری فیسوں کا مطالبہ کیا جائےگا جو پرائیویٹ اسکولوں میں وصول کی جاتی ہیں اور جہاں صرف امیروں کےبچے داخلہ لے سکتے ہیں۔ اگر خدانخواستہ ایسا کیا گیاتو یہ منصوبہ بچوں کی ایک بہت بڑی تعداد کو تعلیم سے محروم رکھنے کا باعث بنے گا۔ کسی زمانے میں گورنمنٹ کالج لاہور اعلیٰ اور معیاری تعلیم کا ادارہ تھا یہاں امیر غریب سب کو میرٹ پر داخلہ ملتا تھا اور فیس بالکل نارمل تھی، ہمارے اکابر کی ایک بہت بڑی تعداد اسی درس گاہ سے فیض یاب ہے مگر جب اسے یونیورسٹی بنایا گیا تو اس کی داخلہ اور ماہانہ فیس میں اس قدر اضافہ ہواکہ اب اس میں داخلے کا میرٹ صرف یہ ہے کہ آپ کےپاس اچھے خاصے پیسے ہوں اور بچہ تعلیمی میرٹ پر بھی ہو۔ اگر اسکولوں کی نجکاری ہوئی تو غریبوں کے بچے کبھی اسکول نہیں جائیں گے اور یوں ہماری خواندگی کی شرح مزید نیچے آ جائے گی۔

مسئلہ صرف بچوں اور ان کی تعلیم کا نہیں، پرائیوٹائزیشن کی صورت میں اساتذہ بھی ایک بہت بڑے مسئلے کا شکار ہوںگے۔ ان کے بڑھاپے کا واحد معاشی سہارا یعنی پنشن انہیں نہیں ملے گی، میرے نزدیک یہ ظلم کی اخیر ہوگی۔ وہ بے چارے پہلے کہاں امیر وکبیر ہیں، ان کی کون سی فیکٹریاں چلتی ہیں،وہ کونسے اس مراعات یافتہ طبقے سے تعلق رکھتے ہیں، جن کو بے پناہ معاشی سہولتیں دورانِ ملازمت اور ریٹائرمنٹ کے بعد بھی فراہم کی جاتی ہیں، ان کی حالت عام پاکستانیوں جیسی ہے، جنہیں صرف دو وقت کی روٹی میسر ہو جاتی ہے، خدا کے لئے ان سے یہ دو وقت کی روٹی تو نہ چھینو!۔

اور ہاں خطرہ صرف اسکولوں کو نہیں، اگلے مرحلے میں ’’صیاد‘‘ کی نظر کالجوں پر بھی پڑسکتی ہے اوریوں وہ سب لوگ جو کسی نہ کسی طور اپنے بچوں کو تعلیم کے زیور سے آراستہ کرتے ہیں اور اس کے بعد یہ بچے معاشرے میں قدرے بہتر زندگی گزارتے ہیں یا گزار سکتے ہیں، اس کی امید بھی نہیں رہے گی۔میں ارباب اقتدار سے گزارش کروںگا کہ اگر کسی کے ذہن میں اس منصوبے کی کوئی آلائش موجود ہے تو وہ کسی معالج سے یہ آلائش صاف کرائے ورنہ یہ کام خود قدرت کردیا کرتی ہے۔

بشکریہ جنگ نیوز اردو

نواز شریف کا چوتھا اُوتار



تحریر:۔ امتیاز عالم

دم تحریر:آج بروز ہفتہ ’’اُمید کی پرواز‘‘ پر جب نواز شریف لاہو رکی تاریخی یادگار پہ تاریخی جلسہ سے مخاطب ہونگے تو کیا تاریخ رقم ہوگی؟ پہلے بھی تین بار تاریخ رقم ہوئی تھی اور چراغ گل کردئیے گئے تھے۔ میاں صاحب کی واپسی کیسے ممکن ہوئی کن شرائط پہ ہوئی؟ باہر کیسے گئے اور واپس کیسے آئے؟ جتنے منہ اتنی باتیں۔ البتہ یہ کہنا بنتا ہے کہ نواز شریف تین بار وزارتِ عظمیٰ سے ناجائز طور پر نکال باہر کیے جانے کے باوجود ہر بار پلٹ آنے میں کامیاب ہوتے رہے۔ پھنس کر نکلنے اور واپس پلٹنے میں انکا کوئی ثانی نہیں۔ وہ گریٹ سروائیور ہیں۔ مقتدرہ کے سیاسی گناہوں کو تاریخ کے کٹہرے میں کھڑا کرنے کے دبنگ اعلانات اور ’’ووٹ کو عزت دو‘‘ کی دہائی دینے کے بعد وہ جس طرح منت زاریاں کرواتے ہوئے گوشہ عافیت سدھارے اور اب اپنا مقدمہ اللہ کے حوالے کرتے ہوئے ’’آئو پھر سے سنبھالو، یہ ملک بچالو‘‘ کے نعروں کی گونج میں پرتپاک استقبال سے باغ باغ ہوئے جارہے ہیں۔ کیا سیاسی کایا پلٹ ہے یا پھر قلا بازی؟ ناانصافی کے ازالے اور ’’ہموار میدان‘‘ کی فراہمی کی فرمائشیں ایک حد تک پوری ہوتی لگتی ہیں۔ عالیشان پروٹوکول سے ایسی واپسی کب کسی نے دیکھی؟ خواہشیں کتنی پوری ہوتی ہیں، اور اصل میں کتنی برآئیں گی یہ تو سیاسی تقدیر کے کاتب ہی جانتے ہیں۔ وِلن عمران خان سلاخوں کے پیچھے اور نواز شریف میدان میں ہیں اور مدمقابل کوئی بھی نہیں۔ پرانا بیانیہ دفن اور نیا بیانیہ ہر سو گونج رہا ہے: ’’ملک سنبھالو، ملک بچالو‘‘ (لیکن جنہوں نے بلاشرکت غیرے سنبھالنا اور بچانا ہے، وہ مملکت خداداد کو اپنے آہنی ہاتھوں میں پہلے ہی سے لے چکے ہیں)۔ لاہور کے جلسے کی زبردست تیاریاں ہیں (جسکی روح رواں دو مریم بیبیاں ہیں) جو اچھا خاصا کامیاب ہوتا دکھائی پڑتاہے۔ میدان میں اسوقت وزیراعظم کا ایک ہی امیدوار ہے، وہ ہے نواز شریف ! وزارت عظمیٰ کے دوسرے ممکنہ اُمیدوار ہونہار بلاول بھٹو کے پرواز سے پہلے ہی پدرانہ شفقت کے ہاتھوں پرکاٹ دئیے گئے ہیں۔ لیکن ایک چبھتا ہوا سوال ہے کہ کیا میاں صاحب کو چوتھی بار وزارت عظمیٰ کی گدی پر بیٹھنے دیا جائے گا یا یہ کہ انکی بھاری بھرکم شخصیت کا بار پھر سے اُٹھانے کی کسی میں کتنی سکت ہے؟

میاں صاحب لندن سے نہیں آرہے، روضہ رسول پہ دعائیں مانگ کر اور خانہ کعبہ کا طواف کر کے آرہے ہیں۔ اللہ اور اس کے رسول سے معافی مانگ کر اور اپنے دشمنوں کی معافی اللہ کے سپرد کرکے آرہے ہیں۔ اس مقدس سرزمین پہ سجدہ کر کے آرہے ہیں جنکے حکمران مامور من اللہ ہیں اور جنکی مشرقِ وسطیٰ کے جنوبی ایشیا خاص طور پر برصغیر کے ساتھ نئے بندھن باندھنے کی نئی سوچ میاں صاحب کی پرانی سوچ سے ہم آہنگ ہے۔ جیو اسٹرٹیجک سلامتی کی جگہ، اب معاشی سلامتی کی جانب مجبوراً مراجعت میاں صاحب کے کردہ و ناکردہ گناہوں کی بخشش کیلئے کافی ہے۔ وہ اس تبدیلی کیلئے موزوں سیاسی عامل ہوسکتے ہیں، لیکن آنکھ کے تارے وہ نہیں، نیویں نیویں، پیچھے پیچھے آداب بجالاتے شہباز شریف کی سویلین اقتدار مقتدرہ کے پائوں پہ رکھنے کی اسپیڈ کا کوئی متبادل نہیں۔ کہیں یہ نہ ہو کہ دکھ بھریں بی فاختہ اور کوے انڈے کھائیں! بعداز انہدام ہائبرڈ رجیم (عمران- 1) اور 16 ماہ کے ہائبرڈ رجیم- 2 (شہباز حکومت ) نے تقریباً تمام سویلین سپیس چھائونی کے حوالے کردی ہوئی ہے۔ اب وفاق اور صوبوں میں کابینائوں سے بالا بالا ایپکس کمیٹیوں کا راج ہے، آئینی نظام حکومت کب کا فارغ ہوا۔ جو بچا کھچا ہے اس پر کاکڑ ماڈل ہی صادق آتا ہے۔ اگر انتخابات آزادانہ اور منصفانہ نہ ہوئے، پھر میدان میں ایک ہی شیر دھاڑے گا تو انتخابی ساکھ کے پلے کیا رہ جائے گا؟ اب تک کے قرائن سے تو یہی ظاہر ہے کہ عوام کے بنیادی حق رائے شماری کو ٹھکانے لگانے کا پورا پورا بندوبست کرلیا گیا ہے۔ عمران خان کی نکمی ہائبرڈ حکومت اور شہباز شریف کی دوسری ہائبرڈ حکومت کی ناکام اسپیڈ کے بعد اور مخالف کیمپوں میں بٹے سیاستدانوں کی چھائونی کی چاپلوسی کے ہاتھوں جمہوریت اور سویلین حکمرانی کے پلے بچاہی کیاہے؟مقتدرہ سے عوامی بغضِ معاویہ اور پرانی قیادتوں سے بیزاری سے عمران خان کو پذیرائی تو ملی جو اس نے اپنی نرگسیت پسندانہ مہم جوئی اور کینہ پروری کی نذر کردی۔ اب جیل میں سائیکل کی سواری بھی میسر نہیں۔ 9 مئی جیسے واقعات تو دنیا بھر میں ہوتے رہتے ہیں جیسے امریکہ کے گزشتہ انتخابات کے بعد کیپٹل ہل پر ٹرمپ کے حامیوں کا حملہ۔ لیکن پاکستانی ٹرمپ کے جانثار بھول گئے کہ پاکستان کی چھائونیوں میں احتجاج اور وہ بھی پنجاب میں کرنے کے کیا سنگین مضمرات ہونگے۔ وہ تو جیسے شالامار گارڈن کی سیر کو نکلے تھے اور بعد میں معافیوں اور آہ وزاریوں کے سوا کوئی نعرہ مستانہ بلند نہ ہوا جیسے کہ ہم جنرل ایوب خان، جنرل یحییٰ خان اور جنرل ضیا الحق کے خلاف عوام کی مزاحمتی جنگ کی صورت دیکھ چکے تھے۔ ناکام و ناپختہ مزاحمت مسلسل جمہوری جدوجہد کے خلاف اشتعال انگیزوں کے کام آتی ہے۔ آج کا سیاسی مزاحمتی سناٹا اسی کا خمیازہ ہے اور سب کی سب پارٹیاں جمہوریت کی صفیں لپیٹ کر آمرانہ قوتوں کے سامنے کورنش بجالائی ہیں۔ اب میدان میں کوئی ٹھہرے بھی تو کیسے کہ شیخ رشید جیسے کاسہ لیسوں کو بھی چلہ کاٹنا پڑتا ہے۔

اس جمہوری سناٹے میں نواز لیگ نے فتح کے راگ ابھی سے الاپنا شروع کردئیے ہیں۔ حالانکہ ملک کو درپیش سیاسی، معاشی، اداراتی اور آئینی بحران کسی ایک سیاستدان، کسی ایک جماعت اور کسی ایک ادارے کے بس کی بات نہیں۔ بندوق کی نالی سے مسئلے حل نہیں ہوتے اور نہ پاکستان کی تاریخ میں ایسا ہوا ہے۔ مصر بننے یا میانمار کی راہ لینے والے ذرا سوچیں پاکستان کی تاریخ میں حالات ہاتھ سے نکلتے دیر نہیں لگتی۔ یہ ہم 1968، 1970، 1986 اور 2018 کے تاریخی یدھوں میں بار بار دیکھ چکے ہیں۔ پاکستان کے ہر مقبول اور منتخب وزیراعظم کے ساتھ کئے جانے والے سلوک سے پاکستان کے تشخص کے پلے کوئی مہذبانہ پہلو بچا ہے یا ملک کی کوئی کل سیدھی ہوئی ہے؟ کل حسین شہید سہروردی، شیخ مجیب الرحمان، ذوالفقار علی بھٹو، بے نظیر بھٹو ، نواز شریف اور آج عمران خان سب کے سب سلامتی کیلئے خطرہ کیوں ٹھہرے؟ اب ایک اور سابقہ وزیراعظم اور قومی ہیرو کو قومی راز فاش کرنے کے جرم میں اور نہ جانے کون کون سے جرائم میں قید و بند میں انصاف کی سولی پہ چڑھائے جانے کا بندوبست کیا جارہا ہے۔ خدارا ہمیں بریک دیں۔ آگے بڑھیں! میاں نواز شریف اسوقت سینئر ترین رہنما ہیں، انہیں سولو پرواز کی بجائے تمام سیاسی جماعتوں کو ایک نئے چارٹر آف ڈیموکریسی ، چارٹر آف انسانی حقوق اور چارٹر آف اکنامکس پہ ایک ساتھ بیٹھنے کی دعوت دینی چاہیے۔ جب تک سیاستدانوں میں رولز آف دی گیم اور جمہوری چلن پہ اتفاق نہیں ہوتا اور ادارے آئین کی پاسداری نہیں کرتے، ہمارا ملک یونہی اندھیروں میں بھٹکتا رہے گا۔ ایسے میں آج ہی کے دن یہ پوچھنا چاہیے کہ چوتھی بار وزیراعظم بننے کے اُمیدوار نواز شریف عوام سے کیا نیا عمرانی معاہدہ کرنے جارہے ہیں؟

بشکریہ جنگ نیوز اردو

ٹیکنالوجی کا کمال: روبوٹ کو سکول پرنسپل مقرر کر دیا گیا



ٹیکنالوجی کی دنیا میں آئے روز کچھ نیا ہونے کی خبریں سامنے آتی ہیں، آرٹیفیشل انٹیلی جنس کی ٹیکنالوجی نے اب ایک اور سنگ میل عبور کر لیا ہے۔

غیرملکی میڈیا رپورٹس کے مطابق اے آئی روبوٹ ایبیگیل بیلی کو برطانیہ کے ایک اسکول میں پرنسپل مقرر کر دیا گیا ہے۔

میڈیا رپورٹس میں بتایا گیا ہے کہ ہیڈ ماسٹر کو اسکول چلانے میں مدد کے لیے روبوٹ کی خدمات حاصل کی گئی ہیں۔

ایبیگیل بیلی نامی اے آئی چیٹ بوٹ بہت سی صلاحیتوں کا حامل ہے، وہ زبانوں کا ترجمہ کرنے کے علاوہ تخلیقی مواد اور سوالات کے جوابات معلوماتی انداز میں ترتیب سکتا ہے۔

علی محمد خان سیاسی جماعتوں اور اسٹیبلشمنٹ کے درمیان ڈائیلاگ کے خواہشمند



پاکستان تحریک انصاف کے سینیئر رہنما اور سابق وفاقی وزیر مملکت علی محمد خان نے صدر مملکت عارف علوی سے اپیل کی ہے کہ وہ سیاسی جماعتوں اور اسٹیبلشمنٹ کے درمیان ڈائیلاگ کرائیں۔

نجی ٹی وی کے پروگرام میں گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ نوازشریف کو وطن واپسی پر خوش آمدید کہتے ہیں، اگر وہ آئینی طریقے سے تشریف لاتے تو یہ زیادہ بہتر ہوتا۔

واضح رہے کہ نوازشریف تقریباً 4 سال تک بیرون ملک رہنے کے بعد وطن واپس پہنچ گئے ہیں اور اپنے خطاب میں کہا ہے کہ وہ کسی سے انتقام نہیں لینا چاہتے۔

بدلے اور انتقام کی تمنا نہیں، عوام کی خوشحالی چاہتاہوں، نواز شریف کاجلاوطنی سے واپسی پرخطاب، مینار پاکستان پرسیاسی طاقت کامظاہرہ



لاہور( ادراک نیوز) پاکستان  مسلم لیگ (ن) کے قائد اور سابق وزیراعظم نوازشریف نے چار سال بعد وطن واپسی پر اپنے خطاب میں کہا ہے کہ ان کے دل میں کسی سے بدلے اور انتقام کی تمنا نہیں بس ایک ہی خواہش ہے کہ اس ملک میں خوشحالی آئے۔

نوازشریف چالہ سالہ خود ساختہ جلاوطنی ختم کرکے  ہفتہ کے روز دبئی سے اسلام آباد انٹرنیشنل ایئرپورٹ پہنچے اور پھر خصوصی طیارے کے ذریعے لاہورپہنچے ۔

مینار پاکستان پر استقبالی جلسے سے نوازشریف نے اپنا خطاب اس شعر سے کیا کہ

کہاں سے چھیڑوں فسانہ، کہاں تمام کروں

وہ میری طرف دیکھیں تو میں سلام کروں

اپنے خطاب میں نوازشریف نے کہا کہ  آپ آج کئی برسوں کے بعد ملاقات ہو رہی ہے لیکن آپ سے میرا پیار کا رشتہ قائم و دائم ہے، اس رشتے میں کوئی فرق نہیں آیا۔

انہو ں نے کہا کہ پیار محبت اور خلوص جو آپ کے چہروں اور آنکھوں میں دیکھ رہا ہوں، مجھے اس پر ناز ہے، یہ میرا اور آپ کا رشتہ کئی دہائیوں سے چل رہا ہے اور نہ آپ نے کبھی دھوکا دیا اور نہ ہی نواز شریف نے دھوکا دیا، جب بھی موقع ملا بڑے خلوص سے دن رات ایک کرکے پاکستان کے عوام کے مسائل حل کیے۔

ان کا کہنا تھا جب بھی موقع ملا قربانی سے دریغ نہیں کیا، جیلوں میں مجھے ڈالا گیا، ملک بدر کیا گیا، جعلی کیسز میرے خلاف، شہباز شریف، مریم نواز اور یہاں بیٹھے سب لوگوں کے خلاف جھوٹے مقدمے بنائے گئے لیکن کسی نے مسلم لیگ کا جھنڈا ہاتھ سے نہیں چھوڑا۔

نواز شریف نے کہا کہ وہ کون ہے جو ہر چند سال بعد نواز شریف کو اپنے پیاروں اور قوم سے جدا کرتا ہے، ہم تو پاکستان کی تعمیر کرنے والوں میں ہیں، ہم نے پاکستان کے لیے ایٹم بم بنایا، ہم نے اللہ کے فضل سے پاکستان کو ایٹمی طاقت بنایا۔

ان کا کہنا تھا کہ ہم نے لوڈ شیڈنگ ختم کی، لوڈشیڈنگ شروع نہیں کی، 2013 میں لوڈ شیڈنگ عروج پر تھی، 18، 18 گھنٹے لوڈ شیڈنگ ہوتی تھی، یہ ایک عذاب تھا اور ہم نے اس کو ختم کیا، بجلی نواز شریف نے مہنگی نہیں کی، نواز شریف نے بجلی بنائی اور سستے داموں عوام تک پہنچایا۔

انہوں نے کہا کہ میں بل ساتھ لے کر آیا ہوں اور بتانا چاہتا ہوں، آپ بھی مجھ سے محبت کرتے ہیں اور میں بھی آپ سے اتنی محبت کرتا ہوں، آج آپ اس محبت کو دیکھ کر میں اپنے سارے دکھ درد بھی بھول گیا، میں یاد بھی نہیں کرنا چاہتا لیکن کچھ دکھ درد ایسے ہوتے ہیں جو انسان بھلا تو نہیں سکتا لیکن ایک طرف رکھ سکتا ہے۔

‘‘کچھ دکھ درد ایسے ہوتے ہیں جوفراموش نہیں کئے جاسکتے’’

سابق وزیراعظم نے کہا کہ کچھ دکھ درد اور زخم ایسے ہوتے ہیں جس سے انسان کچھ وقت کے لیے فراموش کرسکتا ہے لیکن وہ دکھ اور درد بھر نہیں سکتے، یہ زندگی کا کاروبار اور مال چلا جاتا ہے تو پھر آجاتا لیکن جو لوگ اپنے پیارے جدا ہوجاتے وہ دوبارہ کبھی نہیں ملتے اور وہ واپس نہیں آتے۔

‘‘والد،والدہ اور کلثوم نواز کا تذکرہ’’

ان کا کہنا تھا کہ میں آج سوچ رہا تھا کہ میں جب بھی کبھی باہر سے آتا تھا تو میری والدہ اور میری بیوی کلثوم گھر کے دروازے میں استقبال کے لیے کھڑی ہوتی تھیں لیکن آج میں جاؤں گا تو وہ دونوں نہیں ہیں، وہ میری سیاست کے نذر ہوگئے، سیاست میں ان کو کھو دیا، وہ مجھے دوبارہ نہیں ملیں گی، یہ بہت بڑا زخم ہے کو کبھی بھرے گا نہیں۔

انہوں نے کہا کہ میرے والد فوت ہوگئے، ان کو میں قبر میں نہ اتار سکا، میری والدہ کا انتقال ہوا اور میں ان کو قبر میں نہیں اتار سکا، میری اہلیہ کلثوم کا انتقال ہوا تو میں جیل میں تھا۔

نواز شریف نے کہا کہ میں نے جیل کے سپرنٹنڈنٹ کی منتیں سماجتیں کرتا رہا کہ میں عدالت سے آرہا ہوں وہاں مجھے کسی نے بات کرنے نہیں دی لیکن یہ بتایا گیا ہے کہ وہ دوبارہ آئی سی یو میں گئی ہیں لندن میں میرے بیٹے بات کرادو لیکن اس نے نہیں کرائی۔

ان کا کہنا تھا کہ سپرنٹنڈنٹ سے کہا کہ تمہاری میز پر دو فون پڑے ہیں میری بات کرادیں تو اس نے کہا کہ ہمیں اجازت نہیں ہے، میں نے کہا کہ تمہیں اس کے لیے کس سے اجازت درکار ہے تو اس نے کہا کہ ہم نہیں کراسکتے اور وہاں سے اٹھ کر دوبارہ اپنے سیل میں گیا جہاں چارپائی مشکل سے وہاں آتی تھی اور ایک کرسی تھی جہاں میں کبھی بیٹھتا تھا۔

انہوں نے کہا کہ ڈھائی گھنٹوں کے بعد اس کا نمبر ٹو بندہ میرے پاس آتا ہے اور کہتا ہے کہ آپ کے لیے بہت بری خبر ہے، آپ کی بیوی کلثوم اللہ کو پیاری ہوگئیں، بات نہیں کرائی اور ڈھائی گھنٹے کے بعد کہتا ہے کہ بری خبر ہے اور کہتا ہے ہم مریم کی طرف جار ہے ہیں اس کو اطلاع کے لیے لیکن میں نے کہا کہ ہر گز مت جانا اس کے پاس، اس کے پاس یہاں میرے پاس لاؤ یا میں خود اس کے پاس جاؤں گا، ان کا سیل کچھ فاصلے پر تھا لیکن ہمیں ملنے کی اجازت نہیں ہوتی تھی اور ایک ہفتے میں ایک گھنٹے کی ملاقات کی اجازت ہوتی تھی۔

نواز شریف نے کہا کہ میں نے مریم نواز تو بتایا تو وہ بے ہوش ہوگئیں اور رونا شروع کیا، ان کے اوپر اس وقت کیا گزری ہوگی، کیا سوچا ہوگا کہ یہ ہمارا اپنا ملک ہے، میں بھی اسی وطن کی مٹی سے پیدا ہوا ہوں، سچا پاکستانی ہوں۔

‘‘بل کلنٹن کی5 ارب ڈالر کی پیشکش کاحوالہ’’

ان کا کہنا تھا کہ امریکی صدر کلنٹن ہمیں زور دار طریقے سے کہہ رہا تھا کہ آپ ایٹمی دھماکے نہیں کریں، دنیا کے لیڈرز کے روز فون آتے تھے آپ دھماکا نہیں کرنا، بھارت نے کر دیا لیکن آپ نے نہیں کرنا اور پھر کہنے لگے ہم پاکستان کو 5 ارب ڈالر دیں گے۔

انہوں نے کہا کہ عمران خان کے حوالے سے بات کرتے ہوئے کہا کہ میں ان کا نام نہیں لینا چاہتا کیونکہ میں وہ فرق ملحوظ خاطر رکھنا چاہتا ہوں جو میری تربیت مجھے سکھاتی ہے، میں ایسے ماحول میں نہیں پلا کہ گندے معاملات میں اینٹ کا جواب پتھر سے دوں، میں ایسا نہیں کرتا۔

نواز شریف نے کہا کہ کلنٹن نے مجھے 5 ارب کی پیش کش کی، یہ ریکارڈ کی بات ہے، شاید ہماری وزارت خارجہ میں اس کا ریکارڈ موجود ہوگا، نکال کر دیکھیں کہ اس نے مجھے پیش کش کی تھی یا نہیں، 1999 کی بات ہے آج 24 سال ہوگئے ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ پچھلی حکومت کے لوگ ایک،ایک ارب کی بھیک مانگتے تھے لیکن اس وقت 5 ارب ڈالر کی پیش کش ہوئی تھی، مجھے کہہ رہا تھا ہم پاکستان کو دینا چاہتے ہیں، شاید اگر میں خود لینے والا ہوتا تو ایک دو ارب مجھے مل جاتے اور کہتا کہ دھماکے نہ کرو لیکن میں پاکستان کی مٹی میں پیدا ہوا ہوں جو مجھے اس بات کی اجازت نہیں دیتی کہ میں اس کی وہ بات مانوں جو پاکستان کے مفاد کے خلاف ہو۔

انہوں نے کہا کہ دنیا کا طاقت ور ترین صدر مجھے کہہ رہا ہے کہ دھماکے نہ کرنا، ہم نے دھماکے کیے اور بھارت کا جواب ٹھیک ٹھاک طریقے سے دیا، میری جگہ کوئی اور ہوتا تو وہ امریکا کے صدر کے آگے بول سکتا تھا، تو کیا ہمیں اسی بات کی سزا ملتی ہے، کیا اسی بات کے لیے ہماری حکومتیں توڑ دی جاتی ہیں، ہمارے خلاف فیصلے سنائے جاتے ہیں۔

‘‘میرے زمانے میں روٹی4 روپے کی،پٹرول60 روپے لٹر تھا’’

سابق وزیراعظم نے کہا کہ میرے زمانے میں روٹی 4 روپے کی تھی آج کتنے روپے کی ہے، آج یہاں پورے پاکستان سے لوگ آئے ہوئے ہیں، کوئی کوئٹہ، کوئی چاغی، کوئی سندھ، کوئی خیبرپختونخوا، کوئی پنجاب کے دور دراز علاقے سے آیا ہے اور کوئی گلگت بلتستان سے آیا ہے، کوئی آزاد کشمیر سے آیا ہے، آزاد کشمیر کے جھنڈے بھی نظر آر ہےہیں اور میں آپ سب کو سلام پیش کرتا ہوں۔

نواز شریف نے کارکنوں سے پوچھا کہ آپ کے علاقے میں روٹی کتنے روپے کی ملتی ہے کیا 20 روپے کی ملتی ہے، میرے زمانے میں 4 روپے کی تھی، اس لیے مجھے نکالا، اس لیے میری چھٹی کرائی، اس لیے کہ نواز شریف نے اپنے بیٹے سے تنخواہ نہیں لی لہٰذا فارغ، وزارت عظمیٰ سے چھٹی، کیا آپ اس فیصلے سے اتفاق کرتے ہوئے۔

ان کا کہنا تھا کہ ملک آج بربادیوں کی حدوں کو چھو رہا ہے لیکن یہ ملک واپس آئے گا اور ہم واپس لائیں گے۔

انہوں نے عوام سے پوچھا کہ پیٹرول کتنے کا ملتا ہے اور کہا کہ میرے دور میں پیٹرول 60 روپے کا ملتا تھا تو بتاؤ پھر اسی لیے نواز شریف کو نکالا، ڈالر میرے زمانے میں 104 روپے تھا اور آج 250 سے بھی اوپر ہے، اسی لیے پاکستان کے اندر مہنگائی کا طوفان ہے۔

قائد مسلم لیگ (ن) نے کہا کہ نواز شریف کو اس لیے نکالا تھا کہ ڈالر کو ہلنے نہیں دیا، روپے ڈالر کے سامنے کھڑا تھا لیکن پتا نہیں ہم اتنے ناشکرے کیوں ہیں، ایک ملک ترقی کی راہ پر چل رہا تھا۔

ان کا کہنا تھا کہ 1990 میں پہلی دفعہ وزیراعظم بنا تھا اور اس وقت جو منصوبے شروع کیے تھے وہ رجحان برقرار رہتا تو آج اتنے سارے لوگ بے روزگار نہیں ہوتے، غریب اپنے بچوں کا پیٹ بھی پال سکتا تھا لیکن آج تو سوچنا پڑتا ہے کہ بجلی کا بل دیا جائے یا بچوں کا پیٹ پالا جائے۔

‘‘تباہی کاسلسلہ شہبازشریف کے زمانے کانہیں’’

انہوں نے کہا کہ یہ سلسلہ شہباز شریف کے زمانے کا نہیں ہے، یہ اس سے پہلے شروع ہوگیا، ڈالر قابو میں نہیں آرہا تھا، بجلی کے بل مہنگے ہو رہے تھے، روٹی، گھی، پیٹرول مہنگا ہو رہا تھا اور پھر پاکستان کے اندر ڈالر اور چینی مہنگی ہوتی جارہی تھی، میں 50 روپے کلو چینی چھوڑ کر گیا تھا اور کہاں 50 اور کہاں ڈھائی سو کلو، نواز شریف کو اسی لیے نکالا تھا، پاکستان ایشین ٹائیگر بننے جا رہا تھا۔

ان کا کہنا تھا کہ ہم جی20 میں جا رہے تھے آج کئی ملک جی20 میں شامل ہو رہے ہیں، ہمیں ان کا مقابلہ کرنا ہے بلکہ ان سے بھی آگے جانا ہے۔

‘‘6 سال بعد خطاب کررہاہوں’’

نواز شریف نے کہا کہ 6 سال بعد اپنے جلسے سے خطاب کر رہا ہوں، میں یہ بتانا چاہتا ہوں کہ بجلی کا بل تلاش کرکے لایا ہوں، یہ نصراللہ خان کا بل ہے، جب مئی 2016 میں نواز شریف وزیراعظم تھا، دھرنے ہو رہے تھے، معلوم ہے نا دھرنے کون کروا رہا تھا، ہم نے دھرنوں کے باوجودآپ کے گھروں میں بجلی پہنچائی تھی، دھرنوں کے باوجود موٹرویز بنائی ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ گلگت سے اسکردو موٹروے نواز شریف نے بنائی تھی، چترال کی لواری ٹنل، گوادر سے کوئٹہ، پشاور سے اسلام آباد موٹر وے، اسلام آباد سے لاہور موٹروے، لاہور سے ملتان، ملتان سے رحیم یار خان اور وہاں سکھر موٹروے بھی ہم نے بنائی تھی، حیدر آباد سے کراچی موٹروے بھی ہم نے بنائی۔

انہوں نے کہا کہ نصراللہ خان کا مئی 2016 میں بجلی کا بل ایک ہزار 317 روپے اور پھر اسی بندے کا بل اگست 2022 میں 15 ہزار 687 روپے ہے، تو بجلی مہنگی شہباز شریف نے نہیں کی بلکہ اس زمانے سے مہنگی ہوئی جب آپ نے نواز شریف کو وزارت عظمیٰ سے نکالا تھا۔

سابق وزیراعظم نے ایک اور بل کا ذکر کیا اور کہا کہ سعید اختر ایک غریب آدمی ہے اور ان کا بل مارچ 2017 میں جب نواز شریف وزیراعظم تھا تو 760 روپے تھا جبکہ اگست 2022 میں 8 ہزار 220 بل آتا ہے تو کیا یہ شہباز شریف نے کیا تھا، میں شہباز شریف کی صفائی بیان نہیں کر رہا بلکہ حقائق بیان کر رہا ہوں۔

‘‘زخم اتنے لگے ہیں کہ بھرتے بھرتے وقت لگے گا’’

ان کا کہنا تھا کہ زخم اتنے لگے ہیں کہ بھرتے بھرتے وقت لگے گا لیکن میرے دل کے اندر کوئی انتقام کی تمنا نہیں ہے، نواز شریف کے دل میں بدلے کی کوئی تمنا نہیں، بس ایک ہی تمنا ہے کہ میری قوم کے لوگ خوش حال ہوجائیں، ان کے گھروں میں خوشیاں اور خوش حالی آئے، ان کے گھروں میں روشنی کے چراغ جلیں، روزگار ملے، باعزت پاکستانی بننے کا موقع ملے، غربت، بے روزگاری اور بیماری نہ ہو اور جہالت نہ ہو یہی نواز شریف چاہتا ہے۔

‘‘اللہ تعالیٰ سے دعا ہے میرے اندر انتقام کاجذبہ نہ لانا’’

نواز شریف نے کہا کہ میری اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ میرے دل کے اندر کبھی بھی انتقام کا کوئی جذبہ نہ لے کر آنا، میں اس قوم کی خدمت کرنا چاہتا ہوں، میں نے پہلے بھی خدمت کی ہے، اللہ مسلم لیگ کو اور بھی توفیق دے کہ خدمت کا سلسلہ جاری رکھے۔

‘‘غالب کاشعر’’

غالب کا شعر پڑھا کہ غالب ہمیں نہ چھیڑ کہ پھر جوش اشک سے، بیٹھے ہیں ہم تہیہ طوفاں کیے ہوئے، ہمیں نہ چھیڑوں، ہمارے زخموں کو نہ چھیڑوں ورنہ ہمارے اتنے آنسو آئیں گے کہ طوفان آجائے گا۔

انہوں نے کہا کہ آنسو کیوں نہیں آئیں گے، مریم نواز یہاں سامنے بیٹھی ہیں، ان سے پوچھیں کہ وہ اذیت کا لمحہ کوئی کیسے بھلا سکتا ہے کہ جب مریم کو قیدی باپ کے سامنے گرفتار کرکے لے جایا جا رہا تھا، نیب والے میرے آنکھوں کے سامنے قید کرنا چاہتے تھے۔

ان کا کہنا تھا کہ مریم نواز میری پاس آئی اور کہا کہ یہ مجھے گرفتار کرنا چاہتے ہیں، کیا کروں تو میں نے کہا کہ ایک قیدی کیا کرسکتا ہے، قید کرنا چاہتے ہیں تو کرلیں، ان کی چھوٹی بیٹی موجود تھی اور اپنی ماں کو گرفتار ہوتے ہوئے دیکھ رہی تھی۔

انہوں نے کہا کہ میں بھی اس مٹی کا بیٹا ہوں اور مریم بھی اس مٹی کی بیٹی ہے، پھر تنا ظلم، شہباز شریف کو بھی جیل میں بھی بند کردیا، بیٹوں کو بھی بند کیا، رانا ثنااللہ کو بند نہیں کیا بلکہ سزائے موت دینے کے چکر میں تھے، حنیف عباسی کو بند نہیں کیا بلکہ سزائے موت دینے کے چکر میں تھے، اور لوگوں کو خواجہ سعد رفیق کو دو سال جیل میں بند رکھا۔

ان کا کہنا تھا کہ مجھے 1990 سے لے کر آج تک 33 سال میں 15 سال یا تو ملک سے باہر یا جیل میں یا مقدمے بھگتا آرہا ہوں، اگر یہ 23 سال میں نے پاکستان کو دیا ہوتا تو یہ ملک جنت بنتا، ہم ملک پھر جنت بنائیں گے۔

سابق وزیراعظم نے کہا کہ میں پوچھنا چاہتا ہوں کہ ہمارے ملک میں ایک دور گزرا ہے، اس دور کا کوئی ایک کارنامہ یا کوئی ایک منصوبہ بتاؤ جو انہوں نے بنایا تھا۔

‘‘ہم سے پوچھتے ہیں ہمارا بیانیہ کیاہے’’

نواز شریف نے کہا کہ ہم سے پوچھتے ہیں کہ ہمارا بیانیہ کیا ہے، ہمارا بیانیہ پوچھنا ہے تو پھر اورنج لائن سے پوچھو جو شہباز شریف نے بنائی، کراچی کی گرین لائن سے پوچھو، میٹرو بس سے پوچھو، ایک شہر نہیں کئی شہروں، پشاور، اسلام آباد موٹروے، چاغی کے ایٹمی دھماکوں سے پوچھو، روٹی کی قیمت، ڈالر کے ریٹ، غریب کے بجلی کے بلوں سے پوچھو۔

‘‘ہم وہ نہیں جو کسی کی پگڑی اچھالیں’’

انہوں نے کہا کہ ہمارا بیانیہ پوچھنا ہے تو پھر اخلاقیات سے پوچھو، آپ کو پتا ہے کہ ہماری  اخلاقیات اور ان کی اخلاقیات میں کتنا فرق تھا، ہم وہ نہیں ہیں جو کسی کی پگڑی اچھالیں، یہ پگرٹی اچھالنا ان کا کام تھا ہمارا نہیں ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ میں سمجھتا ہوں کہ پاکستان کے عوام کو درپیش مسائل ہیں اس کے تحت کوتاہی کی کوئی گنجائش نہیں ہے، پاکستان کے عوام کو درپیش مسائل ہیں ان کے اسباب پر غور کریں اور آئین کی روح کے مطابق متحد ہو کر مستقبل کا منصوبہ بنائیں۔

‘‘ریاستی اداروں کو جماعتوں کومل کرکام کرناہوگا’’

نواز شریف نے کہا کہ ہمارے آئین پر عمل درآمد کرنے والے ریاستی ادارے، جماعتیں اور ریاست کے ستونوں کو مل کر کام کرنا ہوگا۔

ان کا کہنا تھا کہ دنیا میں مقام حاصل کرنا چاہتے ہو تو سب کو مل کر کام کرنا ہوگا، اس کا واحد حہل یہی ہے، میں پچھلے 40 سال کا نچوڑ بتا رہا ہوں، اس کے بغیر یہ ملک آگے نہیں بڑھے گا۔

‘‘نئے سفر کی ضرورت ہے’’

انہوں نے کہا کہ آئین پر عمل درآمد کرنے کے لیے سب کو اکٹھا ہونا پڑے گا، وہ بنیادی مرض دور کرنا پڑے گا، جس کی وجہ سے ملک بار بار حادثے کا شکار ہوتا ہے، ہمیں ایک نئے سفر کا آغاز کرنے کی ضرورت ہے۔

سابق وزیراعظم نے کہا کہ آپ دور دور سے آئے ہیں، میرے ساتھ طے کریں کہ ہم ایک نئے سفر کا آغاز کریں گے، پوے جوش و خروش سے کریں گے، 4 سال کے بعد میرا جوش و خروش ٹھنڈا نہیں پڑا، میرا جذبہ ماند نہیں پڑا، میرا جذبہ آج بھی اتنا جوان ہے جتنا آپ کا ہے۔

انہوں نے کہا کہ ہمیں فیصلہ کرنا ہوگا، کہ کس طرح ہم نے کھویا ہوا مقام حاصل کرنا ہے، ہمیں ڈبل اسپیڈ کے ساتھ دوڑنا پڑے گا، کسی طرح سے ہمیں ہاتھوں میں پکڑا ہوا کشکول توڑنا ہوگا، ہمیشہ کے لیے توڑنا ہوگا، اپنے پاؤں پر کھڑا ہونا ہوگا، قومی غیرت اور قومی وقار کو بلند کرنا ہوگا، پاکستان کے اندر بے روزگار، غربت کا خاتمہ کرنا ہوگا۔

‘‘ہمسایوں کے ساتھ لڑائی سے ترقی نہیں کرسکتے’’

ان کا کہنا تھا کہ ہمیں ایک باوقار اور فعال خارجہ پالیسی بنانی ہوگی، اپنے ہمسائیوں اور دنیا کے ساتھ اپنے تعلقات استوار کرنے پڑیں گے، ہم اپنے ہمسائیوں کے ساتھ لڑائی کرکے دنیا کے ساتھ اچھا تعلق سے ترقی نہیں کرسکتے، ہمیں سب کے ساتھ اچھے تعلقات قائم کرنے ہوں گے۔

‘‘مسئلہ کشمیر پرتدبیر کے ساتھ آگے بڑھناہوگا’’

نواز شریف نے کہا کہ کشمیرکے حل کے لیے باوقار تدبیر کے ساتھ آگے بڑھنا ہوگا، اگر مشرقی پاکستان مغربی پاکستان سے الگ نہ ہوتا تو آج مشرقی اور مغربی پاکستان کے درمیان معاشی راہداری بن گئی ہوتی، جس کو بھارت بھی راہ دیتا اور پاکستان مل کر ترقی کرتا، لیکن ہم نے کہا کہ یہ کون لوگ ہیں مشرقی پاکستان کے رہنے والے، یہ تو پٹ سن اگاتے ہیں، یہ تو بوجھ ہیں اور اس بوجھ کو اتار کر زمین پر دے مارا، دیکھ لیں آج وہی مشرقی پاکستان ترقی میں ہم سے آگے نکل گیا ہے اور ہم پیچھے رہ گئے ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ یہ ہمیں منظور نہیں ہے، یہ مسلم لیگ (ن)، نواز شریف، نواز شریف کے حامیوں اور ووٹرز اور یہ پاکستانی قوم کو منظور نہیں ہے، ہمیں اس صورت حال سے باہر نکلنا ہے اور کس طرح اپنے معاملات کو ٹھیک طرح چلانا ہے، میرا دل زخموں سے چور ضرور ہے ، دل درد سے بھرا ضرور ہے لیکن آپ کے ساتھ مل کر دعا کر رہا ہوں کہ اے میرے رب میرے دل میں رتی برابر بھی بدلے یا انتقام کی خواہش نہیں ہے بس تو اس قوم کی تقدیر بدل دے۔

‘‘میری آرزو ہے اک بدلاہوا پاکستان دیکھوں’’

سابق وزیراعظم نے کارکنوں سے کہا کہ میرے ساتھ مل کر دعا کرنی ہے اور میری عمر کے اس حصے میں میری آرزو ہے کہ میں ایک بدلا ہوا پاکستان دیکھوں، میں آج یہاں آپ کو جگانے آیا ہوں، آگے بڑھو اور پاکستان کو سنبھالوں اور آئندہ کسی کو اجازت نہیں دینا کہ آپ کے ملک کے ساتھ کھلواڑ اور یہ سلوک کرسکے۔

‘‘سب مل کرفلسطین کی مددکریں’’

انہوں نے کہا کہ میں نے بڑے ضبط اور صبر سے کام لیا ہے، کوئی ایسی بات نہیں کی جو کہ میں سمجھتا ہوں کہ مجھے نہیں کرنی چاہیے ، دعا کریں کہ اللہ تعالیٰ سے فلسطین کی مدد کریں، ہم سب مل کر فلسطین کی مدد کریں، ان کو ظلم سے بچائیں، ان پر جو ظلم کا سلسلہ جاری ہے وہ انسانیت کے خلاف ظلم ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ ہم اس ظلم کی  ہر طرح سے مذمت کرتے ہیں، ہر طرح سے رد کرتے ہیں، دنیا سے اپیل کرتے ہیں کہ انصاف سے کام لو اور فلسطین کا باعزت حل نکالو اور ان کا حق ان کو دیا جائے، وہ بھی چین اور سکون سے زندگی گزار سکیں، ان کو حق سے محروم کرنا اور اس کا حق کسی اور کو دینا ہم کبھی قبول نہیں کریں گے، پاکستان اور پاکستان کے عوام کبھی اس کو قبول نہیں کریں گے۔

‘‘گالی کاجواب گالی سے نہیں دینا’’

نواز شریف نے کہا کہ میں نے سوچا کہ گالی کا جواب گالی سے نہیں دینا، آپ سے بھی کہوں گا کہ آپ بھی گالی کا جواب گالی سے نہیں دینا، اپنے نوجوانوں کو یہ پیغام دینا چاہتا ہوں کہ آپ ملت کے مقدر کا ستارا ہیں، اپنی زندگیاں منفی کاموں میں گزارنے کے لیے آپ نہیں ہیں، راستہ  کٹھن ضرور ہے لیکن ناممکن نہیں ہے۔

‘‘مہنگائی کم،بے روزگاری ختم کریں گے’’

ان کا کہنا تھا کہ پاکستان کی دوبارہ تعمیر کریں گے، مل کر بجلی کا ریٹ کم کریں گے، ڈالر سستا کریں گے، مہنگائی کم کریں گے، بے روزگاری کا خاتمہ کریں گے، موٹر ویز تعمیر کریں گے تو پھر ستے خیر ہے۔

انہوں نے کہا کہ مسلم لیگ (ن) کا ایجنڈا یہی ہوگا کہ ہم نے یہ سارے کام کرنے ہیں، اپنے اخراجات میں کمی کرنی ہے، اپنے قومی ملکیت کے اداروں کا انتظام بہتر طریقے سے کرنا ہے، برآمدات بڑھانا ہے، زراعت میں انقلابی اصلاحات کرنی ہیں، پاکستان کو آئی ٹی پاور بنانا ہے، ان شااللہ۔

قائد مسلم لیگ (ن) نے کہا کہ انصاف کے نظام میں اصلاحات لے کر آنی ہیں، خواتین اور نوجوانوں کے لیے خصوصی اقدامات کریں گے، شہباز شریف یہ گفتگو سن رہے ہیں، ان کو بھی کہہ رہا ہوں اور پارٹی کے سارے رہنماؤں کو عوام کو پیغام دے رہا ہوں کہ شہباز شریف نے جو وعدہ کیا وہ کرکے دکھایا ہے۔

‘‘جلسہ میں نوازشریف نے دعا کرائی’’

نواز شریف نے دعا کرتے ہوئے کہا کہ اللہ ہمارے حال پر رحم فرما، ملک اور قوم کو مصیبتوں سے نجات عطا فرما، ہمارے گھروں میں خوش حالی کے اسباب پیدا کر، ہمارے بچوں کو باعزت روزگار عطا فرما، ہمیں مہنگائی سے نجات عطا فرما، ہمارے بچوں کو پڑھنے لکھنے توفیق عطا فرما، ہمارے بچوں کو پڑھ لکھ کر اچھے اور نیک شہری بننے کی توفیق عطا فرما۔

انہوں نے کہا کہ اس ملک میں اتنی صلاحیت ہے کہ باہر کے لوگ یہاں آکر کام کریں تو ببھی بے روزگاری نہیں ہوگی، روزگار اتنی پیدا کرسکتے ہیں کہ یہاں کسی چیز کی کمی نہیں ہے۔

‘‘تسبیح کاخصوصی تذکرہ’’

سابق وزیراعظم نے کہا کہ میرے پاس بھی تسبیح ہے، لیکن میں تسبیح اس وقت پھیرتا ہوں، جب کوئی نہیں دیکھ رہا ہوں، بغل میں چھری منہ میں رام رام مجھے نہیں آتا اور آپ بھی یہی کیا کرو۔

آج پورا پاکستان لاہور میں نواز شریف کا استقبال کرے گا: مریم اورنگزیب



پاکستان مسلم لیگ ن (پی ایم ایل این) کی ترجمان مریم اورنگزیب نے کہا ہے کہ دو دن سے پورا پاکستان جلسہ گاہ بنا ہوا ہے، مینار پاکستان پر نواز شریف کے استقبال کے لیے لوگوں کا جم غفیر ہو گا۔

لاہور میں میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے مریم اورنگزیب نے کہا کہ پورا پاکستان مینار پاکستان پر نوازشریف کا استقبال کرے گا، خواتین اور نوجوانوں کی بڑی تعداد مینار پاکستان کی جانب گامزن ہے۔

انہوں نے کہا کہ نواز شریف کا آنا پاکستان کے لیے نئے عروج اور خوشحالی کی نوید ہے، اس وقت ملک مشکلات میں ہے، نواز شریف بھاری دل کے ساتھ وطن واپس آ رہے ہیں۔

مریم اورنگزیب نے کہا کہ نوازشریف کے دور میں ملک میں امن تھا، روزگار تھا اور خوشحالی تھی۔ نواز شریف نے کہا ہے کہ میں امید کی کرن ساتھ لے کر آ رہا ہوں۔

لیگی ترجمان نے کہا کہ اب معاشرے میں نفرت، ناامیدی اور انتشار ختم ہو گا۔

آجا تینوں اکھیاں اُڈیکدیاں! مریم نواز کا نواز شریف کو خوش آمدید



پاکستان مسلم لیگ ن کی چیف آرگنائزر مریم نواز نے اپنے قائد اور والد نوازشریف کو پاکستان واپسی پر خوش آمدید کہتے ہوئے کہا ہے کہ ’آ جا تینوں اکھیاں اُڈیکدیاں، خوش آمدید نواز شریف!

سماجی رابطے کی ویب سائیٹ ایکس پر اپنی ایک ٹوئٹ میں مریم نواز نے لکھا کہ شاید میری زندگی کا آج سب سے بڑا دن ہے، میں اللہ پاک کا شکر ادا کرتی ہوں۔

ان کا کہنا تھا کہ 24 سال کے دوران نواز شریف نے جتنی تکالیف برداشت کیں ان کی کوئی مثال نہیں ملتی، کچھ زخم تو ایسے ہیں جو کبھی بھر نہیں پائیں گے۔

مریم نواز نے کہا کہ جتنے عروج نوازشریف نے دیکھے وہ بھی شاید ہی کسی کے حصے میں آئے ہوں، آج نوازشریف کا ایک اور عروج پورا پاکستان دیکھنے جا رہا ہے۔

معاشی پلان ماضی والا ہی ہو گا،ملک ٹھیک کرنے میں10 سے15 سال لگیں گے، اسحاق ڈار



سابق وفاقی وزیر خزانہ و سینیئر رہنما پاکستان مسلم لیگ ن اسحاق ڈار نے کہا ہے کہ عوام کی جانب سے موقع دیا گیا تو ایک بار پھر پاکستان کو معاشی طاقت بنائیں گے۔

اپنے ایک بیان میں اسحاق ڈار نے پاناما کو ڈرامہ کہتے ہوئے کہا کہ صرف ایک شخص کو ملک پر مسلط کرنے کے لیے یہ سب کیا گیا تھا، صرف ایک شخص کی خاطر پاکستان کو 24 ویں معیشت سے 47ویں معیشت پر پہنچا دیا گیا۔

سابق وزیر خزانہ نے کہا کہ معیشت کو ٹھیک کرنے میں وقت تو لگتا ہے، ہمارے پاس جادو کی چھڑی تو نہیں کہ جو گھمائیں اور سب کچھ ٹھیک ہو جائے۔

اسحاق ڈار نے کہا کہ ہمیں اگر دوبارہ موقع ملتا ہے تو معاشی پلان وہی ہو گا جو ماضی میں تھا، 16 ماہ کے دوران تو صرف پاکستان کو ڈیفالٹ سے بچایا۔

انہوں نے کہا کہ نوازشریف کے خلاف بنائے گئے تمام مقدمات جھوٹے تھے، وہ ضرور سرخرو ہوں گے۔ ایک نجی ٹی وی سے بات کرتے ہوئے اسحاق ڈار کا کہنا تھا کہ ملک دومنٹ میں ٹھیک نہیں ہوسکتا، 10 سے 15 سال لگیں گے۔

نواز شریف واپسی: مینار پاکستان گراؤنڈ میں کتنی کرسیاں لگائی گئی ہیں؟



پاکستان مسلم لیگ ن کے قائد نواز شریف تقریباً 4 سال بعد آج وطن واپس پہنچ رہے ہیں، ان کے استقبال کی تیاریاں مکمل کر لی گئی ہیں۔

نوازشریف کی وطن واپسی پر مینار پاکستان گرائونڈ میں جلسے کا اہتمام کیا گیا ہے۔

مسلم ن کی جانب سے دعویٰ کی جا رہا ہے کہ مینار پاکستان گرائونڈ میں 40 ہزار کرسیاں لگائی گئی ہیں۔

مینار پاکستان لاہور میں قافلوں کی آمد کا سلسلہ جاری ہے، گرائونڈ میں لائٹوں اور میوزک کے ساتھ ساتھ بڑی بڑی اسکرینیں بھی لگائی گئی ہیں۔

نوازشریف دوپہر ساڑھے 12 بجے اسلام آباد میں لینڈنگ کے بعد لاہور کے لیے روانہ ہو جائیں گے۔