Tag Archives: سپریم کورٹ

سپریم کورٹ: بجلی بلوں میں فیول پرائس ایڈجسٹمنٹ غیرقانونی قرار دینے کا فیصلہ کالعدم



سپریم کورٹ آف پاکستان نے بجلی کے بلوں میں فیول پرائس ایڈجسٹمنٹ کو غیرقانونی قرار دینے کا لاہور ہائیکورٹ کا فیصلہ کالعدم قرار دے دیا ہے۔

چیف جسٹس پاکستان جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے 3 رکنی بینچ نے معاملہ نیپرا ایپلٹ ٹریبونل کو بھیج دیا۔

عدالت عظمیٰ کے بینچ نے اپنے فیصلے میں کہا ہے کہ عدالت العالیہ کا فیول پرائس ایڈجسٹمنٹ غیرقانونی قرار دینے کا فیصلہ آئینی و قانونی طور پر قابل عمل نہیں ہے۔

فیصلے میں کہا گیا ہے کہ نیپرا اپیلیٹ ٹریبونل میں صارف کمپنیاں 15 دن میں فیول پرائس ایڈجسٹمنٹ کے خلاف اپیلیں دائر کریں، نیپرا اپیلیٹ ٹریبونل 10 دن میں اپیلیں مقرر کرے۔

عدالت عظمیٰ کے بینچ نے فیصلے میں کہا ہے کہ نیپرا اپیلیٹ ٹریبونل جلد از جلد قانونی میعاد کے اندر اپیلوں پر فیصلہ کرے۔

رائٹ ٹو انفارمیشن ایکٹ کے تحت سپریم کورٹ ملازمین کی تفصیلات فراہمی کی درخواست منظور



اسلام آباد (این این آئی)سپریم کورٹ آف پاکستان نے رائٹ ٹو انفارمیشن ایکٹ کے تحت اپنے ملازمین کی تفصیلات فراہم کرنے کی درخواست منظور کر لی۔سپریم کورٹ نے رجسٹرار آفس کو سپریم کورٹ ملازمین کی معلومات فراہم کرنیکا حکم دیتے ہوئے کہا کہ 7 دنوں میں معلومات درخواست گزار کو فراہم کی جائیں۔

سپریم کورٹ کے فیصلے میں کہا گیا ہے کہ رائٹ ٹو انفارمیشن ایکٹ کا اطلاق سپریم کورٹ پر نہیں ہوتا، آرٹیکل 19 اے کے تحت معلومات تک رسائی شہریوں کا حق ہے۔عدالتی فیصلے میں کہا گیا کہ معلومات کے حصول کا تقاضہ کرنے والے پر وجوہات بتانا لازم ہے۔

درخواست گزار کو انٹراکورٹ اپیل اور سپریم کورٹ میں اپیل کیلئے جمع کرائی گئی فیس واپس کی جائے، فیصلے کو اردو میں بھی جاری کیا جائے، معلومات فراہم کرنے والا وجوہات کے جائزے کا پابند ہے۔یاد رہے کہ عدالت نے 27 ستمبر کو درخواست گزار مختار احمد اور اٹارنی جنرل کے دلائل سن کر فیصلہ محفوظ کیا تھا۔

مختار احمد نے سپریم کورٹ ملازمین کی تفصیلات کے لیے رجسٹرار سپریم کورٹ سے رجوع کیا تھا تاہم سابق رجسٹرار سپریم کورٹ نے تفصیلات فراہم کرنے سے انکار کر دیا تھا۔

درخواست گزار نے بعد ازاں انفارمیشن کمیشن سے رجوع کیا جس پر انفارمیشن کمیشن نے اس وقت کے رجسٹرار سپریم کورٹ کو معلومات دینے کا کہا تھا۔انفارمیشن کمیشن کے فیصلے کے خلاف رجسٹرار سپریم کورٹ نے اسلام آبادہائیکورٹ سے رجوع کیا تھا جبکہ اسلام آباد ہائیکورٹ سے فیصلہ خلاف آنے پر درخواست گزارنے سپریم کورٹ سے رجوع کیا تھا۔

تاحیات نااہلی ختم کرنا خلافِ آئین ہے، الیکشن ایکٹ میں ترمیم کا اقدام چیلنج



الیکشن ایکٹ میں نااہلی کے قانون کو ختم کرنے کا اقدام چیلنج کر دیا گیا ہے۔

لاہور ہائیکورٹ میں شہری کی جانب سے درخواست دائر کی گئی ہے جس میں الیکشن کمیشن اور وفاقی حکومت سمیت دیگر کو فریق بنایا گیا ہے۔

لاہور ہائیکورٹ میں دائر درخواست میں موقف اختیار کیا گیا ہے کہ سپریم کورٹ پہلے ہی آرٹیکل 62 ون ایف کی تشریح کر چکی ہے، اب پارلیمنٹ کی جانب سے اس میں ترمیم کرنا آرٹیکل 175 کے سیکشن 3 کی خلاف ورزی ہے۔

درخواست گزار نے کہا ہے کہ الیکشن ایکٹ میں تاحیات نااہلی کی مدت کو ترمیم کے ذریعے 5 برس کر دیا گیا ہے جو آئین کی خلاف ورزی ہے۔

شہری کی جانب سے عدالت سے استدعا کی گئی ہے کہ الیکشن ایکٹ میں کی گئی ترمیم کو کالعدم قرار دیا جائے۔

نیب ترامیم کیخلاف فیصلہ کالعدم قرار دیا جائے: سپریم کورٹ میں نظرثانی اپیل دائر



سپریم کورٹ آف پاکستان میں نیب ترامیم کے خلاف فیصلہ چیلنج کر دیا گیا ہے۔

ایڈووکیٹ فاروق ایچ نائیک نے عبد الجبار کی طرف سے نظر ثانی اپیل دائر کی ہے۔

درخواست میں موقف اختیار کیا گیا ہے کہ سپریم کورٹ نے ہمیں سنے بغیر نیب ترامیم کے خلاف فیصلہ دیا۔

درخواست میں کہا گیا ہے کہ نیب ترامیم کیخلاف درخواست میں کسی بنیادی حقوق خلاف ورزی کی نشاندہی نہیں کی گئی۔ نیب ترامیم کیخلاف درخواست آرٹیکل کے تقاضے پوری نہیں کرتی تھی۔

درخواست میں استدعا کی گئی ہے کہ سپریم کورٹ نیب ترامیم کیخلاف 15 ستمبر کا فیصلہ کالعدم قرار دے۔

جماعت اسلامی کا بجلی بلوں میں اضافی ٹیکسوں کیخلاف سپریم کورٹ سے رجوع



جماعت اسلامی پاکستان نے بجلی کے بلوں میں اضافی ٹیکسوں کے خلاف سپریم کورٹ سے رجوع کر لیا ہے۔

بجلی کے بلوں میں اضافی ٹیکسوں کے خلاف عدالت عظمیٰ میں دائر ہونے والی درخواست میں وفاق، نیپرا سمیت دیگر کو فریق بنایا گیا ہے۔

جماعت اسلامی کی درخواست میں یہ نکتہ اٹھایا گیا ہے کہ نیپرا ایکٹ کے خلاف بجلی ٹیرف کا تعین نہیں کیا جا سکتا۔ کم نرخ پر بجلی فراہم نہ کرنا آئین پاکستان کی خلاف ورزی ہے۔

درخواست میں موقف اختیار کیا گیا ہے کہ حکومت کی جانب سے بجلی کے بلوں پر ٹیکس بڑھایا جا رہا ہے، دوسری طرف ٹیکسٹائل صنعتیں بجلی کی کمی کے باعث مشکلات کا شکار ہیں۔

درخواست میں کہا گیا ہے کہ فیول پرائس ایڈجسٹمنٹ قانون کے خلاف ہے، آئین میں واضح طور پر درج ہے کہ نیپرا کو بطور ریگولیٹر کوئی پالیسی بنانے کا اختیار نہیں ہے۔

جماعت اسلامی نے کہا ہے کہ اس وقت چونکہ نگران حکومت ہے لہٰذا عدلیہ ہی واحد ادارہ ہے جہاں سے اس معاملے کا نوٹس لے کر اس کو حل کیا جا سکتا ہے۔

جسٹس بندیال کا حکم امتناع کالعدم ، پی ڈی ایم حکومت کا بنایا قانون درست قرار، چیف جسٹس کے اختیارات کم ہوگئے



سپریم کورٹ آف پاکستان کے فُل کورٹ بینچ نے چیف جسٹس کے اختیارات سے متعلق ’’ پریکٹس اینڈ پروسیجرایکٹ‘‘ کے خلاف تمام درخواستیں مسترد کردیں۔
پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ میں اصول طے کیاگیاتھا کہ مقدمات کی سماعت کے لیے بینچ صرف چیف جسٹس نہیں بنائیں گے بلکہ چیف جسٹس اپنے دو سینیئر ترین برادر ججوں سے مشورے کے بعد ہی بینچ کا اعلان کریں گے۔
یہ قانون پی ڈی ایم کی حکومت نے پارلیمان سے منظور کرایا تھا کیونکہ حکومت کواعتراض تھا کہ سابق چیف جسٹس عمرعطا بندیال اپنی مرضی کا بینچ بناتے ہیں جس میں مخصوص ججز شامل ہوتے ہیں۔
اس قانون کے خلاف درخواستیں دائر کی گئی تھیں اور سابق چیف جسٹس کی سربراہی میں سپریم کورٹ نے ان درخواستوں کو منظور کرتے ہوئے قانون کانفاذ روک دیاتھا ۔
بدھ کو سپریم کورٹ نے ان اپیلوں کو مسترد کرتے ہوئے اس قانون کو درست قرار دے دیا ہے۔
اس قانون کے تحت ازخود نوٹس پر فیصلے کے خلاف اپیل کا حق دیا گیا تھا جسے سپریم کورٹ کے بدھ کے روز دیے گئے فیصلے میں درست قرار دیا گیا ہے۔ تاہم سپریم کورٹ نے اپیل کے اس حق کو’موثر با ماضی‘ نہیں کیا اس طرح سپریم کورٹ کے ماضی کے فیصلوں کے خلاف اپیل نہیں ہو سکے گی۔
بدھ کو سپریم کورٹ کے فُل کورٹ بینچ کے سربراہ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے چیف جسٹس بننے کے بعد اپنا پہلا فیصلہ سنایا۔
انہوں نے فیصلہ سناتے ہوئے کہا کہ ’فل کورٹ کے 15 میں سے پانچ ججزجسٹس اعجازالاحسن، جسٹس منیب اختر، جسٹس عائشہ ملک، جسٹس مظاہرعلی نقوی اور جسٹس شاہد وحید نے ایکٹ کی مخالفت کی۔
باقی 10ججز نے ایکٹ کے حق میں فیصلہ دیا اور سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجرایکٹ کے خلاف دائر درخواستیں مسترد کردیں۔
سپریم کورٹ کے فیصلے کے بعد قانون اپنے وجود میں آنے کے دن سے نافذالعمل ہوگیا ہے۔
عدالتِ عظمیٰ کے اس فیصلے کے بعد سابق چیف جسٹس آف پاکستان عمر عطا بندیال کی جانب سے دیا گیا حکم امتناع ختم ہوگیا ہے۔
ایکٹ کے تحت اب آئین کے آرٹیکل 184(3) کے تمام مقدمات کے لیے بینچ چیف جسٹس کے علاوہ سپریم کورٹ کے دیگر دو سینیئر ترین ججوں پر مشتمل کمیٹی تشکیل دیا کرے گی اورازخود نوٹس کافیصلہ اکیلے چیف جسٹس نہیں کرسکیں گے۔
سپریم کورٹ نے ایکٹ کے تحت ماضی سے اطلاق کی شق 7-8 سے مسترد کردی۔ ’چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ، جسٹس سردار طارق مسعود اور جسٹس منصورعلی شاہ سمیت 7 ججوں نے ماضی سے اطلاق کی حمایت کی تھی۔
فیصلے کااطلاق ماضی کے کیسز پرنہ ہونے کامطلب یہ ہے نوازشریف اور جہانگیر ترین کو اپنی نااہلی ختم کرانے کے لئے اس فیصلے سے کوئی فائدہ نہیں ہوگا لیکن کچھ ماہرین کاخیال ہے کہ سپریم کورٹ کے اس فیصلے کے خلاف اپیل کاحق موجود ہے ۔ یہ ممکن ہے کہ اپیل کے دوران ماضی سے اطلاق کاراستہ بھی نکل آئے ۔
فل کورٹ نے 6-9 کے تناسب سے ازخود نوٹس ( 184/3) کے کیسزمیں اپیل کے حق کی شق کو برقرار رکھا ہے۔
جسٹس اعجازالاحسن، جسٹس منیب اختر، جسٹس یحییٰ آفریدی، جسٹس مظاہرنقوی، جسٹس عائشہ ملک اور جسٹس شاہد وحید نے اپیل کے حق کی مخالفت کی۔

پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ کیس،چیف جسٹس نے بینچ میں شامل ججز کو سوال کرنے سے روک دیا



اسلام آباد(مانیٹرنگ ڈیسک)چیف جسٹس قاضی فائز عیسٰی کی سربراہی میں فل کورٹ بینچ سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ کیس کی چوتھی سماعت کر رہا ہے۔

میڈیا رپورٹس کے مطابق دوران سماعت چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ فل کورٹ کی تیسری سماعت ہے دیگر تمام مقدمات نظرانداز ہو رہے ہیں، اگر سوالات کا مسلسل جواب دیتے رہیں گے تو دلائل ادھورے رہ جائیں گے،میں سوالات پوچھنے کے دوران دلائل کو سمجھ نہیں پارہا۔

جسٹس منیب اختر نے وکیل سے سوال کیا کہ یہ بتا دیں کہ آرٹیکل 191 میں لاء کا کیا مطلب ہے؟اس موقع پر چیف جسٹس کا جسٹس منیب اختر سے مکالمہ ہوا، جس میں چیف جسٹس نے کہا کہ اگر آپ نے پہلے ہی ذہن بنا لیا ہے تو فیصلے میں لکھ لیجیے گا۔

چیف جسٹس قاضی فائز عیسٰی کا کہنا تھا کہ وکیل کو جیسے مرضی دلائل دینا ہوں گے دے گا، اس موقع پر جسٹس منیب اختر نے کہا کہ بطور بینچ ممبر میرا حق ہے کہ میں سوال کروں۔

چیف جسٹس کا کہناتھا کہ ظاہر ہے آپ سوال کر سکتے ہیں لیکن پہلے وکیل کو دلائل تو مکمل کرنے دیں، جسٹس منیب اختر نے کہا کہ معذرت کے ساتھ میرا مسئلہ میرا سوال ہے اور اس کا جواب دیں،اس موقع پر چیف جسٹس نے وکیل سے مکالمہ کرتے ہوئے کہا کہ آپ اپنے دلائل مکمل کریں۔

سپریم کورٹ اپنے پریکٹس اینڈ پروسیجر رولز بنانے کیلئے با اختیار ہے ، چیف جسٹس



اسلام آباد(مانیٹرنگ ڈیسک)چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی سربراہی میں سپریم کورٹ میں پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ کے خلاف درخواستوں پر سماعت کا آغاز ہو گیا ہے۔

میڈیا رپورٹس کے مطابق جسٹس اعجازالاحسن نے ریمارکس دیے کہ پارلیمنٹ رولز بنا سکتی ہے نہ رولزبنانے کیلیے قانون سازی کر سکتی ہے، موجودہ قانون کے دائرہ کار میں رہ کر رولز میں تبدیلی کا اختیار صرف سپریم کورٹ کے پاس ہے۔

چیف جسٹس نے کہا کہ آئین کہتا ہے سپریم کورٹ اپنے پریکٹس اینڈ پروسیجر کے رولز بنانے کے لیے بااختیار ہے، سپریم کورٹ آئین سے بالا رولز بناتا ہے تو کوئی تو یاد دلائے گا کہ آئین کے دائرے میں رہیں۔

جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ آئین تو پہلے ہی سپریم کورٹ کو پابند کرتا ہےکہ آئین و قانون کے مطابق رولز بنائے ۔

چیف جسٹس نے صدر سپریم کورٹ بارعابد زبیری سے مکالمہ کرتے ہوئے کہا کہ وقت کم ہے جلدی سے میرے سوال کا جواب دے دیں کہ سبجیکٹ ٹو لا کو نکال دیں تو رولز بنانے کے اختیار پر کیا فرق پڑے گا؟

یاد رہے کہ وکلا کے دلائل مکمل ہونےکی صورت میں سماعت آج مکمل ہونے کا امکان ہے جبکہ چیف جسٹس نے بھی آج کیس مکمل کرنے کا عندیہ دے رکھا ہے۔

 

دھرنا کیس: ایم کیو ایم بھی درخواست واپس لینے سپریم کورٹ پہنچ گئی



متحدہ قومی موومنٹ (ایم کیو ایم) نے فیض آباد دھرنا کیس میں نظر ثانی درخواست واپس لینے کے لیے سپریم کورٹ سے رجوع کر لیا ہے۔

ایم کیو ایم کی جانب سے سپریم کورٹ میں دائر کی گئی درخواست میں موقف اختیار کیا گیا ہے کہ ایم کیو ایم اور رابطہ کمیٹی کی ہدایات ہیں اس لیے ہم نظرثانی درخواست پر کارروائی نہیں چاہتے۔

واضح رہے کہ اس سے قبل وفاق، آئی بی، الیکشن کمیشن اور پیمرا سمیت تحریک انصاف نے بھی اپنی اپنی درخواستیں واپس لے لی ہیں، جبکہ شیخ رشید کے وکیل نے مقدمے کو التوا میں رکھنے کی درخواست کی ہے۔

پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ کیس پر سماعت ملتوی، پیر کو فیصلہ سنا دینگے، چیف جسٹس



سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ کیس کی سماعت پیر تک ملتوی کر دی گئی ہے۔ اس موقع پر چیف جسٹس فائز عیسیٰ نے کہا کہ 9 اکتوبر کو کیس کا فیصلہ سنا دیں گے۔

چیف جسٹس پاکستان جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی سربراہی میں فل کورٹ بینچ نے کیس کی سماعت کی۔ پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ کیس کی کارروائی پی ٹی وی پر براہِ راست نشر کی گئی۔

چیف جسٹس پاکستان جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے 15 رکنی فل کورٹ بینچ میں جسٹس اعجاز الاحسن، جسٹس منصور علی شاہ، جسٹس سردار طارق مسعود، جسٹس منیب اختر، جسٹس یحییٰ آفریدی، جسٹس امین الدین خان، جسٹس سید مظاہر علی اکبر نقوی، جسٹس جمال خان مندوخیل، جسٹس محمد علی مظہر، جسٹس عائشہ اے ملک، جسٹس اطہر من اللہ، جسٹس سید حسن اظہر رضوی، جسٹس شاہد وحید اور جسٹس مسرت ہلالی شامل تھے

سماعت کے آغاز پر چیف جسٹس پاکستان جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے ریمارکس دیے کہ ہماری کوشش ہو گی آج اس کیس کو ختم کریں۔ ایک کیس کو ہی لے کر نہیں بیٹھ سکتے۔ سپریم کورٹ میں پہلے ہی بہت سے کیسز زیرالتوا ہیں۔

چیف جسٹس نے کہاکہ اس قانون کا اثر چیف جسٹس سپریم کورٹ اور 2 سینیئر ججز پر پڑے گا، اختیارات کو کم نہیں کیا جا رہا، بلکہ بانٹا جا رہا ہے۔

چیف جسٹس فائز عیسیٰ نے ریمارکس دیے کہ کچھ لوگ اس قانون کو بنیاد بنا کر کہتے ہیں کہ سپریم کورٹ اور پارلیمان آمنے سامنے آ گئے ہیں، پریکٹس اینڈ پروسیجر بل قانون بن چکا ہے، جبکہ حسبہ بل کبھی قانون بنا ہی نہیں تھا۔ اس بحث میں نہیں جانا چاہیے کہ پارلیمنٹ قانون سازی کر سکتی تھی یا نہیں۔

درخواست گزار نیازاللہ نیازی کے وکیل اکرام اللہ چوہدری کے دلائل

مقدمے کے درخواست گزار نیازاللہ نیازی کے وکیل اکرام اللہ چوہدری نے دلائل دیتے ہوئے کہا ہے کہ اس ایکٹ سے عدلیہ کی آزادی پر حملہ ہوا ہے، پارلیمنٹ نے پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ منظور کر کے عدلیہ کے اختیارات میں مداخلت کی جو ہمارے آئین میں اختیارات کی تقسیم کے تصور کے خلاف ہے۔

اس پر چیف جسٹس پاکستان نے ریمارکس دیے کہ آپ کے دلائل کی بنیاد اخباری خبریں ہیں۔ قاضی فائز عیسیٰ نے اکرام اللہ چوہدری سے مکالمہ کرتے ہوئے کہاکہ آپ کہتے ہیں عدالت کی آزادی پر حملہ کیا گیا تو یہ بتائیں کہ عدالتی آزادی نایاب ہوتی ہے یا یہ لوگوں کے لئے ہوتی ہے، آپ عدالتی آزادی سے آگے نہیں جا رہے۔

چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ فرد واحد کا اختیار کم نہ کرنے کی بات کی جا رہی ہے، فرد واحد کی وجہ سے ہی تو ملک کی تباہی ہوئی، مارشل لا میں یاک شخص ملک چلاتا ہے، ہم 3 لوگ فیصلہ کریں یا 5 کسی کو کیا مسئلہ ہے۔ ہمیں پارلیمان کو احترام دینا ہوگا۔

سپریم کورٹ کے سینیئر جج جسٹس اعجازالاحسن نے ریمارکس دیے کہ قانون سازی کرنے سے پہلے پارلیمنٹ کو مکمل طریقہ کار اپنانا  چاہیے تھا مگر ایسا نہیں کیا گیا۔

اس موقع پر جسٹس اطہر من اللہ نے سوال اٹھایا کہ کیا پارلیمنٹ کو یہ اختیار نہیں کہ وہ عوام کی بہتری کے لیے کوئی بھی قانون سازی کر سکے۔

واضح رہے کہ فریقین کی جانب سے عدالت عظمیٰ میں تحریری جوابات جمع کرا دیے گئے ہیں، اٹارنی جنرل، مسلم لیگ ن، مسلم لیگ ق کی جانب سے جمع جوابات میں ایکٹ کو برقرار رکھنے کا کہا گیا ہے جبکہ درخواست گزاروں اور پی ٹی آئی نے استدعا کی ہے کہ ایکٹ کو کالعدم قرار دیا جائے۔

فیض آباد دھرنا نظر ثانی کیس،فریقین کو حقائق پیش کرنے کا ایک اور موقع، تحریری حکمنامہ جاری



سپریم کورٹ آف پاکستان نے فیض آباد دھرنا نظر ثانی کیس کی 28 ستمبر کو ہونے والی سماعت کا تحریری حکمنامہ جاری کر دیا ہے۔ چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کا تحریر کیا گیا فیصلہ 4 صفحات پر مشتمل ہے۔

عدالت عظمیٰ کے حکمنامے میں کہا گیا ہے کہ فریقین کو ایک اور موقع دے رہے ہیں کہ حقائق پیش کریں۔ اس کے لیے بیان حلفی کے ذریعے حقائق جمع کرائے جا سکتے ہیں۔

عدالتی حکمنامے میں لکھا گیا ہے کہ فریقین 27 اکتوبر تک اپنے جوابات جمع کرائیں، کیس کی مزید سماعت یکم نومبر کو ہو گی۔

حکمنامے کے مطابق اٹارنی جنرل نے موقف اختیار کیا کہ وزارت دفاع نظر ثانی کی درخواست پر کارروائی نہیں چاہتی، اس کے علاوہ آئی بی، پیمرا اور پی ٹی آئی نے بھی نظرثانی درخواستیں واپس لینے کی استدعا کی ہے۔

حکمنامے میں لکھا گیا ہے کہ درخواست گزار شیخ رشید کی جانب سے نیا وکیل کرنے کے لیے مزید مہلت مانگی گئی ہے۔ جبکہ درخواست گزار اعجازالحق نے سوالات اٹھائے ہیں۔

عدالت عظمیٰ نے کہا ہے کہ کچھ درخواست گزار حاضر نہیں ہو سکے جس کی وجہ سے ایک اور موقع دیا جاتا ہے۔

واضح رہے کہ مسلم لیگ ن کی سابق حکومت کے دور میں ایک مذہبی تنظیم کی جانب سے فیض آباد کے مقام پر دھرنا دیا گیا تھا، اُس وقت جسٹس قاضی عیسیٰ کی سربراہی میں بینچ نے ایک فیصلہ سنایا تھا جس پر بعد میں نظر ثانی کی اپیلیں دائر کی گئیں۔

سپریم کورٹ: فیول پرائس ایڈجسٹمنٹ کیخلاف درخواستوں پر دلائل طلب



سپریم کورٹ آف پاکستان نے بجلی بلوں میں فیول پرائس ایڈجسٹمنٹ کے خلاف درخواستوں پر مزید دلائل طلب کر لیے ہیں۔

چیف جسٹس پاکستان جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی سربراہی میں 3 رکنی بینچ نے فیول پرائس ایڈجسٹمنٹ کے خلاف ایک ہزار 90 درخواستوں پر سماعت کی۔

سماعت کے آغاز پر اٹارنی جنرل نے عدالت سے مہلت مانگی تو چیف جسٹس نے مسترد کردی اور کہا کہ آدھے گھنٹے میں تیاری کر کے دلائل دیں۔

اس موقع پر ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے کہاکہ اس کیس میں اٹارنی جنرل کو نوٹس نہیں میں دلائل دینا چاہوں گا تو چیف جسٹس نے دلچسپ مکالمہ کرتے ہوئے کہاکہ اٹارنی جنرل قابل وکیل میں ہم کیسے انہیں نااہل کہہ سکتے ہیں۔

بعدازاں سماعت میں وقفہ کر دیا گیا اور جب دوبارہ سماعت کا آغاز ہوا تو چیف جسٹس فائز عیسیٰ نے کہاکہ بجلی کی قیمتوں کے حوالے سے کیسوں کا ڈھیر لگا ہے، 16 اکتوبر کو دلائل سن کر فیصلہ کریں گے۔

چیف جسٹس نے کہاکہ 16 اکتوبر کو ویڈیو لنک کے ذریعے پیش ہونے کی سہولت نہیں دی جائے گی۔

بعد ازاں سپریم کورٹ کی جانب سے سماعت 16 اکتوبر تک کے لیے ملتوی کر دی گئی۔