Tag Archives: نواز شریف

نواز شریف مری چلے گئے ، اہم ملاقاتیں متوقع



 مسلم لیگ (ن) کے قائد  نواز شریف لاہور سے مری چلے گئے ۔ نواز شریف کے ہمراہ انکی صاحبزادی سینئر نائب صدر (ن) لیگ مریم نواز ، پرویز رشید اور اسحاق ڈاربھی مری گئے۔

جاتی امراء رائے ونڈ سے روانگی کے موقع پر پارٹی کارکنوں کی جانب سے نواز شریف کی گاڑی پر پھولوں کی پتیاں بھی نچھاور کی گئیں ۔ پارٹی ذرائع کے مطابق مری میں نواز شریف کی اہم ملاقاتیں متوقع ہے جبکہ وہ آج ( منگل ) 24اکتوبر کو مری سے اسلام آباد پہنچ کر عدالتوں کے روبرو سرنڈر بھی کریں گے ۔

پارٹی ذرائع کا کہنا ہے کہ  نواز شریف عدالتوں میں پیشی کے بعد واپس مری جائیں گے ، جہان ان کا دو سے تین دن قیام متوقع ہے ۔

وزیراعظم شہباز شریف!



تحریر:۔ انصار عباسی

نواز شریف کی واپسی ہو گئی۔ اُن کا جلسہ بھی کامیاب رہا۔ جلسہ میں جوتقریر کی، وہ بھی اُس ماحول کے مطابق تھی جس میں اُن کی واپسی ممکن ہوئی۔ چار سال قبل جب میاں صاحب پاکستان سے باہر گئے تو اُس وقت اُن کے اور اُن کی سیاسی جماعت کیلئے حالات بہت خراب تھے۔ اب جب چار سال کے بعد واپسی ہوئی تو اُن کیلئے سب کچھ بدل گیا۔ وہ اب بھی سزا یافتہ ہیں لیکن اُن کا استقبال ایک امید کے طور پر کیا گیا، اُن کو عدلیہ ، حکومت اور ریاست کی طرف سے ویلکم کیے جانے کا تاثرنہ چھپا ہوا تھا اور نہ ہی اُسے چھپانے کی کوشش کی گئی۔ میاں صاحب مستقبل کے حکمران کے طور پر واپس لوٹے۔وہ جب گئے تو اُس وقت وہ ایک سزا یافتہ مجرم تھے، جب واپس آئے تو بھی سزا یافتہ مجرم ہیں لیکن اُن کا جس انداز میں ویلکم کیا گیاوہ یقینا ایک ’’لاڈلےـ‘‘ والا تھا۔ یہ کس کی جیت ہے اور کس کی ہار؟ اس بارے میں ہر ایک کی اپنی رائے ہو سکتی ہے لیکن میری نظر میں نواز شریف کی واپسی، اُن کا خطاب اور مستقبل کا ایجنڈا سب کچھ اُس ماحول کے مطابق ہے جو تحریک انصاف کے 9مئی کے حملوںکا نتیجہ ہے اور جس کی بنیاد میاں شہباز شریف کی حکومت کے دوران رکھ دی گئی تھی۔ یعنی ایک ایسا ماحول جس میں ن لیگ کو آئندہ الیکشن کیلئے سپورٹ دی جائے، انتخابات کے نتیجے میں جو حکومت بنے اُس کی ساری توجہ معیشت کی جنگی بنیادوں پرترقی، سرمایہ کاری کے فروغ، مہنگائی پر قابو پانے، ٹیکس اصلاحات، سمگلنگ و ڈالر مافیا کے خلاف کریک ڈائون وغیرہ جیسے اقدامات پر ہو ۔ معیشت کی بہتری کیلئے اس قومی ایجنڈے کی سوچ میں موجودہ اسٹیبلشمنٹ کا کلیدی کردار ہے۔ بحیثیت وزیر اعظم میاں شہباز شریف نے اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ مل کر اس ایجنڈے کو اپنی حکومت میں بھرپور سپورٹ کیا جس میں سپیشل انویسٹمنٹ فیسیلی ٹیشن کونسل (SIFC) کا قیام ایک اہم ترین فیصلہ تھا۔ یعنی ملک کی معیشت کی بہتری کیلئے سول حکومت اور فوج کا مل کر کام کرنے کا فیصلہ شہباز شریف اور جنرل عاصم منیر کا تھا اور اس ایجنڈے کے حصول کیلئے اس وقت بھی بہت کام ہو رہا ہے جس کی نگرانی ادارے خود کر رہے ہیں۔ اس ایجنڈے کے حصول کیلئے ملک نہ سیاسی لڑائیوں کا اور نہ ہی اداروں کے درمیان تصادم کا مزید متحمل ہو سکتا ہے، جس کیلئے ضروری ہے کہ آئندہ آنے والی حکومت اور حکمران کسی انتقام، کسی سیاسی کھینچا تانی، کسی گالم گلوچ اور غیر ضروری تنازعات میں پڑے بغیر ساری توجہ معیشت کو درست کرنے، بنیادی خرابیوں کو دور کرنے اور اصلاحات پر مرکوز کریں۔ میاں نواز شریف کی تقریر اسی ایجنڈے کے مطابق تھی۔ اُن کے بیانیہ میں انتقام کیلئے کوئی جگہ نہیں اور اُنہوں نے واضح کیا کہ وہ سب کو بشمول اداروں کے ساتھ مل کر پاکستان کی ترقی کیلئے کام کرنا چاہتے ہیں۔ سو جس سوچ کی بنیاد شہباز حکومت کے دوران رکھی گئی اُسی سوچ کے مطابق نواز شریف کی واپسی ہوئی اور اُسی سوچ کا اظہار میاں نواز شریف نے اپنی تقریر میں کیا۔ سیاستدان، میڈیا سب کو معلوم ہے کہ ن لیگ کیلئے آئندہ انتخابات میں جیتنے کا رستہ ہموار کیا جا رہا ہے۔ انتخابات کے بعد وزیر اعظم کون بنے گا اس بارے میں ابھی کچھ واضح نہیں۔ اگرچہ ن لیگی یہ نعرہ ،یہ بیانیہ بنا رہے ہیں کہ نواز شریف چوتھی بار وزیراعظم بنیں گے لیکن اگر انتخابات کا نتیجہ وہی ہوا جو اس وقت بہت سوں کو نظر آ رہا ہے تو میری ذاتی رائے میں وزیراعظم شہباز شریف بن سکتے ہیں اور اس فیصلہ کا اعلان نواز شریف خود کر سکتے ہیں۔

بشکریہ جنگ نیوز اردو

نواز شریف منگل کو عدالت میں پیش ہونگے



مسلم لیگ (ن) کے قائد نواز شریف منگل 24 اکتوبر کو عدالت میں پیش ہوں گے۔

پارٹی ذرائع کے مطابق جاتی امرا میں نواز شریف اور ان کی قانونی ٹیم کے مابین مشاورت کے بعد فیصلہ کیا گیا کہ نواز شریف سوموار کے بجائے منگل  کو عدالت میں پیش ہوں گے۔

پارٹی ذرائع کا کہنا ہے کہ  نواز شریف کل مری کے لیے روانہ ہوں گے، اسحق ڈار بھی ان کے ہمراہ جائیں گے، مری میں بھی  مسلم لیگ ن کے قائد کی اہم ملاقاتیں متوقع ہیں۔

پارٹی ذرائع کے مطابق نواز شریف منگل کو مری سے اسلام آباد پہنچ کر عدالتوں کے سامنے سرنڈر کریں گے، عدالتوں میں پیشی کے بعد وہ واپس مری جائیں گے، نواز شریف کا مری میں 2 سے 3 روز قیام کا امکان ہے۔

ذرائع نے کہا ہے کہ نواز شریف کے مری جانے کے حوالے سے روٹ اور وقت کو سکیورٹی وجوہات کی بنا پر خفیہ رکھا جا رہا ہے۔

نواز شریف کا چوتھا اُوتار



تحریر:۔ امتیاز عالم

دم تحریر:آج بروز ہفتہ ’’اُمید کی پرواز‘‘ پر جب نواز شریف لاہو رکی تاریخی یادگار پہ تاریخی جلسہ سے مخاطب ہونگے تو کیا تاریخ رقم ہوگی؟ پہلے بھی تین بار تاریخ رقم ہوئی تھی اور چراغ گل کردئیے گئے تھے۔ میاں صاحب کی واپسی کیسے ممکن ہوئی کن شرائط پہ ہوئی؟ باہر کیسے گئے اور واپس کیسے آئے؟ جتنے منہ اتنی باتیں۔ البتہ یہ کہنا بنتا ہے کہ نواز شریف تین بار وزارتِ عظمیٰ سے ناجائز طور پر نکال باہر کیے جانے کے باوجود ہر بار پلٹ آنے میں کامیاب ہوتے رہے۔ پھنس کر نکلنے اور واپس پلٹنے میں انکا کوئی ثانی نہیں۔ وہ گریٹ سروائیور ہیں۔ مقتدرہ کے سیاسی گناہوں کو تاریخ کے کٹہرے میں کھڑا کرنے کے دبنگ اعلانات اور ’’ووٹ کو عزت دو‘‘ کی دہائی دینے کے بعد وہ جس طرح منت زاریاں کرواتے ہوئے گوشہ عافیت سدھارے اور اب اپنا مقدمہ اللہ کے حوالے کرتے ہوئے ’’آئو پھر سے سنبھالو، یہ ملک بچالو‘‘ کے نعروں کی گونج میں پرتپاک استقبال سے باغ باغ ہوئے جارہے ہیں۔ کیا سیاسی کایا پلٹ ہے یا پھر قلا بازی؟ ناانصافی کے ازالے اور ’’ہموار میدان‘‘ کی فراہمی کی فرمائشیں ایک حد تک پوری ہوتی لگتی ہیں۔ عالیشان پروٹوکول سے ایسی واپسی کب کسی نے دیکھی؟ خواہشیں کتنی پوری ہوتی ہیں، اور اصل میں کتنی برآئیں گی یہ تو سیاسی تقدیر کے کاتب ہی جانتے ہیں۔ وِلن عمران خان سلاخوں کے پیچھے اور نواز شریف میدان میں ہیں اور مدمقابل کوئی بھی نہیں۔ پرانا بیانیہ دفن اور نیا بیانیہ ہر سو گونج رہا ہے: ’’ملک سنبھالو، ملک بچالو‘‘ (لیکن جنہوں نے بلاشرکت غیرے سنبھالنا اور بچانا ہے، وہ مملکت خداداد کو اپنے آہنی ہاتھوں میں پہلے ہی سے لے چکے ہیں)۔ لاہور کے جلسے کی زبردست تیاریاں ہیں (جسکی روح رواں دو مریم بیبیاں ہیں) جو اچھا خاصا کامیاب ہوتا دکھائی پڑتاہے۔ میدان میں اسوقت وزیراعظم کا ایک ہی امیدوار ہے، وہ ہے نواز شریف ! وزارت عظمیٰ کے دوسرے ممکنہ اُمیدوار ہونہار بلاول بھٹو کے پرواز سے پہلے ہی پدرانہ شفقت کے ہاتھوں پرکاٹ دئیے گئے ہیں۔ لیکن ایک چبھتا ہوا سوال ہے کہ کیا میاں صاحب کو چوتھی بار وزارت عظمیٰ کی گدی پر بیٹھنے دیا جائے گا یا یہ کہ انکی بھاری بھرکم شخصیت کا بار پھر سے اُٹھانے کی کسی میں کتنی سکت ہے؟

میاں صاحب لندن سے نہیں آرہے، روضہ رسول پہ دعائیں مانگ کر اور خانہ کعبہ کا طواف کر کے آرہے ہیں۔ اللہ اور اس کے رسول سے معافی مانگ کر اور اپنے دشمنوں کی معافی اللہ کے سپرد کرکے آرہے ہیں۔ اس مقدس سرزمین پہ سجدہ کر کے آرہے ہیں جنکے حکمران مامور من اللہ ہیں اور جنکی مشرقِ وسطیٰ کے جنوبی ایشیا خاص طور پر برصغیر کے ساتھ نئے بندھن باندھنے کی نئی سوچ میاں صاحب کی پرانی سوچ سے ہم آہنگ ہے۔ جیو اسٹرٹیجک سلامتی کی جگہ، اب معاشی سلامتی کی جانب مجبوراً مراجعت میاں صاحب کے کردہ و ناکردہ گناہوں کی بخشش کیلئے کافی ہے۔ وہ اس تبدیلی کیلئے موزوں سیاسی عامل ہوسکتے ہیں، لیکن آنکھ کے تارے وہ نہیں، نیویں نیویں، پیچھے پیچھے آداب بجالاتے شہباز شریف کی سویلین اقتدار مقتدرہ کے پائوں پہ رکھنے کی اسپیڈ کا کوئی متبادل نہیں۔ کہیں یہ نہ ہو کہ دکھ بھریں بی فاختہ اور کوے انڈے کھائیں! بعداز انہدام ہائبرڈ رجیم (عمران- 1) اور 16 ماہ کے ہائبرڈ رجیم- 2 (شہباز حکومت ) نے تقریباً تمام سویلین سپیس چھائونی کے حوالے کردی ہوئی ہے۔ اب وفاق اور صوبوں میں کابینائوں سے بالا بالا ایپکس کمیٹیوں کا راج ہے، آئینی نظام حکومت کب کا فارغ ہوا۔ جو بچا کھچا ہے اس پر کاکڑ ماڈل ہی صادق آتا ہے۔ اگر انتخابات آزادانہ اور منصفانہ نہ ہوئے، پھر میدان میں ایک ہی شیر دھاڑے گا تو انتخابی ساکھ کے پلے کیا رہ جائے گا؟ اب تک کے قرائن سے تو یہی ظاہر ہے کہ عوام کے بنیادی حق رائے شماری کو ٹھکانے لگانے کا پورا پورا بندوبست کرلیا گیا ہے۔ عمران خان کی نکمی ہائبرڈ حکومت اور شہباز شریف کی دوسری ہائبرڈ حکومت کی ناکام اسپیڈ کے بعد اور مخالف کیمپوں میں بٹے سیاستدانوں کی چھائونی کی چاپلوسی کے ہاتھوں جمہوریت اور سویلین حکمرانی کے پلے بچاہی کیاہے؟مقتدرہ سے عوامی بغضِ معاویہ اور پرانی قیادتوں سے بیزاری سے عمران خان کو پذیرائی تو ملی جو اس نے اپنی نرگسیت پسندانہ مہم جوئی اور کینہ پروری کی نذر کردی۔ اب جیل میں سائیکل کی سواری بھی میسر نہیں۔ 9 مئی جیسے واقعات تو دنیا بھر میں ہوتے رہتے ہیں جیسے امریکہ کے گزشتہ انتخابات کے بعد کیپٹل ہل پر ٹرمپ کے حامیوں کا حملہ۔ لیکن پاکستانی ٹرمپ کے جانثار بھول گئے کہ پاکستان کی چھائونیوں میں احتجاج اور وہ بھی پنجاب میں کرنے کے کیا سنگین مضمرات ہونگے۔ وہ تو جیسے شالامار گارڈن کی سیر کو نکلے تھے اور بعد میں معافیوں اور آہ وزاریوں کے سوا کوئی نعرہ مستانہ بلند نہ ہوا جیسے کہ ہم جنرل ایوب خان، جنرل یحییٰ خان اور جنرل ضیا الحق کے خلاف عوام کی مزاحمتی جنگ کی صورت دیکھ چکے تھے۔ ناکام و ناپختہ مزاحمت مسلسل جمہوری جدوجہد کے خلاف اشتعال انگیزوں کے کام آتی ہے۔ آج کا سیاسی مزاحمتی سناٹا اسی کا خمیازہ ہے اور سب کی سب پارٹیاں جمہوریت کی صفیں لپیٹ کر آمرانہ قوتوں کے سامنے کورنش بجالائی ہیں۔ اب میدان میں کوئی ٹھہرے بھی تو کیسے کہ شیخ رشید جیسے کاسہ لیسوں کو بھی چلہ کاٹنا پڑتا ہے۔

اس جمہوری سناٹے میں نواز لیگ نے فتح کے راگ ابھی سے الاپنا شروع کردئیے ہیں۔ حالانکہ ملک کو درپیش سیاسی، معاشی، اداراتی اور آئینی بحران کسی ایک سیاستدان، کسی ایک جماعت اور کسی ایک ادارے کے بس کی بات نہیں۔ بندوق کی نالی سے مسئلے حل نہیں ہوتے اور نہ پاکستان کی تاریخ میں ایسا ہوا ہے۔ مصر بننے یا میانمار کی راہ لینے والے ذرا سوچیں پاکستان کی تاریخ میں حالات ہاتھ سے نکلتے دیر نہیں لگتی۔ یہ ہم 1968، 1970، 1986 اور 2018 کے تاریخی یدھوں میں بار بار دیکھ چکے ہیں۔ پاکستان کے ہر مقبول اور منتخب وزیراعظم کے ساتھ کئے جانے والے سلوک سے پاکستان کے تشخص کے پلے کوئی مہذبانہ پہلو بچا ہے یا ملک کی کوئی کل سیدھی ہوئی ہے؟ کل حسین شہید سہروردی، شیخ مجیب الرحمان، ذوالفقار علی بھٹو، بے نظیر بھٹو ، نواز شریف اور آج عمران خان سب کے سب سلامتی کیلئے خطرہ کیوں ٹھہرے؟ اب ایک اور سابقہ وزیراعظم اور قومی ہیرو کو قومی راز فاش کرنے کے جرم میں اور نہ جانے کون کون سے جرائم میں قید و بند میں انصاف کی سولی پہ چڑھائے جانے کا بندوبست کیا جارہا ہے۔ خدارا ہمیں بریک دیں۔ آگے بڑھیں! میاں نواز شریف اسوقت سینئر ترین رہنما ہیں، انہیں سولو پرواز کی بجائے تمام سیاسی جماعتوں کو ایک نئے چارٹر آف ڈیموکریسی ، چارٹر آف انسانی حقوق اور چارٹر آف اکنامکس پہ ایک ساتھ بیٹھنے کی دعوت دینی چاہیے۔ جب تک سیاستدانوں میں رولز آف دی گیم اور جمہوری چلن پہ اتفاق نہیں ہوتا اور ادارے آئین کی پاسداری نہیں کرتے، ہمارا ملک یونہی اندھیروں میں بھٹکتا رہے گا۔ ایسے میں آج ہی کے دن یہ پوچھنا چاہیے کہ چوتھی بار وزیراعظم بننے کے اُمیدوار نواز شریف عوام سے کیا نیا عمرانی معاہدہ کرنے جارہے ہیں؟

بشکریہ جنگ نیوز اردو

بدلے اور انتقام کی تمنا نہیں، عوام کی خوشحالی چاہتاہوں، نواز شریف کاجلاوطنی سے واپسی پرخطاب، مینار پاکستان پرسیاسی طاقت کامظاہرہ



لاہور( ادراک نیوز) پاکستان  مسلم لیگ (ن) کے قائد اور سابق وزیراعظم نوازشریف نے چار سال بعد وطن واپسی پر اپنے خطاب میں کہا ہے کہ ان کے دل میں کسی سے بدلے اور انتقام کی تمنا نہیں بس ایک ہی خواہش ہے کہ اس ملک میں خوشحالی آئے۔

نوازشریف چالہ سالہ خود ساختہ جلاوطنی ختم کرکے  ہفتہ کے روز دبئی سے اسلام آباد انٹرنیشنل ایئرپورٹ پہنچے اور پھر خصوصی طیارے کے ذریعے لاہورپہنچے ۔

مینار پاکستان پر استقبالی جلسے سے نوازشریف نے اپنا خطاب اس شعر سے کیا کہ

کہاں سے چھیڑوں فسانہ، کہاں تمام کروں

وہ میری طرف دیکھیں تو میں سلام کروں

اپنے خطاب میں نوازشریف نے کہا کہ  آپ آج کئی برسوں کے بعد ملاقات ہو رہی ہے لیکن آپ سے میرا پیار کا رشتہ قائم و دائم ہے، اس رشتے میں کوئی فرق نہیں آیا۔

انہو ں نے کہا کہ پیار محبت اور خلوص جو آپ کے چہروں اور آنکھوں میں دیکھ رہا ہوں، مجھے اس پر ناز ہے، یہ میرا اور آپ کا رشتہ کئی دہائیوں سے چل رہا ہے اور نہ آپ نے کبھی دھوکا دیا اور نہ ہی نواز شریف نے دھوکا دیا، جب بھی موقع ملا بڑے خلوص سے دن رات ایک کرکے پاکستان کے عوام کے مسائل حل کیے۔

ان کا کہنا تھا جب بھی موقع ملا قربانی سے دریغ نہیں کیا، جیلوں میں مجھے ڈالا گیا، ملک بدر کیا گیا، جعلی کیسز میرے خلاف، شہباز شریف، مریم نواز اور یہاں بیٹھے سب لوگوں کے خلاف جھوٹے مقدمے بنائے گئے لیکن کسی نے مسلم لیگ کا جھنڈا ہاتھ سے نہیں چھوڑا۔

نواز شریف نے کہا کہ وہ کون ہے جو ہر چند سال بعد نواز شریف کو اپنے پیاروں اور قوم سے جدا کرتا ہے، ہم تو پاکستان کی تعمیر کرنے والوں میں ہیں، ہم نے پاکستان کے لیے ایٹم بم بنایا، ہم نے اللہ کے فضل سے پاکستان کو ایٹمی طاقت بنایا۔

ان کا کہنا تھا کہ ہم نے لوڈ شیڈنگ ختم کی، لوڈشیڈنگ شروع نہیں کی، 2013 میں لوڈ شیڈنگ عروج پر تھی، 18، 18 گھنٹے لوڈ شیڈنگ ہوتی تھی، یہ ایک عذاب تھا اور ہم نے اس کو ختم کیا، بجلی نواز شریف نے مہنگی نہیں کی، نواز شریف نے بجلی بنائی اور سستے داموں عوام تک پہنچایا۔

انہوں نے کہا کہ میں بل ساتھ لے کر آیا ہوں اور بتانا چاہتا ہوں، آپ بھی مجھ سے محبت کرتے ہیں اور میں بھی آپ سے اتنی محبت کرتا ہوں، آج آپ اس محبت کو دیکھ کر میں اپنے سارے دکھ درد بھی بھول گیا، میں یاد بھی نہیں کرنا چاہتا لیکن کچھ دکھ درد ایسے ہوتے ہیں جو انسان بھلا تو نہیں سکتا لیکن ایک طرف رکھ سکتا ہے۔

‘‘کچھ دکھ درد ایسے ہوتے ہیں جوفراموش نہیں کئے جاسکتے’’

سابق وزیراعظم نے کہا کہ کچھ دکھ درد اور زخم ایسے ہوتے ہیں جس سے انسان کچھ وقت کے لیے فراموش کرسکتا ہے لیکن وہ دکھ اور درد بھر نہیں سکتے، یہ زندگی کا کاروبار اور مال چلا جاتا ہے تو پھر آجاتا لیکن جو لوگ اپنے پیارے جدا ہوجاتے وہ دوبارہ کبھی نہیں ملتے اور وہ واپس نہیں آتے۔

‘‘والد،والدہ اور کلثوم نواز کا تذکرہ’’

ان کا کہنا تھا کہ میں آج سوچ رہا تھا کہ میں جب بھی کبھی باہر سے آتا تھا تو میری والدہ اور میری بیوی کلثوم گھر کے دروازے میں استقبال کے لیے کھڑی ہوتی تھیں لیکن آج میں جاؤں گا تو وہ دونوں نہیں ہیں، وہ میری سیاست کے نذر ہوگئے، سیاست میں ان کو کھو دیا، وہ مجھے دوبارہ نہیں ملیں گی، یہ بہت بڑا زخم ہے کو کبھی بھرے گا نہیں۔

انہوں نے کہا کہ میرے والد فوت ہوگئے، ان کو میں قبر میں نہ اتار سکا، میری والدہ کا انتقال ہوا اور میں ان کو قبر میں نہیں اتار سکا، میری اہلیہ کلثوم کا انتقال ہوا تو میں جیل میں تھا۔

نواز شریف نے کہا کہ میں نے جیل کے سپرنٹنڈنٹ کی منتیں سماجتیں کرتا رہا کہ میں عدالت سے آرہا ہوں وہاں مجھے کسی نے بات کرنے نہیں دی لیکن یہ بتایا گیا ہے کہ وہ دوبارہ آئی سی یو میں گئی ہیں لندن میں میرے بیٹے بات کرادو لیکن اس نے نہیں کرائی۔

ان کا کہنا تھا کہ سپرنٹنڈنٹ سے کہا کہ تمہاری میز پر دو فون پڑے ہیں میری بات کرادیں تو اس نے کہا کہ ہمیں اجازت نہیں ہے، میں نے کہا کہ تمہیں اس کے لیے کس سے اجازت درکار ہے تو اس نے کہا کہ ہم نہیں کراسکتے اور وہاں سے اٹھ کر دوبارہ اپنے سیل میں گیا جہاں چارپائی مشکل سے وہاں آتی تھی اور ایک کرسی تھی جہاں میں کبھی بیٹھتا تھا۔

انہوں نے کہا کہ ڈھائی گھنٹوں کے بعد اس کا نمبر ٹو بندہ میرے پاس آتا ہے اور کہتا ہے کہ آپ کے لیے بہت بری خبر ہے، آپ کی بیوی کلثوم اللہ کو پیاری ہوگئیں، بات نہیں کرائی اور ڈھائی گھنٹے کے بعد کہتا ہے کہ بری خبر ہے اور کہتا ہے ہم مریم کی طرف جار ہے ہیں اس کو اطلاع کے لیے لیکن میں نے کہا کہ ہر گز مت جانا اس کے پاس، اس کے پاس یہاں میرے پاس لاؤ یا میں خود اس کے پاس جاؤں گا، ان کا سیل کچھ فاصلے پر تھا لیکن ہمیں ملنے کی اجازت نہیں ہوتی تھی اور ایک ہفتے میں ایک گھنٹے کی ملاقات کی اجازت ہوتی تھی۔

نواز شریف نے کہا کہ میں نے مریم نواز تو بتایا تو وہ بے ہوش ہوگئیں اور رونا شروع کیا، ان کے اوپر اس وقت کیا گزری ہوگی، کیا سوچا ہوگا کہ یہ ہمارا اپنا ملک ہے، میں بھی اسی وطن کی مٹی سے پیدا ہوا ہوں، سچا پاکستانی ہوں۔

‘‘بل کلنٹن کی5 ارب ڈالر کی پیشکش کاحوالہ’’

ان کا کہنا تھا کہ امریکی صدر کلنٹن ہمیں زور دار طریقے سے کہہ رہا تھا کہ آپ ایٹمی دھماکے نہیں کریں، دنیا کے لیڈرز کے روز فون آتے تھے آپ دھماکا نہیں کرنا، بھارت نے کر دیا لیکن آپ نے نہیں کرنا اور پھر کہنے لگے ہم پاکستان کو 5 ارب ڈالر دیں گے۔

انہوں نے کہا کہ عمران خان کے حوالے سے بات کرتے ہوئے کہا کہ میں ان کا نام نہیں لینا چاہتا کیونکہ میں وہ فرق ملحوظ خاطر رکھنا چاہتا ہوں جو میری تربیت مجھے سکھاتی ہے، میں ایسے ماحول میں نہیں پلا کہ گندے معاملات میں اینٹ کا جواب پتھر سے دوں، میں ایسا نہیں کرتا۔

نواز شریف نے کہا کہ کلنٹن نے مجھے 5 ارب کی پیش کش کی، یہ ریکارڈ کی بات ہے، شاید ہماری وزارت خارجہ میں اس کا ریکارڈ موجود ہوگا، نکال کر دیکھیں کہ اس نے مجھے پیش کش کی تھی یا نہیں، 1999 کی بات ہے آج 24 سال ہوگئے ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ پچھلی حکومت کے لوگ ایک،ایک ارب کی بھیک مانگتے تھے لیکن اس وقت 5 ارب ڈالر کی پیش کش ہوئی تھی، مجھے کہہ رہا تھا ہم پاکستان کو دینا چاہتے ہیں، شاید اگر میں خود لینے والا ہوتا تو ایک دو ارب مجھے مل جاتے اور کہتا کہ دھماکے نہ کرو لیکن میں پاکستان کی مٹی میں پیدا ہوا ہوں جو مجھے اس بات کی اجازت نہیں دیتی کہ میں اس کی وہ بات مانوں جو پاکستان کے مفاد کے خلاف ہو۔

انہوں نے کہا کہ دنیا کا طاقت ور ترین صدر مجھے کہہ رہا ہے کہ دھماکے نہ کرنا، ہم نے دھماکے کیے اور بھارت کا جواب ٹھیک ٹھاک طریقے سے دیا، میری جگہ کوئی اور ہوتا تو وہ امریکا کے صدر کے آگے بول سکتا تھا، تو کیا ہمیں اسی بات کی سزا ملتی ہے، کیا اسی بات کے لیے ہماری حکومتیں توڑ دی جاتی ہیں، ہمارے خلاف فیصلے سنائے جاتے ہیں۔

‘‘میرے زمانے میں روٹی4 روپے کی،پٹرول60 روپے لٹر تھا’’

سابق وزیراعظم نے کہا کہ میرے زمانے میں روٹی 4 روپے کی تھی آج کتنے روپے کی ہے، آج یہاں پورے پاکستان سے لوگ آئے ہوئے ہیں، کوئی کوئٹہ، کوئی چاغی، کوئی سندھ، کوئی خیبرپختونخوا، کوئی پنجاب کے دور دراز علاقے سے آیا ہے اور کوئی گلگت بلتستان سے آیا ہے، کوئی آزاد کشمیر سے آیا ہے، آزاد کشمیر کے جھنڈے بھی نظر آر ہےہیں اور میں آپ سب کو سلام پیش کرتا ہوں۔

نواز شریف نے کارکنوں سے پوچھا کہ آپ کے علاقے میں روٹی کتنے روپے کی ملتی ہے کیا 20 روپے کی ملتی ہے، میرے زمانے میں 4 روپے کی تھی، اس لیے مجھے نکالا، اس لیے میری چھٹی کرائی، اس لیے کہ نواز شریف نے اپنے بیٹے سے تنخواہ نہیں لی لہٰذا فارغ، وزارت عظمیٰ سے چھٹی، کیا آپ اس فیصلے سے اتفاق کرتے ہوئے۔

ان کا کہنا تھا کہ ملک آج بربادیوں کی حدوں کو چھو رہا ہے لیکن یہ ملک واپس آئے گا اور ہم واپس لائیں گے۔

انہوں نے عوام سے پوچھا کہ پیٹرول کتنے کا ملتا ہے اور کہا کہ میرے دور میں پیٹرول 60 روپے کا ملتا تھا تو بتاؤ پھر اسی لیے نواز شریف کو نکالا، ڈالر میرے زمانے میں 104 روپے تھا اور آج 250 سے بھی اوپر ہے، اسی لیے پاکستان کے اندر مہنگائی کا طوفان ہے۔

قائد مسلم لیگ (ن) نے کہا کہ نواز شریف کو اس لیے نکالا تھا کہ ڈالر کو ہلنے نہیں دیا، روپے ڈالر کے سامنے کھڑا تھا لیکن پتا نہیں ہم اتنے ناشکرے کیوں ہیں، ایک ملک ترقی کی راہ پر چل رہا تھا۔

ان کا کہنا تھا کہ 1990 میں پہلی دفعہ وزیراعظم بنا تھا اور اس وقت جو منصوبے شروع کیے تھے وہ رجحان برقرار رہتا تو آج اتنے سارے لوگ بے روزگار نہیں ہوتے، غریب اپنے بچوں کا پیٹ بھی پال سکتا تھا لیکن آج تو سوچنا پڑتا ہے کہ بجلی کا بل دیا جائے یا بچوں کا پیٹ پالا جائے۔

‘‘تباہی کاسلسلہ شہبازشریف کے زمانے کانہیں’’

انہوں نے کہا کہ یہ سلسلہ شہباز شریف کے زمانے کا نہیں ہے، یہ اس سے پہلے شروع ہوگیا، ڈالر قابو میں نہیں آرہا تھا، بجلی کے بل مہنگے ہو رہے تھے، روٹی، گھی، پیٹرول مہنگا ہو رہا تھا اور پھر پاکستان کے اندر ڈالر اور چینی مہنگی ہوتی جارہی تھی، میں 50 روپے کلو چینی چھوڑ کر گیا تھا اور کہاں 50 اور کہاں ڈھائی سو کلو، نواز شریف کو اسی لیے نکالا تھا، پاکستان ایشین ٹائیگر بننے جا رہا تھا۔

ان کا کہنا تھا کہ ہم جی20 میں جا رہے تھے آج کئی ملک جی20 میں شامل ہو رہے ہیں، ہمیں ان کا مقابلہ کرنا ہے بلکہ ان سے بھی آگے جانا ہے۔

‘‘6 سال بعد خطاب کررہاہوں’’

نواز شریف نے کہا کہ 6 سال بعد اپنے جلسے سے خطاب کر رہا ہوں، میں یہ بتانا چاہتا ہوں کہ بجلی کا بل تلاش کرکے لایا ہوں، یہ نصراللہ خان کا بل ہے، جب مئی 2016 میں نواز شریف وزیراعظم تھا، دھرنے ہو رہے تھے، معلوم ہے نا دھرنے کون کروا رہا تھا، ہم نے دھرنوں کے باوجودآپ کے گھروں میں بجلی پہنچائی تھی، دھرنوں کے باوجود موٹرویز بنائی ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ گلگت سے اسکردو موٹروے نواز شریف نے بنائی تھی، چترال کی لواری ٹنل، گوادر سے کوئٹہ، پشاور سے اسلام آباد موٹر وے، اسلام آباد سے لاہور موٹروے، لاہور سے ملتان، ملتان سے رحیم یار خان اور وہاں سکھر موٹروے بھی ہم نے بنائی تھی، حیدر آباد سے کراچی موٹروے بھی ہم نے بنائی۔

انہوں نے کہا کہ نصراللہ خان کا مئی 2016 میں بجلی کا بل ایک ہزار 317 روپے اور پھر اسی بندے کا بل اگست 2022 میں 15 ہزار 687 روپے ہے، تو بجلی مہنگی شہباز شریف نے نہیں کی بلکہ اس زمانے سے مہنگی ہوئی جب آپ نے نواز شریف کو وزارت عظمیٰ سے نکالا تھا۔

سابق وزیراعظم نے ایک اور بل کا ذکر کیا اور کہا کہ سعید اختر ایک غریب آدمی ہے اور ان کا بل مارچ 2017 میں جب نواز شریف وزیراعظم تھا تو 760 روپے تھا جبکہ اگست 2022 میں 8 ہزار 220 بل آتا ہے تو کیا یہ شہباز شریف نے کیا تھا، میں شہباز شریف کی صفائی بیان نہیں کر رہا بلکہ حقائق بیان کر رہا ہوں۔

‘‘زخم اتنے لگے ہیں کہ بھرتے بھرتے وقت لگے گا’’

ان کا کہنا تھا کہ زخم اتنے لگے ہیں کہ بھرتے بھرتے وقت لگے گا لیکن میرے دل کے اندر کوئی انتقام کی تمنا نہیں ہے، نواز شریف کے دل میں بدلے کی کوئی تمنا نہیں، بس ایک ہی تمنا ہے کہ میری قوم کے لوگ خوش حال ہوجائیں، ان کے گھروں میں خوشیاں اور خوش حالی آئے، ان کے گھروں میں روشنی کے چراغ جلیں، روزگار ملے، باعزت پاکستانی بننے کا موقع ملے، غربت، بے روزگاری اور بیماری نہ ہو اور جہالت نہ ہو یہی نواز شریف چاہتا ہے۔

‘‘اللہ تعالیٰ سے دعا ہے میرے اندر انتقام کاجذبہ نہ لانا’’

نواز شریف نے کہا کہ میری اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ میرے دل کے اندر کبھی بھی انتقام کا کوئی جذبہ نہ لے کر آنا، میں اس قوم کی خدمت کرنا چاہتا ہوں، میں نے پہلے بھی خدمت کی ہے، اللہ مسلم لیگ کو اور بھی توفیق دے کہ خدمت کا سلسلہ جاری رکھے۔

‘‘غالب کاشعر’’

غالب کا شعر پڑھا کہ غالب ہمیں نہ چھیڑ کہ پھر جوش اشک سے، بیٹھے ہیں ہم تہیہ طوفاں کیے ہوئے، ہمیں نہ چھیڑوں، ہمارے زخموں کو نہ چھیڑوں ورنہ ہمارے اتنے آنسو آئیں گے کہ طوفان آجائے گا۔

انہوں نے کہا کہ آنسو کیوں نہیں آئیں گے، مریم نواز یہاں سامنے بیٹھی ہیں، ان سے پوچھیں کہ وہ اذیت کا لمحہ کوئی کیسے بھلا سکتا ہے کہ جب مریم کو قیدی باپ کے سامنے گرفتار کرکے لے جایا جا رہا تھا، نیب والے میرے آنکھوں کے سامنے قید کرنا چاہتے تھے۔

ان کا کہنا تھا کہ مریم نواز میری پاس آئی اور کہا کہ یہ مجھے گرفتار کرنا چاہتے ہیں، کیا کروں تو میں نے کہا کہ ایک قیدی کیا کرسکتا ہے، قید کرنا چاہتے ہیں تو کرلیں، ان کی چھوٹی بیٹی موجود تھی اور اپنی ماں کو گرفتار ہوتے ہوئے دیکھ رہی تھی۔

انہوں نے کہا کہ میں بھی اس مٹی کا بیٹا ہوں اور مریم بھی اس مٹی کی بیٹی ہے، پھر تنا ظلم، شہباز شریف کو بھی جیل میں بھی بند کردیا، بیٹوں کو بھی بند کیا، رانا ثنااللہ کو بند نہیں کیا بلکہ سزائے موت دینے کے چکر میں تھے، حنیف عباسی کو بند نہیں کیا بلکہ سزائے موت دینے کے چکر میں تھے، اور لوگوں کو خواجہ سعد رفیق کو دو سال جیل میں بند رکھا۔

ان کا کہنا تھا کہ مجھے 1990 سے لے کر آج تک 33 سال میں 15 سال یا تو ملک سے باہر یا جیل میں یا مقدمے بھگتا آرہا ہوں، اگر یہ 23 سال میں نے پاکستان کو دیا ہوتا تو یہ ملک جنت بنتا، ہم ملک پھر جنت بنائیں گے۔

سابق وزیراعظم نے کہا کہ میں پوچھنا چاہتا ہوں کہ ہمارے ملک میں ایک دور گزرا ہے، اس دور کا کوئی ایک کارنامہ یا کوئی ایک منصوبہ بتاؤ جو انہوں نے بنایا تھا۔

‘‘ہم سے پوچھتے ہیں ہمارا بیانیہ کیاہے’’

نواز شریف نے کہا کہ ہم سے پوچھتے ہیں کہ ہمارا بیانیہ کیا ہے، ہمارا بیانیہ پوچھنا ہے تو پھر اورنج لائن سے پوچھو جو شہباز شریف نے بنائی، کراچی کی گرین لائن سے پوچھو، میٹرو بس سے پوچھو، ایک شہر نہیں کئی شہروں، پشاور، اسلام آباد موٹروے، چاغی کے ایٹمی دھماکوں سے پوچھو، روٹی کی قیمت، ڈالر کے ریٹ، غریب کے بجلی کے بلوں سے پوچھو۔

‘‘ہم وہ نہیں جو کسی کی پگڑی اچھالیں’’

انہوں نے کہا کہ ہمارا بیانیہ پوچھنا ہے تو پھر اخلاقیات سے پوچھو، آپ کو پتا ہے کہ ہماری  اخلاقیات اور ان کی اخلاقیات میں کتنا فرق تھا، ہم وہ نہیں ہیں جو کسی کی پگڑی اچھالیں، یہ پگرٹی اچھالنا ان کا کام تھا ہمارا نہیں ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ میں سمجھتا ہوں کہ پاکستان کے عوام کو درپیش مسائل ہیں اس کے تحت کوتاہی کی کوئی گنجائش نہیں ہے، پاکستان کے عوام کو درپیش مسائل ہیں ان کے اسباب پر غور کریں اور آئین کی روح کے مطابق متحد ہو کر مستقبل کا منصوبہ بنائیں۔

‘‘ریاستی اداروں کو جماعتوں کومل کرکام کرناہوگا’’

نواز شریف نے کہا کہ ہمارے آئین پر عمل درآمد کرنے والے ریاستی ادارے، جماعتیں اور ریاست کے ستونوں کو مل کر کام کرنا ہوگا۔

ان کا کہنا تھا کہ دنیا میں مقام حاصل کرنا چاہتے ہو تو سب کو مل کر کام کرنا ہوگا، اس کا واحد حہل یہی ہے، میں پچھلے 40 سال کا نچوڑ بتا رہا ہوں، اس کے بغیر یہ ملک آگے نہیں بڑھے گا۔

‘‘نئے سفر کی ضرورت ہے’’

انہوں نے کہا کہ آئین پر عمل درآمد کرنے کے لیے سب کو اکٹھا ہونا پڑے گا، وہ بنیادی مرض دور کرنا پڑے گا، جس کی وجہ سے ملک بار بار حادثے کا شکار ہوتا ہے، ہمیں ایک نئے سفر کا آغاز کرنے کی ضرورت ہے۔

سابق وزیراعظم نے کہا کہ آپ دور دور سے آئے ہیں، میرے ساتھ طے کریں کہ ہم ایک نئے سفر کا آغاز کریں گے، پوے جوش و خروش سے کریں گے، 4 سال کے بعد میرا جوش و خروش ٹھنڈا نہیں پڑا، میرا جذبہ ماند نہیں پڑا، میرا جذبہ آج بھی اتنا جوان ہے جتنا آپ کا ہے۔

انہوں نے کہا کہ ہمیں فیصلہ کرنا ہوگا، کہ کس طرح ہم نے کھویا ہوا مقام حاصل کرنا ہے، ہمیں ڈبل اسپیڈ کے ساتھ دوڑنا پڑے گا، کسی طرح سے ہمیں ہاتھوں میں پکڑا ہوا کشکول توڑنا ہوگا، ہمیشہ کے لیے توڑنا ہوگا، اپنے پاؤں پر کھڑا ہونا ہوگا، قومی غیرت اور قومی وقار کو بلند کرنا ہوگا، پاکستان کے اندر بے روزگار، غربت کا خاتمہ کرنا ہوگا۔

‘‘ہمسایوں کے ساتھ لڑائی سے ترقی نہیں کرسکتے’’

ان کا کہنا تھا کہ ہمیں ایک باوقار اور فعال خارجہ پالیسی بنانی ہوگی، اپنے ہمسائیوں اور دنیا کے ساتھ اپنے تعلقات استوار کرنے پڑیں گے، ہم اپنے ہمسائیوں کے ساتھ لڑائی کرکے دنیا کے ساتھ اچھا تعلق سے ترقی نہیں کرسکتے، ہمیں سب کے ساتھ اچھے تعلقات قائم کرنے ہوں گے۔

‘‘مسئلہ کشمیر پرتدبیر کے ساتھ آگے بڑھناہوگا’’

نواز شریف نے کہا کہ کشمیرکے حل کے لیے باوقار تدبیر کے ساتھ آگے بڑھنا ہوگا، اگر مشرقی پاکستان مغربی پاکستان سے الگ نہ ہوتا تو آج مشرقی اور مغربی پاکستان کے درمیان معاشی راہداری بن گئی ہوتی، جس کو بھارت بھی راہ دیتا اور پاکستان مل کر ترقی کرتا، لیکن ہم نے کہا کہ یہ کون لوگ ہیں مشرقی پاکستان کے رہنے والے، یہ تو پٹ سن اگاتے ہیں، یہ تو بوجھ ہیں اور اس بوجھ کو اتار کر زمین پر دے مارا، دیکھ لیں آج وہی مشرقی پاکستان ترقی میں ہم سے آگے نکل گیا ہے اور ہم پیچھے رہ گئے ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ یہ ہمیں منظور نہیں ہے، یہ مسلم لیگ (ن)، نواز شریف، نواز شریف کے حامیوں اور ووٹرز اور یہ پاکستانی قوم کو منظور نہیں ہے، ہمیں اس صورت حال سے باہر نکلنا ہے اور کس طرح اپنے معاملات کو ٹھیک طرح چلانا ہے، میرا دل زخموں سے چور ضرور ہے ، دل درد سے بھرا ضرور ہے لیکن آپ کے ساتھ مل کر دعا کر رہا ہوں کہ اے میرے رب میرے دل میں رتی برابر بھی بدلے یا انتقام کی خواہش نہیں ہے بس تو اس قوم کی تقدیر بدل دے۔

‘‘میری آرزو ہے اک بدلاہوا پاکستان دیکھوں’’

سابق وزیراعظم نے کارکنوں سے کہا کہ میرے ساتھ مل کر دعا کرنی ہے اور میری عمر کے اس حصے میں میری آرزو ہے کہ میں ایک بدلا ہوا پاکستان دیکھوں، میں آج یہاں آپ کو جگانے آیا ہوں، آگے بڑھو اور پاکستان کو سنبھالوں اور آئندہ کسی کو اجازت نہیں دینا کہ آپ کے ملک کے ساتھ کھلواڑ اور یہ سلوک کرسکے۔

‘‘سب مل کرفلسطین کی مددکریں’’

انہوں نے کہا کہ میں نے بڑے ضبط اور صبر سے کام لیا ہے، کوئی ایسی بات نہیں کی جو کہ میں سمجھتا ہوں کہ مجھے نہیں کرنی چاہیے ، دعا کریں کہ اللہ تعالیٰ سے فلسطین کی مدد کریں، ہم سب مل کر فلسطین کی مدد کریں، ان کو ظلم سے بچائیں، ان پر جو ظلم کا سلسلہ جاری ہے وہ انسانیت کے خلاف ظلم ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ ہم اس ظلم کی  ہر طرح سے مذمت کرتے ہیں، ہر طرح سے رد کرتے ہیں، دنیا سے اپیل کرتے ہیں کہ انصاف سے کام لو اور فلسطین کا باعزت حل نکالو اور ان کا حق ان کو دیا جائے، وہ بھی چین اور سکون سے زندگی گزار سکیں، ان کو حق سے محروم کرنا اور اس کا حق کسی اور کو دینا ہم کبھی قبول نہیں کریں گے، پاکستان اور پاکستان کے عوام کبھی اس کو قبول نہیں کریں گے۔

‘‘گالی کاجواب گالی سے نہیں دینا’’

نواز شریف نے کہا کہ میں نے سوچا کہ گالی کا جواب گالی سے نہیں دینا، آپ سے بھی کہوں گا کہ آپ بھی گالی کا جواب گالی سے نہیں دینا، اپنے نوجوانوں کو یہ پیغام دینا چاہتا ہوں کہ آپ ملت کے مقدر کا ستارا ہیں، اپنی زندگیاں منفی کاموں میں گزارنے کے لیے آپ نہیں ہیں، راستہ  کٹھن ضرور ہے لیکن ناممکن نہیں ہے۔

‘‘مہنگائی کم،بے روزگاری ختم کریں گے’’

ان کا کہنا تھا کہ پاکستان کی دوبارہ تعمیر کریں گے، مل کر بجلی کا ریٹ کم کریں گے، ڈالر سستا کریں گے، مہنگائی کم کریں گے، بے روزگاری کا خاتمہ کریں گے، موٹر ویز تعمیر کریں گے تو پھر ستے خیر ہے۔

انہوں نے کہا کہ مسلم لیگ (ن) کا ایجنڈا یہی ہوگا کہ ہم نے یہ سارے کام کرنے ہیں، اپنے اخراجات میں کمی کرنی ہے، اپنے قومی ملکیت کے اداروں کا انتظام بہتر طریقے سے کرنا ہے، برآمدات بڑھانا ہے، زراعت میں انقلابی اصلاحات کرنی ہیں، پاکستان کو آئی ٹی پاور بنانا ہے، ان شااللہ۔

قائد مسلم لیگ (ن) نے کہا کہ انصاف کے نظام میں اصلاحات لے کر آنی ہیں، خواتین اور نوجوانوں کے لیے خصوصی اقدامات کریں گے، شہباز شریف یہ گفتگو سن رہے ہیں، ان کو بھی کہہ رہا ہوں اور پارٹی کے سارے رہنماؤں کو عوام کو پیغام دے رہا ہوں کہ شہباز شریف نے جو وعدہ کیا وہ کرکے دکھایا ہے۔

‘‘جلسہ میں نوازشریف نے دعا کرائی’’

نواز شریف نے دعا کرتے ہوئے کہا کہ اللہ ہمارے حال پر رحم فرما، ملک اور قوم کو مصیبتوں سے نجات عطا فرما، ہمارے گھروں میں خوش حالی کے اسباب پیدا کر، ہمارے بچوں کو باعزت روزگار عطا فرما، ہمیں مہنگائی سے نجات عطا فرما، ہمارے بچوں کو پڑھنے لکھنے توفیق عطا فرما، ہمارے بچوں کو پڑھ لکھ کر اچھے اور نیک شہری بننے کی توفیق عطا فرما۔

انہوں نے کہا کہ اس ملک میں اتنی صلاحیت ہے کہ باہر کے لوگ یہاں آکر کام کریں تو ببھی بے روزگاری نہیں ہوگی، روزگار اتنی پیدا کرسکتے ہیں کہ یہاں کسی چیز کی کمی نہیں ہے۔

‘‘تسبیح کاخصوصی تذکرہ’’

سابق وزیراعظم نے کہا کہ میرے پاس بھی تسبیح ہے، لیکن میں تسبیح اس وقت پھیرتا ہوں، جب کوئی نہیں دیکھ رہا ہوں، بغل میں چھری منہ میں رام رام مجھے نہیں آتا اور آپ بھی یہی کیا کرو۔

آج پورا پاکستان لاہور میں نواز شریف کا استقبال کرے گا: مریم اورنگزیب



پاکستان مسلم لیگ ن (پی ایم ایل این) کی ترجمان مریم اورنگزیب نے کہا ہے کہ دو دن سے پورا پاکستان جلسہ گاہ بنا ہوا ہے، مینار پاکستان پر نواز شریف کے استقبال کے لیے لوگوں کا جم غفیر ہو گا۔

لاہور میں میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے مریم اورنگزیب نے کہا کہ پورا پاکستان مینار پاکستان پر نوازشریف کا استقبال کرے گا، خواتین اور نوجوانوں کی بڑی تعداد مینار پاکستان کی جانب گامزن ہے۔

انہوں نے کہا کہ نواز شریف کا آنا پاکستان کے لیے نئے عروج اور خوشحالی کی نوید ہے، اس وقت ملک مشکلات میں ہے، نواز شریف بھاری دل کے ساتھ وطن واپس آ رہے ہیں۔

مریم اورنگزیب نے کہا کہ نوازشریف کے دور میں ملک میں امن تھا، روزگار تھا اور خوشحالی تھی۔ نواز شریف نے کہا ہے کہ میں امید کی کرن ساتھ لے کر آ رہا ہوں۔

لیگی ترجمان نے کہا کہ اب معاشرے میں نفرت، ناامیدی اور انتشار ختم ہو گا۔

آجا تینوں اکھیاں اُڈیکدیاں! مریم نواز کا نواز شریف کو خوش آمدید



پاکستان مسلم لیگ ن کی چیف آرگنائزر مریم نواز نے اپنے قائد اور والد نوازشریف کو پاکستان واپسی پر خوش آمدید کہتے ہوئے کہا ہے کہ ’آ جا تینوں اکھیاں اُڈیکدیاں، خوش آمدید نواز شریف!

سماجی رابطے کی ویب سائیٹ ایکس پر اپنی ایک ٹوئٹ میں مریم نواز نے لکھا کہ شاید میری زندگی کا آج سب سے بڑا دن ہے، میں اللہ پاک کا شکر ادا کرتی ہوں۔

ان کا کہنا تھا کہ 24 سال کے دوران نواز شریف نے جتنی تکالیف برداشت کیں ان کی کوئی مثال نہیں ملتی، کچھ زخم تو ایسے ہیں جو کبھی بھر نہیں پائیں گے۔

مریم نواز نے کہا کہ جتنے عروج نوازشریف نے دیکھے وہ بھی شاید ہی کسی کے حصے میں آئے ہوں، آج نوازشریف کا ایک اور عروج پورا پاکستان دیکھنے جا رہا ہے۔

معاشی پلان ماضی والا ہی ہو گا،ملک ٹھیک کرنے میں10 سے15 سال لگیں گے، اسحاق ڈار



سابق وفاقی وزیر خزانہ و سینیئر رہنما پاکستان مسلم لیگ ن اسحاق ڈار نے کہا ہے کہ عوام کی جانب سے موقع دیا گیا تو ایک بار پھر پاکستان کو معاشی طاقت بنائیں گے۔

اپنے ایک بیان میں اسحاق ڈار نے پاناما کو ڈرامہ کہتے ہوئے کہا کہ صرف ایک شخص کو ملک پر مسلط کرنے کے لیے یہ سب کیا گیا تھا، صرف ایک شخص کی خاطر پاکستان کو 24 ویں معیشت سے 47ویں معیشت پر پہنچا دیا گیا۔

سابق وزیر خزانہ نے کہا کہ معیشت کو ٹھیک کرنے میں وقت تو لگتا ہے، ہمارے پاس جادو کی چھڑی تو نہیں کہ جو گھمائیں اور سب کچھ ٹھیک ہو جائے۔

اسحاق ڈار نے کہا کہ ہمیں اگر دوبارہ موقع ملتا ہے تو معاشی پلان وہی ہو گا جو ماضی میں تھا، 16 ماہ کے دوران تو صرف پاکستان کو ڈیفالٹ سے بچایا۔

انہوں نے کہا کہ نوازشریف کے خلاف بنائے گئے تمام مقدمات جھوٹے تھے، وہ ضرور سرخرو ہوں گے۔ ایک نجی ٹی وی سے بات کرتے ہوئے اسحاق ڈار کا کہنا تھا کہ ملک دومنٹ میں ٹھیک نہیں ہوسکتا، 10 سے 15 سال لگیں گے۔

نواز شریف کے استقبال کیلئے آنے والے لیگی کارکن کا ٹرین میں انتقال ہوگیا



مسلم لیگ ن کے قائد اورسابق وزیر اعظم نواز شریف کے استقبال کے لئے ٹرین قافلے میں شریک ایک لیگی کارکن اچانک انتقال کر گیا۔

میڈیا رپورٹس کے مطابق ساٹھ سالہ لیگی کارکن کی شناخت کرامت کے نام سے ہوئی ہے، مسلم لیگ (ن) کے رہنما محمد زبیر نے بتایا کہ کارکن کی محراب پور جنکشن کے قریب اچانک طبیعت خراب ہوئی جس سے وہ انتقال کر گیا۔

ذرائع کا کہنا ہے کہ لیگی کارکن کرامت شہباز گوٹھ سپر ہائی وے کراچی کا رہنے والا تھا جس کی لاش ایمبولینس کے ذریعے کراچی بھجوا دی گئی ہے۔

آج نواز شریف کا دن ہے!



تحریر:۔ عطاالحق قاسمی

آج محمد نواز شریف ایک با رپھر ہمارے درمیان ہیں’’تھا جس کا انتظار وہ شہکارآ گیا‘‘۔ انہیں سیاست میں آئے چار دہائیاں ہو چکی ہیں ان چار دہائیوں میں بہت سی اونچ نیچ دیکھنا پڑی اور ہر کسی کو لگا کہ ان کی سیاست ختم لیکن نواز شریف موت کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر اپنی خاص مسکراہٹ سے سب کو شکست دیکر ہر بار واپس آ جاتے ہیں ،یہ ان کی خوش قسمتی ہے ۔میرے اور بھی بہت سے دوست میاں صاحب پر لکھ چکے ہیں۔ کوئی انہیں قسمت کا دھنی قرار دیتا ہے تو کوئی انہیں مقدر کا سکندر کہتا ہے،’ کوئی کس شیر کی آمد ہے کہ رن کانپ رہا ہے‘ تو کوئی کہتا ہے’ ایہوجے پت جمن ماواں کدرے کدرے کوئی (اس طرح کے بیٹے مائیں کبھی کبھی پیدا کرتی ہیں )کسی بھی شخص کیلئے یہ انعام قابل رشک ہے۔ 1993ءمیں جب نواز شریف پہلی بار وزیراعظم بنےاور ایک اسٹریٹجی سے صدر غلام اسحاق خان اور وزیر اعظم نواز شریف کی حکومت ختم ہو گئی تو دوسری بار قسمت نےپھر موقع دیا ،وزیر اعظم بنے لیکن اس بار جنرل پرویز مشرف کی وجہ سے گھر بھیج دیئے گئے اور ان پر جہاز اغوا کرنے کا مقدمہ لگایا گیا نہ صرف حکومت گئی جلاوطنی بھی برداشت کرنی پڑی اور لگا اب اس بار دنیا کی کوئی طاقت انہیں واپس سیاست میں نہیں لا سکتی لیکن 10ستمبر 2007ء کو جلاوطنی ختم ہوئی اور وہ پاکستان واپس لوٹے یہ الگ بات ہے کہ انہیں اسی وقت واپس جدہ بھیج دیا گیا۔

کہانی میں ایک بار پھر ٹوئسٹ (TWIST)آیا ، قسمت ان پر ایک بار پھر مہربان ہوئی اور 2012ء میں وہ تیسری بار پاکستان کے وزیر اعظم بنے یہ اعزاز بھی نواز شریف ہی کو جاتا ہے کہ وہ پاکستان کے لونگسٹ سرونگ پرائم منسٹر LONGEST SERVING PRIME MINISTER رہے۔ اپنے تین ادوار میں برسوں سے زیادہ خدمات انجام دیں مگر نواز شریف کا امتحا ن یہیں ختم نہیں ہوا 2017میں جو ہوا وہ کسی سے ڈھکا چھپا نہیں اور نہ ہی یہ زیادہ پرانی بات ہے ۔ پانامہ کا بہانہ بنا کر انہیں ایک بار پھر رخصت کیا گیا اور اسکے ساتھ ساتھ انہوں نے جیل بھی کاٹی وہ بھی اپنی بیٹی کے ساتھ جو کسی بھی باپ کیلئے آسان نہیں ۔نواز شریف نے ان تمام حالات کا جواں مردی سے مقابلہ کیا خصوصاً جب وہ بیگم کلثوم نوازکو بستر مرگ پرچھوڑ کر اپنی بیٹی مریم کے ساتھ وطن واپس آئے اور جیل گئے، اس پر ہر درد دل رکھنے والا انسان دل گرفتہ ہوا ،انہیں صرف جیل ہی کی سختیاں برداشت نہیں کرنی پڑیں بلکہ عمران خان کی صورت میں ایک کم ظرف دشمن کا بھی مقابلہ کرنا پڑا!جیل میں تمام تکالیف برداشت کرتے کرتے وہ بیمار سے بیمارتر ہوتے چلے گئے مگر ملک سے باہر جانے کا نام نہیں لیا ۔حتیٰ کہ ان کے دشمنوں کو یہ ڈر لگنے لگا کہ اگر ان کو جیل میں کچھ ہو گیا تو قوم انہیں معاف نہیں کرے گی چنانچہ انہیں ملک سے باہر جانے پر رضامند کیا گیا لیکن پھر وہی جھوٹا پروپیگنڈہ کیا گیا کہ ڈیل کے نتیجے میں باہر گئے ہیں۔حالانکہ تمام رپورٹس مرتب کرنے والے ڈاکٹر یاسمین راشد اور ڈاکٹر فیصل سلطان تھے اور انہی کے مشورے کے بعد باہر بھیجا گیا تھا، اس کے بعد عمران خان کو لگا کہ انہوں نے اپنے دشمنوں کو ٹھکانے لگا دیا اور وہ اس ملک کے سیاہ و سفید کے مالک بن گئے لہٰذا اب وہ من مانی کرسکیں گے ۔خان صاحب کو ماحول بھی اس قسم کا مہیا کیا گیا یعنی’ گلیاں ہو جان سنجیاں تے وچ مرزا یار پھرے‘ لیکن اللہ کی لاٹھی بے آواز ہوتی ہے دیکھتے ہی دیکھتے 2022ءمیں خان صاحب کی حکومت کو بھی گھر جانا پڑا اور پھر چودہ جماعتوں کی مخلوط حکومت قائم ہوئی ، اگرچہ یہ سارا دورانیہ بہت مشکل تھا اور ایسے میں جب لوگ کہہ رہے تھے کہ مسلم لیگ نون اب آخری سانسیں لے رہی ہے تو میاں صاحب ایک بار پھر دبئی سےپاکستان آ گئے اور عوام نے ان سےبہت سی امیدیں بھی وابستہ کرلی ہیں، اللہ کرے مقدر کا یہ سکندر عوام کی تقدیر ہی بدل کر رکھ دے۔موجودہ نگران وفاقی اور صوبائی حکومتوں نے کہا ہے کہ نواز شریف کے ساتھ قانون کے مطابق سلوک کیا جائے گا اور ہونا بھی یہی چاہئے کیونکہ کوئی بھی شخص یا ادارہ قانون سے بالا تر نہیں ۔یہ سب اپنی جگہ مگر مسلم لیگی یہ بات نہ بھولیں کہ ان کا پالا جس شخص سے پڑا ہے وہ بھی قسمت کا دھنی ہے اب دیکھنا ہے کہ جب الیکشن ہوں گے تو کون واقعی مقدر کاسکندر کہلائے گا۔

مسلم لیگ ان دنوں بہت فعال ہو گئی ہے کاش وہ میاںصاحب کی آمد کے اعلان سے پہلےہی عوام سے اس طرح رابطے میں ہوتی جیسے آج نظر آتی ہے چلیں دیر آید درست آید مگر یہ بات اسے ذہن نشین کر لینا چاہئے کہ پی ٹی آئی کے چاہنے والے خاصی بڑی تعداد میں ہیں اور سوشل میڈیا پر بہت ووکل بھی ہیں لہٰذا اپنے حریف کو ایزی نہیں لینا چاہئے چنانچہ اگر الیکشن ہوتے ہیں اور نواز شریف کو عوام اپنا وزیراعظم منتخب کرتے ہیں تو جہاں پارٹی کو ازسر نو منظم کیا جانا چاہئے اور خامیاں دور کرنی چاہئیں وہاں ایک بات ذہن نشین کر لی جائے تو بہتر ہے کہ خدمات کا وہ سلسلہ پہلے سے بھی کہیں زیادہ زور شور سے شروع ہونا چاہئے جو نواز شریف کا خاصا رہا ہے ملک معاشی بحران کا شکار ہے دوست ممالک سے نوازشریف نے پاکستان کے تعلقات مضبوط بنانے تھے، وہ عمران کی حکومت میں کمزور ہوتے چلے گئے اب یہ تعلقات مضبوط سے مضبوط تر بنائے جانے چاہئیں۔ ن واز شریف کو بار بار حکومت سے بے دخل کیا جاتا ہے، ان پر سراسر بیہودہ، جھوٹ اور لغو مقدمات بنائے جاتے ہیں اور اب عوام کی نظرمیں ان الزامات کی حقیقت اچھی طرح واضح ہو گئی ہے کہ انکی حریف سیاسی جماعتیں بھی یہ کہنے پر مجبور ہو گئی ہیں کہ نواز شریف ہر دور میں ناانصافی کا شکار ہوئے ،بہرحال اب ’’ڈاکٹر ‘‘نواز شریف واپس پاکستان آگئے ہیں ’’مریض‘‘ کی ساری ’’رپورٹیں‘‘ انکے سامنے ہیں اللّٰہ کرے ان کے دست شفا سے پاکستان دوبارہ تندرست و توانا ہو جائے!

بشکریہ جنگ نیوز اردو

نوازشریف کے خصوصی طیارے کو پاکستان میں لینڈنگ کیلئے این او سی جاری



پاکستان مسلم لیگ ن کے قائد و سابق وزیراعظم نوازشریف کل 21 اکتوبر کو وطن واپس پہنچ رہے ہیں، سول ایوی ایشن اتھارٹی نے نواز شریف کے طیارے کو پاکستان آنے کے لیے این او سی جاری کر دیا ہے۔

میڈیا رپورٹس کے مطابق قائد ن لیگ نواز شریف خلیجی ایئرلائن کی پرواز بوئنگ سیون تھری ایٹ کے ذریعے پاکستان میں لینڈ کریں گے۔

نوازشریف کے خصوصی طیارے نے سول ایوی ایشن اتھارٹی (سی اے اے) سے اجازت طلب کی تھی کہ 21 اکتوبر کو دن ساڑھے 12 بجے پاکستان میں لینڈنگ کی اجازت دی جائے جس پر خلیجی ایئرلائن کی خصوصی پرواز نمبر 4525 کو اسلام آباد ایئرپورٹ پر لینڈنگ کی اجازت مل گئی ہے۔

میڈیا رپورٹس کے مطابق نواز شریف پہلے اسلام آباد میں لینڈ کریں گے، اس کے بعد خصوسی طیارہ دن اڑھائی بجے اسلام آباد سے لاہور کی جانب روانہ ہو گا۔ اور 3 بجکر 20 منٹ پر لاہور پہنچ جائے گا۔

یہ بات بھی سامنے آئی ہے کہ عدالت کی جانب سے نواز شریف کو گرفتار نہ کرنے کے حکمنامے کے بعد نوازشریف کی واپسی کا شیڈول تبدیل ہو سکتا ہے اور ایسی صورت میں وہ براہِ راست لاہور میں لینڈ کر سکتے ہیں۔

نواز شریف کی بطور وزیراعظم واپسی



تحریر:۔ حفیظ اللہ نیازی

نواز شریف بطور وزیراعظم 21 اکتوبر کو ایسے قدم رنجا فرمانے کو کہ کل 10 سال کی سزا سنانے والا جج بشیر آج نواز شریف کی حفاظت کا ضامن بن چُکا، دوسری طرف اسلام آباد ہائی کورٹ ’’بقول شخصے نواز شریف نے جس عدالت کا کل تمسخر اُڑایا تھا‘‘، آج اُسی عدالت نے بلا حیل و حجت ضمانت دے دی ، بدلتا ہے آسماں رنگ کیسے کیسے۔ 22 مارچ 2018 جنگ میں یہ کالم ’’کوئی تو ہے جو نظام وطن چلا رہا ہے‘‘ چھپا تھا۔ نواز شریف واپسی کی مناسبت سے مختصر کر کے، یادش بخیر اپنی پیشن گوئیاں دوبارہ آپکی نذر ۔

’’نواز شریف اور خاندان کڑے مقدمات میں اس طرح ملوث، آرٹیکل10(A) ابدی نیند میں، مقدمات منطقی انجام کی طرف بڑھ رہے ہیں، فقط نگران حکومت کا انتظار ہے۔ سپریم کورٹ کی مصروفیات دیدنی، عدالتی ہاتھ انتظامیہ کو دبوچنے، سدھارنے میں کامیاب، اب سیاست کو ٹھیک کرنے کا عندیہ دے چکے ہیں۔ آنے والے دنوں میں لیگی سیاستدانوں کو مثال بنانا ہے۔ لیگی رہنماؤں کی نا اہلیاں آئے دن متوقع ہیں۔ پیغام واضح گھر گھر پہنچایا جا رہا ہے، راستے دو ہی ’’ن لیگ چھوڑیں یا نااہلی سمیٹیں‘‘۔ ’’سیاست نہیں ریاست بچاؤ‘‘، الیکشن دھاندلی، پاناما کیس، نواز شریف نا اہلی، بلوچستان حکومت کی زمین بوسی، نواز شریف کی بحیثیت صدر معزولی، سینٹ چیئرمین کا دن دیہاڑے ’’صاف شفاف‘‘ انتخاب، خدا کو حاضر ناظر جان کر کہتا ہوںکہ کسی ایک عمل یا دیگر درجنوں کار ہائے نمایاں میں زرداری عمران کا کوئی عمل دخل اور نہ ہی کوئی قصور۔

بات پرانی وہی کہانی، 2017 میں نواز شریف کی وزارت عظمیٰ سے معزولی پر ن لیگ نے تتر بتر ہونا تھا، امیدیں خاک رہیں۔نئی ضد سامنے آئی کہ نواز شریف کو صدارت سے ہٹائو، ن لیگ ٹوٹ جائے گی، کام نہ بنا۔ شیر کا نشان نہ دے کر بھی دیکھا، قوم دھوکا کھانے پر آمادہ نہ ہوئی۔ اگرچہ نیا بڑا سیاسی پلیٹ فارم تشکیل پانے کو، کنونشن لیگ اور ق لیگ جیسی ’’قومی لیگ‘‘ بننے کو۔ کنونشن لیگ، ق لیگ، آئی جے آئی جو نام بھی، تاریخ سے یہی ثابت، استعمال کے بعد کوڑا دان ہی آخری آرام گاہ رہنی ہے۔ ذوالفقار علی بھٹو یا نواز شریف دونوں کی اٹھان اسٹیبلشمنٹ کی سیاست سے ضرور رہی، بچ گئے کہ بھٹو صاحب 1966میں اسٹیبلشمنٹ کےسامنے خم ٹھونک کر جبکہ نواز شریف 1993 میں صدر اسحاق اور جنرل اسلم بیگ سامنے سینہ تان کر کھڑے ہو گئے۔ اسٹیبلشمنٹ کیلئے بھی سوچنے کا مرحلہ، جس کسی نے اسٹیبلشمنٹ سے ٹکر لی، رفعت اور مقام پایا۔

ایک تاثر یہ بھی ہے کہ سول ملٹری تعلقات کبھی ٹھیک نہیں ہو سکتے، 70سالہ تاریخ تائید کرتی ہے۔ سویلین حکومت سے’’ناچاقی‘‘ اداروں کی طبیعت میں رچ بس چکی ہے۔ پچھلے چند دنوں سے شہباز شریف اسٹیبلشمنٹ کو منانے میں مستعد اور روبہ عمل ہیں۔ یقین دلاتا ہوں، خدا کے گھر جائیں یا خدا کی شان دیکھیں، اگلوں کے ارادے غیر متزلزل، مستقل مزاجی شعار ہے۔ ابھی سے ن لیگ کے ممبران اسمبلی کو واضح پیغامات پہنچائے جا رہے ہیں، پی ٹی آئی جوائن کرو یا گھر بیٹھ جائو‘‘۔ ایسی جامع تجویز کتنے لوگ پلے باندھتے ہیں، وقت بتائے گا؟ پس پردہ قوتوں کی ساری منصوبہ بندی، ’’سب کچھ درست‘‘ سمت میں جا رہا ہے۔ بلاشبہ سیاست کا محور و مرکز نواز شریف مزید مستحکم و مضبوط ابھر کر سامنے آ چکے ہیں۔ آنے والے عام انتخابات میں کسی طور عام آدمی کو ووٹ استعمال کرنے کی آزادی رہی تو سارے سروے، ماضی کے ضمنی الیکشن، نواز شریف کی پبلک پذیرائی، بے شمار آثار نواز شریف کی جیت یقینی بتا رہے ہیں۔ سب کچھ کے باوجود نواز شریف کیلئے’’سب اچھا‘‘ نہیں ہے۔

تاریخ میں درج ایک سبق اور بھی، بے نظیر1988 کے الیکشن جیت کر حکومت بنانے میں کامیاب ضرور ہوئیں، وزیر تک اپنی مرضی کے نہ بنا سکیں، 2سال 5 ماہ بعد گھر بھیج دیا گیا۔ مثال اس لئے، بفرض محال، ن لیگ کی کامیابی کی صورت میں، نئی حکومت کو ہر گز کام کرنے نہیں دیا جائے گا۔ موجودہ دنگل نے جاری رہنا ہے۔ ہمارے مستعد ادارے، امپائروں نے اپنا اور قوم کا قیمتی وقت جس طرح پچھلے چار سال میں حکومت کی اکھاڑ پچھاڑ میں خرچ کیا۔ نواز شریف کے دوبارہ اقتدار میں آنے پر آنے والے دنوں میں یہی کاروبار یکسوئی سے جاری رہنا ہے۔ مجھے قوی امید ہے، نگران حکومت کی مطلق العنانی، نواز شریف کی زباں بندی، شریف خاندان کی قید و بند، دیگر رکاوٹوں، دبائو لالچ سے شاید ’’قومی لیگ‘‘، ’’سینٹ ماڈل اسٹائل‘‘ نئی حکومت بنالے گی۔ حکومت چلانا خالہ جی کا کام نہیں اور وہ بھی چوں چوں کے مربے سے، شک نہیں کہ ’’بھان متی کے کنبہ‘‘ کو شاندار ناکامی دیکھنا ہے۔

وطن عزیز کا تو نقصان ہی نقصان جبکہ نواز شریف کی واضح اور روشن کامیابی مستند رہنی ہے۔ نواز شریف ان چند سال میں اقتدار سے ضرور باہر، ناقابل تسخیر بن جائیں گے۔ ایسے مضبوط و مقبول کہ پاکستان کی سیاسی تاریخ ایسی مثال پیش کرنے سے قاصر رہے گی۔ دو قومی جماعتیں پیپلز پارٹی، خصوصاً تحریک انصاف سیاسی طور پر سب سے زیادہ نقصان اٹھائیں گی۔ قومی سانحہ کہ قومی پارٹیاں اپنے لیڈروں کی بدمستیوں اور بد نیتیوں کا اس طرح خمیازہ بھگتیں گی۔ نواز شریف کے 2018 میں اقتدار میں نہ آنے کا ایک اور فائدہ بھی، 70 سال سے بگڑے سول ملٹری تعلقات کو حالات کے جبر اور نامساعد ملکی حالات، ہمیشہ کیلئے ڈھنگ پر لے آئیں گے۔نواز شریف کو گارنٹی دیتا ہوں کہ2023 یا اس سے بھی ایک آدھ سال پہلے اقتدار خود بخود انکے قدموں میں آنا ہے کہ قومی افق پر ایک ہی سیاسی رہنما، جناب ہی نے تو بچنا ہے۔ جبکہ ‘1971میں عبرتناک شکست کے بعد صدر جنرل یحییٰ نے نور الامین اور ذوالفقار علی بھٹو کو اقتدار گھر جا کرہی تو دیا تھا۔ اگلے دو تین سال میں مقتدر پارٹیوں کا مقدر خواری ورسوائی کے سوا کچھ نہ ہوگا۔ ن لیگ کو جب دوبارہ 2023میں اقتدار ملے گا تو سول ملٹری تنازع کی وجہ نزاع کا تدارک ہوچکا ہوگا۔ البتہ ایک شرط کڑی، اس کھینچا تانی میں، پاکستان کا سلامت رہنا ضروری ہے کہ آنیوالے دن وطن عزیز پر بہت کڑے ہیں‘‘۔ (5 سال 7 ماہ پہلے لکھا گیا کالم، آج دوبارہ دیکھا تو لگا آج کے عمران خان اور تحریک انصاف پر لکھا ہے) ۔

شذرہ: ’’دوست‘‘ شاید ٹویٹ کا بُرا منا گئے، حسان خان سے آج ممکنہ ملاقات نہ ہو سکی۔ حقی سچی طاقت کے اندر ایک بڑا پن ہوتا ہے۔ افسوس کہ ہمارے ہاںکی طاقت میں ایسی معمولی خوبی کا بھی فقدان ہے۔

بشکریہ جنگ نیوز اردو