Tag Archives: انصار عباسی

عمران خان کی معافی تلافی کے امکانات؟



پہلے یہ حقیقت تسلیم کر لینی چاہیے کہ موجودہ حالات میں سیاسی جماعتیں اور سیاستدان بہت کمزور ہوچکے ہیں اور اس کی بڑی وجہ 9 مئی ہے۔

جب عمران خان کی گرفتاری پر ملک کے مختلف شہروں میں تحریک انصاف کے ووٹرز، سپورٹرز کی طرف سے ایک تسلسل کے ساتھ فوج پر حملے کیے گئے۔ فوج، حکومت، پولیس اور انٹیلی جنس ایجنسیوں کے مطابق یہ حملے سوچی سمجھی سازش کا نتیجہ تھے جس کی باقاعدہ پلاننگ کی گئی اور اس سازش کے ماسٹر مائنڈ عمران خان تھے۔

عمران خان کہتے ہیں کہ 9 مئی تو تحریک انصاف کے خلاف سازش تھی۔ سازش کے بارے میں فیصلہ تو عدالتیں کریں گی لیکن اس میں کوئی شک نہیں کہ 9 مئی والے دن تحریک انصاف کے احتجاجیوں نے شرپسندوں کی طرح فوج پر مختلف شہروں میں حملے کیے، جلاؤ گھیراؤ کیا، توڑ پھوڑ کی، شہیدوں کے یادگاروں کی بے حرمتی کی۔

یہ بات بھی طے ہے کہ تحریک انصاف کے احتجاجیوں کو کہا گیا تھا کہ احتجاج فوج کے خلاف کرنا ہے اور اس کیلئے عمران خان کے ایک سال سے زیادہ فوج مخالف بیانیہ کا بہت اہم کردار تھا۔

پہلے جنرل باجوہ کو نشانہ بنایا اور جب نئے آرمی چیف جنرل عاصم آ گئے تو عمران خان نے اُن کو نشانہ بنانا شروع کر دیا۔ ہر قسم کے جھوٹے سچے الزامات لگائے اور 9 مئی کے واقعات پر شرمندگی اور مذمت کی بجائے دوسرے تیسرے دن موجودہ آرمی چیف کا نام لے کر اُن کو ہی ان حالات کا ذمہ دار ٹھہرا دیا۔ آئی ایس آئی چیف، آئی ایس آئی کے ڈی جی سی اور کچھ دوسرے جرنیلوں کا نام لے لے کر اُنہیں بھی نشانہ بناتے رہے۔

عمران خان کے لیے یہ سب سیاست تھی اور 9 مئی ایک ’’جمہوری‘‘ احتجاج لیکن 9 مئی اگر ایک طرف پاکستان کے لیے بلیک ڈے تھا تو فوج کے سینے پر اس کی مثال ایک خنجر کی سی تھی۔

9 مئی کا زخم فوج کیلئے بہت گہرا ہے جسے بھلایا نہیں جا سکتا۔ ایسے میں عمران خان کیلئے سیاست کے رستوں کا کھلنا کتنا ممکن ہے؟؟

یہ بات تو کی جا سکتی ہے کہ سب پاکستان کی خاطر ماضی کو بھلا کر ایک نیا سفر شروع کریں، معافی تلافی کر لیں، دل بڑے کریں۔ نواز شریف کو بھی یہی مشورہ دیا جا رہا ہے کہ عمران خان کے ساتھ ہاتھ ملا لیں اور اُنہیں انتخابی سیاست میں واپس لانے میں اپنا کردار ادا کریں۔

اس بارے میں بحث یہ کی جاتی ہے کہ عمران خان آج بھی پاکستان کے مقبول ترین رہنما اور تحریک انصاف مقبول ترین سیاسی جماعت ہے جنہیں انتخابات سے باہر رکھا گیا تو پاکستان کیلئے سنگین نتائج برآمد ہو سکتے ہیں۔

زمینی حقائق کی روشنی میں کیا ایسا ممکن ہے اور اگر ایسا ہوگیا تو اس کے نتائج کیا ہوں گے؟

سب سے پہلے کیا عمران خان 9 مئی کے واقعات پر معافی مانگیں گے؟ کیا وہ فوج مخالف اپنے اور تحریک انصاف کے سوشل میڈیا کے بیانیے کو مٹانے کیلئے اقدامات کریں گے؟ فوج اور سیاسی مخالفوں کے خلاف تحریک انصاف کے اندر پیدا کی گئی نفرت کو کم کرنے میں اپنا کردار ادا کریں گے؟

اگر عمران خان ایسا نہیں کرتے تو سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا فوج عمران خان کو معاف کر سکتی ہے؟ کیا فوج کیلئے 9 مئی کے واقعات کو عمران خان کی سیاست کی خاطر بھلانا ممکن ہوگا؟

اگر یہ معافی تلافی نہیں ہوتی اور عمران خان اور تحریک انصاف کو الیکشن لڑنے کا پورا موقع دیا جاتا ہے تو پھر ممکنہ طور پر عمران خان اور تحریک انصاف آئندہ انتخابات جیتیں گے۔

انتخابات کا مقصد ملک میں سیاسی استحکام لانا ہے۔ لیکن موجودہ صورتحال میں اگر بغیر معافی تلافی عمران خان اور تحریک انصاف حکومت بنا لیتے ہیں تو پھر پہلے دن سے نئی حکومت اور اسٹیبلشمنٹ کے درمیان ایک ایسا تناؤ پیدا ہوگا جو ملک میں بدترین سیاسی عدم استحکام کو جنم دے گا۔

عمران خان، آرمی چیف سمیت، متعدد حاضر سروس جرنیلوں کے خلاف بار بار بولتے رہے اور فوج کے ساتھ ڈائریکٹ لڑائی مول لے لی، اس صورتحال میں عمران خان یا تحریک انصاف کی نئی حکومت کی شروعات ہی، حکومت اور فوج کے درمیان ،ایک بڑی لڑائی سے ہوگی جس کا پاکستان متحمل نہیں ہو سکتا۔

فوری طور پر عمران خان اور تحریک انصاف کیلئے سب سے بہتر حکمت عملی یہ ہوگی کہ وہ اور اُن کا سوشل میڈیا فوج مخالفت اور فوج دشمنی کے تاثر کو رد کرنےکیلئے فوکس ہو کر کام کریں، نفرت اور گالم گلوچ کی سیاست سے باز رہیں۔

اگر ایسا ہوا تو مستقبل میں کوئی بہتری آنے کی توقع ہے۔ ورنہ مجھے تو عمران خان اور تحریک انصاف کیلئے مشکلات ہی نظر آ رہی ہیں۔

بشکریہ روزنامہ جنگ

وزیراعظم شہباز شریف!



تحریر:۔ انصار عباسی

نواز شریف کی واپسی ہو گئی۔ اُن کا جلسہ بھی کامیاب رہا۔ جلسہ میں جوتقریر کی، وہ بھی اُس ماحول کے مطابق تھی جس میں اُن کی واپسی ممکن ہوئی۔ چار سال قبل جب میاں صاحب پاکستان سے باہر گئے تو اُس وقت اُن کے اور اُن کی سیاسی جماعت کیلئے حالات بہت خراب تھے۔ اب جب چار سال کے بعد واپسی ہوئی تو اُن کیلئے سب کچھ بدل گیا۔ وہ اب بھی سزا یافتہ ہیں لیکن اُن کا استقبال ایک امید کے طور پر کیا گیا، اُن کو عدلیہ ، حکومت اور ریاست کی طرف سے ویلکم کیے جانے کا تاثرنہ چھپا ہوا تھا اور نہ ہی اُسے چھپانے کی کوشش کی گئی۔ میاں صاحب مستقبل کے حکمران کے طور پر واپس لوٹے۔وہ جب گئے تو اُس وقت وہ ایک سزا یافتہ مجرم تھے، جب واپس آئے تو بھی سزا یافتہ مجرم ہیں لیکن اُن کا جس انداز میں ویلکم کیا گیاوہ یقینا ایک ’’لاڈلےـ‘‘ والا تھا۔ یہ کس کی جیت ہے اور کس کی ہار؟ اس بارے میں ہر ایک کی اپنی رائے ہو سکتی ہے لیکن میری نظر میں نواز شریف کی واپسی، اُن کا خطاب اور مستقبل کا ایجنڈا سب کچھ اُس ماحول کے مطابق ہے جو تحریک انصاف کے 9مئی کے حملوںکا نتیجہ ہے اور جس کی بنیاد میاں شہباز شریف کی حکومت کے دوران رکھ دی گئی تھی۔ یعنی ایک ایسا ماحول جس میں ن لیگ کو آئندہ الیکشن کیلئے سپورٹ دی جائے، انتخابات کے نتیجے میں جو حکومت بنے اُس کی ساری توجہ معیشت کی جنگی بنیادوں پرترقی، سرمایہ کاری کے فروغ، مہنگائی پر قابو پانے، ٹیکس اصلاحات، سمگلنگ و ڈالر مافیا کے خلاف کریک ڈائون وغیرہ جیسے اقدامات پر ہو ۔ معیشت کی بہتری کیلئے اس قومی ایجنڈے کی سوچ میں موجودہ اسٹیبلشمنٹ کا کلیدی کردار ہے۔ بحیثیت وزیر اعظم میاں شہباز شریف نے اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ مل کر اس ایجنڈے کو اپنی حکومت میں بھرپور سپورٹ کیا جس میں سپیشل انویسٹمنٹ فیسیلی ٹیشن کونسل (SIFC) کا قیام ایک اہم ترین فیصلہ تھا۔ یعنی ملک کی معیشت کی بہتری کیلئے سول حکومت اور فوج کا مل کر کام کرنے کا فیصلہ شہباز شریف اور جنرل عاصم منیر کا تھا اور اس ایجنڈے کے حصول کیلئے اس وقت بھی بہت کام ہو رہا ہے جس کی نگرانی ادارے خود کر رہے ہیں۔ اس ایجنڈے کے حصول کیلئے ملک نہ سیاسی لڑائیوں کا اور نہ ہی اداروں کے درمیان تصادم کا مزید متحمل ہو سکتا ہے، جس کیلئے ضروری ہے کہ آئندہ آنے والی حکومت اور حکمران کسی انتقام، کسی سیاسی کھینچا تانی، کسی گالم گلوچ اور غیر ضروری تنازعات میں پڑے بغیر ساری توجہ معیشت کو درست کرنے، بنیادی خرابیوں کو دور کرنے اور اصلاحات پر مرکوز کریں۔ میاں نواز شریف کی تقریر اسی ایجنڈے کے مطابق تھی۔ اُن کے بیانیہ میں انتقام کیلئے کوئی جگہ نہیں اور اُنہوں نے واضح کیا کہ وہ سب کو بشمول اداروں کے ساتھ مل کر پاکستان کی ترقی کیلئے کام کرنا چاہتے ہیں۔ سو جس سوچ کی بنیاد شہباز حکومت کے دوران رکھی گئی اُسی سوچ کے مطابق نواز شریف کی واپسی ہوئی اور اُسی سوچ کا اظہار میاں نواز شریف نے اپنی تقریر میں کیا۔ سیاستدان، میڈیا سب کو معلوم ہے کہ ن لیگ کیلئے آئندہ انتخابات میں جیتنے کا رستہ ہموار کیا جا رہا ہے۔ انتخابات کے بعد وزیر اعظم کون بنے گا اس بارے میں ابھی کچھ واضح نہیں۔ اگرچہ ن لیگی یہ نعرہ ،یہ بیانیہ بنا رہے ہیں کہ نواز شریف چوتھی بار وزیراعظم بنیں گے لیکن اگر انتخابات کا نتیجہ وہی ہوا جو اس وقت بہت سوں کو نظر آ رہا ہے تو میری ذاتی رائے میں وزیراعظم شہباز شریف بن سکتے ہیں اور اس فیصلہ کا اعلان نواز شریف خود کر سکتے ہیں۔

بشکریہ جنگ نیوز اردو

آج کے ہٹلرز!



تحریر:۔ انصار عباسی

بربریت اور حیوانیت نے انسانیت کو شکست دے دی۔ ہر گزرتے دن کے ساتھ ساتھ غزہ میں فلسطینیوں کے ساتھ ظلم کی نئی حدیں پار کی جا رہی ہیں۔ کل تک تین ہزار فلطینیوں جن میں بڑی تعداد بچوں اور خواتین کی تھی کو شہید کیا جا چکا تھا اور گذشتہ رات اسرائیل نے غزہ میں ایک اسپتال پر خوفناک بمباری کی، جس کے نتیجے میں اسپتال میں موجودہ پانچ سو سے زیادہ فلسطینی جن میں بچے ، خواتین اور دوسرے زیر علاج افراد شامل تھے، اُن کو شہید کر دیا گیا۔ غزہ میں اسکولوں، مسجدوں، گھروں ، کاروباری اور رہاشی عمارتوں کی بڑی تعداد کو پہلے ہی اسرائیل نے ملبے کا ڈھیر بنا دیا تھا، اور اب نوبت یہاں تک پہنچ گئی کہ اسپتال پر بھی اسرائیل نے بم برسا دیے۔ اس حملے کے بعد امریکی صدر نے مگرمچھ کے آنسو بہاتے ہوے کہا کہ اسپتال پر حملے پر اُنہیں بڑا افسوس ہوا، لیکن یہ وہی جو بائیڈن ہے جس نے اسرائیل کو غزہ پر حملہ کی غیر مشروط حمایت کا نہ صرف یقین دلایا بلکہ اسلحہ بھی فراہم کیا۔ برطانیہ اور کچھ یورپی ممالک نے بھی کھل کر اسرائیل اور اس کے ظلم کی حمایت کی اور اب اُن میں سے بھی کچھ اسپتال پر حملہ کی مذمت کر رہے ہیں ،جو اُن سب کی مکاری کے علاوہ کچھ نہیں۔ کتنے دنوں سے جو ظلم ہو رہا تھا، کس طرح چھوٹے چھوٹے معصوم بچوں تک کو بربریت کا نشانہ بنا کر شہید کیا جا رہا تھا ،امریکا سمیت یہ سب اسرائیل کی حمایت میں ہی بات کر تے رہے۔ اسرائیل نے میزائل اور فاسفورس بمبوں کے ساتھ ساتھ غزہ کی کتنے دن سے پانی اور بجلی بند کی ہو ئی ہے اور باہر سے کسی بھی قسم کی خوراک، ادویات اور دوسری امداد کا غزہ پہنچنے کی بھی اجازت نہیں۔ جو کوئی غزہ سے نکلنا چاہے اُسے بھی اسرائیل اپنے بمبوں اور میزائیلوں سے نشانہ بناتا ہے۔ ایسے میں گذشتہ روز روس کی طرف سے سیکیورٹی کونسل میں جنگ بندی کی قرارداد پیش کی گئی تا کہ غزہ کو خوراک، ادویات اور دوسری امداد پہنچائی جا سکے اور جو لوگ وہاں سے نکلناچاہیں اُنہیں نکلنے کا موقع دیا جا سکے لیکن امریکا ، برطانیہ، فرانس اور جاپان نے اس قرارداد کو ویٹو کر دیا۔ گویا غزہ میںاہسپتال پر جو حملہ ہوا اُس کے بھی یہ سب ذمہ دار ہیں، یہ انسان نما درندے ہیں، ان سب کے ہاتھ فلسطینیوں کے خون سے رنگے ہوے ہیں۔ یہ نئے دور کے ہٹلر ہیں، ان کی انسانیت مر چکی، یہ مسلمانوں کے خون کے براہ راست ذمہ دار ہیں، یہ ظالم اسرائیل کے پشت پر اب بھی کھڑے ہیں۔

لیکن اگر اُن کی انسانیت اسرائیل کی محبت اور مسلمانوں کی نفرت میں درندگی میں بدل چکی ہے، تو دکھ اس بات کا ہے کہ انسانیت ہماری بھی مر چکی۔ اتنی بڑی مسلم امہ، اتنے بڑی تعداد میں مسلمان ممالک لیکن ماسوائے زبانی جمع خرچ کے ہم کچھ نہیں کررہے، ہزاروں فلسطینیوں اور بڑی تعداد میں شہید بچوں کی میتوں کو اجتماعی قبروں میں دفنایا جا رہا ہے، لیکن نجانے اسلامی ممالک کی تنظیم (OIC) اور مسلمان ممالک کے حکمران کب مل بیٹھیں گے،، اسرائیل کے مظالم روکنے کے لیے کب کوئی متفقہ حکمت ملی بنائیں گئے۔ کتنے معصوم بچوں کی مزید شہادت کا ابھی اور انتظار ہے؟ کیا فلسطینیوں کی اسرائیل کے ہاتھوں مکمل نسل کشی تک کا انتظار ہے؟۔یہ حالات دیکھ کر سر شرم سے جھک جاتا ہے، دنیا بھر کے مسلمان اپنے فلسطینی بھائیوں بہنوں بچوں کی شہادت پرانتہائی غمگین ہیں، اُن کے دل اداس ہیں۔ اسرائیل جارحیت پر شدید غم و غصہ میں ہیں لیکن ایک بے بسی ہے کہ سب کو کھائے جا رہی ہے۔

بشکریہ جنگ نیوز اردو

’’تہذیب یافتہ دنیا‘‘ کا مکروہ چہرہ



تحریر:۔ انصار عباسی

انسانی حقوق کے علمبردار، نام نہاد تہذیب یافتہ دنیا کے چیمپئن امریکا، برطانیہ اور یورپ کا گھناؤنا چہرہ ایک بار پھربے نقاب ہو چکا۔ کس بے شرمی، بے حسی اورسنگدلی کا مظاہرہ کرتے ہوئے اسرائیل کے ہاتھوں فلسطینیوں کے بڑی تعداد میں قتل عام اور غزہ کی تباہی میں ظالم کا ساتھ دے رہے ہیں۔

امریکی صدر اور سیکریٹری خارجہ نے تو اسرائیل کو فلسطینیوں کے اس قتل عام اور غزہ کی تباہ و بربادی کیلئے اسلحہ سمیت غیر مشروط حمایت کی یقین دہانی کروائی ہے۔

تقریباً دو ہزار کے قریب فلسطینیوں کو، جن میں بڑی تعداد میں بچے اور عورتیں شامل ہیں، شہید کیا جا چکا، ہزاروں زخمی ہو چکے، غزہ کے کئی علاقوں کو ملبے کا ڈھیر بنا دیا گیا، ایک طرف اسرائیل کی طرف سے غزہ کو بجلی پانی سمیت ہر قسم کی سپلائی روک دی گئی اور کسی بھی قسم کی بیرونی امداد خواہ وہ خوراک کی صورت میں ہو یا دوائیاں کچھ بھی غزہ میں پہنچنے کی اجازت نہیں دی جا رہی، دوسری طرف اپنی جان بچانے کیلئے غزہ سے نکلنے والوں پر بھی اسرائیل کی طرف سے بمباری کی جا رہی ہے۔

امریکا و یورپ کی حمایت سے انسانی تاریخ میں مظالم کی ایک نئی داستان لکھی جا رہی ہے جس میں مظلوم مسلمان ہی ہیں۔

ایک خبر کے مطابق ایک ہفتہ میں جتنا گولہ بارود اسرائیل نے غزہ پر برسایا اُتنا امریکا نے ایک سال میں افغانستان پر برسایا تھا۔ ان حملوں میں ہر قسم کے جدید اسلحہ کے ساتھ ساتھ فاسفورس بموں کا بھی استعمال کیا گیا۔

اس ظلم اور جبر کے خلاف مغرب کے اندر سے بھی آوازیں آ رہی ہیں، برطانیہ، یورپ اور امریکا میں بھی مظاہرہ ہو رہے ہیں کہ جو کچھ اسرائیل امریکا، برطانیہ اور یورپ کی حکومتوں کی حمایت سے کر رہا ہے اُس کا شمارجنگی جرائم میں ہوتا ہے، وہ اقوام متحدہ کے کنونشن کی خلاف ورزی ہے، یہ انسانی حقوق کے خلاف ہے، یہ ظلم ہے، جبر ہے۔

لیکن یہودی لابی کا مغربی ممالک کی حکومتوں اور وہاں کے میڈیا پر اتنا اثر ہے کہ ہوتا وہی ہے جو اسرائیل چاہتا ہے۔ اس لیےجو جبر، جو ظلم اسرائیل کرے، اس کی حمایت امریکا، برطانیہ اور یورپ کرتے ہیں اور جس ظلم و جبر کا شکار مسلمان ہوں اُس پر نہ ظالم کی پکڑ ہوتی ہے نہ مظلوموں کی دادرسی۔

روس اگر یوکرین پر بم برسائے تو امریکا، برطانیہ یورپ کو سنائی دیں، لیکن اسرائیل کی غزہ پر کتنی ہی شدید بمباری ہو اور اس کا شکار چاہے جتنی بڑی تعداد میں معصوم بچے تک بھی ہوں ان ممالک کا نقطہ نظر ہی بدل جاتا ہے۔

نام نہاد تہذیب یافتہ دنیا کا یہ وہ مکروہ چہرہ ہے جس کے بارے میں ہمیں اسلام بتاتا ہے کہ یہ تمہارے دوست کبھی نہیں ہو سکتے، ان کے اندر مسلمانوں کے خلاف بغض ہے، ان کی زبانوں سے بہت زیادہ ان کے دل کے اندر مسلمانوں کے خلاف نفرت ہے جس کا اظہارہم بار بار گزشتہ چند دہائیوں سے دیکھ رہے ہیں۔

فلسطینیوں پر ڈھائے جانے والے مظالم کی وڈیوز، تصاویر دیکھ کر سخت سے سخت دل بھی نرم پڑ جاتا ہے لیکن اسرائیل کی طرف سے فلسطینیوں کی نسل کشی کی سنگدلانہ مہم جاری ہے اور نہ وہ خود اس ظلم سے باز آ رہا ہے نہ ہی امریکا، برطانیہ اور یورپ اسرائیل کی حمایت سے پیچھے ہٹ رہے ہیں۔

اب تک کی اطلاعات کے مطابق شہید فلسطینیوں کی تعداد 2 ہزار 329 ہو چکی جبکہ زخمیوں کی تعداد تقریباً 10 ہزار تک پہنچ چکی ہے۔ جنگ کے دوران کوئی چار لاکھ سے زیادہ فلسطینی بے گھر ہو چکے جبکہ غزہ کی آبادی کو پانی بجلی اور خوراک سے محروم رکھا جا رہا ہے۔

اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل فلسطینیوں کو امداد اور علاج کی فراہمی کا مطالبہ کر رہے ہیں لیکن ظالم اپنے مظالم کو جاری رکھے ہوئے ہے۔

عالمی ادارہ صحت (WHO) کا کہنا ہے کہ غزہ کے ہسپتالوں سے اسرائیل کی طرف سے زخمیوں اور زیرعلاج ہزاروں فلسطینیوں کی بے دخلی کا حکم سزائے موت کے مترادف ہے۔

ساری دنیا اس ظلم کو دیکھ رہی ہے لیکن کب کیسے یہ ظلم رکے گا اس کا کسی کو اندازہ نہیں۔ آنے والے دنوں میں کیا ہوگا، کسی کو اس کا علم نہیں۔

بشکریہ جنگ نیوز اردو

غزہ اور گمشدہ مسلم اُمہ



تحریر:۔ انصار عباسی

ایک واٹس ایپ میسیج ملا جس میں کچھ یوں لکھا تھا کہ آئندہ 72 گھنٹے بہت اہم ہیں، تین لاکھ اسرائیلی فوج کسی بھی وقت غزہ میں داخل ہو کر غزہ اور حماس کو مکمل طور پر تباہ و برباد کر دیں گے اس لیے مسلم امہ سے درخواست ہے کہ مظلوم فلسطینیوں کے حق میں دعا کریں۔ میسیج میں ایک مخصوص دعا بھی لکھی گئی تھی۔

بلاشبہ ہم سب مسلمانوں کو اس موقع پر اپنے مظلوم بہنوں، بھائیوں، بچوں کے لیے دعا ضرور کرنی چاہیے لیکن میں سوچ میں پڑ گیا کہ مسلم امہ ہے کہاں؟ پچاس کے قریب مسلمان ممالک، دنیا بھر میں ڈیڑھ ارب سے زیادہ مسلمان، ہماری فوجیں، ہماری حکومتیں، ہمارا اثرورسوخ سب کچھ ہوتے ہوئے مسلم امہ کو صرف دعاؤں کے لیے کہا جا رہا ہے۔ عملاً کچھ نہیں کرنا۔ کوئی مسلمان ملک، کوئی مسلم حکمران، کوئی بھی اپنے فلسطینی بھائیوں کو ظلم سے بچانے کے لیے کھڑا کیوں نہیں ہو رہا۔

مظلوم کی مددنہیں کر سکتے، ظالم کا ہاتھ نہیں روک سکتے، تو کوئی مسلمان حکمران، کوئی مسلمان ملک غزہ پر اسرائیلی حملے رکوانے کے لیے بھاگتا دوڑتا بھی نظر کیوں نہیں آ رہا۔ زبانی کلامی مذمتوں یا اظہار یکجہتی اور مطالبوں سے غزہ کے مظلوموں پر ڈھائے جانے والے مظالم رک تو نہیں سکتے۔ اسرائیل کی گذشتہ چار دن کی لگاتار بمباری سے غزہ کے کئی علاقے ملبے کا ڈھیر بن چکےہیں۔ مسجدوں،ا سکولوں،ا سپتالوں، رہائشی اور کاروباری عمارتوں سب کو بلاتفریق نشانہ بنایا جا رہا ہے۔

اطلاعات کے مطابق ہزار سے زیادہ فلسطینیوں کو شہید کیا جا چکا ہے، جن میں بڑی تعداد میں بچے اور خواتین بھی شامل ہیں۔ غزہ کا پانی، بجلی بند کر دیے گئے اور خوراک، دواؤں اور کسی بھی قسم کی سپلائی نہیں کی جا رہی۔ اتنا بڑا انسانی المیہ جنم لے رہا ہے، ظالم اپنے ظلم کی تمام حدوں کو پار کر تے ہوئے دنیا بھر کے سامنے بلاتفریق غزہ میں رہنے والوں کا قتل عام کر رہا ہے اور دنیا تماشہ دیکھ رہی ہے جبکہ مسلم امہ کہیں نظر نہیں آ رہی۔ امریکا ہمیشہ کی طرح ظالم اسرائیل کے پیچھے کھڑا ہے، اسلحہ بھی فراہم کر رہا ہے کیوں کہ مرنے والے مسلمان ہیں۔ حماس کے حملے نے اسرائیل کو پاگل کر دیا۔

اسرائیل اپنے بارے میں یہ سمجھتا تھاکہ اُس کی طرف کوئی آنکھ اُٹھا کر نہیں دیکھ سکتا، اُس کا دفاعی نظام، اُس کے جدید ہتھیار، فوج، سیکیورٹی اور انٹیلیجنس نظام اُسے ایک طاقت ور ملک بناتے ہیں ،لیکن حماس کے حملہ نے اسرائیل کے پورے کے پورے دفاعی اور انٹلیجنس کے نظام کو ننگا کر دیا۔ اسرائیل کی ناک کے نیچے نجانے کب سے حماس اس حملے کی تیاری کر رہا تھا لیکن کسی کو کانوں کان خبر نہیں ہوئی اوراتنا بڑا حملہ ہو گیا ۔

حماس کا اسرائیل پر یہ حملہ فلسطینیوں پر اسرائیل کی دہائیوں پر محیط نہ ختم ہونے والے مظالم کا نتیجہ تھا۔ اس بات پر بحث ہو رہی ہے کہ آیا حماس نے یہ حملہ کرنے سے پہلے اس کے ممکنہ نتائج کے بارے میں سوچا یا نہیں لیکن سوال یہ بھی پیدا ہوتا ہے کہ کیا ظالم کومظلوم پر ظلم کرنے کی ہمیشہ کھلی چھٹی رہے گی، اور مظلوم ہمیشہ ظلم ہی سہتا رہے گا اور خاص طور پر جب مظلوم مسلمان ہو چاہے اُس کا تعلق فلسطین سے ہو یا کشمیر سے ہو۔ کیا مسلمانوں کا خون یوں ہی بہتا رہے گا۔

فلسطین اور کشمیر تو کئی دہائیوں سے اسرائیل اور بھارت کے مظالم کا شکار ہیں اور اقوام متحدہ کی قراردادوں کے باوجود ظالم اپنا ظلم ڈھائے جا رہے ہیں ۔ یہاں تو مختلف حیلہ بہانوں سے افغانستان، عراق، لیبیا، شام وغیرہ میں بھی لاکھوں مسلمانوں کو بے دردری سے مارا گیا ،ان ممالک کو تباہ کیا گیا۔ پاکستان کو بھی عراق اور افغانستان بنانے کی سازشیں بنیں گئی، جو ناکام و نامرادہوئیں۔ یہ سب کچھ دیکھ کر بھی مسلمان متحد نہیں ہوتے۔ یاد رکھیں جب تک مسلمان ممالک میں اتحاد نہیں ہوتا، ہم ایک ایک کر کے پٹتے ہی رہیں گے، خون ہمارا ہی بہتا رہے گا۔

بشکریہ جیو نیوز اردو

پروٹوکول کی بھوکی اشرافیہ



ہمارا ملک دیکھیں، ہمارے حالات پر نظر دوڑائیں، معاشی ابتری اور مہنگائی کا جائزہ لیںیا طرز حکمرانی کے زوال اور دنیابھر میں ہماری انتہائی گرتی ہوئی شہرت پر بات کریں،ایک پاکستانی کے طور پر بہت مایوسی ہوتی ہے ۔افسوس اس امر کا ہے کہ سب کچھ خراب ہو رہا ہے، ہم روز برو ز تنزلی کی طرف رواں دواں ہیں، کچھ ٹھیک نہیں رہا۔ حکمراں طبقہ اور اشرافیہ ،جن پر حالات کو درست کرنے کی بنیادی ذمہ داری ہے وہ اپنی عیاشیوں اور اللے تللوں میں مصروف ہیں۔ دنیا سے ہم اپنے اخراجات پورے کرنے کیلئے بھیک مانگتے ہیں لیکن ہماری اشرافیہ اور حکمراں طبقے کی عیاشیاں ہیں کہ ختم ہونے کا نام ہی نہیں لے رہیں۔وی آئی پی کلچر سے اتنے مرعوب ہیں کہ ہر کوئی وی آئی پی بننا چاہتا ہے۔ پروٹوکول اور سیکورٹی کے نام پر قوم کے اربوں کھربوں روپے ہوا میں اُڑا دیئے جاتے ہیں۔ پروٹوکول اور وی آئی پی کلچر کی اس بیماری نے ہماری عدلیہ کو بھی ایک ایسی علت میں مبتلا کر دیا ہے جس کی دوسرے ممالک میں کوئی نظیر نہیں ملتی۔ دی نیوز کے سینئر صحافی عمر چیمہ کی خبر پڑھی اور دکھ ہوا کہ ہمیں کیا ہو گیا ہے اور ہم کیسے ٹھیک ہوں گے۔خبر کے مطابق لاہور ہائی کورٹ کے جسٹس علی باقر نجفی کےبیٹے کو اُس کے بیرون ملک دورے کیلئے پروٹوکول دینے کے معاملے پر وزارتِ خارجہ کو باقاعدہ خط لکھا گیا۔ قواعد و ضوابط کے مطابق کسی کو اس طرح ترجیحی پروٹوکول نہیں دیا جا سکتا لیکن وزارت خارجہ سے کہا گیا کہ وہ اس ضمن میں ضروری اقدامات کرے۔ پروٹوکول دینے کی درخواست لاہور ہائی کورٹ کے جج کی طرف سے آئی ہے جن کا بیٹا پاکستان سے باہر جا رہا ہے۔ جج کا بیٹا سید محمد علی ایک ڈاکٹر ہے اور امریکا جا رہا ہے۔یہ خواہش ظاہر کی گئی کہ محمد علی کو ابو ظہبی میں امیگریشن کے دوران اور پھر نیویارک ایئر پورٹ پر پروٹوکول دیا جائے جہاں سفارت خانے کا عملہ محمد علی کو ان کی منزل تک پہنچائے۔ یہی پروٹوکول محمد علی کی پاکستان واپسی کے موقع پر تمام ائیرپورٹس پر مانگا گیا۔خبر شائع ہوئی تو حکومت نے جواب لکھ دیا کہ جج کے بیٹے کو ایسا پروٹوکول دینا ممکن نہیں لیکن ذرائع کے مطابق ہمارے سفارت خانوں کا سب سے اہم کام ہی پاکستانی اشرافیہ کو پروٹوکول دینا ہوتا ہے جبکہ اصل کام پر کوئی توجہ نہیں ہوتی۔ میری چیف جسٹس قاضی فائز سے درخواست کہ عمر چیمہ کی خبر پر نوٹس لیں اور کم از کم اپنے گھر یعنی (عدلیہ) کو پروٹوکول اور وی آئی پی کلچر کی بیماری سے پاک کریں۔ اشرافیہ کے ظلم سے پاکستان کو بچائیں۔

بشکریہ روزنامہ جنگ

عمران خان کی مایوسی



تحریر:۔ انصار عباسی

عمران خان کو صدر ڈاکٹر عارف علوی نے مایوس کیا۔ پہلے یہ بات خان صاحب کے وکیل شیر افضل کے ذریعے سامنے آئی اور پھر چیئرمین تحریک انصاف کی ہمشیرہ علیمہ خان نے یہی بات کی۔

عمران خان کی مایوسی کی وجہ صدر علوی کی طرف سے الیکشن کی تاریخ نہ دینا تھا۔

تحریک انصاف کو توقع تھی کہ صدر اپنے آئینی اختیار کو استعمال کرتے ہوے نوے دن کے اندر الیکشن کی تاریخ کا اعلان کر دیں گے لیکن ڈاکٹر علوی نے ایسا کرنے سے گریز کرتے ہوئے الیکشن کمیشن کو ہی صدر کے اختیار اور اس بارے میں قانونی اختلاف رائے کا حوالہ دے کر الیکشن کمیشن پر ہی تمام اسٹیک ہولڈرز سے مشاورت اور اگر ضرورت پڑے تو سپریم کورٹ کے مشورے سے انتخابات کی تاریخ کا فیصلہ کرنے کا کہہ دیا۔

صدر کی طرف سے الیکشن کمیشن کو لکھا گیا خط محض ایک مشورے سے زیادہ کچھ نہیں تھا اور لگ ایسا رہا تھا کہ یہ بے معنی خط صدر علوی نے تحریک انصاف کے دباؤ پر ضرور لکھا لیکن وہ اصل میں الیکشن کی تاریخ دے کر نہ تو کوئی نیا تنازع پیدا کرنا چاہتے تھے اور نہ ہی طاقت ور حلقوں کو ناراض کرنا چاہتے تھے۔

ایک وقت ایسا تھا جب یہ اطلاعات آ رہی تھیں کہ صدر علوی انتخابات کی تاریخ کا اعلان کسی بھی وقت کرسکتے ہیں۔ اُسی دوران صدر سے دو طاقت ور شخصیات نے ملاقات کی جس کے بعد یہ کہا جانے لگا کہ ڈاکٹر علوی اب انتخابات کی تاریخ کا اعلان نہیں کریں گے ۔

عمران خان کو صدر علوی نے مایوس کیا لیکن سچ پوچھیں تو صدر کیلئے 9 مئی کے بعد تحریک انصاف اور عمران خان کی خواہشات کے مطابق چلنا ممکن نہیں رہا۔

موجوہ حالات میں اگر وہ آنکھیں بند کر کے تحریک انصاف کے اشاروں پر چلتے ہیں تو پھر اُن کیلئے بھی مصیبتیں پیدا ہوسکتی ہیں اور ایوان صدر میں اُن کا رہنا بھی مشکل ہوسکتا ہے۔

خان صاحب کی ہمشیرہ کے مطابق عمران خان جیل میں کافی کمزور ہو گئے ہیں لیکن اب بھی ڈٹے ہوئے ہیں۔ خان صاحب کی اہلیہ نے خطرے کا اظہار کیا کہ چیئرمین تحریک انصاف کو خوراک کے ذریعے زہر دیا جا سکتا ہے۔ یہ بھی کہا گیا کہ عمران خان اڈیالہ جیل میں خوش نہیں۔

عمران خان کے حوالے سے یہ بھی کہا گیا کہ خان صاحب کو ایک لمبا عرصہ تک جیل میں رکھنےکا جو بندوبست کیا جارہا ہے وہ یقینا ًعمران خان اور اُن کے خاندان کے افراد کیلئے پریشانی کا باعث ہے۔

جیل میں عمران خان سوچتے تو ضرور ہوں گے کہ اُن سے کیا کیا غلطیاں سرزد ہوئیں۔ اُن کو اُن کی پارٹی کے رہنما سمجھاتے رہے کہ اپنی حکومت کے خاتمہ کے بعد فوج مخالف جو بیانیہ اُنہوں نے بنایا اُس سے اُنہیں کوئی فائدہ نہیں بلکہ نقصان ہی نقصان ہوگا ۔

9 مئی کے بعد خان صاحب اور تحریک انصاف کیلئے مشکلات بڑھتی گئیں اور ان مشکلات میں دن بدن اضافہ ہی ہو رہا ہے۔ ایک طرف عمران خان کے خلاف کیسوں کا انبار اور لمبے عرصہ کی جیل تو دوسری طرف تحریک انصاف کیلئے انتخابی سیاست کے راستہ کی بڑھتی رکاوٹیں۔

چند ماہ پہلے تک عمران خان کے پاس شاید یہ آپشن موجود تھا کہ وہ خود کو کچھ عرصہ کیلئے مائنس کر کے اپنی سیاسی جماعت کی انتخابی سیاست کو بچا لیتے لیکن محسوس ایسا ہوتا ہے کہ اب خان صاحب کے پاس یہ آپشن بھی موجود نہیں۔

صدر سمیت دوسروں سے مایوس یا خفا ہونے کی بجائے خان صاحب اپنے رویے، اپنے فیصلوں اور اپنے بیانیے پر غور کریں تو ممکنہ طور پر یہ اُن کیلئے بہتر ہوگا۔

بشکریہ جیو نیوز اردو

نواز شریف اِن، عمران خان آؤٹ



تحریر:۔ انصار عباسی

ن لیگ اور نواز شریف نے اُس بیانیہ کو فوراً بدل دیا جواُن کو اسٹیبلشمنٹ اور عدلیہ کے ساتھ ٹکراؤ کی طرف لے جا سکتا تھا۔ حال ہی میں میاں نواز شریف نے ایک ویڈیو خطاب میں اپنے پارٹی رہنماؤں سے بات کرتے ہوئے سابق آرمی چیف جنرل باجوہ، سابق آئی ایس آئی چیف جنرل فیض، سابق چیف جسٹسز ثاقب نثار، آصف کھوسہ اور آئندہ سال اکتوبر میں بننے والے مستقبل کے چیف جسٹس اعجاز الاحسن کو 2017میں اپنی حکومت ختم کروانے کی سازش کا ذمہ دار ٹھہراتے ہوئے اس بات کا ارادہ ظاہر کیا تھاکہ اب سب کا احتساب کیا جائے گااور قوم کسی صورت اُن کو معاف نہیں کرے گی۔

میاں صاحب کے اس بیان کے حوالے سے کہا گیا کہ یہ نواز شریف اور ن لیگ کا آئندہ انتخابات کے لئے بیانیہ ہو گا جس پر اس خطرےکا اظہار کیا گیا کہ ایسا بیانیہ نواز شریف کو فوج اور عدلیہ کے ساتھ ایک بار پھر ٹکراو کی طرف لے جائے گا۔

یہ بھی کہا گیا کہ اس بیانیہ سے نواز شریف کی واپسی کے راستے میں رکاوٹیں پیدا ہو سکتی ہیں۔ یہ بھی کہا گیا کہ نواز شریف کے اس بیان کے بعد شہباز شریف کے ذریعے اُن کو پیغام دیا گیا کہ اس بیانیہ کو اپنانے سے گریز کریں۔ عمومی طور پر یہ خیال کیا جارہا ہے کہ نواز شریف اور ن لیگ کو آئندہ انتخابات کیلئے طاقتور حلقوں کی حمایت حاصل ہے۔ بہر حال وجہ جو بھی ہوئی ن لیگ اور نواز شریف نے اپنا بیانیہ بدل لیا جس کا باقاعدہ اعلان دو دن قبل اسحاق ڈار نے لندن میں میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کیا۔

ڈار صاحب نے کہا کہ میاں صاحب ،اُن سب کے احتساب کا معاملہ اپنے رب کے سپرد کر چکے ہیں،جنہوں نے اُن کے خلاف سازش کی اور اُن کی حکومت کو ختم کیا ۔ ڈار صاحب نے یہ بھی کہا نواز شریف پاکستان کے موجودہ حالات میں پوری توجہ کے ساتھ ملک و قوم کے حالات بہتر بنانے کیلئےمعاشی ایجنڈے پر فوکس کریں گے نہ کہ انتقام اور بدلے کی طرف۔میاں نواز شریف نے کسی کے کہنے پر ایسا کیا یا خود سے ہی خیال آ گیا ،دونوں صورتوں میں ن لیگ نے فوج اور عدلیہ سے ٹکراو کی پالیسی نہ اپنانے کا فیصلہ کیا ہے۔ نواز شریف کے ویڈیو بیان کے بعد پیدا ہونے والی صورتحال میں اُن کی 21 اکتوبر کو واپسی کے پروگرام سے متعلق شکوک و شبہات پیدا ہو گئے تھے۔

لیکن اب لگ ایسا رہا ہے کہ میاں صاحب پروگرام کے مطابق پاکستان واپس آ جائیں گے اور ن لیگ کو آئندہ انتخابات کیلئے الیکشن مہم میں لیڈ کریں گے۔ یعنی میاں صاحب جن کو ماضی میں سیاست سے آئوٹ کر دیا گیا تھا وہ سیاست میں دوبارہ اِن ہونے جا رہے ہیں۔ ایسے میں جب میاں صاحب سیاست میں اِن ہو رہے ہیں عمران خان سیاست سے آئوٹ ہو رہے ہیں۔ توشہ خانہ کیس میں عمران خان پہلے ہی الیکشن لڑنے کیلئے نااہل ہو چکے ہیں،جب کہ سائفر کیس میں پیش کئے گئے چالان میںچیئرمین تحریک انصاف کو ایف آئی اے قصور وار تصور کرتی ہے۔

سائفر کیس کے ساتھ ساتھ9 مئی کے مقدمات عمران خان اور اُن کی سیاست کیلئے سنجیدہ خطرہ ہیں لیکن ان تمام تر خطرات کے باوجود خان صاحب اور تحریک انصاف کی طرف سے اُس فوج مخالف بیانیے اور 9مئی کےواقعات کی مذمت اور اس ماضی سے دوری کیلئے کوئی کوشش نہیں ہو رہی۔ ضرورت اس امر کی تھی کہ تحریک انصاف کی قیادت اداروں سے ٹکراو والی صورتحال کو ختم کرنے کیلئے اپنے ووٹرز ،سپورٹرز اور سوشل میڈیا میں فوج مخالف بیانیہ کے خلاف آواز اُٹھاتی، اُسے سختی سے رد کرتی اور ہر ایسے فرد (جو اپنے آپ کو تحریک انصاف سے جوڑتا ہے) سے لاتعلقی کا اظہار کرتی جو فوج اور اس کی قیادت کو بدنام کر رہا ہے۔

تاہم افسوس کہ نہ عمران خان ایسا کر رہے ہیں نہ ہی تحریک انصاف کی دوسری قیادت۔ ویسے تو خان صاحب اور تحریک انصاف کی بڑی خواہش ہے کہ فوج کے ساتھ اُن کے تعلقات بہتر ہوں لیکن ایسا اُس وقت تک ناممکن ہے جب تک کہ تحریک انصاف فوج مخالف بیانیہ کو رد نہیں کرتی۔ یہ بنیادی نکتہ سمجھنے میں عمران خان کو کتنا وقت لگے گا اس بارے میں کچھ نہیں کہا جا سکتا۔

بشکریہ جیونیوز اردو