تحریر:۔ جاوید چوہدری
قطب جنوبی کے ہمسائے میں ٹرین کا سفر بھی حیران کن تجربہ تھا‘ دائیں بائیں پہاڑی گلیشیئر تھے‘ دامن میں جنگل تھا اور جنگل میں جگہ جگہ دریا اور جھیلیں تھیں اور ان کے ساتھ جنگلی گھوڑے چر رہے تھے‘ جنگل میں گھوڑوں کی مختلف نسلیں آوارہ پھر رہی تھیں‘ یہ اسی جنگل میں پیدا ہوتے ہیں‘ اسی میں بڑے ہوتے ہیں اور پھر اسی میں بوڑھے ہو کر مر جاتے ہیں۔
جنگل میں پرندوں اور گھوڑوں کے لیے الگ الگ اسپتال بھی تھے جن میں روزانہ ڈاکٹرز آتے ہیں‘ گلیشیئرز کی وجہ سے جنگلوں کے مختلف حصے گل سڑ چکے تھے جب کہ مختلف جگہوں پر دلدلیں بھی ہیں‘ ٹرین کے ساتھ ساتھ واکنگ ٹریکس تھے اور ان پر سیاح ٹریکنگ کر رہے تھے۔
اسرائیل سے جہاز کے جہاز اشووایا آتے ہیں اور زیادہ تر اسرائیلی سیاح نیشنل پارک میں ٹریکنگ کرتے ہیں‘ دنیا کے آخری سرے پر ٹریکنگ یقینا دلچسپ تجربہ ہے لیکن بعض اوقات سیاح جنگلی گھوڑوں اور جانوروں کا نشانہ بھی بن جاتے ہیں اور شدید سردی اور یخ ہوا سے بیمار بھی پڑ جاتے ہیں۔
پارک میں مختلف جگہوں پر برف تھی‘ شہر میں دو دن قبل ٹھیک ٹھاک برف باری ہوئی تھی‘ ارجنٹائن میں گرمیاں شروع ہو چکی ہیں مگر اشووایا میں گرمیوں میں بھی برف باری ہو جاتی ہے‘ قطب جنوبی کا موسم باقی دنیا سے چھ ماہ پیچھے ہے‘ ہماری گرمیوں میںاس علاقے میں سردیاں پڑتی ہیں اور ہماری سردیوں میں وہاں گرمیاں ہوتی ہیں۔
لہٰذا یہاں جون جولائی میں برفیں پڑتی ہیں اور دسمبر میں لوگ ننگے ہو کر بینچز پر لیٹے ہوتے ہیں مگر اشووایا کی گرمیاں بھی ٹھٹھری رہتی ہیں‘ نیشنل پارک میں برفیلے پہاڑوں کے درمیان تازہ برف کے آثار موجود تھے اور ان برفیلے پہاڑوں‘ برفیلے جنگلوں‘ ٹھٹھری ہوئی جھیلوں اور آوارہ پھرتے گھوڑوں کے درمیان چھک چھک اسٹیم ٹرین چل رہی تھی اور دنیا جہاں کے سیاح کھڑکیوں کے ساتھ ناک لگا کر وڈیوز اور تصویریں بنا رہے تھے۔
ٹرین راستے میں دو جگہ رکی اور پھر اس نے واپسی کا سفر شروع کر دیا‘ آخری اسٹیشن کے بعد نوکلو میٹر کا ٹریک تھا جس کے آخر میں ’’اینڈ آف دی ورلڈ‘‘ تھا‘ اس پوائنٹ سے آگے بیگل سی ہے اور بیگل سی کے آخری سرے پر انٹارکٹیکا کے موٹے گلیشیئرز اور برفیں ہیں اور ان برفوں میں پینگوئن رہتے ہیں‘ ہم پہلے دن اینڈ آف دی ورلڈ نہیں جا سکے تھے۔
ہم دوسرے دن ٹیکسی پر دنیا کے آخری کونے پر پہنچے تھے‘ اس سے قبل جنگل میں آخری کافی شاپ‘ آخری واش روم‘ آخری سرکاری عمارت‘ آخری رہائش گاہ (پاڈز) اور آخری جھیل تھی اور ان کے بعد وہ ڈیک تھا جس پر پہنچ کر دنیا ختم ہو جاتی ہے۔
ہم ڈیک پر پہنچے تو وہاں کھڑا ہونا مشکل تھا‘ ہوا کا دباؤ بھی ناقابل برداشت تھا اور سردی بھی لہٰذا تمام لوگ چند سیکنڈز بعد دوڑ کر گاڑی میں پناہ لے لیتے تھے‘ ہم نے بھی یہی کیا اور بھاگ کر ٹیکسی میں واپس آ گئے مگر یہ دوسرے دن کی بات تھی۔
ہم پہلے دن اچھے بچوں کی طرح ٹرین کے ذریعے واپس آ گئے تھے اور اس کے بعد ٹیکسی پر شہر پہنچ گئے تھے‘ شہر چار بجے کے بعد جمنے لگتا ہے لہٰذا سیاح کان لپیٹ کر ریستورانوں میں پناہ لیتے ہیں‘ اشووایا کا سینٹر خوبصورت اور صاف ستھرا ہے‘ ریستوران اور کافی شاپس بھی معیاری ہیں‘ ہم نے ایک ریستوران میں گھس کر کنگ کریپ کا سوپ اور تازہ سالمن فش پھڑکائی اور پھر کان لپیٹ کر ہوٹل پہنچ گئے۔
ہم نے دوسرا دن بیگل چینل (Beagle channel) کے لیے رکھا ہوا تھا‘ بیگل اشووایا اور انٹار کٹیکا کے سمندر کے درمیان سمندری پانی کی ایک پٹی ہے‘ اس پر دنیا کا آخری لائیٹ ہاؤس آتا ہے اور پینگوئن کے جزیرے بھی‘ پینگوئن انٹار کٹیکا اور اشووایا کے درمیان سفر کرتے رہتے ہیں‘ یہ بیگل چینل کے جزیروں میں آتے ہیں‘ انڈے سیتے ہیں۔
بچوں کو ساتھ لیتے ہیں اور دوبارہ انٹارکٹیکا چلے جاتے ہیں‘ بیگل چینل کے آخر میں پانی پر تیرتے ہوئے گلیشیئرز ہیں‘ سمندر کے کنارے مختلف کمپنیوں کے بوتھ ہیں‘ سیاح ٹکٹ خرید کر ان کے جہازوں کے ذریعے سمندر میں جاتے ہیں‘ جہاز صبح نو بجے چلتے ہیں اور شام کو مختلف جزیروں سے گزرتے اور رکتے ہوئے واپس آ جاتے ہیں‘ ہم نے پہلے دن بکنگ کی کوشش کی مگر سمندر میں تیز ہوا کی وجہ سے جہاز کینسل ہو گئے۔
ہم دوسرے دن صبح ساڑھے آٹھ بجے دوبارہ پہنچ گئے لیکن موسم کی خرابی کی وجہ سے جہاز اس دن بھی نہ گیا‘ ہمارے پاس اب کرنے کے لیے کچھ نہیں تھا‘ ہم نے سارے دن کے لیے ٹیکسی بک کی اور اشووایا کے مضافات میں نکل گئے‘قریب ترین شہر تولین 150 کلو میٹر کے فاصلے پر تھا‘ ہم اس طرف نکل گئے‘ راستہ بہت خوب صورت تھا‘ ایک طرف پہاڑ تھے‘ ان پر گلیشیئر تھے اور دوسری طرف جھیلیں تھیں۔
ان میں دو جھیلوں پر باقاعدہ سمندر کا گمان ہوتا تھا‘ راستے میں لکڑی کے کارخانے بھی تھے‘ ڈرائیور نے بتایا لکڑی اور مچھلی اس علاقے کے دو بڑے روزگار ہیں‘ اشووایا میں ٹیکس فری ہونے کی وجہ سے موبائل فون اور لیپ ٹاپس کی فیکٹریاں بھی لگ رہی ہیں جن کی وجہ سے پورے ملک سے پڑھے لکھے ہنر مند لوگ اشووایا آ رہے ہیں‘ تولین ایک سست اور گندا سا ٹاؤن تھا‘ اس میں کسی قسم کی کوئی سرگرمی نہیں تھی۔
ہم وہاں جا کر بہت مایوس ہوئے‘ ڈرائیور ہمیں واپسی پر جنگل میں لے گیا‘ وہاں ایک کچا راستہ تھا جس کے آخر میں ایک چھوٹی سی پورٹ تھی‘ اس پورٹ کی صرف دو خوبیاں تھیں‘ وہاں سے چلی کی پورٹ اور پہاڑیاں صاف دکھائی دیتی تھیں‘ دونوں ملکوں کے درمیان پانچ منٹ کا آبی راستہ تھا‘ چلی کے مچھیرے یہ راستہ عبور کر کے ارجنٹائن آ جاتے تھے اور ارجنٹائن کے فشرمین چلی چلے جاتے ہیں۔
ہمیں دونوں سائیڈز پر سرگرمی دکھائی دے رہی تھی‘ پورٹ کی دوسری خوبی اس کا جنگلی راستہ تھا‘ پورے راستے میں لوگوں نے عارضی گھر بنا رکھے تھے‘ ان گھروں میں شہر کے ہنگاموں سے بیزار لوگ رہتے ہیں‘ یہ آتے ہیں۔
ایک دو دن جنگل میں گزارتے ہیں اور واپس لوٹ جاتے ہیں‘ یہ گھر بجلی‘ گیس اور پانی سے محروم ہیں لہٰذا لوگ وہاں قدرتی زندگی گزارنے آتے ہیں‘ جنگل گھنا تھا اور وہ سمندر کی طرف کھلتا تھا‘ ہم وہاں سے واپسی کے بعد نیشنل پارک گئے اور اینڈ آف دی ورلڈ دیکھا۔
ارجنٹائن کے لوگ صاف ستھرے‘ مہذب اور پڑھے لکھے ہیں‘ یہ چھوٹی ملازمتیں نہیں کرتے لہٰذا ٹیکسی سے لے کر سبزی فروش تک بولیویا‘ پیرو اور پیرا گوئے کے لوگ ہیں‘ ہمارا ٹیکسی ڈرائیور بھی بولیویا سے تعلق رکھتا تھا‘ اس کا نام عمر تھا لیکن وہ مسلمان نہیں تھا‘ لاطینی امریکا میں عمر نام کامن ہے۔
کیوں؟ اس کا جواب کسی کے پاس نہیں ‘ عمر نے بتایا‘ لاطینی امریکا کے زیادہ تر لوگ محنت مزدوری کے لیے ارجنٹائن آتے ہیں لیکن یہ اب واپس جانا چاہتے ہیں کیوں کہ ارجنٹائن کے معاشی حالات ان کے اپنے ملکوں سے زیادہ خراب ہیں‘ عمر بھی اپنے ملک واپس جانا چاہتا تھا تاہم اس کا کہنا تھا بولیویا میں جرائم بہت زیادہ ہیں‘ اس لیے وہ بولڈا سٹیپ نہیں لے پا رہا‘ اشووایا میں دنیا کی آخری جیل بھی ہے۔
یہ جیل 1902 میں اسٹارٹ ہوئی تھی اور 1947ء میں بند کر دی گئی تھی‘ یہ دوبارہ 1994 میں کھولی گئی لیکن اس بار اسے میوزیم بنا دیا گیا‘ جیل کے ایک حصے کو انٹارکٹیکا میں میوزیم کے لیے وقف کر دیا گیا ہے‘ مجھے وہاں جا کر پتا چلا 1520 میں انٹار کٹیکا کی پہلی مہم اس علاقے میں پہنچی تھی‘ اس وقت تک یہاں ریڈ انڈینز رہتے تھے‘ یہ غیرانسانی زندگی گزار رہے تھے‘ ننگ دھڑنگ رہتے تھے‘ چھوٹی کشتیوں میں مچھلیوں کا شکار کرتے تھے۔
غاروں میں آگ جلا کر سردیاں گزارتے تھے اور ہڈیوں اور پتھروں کے آلات اور ہتھیار بناتے تھے‘ یہ کپڑوں اور جوتوں تک کی ٹیکنالوجی سے نابلد تھے‘ یورپی باشندے آئے اور انھوں نے سب سے پہلے انھیں کپڑے پہنانے شروع کیے مگر یہ لوگ کپڑے پہننے کے بعد تیزی سے بیمار ہوتے اور مرتے چلے گئے۔
تحقیق کے بعد پتا چلا یہ لوگ بارشوں اور برف کی وجہ سے زیادہ صاف ستھرے رہتے تھے‘ بارش کے بعد یہ لوگ آگ جلا کر خود کو سکھا لیتے تھے لہٰذا بارش اور آگ کی وجہ سے یہ ہر قسم کے جراثیم سے محفوظ رہتے تھے لیکن جب انھیں کپڑے پہنائے گئے تو ان کے جسم پر جراثیم پنپنے لگے اور یوں یہ چند دنوں میں مرنے لگے یہاں تک کہ ان کی آبادی تیزی سے ختم ہوتی چلی گئی۔
آج کے ماہرین کا خیال ہے 1520 سے 1550کے درمیان اس مشاہدے نے آگے چل کر یورپی اقوام کو ’’سن باتھ‘‘ اور سوانا کا تصور دیا تھا‘ یورپ کی تمام اقوام گرمیوں میں ساحلوں پر سن باتھ اور سردیوں میںا سٹیم باتھ اور سوانا لیتی ہیں۔
اس سے ان کی صحت بہتر اور عمر لمبی ہو رہی ہے‘ ہمیں میوزیم میں ریڈ انڈینز کی رہائش گاہیں اور کلچر بھی دیکھنے کا اتفاق ہوا‘ یہ بھی معلوم ہوا اشووایا ساڑھے چار ہزار برس قبل ساڑھے بارہ سو فٹ موٹا گلیشیئر تھا‘ برف آہستہ آہستہ پگھلی اور اس کے نیچے سے زمین اور چٹانیں نکل آئیں اور پھر یہاں شہر آباد ہوگیا مگر گلیشیئر کی برفیں آج بھی اس کو ڈھانپنے کے لیے تیار رہتی ہیں اور ماہرین کا خیال ہے یہ کسی بھی وقت دوبارہ برف میں گم ہو جائے گا۔
ہم نے اشووایا میں آخری شام ریستورانوں میں خوراک تلاش کرنے میں خرچ کی اور اگلی صبح بیگل چینل اور انٹارکٹیکا کی حسرت کے ساتھ بیونس آئرس واپس لوٹ گئے مگر اپنا دل اشووایا کے گلیشیئرز پر ہی چھوڑ آئے‘ ہم ایک بار پھر یہاں ضرور آئیں گے اور ان شاء اﷲ اپنی ادھوری حسرت پوری کریں گے‘ ہم نے اشووایا کے ساتھ یہ وعدہ کر لیا۔
بشکریہ ایکسپریس نیوز اردو