تحریر:۔ سہیل وڑائچ
ویسے تو بلاول بھٹو زرداری پاکستان کی بڑی سیاسی قیادت سے عمر میں بہت چھوٹا ہے مگر وہ جو کہہ رہا ہے اسے بڑوں کو سمجھنا چاہئے اور اپنی سیاسی حکمت عملی تبدیل کرنی چاہئے۔ مسلم لیگ ن کے قائد ہوں یا تحریک انصاف کے چیئرمین، بلاول بھٹو سے برسوں بڑے ہیں اور ہمارے خطے میں بڑے چھوٹوں کی بات کو درخور اعتنا نہیں سمجھتے، یہی حال بلاول بھٹو کے بیانات کا ہو رہا ہے۔ بلاول بار بار کہہ رہا ہے کہ فوراً الیکشن ہونا چاہئے، مستقبل کو بہتر بنانا ہےتو لیول پلینگ فیلڈ ہونا چاہئے، سب کو برابر کا موقع ملنا چاہئے وہ بار بار متنبہ کر رہا ہے کہ اس وقت ہم ایک نئی قسم کی آمریت کا شکار ہو رہے ہیں، ہمیں ملک بچانا ہے تو اس سے بچنا ہوگا اور ملک کو آئین کے مطابق چلانا ہوگا۔ اصول اور حق کی بات کریں تو بلاول کی باتیں ٹھیک ہیں، ہاں اگر پارٹی مفادات اور ذاتی عناد کے ترازو استعمال کئے جائیں تو پھر ان اقوال پر بہت سے اعتراضات اور تحفظات اٹھائے جا سکتے ہیں۔
کہنے والے کہتے ہیں کہ بلاول اور پیپلز پارٹی تکلیف میں ہیں کہ ان کی اتحادی نون نے انہیں نظرانداز کر کے مقتدرہ کے ساتھ ڈیل کرلی ہے اس ڈیل کے ذریعے وہ مستقبل میں اقتدار میں آتی دکھائی دے رہی ہے۔ دوسری طرف پیپلز پارٹی کو تنہا چھوڑ دیا گیا ہے، سندھ میں نگران وزیر اعلیٰ کے علاوہ ساری نگران حکومت پیپلز پارٹی کے مخالفوں کو شہہ دینے میں مصروف ہے۔ پیپلز پارٹی کو لگتا ہے کہ مقتدرہ انہیں صوبہ سندھ میں بھی اقتدار میں آنے نہیں دے گی، بلوچستان میں پیپلز پارٹی نے بہت سے اہم لوگوں کو رام کرلیا تھا مگر طاقتوروں نے انہیں اس پارٹی میں جانے سے روک دیا ہے۔ پیپلز پارٹی کو امید تھی کہ تحریک انصاف کے جنوبی پنجاب سے جو لوگ ٹوٹیں گے وہ انکی پارٹی میں آئیں گے اور وہ آئندہ الیکشن میں پنجاب میں 20،25نشستیں لے لی گی مگر استحکام پاکستان پارٹی بنا کر پیپلز پارٹی کی یہ امید بھی توڑ دی گئی۔ غلط یا صحیح پیپلز پارٹی کو یہ اطلاع بھی دی گئی ہے کہ لیاقت جتوئی سمیت انتخابی گھوڑوں کا ایک گروہ ن لیگ میں شامل ہو کر سندھ میں پیپلز پارٹی سے برسر پیکار ہو گا، یہ بھی کہا جا رہا ہے کہ مولانا فضل الرحمن کی جماعت تو پہلے ہی پیپلز پارٹی مخالف جی ڈی اے کی اتحادی بن گئی ہے آنے والے دنوں میں نون بھی سندھ میں پیپلز پارٹی کے خلاف میدان میں اترے گی، اگر ان باتوں میں تھوڑی سی بھی سچائی ہے تو پیپلز پارٹی کی ناراضی اور شکوے بے جا نہیں ہیں۔ پیپلز پارٹی 2007ء تک پنجاب کی ایک بڑی سیاسی قوت ہوا کرتی تھی مگر اپنا اینٹی اسٹیبلشمنٹ موقف تبدیل کرنے، نون لیگ سے صلح کرنے اور آخر میں گیلانی حکومت کی ڈیلیوری میں ناکامی نے اسکی ہوا اکھاڑ دی، پیپلز پارٹی کے بہت سے حامی جو اینٹی ن لیگ سیاست کرتے تھے وہ تحریک انصاف میں چلے گئے اور اپنی اینٹی ن لیگ سیاست جاری رکھی ابھی چند روز پہلے میری تحریک انصاف کی اسیر رہنما صنم جاوید کے والد اور صنم کے بچوں سے ایک شادی میں ملاقات ہوئی، صنم کے والد نے بتایا کہ وہ ایک پکا پپلیا اور جیالا ہے اسکی ساری سیاست نون لیگ کیخلاف رہی ہے اور اپنے علاقے میں اسی سیاست میں اسکے بھائی کو انکے نونی مخالفوں نے موت کے گھاٹ اتار دیا۔ صنم کے والد نے بتایا کہ صنم کے دل میں نون لیگ کے خلاف جو جذبات ہیں وہ خاندان سے وراثت میں ملے ہیں، اس مثال سے آسانی سے سمجھا جا سکتا ہے کہ پیپلزپارٹی کی اکثریت نےپنجاب میں نون لیگ سے اسکے اتحاد کو پسند نہیں کیا تھا۔ گویا پیپلز پارٹی کو چارٹر آف ڈیمو کریسی اور ان سے دوستی کے بدلے پنجاب میں اپنے ووٹ بینک کی قربانی دینا پڑی ۔آج اگر بلاول اور پیپلز پارٹی نونیوں سے گلے شکوے کر رہے ہیں تو اسکا یہی پس منظر ہے۔
پیپلز پارٹی کی قیادت ذوالفقار علی بھٹو سے ہوتے ہوئے بے نظیر بھٹو اور اب بلاول بھٹو کے پاس پہنچی ہے، پیپلز پارٹی کا ووٹ بینک ذوالفقار علی بھٹو نے بنایا انہوں نے روٹی، کپڑا اور مکان کے بیانیے سے پہلے پارٹی کو کھڑا کیا اور بعد میں حکومت میں آکر اپنے ووٹ بینک کو مضبوط تر بنایا اور آخر میں پھانسی کے تختے پر جھول کر وہ غریب اور غیر مراعات یا فتہ طبقے کا ایسا ووٹ بینک چھوڑ گئے جو جنرل ضیاء الحق کے استبداد کے باوجود کئی دہائیوں تک پیپلز پارٹی سے جڑا رہا!
محترمہ بے نظیر بھٹو نے پیپلز پارٹی کی باگ ڈور سنبھالی تو سوشلزم کا دور ختم ہو رہا تھا مارکیٹ اکانومی او رلبرل ازم نئی دنیا کے چلن بن چکے تھے ،محترمہ نے انتہائی کامیابی سے بھٹو کے ووٹ بینک کو نئے حقائق کے ساتھ چلایا انہوں نے سیاست میں آکر بھٹو سے الگ اپنا بھی ووٹ بینک بنایا جو بےنظیر کی جمہوری جدوجہد اور انکے لبرل آئیڈیاز کو پسند کرتے تھے، محترمہ کے بعد جب سے بلاول بھٹو آئے ہیں بدقسمتی سے کوئی ایک بھی نیا ووٹ اپنی پارٹی میں شامل نہیں کر سکے باوجود یہ کہ ان کا امیج بہت اچھا ہے انکے خیالات محترمہ کے آئیڈیاز کا عکس ہیں مقتدرہ کے بھی وہ پسندیدہ ہیں ،ان کے حوالے سے کرپشن کا الزام تک نہیں بطورِ وزیر خارجہ انہوں نے پاکستان کی ہرفورم پر کامیاب وکالت کی ہے، دن رات انتھک محنت کرکے اپنے رول کو بخوبی نبھایا ہے ان سب مثبت باتوں کے باوجود وہ کوئی نیا بیانیہ، کوئی ایسا نیا منشور دینے میں ناکام رہے ہیں جس سے ان کی پارٹی میں تازہ خون آتا اور وہ پنجاب میں اس قابل ہو جاتی کہ اپنے ووٹ بینک کے سہارے پر 25،30نشستیں ہی جیت لیتی مگر اب تک ایسانہیں ہو سکا۔ بلاول بھٹو ملک کی ساری قیادت میں سب سے جوان، سب سے زیادہ پڑھے لکھے اورسب سے زیادہ روشن خیال ہیں مگر بدقسمتی سے وہ پنجاب کی یوتھ کو اپنی طرف متوجہ نہیں کر پائے۔
بلاول سوچتے ہونگے کہ اب بھی وقت انکے ساتھ ہے انکے پاس اب بھی نیا بیانیہ بنانے، نئے نعرے دینے یا نیا منشور لانے کیلئے بہت وقت پڑا ہے انکے سارے سیاسی حریف انکے مقابلے میں اتنے بوڑھے ہیں کہ پانچ دس سال بعد بلاول کو میدان صاف ملے گا اور وہ ملک کے سب سے تجربہ کارسیاست دان تصور ہونگے، دیکھنا یہ ہو گا کہ بلاول اپنے آپ کو آنے والے دنوں کیلئے کیسے تیار کرتے ہیں۔ انکے نانا اور والدہ عوامی مقبولیت کے راستے اقتدار میں آئے قبولیت والوں کو انہیں باامر مجبوری قبول کرنا پڑا بلاول قابل قبول تو ہیں لیکن پنجاب اورخیبر پختونخوا میں اتنے مقبول نہیں ہیں کہ انہیں وزارتِ عظمیٰ کا تاج مل سکے۔ کاش وہ اپنی ذہانت اور لیڈر شپ کو عوام کے مسائل حل کرنے کی طرف موڑ پائیں اور اقتدار میں آنے سے پہلے ان مسائل کا حل تلاش کریں مسائل کا حل ہی انکا منشور بن سکتا ہے ….
بشکریہ جنگ نیوز اردو