Tag Archives: جاوید چوہدری

ارجنٹائن تمام



ترتونی فیملی (Tortoni) کا تعلق اٹلی سے تھا‘ یہ لوگ اٹھارہویں صدی میں اٹلی سے فرانس شفٹ ہوئے اور خوراک اور کافی کے بزنس میں قدم رکھ دیا‘ خاندان نے 1800 میں پیرس کے بلیوارڈ ڈی اٹالینز پر کیفے ترتونی کے نام سے پہلی کافی شاپ کھولی‘ یہ کیفے اپنی کافی‘ کیک‘ پیسٹریوں‘ چاکلیٹ‘ آئس کریم اور سینڈوچز کی وجہ سے چند ہی برسوں میں فرانس کی ایلیٹ فیملیز میں مشہور ہو گیا اور شاہی خاندان کے لوگ تک وہاںروزانہ آنے اور بیٹھنے لگے۔

1845میں ترتونی فیملی کا ایک نوجوان جین تون (Jean Touan) بیونس آئرس گیا اور اس نے 1858 میں ایونیو مائیو پر کیفے ترتونی کے نام سے کافی شاپ کھول لی‘ یہ بیونس آئرس کا پہلا فائیو اسٹار کیفے تھا‘ اس کے لیے فرنیچر اٹلی اور فرانس سے منگوایا گیا‘ انٹیریئر ڈیکوریٹر اور آرکی ٹیکٹ بھی پیرس سے آئے جب کہ کراکری چین‘ جاپان اور اسپین سے منگوائی گئی‘ یہ کیفے دیکھتے ہی دیکھتے ارجنٹائن کی ایلیٹ فیملیز‘ سیاست دانوں‘ مصوروں‘ موسیقاروں اور کھلاڑیوں میں مقبول ہو گیا‘ لوگ قطار میں لگ کر میز بک کراتے تھے اور اپنی شامیں بیونس آئرس کے اعلیٰ طبقے کے ساتھ گزارتے تھے۔

کیفے نے سو سال قبل لیچے میری نیگاڈا (Leche Merengada) کے نام سے اپنی آئس کریم لانچ کی‘ ارجنٹائن کی مشہور شاعرہ ‘ناول نگار اور موسیقار ماریا ایلینا ویلش نے اس آئس کریم پر گانا بنا کر اسے پوری دنیا میں مشہور کر دیا‘ ترتونی کیفے مشہور گلوکار کارلوس گارڈل (Gardel) کو اتنا پسند تھا کہ اس نے کیفے میں اپنے لیے ایک میز مستقل طور پر ریزرو کرا لی‘ یہ میز آج بھی اس کے لیے ریزرو ہے اور لوگ اس کے ساتھ کھڑے ہو کر تصویریں بنواتے ہیں۔
ہم بیونس آئرس کے دوسرے دن کیفے ترتونی پہنچ گئے‘ کیفے صدارتی محل سے دس منٹ کی واک پر ہے‘ آپ صدارتی محل کی طرف پشت کر کے چلنا شروع کر دیں ٹھیک دس منٹ بعد آپ کے دائیں ہاتھ پر کیفے ترتونی ہو گا‘ ایونیو مائیو کی دونوں طرف کلونیل اسٹائل کی بڑی بڑی عمارتیں ہیں‘ تمام عمارتیں سڑک کی طرف کھلتی ہیں اوران کے درمیان کیفے ترتونی کی چھوٹی سی تختی لگی ہے‘ ہمیں یہ تختی نظر نہیں آئی لیکن ہم اس کے باوجود ٹھیک کیفے کے سامنے پہنچ گئے‘ کیسے؟

یہ نسخہ ہمیں ڈرائیور نے بتایا تھا‘ اس کا کہنا تھا آپ ایونیو مائیو پر چلنا شروع کر دیں‘ آپ کو جس عمارت کے سامنے لائین نظر آئے وہ کیفے ترتونی ہو گا اور ہمیں ٹھیک دس منٹ بعد سڑک پر لمبی قطار نظر آ گئی‘ ہم وہاں رک گئے اور وہ واقعی کیفے ترتونی تھا‘ سیاح اور ارجنٹائن کے اپنے لوگ ترتونی میں بیٹھنا اعزاز سمجھتے ہیں‘ یہ قطاروں میں کھڑے ہو کر کیفے میں داخل ہوتے ہیں‘ ہمیں 40 منٹ قطار میں کھڑا ہونا پڑا‘ اس دوران کیفے کا منیجر باہر آتا تھا اور باری باری لوگوں کو اندر لے کر جاتا تھا۔

ہماری باری آئی تو میں سہیل مقصود کے ساتھ کیفے میں داخل ہو گیا‘ کیفے اندر سے قدیم لیکن انتہائی خوب صورت تھا‘ فرش‘ دیواریں اور چھت آبنوسی لکڑی کی تھیں اور فرنیچر فرنچ اسٹائل تھا‘ ویٹر بھی انتہائی مہذب اور خدمت گزار تھے‘ ہمیں بتایا گیا شام کے وقت یہاں روزانہ جاز میوزک اور ٹینگو ڈانس ہوتا ہے‘ ہم نے کافی منگوائی اور اسے دیر تک انجوائے کیا‘ یہ لوگ ایک خاص قسم کے بسکٹ الفاہور(Alfajor) بھی بناتے ہیں‘ یہ دو پرتوں پر مشتمل ہوتے ہیں جن کے درمیان میں مختلف اشیاء کا پیسٹ ہوتا ہے اور یہ انتہائی خستہ اور میٹھے ہوتے ہیں‘ ترتونی کے الفاہور ان کا شیف خود بناتا ہے۔

ترتونی میں کیک رس ٹائپ کا ایک لمبا بسکٹ بھی بنایا جاتا ہے‘ لوگ اسے بہت پسند کرتے ہیں‘ دیواروں پر پرانی تصویریں اور پینٹنگز لگی تھیں‘ مجھے دنیا کی قدیم ترین کافی شاپس میں جانے کا اتفاق ہو چکا ہے‘ پیرس کی قدیم ترین کافی شاپ کیفے پروکوپ (Procope) ہے (یہ 1652 میں بنی تھی)۔

ترکی کے شہر غازی انتب کا تہامس کیفے ‘ بڈاپسٹ کا نیویارک کیفے ‘ روم کی قدیم ترین کافی شاپ اینٹیکو (Antico) (یہ 1760 میں بنی تھی)‘ آکسفورڈ کی 1652ء کی کافی ہو یا پھر پیرس کے کیفے ڈی فلورا اور فوگٹ ہوں یا پھر وارسا کا کیفے شیبے (Shabby) یا پھر قاہرہ کے خان خلیلی بازار اور تیونس شہر کی نیلی دیواروں کے کیفے ہوں مجھے دنیا کے قدیم ترین اور شان دار ترین کافی شاپس میں جانے کا اتفاق ہوا‘ کافی شاپس کے اس البم میں کیفے ترتونی بھی شامل ہو گیا اور میں نے اسے ٹھیک ٹھاک انجوائے کیا۔

ارجنٹائن اس وقت انفلیشن میں دنیا کا بدترین ملک ہے‘ ہم 7 اکتوبر 2023کو بیونس آئرس پہنچے تو اس دن ایک ڈالر 850 پیسو کے برابر تھا‘ ہم آٹھ دن وہاں رہے‘ اس دوران کرنسی 1100 پیسو تک پہنچ گئی‘ ایجنٹ بازاروں اور چوکوں میں کھڑے ہو کر ڈالر ڈالر کی صدائیں لگاتے تھے‘ ہم تین سو یوروز یا ڈالرز تبدیل کراتے تھے اور ہمارے لیے نوٹ اٹھانا مشکل ہو جاتے تھے‘ سب سے بڑا نوٹ دو ہزار پیسو کا تھا اور یہ بھی مئی 2023 میں لانچ ہوا تھا‘بھکاری بھی ڈالر مانگتے تھے۔

ڈالر کا سرکاری ریٹ 350 جب کہ اوپن مارکیٹ میں 1100 پیسو تھا چناں چہ ہم اگر کریڈٹ کارڈ استعمال کرتے تھے یا ہوٹلوں اور ریستورانوں میں ڈالرز میں ادائیگی کرتے تھے تو ساڑھے تین سو پیسو کے حساب سے کٹوتی ہوتی تھی‘ یہ حقیقت مجھے ارجنٹائن کے سفیر نے اسلام آباد میں بتائی تھی مگر میں نے اسے سیریس نہیں لیا تھا لیکن ہم نے جب ائیرپورٹ پر ٹیکسی لی اور وہ ہمیں 58 یوروز میں پڑی تو اپنی حماقت کا احساس ہو گیا کیوں کہ ہم اگر لوکل کرنسی میں ادائیگی کرتے تو یہ رقم 12 یوروز ہوتی۔

ہم نے ائیرپورٹ سے کافی بھی لی‘ کریڈٹ کارڈ سے اس کی رقم 14 ڈالر تھی جب کہ لوکل کرنسی میں یہ 6 ڈالر تھی مگر اس ہائی انفلیشن کے باوجود لوگ مزے سے زندگی گزار رہے ہیں۔

ارجنٹائن اب تک 9 بار ڈیفالٹ کر چکا ہے لہٰذا اگر ڈیفالٹ دیکھے جائیں‘ انفلیشن (مہنگائی) دیکھی جائے یا پھر دنیا کے امیر ترین ملک کو غریب ترین ملک میں بدلتے ہوئے دیکھا جائے تو بھی دنیا اس کا کچھ نہیں بگاڑ سکی جس سے یہ ثابت ہوتا ہے اگر ارجنٹائن خوف ناک معاشی بحران کے باوجود زندہ ہے اور یہ چل بھی رہا ہے تو پھر ہمیں کوئی خطرہ نہیں‘ ہم پاکستانی اس سے کہیں بہتر پوزیشن میں ہیں‘ ہمارے ملک میں ڈالر آج بھی 280 روپے میں ملتا ہے چناں چہ فکر کی کوئی بات نہیں۔

ارجنٹائن پاکستانیوں کو ویزے نہیں دیتا‘ کیوں؟ اس کی تین وجوہات ہیں‘ پاکستان اور ارجنٹائن کے درمیان کبھی بہت اچھے تعلقات ہوتے تھے مگر پھر یہ تعلقات خراب ہو گئے اور کسی نے انھیں ٹھیک کرنے کی کوشش نہیں کی‘ ارجنٹائن نے اسلام آباد میں 1973 میں پارک تک بنوا کر دیا تھا‘ یہ پارک آج بھی میلوڈی میں پولی کلینک اسپتال کے قریب واقع ہے اور اس پر ارجنٹینا پارک لکھا ہے‘ 1990 کی دہائی میں ارجنٹائن ایمبیسی کے ایک افسر کو گرفتار کیا گیا تھا‘ اس پر اسرائیل کے لیے پاکستان کے ایٹمی پروگرام کی جاسوسی کا الزام تھا‘ اس کی گرفتاری کے بعد تعلقات خراب ہو گئے۔

دوسرا مرحلہ یوں آیا‘ بیونس آئرس میں غالباً1994 میں دھماکے ہوئے‘ان میں ایران کے ملوث ہونے کا شبہ ظاہر کیا گیا لیکن پولیس نے ارجنٹائن میں موجود کئی پاکستانیوں کو گرفتار کر لیا‘ ان میں گجرات کے لوگ بھی شامل تھے‘ چوہدری شجاعت حسین اس وقت وزیر داخلہ تھے، انھوں نے ارجنٹائن حکومت کے سامنے پاکستانیوں کی گرفتاری کا ایشو اٹھایا لیکن دوسری طرف سے کوئی حوصلہ افزاء جواب نہیں ملا‘ اس کے نتیجے میں سفارتی تعلقات صفر ہو گئے اور یہ اب تک زیرو ہیں‘ حکومت کو اب اس پالیسی کا ازسر نو جائزہ لینا ہوگا‘ ارجنٹائن میں ہمارے سفیر کی پوسٹ خالی ہے‘ ہمیں فوری طور پر وہاں کوئی سینئر سفیر بھی بھجوانا چاہیے اور دونوں ملکوں کے درمیان ویزا سروس بھی بحال کرانی چاہیے۔

ارجنٹائن میں پوری دنیا سے سیاح جاتے ہیں‘ پاکستانیوں کو بھی ان میں شامل ہونا چاہیے‘ وہاں ہنرمندوں کی بھی ٹھیک ٹھاک گنجائش ہے‘ بزنس کے مواقع بھی ہیں‘ ارجنٹائن دو سال میں نیشنلٹی بھی دے دیتا ہے لہٰذا ہم اگر اس کے ساتھ سفارتی تعلقات بحال کر لیں تو ہمارے ہنرمند بھی جا سکتے ہیں‘ بزنس بھی شروع ہو سکتا ہے اور سیاحتی سرگرمیاں بھی ہو سکتی ہیں‘ میری ارجنٹائن میں پاکستان کے چارج ڈی افیئر شفیع اعوان سے ملاقات ہوئی‘ یہ مثبت اور متحرک انسان ہیں‘ لوگ ان کی تعریف کرتے ہیں۔

ارجنٹائن کی دو اور روایات بھی حیران کن ہیں‘ پورے ملک میں ٹیکسی اور بسوں کے لیے قطاریں بنائی جاتی ہیں‘ لوگ اسٹینڈ پر پہنچ کر چپ چاپ قطار میں کھڑے ہو جاتے ہیں اور اپنی باری پر ٹیکسی اور بس میں سوار ہو جاتے ہیں‘ مجھے کسی جگہ کوئی ہڑبونگ نظر نہیں آئی‘ دوسرا ارجنٹائن میں ائیرپورٹس پر بورڈنگ پاس کے لیے الگ رقم وصول کی جاتی ہے اور جہاز کے اندر لے جانے والے بیگ کا کرایہ بھی ادا کرنا پڑتا ہے‘ ہمیں یہ حرکت عجیب محسوس ہوئی۔

ائیرہوسٹسز میں شی میل بھی شامل ہیں اور لینڈنگ کے بعد پوری فلائیٹ تالی بجاتی ہے‘ قسطوں پر اشیاء خریدنے کا رجحان بھی عام ہے‘ سبزی تک قسطوں میں خریدی جاتی ہے لہٰذا پورا ملک مقروض ہے اور قسطیں دیتا رہتا ہے۔

بشکریہ روزنامہ ایکسپریس

انٹار کٹیکا تک



تحریر:۔ جاوید چوہدری

قطب جنوبی کے ہمسائے میں ٹرین کا سفر بھی حیران کن تجربہ تھا‘ دائیں بائیں پہاڑی گلیشیئر تھے‘ دامن میں جنگل تھا اور جنگل میں جگہ جگہ دریا اور جھیلیں تھیں اور ان کے ساتھ جنگلی گھوڑے چر رہے تھے‘ جنگل میں گھوڑوں کی مختلف نسلیں آوارہ پھر رہی تھیں‘ یہ اسی جنگل میں پیدا ہوتے ہیں‘ اسی میں بڑے ہوتے ہیں اور پھر اسی میں بوڑھے ہو کر مر جاتے ہیں۔

جنگل میں پرندوں اور گھوڑوں کے لیے الگ الگ اسپتال بھی تھے جن میں روزانہ ڈاکٹرز آتے ہیں‘ گلیشیئرز کی وجہ سے جنگلوں کے مختلف حصے گل سڑ چکے تھے جب کہ مختلف جگہوں پر دلدلیں بھی ہیں‘ ٹرین کے ساتھ ساتھ واکنگ ٹریکس تھے اور ان پر سیاح ٹریکنگ کر رہے تھے۔

اسرائیل سے جہاز کے جہاز اشووایا آتے ہیں اور زیادہ تر اسرائیلی سیاح نیشنل پارک میں ٹریکنگ کرتے ہیں‘ دنیا کے آخری سرے پر ٹریکنگ یقینا دلچسپ تجربہ ہے لیکن بعض اوقات سیاح جنگلی گھوڑوں اور جانوروں کا نشانہ بھی بن جاتے ہیں اور شدید سردی اور یخ ہوا سے بیمار بھی پڑ جاتے ہیں۔

پارک میں مختلف جگہوں پر برف تھی‘ شہر میں دو دن قبل ٹھیک ٹھاک برف باری ہوئی تھی‘ ارجنٹائن میں گرمیاں شروع ہو چکی ہیں مگر اشووایا میں گرمیوں میں بھی برف باری ہو جاتی ہے‘ قطب جنوبی کا موسم باقی دنیا سے چھ ماہ پیچھے ہے‘ ہماری گرمیوں میںاس علاقے میں سردیاں پڑتی ہیں اور ہماری سردیوں میں وہاں گرمیاں ہوتی ہیں۔

لہٰذا یہاں جون جولائی میں برفیں پڑتی ہیں اور دسمبر میں لوگ ننگے ہو کر بینچز پر لیٹے ہوتے ہیں مگر اشووایا کی گرمیاں بھی ٹھٹھری رہتی ہیں‘ نیشنل پارک میں برفیلے پہاڑوں کے درمیان تازہ برف کے آثار موجود تھے اور ان برفیلے پہاڑوں‘ برفیلے جنگلوں‘ ٹھٹھری ہوئی جھیلوں اور آوارہ پھرتے گھوڑوں کے درمیان چھک چھک اسٹیم ٹرین چل رہی تھی اور دنیا جہاں کے سیاح کھڑکیوں کے ساتھ ناک لگا کر وڈیوز اور تصویریں بنا رہے تھے۔

ٹرین راستے میں دو جگہ رکی اور پھر اس نے واپسی کا سفر شروع کر دیا‘ آخری اسٹیشن کے بعد نوکلو میٹر کا ٹریک تھا جس کے آخر میں ’’اینڈ آف دی ورلڈ‘‘ تھا‘ اس پوائنٹ سے آگے بیگل سی ہے اور بیگل سی کے آخری سرے پر انٹارکٹیکا کے موٹے گلیشیئرز اور برفیں ہیں اور ان برفوں میں پینگوئن رہتے ہیں‘ ہم پہلے دن اینڈ آف دی ورلڈ نہیں جا سکے تھے۔

ہم دوسرے دن ٹیکسی پر دنیا کے آخری کونے پر پہنچے تھے‘ اس سے قبل جنگل میں آخری کافی شاپ‘ آخری واش روم‘ آخری سرکاری عمارت‘ آخری رہائش گاہ (پاڈز) اور آخری جھیل تھی اور ان کے بعد وہ ڈیک تھا جس پر پہنچ کر دنیا ختم ہو جاتی ہے۔

ہم ڈیک پر پہنچے تو وہاں کھڑا ہونا مشکل تھا‘ ہوا کا دباؤ بھی ناقابل برداشت تھا اور سردی بھی لہٰذا تمام لوگ چند سیکنڈز بعد دوڑ کر گاڑی میں پناہ لے لیتے تھے‘ ہم نے بھی یہی کیا اور بھاگ کر ٹیکسی میں واپس آ گئے مگر یہ دوسرے دن کی بات تھی۔

ہم پہلے دن اچھے بچوں کی طرح ٹرین کے ذریعے واپس آ گئے تھے اور اس کے بعد ٹیکسی پر شہر پہنچ گئے تھے‘ شہر چار بجے کے بعد جمنے لگتا ہے لہٰذا سیاح کان لپیٹ کر ریستورانوں میں پناہ لیتے ہیں‘ اشووایا کا سینٹر خوبصورت اور صاف ستھرا ہے‘ ریستوران اور کافی شاپس بھی معیاری ہیں‘ ہم نے ایک ریستوران میں گھس کر کنگ کریپ کا سوپ اور تازہ سالمن فش پھڑکائی اور پھر کان لپیٹ کر ہوٹل پہنچ گئے۔

ہم نے دوسرا دن بیگل چینل (Beagle channel) کے لیے رکھا ہوا تھا‘ بیگل اشووایا اور انٹار کٹیکا کے سمندر کے درمیان سمندری پانی کی ایک پٹی ہے‘ اس پر دنیا کا آخری لائیٹ ہاؤس آتا ہے اور پینگوئن کے جزیرے بھی‘ پینگوئن انٹار کٹیکا اور اشووایا کے درمیان سفر کرتے رہتے ہیں‘ یہ بیگل چینل کے جزیروں میں آتے ہیں‘ انڈے سیتے ہیں۔

بچوں کو ساتھ لیتے ہیں اور دوبارہ انٹارکٹیکا چلے جاتے ہیں‘ بیگل چینل کے آخر میں پانی پر تیرتے ہوئے گلیشیئرز ہیں‘ سمندر کے کنارے مختلف کمپنیوں کے بوتھ ہیں‘ سیاح ٹکٹ خرید کر ان کے جہازوں کے ذریعے سمندر میں جاتے ہیں‘ جہاز صبح نو بجے چلتے ہیں اور شام کو مختلف جزیروں سے گزرتے اور رکتے ہوئے واپس آ جاتے ہیں‘ ہم نے پہلے دن بکنگ کی کوشش کی مگر سمندر میں تیز ہوا کی وجہ سے جہاز کینسل ہو گئے۔

ہم دوسرے دن صبح ساڑھے آٹھ بجے دوبارہ پہنچ گئے لیکن موسم کی خرابی کی وجہ سے جہاز اس دن بھی نہ گیا‘ ہمارے پاس اب کرنے کے لیے کچھ نہیں تھا‘ ہم نے سارے دن کے لیے ٹیکسی بک کی اور اشووایا کے مضافات میں نکل گئے‘قریب ترین شہر تولین 150 کلو میٹر کے فاصلے پر تھا‘ ہم اس طرف نکل گئے‘ راستہ بہت خوب صورت تھا‘ ایک طرف پہاڑ تھے‘ ان پر گلیشیئر تھے اور دوسری طرف جھیلیں تھیں۔

ان میں دو جھیلوں پر باقاعدہ سمندر کا گمان ہوتا تھا‘ راستے میں لکڑی کے کارخانے بھی تھے‘ ڈرائیور نے بتایا لکڑی اور مچھلی اس علاقے کے دو بڑے روزگار ہیں‘ اشووایا میں ٹیکس فری ہونے کی وجہ سے موبائل فون اور لیپ ٹاپس کی فیکٹریاں بھی لگ رہی ہیں جن کی وجہ سے پورے ملک سے پڑھے لکھے ہنر مند لوگ اشووایا آ رہے ہیں‘ تولین ایک سست اور گندا سا ٹاؤن تھا‘ اس میں کسی قسم کی کوئی سرگرمی نہیں تھی۔

ہم وہاں جا کر بہت مایوس ہوئے‘ ڈرائیور ہمیں واپسی پر جنگل میں لے گیا‘ وہاں ایک کچا راستہ تھا جس کے آخر میں ایک چھوٹی سی پورٹ تھی‘ اس پورٹ کی صرف دو خوبیاں تھیں‘ وہاں سے چلی کی پورٹ اور پہاڑیاں صاف دکھائی دیتی تھیں‘ دونوں ملکوں کے درمیان پانچ منٹ کا آبی راستہ تھا‘ چلی کے مچھیرے یہ راستہ عبور کر کے ارجنٹائن آ جاتے تھے اور ارجنٹائن کے فشرمین چلی چلے جاتے ہیں۔

ہمیں دونوں سائیڈز پر سرگرمی دکھائی دے رہی تھی‘ پورٹ کی دوسری خوبی اس کا جنگلی راستہ تھا‘ پورے راستے میں لوگوں نے عارضی گھر بنا رکھے تھے‘ ان گھروں میں شہر کے ہنگاموں سے بیزار لوگ رہتے ہیں‘ یہ آتے ہیں۔

ایک دو دن جنگل میں گزارتے ہیں اور واپس لوٹ جاتے ہیں‘ یہ گھر بجلی‘ گیس اور پانی سے محروم ہیں لہٰذا لوگ وہاں قدرتی زندگی گزارنے آتے ہیں‘ جنگل گھنا تھا اور وہ سمندر کی طرف کھلتا تھا‘ ہم وہاں سے واپسی کے بعد نیشنل پارک گئے اور اینڈ آف دی ورلڈ دیکھا۔

ارجنٹائن کے لوگ صاف ستھرے‘ مہذب اور پڑھے لکھے ہیں‘ یہ چھوٹی ملازمتیں نہیں کرتے لہٰذا ٹیکسی سے لے کر سبزی فروش تک بولیویا‘ پیرو اور پیرا گوئے کے لوگ ہیں‘ ہمارا ٹیکسی ڈرائیور بھی بولیویا سے تعلق رکھتا تھا‘ اس کا نام عمر تھا لیکن وہ مسلمان نہیں تھا‘ لاطینی امریکا میں عمر نام کامن ہے۔

کیوں؟ اس کا جواب کسی کے پاس نہیں ‘ عمر نے بتایا‘ لاطینی امریکا کے زیادہ تر لوگ محنت مزدوری کے لیے ارجنٹائن آتے ہیں لیکن یہ اب واپس جانا چاہتے ہیں کیوں کہ ارجنٹائن کے معاشی حالات ان کے اپنے ملکوں سے زیادہ خراب ہیں‘ عمر بھی اپنے ملک واپس جانا چاہتا تھا تاہم اس کا کہنا تھا بولیویا میں جرائم بہت زیادہ ہیں‘ اس لیے وہ بولڈا سٹیپ نہیں لے پا رہا‘ اشووایا میں دنیا کی آخری جیل بھی ہے۔

یہ جیل 1902 میں اسٹارٹ ہوئی تھی اور 1947ء میں بند کر دی گئی تھی‘ یہ دوبارہ 1994 میں کھولی گئی لیکن اس بار اسے میوزیم بنا دیا گیا‘ جیل کے ایک حصے کو انٹارکٹیکا میں میوزیم کے لیے وقف کر دیا گیا ہے‘ مجھے وہاں جا کر پتا چلا 1520 میں انٹار کٹیکا کی پہلی مہم اس علاقے میں پہنچی تھی‘ اس وقت تک یہاں ریڈ انڈینز رہتے تھے‘ یہ غیرانسانی زندگی گزار رہے تھے‘ ننگ دھڑنگ رہتے تھے‘ چھوٹی کشتیوں میں مچھلیوں کا شکار کرتے تھے۔

غاروں میں آگ جلا کر سردیاں گزارتے تھے اور ہڈیوں اور پتھروں کے آلات اور ہتھیار بناتے تھے‘ یہ کپڑوں اور جوتوں تک کی ٹیکنالوجی سے نابلد تھے‘ یورپی باشندے آئے اور انھوں نے سب سے پہلے انھیں کپڑے پہنانے شروع کیے مگر یہ لوگ کپڑے پہننے کے بعد تیزی سے بیمار ہوتے اور مرتے چلے گئے۔

تحقیق کے بعد پتا چلا یہ لوگ بارشوں اور برف کی وجہ سے زیادہ صاف ستھرے رہتے تھے‘ بارش کے بعد یہ لوگ آگ جلا کر خود کو سکھا لیتے تھے لہٰذا بارش اور آگ کی وجہ سے یہ ہر قسم کے جراثیم سے محفوظ رہتے تھے لیکن جب انھیں کپڑے پہنائے گئے تو ان کے جسم پر جراثیم پنپنے لگے اور یوں یہ چند دنوں میں مرنے لگے یہاں تک کہ ان کی آبادی تیزی سے ختم ہوتی چلی گئی۔

آج کے ماہرین کا خیال ہے 1520 سے 1550کے درمیان اس مشاہدے نے آگے چل کر یورپی اقوام کو ’’سن باتھ‘‘ اور سوانا کا تصور دیا تھا‘ یورپ کی تمام اقوام گرمیوں میں ساحلوں پر سن باتھ اور سردیوں میںا سٹیم باتھ اور سوانا لیتی ہیں۔

اس سے ان کی صحت بہتر اور عمر لمبی ہو رہی ہے‘ ہمیں میوزیم میں ریڈ انڈینز کی رہائش گاہیں اور کلچر بھی دیکھنے کا اتفاق ہوا‘ یہ بھی معلوم ہوا اشووایا ساڑھے چار ہزار برس قبل ساڑھے بارہ سو فٹ موٹا گلیشیئر تھا‘ برف آہستہ آہستہ پگھلی اور اس کے نیچے سے زمین اور چٹانیں نکل آئیں اور پھر یہاں شہر آباد ہوگیا مگر گلیشیئر کی برفیں آج بھی اس کو ڈھانپنے کے لیے تیار رہتی ہیں اور ماہرین کا خیال ہے یہ کسی بھی وقت دوبارہ برف میں گم ہو جائے گا۔

ہم نے اشووایا میں آخری شام ریستورانوں میں خوراک تلاش کرنے میں خرچ کی اور اگلی صبح بیگل چینل اور انٹارکٹیکا کی حسرت کے ساتھ بیونس آئرس واپس لوٹ گئے مگر اپنا دل اشووایا کے گلیشیئرز پر ہی چھوڑ آئے‘ ہم ایک بار پھر یہاں ضرور آئیں گے اور ان شاء اﷲ اپنی ادھوری حسرت پوری کریں گے‘ ہم نے اشووایا کے ساتھ یہ وعدہ کر لیا۔

بشکریہ ایکسپریس نیوز اردو

7964



تحریر:۔ جاوید چوہدری

وہ ایک بدصورت لڑکی تھی‘ رنگت سیاہ تھی‘ ہونٹ موٹے تھے‘ بال کرلی اور الجھے ہوئے‘ ہاتھ اور پائوں بھرے‘ آواز بیٹھی ہوئی‘ کندھے جھکے ہوئے‘ آنکھیں باہر کی طرف ابلی ہوئیں‘ کمر اندر کی طرف دبی ہوئی اور ناک پکوڑا سی۔

اس کے چہرے کی جلد بھی اللہ معاف کرے گوبر کے اوپلے کی طرح کھردری اور لکیر دار تھی‘ وہ کسی زاویے‘ کسی اینگل سے خوب صورت دکھائی نہیں دیتی تھی لیکن وہ اس کے باوجود کمپنی کی کامیاب ترین سیلز گرل تھی‘ وہ نیویارک کی ایک گروسری چین میں کام کرتی تھی‘ امریکا میں اس چین کے سیکڑوں اسٹور تھے‘ نیویارک میں بڑا اسٹور تھا اور وہ اس بڑے اسٹور کی سیلز گرل تھی‘ کمپنی ہر مہینے عملے کی کارکردگی کا جائزہ لیتی تھی‘ وہ ہر جائزے میں پہلے نمبر پر آتی تھی۔

انتظامیہ اس کی کارکردگی پر حیران تھی‘ کمپنی کے صدر نے ایک دن اس سے کام یابی کا گر پوچھ لیا‘ یہ کمپنی کی سالانہ میٹنگ تھی‘ میٹنگ میں صرف ایگزیکٹوز اور ڈائریکٹرز شریک تھے‘ وہ کمپنی کی تاریخ کی واحد ملازمہ تھی‘ جسے ڈائریکٹرز اور ایگزیکٹوز نے اس اعلیٰ ترین میٹنگ میں شرکت کی دعوت دی اور اس سے کمپنی کے پالیسی سازوں کے سامنے کامیابی کا گر پوچھا گیا‘ کمپنی کا صدر میٹنگ کو چیئر کر رہا تھا‘ وہ اس بدصورت لیکن کامیاب ترین سیلز گرل کے چہرے پر نظریں جمائے بیٹھا تھا۔

لڑکی نے مسکرا کر جواب دیا ’’دو گر ہیں‘‘ میٹنگ میں موجود تمام گرو اسے غور سے دیکھنے لگے‘ اس نے جواب دیا ’’ پہلا گر میری جسمانی بدصورتی ہے‘ میرے جسم میں کوئی چیز خوب صورت نہیں تھی‘ میں بچپن ہی میں اپنی اس خامی کو سمجھ گئی چناںچہ میں نے اپنے ذہن‘ اپنی اخلاقیات اور اپنی زبان کو خوب صورت بنا لیا‘ مجھے دیکھنے والے مجھے مسترد کر دیتے ہیں لیکن مجھ سے ملنے والے‘ میرے ساتھ گفتگو کرنے والے اور میرے ساتھ ڈیل کرنے والے مجھے کبھی بھول نہیں پاتے‘ یہ مجھے ہمیشہ یاد رکھتے ہیں‘‘۔

اس نے سانس لیا اور اس کے بعد بولی ’’ اور دوسرا گر میرا دوسرا پھیرا ہے‘ میں اپنے کسٹمر کو کائونٹر پر کھڑا کرتی ہوں اور اس کے پاس دو بار آتی ہوں‘‘ میٹنگ میں شریک ڈائریکٹرز کو پہلی بات فوراً سمجھ آگئی‘ یہ جان گئے کمپنی کی بدصورت ترین سیلز گرل اخلاقیات‘ گفتگو اور ڈیل میں خوب صورت ترین ہے چناںچہ یہ اپنے لب ولہجے‘ انداز گفتگو اور مینرز کے ذریعے گاہکوں کو گرفت میں لے لیتی ہے لیکن انھیں دوسرے پھیرے کا گر سمجھ نہ آیا لہٰذا وہ آنکھیں پھاڑ پھاڑ کر اس کی طرف دیکھنے لگے۔

خاتون مسکرائی اور نرم لہجے میں بولی ’’ فرض کیجیے‘ آپ میرے کسٹمر ہیں‘ آپ میرے کائونٹر پر ایک کلو گرام چینی لینے آتے ہیں‘ میں اسٹور میں جائوں گی‘ کلو گرام کے تھیلے میں ذرا سی چین کم ڈالوں گی‘ یہ تھیلا گاہک کے سامنے لائوں گی‘ اسے ترازو میں رکھوں گی‘ چینی کم ہوگی‘ میں وہ تھیلا اور وہ گاہک وہاں چھوڑ کر اسٹور میں جائوں گی اور وہاں سے باقی چینی لے کر دوبارہ واپس آئوں گی‘ میرے دوسری بار اندر جانے‘ واپس آنے اور تھوڑی سی چینی زیادہ ڈالنے سے گاہک کو اپنی اہمیت کا احساس ہو گا‘ وہ مجھ سے متاثر ہو جائے گا چناںچہ وہ ہر بار ہمارے اسٹور سے گروسری خریدے گا‘ وہ ہر بار مجھ سے سودا خریدنے کی کوشش بھی کرے گا‘‘۔

بورڈ آف ڈائریکٹرز کے لیے یہ ایک عجیب گر تھا‘ ڈائریکٹرز سیلز نے کرسی پر پہلو بدلا اور اس سے مخاطب ہوا ’’ ملیا لیکن ہمارے اسٹور کی زیادہ تر مصنوعات پیکٹس میں ہوتی ہیں‘ آپ ان کا وزن نہیں کر سکتیں‘‘ ملیا مسکرائی اور پورے یقین سے بولی ’’ سر میں گاہک کی ٹوکری میں سے کوئی پیکٹ اٹھاتی ہوں‘ اس کا وزن کرتی ہوں‘ وہ پیکٹ اگر وزن میں کم ہوتو میں اس کی جگہ پورے وزن والا پیکٹ رکھ دیتی ہوں اور اگر تمام پیکٹس کا وزن کم ہو تو میں ڈبے کھول کر اس پیکٹ کا وزن پورا کر دیتی ہوں‘ گاہک میری اس توجہ سے متاثر ہو جاتا ہے‘‘۔

ڈائریکٹر سیلز نے پوچھا ’’کیا دوسری سیلز گرلز ایسا نہیں کرتیں‘‘ ملیا نے مسکرا کر جواب دیا ’’ سر وہ خوب صورت ہیں اور خوب صورتی کو تکنیک کی ضرورت نہیں ہوتی‘ خوب صورت لوگ اپنے خوب صورت فگر‘ اپنی خوب صورت آنکھوں‘ اپنے خوب صورت ہونٹوں‘ اپنے گورے رنگ‘ اپنے قد کاٹھ اور اپنے خوب صورت ہاتھوں اور پائوں کو اپنی طاقت سمجھ لیتے ہیں‘ یہ اسے اپنا سیلز پوائنٹ بنا لیتے ہیں اور یہ بھول جاتے ہیں لوگوں کو آپ کی مسکراہٹ اپنی طرف متوجہ تو کر سکتی ہے‘یہ انھیں اپنے پاس ٹھہرا نہیں سکتی‘ مریضوں کو اچھی نرس چاہیے ہوتی ہے‘ خوب صورت نرس نہیں‘ آپ انتہائی خوب صورت نرس ہیں لیکن آپ مریض کے بازو کی غلط جگہ پر انجیکشن لگا دیتی ہیں تو کیا مریض آپ کی خوب صورتی کی وجہ سے خاموش رہے گا‘ ہرگز نہیں‘ وہ طوفان کھڑا کر دے گا۔

لوگ خوب صورت ماڈل کی وجہ سے فریج کا اشتہار تو دیکھ لیتے ہیں لیکن یہ جب بھی فریج خریدیں گے یہ فریج کی کارکردگی کو ذہن میں رکھ کر خریدیں گے‘ یہ ماڈل کے حسن کے جلوئوں کو دیکھ کر نہیں خریدیں گے‘ اخلاقیات‘ بی ہیویئر اور آپ کی شائستگی آپ کی اصل طاقت ہوتی ہے اور آپ کو اس طاقت کا استعمال سیکھنا چاہیے‘‘ وہ رکی اور دوبارہ بولی ’’ اور دوسری بات میری دوسری کولیگز اپنا پھیرا بچانے کے لیے عموماً اسٹور سے لفافے میں زیادہ چینی ڈال کر لاتی ہیں‘ یہ گاہک کے سامنے چینی تولتی ہیں‘ لفافے میں موجود زائد چینی نکالتی ہیں اور ایک کلو گرام کا پیکٹ بنا کر گاہک کو دے دیتی ہیں‘ یہ چینی پوری ہوتی ہے لیکن گاہک کیوںکہ لفافے سے چینی نکلتے دیکھتا ہے لہٰذا وہ سمجھتا ہے۔

سیلز گرل نے اسے پوری چینی نہیں دی اور یہ غلط سوچ اس سیلز گرل اور اسٹور دونوں کو نقصان پہنچاتی ہے چناںچہ میرا خیال ہے‘ ہم اگر اپنے اسٹور میں دوسرے پھیرے کو لازم قرار دے دیں تو ہماری سیل میں بھی اضافہ ہو سکتا ہے اور سیلز مین اور سیلز گرلز کی کارکردگی بھی بہتر ہو سکتی ہے‘‘ اس معمولی سی ٹپ سے بورڈ کے تمام ارکان متاثر ہو گئے‘ وہ اپنی نشستوں سے اٹھے اور ملیا کے لیے تالیاں بجانا شروع کر دیں‘ یہ ملیا بعد ازاں امریکا کی نامور سیلز گرل بنی‘ اس نے نئے سیلز مین اور سیلز گرلز کی ٹریننگ کا سلسلہ شروع کیا اور امریکا کے ہزاروں سیلز مین کو سیلز کی ٹریننگ دی۔

آپ ملیا کی کام یابی پر غور کریں تو آپ کو معلوم ہو گا اس نے اپنی بدصورتی کو اپنی طاقت بنا لیا تھا‘ یہ جان گئی تھی‘ اس کے پاس لوگوں کو متاثر کرنے کے لیے خوب صورت آنکھیں‘ خوب صورت ہونٹ‘ خوب صورت چہرہ‘ خوب صورت گردن اور خوب صورت قد کاٹھ نہیں‘ اس کی چال بھی مستانی نہیں اور اس کا سراپا بھی خوب صورت نہیں چناںچہ اس کے پاس ایک ہی آپشن بچتا ہے‘ یہ اپنے اندر کی ملیا کو اتنا خوب صورت بنا لے کہ اس کی اندرونی اچھائیاں اس کی بیرونی خامیوں پر پردہ ڈال دیں‘ اس کے اندر کی روشنی اس کے باہر کے اندھیرے میں چمک پیدا کر دے۔

ملیا نے اپنے اندر پر توجہ دی اور اس کی پوری کائنات بدل گئی‘ قدرت ہمیں آٹھ ہزار صلاحیتیں دے کر دنیا میں بھجواتی ہے‘ آپ اگر دنیا کے تمام ٹریڈز‘ تمام پیشوں اور تمام کاموں کی فہرست بنائیں تو یہ فہرست 85 کے عدد سے اوپر نہیں جائے گی جب کہ قدرت ہمیں ان 85 پیشوں یا مہارتوں کے لیے آٹھ ہزار صلاحیتیں دے کر دنیا میں بھجواتی ہے‘ ہم اگر ان آٹھ ہزار صلاحیتوں میں صرف دس فیصد کو استعمال کر لیں تو دنیا ہزار سال تک ہمارا نام یاد رکھنے پر مجبور ہو جائے گی۔

دنیا میں ایسے ایسے لوگ گزرے ہیں جو ایک سوئی زمین پر گاڑتے تھے‘ دوسری سوئی لے کر تین گز کے فاصلے پر بیٹھ جاتے تھے‘ یہ دوسری سوئی پھینکتے تھے اور یہ سوئی زمین پر گڑھی سوئی کے ناکے سے گزر جاتی تھی‘ یہ ان آٹھ ہزار صلاحیتوں میں سے ایک صلاحیت کا استعمال تھا‘ بھارت میں آج بھی ایسے لوگ موجود ہیں جو کھائے پیے بغیر دو‘ دو سال گزار دیتے ہیں‘ جانوروں کی بولیاں سمجھنے اور بولنے والے سیکڑوں لوگ موجود ہیں۔

روس میں دنیا کا سرد ترین گائوں اومیاکون (Oymyakon) موجود ہے‘ اس کا درجہ حرارت منفی پچاس سے منفی 70 ڈگری سینٹی گریڈ تک چلا جاتا ہے‘ اس درجہ حرارت میں زندگی ممکن نہیں رہتی مگر اس گائوں میں آج بھی پانچ سو لوگ موجود ہیں‘ یہ لوگ سردی کے موسم میں بھی باہر نکلتے ہیں اور زندگی کے زیادہ تر تقاضے پورے کرتے ہیں‘ مریخ پر زندگی ممکن نہیں مگر انسان مریخ پر جانے کے لیے پرتول رہا ہے‘ سمندر کے اندر میلوں گہرے گڑھے ہیں‘ دنیا کا گہرا ترین گڑھا بحراوقیانوس میں ماریانہ ٹرینچ ہے۔

لوگ اس گڑھے میں اترنے اور اس کی گہرائی تک جانے کی کوشش کر رہے ہیں اور یہ کسی نہ کسی دن چلے بھی جائیں گے اور یہ ان 8 ہزار صلاحیتوں میں سے چند ہیں جو قدرت ہمیں دے کر دنیا میں بھجواتی ہے لیکن ہم اپنی جسمانی کمزوریوں‘ اپنی جسمانی ساخت کی خرابیوں کو رکاوٹ بنا کر پوری زندگی رو دھو کر گزار دیتے ہیں‘ اس دنیا میں جس میں زرافے خوراک کے لیے اپنی گردن لمبی کر لیتے ہیں‘ ہم انسان اس دنیا میں اپنے چہرے کے رنگ سے ہار جاتے ہیں‘ ہم اپنے قد کاٹھ سے مار کھا جاتے ہیں۔

ہم کس قدر بے وقوف ہیں‘ ہم یہ نہیں جانتے‘ قدرت نے ہمیں آٹھ ہزار صلاحیتیں دیں‘ ان میں سے صرف 36 دوسرے لوگوں کو نظر آتی ہیں‘ باقی سات ہزار 9 سو 64 ہمارے اندر چھپی ہیں لیکن ہم پوری زندگی اپنے ان سات ہزار 9 سو 64 دوستوں کو آواز نہیں دیتے‘ ہم انھیں جگانے‘ انھیں اٹھانے کی کوشش نہیں کرتے چناںچہ ہم اپنی جسمانی کمزوریوں کا رونا رو کر دنیا سے رخصت ہو جاتے ہیں۔

بشکریہ ایکسپریس نیوز اردو

دوست



تحریر:۔ جاوید چوہدری

یہ میرے بچپن کی بات ہے‘ ہم لوگ دیہاتی علاقے سے تعلق رکھتے ہیں‘ ہزاروں سال سے کھیتی باڑی‘ دوستیاں‘ دشمنیاں اور لڑائی جھگڑے ہمارا کام تھا‘ میرے والد اس خاندان کے پہلے فرد تھے جنھوں نے کاروبار شروع کیا‘ یہ مختلف کاروبار کرتے ہوئے آخر میں ’’بیو پار‘‘ میں ٹھہر گئے۔

ہمارے شہر میں دو منڈیاں تھیں‘ پرانی منڈی اور نئی منڈی۔ ہمارا گھر ان دونوں منڈیوں کے درمیان تھا‘ ہم ایک ایسے محلے میں رہتے تھے جو دونوں منڈیوں کو آپس میں ملاتا تھا‘ میرے والد نے گھر کی بیٹھک کو دکان بنا لیا‘ یہ اس محلے کی پہلی دکان تھی‘ لوگ مکانوں اور گھروں کے درمیان دکان دیکھ کر حیران ہوتے تھے مگر میرے والد ڈٹے رہے۔

اس دکان نے آہستہ آہستہ پوری گلی کو مارکیٹ بنا دیا لیکن یہ میرا موضوع نہیں‘میرا موضوع اس دکان کا حقہ ہے‘ یہ دکان محض دکان نہیں تھی‘ یہ محلے کی بیٹھک بھی تھی‘ یہ پنچایت بھی تھی اور یہ محلے کا چائے خانہ بھی تھی‘ میرے والد فجر کے وقت دکان کھول دیتے تھے‘ حقہ تازہ کر کے دکان میں رکھ دیا جاتا تھا‘ حقہ پنجاب کا سب سے بڑا سماجی رابطہ ہے‘ آپ اگر حقے کے مالک ہیں‘ آپ اگر دن میں تین بار یہ حقہ تازہ کر سکتے ہیں تو آپ جان لیں۔

آپ کا ڈیرہ آباد رہے گا‘ میرے والد کا حقہ تازہ ہوتا رہتا تھا اور گلی سے گزرنے والے لوگ دکان پر رکتے تھے‘ حقے کے ’’پف‘‘ لیتے تھے‘ گپیں لگاتے تھے‘ چائے یا لسی پیتے تھے اور اپنے اپنے کاموں کے لیے نکل جاتے تھے‘ غریب اور امیر اس حقے کے لیے سب برابر تھے‘ یہ حقہ بہت بڑی ’’ایکٹویٹی‘‘ تھا‘ میرے والد اس حقے کا بہت خیال رکھتے تھے۔

اس کا پیندا پیتل کا تھا‘ اس پیتل پر چمڑا چڑھا ہوا تھا‘ چمڑے کو ہر دو تین گھنٹے بعد گیلا کر دیا جاتا تھا‘ یہ گیلا چمڑا حقے کے پانی کو ٹھنڈا رکھتا تھا‘ حقے کی نلیاںا سپیشل بانس کی بنی ہوئی تھیں‘ اس بانس پر پیتل کے چمک دار چھلے چڑھے ہوئے تھے‘ نلی کے سرے پر تمباکو کی تہہ جم جاتی تھی‘ میرے والد چار پانچ دن بعد باریک چاقو سے یہ تہہ صاف کرتے تھے‘ نلیوں میں لوہے کی تار گھسا کر نلیاں بھی صاف کی جاتی تھیں۔

تمباکو مردان سے خصوصی طور پر منگوایا جاتا تھا‘ تمباکو کے اوپر گڑ رکھا جاتا تھا‘ یہ گڑ بھی خصوصی ہوتا تھا‘ حقے کی چلم (ہمارے علاقے میں اسے ٹوپی کہا جاتا ہے) گجرات شہر کی خصوصی مٹی سے بنائی جاتی ہے‘ یہ گجرات سے آتی تھی‘ کیکر کی چھال جلا کر چلم کی آگ بنائی جاتی تھی اور اس آگ کو چلم میں بھرنے کے لیے خصوصی چمٹا ہوتا تھا۔

وہ حقہ اس دکان کی رونق تھا‘ لوگ حقے کے لیے سارا دن وہاں رکتے رہتے تھے‘ حقہ پیتے تھے اور آگے چل پڑتے تھے‘ ہماری دکان کی دوسری ’’بڑی اٹریکشن‘‘ ٹیلی فون تھا‘ یہ محلے کا واحد ٹیلی فون تھا چناںچہ لوگ فون کرنے اور سننے کے لیے بھی وہاں رک جاتے تھے‘ پورے محلے نے اپنے عزیزوں اور رشتے داروں کو ہمارا فون نمبر دے رکھا تھا‘ ہم تمام بھائی اسکول سے واپسی پر ٹیلی فون آپریٹر بن جاتے تھے۔

لوگوں کے فون آتے تھے اور ہمارے والد ہم میں سے کسی نہ کسی کو محلے داروں کا نام بتا کر اس کے گھر کی طرف دوڑا دیتے تھے‘ ہم ان کے دروازے کی کنڈی بجا کر اونچی آواز میں نعرہ لگاتے تھے ’’چاچا جی آپ کا ٹیلی فون آیا ہے‘‘ اور اندر موجود لوگ ’’فون آیا‘ فون آیا‘‘ کے نعرے لگاتے ہوئے ننگے پاؤں دوڑ پڑتے تھے۔

اس فون اور اس حقے نے محلے میں ایک نئی کلاس کو جنم دے دیا‘ لوگ فون کرنے اور حقہ پینے کے لیے ہماری دکان پر آتے تھے اور گھنٹوں بیٹھے رہتے تھے‘ یہ ہمارے والد کو اپنے دکھڑے بھی سناتے تھے‘ یہ چائے بھی وہیں پیتے تھے اور ہمارے والد کے ساتھ کھانا بھی کھاتے تھے‘ یہ ادھار بھی لے جاتے تھے اور ہمارے والد کو کسی نہ کسی کام میں بھی استعمال کر جاتے تھے‘ ہم ان لوگوں کو اپنے والد کا گہرا دوست سمجھتے تھے‘ یہ ہمارے چاچا جی بن چکے تھے‘ ہم ان کا بے حد احترام کرتے تھے‘ میرے بچپن کی بات ہے۔

ایک بار میرے والد کا گلا خراب ہو گیا‘ گلے کے اندر انفیکشن ہو گیا‘ تمباکو بلکہ ہر قسم کا دھواں اس انفیکشن کے لیے انتہائی نقصان دہ تھا‘ ڈاکٹروں نے والد کی تمباکو نوشی بند کرا دی‘ میں آپ کو یہاں تمباکو نوشی کے بارے میں ایک دل چسپ حقیقت بھی بتاتا چلوں‘ دنیا میں تمباکو نوشی کی چند غیر مطبوعہ روایات ہیں‘ سگریٹ نوش دنیا کے کسی بھی کونے میں‘ کسی بھی شخص سے‘ کسی بھی وقت سگریٹ مانگ سکتے ہیں اور دوسرا سگریٹ نوش انکار نہیں کرتا‘ یہ تمباکو نوشی کے دوران عموماً گپیں بھی مارتے ہیں‘ میرے والد ’’چین اسموکر‘‘ تھے۔

یہ2012میں میرے ساتھ ایک بار پیرس گئے تھے‘ جہاز میں تمباکو نوشی کی اجازت نہیں تھی چناںچہ ابا جی نے چھ گھنٹے کی فلائٹ بڑی مشکل سے گزاری‘ ہم جوں ہی ائیرپورٹ پر اترے‘ اباجی امیگریشن کی ساری قطاریں اور کاؤنٹرز روند کر باہر نکل گئے‘ راستے میں انھیں جو بھی روکتا تھا‘ یہ انگلی سے سگریٹ کا نشان بناتے تھے اورگورا راستے سے ہٹ جاتا تھا‘ میں امیگریشن کے مسئلے حل کر کے باہر نکلا تو میں نے دیکھا‘ میرے والد ایک گورے کے ساتھ کھڑے ہو کر سگریٹ پی رہے تھے اور اس کے ساتھ گپ بھی لگا رہے تھے۔

میں اس عجیب و غریب تبادلہ خیال پر حیران رہ گیا‘ گورے کا تعلق آسٹریلیا سے تھا‘ وہ انجینئر تھا اور شارٹ کورس کے لیے پیرس آیا تھا‘ وہ انگریزی بول رہا تھا جب کہ ابا جی ان پڑھ تھے اور پنجابی کے علاوہ کوئی زبان نہیں جانتے تھے‘ میں ان کے قریب پہنچا تو میری حیرت کی انتہا نہ رہی‘ آسٹریلین انجینئر ابا جی کو انگریزی میں بتا رہا تھا‘ فلائٹ بہت لمبی تھی‘ میں نے دس گھنٹے سے سگریٹ نہیں پیا‘ یہ سفر میرے لیے بہت مشکل تھا اور ابا جی اسے پنجابی میں بتا رہے تھے‘ میں نے آخری سگریٹ دبئی میں پیا‘ چھ گھنٹے سے سگریٹ کے بغیر ہوں اور یہ سفر میرے لیے بھی بہت مشکل تھا‘ دونوں سگریٹ پھونک رہے تھے۔

دو مختلف زبانوں میں گفتگو کر رہے تھے اور قہقہے لگا رہے تھے‘مجھے اس وقت معلوم ہوا سگریٹ نوش زبان سے بھی بالا تر ہوتے ہیں ‘یہ مختلف زبانوں‘ علاقوں اور تہذیبوں سے تعلق رکھنے کے باوجود ایک دوسرے کا مسئلہ سمجھتے ہیں‘ یہ سگریٹ کی ویلیو سے بھی واقف ہوتے ہیں‘ ڈاکٹر نے جب میرے والد کے حقے پر پابندی لگائی تو یہ خبر میرے والد کے لیے صورِ اسرافیل کی حیثیت رکھتی تھی‘ یہ پریشان ہو گئے لیکن ڈاکٹر کا فیصلہ عدالتی فیصلہ تھا‘ میرے والد ڈسپلن کے بھی انتہائی سخت تھے‘ یہ جب کوئی بات ‘ کوئی چیز ٹھان لیتے تھے تو یہ پھر اس سے پیچھے نہیں ہٹتے تھے‘ میرے والد نے حقے پر پابندی لگا دی‘ ہم لوگوں نے حقہ اٹھایا اور گودام میں رکھ دیا یوں دکان کی بڑی اٹریکشن اچانک ختم ہو گئی۔

حسن اتفاق سے انھی دنوں ’’ایکس چینج‘‘کی ’’اپ گریڈیشن‘‘بھی شروع ہو گئی اور ہمارا فون بھی عارضی طور پر کٹ گیا یوں دکان کی دوسری اٹریکشن بھی ختم ہو گئی‘ ان اٹریکشنز کے خاتمے کے ساتھ ہی دکان کے رش میں کمی ہو گئی‘ لوگ دکان کے قریب پہنچ کر منہ نیچے کر لیتے تھے اور تیز تیز قدموں سے آگے نکل جاتے تھے‘ وہ لوگ جو روز صبح سویرے ہماری دکان پر آکر بیٹھ جاتے تھے اور ان کی شام بھی اسی دکان پر ہوتی تھی وہ بھی اچانک غائب ہو گئے‘ہم جن کو والد کا انتہائی قریبی دوست سمجھتے تھے‘ جو لوگ ہمارے چاچا جی ہوتے تھے‘ جو گلی میں داخل ہو کر اونچی آواز میں چوہدری صاحب کا نعرہ لگاتے تھے اور جو گھنٹوں ہمارے والد کی تعریفیں کرتے تھے‘ وہ سب بھی غائب ہو گئے‘ ہم ان کی شکلیں تک بھول گئے‘ میرے والد سارا دن دکان پر اکیلے بیٹھے رہتے تھے‘ گاہک آتے تھے‘ منشی اور دکان کے کارندے گاہکوں کو ڈیل کرتے تھے لیکن وہ لوگ بھی میرے والد کے قریب نہیں جاتے تھے‘ وہ دور سے انھیں سلام کرتے تھے‘ رسید بنواتے تھے اور رخصت ہو جاتے تھے‘ میں اس وقت پرائمری اسکول میں پڑھتا تھا‘ میرے کچے ذہن کے لیے یہ صورت حال ہضم کرنا مشکل تھا۔

میں ایک دن والد کے پاس بیٹھا اور میں نے ان سے پوچھا’’ابا جی آپ کے سارے دوست کہاں چلے گئے ہیں؟‘‘ میرے والد نے غور سے میری طرف دیکھا‘میری آنکھوں میں اس وقت آنسو تھے‘ میرے والد نے رومال سے میری آنکھیں صاف کیں‘ سر پر ہاتھ پھیرا اور بڑے پیار سے کہا’’بیٹا یہ لوگ میرے دوست نہیں تھے‘ یہ حقے اور ٹیلی فون کے دوست تھے‘ حقہ بند ہو گیا‘ ٹیلی فون کٹ گیا‘ یہ لوگ بھی کٹ گئے‘ یہ بھی بند ہو گئے‘ جس دن ٹیلی فون اور حقہ واپس آجائے گا‘ یہ لوگ بھی اس دن واپس آجائیں گے‘‘ میرے کچے ذہن نے یہ فلسفہ سمجھنے سے انکار کر دیا‘ میرے والد نے میرے چہرے کی گومگو پڑھ لی‘ وہ بولے بیٹا یاد رکھو اﷲ تعالیٰ جب آپ کو کوئی نعمت دیتا ہے تو یہ نعمت اپنے ساتھ نئے دوست لے کر آتی ہے لیکن ہم نعمت کے ان دوستوں کو اپنا دوست سمجھ بیٹھتے ہیں‘ یہ ہماری بے وقوفی ہوتی ہے۔

یہ نعمت جس دن چلی جاتی ہے‘ یہ سارے دوست بھی رخصت ہو جاتے ہیں‘ میرے والد نے اس کے بعد شان دار نصیحت کی‘ انھوں نے فرمایا ’’بیٹا آپ کا اصل کمال یہ ہو گا آپ نعمتوں کے دوستوں کو نعمتوں کا دوست رہنے دو‘ آپ ان لوگوں کو کبھی اپنا دوست نہ بننے دو‘ تم زندگی میں کبھی مایوس نہیں ہو گے‘‘ میرے والد نے فرمایا’’ بیٹا آپ کار کے دوستوں کو کار کا دوست سمجھو‘ کاروبار کے دوستوں کو کاروبار کا دوست سمجھو اور اپنے عہدے کے دوستوں کو عہدے کا دوست سمجھو‘ ان لوگوں کو کبھی اپنے دل تک نہ پہنچنے دو‘تمہارا دل کبھی زخمی نہیں ہو گا‘ تم کبھی خون کے آنسو نہیں رو ؤگے‘‘۔

بشکریہ ایکسپریس اردو

31 برس بعد



تحریر:۔ جاوید چوہدری

ناصر محمود باجوہ جہلم میں ڈی پی او ہیں‘ یہ چند دن قبل میرے پاس تشریف لائے اور انھوںنے ایک عجیب واقعہ سنایا‘ ان کا کہنا تھا ’’میں روزانہ درجنوں فائلیں دیکھتا اور پراسیس کرتا ہوں‘ میری نظر سے چند ماہ قبل ایک فائل گزری جس میں ڈیڑھ لاکھ روپے کا چیک لگا ہوا تھا‘ چیک پولیس ویلفیئر فنڈ کے لیے تھا اور نیچے منجانب مظفر قریشی لکھا تھا۔

میں نے اپنے اسٹاف سے چیک کے بارے میں پوچھا تو جواب ملا‘ یہ صاحب 1992 سے ہر سال پولیس ویلفیئر فنڈ میں رقم جمع کرارہے ہیں‘ میں یہ سن کر حیران ہو گیا کیوں کہ میری پوری سروس میں اس نوعیت کا کوئی کنٹری بیوشن میری نظر سے نہیں گزرا تھا‘ ہم بڑی مشکل سے عوام سے ویلفیئر فنڈ کے لیے رقم جمع کرتے ہیں اور وہ بھی ایک دو بار ملتا ہے مگر ایک شخص 31 برسوں سے مسلسل رقم بھجوا رہا تھا۔

یہ بات عجیب تھی لہٰذا میں نے مظفر قریشی صاحب کا نمبر تلاش کیا اور انھیں فون کر دیا‘ قریشی صاحب نے مجھے عجیب داستان سنائی‘ یہ داستان اس قدر جذباتی تھی کہ میری آنکھوں میں آنسو آ گئے‘ میں نے بعدازاں آئی جی سے رابطہ کر کے انھیں یہ کہانی سنائی۔

یہ بھی متاثر ہو گئے اور انھوں نے مجھے مظفر قریشی صاحب کے لیے تعریفی سند بھجوا دی‘ میں آج یہ سند دینے کے لیے اسلام آباد آیا ہوں‘ میری وش لسٹ میں دو لوگوں کے نام تھے‘ مظفر قریشی صاحب اور آپ‘ آج میری دونوں سے ملاقات ہو گئی‘‘۔

میں نے ڈی پی او صاحب سے واقعہ سننے کے بعد مظفر قریشی صاحب کو فون کیا‘ یہ ریٹائرڈ فیڈرل سیکریٹری ہیں‘ 1962 میں سروس جوائن کی اور فیڈرل سیکریٹری بن کر ریٹائر ہوئے‘ اسلام آباد میں رہتے ہیں اور واک اور کتابیں ان کے دو شغل ہیں۔

میری بات سن کر یہ رو پڑے اور ان کے الفاظ نے مجھے بھی رلا دیا‘ یہ بار بار اﷲ تعالیٰ کا ذکر کر رہے تھے اور التجا کر رہے تھے یا باری تعالیٰ میری کوششیں ریت کے ذرے کے برابر ہیں تو انھیں قبول کر کے انھیں نیکی بنا دے‘ مجھے ان کی عاجزی نے اندر سے ہلا کر رکھ دیا‘ ان کی طبیعت بحال ہوئی تو انھوں نے بتایا‘ ہم چار بھائی تھے۔

ہمارے ایک بھائی ملک کے مشہور سائنس دان تھے‘ دوسرے ڈاکٹر تھے‘ تیسرے گورنمنٹ کالج لاہور میں کیمسٹری کے پروفیسر تھے اور میں سول سرونٹ تھا‘ ہم اسلام آباد میں رہتے تھے‘ میرے پروفیسر بھائی 1992میں بس سے لاہور سے اسلام آباد آ رہے تھے‘ اس زمانے میں جی ٹی روڈ سنگل ہوتی تھی۔

سوہاوہ کے قریب دو بہت خطرناک ٹرن ہوتے تھے اور وہاں اکثر حادثے ہوجاتے تھے‘ ہمارے بھائی کی بس جب وہاں پہنچی تو ڈرائیور توازن برقرار نہ رکھ سکا اوروہ کھائی میں گر گئی‘ 16 لوگ موقع پر جاں بحق ہو گئے‘ ان میں ہمارے بھائی بھی شامل تھے‘ میں ان دنوں فنانس ڈویژن میں کام کرتا تھا‘ حادثے کی شام تھکا ہارا دفتر سے گھر آیا تھا۔

ان دنوں آرٹس کونسل میں کوئی ڈرامہ چل رہا تھا اور وہ بہت پاپولر تھا‘ میں نے وہ دیکھنے جانا تھا لیکن تھکاوٹ کی وجہ سے میرا دل نہیں چاہ رہا تھا اور میں کاؤچ پر لیٹا ہوا تھا‘ اس دوران فون کی گھنٹی بجی‘ دوسری طرف جہلم تھانے کا کوئی اہلکار تھا‘ اس نے مجھے حادثے کی اطلاع دی‘ یہ خبر بم کی طرح میرے دماغ پر گری اور میں سکتے میں آگیا۔میں بڑی مشکل سے سنبھلا اور پھر میں نے اپنے دوسرے دونوں بھائیوں کو بتایا اور ہم جہلم کے لیے روانہ ہو گئے۔

ہمیں راستے میں ہمارے ڈرائیور نے بتایا‘سرمیت لانے کے لیے ایمبولینس چاہیے ہو گی‘ اس زمانے میں ایمبولینس صرف بڑے شہروں میں ہوتی تھی‘ ہم واپس اسلام آباد آئے‘ پی آئی ایم ایس سے ایمبولینس لی اور جہلم پہنچ گئے‘ تمام میتیں بی ایچ یو میں پڑی تھیں‘ ہم کمرے میں داخل ہوئے تو ہمارے مرحوم بھائی لاشوں کے درمیان فرش پر پڑے ہوئے تھے اور ان کے گرد برف کی سیلیں رکھی ہوئی تھیں‘ ہم تینوں بھائی صدمے سے بے حال تھے۔

ہمیں اسپتال کی انتظامیہ نے بتایا‘ آپ کو پہلے پولیس اسٹیشن جانا ہو گا‘ ضابطے کی کارروائی کرنا ہو گی اور آپ پھر میت لے جا سکیں گے‘ ہم پولیس اسٹیشن چلے گئے‘ اس زمانے میں بھی پولیس کے بارے میں رائے اچھی نہیں تھی۔

ہم بھی اسی مغالطے کا شکار تھے مگر جب ہم پولیس اسٹیشن پہنچے تو ہمارے ساتھ پولیس کا رویہ بہت اچھا تھا‘ ایس ایچ او نے ہمیں بٹھایا‘ دلاسا دیا‘ پانی پلایا اور فوری طور پر ضابطے کی کارروائی کر دی‘ ان کا رویہ دوسرے لواحقین کے ساتھ بھی بہت اچھا تھا‘ میں متاثر ہوئے بغیر نہ رہ سکا‘‘

میں نے قریشی صاحب کو ٹوک کر کہا’’ پولیس آپ کے اسٹیٹس سے متاثر ہو گئی ہو گی‘‘ قریشی صاحب نے جواب دیا’’ ہرگز نہیں‘ ہم نے کسی جگہ اپنا تعارف نہیں کرایا تھا‘ ہم وہاں صرف لواحقین کی حیثیت سے گئے تھے‘پولیس ہمارے مرحوم بھائی کے بارے میں بھی نہیں جانتی تھی‘ انھوں نے ان کے سامان سے میرا فون نمبر نکالا تھا اور مجھے اطلاع دی تھی‘ اطلاع کے دوران بھی ان کا رویہ ہمدردانہ اور سلجھا ہوا تھا۔

دوسرا وہ لوگ تھانے میں موجود دوسرے لواحقین کے ساتھ بھی ہمدردی اور محبت سے پیش آ رہے تھے‘ بہرحال ہم نے بھائی کی میت لی اور اسلام آباد آ گئے‘ ہم لوگ پولیس کے رویے سے اتنے متاثر ہوئے کہ ہم تینوں بھائیوں نے اپنے بھائی کی پہلی برسی پر رقم جمع کی اور تھانے میں بھجوا دی‘ یہ پولیس اہلکاروں کی ویلفیئر کے لیے ہماری طرف سے معمولی سا کنٹری بیوشن تھا۔

ہم اس کے بعد ہر سال یہ رقم بھجواتے رہے‘ آج اس کو 31 برس ہو چکے ہیں‘‘ میں نے ان سے پوچھا’’ کیا پولیس کی طرف سے کبھی آپ سے رابطہ کیا گیا‘‘ ان کا جواب تھا ’’صرف ایک بار اور وہ بھی چند ماہ قبل ڈی پی او ناصر محمود باجوہ کا فون آیا تھا‘‘ میں نے پوچھا ’’پولیس نے رابطہ کیوں نہیں کیا؟‘‘ ان کا جواب تھا’’ ہم نے انھیں کبھی اپنے بارے میں بتایا ہی نہیں‘‘ میں فیڈرل سیکریٹری بن گیا مگر پولیس کو میرے بارے میں پتا نہ چلا‘ ہم شروع میں تھانے میں رقم جمع کرا دیتے تھے لیکن پھر ہم ایس ایس پی کو بھجوانے لگے‘‘ میں نے پوچھا’’آپ اسے خفیہ کیوں رکھتے تھے؟‘‘ ان کا جواب تھا ہم یہ کام اﷲ کی رضا اور اپنے بھائی کی یاد میں کرتے تھے۔

اس سے ہمارے بھائی کی روح کو تسکین ملتی تھی اور پولیس کی ضرورتیں پوری ہو جاتی تھیں بس ہمیں مزید کچھ نہیں چاہیے تھا‘‘ میں نے پوچھا‘ آپ پولیس کے بجائے کسی خیراتی ادارے کو بھی فنڈ بھجوا سکتے تھے‘ یہ بولے‘ ہم یہ بھی کرتے رہتے ہیں مگر آپ یقین کریں 31 سال قبل پولیس کے رویے نے ہمارا پولیس کے بارے میں تاثر بدل دیا تھا لہٰذا ہم اس معمولی سی نیکی میں انھیں بھی شریک رکھنا چاہتے تھے۔

میں آگے بڑھنے سے قبل آپ کو بتاتا چلوں مظفر قریشی اپنا راز مجھے نہیں بتانا چاہتے تھے‘ یہ بار بار ڈی پی او کے بارے میں کہہ رہے تھے انھیں میرا راز نہیں کھولنا چاہیے تھا‘ یہ مجھے بھی راز کو راز رکھنے کا کہہ رہے تھے مگر میں نے ان سے عرض کیا‘ ہمارے معاشرے میں ہر طرف بری خبریں پھیلی ہوئی ہیں‘ ہم اخبار کھولتے ہیں یا ٹیلی ویژن اور موبائل اسکرین دیکھتے ہیں تو ہمارا انسانیت‘ اداروں اور ملک سے یقین ختم ہو جاتا ہے۔

ہمارے معاشرے کو آپ جیسی مثالیں چاہییں‘ یہ اس ملک کو چلائیں گی‘ میں آپ کو یہ بھی بتاتا چلوں میں نے قریشی صاحب کو بڑی مشکل سے راضی کیا اور یہ اس کے بعد اپنی کہانی سنانے پر قائل ہوئے تھے‘ قریشی صاحب کے فون کے بعد میں دیر تک اندھیرے میں بیٹھا رہا اوراپنے آپ سے یہ پوچھتا رہا‘ کیا یہ مظفر قریشی صاحب کی کہانی ہے؟ میں آخر میں اس نتیجے پر پہنچا یہ ہرگز ہرگز مظفر قریشی کی کہانی نہیں‘ یہ دراصل ایک تھانے اور ایک ایس ایچ او کی کہانی ہے‘ 1992 میں کسی نیک دل ایس ایچ او نے اپنے تھانے کا کلچر بدل دیا ہو گا۔

اس نے اپنے عملے کو انسانوں کو انسان سمجھنے کا سلیقہ سکھا دیا ہو گا لہٰذا اہلکاروں نے لواحقین کے ساتھ وہ سلوک کیا جو دنیا کا ہر لواحق پولیس سے چاہتا ہے اور اس کا نتیجہ جاریہ نیکی کی صورت میں نکلا‘ ملک کی ایک بیوروکریٹک فیملی کی پولیس کے بارے میں رائے بدل گئی اور وہ 31 برس سے پولیس کے شہداء اور غازیوں کے خاندانوں کی خدمت کر رہی ہے۔

اس معمولی رقم سے خدا جانے اب تک کتنے لوگوں کا مقدر بدل گیا ہو‘ اﷲ تعالیٰ نیکی اور رزق حلال کو بیج بنا دیتا ہے اور یہ بیج جس بھی زمین میں جڑ پکڑ لیتا ہے وہاں سے نیکی اور خیر کے کروڑوں درخت نکلتے ہیں‘ مظفر قریشی کی رقم معمولی ہو گی مگر اس کا نتیجہ چھوٹا نہیں رہا ہو گا‘ یہ رقم جس جس گھر گئی ہو گی اس کا مقدر اور راستہ بدل گیا ہو گا وہاں نہ جانے اب تک خیر کے کتنے چشمے پھوٹ چکے ہوں گے۔

دوسرا اس کہانی میں آج کی پولیس کے لیے بھی ایک سبق ہے‘ پولیس جب کسی دکھی فیملی کے ساتھ اچھے رویے سے پیش آتی ہے‘ یہ اس کو دلاسا دیتی ہے‘ اسے بٹھا کر پانی پلا دیتی ہے اور ضابطے کی کارروائی کے لیے اسے ذلیل نہیں کرتی‘ اسے بار بار چکر نہیں لگواتی‘ اس سے پیسے اینٹھنے کے لیے غیر ضروری اورنا مناسب سوال نہیں کرتی تو اس کا نتیجہ مظفر قریشی کی شکل میں نکلتا ہے۔

بااثر خاندانوں کے ذہن میں پولیس کا امیج تبدیل ہو جاتا ہے اور 31 سال بعد ہی سہی مگر میرے جیسے لوگ اس پر لکھنے پر مجبور ہو جاتے ہیں چناں چہ آئی جی پنجاب کو چاہیے یہ مظفر قریشی صاحب کو بلائیں اور ان کی کہانی ان کی زبانی پولیس فورس کو سنائیں اور پھر پولیس کوبتائیں مجرم ہو یا بے گناہ ہم سب انسان ہیں اور دنیا کے ہر انسان کو دوسرے انسان سے ہمدردی‘ محبت اور عزت چاہیے ہوتی ہے چناں چہ تھانے آنے والے ہر شخص کو عزت‘ محبت اور ہمدردی دیں اور پھر اس کا نتیجہ دیکھیں‘ ملک اور آپ دونوں بدل جائیں گے۔

بشکریہ ایکسپریس نیوز اردو

امجد صدیقی تسی گریٹ ہو



تحریر:۔ جاوید چوہدری

مجھے دو ہفتے قبل لاہور سے کسی صاحب نے اپنی کتاب بھیجی‘ کتاب کا ٹائٹل اور نام دونوں جذباتی تھے لہٰذا میں نے پڑھے اور دیکھے بغیر سائیڈ پر رکھ دی‘ میں نے چند دن قبل پڑھنے کے لیے کتابیں دیکھنی شروع کیں‘ یہ اچانک میرے ہاتھ لگ گئی اور میں نے نیم دلی کے ساتھ ورک گردانی شروع کر دی اور پھر میں ہرچیز بھول گیا اور کتاب پڑھتا چلا گیا۔

یہ کتاب‘ کتاب نہیں تھی‘ زندگی کا ایک ایسا درس تھا جسے ہم ننانوے فیصد فراموش کر بیٹھتے ہیں‘ میں نے دو دن میں چار سو صفحات کی کتاب ختم کر لی اور اس کے بعد مصنف کو فون کیا اور اس کی عظمت‘ ہمت اور استقلال کو کھڑے ہو کر سلام پیش کیا‘ بے شک اس شخص نے صرف کتاب نہیں لکھی تھی‘ اس نے کتاب زندگی تحریر کی اور اس کتاب زندگی کو ہر اس شخص کو پڑھنا چاہیے جو زندگی سے مایوس ہو رہا ہے یا پھر جسے زندگی کی قدر نہیں یا پھر جو زندگی کے مسائل سے جلد گھبرا جاتا ہے۔

میرا اب مصنف کے ساتھ عقیدت اور شاگردی کا رشتہ بن چکا ہے اور میرا دعویٰ ہے آپ بھی اگر یہ کتاب پڑھیں گے تو آپ بھی اسی بندھن میں بندھ جائیں گے۔یہ کتاب (درد کا سفر) پھلروان شہر کے ایک عام سے نوجوان امجد صدیقی کی داستان حیات ہے اور اسے اس ہی نے لکھا ہے، اگر وہ یورپ یا امریکا میں ہوتا تو اب تک ان پر دس بیس فلمیں بن چکی ہوتیں‘ بھارت میں بہرحال ان پر فلم بن رہی ہے تاہم یہ اب تک درجنوں بین الاقوامی ایوارڈز حاصل کر چکے ہیں۔

امجد صدیقی کون ہیں اور انھوں نے ایسا کیا کارنامہ سرانجام دیا جس نے مجھ جیسے پریکٹیکل شخص کو بھی حیران کر دیا‘ امجد صدیقی کے والد کپڑے کا کاروبار بھی کرتے تھے اور اخبارات کے ڈسٹری بیوٹر اور نامہ نگار بھی تھے‘ امجد صدیقی بچپن میں لوگوں کے گھروں میں اخبارات پھینکتے رہے‘ یہ 1979 میں روزگار کے سلسلے میں سعودی عرب چلے گئے اور بڑی مشکل سے بینک میں ٹائپسٹ کی نوکری حاصل کر لی‘ پنجاب میں اس زمانے میں اگر لڑکا سعودی عرب چلا گیاہو‘اسے ملازمت مل گئی ہو تو رشتوں کی لائین لگ جاتی تھی۔

امجد صدیقی کے ساتھ بھی یہی ہوا اور ان کی والدہ نے ایک خوب صورت لڑکی سے ان کی منگنی کر دی اور یوں یہ لوگ خوش اور مطمئن ہو گئے اور ہر چیز منشا کے مطابق پرفیکٹ چلنے لگی لیکن پھر یہ زیارت اور دعا کے لیے مدینہ منورہ گئے‘ واپسی پر کار کا ایکسیڈنٹ ہوا اور ان کی زندگی کا دھارا بدل گیا‘ ایکسیڈنٹ کے بعد زخمیوں کو ہمیشہ گاڑی کاٹ کر ڈاکٹر کی نگرانی میں باہر نکالا جاتا ہے کیوں کہ زخمی عموماً ایکسیڈنٹ میں اتنے مضروب نہیں ہوتے جتنے یہ گاڑی سے نکالنے کے عمل کے دوران مخدوش ہو جاتے ہیں۔

امجد صدیقی کو مقامی لوگوں نے گاڑی سے کھینچ کر نکالا جس کی وجہ سے ان کی ریڑھ کی ہڈی ٹوٹ گئی‘ ان کا جسم سینے سے نیچے معذور ہو گیا‘ یہ صرف بازو اور گردن ہلا سکتے تھے‘ اس سے نیچے ان کے جسم میں کوئی حرکت تھی اور نہ ہی حس‘ انھیں ٹھنڈے اور گرم کا احساس بھی نہیں ہوتا تھا اور ان کے جسم کو اگر چھری سے کاٹ دیا جاتا تو بھی انھیں پتا نہیں چلتا تھا‘ یہ ایک خوف ناک صورت حال تھی لیکن اس سے بھی زیادہ خوف ناک اور تشویش ناک صورت حال آگے تھی‘ ان کا اپنے پاخانے اور پیشاب پر کنٹرول ختم ہوگیا تھا۔

یہ مسلسل نکلتے رہتے تھے اور انھیں اس کا احساس تک نہیں ہوتا تھا بہرحال قصہ مختصر امجد صدیقی نے اس صورت حال میں بھی ہمت ہارنے سے انکار کر دیا اور کام یاب اور قابل فخر زندگی گزارنے کا فیصلہ کر لیا‘ خاندان‘ عزیز رشتے دار‘ دوست احباب اور معاشرہ انھیں بھکاری بنانا چاہتا تھا مگر یہ شخص پوری زندگی اپنی معذوری اور معاشرے سے لڑتا رہا‘ انھیں خاندان اور رشتے دار چھوڑ گئے‘ ان کی منگنی ٹوٹ گئی‘ لوگ ان سے ہاتھ ملانے کے لیے بھی تیار نہیں تھے۔

پورا خاندان انھیں پاکستان لا کر کمرے تک محدود کرنا چاہتا تھا مگر اس شخص نے ہمت نہ ہاری‘ امجد صدیقی نے اپنے دونوں بازوئوں کو اتنا مضبوط بنا لیا کہ یہ ان کا نوے فیصد معذور جسم اٹھانے لگے‘ یہ ویل چیئر پر آئے اور پوری دنیا فتح کر لی‘امجد صدیقی کی آپ بیتی ’’درد کا سفر‘‘ ایک ایسے معذور مگر کام یاب اور خوش حال شخص کی کہانی ہے جس نے معاشرے کی کسی بھی رکاوٹ کو اپنا راستہ نہیں روکنے دیا‘یہ اسپتال کیسے پہنچے‘ بستر سے کیسے اٹھے‘ ویل چیئر کو اپنا سہارا کیسے بنایا‘ گاڑی چلانا کیسے سیکھی‘ ویل چیئر پر بیٹھے بیٹھے گاڑی کے ٹائر کیسے بدلے‘ اپنی ویل چیئر اکیلے سیڑھیوں سے نیچے اتارنا کیسے سیکھا‘ یہ عزیزوں اور رشتے داروں کی نفرت اور حقارت سے کیسے نکلے اور معذوری کے باوجود نوکری کیسے حاصل کی یہ ایک حیران کن داستان ہے۔

یہ ہاتھ سے پندرہ پندرہ کلو میٹر ویل چیئر چلاکر دفترپہنچتے تھے‘ کیسے؟یہ بزنس کی دنیا میں کیسے آئے‘ کروڑوں روپے کیسے کمائے‘ معذوری کے باوجود 60 ملکوں کا سفر کیسے کیا اور آخر میں شادی کیسے کی اور یہ اب کیا کیا کر رہے ہیں؟ یہ ایک ناقابل یقین داستان ہے اور ملک کے ہر شخص بالخصوص ہر معذور شخص کو ضرور پڑھنی چاہیے‘ میرا بس چلے تو میں اس کتاب کو سلیبس کا حصہ بنا دوں ۔

امجد صدیقی کو زندگی گزارنے اور آگے بڑھنے کے لیے کن کن مشکلات کا سامنا کرنا پڑا یہ بھی ناقابل بیان ہے‘ مثلاً میں چند چیزیں آپ کے سامنے رکھتا ہوں‘آپ اس سے اس شخص کی اسٹرگل کا اندازہ کر لیجیے‘ صدیقی صاحب جس زمانے میں ویل چیئر پر آئے تھے اس دور میں نارمل انسان کو بھی نوکری نہیں ملتی تھی جب کہ یہ 90 فیصد مفلوج تھے لہٰذا یہ روزگار کیسے حاصل کرتے ؟

اس کا جواب کسی کے پاس نہیں تھا مگر امجد صدیقی نے یہ رکاوٹ بھی عبور کر لی‘ یہ مسلسل اپنے سابق بینک کے چکر لگاتے رہے اور انھیں بالآخر قائل کر لیا آپ مجھے تین ماہ کے لیے بلامعاوضہ ملازم رکھ لیں میں نے اگر آپ کی ریکوائرمنٹس پوری کر لیں تو مجھے ملازمت دے دیجیے گا ورنہ میں چلا جائوں گا‘ بینک راضی ہو گیا اور اس کے بعد یہ شخص روزانہ ہاتھ سے 15 کلو میٹر ویل چیئر چلا کر بینک جاتا رہا‘ یہ اس سفر کے لیے رات تین بجے اٹھتے تھے‘ تیار ہوتے تھے‘ہاتھ سے ویل چیئر دھکیل کر 15 کلو میٹر کا سفر کرتے تھے اور بینک کھلنے سے ایک گھنٹہ پہلے وہاں پہنچ جاتے تھے اور اس روٹین میں ایک دن بھی تعطل نہیں آیا‘ یہ اتنی تکلیف کیوں اٹھاتے تھے؟

کیوں کہ بسوں اور ٹیکسیوں میں اس زمانے میں ویل چیئر کی گنجائش نہیں ہوتی تھی‘ صدیقی صاحب نے دفتر میں اپنی ٹائپنگ اسپیڈ عام لوگوں سے بڑھا لی تھی لہٰذا یہ بینک میں چار لوگوں کے برابر کام کرتے تھے‘ انھیں جتنا بھی کام دے دیا جاتا تھا یہ انکار نہیں کر تے تھے اور اپنا کام مکمل کر کے گھر جاتے تھے‘ بینک کی انتظامیہ ان کے اس ڈسپلن اور کارکردگی سے متاثر ہوگئی اور انھیں پہلے مہینے ہی تنخواہ دے دی‘ سعودی عرب میں اس زمانے میں معذور آدمی کو کوئی شخص کرائے پر مکان نہیں دیتا تھا‘ امجد صدیقی نے مکان حاصل کرنے کے لیے جتنی جدوجہد کی یہ بھی ایک طلسم ہوش ربا ہے۔

ویل چیئر پر پڑے لوگوں کو عمارتوں اور مکانوں میں داخل ہونے کے لیے کتنے مسائل کا سامنا کرنا پڑتا ہے امجد صدیقی نے یہ واقعات بھی تفصیل سے لکھے‘ مثلاً میونسپل کمیٹی ایک بار ان کے گھر کے سامنے کھڈا کھود کر چلی گئی‘ یہ رات دیر گئے گھر واپس آئے تو ان کے گھر کے سامنے گڑھا کھدا ہوا تھا‘ یہ اکیلے رہتے تھے لہٰذا ویل چیئر سمیت گڑھے میں گر گئے اور پوری رات ویل چیئر کو گھسیٹ کر باہر نکلنے کی سعی کرتے رہے۔

میں کتاب کا یہ پورشن پڑھتے ہوئے رو پڑا تھا‘ اس زمانے میں معذوروں کو گاڑی چلانے کی اجازت نہیں تھی‘ امجد صدیقی نے یہ اجازت بھی حاصل کی‘ گاڑی بھی خریدی اور یہ اسے چلاتے بھی رہے‘ یہ ویل چیئر کو کس طرح گاڑی کے قریب لاتے تھے پھر بازوئوں کی طاقت سے کس طرح اچھل کر ڈرائیونگ سیٹ پر گرتے تھے اور پھر ویل چیئر کو کس طرح سڑک سے اٹھا کر فولڈ کرتے تھے اور اسے کس طرح سائیڈ سیٹ پر ایڈجسٹ کرتے تھے‘ یہ پورشن بھی ناقابل یقین ہے۔

ایک بار ہائی وے پران کی گاڑی کا ٹائر پنکچر ہو گیا‘ امجد صدیقی گھنٹوں ویل چیئر پر بیٹھ کر مدد کا انتظار کرتے رہے لیکن جب کوئی گاڑی نہ رکی تو پھر انھوں نے ویل چیئر پر بیٹھ کر ٹائر کیسے تبدیل کیا یہ بھی ایک دل دہلا دینے والی داستان ہے‘ ان کے ساتھ جہازوں میں کیا سلوک ہوتا تھا‘ ائیر لائینز کس طرح انکار کرتی تھیں‘ کس طرح انھیں گھسیٹ کر سیٹوں پر بٹھایا اور اٹھایا جاتا تھا‘ ساتھی مسافر کس طرح ان سے پرہیز کرتے تھے‘ ان کی ویل چیئر پیک کرتے وقت کس طرح توڑ دی جاتی تھی اور پھر یہ ائیرپورٹ سے کس طرح نکلتے تھے‘ ان کو نوکری سے کس طرح نکالا گیا اور انھوں نے کندھوں پر تولیے رکھ کر کس طرح ویل چیئر پر کاروبار شروع کیا اور یہ کس طرح ایک کام یاب بزنس مین بنے۔

یہ جہاز کے سفر کے دوران اپنا پیشاب اور پاخانہ کیسے کنٹرول کرتے تھے اور اگر سفر کے دوران ایمرجنسی ہو جاتی تھی تو ان کے ساتھ کیا سلوک ہوتا تھا اور پھر انھوں نے شادی کیسے کی اور اللہ تعالیٰ نے انھیں اولاد سے کیسے نوازا‘ یہ بھی ایک حیران کن داستان ہے اور یہ داستان بھی رونے پر مجبور کر دیتی ہے۔

امجد صدیقی واقعی پاکستان کے ہیرو ہیں‘ انھیں پاکستان کا بہادری کا سب سے بڑا ایوارڈ ملنا چاہیے اور ان کی کتاب ’’درد کا سفر‘‘ بھی ہر شخص کو پڑھنی چاہیے‘ میرا دعویٰ ہے یہ کتاب پڑھنے کے بعد آپ کو زندگی کی کوئی بھی مشکل‘ مشکل محسوس نہیں ہو گی‘ آپ کو زندگی کے تمام مسائل سے پیار ہو جائے گا اور آپ روز اپنے آپ سے کہیں گے اگر امجد صدیقی کر سکتا ہے تو میں یہ کیوں نہیں کر سکتا؟

دوسرا آپ اس اﷲ کا شکر ادا کرنے پر مجبور ہو جائیں گے جس نے آپ کو مکمل بھی بنایا اور آپ کو اپنا جسم اور اپنی ضروریات بھی خود پوری کرنے کا سلیقہ دیا‘ اﷲ آپ پر کتنا مہربان اور رحیم ہے آپ کو اس کا احساس بھی یہ کتاب پڑھ کر ہوگا اور آپ بھی میری طرح آخر میں یہ کہنے پر مجبور ہو جائیں گے، امجد صدیقی صاحب تسی گریٹ ہو اور آپ بھی دونوں ہاتھوں سے ان کی عظمت کو سلام پیش کرنے پر مجبور ہو جائیں گے۔

بشکریہ ایکسپریس نیوز اردو