Tag Archives: حفیظ اللہ نیازی

وطن عزیز کا ڈراؤنا خواب



بے شُمار موضوعات، ہفتہ بھر کے اہم واقعات بھی، نواز شریف کی وطن واپسی پر تاریخی جلسہ، تاریخی تقریر بہت کچھ رقم کر گئے، بہت کچھ رقم کرنے کو ۔ سپریم کورٹ کا ملٹری کورٹس میں سویلین ٹرائل کو ناممکن بنانا اور فیصلے پر فوری عملدرآمد نہ ہونا، تفکرات خدشات بھی ساتھ ساتھ ۔ آنے والے دنوں میں ایسے موضوعات پر طبع آزمائی رہنی ہے۔ آج مملکت خداداد،جہاں موجود، اپنے حکمرانوں کی خرمستیوں کی بدولت ہی تو ہے ۔ جمہوری یامطلق العنان ہر حکمران حصہ بقدرِ طاقت و استطاعت فراخدلی سے ڈالنے میں ہچکچائے نہ شرمائے۔ مطلق العنان حکمران تو موجد، اپنی دھاک بٹھا چُکے ہیں۔ آج مملکت خداداد کے اصل مجرم کا تعین آسان، قرعہ فال بنام جنرل محمد ایوب خان ہی نکلنا ہے۔ ایک وقت تک یقینا ًبین الاقوامی سچائی، مجرم جنرل ایوب تھا کہ جب تک جنرل قمر جاوید باجوہ بنفس نفیس پردہِ سیمیں پر جلوہ افروز نہیں ہوئے تھے۔ آج ایوب خان کے شانہ بشانہ مقام پا چُکے۔ جنرل باجوہ کا کریڈٹ، آئین چھیڑا نہ مارشل لا اور نہ ہی ایمرجنسی یعنی کہ’’دامن پہ کوئی چھینٹ نہ خنجر پہ کوئی داغ … تم قتل کرو ہو کہ کرامات کرو ہو ‘‘۔ وطنی سیاسی عدمِ استحکام ، اپنے ادارے کی بے حُرمتی اور نظام کی تباہی و بربادی میں ایک تاریخ رقم کی۔ کسبِ کمال، نواز شریف کو خاطر خواہ ذلیل، رسوا، خوار کر کے نکالا بھی اور پھر اپنی توسیع کا ووٹ بھی لے لیا ۔ ’’تیری سرکار میں پہنچے تو سبھی ایک ہوئے ‘‘، ساری سیاسی جماعتیں، سارے سیاسی رہنما باجماعت باوضو، وردی اور توسیع مدتِ ملازمت کو فقید ِ المثال پذیرائی میں مستعد رہے۔ ایسابڑا اتفاق رائے جو 1973ء کے آئین پاکستان پر نہ ہو سکا۔ خوش قسمت جب دوسری توسیع کا معاملہ آیا تو’’جمعیت سیاسی مسلمین‘‘ بشمول عمران خان دوسری توسیع ملازمت دینے پر بھی راضی۔ شُنید کہ اس دفعہ امریکہ کیساتھ دوسرے ممالک بھی مُصر تھے۔ آخری دنوں تو شہباز شریف نے بھی لندن جا ڈیرے ڈالے۔ توسیع کا پروانہ لیے بغیر واپس آنے سے صاف انکاری تھے ۔ عمران خان دو قدم آگے، لانگ مارچ کر ڈالا۔ چشم تصور میں ممکنہ آرمی چیف کی تعیناتی رُک پاتی تو جنرل باجوہ سُرخرو رہتے۔ اس سارے عمل میں جنرل باجوہ نے کمالِ ہوشیاری سے حکومت کو سرنگوں رکھا جبکہ اپنے ایک بااعتماد قریبی ساتھی لیفٹیننٹ جنرل فیض حمید کے حقوق ِملکیت عمران خان کو منتقل کئے تاکہ عمران خان بھی موثر طریقہ سے زیر استعمال رہے۔ یہ تو بھلا ہو نواز شریف کاکہ نومبر 2022ء میں رنگ میں بھنگ ڈال دیا ، باجوہ کو بے آبرو ہو کر رُخصت ہونا پڑا ۔

میں فوج کا نظام نہیں جانتا، جاننے کیلئے راکٹ سائنس چاہیے بھی نہیں۔ زباں زدِ عام جنرل باجوہ جاتے جاتے نئے آرمی چیف کیلئے مشکلات کا انبار لگا گئے ۔ چند ہفتے پہلے درجن بھر اپنے اعتماد کے لیفٹیننٹ جنرل بنا ڈالے۔ اہم پوزیشنوں پر چار سُو اپنی پسند کے جرنیل تعینات کر گئے۔ یوں مستقبل قریب میں بھی ادارے کے ڈسپلن پر اثر انداز ہونے کے راستے پختہ کئے۔کچھ واقعات اس سے پہلے بھی، 2019ء میں جنرل باجوہ صاحب کو جب توسیع ملی تو اگلی توسیع کیلئے بے قراری اور بے یقینی کچھ زیادہ ہی بڑھ گئی ۔ ایک دفعہ سربراہ تو تاحیات آرمی چیف رہنے کا عزم ہمیشہ سے اپنی جگہ موجود رہتا ہے۔ جنرل ایوب خان، جنرل یحییٰ خان، جنرل ضیاء الحق اور جنرل مشرف کو تو ہم نے تاحیات وردی کی تمنالئے کھلے عام سینہ سپر دیکھا ہے ۔ جبکہ جنرل باجوہ مارشل لا لگائے بغیر یہی کچھ حاصل کر نا چاہتے تھے ۔ حفظ ماتقدم ، جنوری 2021 ء عمران خان سے طوطا چشمی کی ٹھان لی ۔ مزید توسیع کے بارے میں تفکرات اور خدشات بنتے تھے ۔ صفحہ کو چابکدستی اور کمالِ ہوشیاری سے ایسے پھاڑاکہ عمران خان کو کانوں کان خبر نہ ہوئی ۔ بعدازاقتدار کتبہ پر لکھا ملا کہ’’موصوف انجانے میں مارا گیا۔‘‘

دو رائے نہیں کہ جن اجزائے ترکیبی سے عمران خان حکومت تشکیل پائی، اُسی فارمولا کے تحت عمران خان کو گھر بھیجا جانا تھا۔ ایک اور توسیع کے سہانے خواب سچ ہونے کے قریب ۔ آرمی چیف کی تعیناتی توسیع کے کچھ رہنما اُصول اور بھی ، بقول جنرل حمید گل،ا مریکہ کی مرضی شاملِ حال رہتی ہے ۔ جنرل باجوہ شاید ایک درجہ اوپر، موصوف امریکی پلانٹڈ تھے؟ اسی پیرائے میں چند فقرے کہ جنرل عاصم منیر پہلا آرمی چیف، جو امریکی اثر و رسوخ سے باہر ہے ۔ عین ایسے موقع پر جبکہ چین پہلی دفعہ خم ٹھونک کر حقی سچی ’’ سپر پاور ‘‘بن چُکا ہے۔ جنرل عاصم کیلئے چین کے پاس موثر جائے اماں موجود ہے ۔ مقدر کا سکندر، اسرائیل کی دہشت گردی میں ہم جولی بننے پر امریکہ کی پوری توجہ اس وقت مشرق وسطی ٰپرمبذول ہے ۔ وگرنہ امریکہ جنرل عاصم منیر کیخلاف اب تک سازشوں کا انبوہ لگاچُکا ہوتا ۔

مت بھولیں کہ جولائی 2019ء میں جنرل باجوہ ہی تو اپنی توسیع کیلئے عمران خان کی اُنگلی پکڑ کر صدر ٹرمپ کے پاس جا پہنچے۔ عمر ان خان نے امریکی صدر کے آگے سر تسلیم خم رکھا ۔اس خوشی کے موقع پر جنرل باجوہ کو پینٹاگون نے 21توپوں کی سلامی دی ۔ ہمیں کیا معلوم کہ’’باپ بیٹا‘‘مارے خوشی ، کشمیر بھارت کے حوالے کر آئیں گے ۔ 2021 ء میں یہ جب طے ہوا کہ عمران خان کو فارغ کرنا ہے، عدم اعتماد کی تحریک ہی سہارا بننا تھی۔ دسمبر 2021ءسے یہ بھی عیاں کہ اپوزیشن جنرل باجوہ کے دام میں آ چُکی ہے، تحریک عدم اعتماد لا کر رہے گی۔ دسمبر 2021ء، جنوری فروری 2022 ءمیں میری ایسی ساری کوششیں ناکام کہ جنرل باجوہ اور عمران خان کی دھینگا مشتی سے اپوزیشن باہر رہے وگرنہ خانہ خرابی رہنی ہے ۔ سیاسی بانجھ اپوزیشن جماعتوں سے اسٹیبلشمنٹ کی یہ بات بھی طے ہو گئی کہ اقتدار ملنے کے فوراً بعد الیکشن ونیب ریفارمزاور بعد ازاں الیکشن اور نگران حکومت کا قیام ہونا ہے۔ پس پردہ جنرل باجوہ کا عزم صمیم کہ نگران حکومت کے ذریعے سپریم کورٹ کے پانچ ججز کی بھرتی، پھر قاضی فائز عیسیٰ کی دائمی رُخصتی اور پھر اپنی مرضی کی سپریم کورٹ کی مدد سے لمبی نگران حکومت کیلئے تحفظ ملنا تھا۔ اَز راہِ تفنن، 2019ءکے اواخر میں ناموافق حالات دیکھے تو مارشل لا کا بھی سوچا گیا مگر دیر ہو چُکی تھی۔ آج اللہ کی اسکیم حرکت میں، جنرل باجوہ اپنے تمام تر منصوبوں میں ناکام و نامراد، بالآخر توہین آمیز رُخصتی مقدر بنی۔ جنرل باجوہ پاکستان کی قسمت سے کھیلے ہیں، اُنکا حساب کتاب لینا ہوگا، یہ ’’بدلہ‘‘ نہیں’’ادلہ‘‘ ہے۔ یہ’’ تیسا‘‘نہیں یہ’’ ایسا‘‘ ہے۔

مجھے اللّٰہ تعالیٰ سے خیر کی اُمید، مملکتِ خداداد کی قسمت سے کھیلنے والوں کی ان شاء اللّٰہ ’’نہ یہ دُنیا نہ وہ دُنیا ‘‘، دنیا اور آخرت میں رسوائی کندہ ہے۔ پاکستان ان شاء اللّٰہ قائم رہیگا، اسکی قسمت سے کھیلنے والے یقیناً برباد ہونگے ۔ (آمین)

بشکریہ روزنامہ جنگ 

نواز شریف کی بطور وزیراعظم واپسی



تحریر:۔ حفیظ اللہ نیازی

نواز شریف بطور وزیراعظم 21 اکتوبر کو ایسے قدم رنجا فرمانے کو کہ کل 10 سال کی سزا سنانے والا جج بشیر آج نواز شریف کی حفاظت کا ضامن بن چُکا، دوسری طرف اسلام آباد ہائی کورٹ ’’بقول شخصے نواز شریف نے جس عدالت کا کل تمسخر اُڑایا تھا‘‘، آج اُسی عدالت نے بلا حیل و حجت ضمانت دے دی ، بدلتا ہے آسماں رنگ کیسے کیسے۔ 22 مارچ 2018 جنگ میں یہ کالم ’’کوئی تو ہے جو نظام وطن چلا رہا ہے‘‘ چھپا تھا۔ نواز شریف واپسی کی مناسبت سے مختصر کر کے، یادش بخیر اپنی پیشن گوئیاں دوبارہ آپکی نذر ۔

’’نواز شریف اور خاندان کڑے مقدمات میں اس طرح ملوث، آرٹیکل10(A) ابدی نیند میں، مقدمات منطقی انجام کی طرف بڑھ رہے ہیں، فقط نگران حکومت کا انتظار ہے۔ سپریم کورٹ کی مصروفیات دیدنی، عدالتی ہاتھ انتظامیہ کو دبوچنے، سدھارنے میں کامیاب، اب سیاست کو ٹھیک کرنے کا عندیہ دے چکے ہیں۔ آنے والے دنوں میں لیگی سیاستدانوں کو مثال بنانا ہے۔ لیگی رہنماؤں کی نا اہلیاں آئے دن متوقع ہیں۔ پیغام واضح گھر گھر پہنچایا جا رہا ہے، راستے دو ہی ’’ن لیگ چھوڑیں یا نااہلی سمیٹیں‘‘۔ ’’سیاست نہیں ریاست بچاؤ‘‘، الیکشن دھاندلی، پاناما کیس، نواز شریف نا اہلی، بلوچستان حکومت کی زمین بوسی، نواز شریف کی بحیثیت صدر معزولی، سینٹ چیئرمین کا دن دیہاڑے ’’صاف شفاف‘‘ انتخاب، خدا کو حاضر ناظر جان کر کہتا ہوںکہ کسی ایک عمل یا دیگر درجنوں کار ہائے نمایاں میں زرداری عمران کا کوئی عمل دخل اور نہ ہی کوئی قصور۔

بات پرانی وہی کہانی، 2017 میں نواز شریف کی وزارت عظمیٰ سے معزولی پر ن لیگ نے تتر بتر ہونا تھا، امیدیں خاک رہیں۔نئی ضد سامنے آئی کہ نواز شریف کو صدارت سے ہٹائو، ن لیگ ٹوٹ جائے گی، کام نہ بنا۔ شیر کا نشان نہ دے کر بھی دیکھا، قوم دھوکا کھانے پر آمادہ نہ ہوئی۔ اگرچہ نیا بڑا سیاسی پلیٹ فارم تشکیل پانے کو، کنونشن لیگ اور ق لیگ جیسی ’’قومی لیگ‘‘ بننے کو۔ کنونشن لیگ، ق لیگ، آئی جے آئی جو نام بھی، تاریخ سے یہی ثابت، استعمال کے بعد کوڑا دان ہی آخری آرام گاہ رہنی ہے۔ ذوالفقار علی بھٹو یا نواز شریف دونوں کی اٹھان اسٹیبلشمنٹ کی سیاست سے ضرور رہی، بچ گئے کہ بھٹو صاحب 1966میں اسٹیبلشمنٹ کےسامنے خم ٹھونک کر جبکہ نواز شریف 1993 میں صدر اسحاق اور جنرل اسلم بیگ سامنے سینہ تان کر کھڑے ہو گئے۔ اسٹیبلشمنٹ کیلئے بھی سوچنے کا مرحلہ، جس کسی نے اسٹیبلشمنٹ سے ٹکر لی، رفعت اور مقام پایا۔

ایک تاثر یہ بھی ہے کہ سول ملٹری تعلقات کبھی ٹھیک نہیں ہو سکتے، 70سالہ تاریخ تائید کرتی ہے۔ سویلین حکومت سے’’ناچاقی‘‘ اداروں کی طبیعت میں رچ بس چکی ہے۔ پچھلے چند دنوں سے شہباز شریف اسٹیبلشمنٹ کو منانے میں مستعد اور روبہ عمل ہیں۔ یقین دلاتا ہوں، خدا کے گھر جائیں یا خدا کی شان دیکھیں، اگلوں کے ارادے غیر متزلزل، مستقل مزاجی شعار ہے۔ ابھی سے ن لیگ کے ممبران اسمبلی کو واضح پیغامات پہنچائے جا رہے ہیں، پی ٹی آئی جوائن کرو یا گھر بیٹھ جائو‘‘۔ ایسی جامع تجویز کتنے لوگ پلے باندھتے ہیں، وقت بتائے گا؟ پس پردہ قوتوں کی ساری منصوبہ بندی، ’’سب کچھ درست‘‘ سمت میں جا رہا ہے۔ بلاشبہ سیاست کا محور و مرکز نواز شریف مزید مستحکم و مضبوط ابھر کر سامنے آ چکے ہیں۔ آنے والے عام انتخابات میں کسی طور عام آدمی کو ووٹ استعمال کرنے کی آزادی رہی تو سارے سروے، ماضی کے ضمنی الیکشن، نواز شریف کی پبلک پذیرائی، بے شمار آثار نواز شریف کی جیت یقینی بتا رہے ہیں۔ سب کچھ کے باوجود نواز شریف کیلئے’’سب اچھا‘‘ نہیں ہے۔

تاریخ میں درج ایک سبق اور بھی، بے نظیر1988 کے الیکشن جیت کر حکومت بنانے میں کامیاب ضرور ہوئیں، وزیر تک اپنی مرضی کے نہ بنا سکیں، 2سال 5 ماہ بعد گھر بھیج دیا گیا۔ مثال اس لئے، بفرض محال، ن لیگ کی کامیابی کی صورت میں، نئی حکومت کو ہر گز کام کرنے نہیں دیا جائے گا۔ موجودہ دنگل نے جاری رہنا ہے۔ ہمارے مستعد ادارے، امپائروں نے اپنا اور قوم کا قیمتی وقت جس طرح پچھلے چار سال میں حکومت کی اکھاڑ پچھاڑ میں خرچ کیا۔ نواز شریف کے دوبارہ اقتدار میں آنے پر آنے والے دنوں میں یہی کاروبار یکسوئی سے جاری رہنا ہے۔ مجھے قوی امید ہے، نگران حکومت کی مطلق العنانی، نواز شریف کی زباں بندی، شریف خاندان کی قید و بند، دیگر رکاوٹوں، دبائو لالچ سے شاید ’’قومی لیگ‘‘، ’’سینٹ ماڈل اسٹائل‘‘ نئی حکومت بنالے گی۔ حکومت چلانا خالہ جی کا کام نہیں اور وہ بھی چوں چوں کے مربے سے، شک نہیں کہ ’’بھان متی کے کنبہ‘‘ کو شاندار ناکامی دیکھنا ہے۔

وطن عزیز کا تو نقصان ہی نقصان جبکہ نواز شریف کی واضح اور روشن کامیابی مستند رہنی ہے۔ نواز شریف ان چند سال میں اقتدار سے ضرور باہر، ناقابل تسخیر بن جائیں گے۔ ایسے مضبوط و مقبول کہ پاکستان کی سیاسی تاریخ ایسی مثال پیش کرنے سے قاصر رہے گی۔ دو قومی جماعتیں پیپلز پارٹی، خصوصاً تحریک انصاف سیاسی طور پر سب سے زیادہ نقصان اٹھائیں گی۔ قومی سانحہ کہ قومی پارٹیاں اپنے لیڈروں کی بدمستیوں اور بد نیتیوں کا اس طرح خمیازہ بھگتیں گی۔ نواز شریف کے 2018 میں اقتدار میں نہ آنے کا ایک اور فائدہ بھی، 70 سال سے بگڑے سول ملٹری تعلقات کو حالات کے جبر اور نامساعد ملکی حالات، ہمیشہ کیلئے ڈھنگ پر لے آئیں گے۔نواز شریف کو گارنٹی دیتا ہوں کہ2023 یا اس سے بھی ایک آدھ سال پہلے اقتدار خود بخود انکے قدموں میں آنا ہے کہ قومی افق پر ایک ہی سیاسی رہنما، جناب ہی نے تو بچنا ہے۔ جبکہ ‘1971میں عبرتناک شکست کے بعد صدر جنرل یحییٰ نے نور الامین اور ذوالفقار علی بھٹو کو اقتدار گھر جا کرہی تو دیا تھا۔ اگلے دو تین سال میں مقتدر پارٹیوں کا مقدر خواری ورسوائی کے سوا کچھ نہ ہوگا۔ ن لیگ کو جب دوبارہ 2023میں اقتدار ملے گا تو سول ملٹری تنازع کی وجہ نزاع کا تدارک ہوچکا ہوگا۔ البتہ ایک شرط کڑی، اس کھینچا تانی میں، پاکستان کا سلامت رہنا ضروری ہے کہ آنیوالے دن وطن عزیز پر بہت کڑے ہیں‘‘۔ (5 سال 7 ماہ پہلے لکھا گیا کالم، آج دوبارہ دیکھا تو لگا آج کے عمران خان اور تحریک انصاف پر لکھا ہے) ۔

شذرہ: ’’دوست‘‘ شاید ٹویٹ کا بُرا منا گئے، حسان خان سے آج ممکنہ ملاقات نہ ہو سکی۔ حقی سچی طاقت کے اندر ایک بڑا پن ہوتا ہے۔ افسوس کہ ہمارے ہاںکی طاقت میں ایسی معمولی خوبی کا بھی فقدان ہے۔

بشکریہ جنگ نیوز اردو

’’اکبر نام لیتا ہے، خدا کا‘‘



تحریر:۔ حفیظ اللہ نیازی

21 اکتوبر کو میاں محمد نواز شریف وطن قدم رنجا فرمانے کو ، انگلستان چھوڑ چُکے ، سفر کا آغاز ہوچُکا ۔ کم و بیش ایک ماہ قبل ارادہِ سفر باندھا تو جوشِ خطابت یا وفورِ جذبات میں’’چند قومی مجرموں ‘‘ کا نام لیکر مطالبہ کر ڈالاکہ’’اُنکے خلاف مقدمات چلانے ہونگے‘‘۔

بس نام لینے کی دیر ، مملکت کے طاقتور حلقوں میں بھونچال آگیا۔ ن لیگی رہنماؤں میں کھلبلی مچ گئی۔ تب سے آج تک رہنماؤں کی طرف سے دو درجن وضاحتی بیان آ چُکے ہیں ۔تازہ بہ تازہ بیان ، سیاسی فہم و فراست سے عاری ہمارے دوست اسحاق ڈار کا اعلان ، ’’معیشت کی بحالی نواز شریف کا بہترین انتقام ہوگا ‘‘۔ نہیں معلوم کہ’’اگر‘‘الیکشن ہو بھی گیا ’’اگر‘‘ نواز شریف اقتدار میں آ بھی گئے اور’’اگر‘‘معیشت بحال بھی ہو گئی تو بدلہ کس کی مد میں چُکتا ہوگا۔ معیشت کی بحالی پر جنرل باجوہ یا جنرل فیض یا ثاقب نثاریا آصف کھوسہ یا عمران خان، کیا سب سے حساب بیباک ہو پائے گا؟

موجودہ حالات اورمعروضی حقائق میں معیشت کی بحالی کا عزم، معاشی بحران بارے ڈار صاحب کی کم علمی یاغیر سنجیدگی پر حیرت زدہ ہوں ۔ سیاسی عدم استحکام ہی تو موجودہ معاشی بحران کی وجہ بنا ہے ۔ 2014ء سے’’سیاست نہیں ریاست بچاؤ‘‘ ، جیسے ڈھکوسلے نعرہ پراستوارغیر آئینی اور غیر قانونی ہتھکنڈوں نے مملکت کو ایک عرصہ سے متزلزل کر رکھا ۔ یکے بعد دیگر ذمہ داری سنبھالنے والوں نے بھی کسی بُخل کا مظاہرہ نہ کیا اسکو کمال فن بنایا ۔ آج مملکت سیاسی عدمِ استحکام کی دلدل میں گردن تک دھنس چُکی۔

خاطر جمع رکھیں ، جب تک اپریل 2014ءسے اپریل 2022ءتک مملکت کو اس حال تک پہنچانے والوں کاتعین نہیں ہو گا ۔ جب تک ’’ طاقتور ‘‘آئین اور قانون کے زیرِ دست نہیں ہونگے، دھجیاں اُڑانے والوں کو سزائیں نہیں ملیں گی، مملکت کا سیاسی مستقبل مخدوش ہی رہنا ہے ۔ میرا عقیدہ ہے کہ خواجہ ناظم الدین کی معزولی پر یا1956 ءکے آئین کی منسوخی کا سدِ باب ہو جاتا تو 1971 ءکا سانحہ اور ہتک آمیز شکست نصیب نہ بنتی۔ مملکت کی بد قسمتی کہ طاقت کے زور پر سیاست ہتھیانے کا کھیل ، وطنی شکست و ریخت کئی مراحل کے بعد زخم خوردہ سیاسی استحکام کا سفر جب جنرل راحیل اور جنرل باجوہ تک پہنچا تودونوں نے اُسکو مزید چار چاند لگائے ۔

جنرل راحیل اور جنرل باجوہ نے اپنے عہدوں کو دوام بخشنے کی خاطر جو’’ شر‘‘تخلیق کیا، آج عفریت بن کر سامنے ہے ۔ دونوں کا مقصدایک ہی کہ تاحیات آرمی چیف رہنا ہے ۔ جنرل باجوہ کا اضافی بوجھ کہ اپنے ادارے پر بھی رحم نہ آیا۔ اپنے عزائم کو ادارے کیخلاف استعمال کر ڈالا ۔ پہلا موقع کہ ادارے کی وجہ شہرت ’’اتحاد اور تنظیم ‘‘بذریعہ اپنے سربراہ تختہِ مشق بنی رہی۔ امریکہ کے مضبوط صدر ہیری ٹرومین ( 1945-53)نے اپنے دفتر میں دیوا رپر کندہ کرایا ( THE BUCK STOPS HERE ) یعنی کہ’’ سب کچھ میں ہی میں ہوں‘‘۔آج امریکہ کے سیاسی استحکام کا راز اِسی میں پنہاں ہے ۔ ہمارے ہاں اُلٹی گنگا بہتی ہے ۔ ماضی کریدیں تو 70 سال سے مملکت میں سانپ سیڑھی کا کھیل جاری ہے۔ پہلا المیہ! طاقت کا سر چشمہ کبھی منتخب حکومت (ما سوا ئےلیاقت علی خان ) نہ بن پائی ۔ بگاڑ کی ساری ذمہ داری ہمیشہ سیاسی حکومت پر جبکہ اختیارات و احکامات ہمیشہ طاقت کے زیرِ اثر رہے ۔ دوسرا المیہ! ہر 8/10سال بعد مملکت زیرو پوائنٹ سے اپنے سیاسی استحکام کی بازیابی کے نئے سفر کا آغاز کرتی ہے۔ اس لحاظ سے 70سال کے مختصر سفر میں ہم انواع واقسام کے نظام آزما چُکے۔ تیسرا المیہ ! خواجہ ناظم الدین کی معزولی سے لیکر نگران وزیراعظم کاکڑ تک ، لمبی فہرست میں ایک وزیراعظم بھی نہیں جسکو اقتدار میں لانےکیلئے اسٹیبلشمنٹ موثر نہ رہی ہو یا کسی کو ضرورت پڑنے پر گھر بھیجنے میں کبھی کنجوسی نہ دکھائی ہو؟ ایسی اُکھاڑ پچھاڑ میں مملکت کا باجا بجتا رہا ۔ پردہِ سیمیں کے پیچھے کاریگر فراخدلی سے اپنے آپکو مسیحا، مُصلح اور مجدد گردانتے رہے ۔ 6سال میں جنرل باجوہ اور عمران خان دلجمعی سے نئی تعیناتی سے پہلے حالات کو جہاں دھکیل گئے ہیں، اُسکا منطقی انجام آج کی صورتحال ہی تھی ۔ دونوں موجودہ آرمی چیف کیلئے کانٹے بو گئے۔

دو دن پہلے اسلام آباد میں وزیراعظم انوار الحق کاکڑ صاحب کیساتھ ایک طویل نشست ہوئی ۔ ملک کے پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا کے نامی گرامی افراد شریک ہوئے ۔ یوں تو میٹنگ آف دی ریکارڈ رکھنے کی فرمائش تھی ، بہت کچھ سامنے آ چُکا ہے ۔ وزیراعظم کے جوابات تو میری امانت ، البتہ میرا سوال میری ملکیت، یہاں درج کیے دیتا ہوں ۔’’ وزیراعظم صاحب! میں اس معاملہ میں یکسو ہوں کہ آئین کےمطابق 90 روز میں الیکشن کروانا آپ کیلئے کوئی مشکل نہ تھا۔ مرضی کے مطلوبہ نتائج بھی حاصل ہونا تھے ۔ شہباز حکومت نے وسیع تر قومی مفاد اور ناگزیر وجوہات پرجو اقدامات کیے انتخابات کو فروری تک ملتوی کرنے کی گنجائش دے گئے ۔ اگر موافق حالات کے باوجود ا لیکشن نہیں ہوسکے تو یہ بات طے کہ فروری میں بھی الیکشن کے انعقاد میں آپکی حوصلہ شکنی رہنی ہے ۔ میرا ڈر ہے کہ آئین سے جو انحراف’’ نظریہِ ضرورت‘‘ کے تحت ہوچُکا ۔ ایسے نظریہ کی ضرورت من و عن فروری میں بھی موجودرہنی ہے ۔ خدشہ ہے ، انتخابات کے مزید التوا پریقیناً آئین ساقط ہونے کو ہے ‘‘ ۔

آج کی تاریخ تک تو حکومت سے حکمران’’ کمبل‘‘بن کر بغل گیر رہے ہیں ۔ ملکی تاریخ میں پہلا موقع کہ حکومت’’کمبل‘‘بن کر حکمرانوں کو اپنی لپیٹ میں لے چُکی ہے ۔ بظاہر موجودہ حکومت کا اس کمبل سے جان چھڑانا ناممکن نظر آتا ہے ۔ نواز شریف آ بھی گئے تو بلا شبہ بہت پُر تپاک استقبال متوقع ہے ۔ اگرچہ مینار پاکستان پر بہت بڑا شو ہوگا۔ بیانیہ مع الیکشن کی غیر موجودگی میں چند ماہ اندر تاثر زائل ہو جائے گا ۔ یوں اسحاق ڈار ایسی صورتحال میں انتقام کی زحمت سے بھی محفوظ رہینگے اور معیشت کی بحالی بھی وعدہ فردا رہنی ہے ۔ معمہ لاینحل کہ جنرل باجوہ اور جنرل فیض حمید کو سیاسی عدمِ استحکام کی دلدل میں دھکیلنے پر معاف کیونکر کیا جائے؟

یقیناً ماضی میں ایسا کام شجر ممنوعہ رہا ۔ مگر ادارے کیخلاف گھناؤنی سازش پر تو اُنکو گرفت میں نہ لانا ادارے کے اپنے لیے مضر ہے۔ نواز شریف نے قومی مجرموں کا نام لے ہی لیا تو ایسا شور شرابا کیوں؟ کہ بے چارے نواز شریف کو شرمندگی اُٹھانا پڑی ۔ نواز شریف ! تمہاری مجال کہ’’ اکبر نام لیتا ہے، خدا کا اس زمانے میں‘‘۔ بالآخر غائب ہونے کے بعدآج بروز جمعرات 12بجے دوپہر میری حسان نیازی سے ملاقات ہو گئی ہے۔ بہت کچھ کہنے کو،فی الحال زبان گنگ، ملاقات پر اللہ کا سجدہ شکر بجا لاتا ہوں۔

بشکریہ جیو نیوز اردو

ہائے تنہائی نہ پوچھ!



آج مملکت سیاسی افراتفری، انتشاراور تباہی کے دہانے پر ، جہاںبنیادی وجہ ستر سال سے اسٹیبلشمنٹ کی مملکت پر یلغار وہاں سیاستدانوں کی باہمی افراط و تفریط و چپقلش، خود غرضی ہراول دستہ بنی۔ 17 اپریل 1953وزیراعظم خواجہ ناظم الدین کو جب زور زبردستی ’’چلتا‘‘کیا گیا تو اگلے دن ساری کابینہ باجماعت پیچھے امام محمد علی بوگرہ کیساتھ حلف اٹھارہی تھی ۔ تیری سرکار میں پہنچے تو سبھی ایک ہوئے ۔ نواز شریف 21اکتوبر کو وطن واپسی کا ارادہ باندھ چُکے ہیں ۔ بظاہر اگلے منتخب وزیراعظم بننے کیلئے ذہنی طور پر تیار ہیں ۔ پچھلی دفعہ جب بے توقیری کیساتھ اقتدار سے علیحدہ ہوئے تو’’ووٹ کو عزت دو‘‘، اگرچہ ملفوف مگر اینٹی اسٹیبلشمنٹ بیانیہ اُنکی عوامی مقبولیت کو ساتویں آسمان تک پہنچا گیا ۔’’ ووٹ کو عزت دو‘‘کیلئے 13 جولائی کو بیٹی کیساتھ جیل جا کر خاطر خواہ قربانی بھی دی ۔چار دن بعد 17 جولائی کو شہباز شریف نے ’’ـ خدمت کو ووٹ دو‘‘جیسا اچھوتا مزاحیہ بیانیہ متعارف کروا دیا کہ چشم تصور میں خوشحالی نے ووٹ دلوانے تھے، نامراد ٹھہرے۔

20 اکتوبر 2020کو نواز شریف نے جب گوجرانوالہ جلسے سے خطاب کیاتو بغیر لفظ چبائے فرمایا ،’’عمران خان سے میرا جھگڑا نہیں ، وہ جنرل باجوہ اور جنرل فیض کا فقط ایک مہرہِ ناچیز ہے ۔ میرا مقدمہ جنرل باجوہ ،جنرل فیض آپ کیخلاف کہ آپ دونوں نے ایک منتخب وزیراعظم کو ہٹا کر مملکت کو سیاسی عدم استحکام میں دھکیلا‘‘۔نواز شریف کی تقریر نے اپوزیشن تحریک کو پہلے ہی دن تتربتر کر دیا ۔

نواز شریف نے چند دن پہلے عوامی اُمنگوں کےمطابق جو بیانیہ اپنایا، آج شہباز شریف نے باقاعدہ طور پر اُسکا مکو ٹھپ دیا ۔’’ نواز شریف انتقام لینے نہیں ، زخموں پر مرہم پٹی رکھنے آ رہے ہیں ۔ وہ21 اکتوبر کو اپنا مقدمہ اللہ پر چھوڑیں گے‘‘ ۔ کیا نواز شریف کی واپسی کا سفرشہباز شریف کی حالیہ شعلہ بیانی کیساتھ مشروط ہے؟ کیا نواز شریف کیلئے وزیراعظم بننا اتنا ہی اہم اور ضروری ہے کہ بیانیہ کی قربانی دے ڈالی؟ یہ بات طے سمجھیں کہ) اگر( 2024 کے اوائل میں الیکشن ہو بھی گئے تو اگلے وزیراعظم نواز شریف ہی ہونگے کہ چارہ گر کے پاس اسکے علاوہ کوئی چارہ نہیں ۔ یہ درست ہے کہ نواز شریف کا سب سے بڑا سیاسی مخالف عمران خان ہی ہے ۔ مضحکہ خیز اتناکہ اگلے الیکشن میں عمران خان کا وجود دور دور تک لاموجود رہنا ہے۔ ماضی دہرانے کو، عمران خان کی سیاست پر بھی ’کاٹا‘ لگ چُکا۔ کیا نواز شریف کی تقاریر ایک تصوراتی اپوزیشن یا سایہ کا پیچھا کریں گی؟ تحریک انصاف پارٹی کی صورتحال !آج کی تاریخ میں’’قائدین اور نمایاں لوگوں کیلئےمحفوظ راستہ ایک ہی ، پارٹی چھوڑو ،معافی مانگو سیاست کو خیر باد کہو اور باقی زندگی اللہ کی یاد میں وقف کر دو ۔ اسکے علاوہ بھی کچھ آپشن میسر روپوش ہو جاؤ ، زیرزمین چلے جاؤ یا داؤ لگے تو بیرون ملک فرار ہو جاؤ اور بقیہ عمر خواری میں گزارو یا پھر برضا و رغبت جیل اور عقوبت خانوں میں کہ توبۃ النصوح کیلئے یہ آئٹم بھی ضروری یا پھر مکمل طور پر قید و بند میں خرچ ہو جاؤ‘‘۔ تحریک انصاف کیساتھ کچھ بھی انہونی نہیں ہو رہی ۔ وطنی سیاسی تاریخ میں کئی دفعہ انقلابیوںکا ایسے مرحلوں سے پالا پڑا ہے ۔ عمران ریاض کی زندگی دن دہاڑے ایک چلتا پھرتا سبق ہے ، ازبر رکھنا ہوگا۔PTI والوں کو اگر آزاد رہنا ہے تو ایک دن بیان بطور جرمانہ ادا کرنا ہوگا۔

2024 کا ممکنہ الیکشن پہلا الیکشن نہیں ہوگا جہاں مقبول سیاسی جماعت اور مقبول لیڈر کو بزور بازو الیکشن سے باہر یا شکست سے دوچارکیا جائے گا ۔ قبل ازیں، شیخ مجیب الرحمان سے لیکر نواز شریف تک، کئی بھگت چُکے ہیں ۔ الیکشن کا ذکر اذکار تو بھلا 1971 کا مشرقی پاکستان میں ضمنی الیکشن کیونکر آنکھ اوجھل؟ عوامی لیگ کالعدم قرار، آدھے لیڈر بھگوڑے بنے، باقی توبہ تائب ہو گئے۔ جب ضمنی الیکشن کا عملاً انعقاد ہوا تو سیٹوں کی بندر بانٹ کیسے بُھلائی جا سکتی ہے۔ ایک سبق اور بھی ، ہر ایسی مہم جوئی کے چند سال بعد ’’مہم جو ‘‘ اور ریاست دونوں عمیق گڑھے میں دکھتے ہیں ۔ کیا اس بار’’چند سال ‘‘والی سہولت بھی میسر ہوگی یا نہیں؟

9 مئی کے واقعہ نے اسٹیبلشمنٹ کو ’’ ناقابلِ بیاں ‘‘ طاقتور بنا ڈالا ہے ۔ویسے تو ہمیشہ سے پسِ پردہ طاقت کا سر چشمہ، مزید قوتِ نافذہ اور اُسکے ثمرات اسٹیبلشمنٹ کے حقوق ہمیشہ سے محفوظ ہیں ۔ 9مئی کے بعد عملاً اقتدار جنرل عاصم منیر کو( BY DEFAULT) منتقل ہوچُکا ہے ۔ آج چارو ناچار آئین سے ماورا مملکت کا نظم و نسق اسٹیبلشمنٹ کی گرفت میں ہے ۔ کیا اسٹیبلشمنٹ اس صورتحال سے چھٹکارا لے پائے گی ؟ یا عملاً شیر پر سوار ہے ، اُترنا نا ممکن رہے گا ۔ نواز شریف کی سیاسی مقبولیت کا راز اُنکا بیانیہ ہی تو تھا ۔ 2019 میںتوسیعِ مدت ملازمت ہو یا اپریل 2022میں شہباز حکومت کا قیام ، نوازشریف کو بخوبی علم کہ اُنکی سیاست کو ناقابلِ تلافی نقصان پہنچا ہے ۔ چند دن پہلے جب نواز شریف نے وطن واپسی پر جنرل باجوہ اور جنرل فیض سے حساب کتاب لینے کا مطالبہ کیا تھا تو شاید مقصدبدلہ نہیں تھا ۔ میرے نزدیک ایک دفعہ یہ کام ہو گا تو مملکت کی بنیاد صحیح خطوط پر رکھ دی جائے گی ۔ یقیناً نواز شریف نے یہ بات ’’دل پشوری‘‘کیلئے نہیں کی ، رائے عامہ کا دباؤ تھا۔ مجھے سمجھ نہیں آئی کہ آخراسٹیبلشمنٹ کو اس پر بھلا کیوں اعتراض ہے؟ جنرل باجوہ اور جنرل فیض کو مثال بنا کر دیرینہ عوامی مطالبہ بھی پورا ہو جاتا جبکہ اپنے ہی ادارے کیخلاف سازش پر ان دونوں کو قرار واقعی سزا بھی مل جاتی ۔سخت مقبول بیانیہ کی سیاست کا بوجھ ہماری قومی پارٹیاں اٹھانے کی سکت نہیں رکھتیں۔

دو رائے نہیں کہ عمران خان کو بھی جب کوئی مفاہمتی فارمولادیا گیا جس میں اُنکے اقتدار میں آنے کے امکانات ہوئے تو آئین کو تہہ بالا کرتے ہوئے بھی اقتدار پکڑ لیں گے ۔ حیف ! نواز شریف صاحب نے بالآخر یہی اصول اپنا لیا ہے کہ اقتدار کے حصول کیلئے عملیت پسندی ضروری ہے۔نواز شریف کیلئے چند غور طلب باتیں،بالفرض محال 2024 میں( قوی امکان) الیکشن نہیں ہوپاتے تو پھر ایسی صورتحال میں اپنا مقدمہ کس عدالت میں کس کیخلاف پیش کریں گے یا پھر الیکشن کی غیر موجودگی میں ہاتھ پر ہاتھ دھرے آرام فرمائیں گے ؟ اگر تحریک انصاف کو زور زبردستی فارغ کر کے سیٹوں کی بذریعہ بندر بانٹ سےآپکو حکومت مل بھی گئی تو کیاایسے غیر سیاسی ماحول میں خوشحالی یااستحکام لا پائیں گے ؟ کیا ایسی حکومت یا بصورت دیگر نگران حکومت میں عملاً اصلاً حکمران اسٹیبلشمنٹ نہیں ہو گی؟ کیا آپ مشروط وزیراعظم بن کر مقبول سیاست سے ہمیشہ کیلئے باعزت بَری ہونے پر تیار ہیں ؟قطع نظر ،سیاستدان اپنے لیے کیا کیا پسند فرماتے ہیں؟ میری خود غرضی اور سہولت کہ اپنے لیے من و عن آئین و قانون کی حکمرانی کا بیانیہ پسند فرماؤں۔ قلق ضرورکہ دوست ساتھی سیاستدان سب خود غرض نکلے، آئین و قانون سے ماورامشاغل ڈھونڈ نکالے۔ اصولی بیانیہ پر میں تنہا ،’’کاؤ کاؤِ سخت جانی ، ہائے تنہائی نہ پوچھ‘‘۔

بشکریہ روزنامہ جنگ