Tag Archives: سرکاری ملازمین

بڑے اور چھوٹے ملازمین کی تنخواہوں، مراعات میں 32.52 گنا تک کے فرق کا انکشاف



اسلام آباد (مانیٹرنگ ڈیسک) تنخواہوں، مراعات اور آپریٹنگ اخراجات کا مشترکہ تناسب 17 سے 22 تک کے گریڈوں کیلئے نچلے گریڈوں کے مقابلے بہت زیادہ ہے۔

موقر قومی اخبار کی خبر کے مطابق ’لائف ٹائم کاسٹ آف پبلک سرونٹس‘ کے عنوان سے پاکستان انسٹی ٹیوٹ آف ڈویلپمنٹ اکنامکس (پائیڈ) کی جانب سے کی جانے والی تحقیق کے مطابق بی پی ایس 22کے ملازمین کو بی پی ایس 1کے ملازم سے 32.52گنا ملنے والے تنخواہوں، مراعات اور آپریٹنگ اخراجات کا مشترکہ تناسب بہت زیادہ ہے۔

سب سے زیادہ اور سب سے کم تنخواہ کی سطح کے درمیان کافی فرق کے ساتھ یہ مراعات، فوائد اور آپریٹنگ اخراجات میں بڑی عدم مساوات کی نشاندہی کرتا ہے۔

پاکستان بیورو آف اسٹیٹسٹکس کے مطابق دسمبر 2022تک پاکستان میں وفاقی سرکاری ملازمین کی تازہ ترین تعداد 13لاکھ 74 ہزار 911 ہے۔

اس تعداد میں شہری، مسلح افواج اور خود مختار/نیم خود مختار/کارپوریشنز شامل ہیں۔ پاکستان میں حکومت اپنے ملازمین کی تنخواہوں اور پنشن کی فراہمی پر کافی رقم خرچ کرتی ہے۔

ان ملازمین کی ادائیگی پر تقریباً 3کھرب روپے اور پنشن کی لاگت پر تقریباً ڈیڑھ کھرب روپے لاگت آتی ہے۔ پروجیکٹ ورکرز، سرکاری کمپنیوں میں کام کرنے والے افراد اور دیگر تنظیموں پر تقریباً مزید ڈھائی کھرب روپے لاگت آتی ہے۔

فوج کی تنخواہیں، اجرتوں پر خرچ ہونے والی کل رقم تقریباً ایک کھرب روپے بنتی ہے۔ بڑے گریڈوں کے ساتھ تنخواہ میں نقد الاؤنسز کا تناسب اور کل لاگت میں مقدار کے مطابق مراعات بڑھ جاتی ہیں۔

سرکاری رہائش کی سہولت، جو کہ ایک قسم کے فائدے کے طور پر دی جاتی ہے، سرکاری ملازمین کی کل لاگت میں کبھی شمار نہیں کی گئی، اور نہ ہی حکومت کو اس کے بہترین متبادل کی قدر (opportunity cost) کا کبھی حساب لگایا گیا ہے۔

گریڈ 20-22کے افسران کے ذاتی استعمال کے لیے سرکاری گاڑیوں کے استعمال سے کل لاگت بنیادی تنخواہ سے 1.2 گنا زیادہ ہو جاتی ہے۔

میڈیکل الاؤنسز اور میڈیکل بلوں کی باز ادائیگی سے میڈیکل بلوں میں 2.5سے 3ارب روپے کا اضافہ ہوتا ہے۔ مراعات اور مختلف الاؤنسز سرکاری ملازمین کی کل لاگت میں خاطر خواہ اضافہ کرتے ہیں اور اگر آمدنی حاصل کی جائے تو سرکاری شعبے میں کم تنخواہوں کا افسانہ ختم ہوجائے گا۔

تحقیق کے مطابق اس بات کی نشاندہی کی گئی ہے کہ جولائی 2023میں بھرتی کیے گئے گریڈ 1 کے ملازم کی خالص موجودہ قدر بالترتیب 8 ملین، 17 ملین، 27ملین پاکستانی روپے ہوگی جس میں تنخواہ اور پنشن، مراعات اور فوائد اور آپریٹنگ لاگت شامل ہے۔

یہ بھی حساب لگایا گیا ہے کہ ریاست پاکستان کو گریڈ 17کے افسر کو تیس سال کی مدت کے لیے برداشت کرنے کے لیے 49ملین، 136ملین اور 245ملین پاکستانی روپے درکار ہوں گے۔ یہ رقم اس بات کی نمائندگی کرتی ہے کہ ریاست اور حکومت پاکستان کو ایک ورکر پر کیا خرچ کرنا پڑے گا۔

اس سے یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ آیا ہمارے پاس اگلے 30 سالوں کے لیے معاوضے کو سہارا دینے کے لیے کافی محصولات ہیں یا نہیں، اگر نہیں تو یہ ایک اچھا وقت ہے کہ توقف کریں اور سسٹم میں نئے ورکر کو شامل کرنے کے اثرات پر غور کریں، اس لیے کہ ریاست پاکستان اور حکومت ٹیکس کے ذریعے لاگت کو پورا کرنے کی ذمہ دار ہوں گی۔

پائیڈ کی جانب سے جاری پریس ریلیز کے مطابق کہا جاتا ہے کہ اس کے قرض کے سرپل سے بچنے کیلئے پاکستان کو طویل المدتی منصوبہ بندی کی ضرورت ہے؛ تنخواہ اور پنشن ادارے کے لیے ایک بڑا خرچہ ہے، لہٰذا پائیڈ نے ملازم رکھنے کا فیصلہ کرنے سے پہلے اضافی احتیاط اور کفایت شعاری کی تجویز پیش کی ہے۔

اس طرح ادارہ یہ اندازہ لگا سکتا ہے کہ وہ کس طرح اس شخص کو اس کی باقی کام کرتے زندگی کے لیے ادائیگی کر سکتا ہے۔ حکومتوں کے لیے یہ ضروری ہے کہ وہ فوری طور پر ملازمت کی تخلیق کے طویل مدتی مالیاتی اثرات کا جائزہ لیں اور قلیل مدتی فوائد اور پائیدار مالیاتی پالیسیوں کے درمیان توازن تلاش کریں۔

اگرچہ فوری ملازمتوں کی تخلیق کا اچھا اثر ہو سکتا ہے، لیکن یہ نوٹ کرنا بھی اتنا ہی ضروری ہے کہ تیزی سے ملازمتوں کی تخلیق کے منفی اثرات مرتب ہو سکتے ہیں۔