سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ کیس کی سماعت پیر تک ملتوی کر دی گئی ہے۔ اس موقع پر چیف جسٹس فائز عیسیٰ نے کہا کہ 9 اکتوبر کو کیس کا فیصلہ سنا دیں گے۔
چیف جسٹس پاکستان جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی سربراہی میں فل کورٹ بینچ نے کیس کی سماعت کی۔ پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ کیس کی کارروائی پی ٹی وی پر براہِ راست نشر کی گئی۔
چیف جسٹس پاکستان جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے 15 رکنی فل کورٹ بینچ میں جسٹس اعجاز الاحسن، جسٹس منصور علی شاہ، جسٹس سردار طارق مسعود، جسٹس منیب اختر، جسٹس یحییٰ آفریدی، جسٹس امین الدین خان، جسٹس سید مظاہر علی اکبر نقوی، جسٹس جمال خان مندوخیل، جسٹس محمد علی مظہر، جسٹس عائشہ اے ملک، جسٹس اطہر من اللہ، جسٹس سید حسن اظہر رضوی، جسٹس شاہد وحید اور جسٹس مسرت ہلالی شامل تھے
سماعت کے آغاز پر چیف جسٹس پاکستان جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے ریمارکس دیے کہ ہماری کوشش ہو گی آج اس کیس کو ختم کریں۔ ایک کیس کو ہی لے کر نہیں بیٹھ سکتے۔ سپریم کورٹ میں پہلے ہی بہت سے کیسز زیرالتوا ہیں۔
چیف جسٹس نے کہاکہ اس قانون کا اثر چیف جسٹس سپریم کورٹ اور 2 سینیئر ججز پر پڑے گا، اختیارات کو کم نہیں کیا جا رہا، بلکہ بانٹا جا رہا ہے۔
چیف جسٹس فائز عیسیٰ نے ریمارکس دیے کہ کچھ لوگ اس قانون کو بنیاد بنا کر کہتے ہیں کہ سپریم کورٹ اور پارلیمان آمنے سامنے آ گئے ہیں، پریکٹس اینڈ پروسیجر بل قانون بن چکا ہے، جبکہ حسبہ بل کبھی قانون بنا ہی نہیں تھا۔ اس بحث میں نہیں جانا چاہیے کہ پارلیمنٹ قانون سازی کر سکتی تھی یا نہیں۔
درخواست گزار نیازاللہ نیازی کے وکیل اکرام اللہ چوہدری کے دلائل
مقدمے کے درخواست گزار نیازاللہ نیازی کے وکیل اکرام اللہ چوہدری نے دلائل دیتے ہوئے کہا ہے کہ اس ایکٹ سے عدلیہ کی آزادی پر حملہ ہوا ہے، پارلیمنٹ نے پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ منظور کر کے عدلیہ کے اختیارات میں مداخلت کی جو ہمارے آئین میں اختیارات کی تقسیم کے تصور کے خلاف ہے۔
اس پر چیف جسٹس پاکستان نے ریمارکس دیے کہ آپ کے دلائل کی بنیاد اخباری خبریں ہیں۔ قاضی فائز عیسیٰ نے اکرام اللہ چوہدری سے مکالمہ کرتے ہوئے کہاکہ آپ کہتے ہیں عدالت کی آزادی پر حملہ کیا گیا تو یہ بتائیں کہ عدالتی آزادی نایاب ہوتی ہے یا یہ لوگوں کے لئے ہوتی ہے، آپ عدالتی آزادی سے آگے نہیں جا رہے۔
چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ فرد واحد کا اختیار کم نہ کرنے کی بات کی جا رہی ہے، فرد واحد کی وجہ سے ہی تو ملک کی تباہی ہوئی، مارشل لا میں یاک شخص ملک چلاتا ہے، ہم 3 لوگ فیصلہ کریں یا 5 کسی کو کیا مسئلہ ہے۔ ہمیں پارلیمان کو احترام دینا ہوگا۔
سپریم کورٹ کے سینیئر جج جسٹس اعجازالاحسن نے ریمارکس دیے کہ قانون سازی کرنے سے پہلے پارلیمنٹ کو مکمل طریقہ کار اپنانا چاہیے تھا مگر ایسا نہیں کیا گیا۔
اس موقع پر جسٹس اطہر من اللہ نے سوال اٹھایا کہ کیا پارلیمنٹ کو یہ اختیار نہیں کہ وہ عوام کی بہتری کے لیے کوئی بھی قانون سازی کر سکے۔
واضح رہے کہ فریقین کی جانب سے عدالت عظمیٰ میں تحریری جوابات جمع کرا دیے گئے ہیں، اٹارنی جنرل، مسلم لیگ ن، مسلم لیگ ق کی جانب سے جمع جوابات میں ایکٹ کو برقرار رکھنے کا کہا گیا ہے جبکہ درخواست گزاروں اور پی ٹی آئی نے استدعا کی ہے کہ ایکٹ کو کالعدم قرار دیا جائے۔