Tag Archives: سہیل وڑائچ

پختون بازی لے گئے۔۔۔



ایسے میں کہ جب پنجابی سیاست دان انتقام کی آگ میں جل بھن رہے ہیں، اور ایسے میں کہ جب سندھی سیاست دان چوٹ لگنے کا احساس ہونے کے باوجود پہل کرنے کو تیار نہیں ہیں، اسی طرح ایسے میں کہ جب بلوچستان کے اہل سیاست گہرے کچوکے لگنے کےبعد بھی حل تک نہیں پہنچ پا رہے ،ایسے میں پختونوں کو داد دینی پڑے گی کہ وہ بازی لے گئے۔

محاذ آرائی کے شدید ترین ماحول سے گزر کر آنے کے باوجود اسد قیصر اور علی محمد خان کا اپنے سیاسی حریف مولانا فضل الرحمن کےگھر جانا، تدبر اور عقلمندی کی نشانی ہے اور دو متحارب فریقوں میں سیاست پر بات ہوئی یا نہ ہوئی، ان کا آپس میں کیمروں کے سامنے ملنا ہی بہت بڑا واقعہ ہے۔ اسے سیاسی ماحول میں تبدیلی کا نقطہ آغاز سمجھنا چاہئے ۔

کہنے کو تو کہا جاتا ہے کہ پنجابی سب سے سیانے ہیں باقی قومیتوں میں سے سوچ اور ترقی میں آگے ہیں مگر تاریخ یہ بتاتی ہے کہ جب سیاسی مخالفت کے معاملات کا حل نکالنا ہوتو پنجاب کے اہل سیاست پہل نہیں کرپاتے، مصلحت اور مفادات کا شکار رہتے ہیں۔

سندھیوں کے بارے میں انکے سیاسی حریف الطاف حسین نے ایک بار مجھے کہا تھا کہ سندھی سب سے عقلمند سیاست دان ہیں ان سے ڈیل کرنا اور ان سے ڈیل لینا سب سے مشکل ہے۔سندھ کی بڑ ی پارٹی کے سربراہ زرداری صاحب اور ان کا چیئرمین صاحبزادہ بلاول حالات کی سختی کا ادراک تو رکھتے ہیں مگر ابھی بھی وہ مقتدرہ کے ساتھ اپنے معاملات کو ٹھیک کرنے کو ترجیح دے رہے ہیں۔

بلوچستان پے درپے آپریشنوں کے بعد سے زخم خوردہ ہے وہاں کی سیاست نارمل نہیں بلکہ ابنارمل ہے، ایسے میں ان سے توقع کرنا ہی عبث ہے کہ وہ متحارب سیاسی فریقوں کے درمیان جمی برف کو توڑ سکیں۔ پختونوں کے بارے میں مشہور کر دیا گیا ہے کہ اسلحہ انکا زیور ہے غصہ انکی ناک پر دھرا رہتا ہے وہاں معاملات مکالمے سے نہیں گولی سے طے کئے جاتے ہیں مگر پی ٹی آئی کے سرکردہ رہنمائوں کی مولانا فضل الرحمن سے ملاقات نے پختونوں کے بارے میں اس جھوٹے تاثر کو تار تار کر دیا ہے اس ملاقات نے تو ثابت کیا ہے کہ لڑائی شدید بھی ہو تو پختونوں کوصلح کرنے کا فن آتا ہے۔

یہ مثبت پیشرفت دیکھ کر اور سن کر یہ خیال ضرور آیا کہ کاش یہ پہلے ہو جاتا۔ سیاست دان مل بیٹھتے ، الیکشن کی تاریخ کا تعین ہو جاتا تو نہ 9مئی کا واقعہ ہوتا اور نہ تحریک انصاف مشکلات کا شکار ہوتی۔

اگر ماضی کے واقعات کی راکھ کو کھنگالا جائے تو جس وقت کھلاڑی خان کو یہ مشورہ دیا جا رہا تھا کہ اہل سیاست کے ساتھ میز پر بیٹھ جائو اس وقت بہت سے لوگوں کو دیوار پہ لکھا صاف نظر آ رہا تھا کہ اگر مصالحت نہ ہوئی تو تحریک انصاف اور مقتدرہ میں ایک روز تصادم ہو جائےگا۔

تاریخ کو درست رکھنے کے لئے یہ بتانا ضروری ہے کہ راقم ان تین ملاقاتوں میں موجود تھا جن میں کھلاڑی خان کو آمادہ کرنے کی کوشش کی گئی کہ وہ سیاست دانوں کے ساتھ مذاکرات کی میز پر بیٹھ کر مسائل حل کریں، ایک ملاقات میں یہ راقم اور جناب مجیب الرحمن شامی شامل تھے دوسری ملاقات امتیاز عالم اور سول سوسائٹی کے نمائندگان کے ہمراہ ہوئی اور تیسری ملاقات لاہور اور اسلام آباد میں اینکرز کے ہمراہ ہوئی، کھلاڑی خان صاف کہتے رہے کہ میں ان چوروں کے ساتھ نہیں بیٹھوں گا۔

کھلاڑی خان کے سوا تحریک انصاف کے کئی رہنمائوں کو بھی یہ نظر آگیا تھا کہ تصادم کے نتیجے میں نقصان انکی جماعت کا ہی ہوگا مگر ان رہنمائوں میں سے کوئی بھی کھلاڑی خان سے اختلاف کی جرات نہیں کر سکتاتھا ۔آج تحریک انصاف کے جو حالات ہیں ان میں اپنے حریفوں کے ساتھ ہاتھ ملانے سے انکار سب سے بڑی وجہ ہے، یہی وہ رویہ تھا جس کی وجہ سے اسمبلیوں کو خیر باد کہا گیا۔

پنجاب اور کے پی کی اسمبلیاں توڑ دی گئیں حالانکہ اگر یہ اسمبلیاں رہتیں تو نہ صرف دو صوبوں میں انکی حکومت قائم رہتی بلکہ انکا اپنے سیاسی حریف اور مقتدرہ دونوں سےنامہ و پیام بھی جاری رہتا۔ سب راستے توڑ کر سڑکوں پر آنا اچھی حکمت عملی نہیں تھی مگر اب تحریک انصاف اور مولانا فضل الرحمن کی ملاقات دیرآید درست آید کے مصداق ماضی کی تلخیاں مٹانے میں اہم کردار ادا کرسکتی ہے۔

اس اہم پیش رفت کے بعد اگلا سوال یہ ہوگا کہ کیا تحریک انصاف اور اسکی مخالف سیاسی جماعتوں میں الیکشن سےپہلے مصالحت ہو گی یا الیکشن کے بعد؟ تحریک انصاف کی خواہش یہ ہو گی کہ مصالحت الیکشن سے پہلے ہو تاکہ اس مصالحت کے نتیجے میں انہیں لیول پلینگ فیلڈ مل سکے مگر قرائن یہ بتاتے ہیں کہ مقتدرہ اور نونی الیکشن سے پہلے کھلاڑی خان سے کسی مصالحت پر رضامند نہیں ہونگے وہ چاہیں گے کہ الیکشن میں تحریک انصاف کو شکست دیکر اور خود حکومت سنبھال کر پی ٹی آئی سے مصالحت کی جائے۔

مولانا فضل الرحمٰن سے ہونے والی مصالحتی ملاقات ان انصافیوں کے لئے بری خبر ہے جو انتقام، گالیوں اور نفرت کو مسائل کا حل سمجھنے لگ گئے ہیں، انہیں بھول چکا ہے کہ تحریک انصاف ایک سیاسی اور جمہوری جماعت ہے جس نے آئینی نظام کے اندر ہی رہ کر کام کرنا ہے۔

کھلاڑی خان کبھی نہیں چاہے گا کہ اسکی جماعت دہشت گرد یا تخریب کار گروہ بن کر ریاست کے خلاف مزاحمت پر اتر آئے۔ماضی میں الذوالفقار سے لیکر طالبان تک ایسے تمام انتہا پسند گروہ مقتدرہ سے شکست کھا چکے ہیں اس لئے تحریک انصاف کے لئے پرامن جمہوری جدوجہد اور الیکشن کے ذریعے اقتدار لینا ہی واحد راستہ ہے۔

پاکستان جیسے ملک میں بغاوت اور انقلاب کا امکان بھی دور دور تک نظر نہیں آتا اس لئے تحریک انصاف کو حقائق کو سمجھتے ہوئے اپنی پالیسی بنانی ہو گی۔سوچا نہ تھا کہ اسد قیصر اور علی محمد خان کے ہاتھ یہ سعادت آئے گی کہ وہ روٹھی اور دلبرداشتہ تحریک انصاف کو دوبار مین اسٹریم سیاست میں لانے کی راہ ہموار کرینگے۔

تحریک انصاف کو چاہئے کہ چودھری پرویز الٰہی اور شاہ محمود قریشی کو مقتدرہ کے ساتھ مذاکرات کا مینڈیٹ دے اور اپنا یہ پیغام پہنچائے کہ وہ پرامن جمہوری سیاست کرنا چاہتے ہیں 9مئی کا واقعہ ایک بڑی غلطی تھی جس سے سبق سیکھ کر وہ آئندہ کی سیاست میں نیا راستہ بنانا چاہتے ہیں…..

بشکریہ روزنامہ جنگ

’’تُن دیو‘‘ اور ’’وڑ گیا‘‘



انگریزی کے بے بدل ڈرامہ نگار ولیم شیکسپیئر نے اپنے کلاسیک المیہ ڈرامے ’’ہیملٹ‘‘ میں ڈنمارک کے حالات پر لکھا ہے “SOMETHING IS ROTTEN IN THE STATE OF DENMARK” ڈرامے میں ڈنمارک کی بادہشات میں ہونے والی سیاسی کرپشن، زوال اور انتقام کو موضوع بنایا گیا ہے۔ یوں لگتا ہے کہ ماضی کا ڈنمارک حال کے تضادستان جیسا تھا۔ ڈنمارک میں بھی سیاسی سازشوں، ایک دوسرے کو اقتدار سے ہٹانے اور انتقام کا دور دورہ تھا۔ آج کے تضادستان میں بھی یہی ہو رہا ہے۔کہا جاتا ہے کہ کسی معاشرے کی صحت اور اس کے رجحانات کا جائزہ لینا ہو تو لوگوں کے درمیان ہونے والی گفتگو کا لیول دیکھ لیا جائے۔ فرض کریں کہ آج ہم معاشرے کے مختلف گروہوں کے درمیان ہونے والی گفتگو اور ڈائیلاگ کا جائزہ لیں تو صاف نظر آتا ہے کہ ہم انتہائی زوال کا شکار ہیں، گالیاں ، طعنے، الزام اور سکینڈل ہمارے من پسند موضوعات ہیں۔ ہماری اخلاقی گراوٹ کا اندازہ کریں کہ ہم مشرقی روایات اور خاندانی اقدار کے قائل ہونے کے باوجود آج کل’’ تُن دیو ‘‘اور’’ وڑ گیا‘‘ جیسی اصطلاحات سرعام استعمال کر رہے ہیں۔ ان الفاظ اوراصطلاحات سے جہاں ہماری اخلاقیات کی ترجمانی ہوتی ہے وہاں اس سے یہ اندازہ کرنا بھی مشکل نہیں کہ ہم اپنی اگلی نسل اور اپنے خاندان کو کس طرح کا ورثہ منتقل کر رہے ہیں۔

بیماری کس حد تک ہمارے ہاں سرایت کر چکی ہے اس کا اندازہ افنان اللہ صاحب اور شیر افضل مروت صاحب کے درمیان ایک ٹی وی شو پر ہونے والی ہاتھا پائی کے ردعمل سے ہوتا ہے۔ کسی بھی صحت مند معاشرے میں ٹی وی پر ہونے والی اس لڑائی کو نہ صرف برا بھلا کہا جاتا بلکہ لڑائی میں حصہ لینے والوں کو مورد الزام ٹھہرا کر اپنی اپنی جگہ پر ان کا محاسبہ کیا جاتا تاکہ آئندہ کسی ٹی وی شو پر ایسی ہاتھا پائی اور لڑائی کی نوبت نہ آئے۔ مگر ہوا اس کے الٹ، تضادستان میں بیمار ذہنیتوں میں بحث یہ چھڑی رہی کہ افنان اللہ نے زیادہ مارا یا مروت نے زیادہ کُٹ لگائی، دونوں فریق یہ ثابت کرنے پر مصر تھے کہ ان کے ہیرو نے مخالف کو زیادہ مارا ہے۔ اب آپ ہی بتائیں کہ اس طرح کی سوچ کے ساتھ معاشرہ ہیملٹ کا ڈنمارک اور آج کا تضادستان نہیں بنے گا تو اور کیا بنے گا؟

معاشرتی حالات اور زبان کا آپس میں گہرا تعلق ہے ،جو کچھ معاشرے میں ہورہا ہوتا ہے اس کا زبان پر گہرا اثر پڑتا ہے، کہتے ہیں کہ مارشل لا کا دبائو ہو یا سیاسی حبس ہو تو فحاشی بڑھ جاتی ہے، گالیاں فروغ پاتی ہیں، مزاح، لطائف اور جگتیں عام ہو جاتی ہیں۔ آج کے تضادستان پر حیدر علی آتش کا یہ شعر صادق آتا ہے۔ ؎

لگے منہ بھی چڑھانے، دیتے دیتے گالیاں صاحب

زباں بگڑی تو بگڑی تھی خبر لیجئے دہن بگڑا

پاکستان کی سیاسی تاریخ کا جائزہ لیں تو سیاستدانوں کے نام بگاڑنے اور ان کا تمسخر اڑانے کا آغاز ذوالفقار علی بھٹو نے کیا، وہی تھے جنہوں نے اصغر خان کو آلو خان کا نام دیا، انہوں نے ہی مفتی محمود اور مولانا نورانی کی چھوٹی ’’ی ‘‘ نکالنے کی بات کی تھی،اسی دور میں ایک بار انہوں نے سٹیج پر گالی بھی دے ڈالی تھی۔ بہت عرصہ تک جیالا کلچر یہی تھا کہ دوسروں کی نہ سنو۔ اسی لئے پیپلز پارٹی کے مخالف اسے’ ہوجمالو‘ کلچر قرار دیا کرتے تھے۔ نواز شریف سیاست میں آئے تو بار بار کہا کرتے تھے کہ وہ شرافت کی سیاست کرتے ہیں مگر ان کی جماعت کے اندر بھی متوالا کلچر فروغ پایا وہ بھی کسی مخالف ادارے کی رائے یا دوسری جماعت کے اختلاف کے قائل نہ تھے۔ بے نظیر بھٹو کی جس طرح کردار کشی کی گئی اس نے بہت بری مثال قائم کی۔ سپریم کورٹ پر حملہ متوالوں کی اسی سوچ کا ترجمان تھا۔ کھلاڑی خان میدان میں اترے تو انہوں نے سیاسی مخالفوںکیلئے سخت ترین لہجہ اختیار کیا، وہ نجی محفلوں میں ہر اختلاف کرنے والے کو گالیوں سے نوازتے، سیاسی سٹیج پر انہوں نے بھٹو سے بھی آگے بڑھ کر نہ صرف اپنے سیاسی مخالفوں کا تمسخر اڑایا بلکہ اپنے انصافیوں میں اہل سیاست کیلئے نفرت بھر دی۔ انہوں نے آج تک کسی انصافی کو نہیں روکا کہ وہ گالیاں نہ دے، ٹرولنگ نہ کرے، لوگوں کے گھروں پر دھرنے نہ دے۔ اس پالیسی کا نتیجہ یہ نکلا ہے کہ آج کے تضادستان میں ’’وڑ گیا اور تُن دیو‘‘ روزمرہ کے ڈائیلاگ ہیں۔

سیاست دان قوم کے لیڈر ہوتے ہیں ان کا فرض ہے کہ وہ اپنے کارکنوں کی اخلاقی اور سیاسی تربیت کریں، اگر کارکن کہیں غلط جا رہے ہیں تو لیڈر کو انہیں روکنا چاہیے مگر ہم نے دیکھا ہے کہ تحریک انصاف نے اپنے کارکنوں کو سیاستدانوں، صحافیوں، جرنیلوں اور اپنے مخالفوں کو گالیاں دینے کی ڈھیل دے رکھی ہے۔ اس بات کے متعدد ثبوت ہیں کہ لیڈر شپ کی طرف سے اس رویے کی حوصلہ افزائی کی جاتی ہے۔ کاش یہ سلسلہ رک جائے وگرنہ تحریک انصاف کے یہ بے عقل ہمدرد اگر اسی طرح گالی گلوچ اور دشنام طرازی سے کام لیتے رہے تو معاشرے میں اس کا ردعمل پیدا ہوگا، آج اسٹیبلشمنٹ کےتحریک انصاف مخالف رویے میں ان گالیوں کا بڑا ہاتھ ہے جو وقتاً فوقتاً فوج کی لیڈر شپ کو دی جاتی رہیں، اگر تو گالیوں سے مسائل حل ہو جاتے ہیں تو تحریک انصاف یہی پالیسی جاری رکھے وگرنہ اپنی پالیسی بدلے۔

سیاست کسے کہتے ہیں؟ اپنے دوستوں اور حامیوں کے بڑھانے کے عمل کو سیاست کہا جاتا ہے، گالیوں سے دوست نہیں دشمن بنتے ہیں۔ تحریک انصاف سیاست کرے، معاشرے کے مختلف طبقات کو دشمن نہ بنائے۔ کبھی کسی میڈیا گروپ کا بائیکاٹ کیا جاتا ہے اور کبھی کسی اینکر پرسن کے پروگرام میں نہ جانے کی بات کی جاتی ہے، کب تک یہ احتجاجی اور ناراضی والا رویہ جاری رکھا جائے گا ،جب تک اس کو بدلا نہیں جاتا تحریک انصاف کو جگہ ملنی مشکل ہوتی جائے گی۔ہمیں علم ہے کہ کوئی بھی مرض لاعلاج نہیں ہوتا مگر وہ مریض ضرور لاعلاج ہوتا ہے جو یہ تسلیم ہی نہیں کرتا کہ وہ بیمار ہے۔ شیزوفرینیا کے مریض اسی لئے بیماری سے نہیں نکل پاتے کہ وہ تسلیم ہی نہیں کرتے کہ انہیں کوئی بیماری ہے۔ بحیثیت مجموعی ،ہم سارا معاشرہ بیماری کا شکار ہیں اور اس پرطرہ یہ ہے کہ ہم یہ ماننے کو بھی تیار نہیں کہ ہمیں کوئی بیماری ہے۔

صحت مند معاشروں کے صحت مند اور نارمل لوگ اپنے مخالفوں، غیر مذہبوں کو حتیٰ کہ باغیوں اور مجرموں کو بھی سانس لینے اور بات کرنے کی اجازت دیتے ہیں ہم میں نفرت اس قدر کوٹ کوٹ کر بھری ہے کہ ہم ہر ایک کو ’’تُننا‘‘ چاہتے ہیں، ہر ایک کو’’ واڑنا‘‘ چاہتے ہیں۔ معاشرے اس طرح کی زبان اور اس طرح کے رویوں سے نہیں چلتے ہیں، دنیا نے جیو اور جینے دو کے اصول پر کاربند رہ کر ترقی کی ہے۔ یاد رکھنا چاہیےکہ معاشروں کو اس کی لیڈر شپ آگے لے کر جاتی ہے جب تک نواز شریف، عمران خان اور زرداری خود رواداری اور برداشت کو نہیں اپناتے اس وقت تک انکے پیر وکاربھی ان رویوں کے قائل نہیں ہونگے ،مقتدرہ کی قیادت کو بھی یہ سوچنا ہوگا کہ ملک کو چلانے کیلئےنفرت سے کام نہیں چل سکتا بالآخر مصالحت اور قومی اتفاق رائے کا راستہ نکالنا ہوگا، قوم تقسیم رہی تو ریاست بھی منقسم رہے گی، قوم متحد ہوگئی تو ریاست مضبوط بھی ہوگی اور متحد بھی….

بشکریہ روزنامہ جنگ

بہتے خون کا مزہ لینے والے



تاریخ کے اوراق پلٹیں توپتہ چلتا ہے کہ کئی دفعہ معاشرے ابنارمل ہو جاتے ہیں، ہر دل میں نفرت بھر جاتی ہے، تشدد، گالی گلوچ، ہر شخص پر شک، الزامات اور سکینڈل عام ہو جاتے ہیں۔ پیٹرایکرائڈ کی کتاب’ لندن ‘میں لکھا ہے کہ آج کے مہذب اور تہذیب یافتہ شہر لندن میں 16ویں اور 17ویںصدی میں ایک وقت ایسا بھی تھا کہ ہر گلی محلے میں روز لڑائیاں ہوتی تھیں۔ تشدد، مارپیٹ اور گالیوں کا عام رواج تھا ۔ ابنارمیلٹی اس حد تک زیادہ بڑھ چکی تھی کہ لوگ تشدد اور مارپیٹ کو دیکھ کر محظوظ ہوتے تھے، جوش اور جنون میں نعرے لگاتے تھے، اسی زمانے میں ریچھ کا وہ تماشا مشہور تھا جس کے دوران ریچھ کو ڈنڈے سے مارا جاتا تھا اور وہ چیختا چلاتا تھا، تشدد کے دلدادہ عوام خوشی سے چیختے تھے اور چلاتے تھے۔ لندن شہر کی تاریخ میں یہ واقعہ بھی درج ہے کہ اس زمانے کے تھیٹر پر بھی تشدد کو گلیمرائز کیا جاتا تھا، لوگوں کی مارپیٹ اور تشدد سے تسلی نہ ہوئی تواسٹیج پر خون بہتا ہوا دکھایا جانے لگا۔ لوگوں کا جنون اور جوش اس حد تک بڑھا کہ ایک بار اسٹیج پر واقعی قتل کا منظر اور بہتا ہوا خون دکھایا گیا، اس وقت کے ابنارمل شائقین نے اس کو پسندیدہ ترین تھیٹر قرار دیا ۔ یہ شائقین بہتے خون کا مزہ لیتے، جوش اور جنون سے نعرے مارتے اور خوش ہوتے۔

تضادستان کے آج کے شہری بھی نفرت، تشدد اور انتقام میں پل رہے ہیں، انہیں احساس نہیں ہورہا کہ وہ نارمل انسان سے ابنارمل انسانوں میں تبدیل ہو چکے ہیں۔ کل کے لندن اور آج کے تضادستان میں بہت مماثلت ہے۔ یہاں نونی چاہتے ہیں کہ عمران خان کو تُن دیا جائے، نشان عبرت بنا دیا جائے، نہ اسے جیل سے نکالا جائے اور نہ اسے الیکشن میں حصہ لینے دیا جائے۔ دوسری طرف انصافی چاہتے ہیں کہ نواز شریف کو جیل میں ڈال دیا جائے اور اس کے حامیوں کو بولنے بھی نہ دیا جائے۔ یہ تفریق اور تضاد یہیں ختم نہیں ہوتا جنرل باجوہ اور انکے قبیل کے لوگ یہ کہتے نہیں تھکتے کہ اگر سینٹ، پارلیمان اور صوبائی اسمبلیوں کے ہزار بارہ سو اراکین کو مار دیا جائے تو ملک کے معاملات ٹھیک ہو جائیں گے۔ دوسری طرف کے انتہا پسند اس حد تک چلے جاتے ہیں کہ فوج کو ختم کرنا ہی ملکی مسائل کا حل ہے۔ نفرت کا یہ سلسلہ اس قدر گہرا ہے کہ فوج کے بارے میں تصور ہے کہ وہ عوام کو بلڈی سویلین سمجھتی ہے اور دوسری طرف کئی سویلین فوج کے جرنیلوں کو سوچ اور سمجھ سے عاری خیال کرتے ہیں۔ ایک وقت تھا کہ میڈیا کی بڑی عزت تھی مگر نفرت کے اس ماحول میں میڈیا بھی ایسے ہی حالات کاشکار ہے۔ انصافی سرعام کہتے ہیں کہ میڈیا بِک چکا ہے، ہر کسی پر الزام لگا دیتے ہیں کہ وہ لفافہ ہے۔ فیس بک اور ٹویٹر پر پڑھے لکھے لوگ ایک دوسرے کو گالیاں لکھ رہے ہیں۔ بالکل وہی ابنارمیلٹی دیکھنے میں آ رہی ہے جو لندن میں بہتے خون کو دیکھ کر مزہ لینے والوں میں تھی۔

یاد کریں کہ کبھی یورپ کے ممالک میں نفرت، دشمنی، عناد یا ایک دوسرے کو مٹانے کی خواہش موجودتھی، فرانس اور انگلینڈ کے درمیان سو سال تک جنگ ہوتی رہی مگر ایک وقت ایسا آیا کہ یورپ میں یہ احساس جاگا کہ نفرت کی بجائے امن اور محبت کا آپشن اپنایا جائے، تجویز یہ آئی کہ فرانس اور انگلینڈ کے درمیان زیر آب انگلش چینل بنانے کے بارے میں منصوبہ بندی کی گئی اس معاملے میں دوسری جنگ عظیم کے ہیرو فیلڈ مارشل منٹگمری سے انگلش چینل بنانے کے حوالے سے رائے طلب کی گئی۔ فیلڈ مارشل منٹگمری نے فوراً جواب دیا کہ فرانسیسی بڑے سازشی اور ناقابل اعتبار ہیں اگر انگلش چینل بن گیا تو فرانسیسی فوج رات کے اندھیرے میں اس میں آ کر چھپ جائے گی اور صبح انگلینڈ پر قبضہ کرلے گی۔ آج کی نئی دنیا میں گزشتہ کئی دہائیوں سے کامیابی سے چلتے انگلش چینل کو دیکھ کر فیلڈ مارشل کی سوچ پر رونا آتا ہے۔ نفرت میں انسان صحیح طرح سے سوچ ہی نہیں پاتا۔ آج کے تضادستان میں لوگ نفرت سے بھرے ہوئے ہیں اس لئے وہ جو بھی سوچ رہے ہیں وہ مسائل کو حل نہیں کرے گا بلکہ اور پیچیدہ بنا دے گا۔

فرض کرلیں کہ نونی اقتدار میں آ جاتے ہیں، انصافی لیڈر اور اس کی جماعت کو جیلوں میں رکھتے ہیں، مقدمات چلاتے ہیں،سزائیں سناتے ہیں اور اپنے سارے بدلے چکاتے ہیں تو کیا اس سے ملک کا سیاسی بحران ختم ہو جائیگا؟ ہر گز نہیں۔ اب دوسرا رخ دیکھ لیں انصافیوں نے نونیوں کے لیڈر کو جیل میں رکھا، 2018ء کا الیکشن اس کی اسیری کے دوران ہوا، اس وقت فوج اور انصافی ایک صفحے پر تھے کیا وہ نونیوں کو سیاسی طور پر ختم کر سکے؟ ہر گز نہیں۔ ایک اور پہلو پر غور کرلیں کہ اسٹیبلشمنٹ چاہتی ہے کہ ملک سے سیاسی اور معاشی بحران ختم ہو۔ کیا انصافیوں کو جیلو ںمیں رکھ کر سیاسی بحران ختم ہو جائیگا۔ ہرگز نہیں، بلکہ یہ اور بڑھے گا۔ انصافیوں کی اپروچ بھی سراسر غلط ہے، کبھی فوج کو گالی ، کبھی میڈیا پر الزام تراشی، کبھی نونیوں کیخلاف نفرت انگیز رویہ۔ کیا اس سے وہ اقتدار حاصل کرلیں گے؟ ہرگز نہیں۔ غصے سے بھرے اس ماحول میں دنیا کی طرف دیکھنا ہوگا کہ انہوں نے نفرت، انتقام اور گالیوں سے اپنے مسائل حل کئے یا مصالحت اور مفاہمت سے۔ یورپ نے عالمی جنگیں لڑنے کے بعد بالآخر اپنے دشمنوں جرمنی اور جاپان کی تعمیر نو میں حصہ لے کر مفاہمت اور مصالحت کا راستہ اپنایا۔ ہمیں بھی تضادستان کے اندر اگر تضادات کو ختم کرنا ہے تو مفاہمت اور مصالحت کا رویہ اپنانا ہوگا۔ پاکستان کی واحد مشترکہ اور متفق علیہ دستاویز آئینِ پاکستان ہے، یہ آئین ملک کے تمام صوبوں، تمام جماعتوں اور تمام مکاتبِ فکر نے مصالحت اور مفاہمت سے بنایا، ملک اسی آئین کے تحت چلنا چاہیے، فوج بھی اسی آئین پر حلف لیتی ہے اسے بھی اپنے تمام فیصلے اسی کے تحت کرنے چاہئیں۔

سب سے پہلے تو سیاسی جماعتوں اور ان کے کارکنوں کو نفرت اور انتقام کے رویے ترک کرنا ہوں گے ، ایک دوسرے کو برداشت کرنا ہوگا، دنیا میں کبھی ایسا نہیں ہوا اور نہ ہی ہوگا کہ پوری قوم ہی ایک جماعت کی حامی بن جائے اور اس کے سارے مخالف صفحہ ہستی سے مٹ جائیں، جمہوریت کی ماڈرن تشریح بھی یہی ہے کہ اکثریت کی ایسی حکومت جو اقلیت کے حقوق تسلیم کرے۔ اگر آپ اپنے مخالف کو زندہ رہنے اور اسے اپنی رائے کا حق رکھنے کو تسلیم نہیں کرتے تو آپ جمہوری نہیں بلکہ فاشسٹ سوچ کے مالک ہیں۔ اہل سیاست ایک دوسرے کو برداشت کرلیں تو پھر اسٹیبلشمنٹ اور سیاستدانوں کو بھی پاکستان کو آگے بڑھنے کیلئے مفاہمت اور مصالحت کے راستے پر چلنا ہو گا۔ منتخب حکومتیں گرانا اور نئے نئے تجربے کرنا بیکار ثابت ہوا ہے، سیاست کو نیچرل انداز میں چلنے دیں بالآخر بنگلہ دیش اور بھارت کی طرح سیاستدان ملک کوبہتر طریقے سے چلانا شروع کردیں گے، حکومت چلانا سیاست دانوں کا حق ہے، دنیا بھر میں اس حق کو تسلیم کیا جاتا ہے، آئینِ پاکستان بھی اہلِ سیاست کو یہ حق دیتا ہے۔ پاکستان کی سلامتی اور استحکام کا راستہ آئین کی حکمرانی ہی میں ہے۔

بشکریہ روزنامہ جنگ

بلاول ٹھیک کہتا ہے ….



تحریر:۔ سہیل وڑائچ

ویسے تو بلاول بھٹو زرداری پاکستان کی بڑی سیاسی قیادت سے عمر میں بہت چھوٹا ہے مگر وہ جو کہہ رہا ہے اسے بڑوں کو سمجھنا چاہئے اور اپنی سیاسی حکمت عملی تبدیل کرنی چاہئے۔ مسلم لیگ ن کے قائد ہوں یا تحریک انصاف کے چیئرمین، بلاول بھٹو سے برسوں بڑے ہیں اور ہمارے خطے میں بڑے چھوٹوں کی بات کو درخور اعتنا نہیں سمجھتے، یہی حال بلاول بھٹو کے بیانات کا ہو رہا ہے۔ بلاول بار بار کہہ رہا ہے کہ فوراً الیکشن ہونا چاہئے، مستقبل کو بہتر بنانا ہےتو لیول پلینگ فیلڈ ہونا چاہئے، سب کو برابر کا موقع ملنا چاہئے وہ بار بار متنبہ کر رہا ہے کہ اس وقت ہم ایک نئی قسم کی آمریت کا شکار ہو رہے ہیں، ہمیں ملک بچانا ہے تو اس سے بچنا ہوگا اور ملک کو آئین کے مطابق چلانا ہوگا۔ اصول اور حق کی بات کریں تو بلاول کی باتیں ٹھیک ہیں، ہاں اگر پارٹی مفادات اور ذاتی عناد کے ترازو استعمال کئے جائیں تو پھر ان اقوال پر بہت سے اعتراضات اور تحفظات اٹھائے جا سکتے ہیں۔

کہنے والے کہتے ہیں کہ بلاول اور پیپلز پارٹی تکلیف میں ہیں کہ ان کی اتحادی نون نے انہیں نظرانداز کر کے مقتدرہ کے ساتھ ڈیل کرلی ہے اس ڈیل کے ذریعے وہ مستقبل میں اقتدار میں آتی دکھائی دے رہی ہے۔ دوسری طرف پیپلز پارٹی کو تنہا چھوڑ دیا گیا ہے، سندھ میں نگران وزیر اعلیٰ کے علاوہ ساری نگران حکومت پیپلز پارٹی کے مخالفوں کو شہہ دینے میں مصروف ہے۔ پیپلز پارٹی کو لگتا ہے کہ مقتدرہ انہیں صوبہ سندھ میں بھی اقتدار میں آنے نہیں دے گی، بلوچستان میں پیپلز پارٹی نے بہت سے اہم لوگوں کو رام کرلیا تھا مگر طاقتوروں نے انہیں اس پارٹی میں جانے سے روک دیا ہے۔ پیپلز پارٹی کو امید تھی کہ تحریک انصاف کے جنوبی پنجاب سے جو لوگ ٹوٹیں گے وہ انکی پارٹی میں آئیں گے اور وہ آئندہ الیکشن میں پنجاب میں 20،25نشستیں لے لی گی مگر استحکام پاکستان پارٹی بنا کر پیپلز پارٹی کی یہ امید بھی توڑ دی گئی۔ غلط یا صحیح پیپلز پارٹی کو یہ اطلاع بھی دی گئی ہے کہ لیاقت جتوئی سمیت انتخابی گھوڑوں کا ایک گروہ ن لیگ میں شامل ہو کر سندھ میں پیپلز پارٹی سے برسر پیکار ہو گا، یہ بھی کہا جا رہا ہے کہ مولانا فضل الرحمن کی جماعت تو پہلے ہی پیپلز پارٹی مخالف جی ڈی اے کی اتحادی بن گئی ہے آنے والے دنوں میں نون بھی سندھ میں پیپلز پارٹی کے خلاف میدان میں اترے گی، اگر ان باتوں میں تھوڑی سی بھی سچائی ہے تو پیپلز پارٹی کی ناراضی اور شکوے بے جا نہیں ہیں۔ پیپلز پارٹی 2007ء تک پنجاب کی ایک بڑی سیاسی قوت ہوا کرتی تھی مگر اپنا اینٹی اسٹیبلشمنٹ موقف تبدیل کرنے، نون لیگ سے صلح کرنے اور آخر میں گیلانی حکومت کی ڈیلیوری میں ناکامی نے اسکی ہوا اکھاڑ دی، پیپلز پارٹی کے بہت سے حامی جو اینٹی ن لیگ سیاست کرتے تھے وہ تحریک انصاف میں چلے گئے اور اپنی اینٹی ن لیگ سیاست جاری رکھی ابھی چند روز پہلے میری تحریک انصاف کی اسیر رہنما صنم جاوید کے والد اور صنم کے بچوں سے ایک شادی میں ملاقات ہوئی، صنم کے والد نے بتایا کہ وہ ایک پکا پپلیا اور جیالا ہے اسکی ساری سیاست نون لیگ کیخلاف رہی ہے اور اپنے علاقے میں اسی سیاست میں اسکے بھائی کو انکے نونی مخالفوں نے موت کے گھاٹ اتار دیا۔ صنم کے والد نے بتایا کہ صنم کے دل میں نون لیگ کے خلاف جو جذبات ہیں وہ خاندان سے وراثت میں ملے ہیں، اس مثال سے آسانی سے سمجھا جا سکتا ہے کہ پیپلزپارٹی کی اکثریت نےپنجاب میں نون لیگ سے اسکے اتحاد کو پسند نہیں کیا تھا۔ گویا پیپلز پارٹی کو چارٹر آف ڈیمو کریسی اور ان سے دوستی کے بدلے پنجاب میں اپنے ووٹ بینک کی قربانی دینا پڑی ۔آج اگر بلاول اور پیپلز پارٹی نونیوں سے گلے شکوے کر رہے ہیں تو اسکا یہی پس منظر ہے۔

پیپلز پارٹی کی قیادت ذوالفقار علی بھٹو سے ہوتے ہوئے بے نظیر بھٹو اور اب بلاول بھٹو کے پاس پہنچی ہے، پیپلز پارٹی کا ووٹ بینک ذوالفقار علی بھٹو نے بنایا انہوں نے روٹی، کپڑا اور مکان کے بیانیے سے پہلے پارٹی کو کھڑا کیا اور بعد میں حکومت میں آکر اپنے ووٹ بینک کو مضبوط تر بنایا اور آخر میں پھانسی کے تختے پر جھول کر وہ غریب اور غیر مراعات یا فتہ طبقے کا ایسا ووٹ بینک چھوڑ گئے جو جنرل ضیاء الحق کے استبداد کے باوجود کئی دہائیوں تک پیپلز پارٹی سے جڑا رہا!

محترمہ بے نظیر بھٹو نے پیپلز پارٹی کی باگ ڈور سنبھالی تو سوشلزم کا دور ختم ہو رہا تھا مارکیٹ اکانومی او رلبرل ازم نئی دنیا کے چلن بن چکے تھے ،محترمہ نے انتہائی کامیابی سے بھٹو کے ووٹ بینک کو نئے حقائق کے ساتھ چلایا انہوں نے سیاست میں آکر بھٹو سے الگ اپنا بھی ووٹ بینک بنایا جو بےنظیر کی جمہوری جدوجہد اور انکے لبرل آئیڈیاز کو پسند کرتے تھے، محترمہ کے بعد جب سے بلاول بھٹو آئے ہیں بدقسمتی سے کوئی ایک بھی نیا ووٹ اپنی پارٹی میں شامل نہیں کر سکے باوجود یہ کہ ان کا امیج بہت اچھا ہے انکے خیالات محترمہ کے آئیڈیاز کا عکس ہیں مقتدرہ کے بھی وہ پسندیدہ ہیں ،ان کے حوالے سے کرپشن کا الزام تک نہیں بطورِ وزیر خارجہ انہوں نے پاکستان کی ہرفورم پر کامیاب وکالت کی ہے، دن رات انتھک محنت کرکے اپنے رول کو بخوبی نبھایا ہے ان سب مثبت باتوں کے باوجود وہ کوئی نیا بیانیہ، کوئی ایسا نیا منشور دینے میں ناکام رہے ہیں جس سے ان کی پارٹی میں تازہ خون آتا اور وہ پنجاب میں اس قابل ہو جاتی کہ اپنے ووٹ بینک کے سہارے پر 25،30نشستیں ہی جیت لیتی مگر اب تک ایسانہیں ہو سکا۔ بلاول بھٹو ملک کی ساری قیادت میں سب سے جوان، سب سے زیادہ پڑھے لکھے اورسب سے زیادہ روشن خیال ہیں مگر بدقسمتی سے وہ پنجاب کی یوتھ کو اپنی طرف متوجہ نہیں کر پائے۔

بلاول سوچتے ہونگے کہ اب بھی وقت انکے ساتھ ہے انکے پاس اب بھی نیا بیانیہ بنانے، نئے نعرے دینے یا نیا منشور لانے کیلئے بہت وقت پڑا ہے انکے سارے سیاسی حریف انکے مقابلے میں اتنے بوڑھے ہیں کہ پانچ دس سال بعد بلاول کو میدان صاف ملے گا اور وہ ملک کے سب سے تجربہ کارسیاست دان تصور ہونگے، دیکھنا یہ ہو گا کہ بلاول اپنے آپ کو آنے والے دنوں کیلئے کیسے تیار کرتے ہیں۔ انکے نانا اور والدہ عوامی مقبولیت کے راستے اقتدار میں آئے قبولیت والوں کو انہیں باامر مجبوری قبول کرنا پڑا بلاول قابل قبول تو ہیں لیکن پنجاب اورخیبر پختونخوا میں اتنے مقبول نہیں ہیں کہ انہیں وزارتِ عظمیٰ کا تاج مل سکے۔ کاش وہ اپنی ذہانت اور لیڈر شپ کو عوام کے مسائل حل کرنے کی طرف موڑ پائیں اور اقتدار میں آنے سے پہلے ان مسائل کا حل تلاش کریں مسائل کا حل ہی انکا منشور بن سکتا ہے ….

بشکریہ جنگ نیوز اردو

اس کے آنے کے بعد؟



تحریر:۔ سہیل وڑائچ

کوئی مانے یا نہ مانے اس کے آنے کے بعد سیاسی منظر نامہ بدل چکا ہے، مستقبل کی سیاسی سکیم واضح ہوچکی ہے، صاف نظر آ رہا ہے کہ اسے اقتدار دینے کی تیاریاں کی جا رہی ہیں۔

اس کے پاکستان میں اترتے ہی نگران حکومتوں کا سحر ٹوٹنا شروع ہوگیا ہے۔ نوکر شاہی یا اقتدار پسندوں کے دوسرے گروہ، سب اس کے گرد جمع ہونا شروع ہو جائیں گے، نئی سیاسی صف بندیاں ہونگی اور نئے تانے بانے بُنے جائیں گے۔

کہا گیا ہے کہ انتقام نہیں لیا جائے گا یہ خوش آئند اعلان ہے لیکن اس کی عملی شکل کیا ہوگی؟ کیا کھلاڑی اور اس کی پارٹی کو بھی کھلا میدان ملے گا یا پھر اس کو جیل میں ہی کوئی رعایت ملے گی؟

بظاہر 9مئی کے ذمہ داروں اور کھلاڑی کے نمایاں ساتھیوں کے ساتھ کوئی ڈھیل ہوتی نظر نہیں آرہی شکنجہ اور کسا جا رہا ہے، نونی لیڈر اور مقتدرہ کے لئے سب سے پہلا مسئلہ یہی ہے کہ کھلاڑی کے بارے میں کسی فیصلے تک پہنچیں، ظاہر ہے کہ یہ ایسا فیصلہ ہونا چاہئے جو عقلی طور پر سب کے لئے قابل قبول ہو ۔

وہ واپس آیا ہے تو سب کچھ یک دم بھول تو نہیں سکتا اس کے خلاف پاشوں، ظہیر الاسلاموں اور رضوانوں نے جو جو گل کھلائے جو جو سازشیں کیں وہ سب اسے یاد ہوں گی۔ فیض حمیدوں، باجوئوں اور راحیل شریفوں کے خفیہ اور کھلے وار اسے کچوکے تو لگاتے ہوں گے۔

کھلاڑی اور عسکری خان مل کر جو جو کرتے رہے وہ بھلانا مشکل ہو گا اسے وہ انصاف خان بھی نہیں بھول سکتے جنہوں نے پانامہ کے نام پر اقامہ کے ذریعے اسے سزا دی، نااہل قرار دیا، اسکے مینڈیٹ کے باوجود اسے گھر بھیج دیا اسے وہ گالیاں، بے عزتی اور نفرت بھی نہیں بھولی ہو گی جس کا سامنا اس کو لندن میں کرنا پڑتا رہا۔

اگر تو وہ عام لیڈر رہنا چاہتا ہے تو ان سب زیادتیوں کو یاد رکھ کر اپنی پالیسیاں بنائے اور ایک ایک سے بدلہ لے تاکہ آئندہ کوئی منتخب وزیراعظموں کے ساتھ ایسا نہ کر سکے لیکن اگر وہ عظیم لیڈر بننا چاہتا ہے تو پھر نیلسن منڈیلا بننا ہوگا۔

بے نظیر بھٹو کی طرح اپنی جان کے دشمنوں کو بھی مفاہمت کی طرف لانا ہوگا، سب سے پہلے سیاست کے کرداروں میں مفاہمت ہونی چاہئے پھر ہی سیاست اور مقتدرہ کے معاملات طے ہوں گے۔

اسکے آنے کے بعد سے مقتدرہ اور اہل سیاست کے درمیان کئی دہائیوں سے جاری لڑائی بھی پھر سے یاد آئے گی، اسے یہ سوال ضرور پریشان کرتا ہوگا کہ اگر اسے اقتدار مل بھی گیا تو کیا اس میں اختیار بھی ہوگا؟

کیا مقتدرہ کو نئے وزیر اعظم کی بجائے کہیں نئے کاکڑ کی تلاش تو نہیں۔ اگر مقتدرہ نے معیشت، زراعت اور خارجہ پالیسی خود چلانی ہے تو پھر وہ اقتدار لیکر کیا کرے گا ؟وہ تین بار پہلے وزیراعظم رہ چکا ہے اس لئے اس کے لئے اختیار سے خالی وزیراعظم کا عہدہ بیکار ہوگا۔

دوسری طرف مقتدرہ زراعت، معیشت، معدنیات اور خارجہ امور کے بارے میں بہت سے معاملات پہلے سے طے کئے بیٹھی ہے، ایسے میں وزیراعظم کو اختیار کہاں ملے گا؟ یہی وجہ ہے کہ نئی بحث یہ اٹھائی گئی ہے کہ وہ پارٹی کو چلائے، انتخابی مہم کو لیڈ کرے، پلان بنائے مگر خود وزیر اعظم نہ بنے بلکہ اپنے چھوٹے بھائی کو ہی دوبارہ وزیر اعظم بنائے کیونکہ وہ مقتدرہ کے ساتھ چلنے کا کامیاب تجربہ رکھتا ہے۔

میرا اندازہ یہ ہے کہ معاملہ خاندانی طور پر پہلے سے طے ہوچکا ہے، جس کے مطابق نونیوں کے وزیراعظم کے امیدوار نواز شریف ہونگے الیکشن جیتے تو وہ وزیر اعظم بنیں گے تاہم وہ اپنی ٹرم مکمل نہیں کریں گے سال دو سال بعد وہ اپنے بھائی کو اپنی جگہ لے آئیں گے اور خود حکومت سے باہربیٹھ کر ان کی رہنمائی کریں گے۔

اگلی سیاست میں ان کی نمائندہ مریم ہونگی، مریم کی خواہش وزیراعلیٰ پنجاب بننے کی ہے مگر اب تک جو معاملات نظر آ رہے ہیں اس میں انکی یہ خواہش الیکشن کے فوراً بعد پوری ہوتی نظر نہیں آتی، اس خاندان کو دوبارہ اقتدار ملے تو اوپر اور نیچے دونوں بڑی سیٹوں پر خود کو رکھنا سیاسی خودکشی کے مترادف ہوگا۔

بہتر ہوگا کہ مریم کو موقع ملے تو وہ بلاول کی طرح ابھی کسی وزارت یا مشاورت کے ذریعے گورننس کا مزید تجربہ حاصل کریں۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اگر واقعی ایسا ہوجاتا ہے تو شہباز شریف اور حمزہ شہباز کہاں اکاموڈیٹ ہونگے؟ لگتا ہے کہ اسے اس بات کا احساس ہے کہ شہباز اور حمزہ کو جگہ دینی ہے اسی لئے مینار پاکستان کے سٹیج پر مریم کے بعد اسکی توجہ کا سب سے بڑا مرکز شہباز شریف اور حمزہ رہے ۔

بڑا لیڈر وہ ہوتا ہے جو صرف اپنے بارے میں نہ سوچے بلکہ اپنے مخالفوں کے بارے میں بھی سوچے، صرف اپنے حامیوں کو خوش کرنے کی پالیسی نہ بنائے بلکہ اپنے مخالفوں کو بھی خوش کرنے کے بارے میں سوچے اکثر لیڈر تنگ نظر ہوتے ہیں وہ مخالف کو مار کر سمجھتے ہیں کہ انہیں زندگی مل جائے گی جبکہ مخالف مرجائے تو مارنے والے کی زندگی کے دن بھی گنے جانے شروع ہو جاتے ہیں۔

یاد رکھیں کہ جس دن میاں نواز شریف نے لاہور ہائیکورٹ کے بدنام زمانہ فیصلے کے ذریعے بے نظیر بھٹو کو نااہل قرار دیا تھا اسی روز سے یہ طے ہو گیا تھا کہ اب اگلی باری نواز شریف کی ہو گی اور ویسا ہی ہوا۔

حالیہ تاریخ میں جب عمران خان اپنے حریف نواز شریف کو جیل میں ڈال کر فخر سے سینہ پُھلائے پھرتے تھے اسی وقت سے نظر آنا شروع ہو گیا تھا کہ نواز شریف رہا ہونگے اور جب عمران خان اقتدار سے اتریں گے تو وہ بھی جیل یاترا کرینگے ۔

حیرانی کی بات ہے کہ اہل سیاست کو یہ سادہ سی بات کیوں سمجھ نہیں آرہی کہ دوسروں کے لئے گڑھا کھودنے والا خود اسی میں گرتا ہے ۔اب وقت ہے کہ وہ بڑا لیڈر بنے دوسرے کے کھودے گڑھے مٹی سے بھرے اور ایک نئی سیاست کا آغاز کرے۔

وہ اس وقت اس خطے کا سب سے تجربہ کار سیاست دان ہے مودی ہو، طالبان ہو، حسینہ واجد ہو یا ایرانی قیادت سب اس سے تجربے میں جونیئر ہیں وہ آج سے 33سال پہلے بھی وزیر اعظم تھا ضرورت اس بات کی ہے کہ وہ اب صرف وزیر اعظم نہ بنے بلکہ تاریخ بنائے۔

دیکھنا یہ ہوگا کہ اگر اسے اقتدار ملتا ہے تو وہ کھلاڑی کے ساتھ کیا معاملہ کرتا ہے، اگر تو اس نے کھلاڑی کو اس کے حال پر چھوڑ دیا، وہ جیل میں سڑتا رہا، اسے الیکشن میں برابر کے مواقع نہ دیئے تو پھر اس میں اور کھلاڑی میں کیا فرق رہ جائے گا۔

اسے بڑا بننا ہے تو کھلاڑی اور اس کے مینڈیٹ کو بھی عزت دے، اس کا ہاتھ پکڑ کر گڑھے سے نکالے اور اپنے سامنے والی نشست پر بٹھائے، جس دن تضادستان میں ہم نے سیاسی مخالفوں کو عزت دینا شروع کر دی اس دن سے ہی پاکستان کا ایک نیا جنم ہوگا۔

اسی دن سے ہی آئین، جمہوریت اور پارلیمانی روایات کا بول بالا ہوگا، اس کے آنے کے بعد بہت کچھ کا انحصار اس کے رویے پر ہوگا اگر وہ نہلے پر دہلے مارتا رہا تو پھر کچھ تبدیل نہیں ہوگا۔ ہاں اگر اس نے تاریخ میں اپنا نام بنانا ہے تو اسے کھلاڑی کو بھی کھلانا ہوگا ۔

بشکریہ جیونیوز اردو

می لارڈ کا کردار؟



تحریر:۔ سہیل وڑائچ

یونان کا سقراط ہو یا تضاد ستان کاذوالفقار علی بھٹو، دونوں نے یہی درس دیا ہے کہ منصب متعصب ہوں، آپ کے خلاف ہوں یا انصاف سے سراسر خالی بھی ہوں تب بھی ان کا احترام ہی کرنا ہے کیونکہ اگر بے انصاف منصفوں کے فیصلوں پر عمل نہ کیا جائے تو انصاف والے فیصلوں پر عمل بھی مشکل ہو جائے گا ۔سقراط نے غلط فیصلے پر سر جھکا کر زہر پی لیا اور اف تک نہ کی ذوالفقار علی بھٹو بھی ضیا الحق کے چمچہ منصفوں کو می لارڈ کہتے کہتے پھانسی پر جھول گئے۔

ابو الکلام آزاد سے منسوب ہے کہ دنیا کی سب سے زیادہ بڑی ناانصافیاں انصاف کے ایوانوں میں ہوئی ہیں، تضادستان کی تاریخ تو ایسے فیصلوں سے بھری پڑی ہے۔ جسٹس منیر کے فیصلوں سے لیکر جسٹس بندیال تک مصلحتوں کا ایک لمبا سلسلہ ہے ،تضادستان کی عدلیہ نے جمہوریت ،آئین اور قانون کاساتھ دینے کی بجائے مقتدرہ ،مارشل لا اور آمروں کاساتھ دیا ہے۔ آمروں نے اسمبلیاں توڑیں تو ججوں نے اسے جائز قرار دیا ،جرنیلوں نے مارشل لالگائے تو ججوں نے انہیں جائز قرار دیا، وزیر اعظموں کو جیل بھیجا گیا تو ججوں نے انہیں رہا کرنے کی بجائے سزائیں سنائیں ججوں کی کرپشن کا ریفرنس آئے تو سب جج اکٹھے ہو کر اسے رد کر دیتے ہیں ،سیاست دان پر کرپشن کا جھوٹاکیس بھی آئےتو منصف اسے برسوں لٹکا دیتے ہیں مقتدرہ اور عدلیہ کے اسی گٹھ جوڑ کی وجہ سے ہر وزیر اعظم کو رگڑا لگایا جاتا ہے شاید ہی کوئی خوش قسمت ہو جو جیل جانے سے بچا ہو وگرنہ وزیر اعظم اتنا عرصہ اقتدار میں نہیں رہتا جتنا عرصہ اسے جیل کی ہوا کھانا پڑتی ہے۔ پوری تاریخ میں ایک بھی جج جیل نہیں گیا ہاں ججوں نے تقریباً ہر سیاست دان کو جیل بھیجنے میں مدد و تعاون کیا ہے۔

سب کو پتہ تھا کہ عدلیہ مقتدرہ کی باندی ہے لیکن اس کے باوجود جب افتخار چودھری نے جنرل مشرف کےسامنے حرف انکار بلند کیا تو عوام، میڈیا اور سیاست دانوں نے عدلیہ کی آزادی کے نام پر تحریک چلائی۔ تحریک کامیاب ہوئی اور افتخار چودھری دوبارہ سے چیف جسٹس بن گئے ہونا تو یہ چاہئے تھا کہ عدلیہ اس کے بعد جمہوریت ،آئین اور پارلیمنٹ کا ساتھ دیتی مگر اس نئی متحرک عدلیہ نے اپنی توپوں کا رخ سیاست دانوں کی طرف ہی رکھا۔ کبھی میمو گیٹ اور کبھی سوئس خط کے نام پر اہل سیاست کو رگیدا گیا اور حد تو یہ ہے کہ پہلی بار ایک منتخب وزیر اعظم کو آرٹیکل 3/184کے تحت نااہل کرکے گھر بھیج دیا گیا حالانکہ آئین میں وزیر اعظم کو فارغ کرنے کا یہ طریقہ سرے سے موجود ہی نہیں ۔

ہماری عدلیہ نے من مانی تشریح اور اختراعات کرکے ججوں کوتو مقدس بنا لیا لیکن آئین جمہوریت اور سیاست کو قربانی کا بکرا بنا لیا ۔افتخار چودھری ہوں جسٹس کھوسہ ہوں، جسٹس ثاقب نثار ہوں یا جسٹس بندیال انہوں نے آئین، جمہوریت اور پارلیمنٹ کی مضبوطی کی بجائے غیر جمہوری روایات کو مضبوط کیا ۔کھوسہ ہوں ثاقب نثار ہوں یا بندیال انہوں نے پسند نا پسند کی بنیاد پر فیصلے کرکے آئین کو روند ڈالا ،سچ تو یہ ہے کہ آج ملک میں جو سیاسی ، معاشی اور آئینی بحران ہے اسکی تشکیل میں ان ججوں کا کلیدی کردار ہے ۔

جسٹس بندیال جب ہائیکورٹ کے جج تھے تو آئین کی جمہوری تشریحات کیا کرتے تھے سپریم کورٹ گئے تو کنفیوژ ہو گئے ان کے متضاد فیصلوں نے جمہوریت کی منزل کھوٹی کر دی ۔عمران خان نے اسمبلی توڑی تو جسٹس بندیال اورساتھی ججوں نے اسمبلی بحال کرکے پی ڈی ایم کی حکومت بنوا دی ۔پی ڈی ایم کی حکومت بن گئی تو اسے چلنے نہ دیا ،حکم دیا کہ 90دن میں الیکشن ہوں مگر جب اس حکم پر عمل نہ ہوا تو اتنی جرات نہ کر سکے کہ توہین عدالت کا نوٹس دیکر اپنے فیصلے پر عملدرآمد کروائیں غرضیکہ عدلیہ جو کہ جمہوریت کا ایک ستون ہے اس نے اپنے ہی ایک دوسرے جمہوری ستون پارلیمنٹ کے خلاف ہی فیصلے کئے ہیں۔

عدلیہ پر آئین کی تشریح اور اس پر عملدرآمد کی ذمہ داری ہے میڈیا پر حملہ ہو ، حکومت اس پرپابندی لگا دے ،صحافی جیل بھیج دیئے جائیں یا چینل بند ہو جائیں ،عدلیہ نہ ناراض ہوتی ہے نہ ایسا فیصلہ دیتی ہے کہ آئندہ ایسا نہ ہو سکے ،کمزور فیصلے کرکے اپنی جان چھڑانے تک محدود رہتی ہے۔ یہی حال بلوچستان ،پنجاب اور دوسرے صوبوں میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کا ہے عدلیہ نے کب بلوچستان یا پنجا ب میں ظلم پر کوئی زوردار فیصلہ کیا ہے۔

خیر یہ سب کچھ تو ماضی اور حال کی کہانیاں ہیں آج کے می لارڈ مختلف نظر آتے ہیں مقتدرہ کے خلاف فیصلے سنائے، سب پروٹوکول توڑ کر پارلیمنٹ کی تقریب میں جاکر بتایا کہ وہ پارلیمان کو برتر مانتے ہیں وہ پہلے ہیں جنہوں نے اپنے اختیارات میں خود کمی کے حوالے سے فیصلہ کیا ہے۔ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ پہلا جمہوری جج آیا ہے جو آئین اور پارلیمنٹ کی بحالی پر یقین رکھتا ہے۔ یہ بھی حسن ظن ہے کہ وہ جسٹس بندیال کی طرح سیاسی طور پر کنفیوژڈ نہیں ہے بلکہ سیاسی عمل کے آگے چلنے پر یقین رکھتا ہے۔

اس پس منظر میں می لارڈ سے ایک جمہوری اور آئینی کردار کی توقع ہے ،سب سے پہلا مسئلہ انتخابات کی تاریخ کا ہے، آئین میں اس حوالے کوئی ابہام نہیں واضح طور پر 90روز کے اندر انتخابات کروانے کا پابند بنایا گیا ہے۔ چیف الیکشن کمشنر یا باقی لوگ آئین کی اس واضح ہدایات کو نظر انداز کر کے آئین کے ساتھ مذاق کر رہے ہیں۔ می لارڈ کو اس حوالے سے اپنی تاریخی ذمہ داری سے عہدہ برآ ہونا ہو گا۔

احتساب کے نام پر سیاستدانوں کی جس طرح مٹی پلید کی گئی ہے اور جمہوریت کا مذاق اڑایا گیا ہے، می لارڈ کو اس حوالے سے احتساب قوانین کو آئین کے مطابق بنانا چاہئے، احتساب قوانین میں ہر وہ شق جو آئین کے خلاف ہے اسے منسوخ کرنا چاہئے، می لارڈ اگر برا نہ منائیں تو یہ بھی عرض کرنی ہے کہ اگر سیاستدانوں، جرنیلوں اور صحافیوں کا احتساب ہو سکتا ہے تو ججوں کا احتساب بھی ہونا چاہئے، ججوں کے احتساب کیلئے آرٹیکل 209جسے سپریم کورٹ نے تقریباً ختم کر دیا ہے اسے بحال ہونا چاہئے۔ می لارڈ آپ کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ آپ Unpredictable ہیں توقع کرنی چاہئے کہ آپ اسی کو مثبت ہتھیار بنا کر اپنے جانے تک آئین، جمہوریت پارلیمنٹ، عدلیہ اور میڈیا کی آزادی کو مضبوط بنا جائیں گے، اگر آپ نے بھی ماضی کے منصفوں والا رویہ ہی اپنائے رکھا تو ہماری تقدیر بدلنے کی امیدیں دم توڑ جائیں گی۔

می لارڈ!!! آپ کا کام مشکل سہی مگر ممکن ہے تاریخ بنایئے، تعصب، نفرت اور محبت، لالچ اور منفعت سے نکل کر فیصلے کریں۔ جسٹس مارشل بنیں، جسٹس منیر اور ثاقب نثار نہیں….

بشکریہ جیو نیوز اردو

برادرم سہیل وڑائچ سے!



تحریر:۔ عطاالحق قاسمی

برادرم سہیل وڑائچ میرے پسندیدہ کالم نگار، اینکر اور تجزیہ نگار ہیں، وہ معقول اور مقبول شخصیت ہیں،عاجزی اور انکساری ان کی شخصیت کا ایک اور روشن پہلو ہے۔ وہ بہت پڑھے لکھے ہیں اس کے باوجود ان کی تحریر اور گفتگو مجھ ایسے ان پڑھ کو کسی کمپلیکس میں مبتلا نہیں کرتی میں ان سے بہت محبت کرتا ہوں کیونکہ وہ بھی مجھ سے بہت محبت کرتے ہیں، اللہ کرے میں نے ان کی بڑائی کے حوالے سے شروع میں جو باتیں سچے دل سے کی ہیں وہ موقع ملنے پر کچھ اسی قسم کی باتیں میرے حوالے سے جھوٹےمنہ ہی کر دیں!

تفنن برطرف میں نے سہیل وڑائچ کا کوئی کالم ٹی وی پر ان کا پروگرام اور کسی پروگرام میں ان کی بطور مہمان گفتگو بھی کبھی مس نہیں کی ۔انہوں نے تقریباً سال بھر سے کوئی کالم نہیں لکھا تھا اگر میں غلطی پر نہیں ہوں تو اس عرصے میں ان کا آخری کالم غالباً اپریل 2022میں شائع ہوا تھا جو حمزہ شہباز کے حوالے سے تھا اور انہوں نے شریف خاندان کے اس سپوت کے بہت سے روشن پہلو بیان کئے تھے اس کے بعد ان کا کالم آج شائع ہواہے جو چار سال بعد محمدنواز شریف کی لندن سے پاکستان آمد اور ان کی ممکنہ وزارت عظمیٰ کے حوالے سے ہے ۔

سہیل کا یہ کالم بھی ان کی متوازن سوچ کا آئینہ دار ہے انہوں نے لکھا ہے کہ معاملات صرف اسٹیبلشمنٹ اور ان کے درمیان ہی طے نہیں ہوئے بلکہ اس حوالےسے پاکستان کے دوست ممالک کی معاونت بھی شامل نظر آتی ہے ۔یوں محسوس ہوتا کہ دوست ممالک نے پاکستان کی مالی امداد کا جو اشارہ دے رکھا ہے اس کے لئے شرط یہ باندھی گئی ہے کہ ایسا سیاسی چہرہ لایا جائے جو لانگ ٹرم معاشی پالیسی کی ضمانت دے ۔سہیل وڑائچ کے مطابق اگر یہ سب کچھ طے نہ ہوا ہوتا تو وہ واپس ہی نہ آتے ان کے بقول یہ بھی صاف نظر آرہا ہے کہ اگر وہ اکیس اکتوبر کو واپس آ گئے تو جیل نہیں جائیں گے بلکہ انہیں ریلیف دے کر سیاسی میدان میں فری ہینڈ دیا جائے گا، یہ بھی تقریباً طے ہے کہ اگر وہ واپس آتے ہیں تو الیکشن کرائے بغیر کوئی چارہ نہیں ہوگا اور پھر جب ملک میں الیکشن کی سیاست ہو گی تو پھر تحریک انصاف اور اس کے چیئرمین کے بارے میں بھی فیصلے جلد از جلد کرنا پڑیںگے۔سہیل وڑائچ نے مستقبل کا احوال اپنے نقطہ نظر سے بیان کر دیا ہے اور اس میں بھی ان کی متانت پوری طرح جھلکتی ہے۔تاہم آگے چل کر انہوں نے کچھ ایسی باتیں بھی کی ہیں جن کے بارے میں مزید اظہار خیال کی خاصی گنجائش موجود ہے ۔مجموعی طور پر انہوں نے کہا ہے کہ نواز شریف ممکنہ طور پر واپس آکر، پی ٹی آئی کے چیئرمین نے ان کے ساتھ اور ان کی پارٹی کے ساتھ جو کچھ کیا تھا،اس کا بدلہ لیں گے اور یہ کہ جمہوریت کی بقااور اس کے تسلسل کیلئے ایسا نہیں کیا جانا چاہئےبلکہ مفاہمت کا راستہ تلاش کیا جائے۔سہیل وڑائچ نے بتایا ہے کہ لندن میں نواز شریف سے ملاقات کے دوران انہوں نے یہی باتیں نواز شریف سے بھی کی تھیں۔

جہاں تک چیئرمین پی ٹی آئی سے مفاہمت کے حوالے سے سہیل وڑائچ نے کہا ہے تو اس کالم میں وہ بتاتے ہیں کہ نو مئی کے واقعہ سے پہلے ان کی تین ملاقاتیں چیئرمین سے ہو ئی تھیںایک ملاقات میں ان کے ساتھ مجیب الرحمان شامی بھی تھے، دوسری ملاقات امتیاز عالم اور ان کے وفد کے ہمراہ ہوئی ، تیسری ملاقات میں اسلام آباد اور لاہور کے نمایاں ٹی وی اینکر موجودتھے ،ان تینوں ملاقاتوں کا محور یہی تھا کہ حکومت میں شامل سیاسی جماعتوں سے پی ٹی آئی مذاکرات کرے مگر چیئرمین کا موقف یہ تھا کہ وہ ان کرپٹ سیاسی حکمرانوں کے ساتھ مذاکرات نہیں کریں گے ۔انہیں دوسرا مشورہ یہ دیا گیا تھا کہ آپ اسٹیبلشمنٹ سے اپنے بگڑے ہوئے معاملات درست کریں، انہوں نے کہا وہ اسٹیبلشمنٹ سے رابطہ کرتے ہیں مگر ادھر سے کوئی مثبت جواب نہیں ملتا۔

ان سطور سے پتہ چلتا ہے کہ چیئرمین جن لوگوں کو کرپٹ کہتے رہے ہیں اور نہ صرف مسلسل کہتے رہے ہیں بلکہ ان کے نام بھی بگاڑتے رہے ہیں ان کے پیرو کاروں نے گالی گلوچ کا بازار بھی گرم رکھا ہے اور مسلسل چار سال لندن میں نواز شریف کی قیام گاہ کے باہر ’’چور، چور، ڈاکو، ڈاکو‘‘ کے نعرے لگاتے رہے۔ لندن میں بھی اور پاکستان میں بھی ان سے اختلاف رکھنے والے سیاست دانوں پر بھی آوازے کسنے کا سلسلہ جاری رہا۔اب چیئرمین ان کرپٹ سیاست دانوں کے ساتھ کیسے مفاہمت کریں گے اور جنہیں بدترین جیلوں میں رکھا گیا اور ان کی ہر طرح کردار کشی کی گئی وہ ان سے مفاہمت کیوں چاہیں گے اور یہ مفاہمت کن شرائط پر ہو گی۔ یہ سوچیں اور اس کے ساتھ یہ بھی کہ دونوں ’’گروہ‘‘کس دل گردے سے یہ معاملات طے کریں گے۔جہاں تک اسٹیبلشمنٹ کا معاملہ ہے نومئی کے بعد وہ سب کچھ بھول جائیں گے جو عسکری تنصیبات اور شہدا کی یادگاروں کے ساتھ کیا گیا ؟ اور وہ سب غلیظ گالیاں بھی جو فوج اور اس کی قیادت کے خلاف آج تک جاری ہیں۔اور ایک سوال یہ بھی کہ اس صورتحال کے پس منظر میں ممکنہ وزیر اعظم ،چیئرمین کو از خود رہا بھی کریں گے اور ان کی پارٹی کو الیکشن میں حصہ دینے کیلئے اپنی پوری کوشش بھی کریں گے؟میرے خیال میں یہ سب کچھ حقیقت پسندانہ نہیں ہے بلکہ جو جمہوری تسلسل شروع ہونے والا ہے وہ اپنے آغاز ہی میں دم توڑ دے گا!ہم نواز شریف سے یہ توقع رکھتے ہیں کہ وہ اپنے اندر ولیوں کے اوصاف پیدا کریں اور وہ سب کچھ بھول جائیں جو انہوں نے نواز شریف ان کی پارٹی اور ملک وقوم کے ساتھ کیا۔جس نے ایک ایسی سیاست کی بنیاد ڈالی جو ہماری نئی نسل کے رگ و پے میں بھی رچ بس گئی ہے۔ چلیں بالفرض محال وہ سب کچھ ہو جائے جو برادرم سہیل وڑائچ کے نزدیک جمہوریت کے تسلسل کیلئے ضروری ہے تو کیا گارنٹی ہے کہ اپنے عشق میں بہت بری طرح مبتلا اور دوسروں کو بدترین مخلوق سمجھنے والاچیئرمین اس کے بعد ایک نیا جنم لے گا اور وہ ایک سیاست دان کی طرح بی ہیو کرنے لگے گا؟ میرے خیال میں برادرم سہیل وڑائچ بھی شاید اس حوالے سے ضمانت نہ دے سکیں۔اپنے کالم کے آخر میں سہیل وڑائچ نے بجا طور پر کہا ہے کہ ملک میں ابتری کی جو فضا پیدا ہوئی اس سے کسی کو فائدہ نہیں ہوا اور نہ آئندہ ہو گا ۔اس کے بعد انہوں نے ساری امیدیں نواز شریف سے باندھی ہیں اس بیان کے حوالے سے میں اس امیدکا اظہار کرتا ہوں کہ نواز شریف واپس آکر اپنی فراست سے کام لیتے ہوے پیچیدہ مسائل حل کریں گے۔ملک کو اسی طرح ترقی کی راہ پر چلائیں گے جو ماضی میں ان کا وطیرہ رہا ہے اور جس کے سبب ہر بحران کےبعد ملک و قوم کو ان کی ضرورت پڑتی ہے۔

میں آخر میں سہیل وڑائچ کی اس بات سے سوفیصد اتفاق کرتا ہوں کہ کسی کے ساتھ ناانصافی نہیں ہونی چاہئے ،کسی کو انتقام کا نشانہ نہیں بنانا چاہئے، ہر ایک کےساتھ آئین اور قانون کے مطابق انصاف ہونا چاہئے کہ آئین اور قانون سے کوئی مبرا نہیں!

بشکریہ جنگ نیوز اردو

کھلاڑی کو راستہ دیں….



تحریر:۔ سہیل وڑائچ

طویل انتظار کے بعد سیاسی میدان میں ہلچل شروع ہو رہی ہے۔ ایک ٹیم وردیاں پہن کر میدان میں اترنےکے لئے تیار ہے مگر دوسری ٹیم نیم مردہ اور غیر متحرک ہے، ایسے میں میچ بھلا خاک ہو گا۔میچ تو تبھی مزیدار ہو گا کہ دونوں ٹیموں کو میدان میں اترنے کے برابر مواقع دیئے جائیں۔

صورتحال یہ ہے کہ کھلاڑی کے چاروں طرف دیواریں چن دی گئی ہیں نہ کوئی تحریک چلتی نظر آ رہی ہے نہ انصاف کے ایوانوں سے کوئی انقلابی فیصلہ آنے کی امید ہے نہ ہی مقتدرہ کا د ل نرم ہونے کی کوئی توقع ہے۔ سیاست میں نفرت اس قدر زیادہ ہے کہ اس کے سیاسی حریف چاہتے ہیں کہ کھلاڑی کو پورا رگڑا لگایا جائے، کوئی بھی اسے رعایت دینے کو تیار نہیں ۔حبس اور تنگی کے اس ماحول میں سیاست اور معیشت چلتی نظر نہیں آتی ۔ملک کو آگے لے جانے کا واحد طریقہ یہ ہے کہ کھلاڑی کو راستہ دیا جائے اور اسے بھی کھیل میں شریک کیا جائے ۔

یہ درست ہے کہ کھلاڑی نے سیاست کے میدان میں بہت فائول کھیلے سیاست میں اپنے حریفوں کو چت کرنے کے لئے ہر حد پار کرلی، میڈیا کو بدنام کیا اور میڈیا کے ایک بڑے مالک کو کئی ماہ تک قید میں رکھا، قاضی فائز عیسیٰ کے خلاف کسی کے کہنے پر ریفرنس بھیجا، جمہوری اقدار کو فروغ دینے کی بجائے اسٹیبلشمنٹ کے بیانیے کا ساتھ دیا ،خارجہ پالیسی کی نئی راہیں کھولنے کی بجائے بھارت سے روایتی دشمنی کی پالیسی کو جاری رکھا اور تو اور خود اپنی سرپرست فوجی قیادت سے بھی بنا کر نہ رکھی اور ملکی معیشت کو چلانے میں ناکام رہا ۔یہ ساری چارج شیٹ درست بھی مان لی جائے تو کیا اس کا مطلب یہ ہے کہ کھلاڑی کو میدان سے باہر ہی کر دیا جائے یہ تو فیئر پلے نہیں ہو گا ،ظلم اور ناانصافی ہو گی۔نونی لیڈر اور کھلاڑی لیڈر دونوں نفرت اور انتقام کی آگ میں جل رہے ہیں لیکن ان کی اس نفرت سے ملک میں جمہوریت آخری سانسیں لے رہی ہے اگر انہوں نے نفرت کی سیاست جاری رکھی تو وہ بالآخر ملک میں جمہوریت کے خاتمے پر منتج ہو گی۔کھلاڑی پاپولر ہے اس کا بیانیہ بِک رہا ہے اوورسیز ہوں یا پاکستان کی شہری مڈل کلاس، غربت کے شکار لوگ ہوں یا مہنگائی سے پسے عوام سب کھلاڑی کو سراہتے ہیں کھلاڑی کے ساتھ ریاست کے برے سلوک سے وہ سیاست کے ساتھ ساتھ ریاست سے بھی ناراض ہو رہے ہیں ۔ان کا بیانیہ نفرت، گالی اور مایوسی سے بھرا ہوا ہے ایسے میں نونی لیڈر اور ریاست کی مقتدرہ کو سوچنا ہو گا کہ کھلاڑی کو سزائیں دینے سے مسئلے حل نہیں ہونگے بلکہ مسائل کا نیا انبار لگ جائے گا، یاد کریں کہ بھٹو کو پھانسی دیکر کیا بھٹو ختم ہوگیا ؟ہرگز نہیں بھٹو کی پھانسی کا نتیجہ یہ نکلا ہے کہ پیپلز پارٹی خراب کارکردگی کے باوجود مسلسل پندرہ بیس برسوں سے سندھ میں حکمران ہے، مقتدرہ سندھ کے احساس محرومی کے ڈر سے مصلحت پسندی میں آکر پیپلز پارٹی کا راستہ روک نہیں پائی حالانکہ مقتدرہ کے کئی لوگ چاہتے ہیں کہ ہر صورت پیپلز پارٹی کا راستہ روکنا چاہئے مگر مقتدرہ چومکھی لڑائی نہیں لڑنا چاہتی ۔نواز شریف کو نااہل قرار دیا گیا ،جیل میں رکھا گیا، 2018ء کا الیکشن ہروایا گیا ،دوبار جلاوطنی اختیار کرنا پڑی کیا انہیں سیاست سے نکالنے میں کامیابی ہوئی ہرگز نہیں ۔بالکل اسی طرح کھلاڑی کو جیل میں رکھ کر یا نااہل کرکے یا الیکشن سے باہر رکھ کر اسکی مقبولیت کو ختم نہیں کیا جاسکا ۔واحد راستہ مصالحت ہے کھلاڑی کو سسٹم میں واپس لانا ہے بہتر ہے کہ یہ آج ہی کر لیا جائے وگرنہ کل کو مجبوراً اور زیادہ سخت شرائط پر یہی کرنا پڑے گا۔کھلاڑی کو بھی اب سیاسی ڈائیلاگ اور مفاہمت کے بند دروازے کھولنے ہونگے ،اصلی اور سچی جمہوری روایات کے ساتھ جڑنا ہو گا ،مقتدرہ کے ساتھ مل کر دھرنے اور گالیوں کی سیاست سے اجتناب کرنا ہو گا ۔ماضی میں ہر اسمبلی کے بائیکاٹ اور بالآخر اسمبلیوں کو توڑ دینے سے انہیں جو سیاسی نقصان ہوا اس سے انہیں سیکھنا ہو گا اور آئندہ کے لئے جذباتی فیصلوں کی بجائے عقلمندی کے فیصلے کرنا ہونگے۔

9مئی کے واقعہ نے کھلاڑی اور مقتدرہ کے درمیان کھلی جنگ چھیڑ دی، سیاسی جماعت کو مقتدرہ کے ساتھ اس طرح کی کھلی لڑائی سوٹ نہیں کرتی۔ جنرل ضیاءالحق کے زمانے میں الذوالفقار نے پی آئی اے کا طیارہ اغوا کیا تو مقتدرہ نے 9مئی ہی کی طرح کابیانیہ بنا کر پیپلز پارٹی کو تخریب کار اور دہشت گردوں کی جماعت قرار دے دیا ،بے نظیر بھٹو نے بڑی خوش اسلوبی سے جہاز کے اغوا میں ملوث اپنے بھائی اور الذوالفقار سے اپنی راہیں جدا کرکے پرامن جمہوری جدوجہد کا راستہ اپنایا اور بالآخر مقتدرہ کو ایک دن انہیں اقتدار دینا ہی پڑا ۔کھلاڑی کو بھی پرامن جدوجہد کے راستے پر چلنا چاہئے اور تشدد یا تخریب کی طرف مائل لوگوں سے اپنی راہیں جدا کر لینی چاہئیں ۔ پاکستان کو بنے 75سال ہو گئے یہاں تقریباً ہر منتخب وزیر اعظم کو جیل جانا پڑا ،ہر وزیراعظم کے خلاف عدلیہ نے فیصلے سنائے، ہر وزیراعظم کو مقتدرہ کی مخالفت کا سامنا کرنا پڑا ،ہر وزیر اعظم کا میڈیا ٹرائل ہوا۔ہر وزیر اعظم کو نشان عبرت بنانے کی کوشش ہوئی کبھی بے نظیر،کبھی نواز شریف، کبھی زرداری یا گیلانی اور اب عمران خان۔ کیا یہ دائرہ اب ٹوٹنا نہیں چاہئے کھلاڑی کو کھیل سے باہر رکھا گیا تو اس کے لاکھوں کروڑوں مداحین کا سسٹم پر یقین ختم ہو جائے گا ،ملک میں مایوسی بڑھ جائے گی اور استحکام بھی نہیں آ سکے گا۔ وقت آگیا ہے کہ پرانے کھیل ختم کرکے انصاف پر مبنی میچ میں اترا جائے۔

وہ آکر کیا کرے؟



ایسا لگتا ہے کہ پسِ پردہ سب کچھ طے ہو چکا ہے وہ اسی لئے واپس آ رہا ہے کہ اسے اقتدار تک کا راستہ واضح نظر آ رہا ہے۔معاملات صرف اس کے اور اسٹیبلشمنٹ کے درمیان ہی طے نہیں ہوئے بلکہ اس حوالے سے پاکستان کے دوست ممالک کی معاونت بھی شامل نظر آتی ہے، یوں محسوس ہوتا ہے کہ دوست ممالک نے پاکستان کی مالی امداد کا جو اشارہ دے رکھا ہے اس کے لئے شرط یہ باندھی گئی ہے کہ ایسا سیاسی چہرہ لایا جائے جو لانگ ٹرم معاشی پالیسی کی ضمانت دے۔ میری رائے ہے کہ اگر یہ سب کچھ طے نہ ہوا ہوتا تو وہ واپس ہی نہ آتا۔ یہ بھی صاف نظر آر ہا ہے کہ اگر وہ 21 اکتوبر کو واپس آگیا تو وہ جیل نہیں جائے گا بلکہ اسے ریلیف دے کر سیاسی میدان میں فری ہینڈ دیا جائے گا۔ یہ بھی تقریباً طے ہے کہ اگر وہ واپس آتا ہے تو پھر الیکشن کروائے بغیر کوئی چارہ نہیں ہوگا اور جب ملک میں الیکشن کی سیاست ہوگی تو پھر تحریک انصاف اور اس کے چیئرمین کے بارے میں بھی فیصلے جلد از جلد کرنا پڑیں گے۔

عمومی تاثر یہ ہے کہ وہ واپس آکر اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ مل کر تحریک انصاف اور اس کے چیئرمین کے خلاف جاری منتقمانہ پالیسیوں کا حصہ بنے گا اور جوکچھ خود اس کے اور اس کی پارٹی کے ساتھ ہوا تھا، اس کا بدلہ لے گا۔ میری ذاتی رائے ہے کہ اگر انتقام لینا ڈیل کا حصہ ہے تو اُسے یہ نہیں کرنا چاہئے اُسے انتقام اور بدلے کی سیاست کا خاتمہ کرنا ہوگا، جو کچھ تحریک انصاف کے ساتھ ہو رہا ہے اسے روکنا ہوگا۔ میری یہ رائے نئی نہیں ہے، میں 19 اگست 2022ء کو لندن میں میاں نواز شریف سے ملا تھا اور یہ عرض کیا تھا کہ آپ تین بار وزیر اعظم پاکستان رہے ہیں ملک کے سب سے سینئر اور تجربہ کار سیاستدان ہیں آپ کو چیئرمین پی ٹی آئی کے خلاف انتقام کا حصہ نہیں بننا چاہئے۔ میاں نواز شریف نے میری رائے سے اتفاق نہ کیا اور کہا کہ تحریک انصاف کے چیئرمین سیاستدان نہیں بلکہ وہ تو سیاست اور سیاست دانوں کے سرے سے ہی مخالف ہیں اب جبکہ وہ خود اپنی ہی پالیسیوں کی سزا بھگت رہے ہیں تو ہمیں ان کو بچانے کی کیا ضرورت ہے۔میں نے اس ملاقات میں بھی میاں صاحب کی رائے سے اختلاف کیا تھا اور آج بھی اسی رائے کا اظہار کر رہا ہوں کہ اگر ملک میں جمہوریت اور پارلیمانی سیاست کو چلانا ہے تو انتقام کا سلسلہ بند کیا جائے، جب پی ٹی آئی برسراقتدار تھی تو نواز شریف اور ان کی جماعت جیلوں میں بند تھی اور ان سے انتقام لیا جا رہا تھا، میں اس وقت بھی بار بار تحریک انصاف کی حکومت کی توجہ اس طرف دلاتا رہا کہ انتقام کا یہ سلسلہ بند ہوناچاہئے وگرنہ کل آپ کو بھی اس کا نتیجہ بھگتنا پڑے گا۔ چنانچہ وہی ہوا جس کا ڈر تھا ،اب تحریک انصاف اور اس کے چیئرمین کے خلاف انتقامی کارروائیاں جاری ہیں اور نونی خوش ہیں کہ ان کا بدلہ پورا ہورہا ہے، اگر انتقام کا یہ سلسلہ اسی طرح جاری رہا تو پھر سیاست اور جمہوریت کی بحالی کبھی بھی ممکن نہیں ہوگی، اسی لئے بطور ایک ادنیٰ طالب کےعلم میری خواہش ہے کہ وہ جو زیادہ تجربہ کار ہے، وہ جو چوتھی بار وزیر اعظم بننے والا ہے، وہ پہل کرے اور انتقام کا یہ دائرہ توڑے، ملک کی سیاسی تقسیم کی بجائے مفاہمت کا ڈول ڈالا جائے، کیا ہی اچھا ہو کہ وہ آئے اور آ کر کہے کہ میرے مخالف کو جیل سے نکالو اور اگر ایسا ممکن نہ ہو تو جب اسے اقتدار ملے تو پہلا کام یہ کرےکہ اپنے مخالف کو جیل سے نکال کر اس سے مفاہمت کرے۔ اگر اس نے ایسا نہ کیا تو نہ وہ کامیاب ہوگا اور نہ ہی پاکستان آگے چل سکے گا۔

یادش بخیر چیئرمین تحریک انصاف سے ان تین ملاقاتوں کا ذکر بھی ضروری ہے جو 9مئی سے پہلے ہوئیں پہلی ملاقات میں مجیب الرحمٰن شامی اور یہ کالم نگار موجود تھے۔ دوسری ملاقات امتیاز عالم اور ان کےوفد کے ہمراہ ہوئی۔ تیسری ملاقات میں اسلام آباد اور لاہور کے نمایاں ٹی وی اینکرز موجود تھے۔ ان تینوں ملاقاتوں کا محور و مرکز یہی تھا کہ تحریک انصاف حکومت میں شامل سیاسی جماعتوں سے مذاکرات کرے۔ چیئرمین تحریک انصاف کا موقف تھا کہ وہ ان کرپٹ سیاسی حکمرانوں کے ساتھ مذاکرات نہیں کریں گے انہیں دوسرا مشورہ یہ دیا گیا تھا کہ آپ اسٹیبلشمنٹ سے اپنے بگڑے ہوئے معاملات کو درست کریں، ان کا کہنا تھا کہ وہ اسٹیبلشمنٹ سے رابطہ کرتے ہیں مگر ادھر سے کوئی مثبت جواب نہیں ملتا۔ انہیں مشورہ دیا گیا کہ آپ یک طرفہ طور پر اعتماد سازی کے اقدامات شروع کردیں، اسٹیبلشمنٹ جب اعتماد سازی کے اقدامات دیکھے گی تو لازماً فاصلے کم ہونے شروع ہو جائیں گے۔ بدقسمتی یہی ہے کہ ان تین ملاقاتوں کا کوئی مثبت نتیجہ برآمد نہ ہوا اور پھر آخر وہی ہوا جس کا ڈر تھا یعنی 9مئی کا واقعہ جس میں اسٹیبلشمنٹ اور تحریک انصاف میں تصادم ہوگیا۔ اس واقعے سے تحریک انصاف کو تو جو نقصان ہوا سو ہوا ملک میں سیاست، جمہوریت، میڈیا کی آزادی اور انسانی حقوق کی جگہ کم ہوگئی اور اسٹیبلشمنٹ نہ صرف طاقتور ہوئی بلکہ اسے جمہوری جگہ پر اپنا قبضہ جمانے کا بیانیہ مل گیا۔

میری رائے میں ملک کو آگے چلانا ہے تو نفرت کی سیاست کو چھوڑنا ہوگا، سیاست میں ایک دوسرے سے نفرت اور ایک دوسرے کو برداشت نہ کرنے کے رویوں نے معاشرے کو بے یقینی اور ناامیدی کے کنارے پر لاکھڑا کیا ہے،تحریک انصاف سے کوئی لاکھ اختلاف کرے مگر وہ ایک پاپولر سیاسی جماعت ہے اسے دبا کر ملک اور جمہوریت کا کوئی بھلا نہیں بلکہ نقصان ہوگا۔ دوسری طرف چیئرمین تحریک انصاف کو بھی نفرت، غصے اور انتقام کو خیرباد کہنا ہوگا، اپنے مخالفین اور ان کے مینڈیٹ کو تسلیم کرنا ہو گا، ملک کو آگے چلانا ہے، جمہوریت اور آئین کو برقرار رکھنا ہے تو اس راہ کو اپنانا ہو گا۔ ہم نے گالیوں اور احتساب کی سیاست بہت دیکھ لی، نہ اس سے ملک کا کوئی سیاسی فائدہ ہوا اور نہ ہی کوئی معاشی فائدہ، بلکہ اس سے معاشرہ تقسیم ہوا ہے۔ اب وقت آگیا ہے کہ ساری سیاسی قوتیں اس عمل کی راہ روکیں اور اس حوالے سے سب سے بڑا کردار اس کا ہے جو چار سال بعد واپس آ رہا ہے اگر وہ انتقام میں چلتا رہا تو مایوسی اور بڑھے گی، ہاں البتہ اس نے مفاہمت کی راہ اپنائی تو ملک میں امید کی روشنی نظر آنا شروع ہو جائے گی۔

بشکریہ روزنامہ جنگ