ایسے میں کہ جب پنجابی سیاست دان انتقام کی آگ میں جل بھن رہے ہیں، اور ایسے میں کہ جب سندھی سیاست دان چوٹ لگنے کا احساس ہونے کے باوجود پہل کرنے کو تیار نہیں ہیں، اسی طرح ایسے میں کہ جب بلوچستان کے اہل سیاست گہرے کچوکے لگنے کےبعد بھی حل تک نہیں پہنچ پا رہے ،ایسے میں پختونوں کو داد دینی پڑے گی کہ وہ بازی لے گئے۔
محاذ آرائی کے شدید ترین ماحول سے گزر کر آنے کے باوجود اسد قیصر اور علی محمد خان کا اپنے سیاسی حریف مولانا فضل الرحمن کےگھر جانا، تدبر اور عقلمندی کی نشانی ہے اور دو متحارب فریقوں میں سیاست پر بات ہوئی یا نہ ہوئی، ان کا آپس میں کیمروں کے سامنے ملنا ہی بہت بڑا واقعہ ہے۔ اسے سیاسی ماحول میں تبدیلی کا نقطہ آغاز سمجھنا چاہئے ۔
کہنے کو تو کہا جاتا ہے کہ پنجابی سب سے سیانے ہیں باقی قومیتوں میں سے سوچ اور ترقی میں آگے ہیں مگر تاریخ یہ بتاتی ہے کہ جب سیاسی مخالفت کے معاملات کا حل نکالنا ہوتو پنجاب کے اہل سیاست پہل نہیں کرپاتے، مصلحت اور مفادات کا شکار رہتے ہیں۔
سندھیوں کے بارے میں انکے سیاسی حریف الطاف حسین نے ایک بار مجھے کہا تھا کہ سندھی سب سے عقلمند سیاست دان ہیں ان سے ڈیل کرنا اور ان سے ڈیل لینا سب سے مشکل ہے۔سندھ کی بڑ ی پارٹی کے سربراہ زرداری صاحب اور ان کا چیئرمین صاحبزادہ بلاول حالات کی سختی کا ادراک تو رکھتے ہیں مگر ابھی بھی وہ مقتدرہ کے ساتھ اپنے معاملات کو ٹھیک کرنے کو ترجیح دے رہے ہیں۔
بلوچستان پے درپے آپریشنوں کے بعد سے زخم خوردہ ہے وہاں کی سیاست نارمل نہیں بلکہ ابنارمل ہے، ایسے میں ان سے توقع کرنا ہی عبث ہے کہ وہ متحارب سیاسی فریقوں کے درمیان جمی برف کو توڑ سکیں۔ پختونوں کے بارے میں مشہور کر دیا گیا ہے کہ اسلحہ انکا زیور ہے غصہ انکی ناک پر دھرا رہتا ہے وہاں معاملات مکالمے سے نہیں گولی سے طے کئے جاتے ہیں مگر پی ٹی آئی کے سرکردہ رہنمائوں کی مولانا فضل الرحمن سے ملاقات نے پختونوں کے بارے میں اس جھوٹے تاثر کو تار تار کر دیا ہے اس ملاقات نے تو ثابت کیا ہے کہ لڑائی شدید بھی ہو تو پختونوں کوصلح کرنے کا فن آتا ہے۔
یہ مثبت پیشرفت دیکھ کر اور سن کر یہ خیال ضرور آیا کہ کاش یہ پہلے ہو جاتا۔ سیاست دان مل بیٹھتے ، الیکشن کی تاریخ کا تعین ہو جاتا تو نہ 9مئی کا واقعہ ہوتا اور نہ تحریک انصاف مشکلات کا شکار ہوتی۔
اگر ماضی کے واقعات کی راکھ کو کھنگالا جائے تو جس وقت کھلاڑی خان کو یہ مشورہ دیا جا رہا تھا کہ اہل سیاست کے ساتھ میز پر بیٹھ جائو اس وقت بہت سے لوگوں کو دیوار پہ لکھا صاف نظر آ رہا تھا کہ اگر مصالحت نہ ہوئی تو تحریک انصاف اور مقتدرہ میں ایک روز تصادم ہو جائےگا۔
تاریخ کو درست رکھنے کے لئے یہ بتانا ضروری ہے کہ راقم ان تین ملاقاتوں میں موجود تھا جن میں کھلاڑی خان کو آمادہ کرنے کی کوشش کی گئی کہ وہ سیاست دانوں کے ساتھ مذاکرات کی میز پر بیٹھ کر مسائل حل کریں، ایک ملاقات میں یہ راقم اور جناب مجیب الرحمن شامی شامل تھے دوسری ملاقات امتیاز عالم اور سول سوسائٹی کے نمائندگان کے ہمراہ ہوئی اور تیسری ملاقات لاہور اور اسلام آباد میں اینکرز کے ہمراہ ہوئی، کھلاڑی خان صاف کہتے رہے کہ میں ان چوروں کے ساتھ نہیں بیٹھوں گا۔
کھلاڑی خان کے سوا تحریک انصاف کے کئی رہنمائوں کو بھی یہ نظر آگیا تھا کہ تصادم کے نتیجے میں نقصان انکی جماعت کا ہی ہوگا مگر ان رہنمائوں میں سے کوئی بھی کھلاڑی خان سے اختلاف کی جرات نہیں کر سکتاتھا ۔آج تحریک انصاف کے جو حالات ہیں ان میں اپنے حریفوں کے ساتھ ہاتھ ملانے سے انکار سب سے بڑی وجہ ہے، یہی وہ رویہ تھا جس کی وجہ سے اسمبلیوں کو خیر باد کہا گیا۔
پنجاب اور کے پی کی اسمبلیاں توڑ دی گئیں حالانکہ اگر یہ اسمبلیاں رہتیں تو نہ صرف دو صوبوں میں انکی حکومت قائم رہتی بلکہ انکا اپنے سیاسی حریف اور مقتدرہ دونوں سےنامہ و پیام بھی جاری رہتا۔ سب راستے توڑ کر سڑکوں پر آنا اچھی حکمت عملی نہیں تھی مگر اب تحریک انصاف اور مولانا فضل الرحمن کی ملاقات دیرآید درست آید کے مصداق ماضی کی تلخیاں مٹانے میں اہم کردار ادا کرسکتی ہے۔
اس اہم پیش رفت کے بعد اگلا سوال یہ ہوگا کہ کیا تحریک انصاف اور اسکی مخالف سیاسی جماعتوں میں الیکشن سےپہلے مصالحت ہو گی یا الیکشن کے بعد؟ تحریک انصاف کی خواہش یہ ہو گی کہ مصالحت الیکشن سے پہلے ہو تاکہ اس مصالحت کے نتیجے میں انہیں لیول پلینگ فیلڈ مل سکے مگر قرائن یہ بتاتے ہیں کہ مقتدرہ اور نونی الیکشن سے پہلے کھلاڑی خان سے کسی مصالحت پر رضامند نہیں ہونگے وہ چاہیں گے کہ الیکشن میں تحریک انصاف کو شکست دیکر اور خود حکومت سنبھال کر پی ٹی آئی سے مصالحت کی جائے۔
مولانا فضل الرحمٰن سے ہونے والی مصالحتی ملاقات ان انصافیوں کے لئے بری خبر ہے جو انتقام، گالیوں اور نفرت کو مسائل کا حل سمجھنے لگ گئے ہیں، انہیں بھول چکا ہے کہ تحریک انصاف ایک سیاسی اور جمہوری جماعت ہے جس نے آئینی نظام کے اندر ہی رہ کر کام کرنا ہے۔
کھلاڑی خان کبھی نہیں چاہے گا کہ اسکی جماعت دہشت گرد یا تخریب کار گروہ بن کر ریاست کے خلاف مزاحمت پر اتر آئے۔ماضی میں الذوالفقار سے لیکر طالبان تک ایسے تمام انتہا پسند گروہ مقتدرہ سے شکست کھا چکے ہیں اس لئے تحریک انصاف کے لئے پرامن جمہوری جدوجہد اور الیکشن کے ذریعے اقتدار لینا ہی واحد راستہ ہے۔
پاکستان جیسے ملک میں بغاوت اور انقلاب کا امکان بھی دور دور تک نظر نہیں آتا اس لئے تحریک انصاف کو حقائق کو سمجھتے ہوئے اپنی پالیسی بنانی ہو گی۔سوچا نہ تھا کہ اسد قیصر اور علی محمد خان کے ہاتھ یہ سعادت آئے گی کہ وہ روٹھی اور دلبرداشتہ تحریک انصاف کو دوبار مین اسٹریم سیاست میں لانے کی راہ ہموار کرینگے۔
تحریک انصاف کو چاہئے کہ چودھری پرویز الٰہی اور شاہ محمود قریشی کو مقتدرہ کے ساتھ مذاکرات کا مینڈیٹ دے اور اپنا یہ پیغام پہنچائے کہ وہ پرامن جمہوری سیاست کرنا چاہتے ہیں 9مئی کا واقعہ ایک بڑی غلطی تھی جس سے سبق سیکھ کر وہ آئندہ کی سیاست میں نیا راستہ بنانا چاہتے ہیں…..
بشکریہ روزنامہ جنگ