Tag Archives: شکیل انجم

فلسطینی طالبعلموں پر حملہ، ظفربٹ اور پولیس کا رویہ



تحریر:۔ شکیل انجم

جہاں ملک کا ہر شعبہ تنزلی اورقحط سالی کا شکار ہے، نوجوان نسل جن سےقوم نے توقعات وابستہ کر رکھی تھیں کہ تاریخ کے نازک ترین دور میں سہارا بنے گی، گمراہی اور بے حسی کے راستے پر ہے۔ساری قوم کا سر جھکانے اور دنیا بھر میں خصوصاً عالم اسلام میں شرمندگی کا سبب بننے کے لئے’’سانحۂ گوجرانوالہ‘‘ کافی ہے جس میں قومی اور مذہبی اقدار سے نابلد گمراہ نوجوانوں نے دولت کے نشے میں دھت وہ کچھ کر دیا جو پاکستانی قوم کے چہرے پر سیاہ دھبے کی صورت میں رہتی دنیا تک نمایاں رہے گا۔

یہ افسوسناک واقعہ 7اکتوبر کو اسرائیل کی جانب سے فلسطین کی نسل کشی کے لئے شروع کی جانے والی جنگ کے 7روز بعد گوجرانوالہ میں پیش آیا جب یہاں کے کچھ بے راہرو نوجوانوں نے گوجرانوالا میڈیکل کالج میں زیر تعلیم دو فلسطینی طالب علموں کو معمولی بات پر چھریوں کے وار کرکے شدید زخمی کر دیا۔یہ جاں خراش واقعہ گوجرانوالہ کے علاقہ گارڈن ٹاؤن کے پلاٹینیم مال میں پیش آیا جہاں گوجرانوالہ میڈیکل کالج میں زیر تعلیم دو فلسطینی نوجوان خلدون الشیخ اور عبدالکریم کرائے کےایک کمرے میں رہائش پذیر تھے۔ وقوعہ کے رات خلدون الشیخ اس عمارت کے پہلے فلور پر اپنے ساتھی عبدالکریم سے موبائل فون پر بات کر رہا تھا کہ یکایک ایک متکبر نوجوان ایک کمرے سے نکلا اور خلدون یہ کہتے ہوئے گالیوں کی بوچھاڑ کردی کہ فون پر بلند آواز میں کیوں بات کررہے ہو،خلدون نے نوجوان کے اس غیر مہذب رویہ پر احتجاج کیا تو نوبت ہاتھاپائی تک پہنچ گئی اور حملہ آور نوجوان خلدون کو نتائج کی دھمکیاں دیتے ہوئے اپنے کمرے کی طرف بھاگا تو خلدون نتائج سے بے خبر اپنے کمرے میں چلاگیا لیکن چند لمحوں میں ہی پستول،چاقو اور شیشے کی ٹوٹی ہوئی بوتل کا تیز دھار ٹکڑے سے مسلح پانچ نوجوانوں کا جتھہ ان کے کمرے میں گھس آیا اور چاقو اورتیزدھار کانچ سے دونوں فلسطینی نوجوانوں پر حملہ کر دیا اور ان کے چہرے سمیت جسم کے مختلف حصوں پر وار کرکے شدید زخمی حالت میں چھوڑ کر بھاگ گئے تاہم آس پاس کے لوگوں نے انہیں ہسپتال پہنچایا۔ان حملہ آوروں کے خلاف مقدمہ درج کرنے کا وقت آیا ان نوجوانوں کے بااثر ورثا اور عزیزواقارب اپنی دولت اور اثرورسوخ کے زور پر مقدمہ کی کارروائی رکوانے میں لگ گئے۔پولیس نے تو ان بااثر کا اثر قبول کر لیا اور مضروب فلسطینیوں پر مقدمہ واپس لینے کےلئے دباؤ ڈالنے والوں میں شامل ہو گئے اورانصاف پر ایمان رکھنے والے اعلیٰ حکام کی زبانیں بھی مہر رسیدہ ہوگئیں جو معمولی غلطیوں پر چھوٹے درجے کے ملازمین کو’’قانون کے مطابق‘‘سزائیں دینے میں تاخیر نہیں کرتے لیکن اس ہائی پروفائل بین الاقوامی اہمیت کے حامل کیس کو دبانے کی کوششوں میں شریک ہیں کیونکہ قانون سب کیلئے برابر نہیں۔

بات آگے بڑھانے سے پہلے ضروری ہے ایک ایسی شخصیت کا تعارف کرایا جائے جس نے اس سنگین واقعہ کو دولت کے ڈھیر میں دبانے کی کوششوں کی مزاحمت کی اور اس طبقے کا مقابلہ جو اس افسوسناک واقعہ کو اپنی دولت اور اثرورسوخ کی طاقت سے غیر موثر کرنا چاہتے تھے۔ظفربٹ کا شمار گوجرانوالہ کے مدبر،انسان دوست اور جھوٹ کے خلاف ڈٹ جانے والے لوگوں میں ہوتا ہے۔ ایسا پکا پاکستانی اور راسخ العقیدہ دیندار جس پر دولت یا طاقت کا دباؤ اثر انداز نہیں ہوسکتا۔پانچ سے زائد غیر ملکی زبانوں پر عبور رکھنے کی وجہ سے قومی اور بین الاقوامی حلقوں میں مقبول ہیں،یہی وجہ سے کہ پاکستان میں فلسطینی سفارتخانہ کیجانب سے انہیں ان مضروب فلسطینی نوجوانوں کو انصاف دلانے پر معمور کیاگیا ہے۔

ظفر بٹ کا ماننا ہے کہ نظریۂ آزادئ فلسطین اور کشمیر ہمارے ایمان کا حصہ ہیں جنہیں ایک لمحہ کے لئے بھی فراموش کرنا ایمان سے انحراف کے مترادف ہے۔ اس موقعہ پر جب صیہونی طاقتیں فلسطینیوں کی نسل کشی کےلئے ان پر بارود برسا رہی ہیں،معصوم بچوں کا قتل عام کیا جارہا ہے اور ان کے لئے پناہ کی کوئی جگہ نہیں،ان گمراہ نوجوانوں نے دنیا کو یہ پیغام دیا ہے کی ہم اسرائیلی بربریت کے ساتھ ہیں،معصوم فلسطینیوں کے لئے ہمارے پاس بھی کوئی جگہ نہیں۔ان گمراہ نوجوانوں نے فلسطینیوں کو ہی گھائل نہیں کیا بلکہ قومی وقار اور نظریۂ آزادئ فلسطین پر چھریاں چلائی ہیں۔

بشکریہ جنگ نیوز اردو

افغان مہاجرین میں موجود تخریب کار اور جرائم مافیا



افغان مہاجرین کے ساتھ دہائیوں کی رفاقت کے دوران دیکھا یہ گیا ہے کہ افغان مہاجریں کو معاشی حیثیت طور پر تین طبقات میں تقسیم کیا جا سکتا ہے۔پہلا طبقہ ناجائز ذرائع سےدولت حاصل جمع کرکے اس قدر بلند مقام پر پہنچ چکا ہے جس کا مقابلہ پاکستان کا صف اول کا وہ کاروباری طبقہ بھی نہیں کر سکتا جن کا جدی پشتی کاروبار قیام پاکستان سے پہلے سے چلا آرہا ہے اور وہ کاروبار کی دنیا میں منفرد مقام کا حامل ہے۔افغان مہاجرین کا یہ طبقہ جس کا ماننا ہے کہ پاکستان کے وسائل استعمال کرتے ہوئے ہر جائز اور ناجائز ذریعہ سے دولت حاصل کی جائے۔یہی وہ طبقہ ہے جس نے مارکیٹ پر گرفت مضبوط کرنے کے لئے پراپرٹی کے کاروبار کو بھاری رشوت کے ذریعے کیپچر کیااور اپنے کاروبار کو ملک بھر میں پھیلانے کی غرض سے پاکستان کی شہریت حاصل کرنے کے لئے کوئی قانونی راستہ اختیار کرنے کی بجائے لاکھوں کی رشوت کے عوض نادرہ میں رجسٹرڈ دیہی اور شہری علاقوں میں مقیم ل خاندانوں کو استعمال کرتے ہوئے ان کی “Family Trees” میں گھس کر ان کے فیملی نمبرز کے تحت قومی شناختی کارڈز نبوا لئے اور پاکستانی شہریت کے ساتھ پوری دنیا میں پھیل گئے، ملک میں کرپشن کو قانونی تصور کیا جانے لگا،مہنگائی کی جڑیں پھیلنے لگیں جو رفتہ رفتہ قابو سے سے باہر ہو گئیں اور آج پاکستان معاشی بحران کا شکار ہے، اگرچہ اس معاشی بحران کی تمام تر ذمہ داری افغان مہاجرین کے اس طبقہ پرعائد نہیں کی جاسکتی بلکہ پاکستانی حکومتوں کی غلط معاشی پالیسیاں بھی اس بحران میں اضافہ کی ذمہ دار ہیں لیکن اس طبقہ کی جانب سے ڈالر کی ذخیرہ اندوزی اور اس کی افغانستان منتقلی کے کاروبار نے پاکستان کی معیشت کی تباہی میں کلیدی کردار ادا کیا۔دوسرا طبقہ جس نے غربت کی لکیر سے اوپر آنے کی کوشش میں جرائم کا راستہ اختیار کیا اور بے خوف ہر وہ جرم کیا جس کا ارادہ کرنا بھی جرائم کے زمرے میں آتا ہے۔یہی وہ طبقہ ہے جس کے جرائم کا خوف امن پسند عوام کے اعصاب پر حاوی ہو گیا جس نے معاشرے میں افغان مہاجرین کے لئے بیزاری اور عوام کےدلوں میں نفرت پیدا کی اورانجام کار حکومت پاکستان نے غیر قانونی طور پر آباد افغانوں کو پاکستان سے نکالنے کا فیصلہ کیا۔تیسرا طبقہ جو غربت کی انتہائی نچلی لکیر سے بھی نیچے زندگی گزار رہا ہے اور اس طبقہ کو اپنے زیر کفالت کنبہ کے لئے ایک وقت کی خوراک میسر نہیں جس کے لئے وہ انتہائی مشقت کرتا ہے، کوڑا کرکٹ جمع کرکے فروخت کرنا ان کا معمول کا ذریعۂ رزق ہے جس کے لئے گھر کا ہر فرد اپنا حصہ ڈالتا ہے یہاں تک کہ ان کے کنبہ کا بچہ جو چلنے کےابتدائی مرحلے میں ہوتا ہے، کندھے پر چھوٹی سی بوری ڈال کر علی الصبح روٹی کمانے کے مشن میں شامل ہوتا ہے۔انتہائی کم معاوضہ پر سڑکوں، پائپ بچھانے کے لئے زمین کی کھدائی کرنے کے علاوہ مشکل مزدوری کرکے رزق کمانا ہی کا ذریعۂ رزق ہے۔وہ طبقہ ہے جو رزق حلال پر پختہ یقین رکھتا ہے اور مشقت کے اسی راستے پر چلنے کو ترجیح دیتا ہے۔ ادھر قانون نافذ کرنے والے اداروں نے عوام کو جرائم پیشہ افغانیوں سے بچانے کے لئے کئی منصوبے بنائے اور ان پر عمل درآمد بھی کیا لیکن کوئی حکمت عملی کارگر ثابت نہیں ہوئی۔قانون نافذ کرنے والے اداروں کی نصف سے زیادہ قوت صرف عوام کو جرائم پیشہ افغانیوں سے تحفظ فراہم کرنے میں صرف ہوجاتی ہے اس کے باوجود افغان کرمینلز عوام کو لوٹنے کے لئے اپنا مقررہ ہدف کسی رکاوٹ کے بغیر حاصل کرلیتے ہیں اس کی وجہ پولیس کا غیر پیشہ ورانہ رویہ اور کمزورحکمت عملی ہے۔اگرچہ حکومت غیر قانونی طور پر مقیم افغان مہاجرین کے خلاف کریک ڈاؤن میں سنجیدہ دکھائی دیتی ہے لیکن پولیس کی صفوں میں تاثر عام ہے کہ چھاپہ مار ٹیموں میں بعض اہلکار افغانیوں کی بجائے ان کے ڈالروں کی تلاش میں رہتے ہیں جبکہ گشتی پولیس کی اپنی ترجیحات ہیں۔وہ کسی مشکوک شخص کوبھانپنے کی بجائے اس کی حیثیت کا تخمینہ کرنے پر اپنی تمام تر توجہ مرکوز رکھتی ہے۔

بشکریہ روزنامہ جنگ

 

اپنی ماں کو گالی مت دو



تحریر:۔ شکیل انجم

احمد ندیم قاسمی نے ملک میں زوال کے خدشات محسوس کرتے ہوئے دعا کی تھی کہ خدا کرے کہ میری ارض پاک پر اترےوہ فصل گل جسے اندیشۂ زوال نہ ہوخدا کرے کہ نہ خم ہو سر وقار وطن اوراس کےحسن پہ تشویش ماہ وسال نہ ہو ایک وہ وقت تھا جب ملک کا ہر شخص ملک و قوم کی عزت و ناموس کے لئے کٹ مرنے کو تیار رہتا تھا،وطن سے ایسی محبت جیسے ماں سے،یہ عقیدت دنیاوی یا ظاہری نہیں بلکہ یہ جذبہ نسل در نسل مذہبی عقیدہ کی طرح منتقل ہوتا چلا جاتا تھا اور وطن کے ساتھ یہ عقیدت و احترام کے خون کے خلیوں میں رچ بس جاتی تھی۔مذہبی عقائد کا احترام سب پر واجب اور فرقہ واریت کو گناہ سمجھا جاتا،پورا معاشرہ ہم آہنگی کے ساتھ اپنی اپنی حدود میں رہتے ہوئے وطن کی سلامتی کی عملی کوششوں کو اپنی ذمہ داری کر کرتا تھا لیکن قومی یکجہتی کے دشمنوں کی سازشوں سے آج یہ قوم وہ کچھ دیکھ رہی ہے جس کا ماضی میں تصور بھی گناہ سمجھا جاتا تھا۔اسی ملک کے بعض “غیر پاکستانیوں” نے دشمن کے ایجنڈے کے تحت اس ملک کی نوجوان نسل کی رگوں میں نفرتیں بھر دیں اور انہیں اپنی “ماں” کو گالی دینے کی ترغیب دی اور یہ گالی پوری دنیا میں پھیلادی اور ملک کی ناموس کو تار تار کر دیا۔ماں کو گالی دینے والے اپنے حسب ونسب، اصلیت، جائز و ناجائز خون اور اپنے مقام و مرتبے کا تعین خود کرتے ہیں۔پاکستان کے خلاف گندی زبان استعمال کرنے پاکستانی پاسپورٹ جلانے والوں کا اب پاکستان کے ساتھ کوئی تعلق نہیں ہونا چاہئیے۔مقامی اور بین الاقوامی سازش کے نتیجے میں پیدا ہونے والی سیاسی افراتفری، منافرت اورکشمکش، پاکستان کی سرحدوں سے نکل کر دنیا کے ایسے ممالک اور مقامات تک جاپہنچ گئی جو بھارتی خفیہ ایجنسی ،را، کے زیر اثر تھے۔ظاہر ہے ان حالات میں جب ایسے پاکستانی بھی پاکستان اور

اس کی سلامتی کے ضامن اداروں کے خلاف نفرتیں پھیلانے کی سازش میں شریک ہوگئے تو سمندرپار پاکستانیوں کی ایک بین الاقوامی تنظیم اوورسیز پاکستانیز گلوبل فاؤنڈیشن نے پاکستانیوں کی منفی سوچ کو بدلنے اور انہیں قومی دھارے میں واپس لانے اور ان کی روحوں کو نفررتوں سے پاک کرنے کا بیڑہ اٹھایا اور اپنے اس مقصد کے حصول کی کوششوں کا آغاز کردیا اور پاکستان دشمن قوتوں کی سازشوں کو توڑنے کی موبوط اور منظم تحریک شروع کردی۔ ظہیر احمد مہر کی سربراہی میں قائم اس عالمی تنظیم کی جانب سے پاکستانیوں کو جوڑنے اور ان میں جذبۂ حب الوطنی اجاگر کرنے کی تحریک اس قدر طاقتور اور منظم تھی کہ اس کے نتائج ابتدا میں ہی سامنے آنے لگے اور انہوں نے پاکستان کے خلاف بھارت،اسرائیل اور دوسری قوتوں کی جانب سے ایک سیاسی جماعت کے تعاون سے اختیار کئے جانے والے بیانیہ کو یکسر مسترد کرنا شروع کردیا۔اس تنظیم نے اقوام متحدہ کے حالیہ اجلاس کے دوران “ہفتۂ امن اور حب الوطنی” منایا جس میں دنیا بھر میں مقیم پاکستانیوں نے شرکت کی اور پاکستان کے خلاف نفرت پھیلانے کی پالیسی کو مسترد کیا۔اس دوران امریکہ کے مختلف شہروں میں تقریبات منعقد کیں جن میں سانحۂ جڑانوالہ کے حوالے سے پاکستان کی عیسائی کمیونیٹی کے ساتھ اظہار یکجہتی کیا۔اوورسیز پاکستانیز گلوبل فاؤنڈیشن کے سربراہ ظہیر مہر نے رابطہ کرنے پر 9مئی اور سانحۂ جڑانوالاکے بعد بین اقوامی سازش کے تحت پیدا کئے جانے حالات کا تذکرہ کرتے ہوئے بتایا کہ بھارتی خفیہ ایجنسی “را” نے اس موقع سے فائدہ اٹھانے کے لئے اپنے تمام تر وسائل جھونک دئیے اور امریکہ اور برطانیہ کے علاوہ دوسرے ترقی یافتہ ممالک میں گمراہی کے راستے پر چلائے جانے والے نوجوانوں کو پاکستان کے خلاف نفرتیں پھیلانے کی تربیت دے کر اور انہیں میدان میں اتارا۔ظہیر مہر نے بتایا کہ بھارتی خفیہ ایجنسی نے امریکہ کے ہندو اکثریتی علاقوں تربیت گاہیں قائم کر رکھی ہیں جن میں پاکستان کی بعض سیاسی جماعتوں کے گمراہ لیڈروں اور کارکنوں کو پاکستان کے خلاف نفرتیں پھیلانے کی تربیت دی جاتی ہے اور پاکستانیوں کو اپنے ہی ملک کو گالی دینے اور نفرت پھیلانے کے لئے استعمال کیا جارہا ہے- ظہیر مہر نے بتایا کہ ان کی تنظیم نے شب و روز محنت کے نتیجے میں حالات پر قابو پا لیا ہے اور ملک سے محبت جذبہ واپس آرہا ہے۔

بشکریہ جنگ نیوز اردو