Tag Archives: عرفان صدیقی

کہانی ’’سیاہ کاریوں‘‘ اور ’’سہولت کاریوں‘‘ کی



تحریر:۔ عرفان صدیقی

بلاشبہ عزت وعظمت اور ذلّت و رسوائی کے فیصلے قادر مطلق کے دست قدرت میں ہیں۔ احساسِ کامرانی سے سرشار کسی سہولت شعار جرنیل کا ٹویٹ اُسکے باطن کی ترجمانی تو کرسکتا ہے، ہمیشہ کیلئے لوحِ محفوظ پہ لکھے اٹل فیصلے نہیں مٹا سکتا۔ یہ فیصلے، کئی سالہ محنت بچانے پر کمربستہ کسی جرنیل کے دائرۂِ اختیار واقتدار سے بھی ماوریٰ ہوتے ہیں۔ بندوق یا ترازو کا عقدِمصلحت (Marriage of convenience) کچھ عرصے کیلئے اپنی مرضی کے موسم تخلیق کرسکتا ہے، ازلی وابدی تقویم کے دائمی اصولوں کو نہیں بدل سکتا۔ جبر، چہروں پر کالک تو تھوپ سکتا ہے، لیکن یہ سیاہ کاریاں کبھی طویل العمر نہیں ہوتیں۔ ہوا کے ایک ہی مصفّیٰ جھونکے سے دُھل جاتی ہیں۔

بہت دن ہوچکے لیکن میری لوحِ چشم پر وہ نامطلوب مناظر، رنگین فوٹواسٹیٹ کاپیوں کی طرح چسپاں ہیں۔ 10ستمبر2007ء۔لندن سے اڑنے والا طیارہ اسلام آباد کے پرانے ہوائی اڈّے کے ایک دور افتادہ گوشے میں آ رُکا۔ میں، کم وبیش سات برس کی جلاوطنی کاٹ کر وطن واپس آنے والے نوازشریف کے پہلو میں بیٹھا تھا۔ طیّارے کے دریچے سے باہر بالشت بھر زمین بھی دکھائی نہ دی۔ چپّے چپّے پر مستعد مسلح وردی پوش کھڑے تھے۔ نوازشریف ہم سب کیساتھ بس میں بیٹھ کر راول لائونج پہنچا۔ ذرا دیر بعد اُسے ایک دوسرے طیّارے میں بٹھا کر بارِدگر جدہ بھیج دیاگیا۔ یہ ’’سیاہ کاری‘‘ اب پس منظر میں جاچکی ہے۔ 13 جولائی 2018:ءنوازشریف اور مریم کو احتساب عدالت نے لمبی قید کی سزائیں سنادیں۔ دونوں جاں بہ لب بیگم کلثوم نواز کو بستر مرگ پر چھوڑ کر سزا بھگتنے لندن سے نکلے۔ میں تب بھی اُن کے ہمراہ تھا۔ ہیتھرو سے لاہور تک ہم تینوں منتشر سوچوں میں الجھے بے ربط مکالموں سے ایک دوسرے یا خود اپنے آپ کو فریب دیتے رہے۔ لاہور کا ہوائی اڈہ گیارہ برس پہلے والا منظر پیش کررہا تھا۔ سینکڑوں مسلح اہلکاروں کے نرغے میں کھڑے طیارے کے دریچے سے غول درغول جتھوں کے سوا کچھ دکھائی نہیں دے رہا تھا۔ ایک غول طیارے کے اندر گھُس آیا۔ باپ اور بیٹی کو دھکیلتے ہوئے ایک اور چھوٹے سے طیارے میں ڈال کر پہلے اسلام آباد اور پھر اڈیالہ جیل پہنچا دیاگیا۔ یہ ’’سیاہ کاری‘‘ بھی قِصّہ پارینہ ہوچکی ہے۔

نوازشریف سب سے زیادہ ریاستی اور عدالتی سیاہ کاریوں کا نشانہ بننے والا زندہ سیاستدان ہے۔ ہماری تاریخ کے کسی دوسرے وزیراعظم پر وہ نہیں گزری جو 12اکتوبر1999ءکو نوازشریف پر بیتی۔ اُسے وزیراعظم ہائوس سے اٹھا کر کالے شیشوں والی گاڑی میں ڈالا گیا اور چکلالہ چھائونی کے کسی نامعلوم مقام پر پہنچا دیاگیا۔ تنگ وتاریک بیرک کے چھوٹے سے کمرے میں چار جرنیلوں نے اس کے سامنے ایک کاغذ رکھا ’’میں بطورِ وزیراعظم، قومی اسمبلی تحلیل کرتا ہوں۔‘‘اُس نے انکار کردیا۔ کرخت دھمکیوں کا سلسلہ دراز ہوا تو اُس نے کہا __ ’’مجھے چاہے گولی مار دو۔ میں دستخط نہیں کروں گا۔‘‘ لمحہ بھر بعد وہ بولا __ ’’اسکے لئے تمہیں میری لاش پر سے گزرنا ہوگا ‘‘ (OVER MY DEAD BODY)۔ اُسے گورنر ہائوس مری کے ایسے کمرے میں ڈال دیاگیا جس کی کھڑکی پر گہرے رنگ کا کاغذ چڑھا دیاگیا تھا۔ دن اور رات کی تمیز بھی مشکل تھی۔ ہفتوں کسی کو خبر نہ ہوئی کہ وہ کہاں ہے؟ گئے زمانوں کے آدم خور قبائل جیسی یہ ’’سیاہ کاری‘‘ بھی کم لوگوں کو یاد رہ گئی ہے۔ اٹک قلعے سے لانڈھی جیل لے جاتے ہوئے ہتھکڑیاں ڈال کر اُسے سیٹ سے باندھ دینے والی مکروہ ’’سیاہ کاری‘‘ بھی بھولی بسری کہانی ہے۔ اٹک قلعہ، اڈیالہ، کوٹ لکھ پت، لانڈھی، گم نام بیرکس، بے نام بندی خانے، سب سیاہ کار قصّے، قصہ ہائے پارینہ ہوچکے۔

گزشتہ چھ برس کے دوران، جرنیلوں اور ججوں کے گٹھ جوڑ سے سیاہ کاریوں کی جو متعّفن داستان لکھی گئی، اُس کی نظیر خود ہماری سیاہ رُو تاریخ میں بھی نہیںملتی۔ صرف پانامہ کو دیکھ لیں۔ پی۔ٹی۔آئی کو، کھوسہ کی طرف سے پانامہ کیس عدالت میں لانے کی سیاہ کار پیشکش، سیاہ کاروٹس ایپ کالز، سیاہ کار جے۔آئی۔ٹی، سیاہ کار ہیرے، سیاہ کار مانیٹرنگ بینچ، ’’سسلین مافیا‘‘ اور ’’گاڈفادر‘‘جیسے سیاہ کار ریمارکس، بیٹے سے تنخواہ نہ لینے پر وزارت ِعظمیٰ سے سبکدوشی اور عمر بھر کی نااہلی کا سیاہ کار فیصلہ، سیاہ کار ریفرنسز اور سیاہ کارسزائوں کی ایک لمبی قطارہے۔

تاریخ کے اسی عہدِ بے ننگ ونام میں، ’’سیلِ سیاہ کار‘‘ کے متوازی چلتی، ’’سہولت کاری‘‘ کی ایک جُوئے نغمہ خواں بھی ہے۔ عاشقانہ فریفتگی، والہانہ دِل بستگی اور مجنونانہ فداکاری کی رومانوی کہانی جس کے انگ انگ سے ’’سہولت کاری‘‘ پھوٹ رہی ہے۔ یہ سہولت کاری پیہم، عمران خان کی بلائیں لیتی رہی۔ وہ اپوزیشن میں تھا تو اُس کے جلسوں، اس کے جلوسوں، اس کے دھرنوں اور اس کے لانگ مارچوں میں رنگ بھرتی رہی۔ اس کے لئے ذرائع ابلاغ کی مُشکیں کستی رہی۔ اس کی انتخابی مہم کو بال وپر عطا کرتی رہی اور اُس کے لئے عدالتوں سے صداقت وامانت کی خلعتِ فاخرہ کا اہتمام کرتی رہی۔ انتخابات کا ناقوس بجا تو یہی ’’سہولت کاری‘‘ شرم وحیا سے عاری ہوکر، آر۔ٹی۔ایس کے حلق سے اس کی ’’فتحِ مبین‘‘ نکال لائی۔ وہ تخت نشین ہوا تو یہ سہولت کاری کنیزوں اور خادمائوں کی طرح اس کی دربار داری میں لگی رہی۔ عدلیہ، ایک ہُنرمند مشاطّہ کی طرح اس کے عارض وگیسو سنوارنے لگی۔ وہ پکڑا گیا تو ریمانڈ پر پولیس کی تحویل میں ہوتے ہوئے سرشام سپریم کورٹ بیٹھ گئی، اُسے مرسڈیز میں بٹھا کر عدالت لایاگیا، رات شاہانہ بنگلے میں بصدسامانِ عیش وطرب گزارنے کی ’’سہولت کاری‘‘ ملی، ایک ہی دن میں بارہ ضمانتوں کا ریکارڈ قائم ہوا، سہولت کاری کو معجزہ کاری کی حدوں تک پہنچاتے ہوئے فرمان جاری ہوا کہ یہ کچھ بھی کرتا پھرے، اسے گرفتار نہ کیاجائے۔ دشتِ بے اماں کے بگُولوں جیسی ’’سیاہ کاریوں‘‘ کے طمانچے کھانے اور چار برس دیار غیر میں گزار کر وطن واپس آنے والے شخص نے، قانون کے تقاضے پورے کرتے ہوئے عدالت سے استدعا کی کہ میں پاکستان واپس آ کر آپ کے سامنے پیش ہونا چاہتا ہوں۔ عدالت نے حفاظتی ضمانت کی عرضی منظور کرلی۔ وہ جیل کی دیواریں پھلانگ کر نہیں، ڈاکٹروں کی رپورٹس کے بعد حکومت اور عدالت کی اجازت سے گیا تھا۔ واپس آتے ہی خود کو قانون کے حوالے کردیا لیکن کچھ دل بغض وکدورت کی ’’کچرا کنڈیاں‘‘ بن چکے ہیں۔ خودساختہ دانشوروں کی دانشِ بیمار، انگاروں پہ لوٹنے لگی ہے۔ کل تک ’’لُغت قانونِ سیاہ‘‘ (Black Law Dictionary) سے برآمد کئے گئے ایک ’’سیاہ کار‘‘ فیصلے پر سردھننے والے آج آئین کی کتابِ سبز کی دہائی دینے لگے ہیں۔ یہ نہیں بتا پارہے کہ عدالت نے آئین اور قانون کی کس شِق کو نظرانداز کیا ہے؟

21 اکتوبر کو جب فلائی دبئی کی چارٹرڈ پرواز FZ-4525 نے اسلام آباد کے ہوائی اڈے کو چھوا تو نوازشریف نے بے ساختہ کہا ’’الحمدللہ۔‘‘ اسکی آنکھوں میں نمی تیر رہی تھی۔ اُس نے دعا کیلئے ہاتھ اٹھائے اور پھر دیر تک دعا گو ہاتھوں سے چہرہ ڈھانپے رکھا۔ طیارے میں بیٹھے بیسیوں مسلم لیگی کارکن نعرہ زن تھے ’’وزیراعظم نوازشریف۔‘‘ میں نے دریچے سے جھانک کر دیکھا۔ دور ونزدیک کوئی غول تھا نہ جتھہ۔ چار سُو اکتوبر کی نرم خُو دھوپ رُوپَہلی قالین کی طرح بچھی تھی۔

بشکریہ جنگ نیوز اردو

کیا عناد، انصاف پر حاوی رہے گا؟



عزت مآب جج صاحبان کا اللہ تعالیٰ کو حاضروناظر جان کر، صدقِ دل سے اٹھائے گئے حلف کا اہم ترین جُملہ ہے ’’میں تمام لوگوں کے ساتھ ، کسی خوف یا رعایت کے بغیر اور کسی رغبت اور عناد کے بغیر انصاف کروں گا۔‘‘ اعلیٰ عدلیہ کا ہر جج، مسند انصاف پر براجمان ہونے سے پہلے یہ حلف اٹھاتا ہے۔ ہر اردو لُغت میں حلف کے معنی قسم کھانا ہے۔ گویا ہر جج اپنے مذہب، عقیدے یا نظریے کے مطابق قسم کھا کر یہ عہد کرتا ہے کہ انصاف کا وظیفہ سرانجام دیتے ہوئے وہ سائل کے بارے میں اپنے ذاتی جذبہ واحساس کو ایک طرف رکھ دے گا۔

کیا سابق وزیراعظم نوازشریف کوبیٹے سے تنخواہ نہ لینے کے جرم میں مَنصَب سے برطرف کرکے عمر بھر کی نااہلی کی مہر لگا دینا، جج صاحبان کے حلف کی درست عکاسی کرتا ہے؟ ’’سسلین مافیا‘‘ اور ’’گاڈفادر‘‘ جیسی متعفن گالیوں کو نظرانداز بھی کردیں تو کیا یہ مضحکہ خیز فیصلہ اور اس کی کوکھ سے پھوٹنے والے متعدد فیصلے ’عناد‘ میں لتھڑے ہوئے نہ تھے؟

’’سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجرایکٹ‘‘ کا فیصلہ آگیا۔ اہم نکتہ یہ ہے کہ دوتہائی جج صاحبان کی اکثریت سے ایکٹ کو درست قانون قرار دے دیا گیا۔ یوں قانون سازی کے حوالے سے پارلیمنٹ کی بالادستی تسلیم کرلی گئی ہے۔ اس اصول کا طے پاجانا بھی نہایت مثبت پیش رفت ہے کہ عدلیہ کے صوابدیدی اختیار (184/3) کے تحت سزا پانے والے شخص کو اپیل کا حق حاصل ہوگا۔ تاہم سات کے مقابلے میں آٹھ جج صاحبان کا فیصلہ ہے کہ اپیل کا حق موثر بہ ماضی نہیں ہوگا۔ 184/3 کے تحت دی جانے والی سزا کو حتمی قرار دینے اور ملزم کو اپیل کے حق سے محروم رکھنے والے دو عالی مرتبت جج صاحبان مسلسل وکلا کو زچ کرتے رہے کہ اگر آئین سازوں نے دستور میں اپیل کا حق نہیں دیا تو پارلیمنٹ قانون کے ذریعے یہ حق کیسے دے سکتی ہے؟ پچاس برس پہلے آئین سازوں کے حاشیۂِ وہم وگماں میں بھی کہاں ہوگا کہ برسوں بعد اسلامی جمہوریہ پاکستان کی سب سے بڑی بارگاۂِ عدل میں کچھ ایسے نابغے بھی جلوہ افروز ہوں گے جواپنے صوابدیدی اختیار کا ڈھول پیٹتے ہوئے، تین بار کے منتخب وزیراعظم کا ہانکا لگا کر اپنی شکار گاہ میں لائیں گے، زیرِزمین گروہوں جیسی خفیہ کاری کے ذریعے نامی گرامی شکاریوں کاغول تلاش کرکے اُسے جے۔آئی۔ٹی کا نام دیں گے، شکاریوں کی بندوقوں کا نشانہ ’’شکار‘‘ پر مرکوز رکھنے کے لئے تین جج صاحبان اونچی مچان پر بیٹھ کر مسلسل نگرانی کرتے اور راہنمائی فرماتے رہیں گے، محصور شکار کی تذلیل کے لئے بغض وعناد میں لت پت جُملے کستے رہیں گے، کروڑوں روپے خرچ کرکے دنیا بھر میں ملزم کی کرپشن کے کھُرے تلاش کرتے رہیں گے اور جب رائی برابر کرپشن، معمولی سی بدعنوانی، اپنے عہدے کے غلط استعمال کا رتی بھر ثبوت نہ پائیں گے تو بھیڑیے اور میمنے کی روایتی کہانی کی نظیر دہراتے ہوئے حکم صادر کریں گے __ ’’تم نے اپنے بیٹے سے تنخواہ نہیں لی اس لئے ’’خائن‘‘ ہو لہٰذا وزیراعظم نہیں رہ سکتے اور زندگی کی آخری سانس تک سیاست کا رُخ بھی نہیں کرسکتے۔‘‘عناد کی آگ اسی پر ٹھنڈی نہیں ہوجاتی، نیب کو نادر شاہی حکم جاری ہوتا ہے کہ اس شخص پر مقدور بھر ریفرنس دائر کرو۔ احتساب عدالت کو حکم دیا جاتا ہے کہ چھ ماہ کے اندر اندر فیصلہ کرو (تاکہ انتخابات سے پہلے وہ جیل میں ہو)، نوازشریف کے خلاف فیصلہ صادر کرنے والے ایک جج کو ہی جی۔الیون میں واقع احتساب عدالت کی چھت پر بطور مانیٹر جج بٹھا دیا جاتا ہے تاکہ احتساب عدالت، عناد کی وہ رسیّاں کاٹ کر شکار کو رہا نہ کردے جن میں جکڑنے کے لئے انہوں نے بڑی تگ ودو، بڑی محنت کی تھی۔ یہاں تک کہ اپنے حلف کے پُرزے بھی اڑا دئیے اور اپنے اللہ سے باندھے گئے عہدوپیماں کو بھی جنسِ کوچہ وبازار بنادیا۔ اُدھر ایک وردی پوش جرنیل، ایک جج کے گھر جاکر نواز اور مریم کے خلاف فیصلے کا تقاضا کرتے ہوئے ’’دوسال کی محنت‘‘ کی دہائی دے رہا تھا اور اِدھر عزّت مآب جج صاحبان، طلائی گوٹہ کناری والی سیاہ ریشمی عبائیں زیب تن کئے، محض عناد کی بنیاد پر احتساب عدالتوں کی مُشکیں کس رہے تھے کہ کہیں اُن کی محنت اکارت نہ چلی جائے۔ اگر 1973؁ کے آئین سازوں کے پاس کوئی ایسی دوربین ہوتی کہ وہ ’’بیٹے سے تنخواہ نہ لینے والے‘‘ مکروہ ناٹک اور اس کے اداکاروں کو دیکھ سکتے تو شاید وہ اس ’’صوابدید‘‘ ہی کو ختم کردیتے یا پھر اسے پارلیمنٹ کے موجودہ ایکٹ سے کہیں زیادہ کڑے شکنجوں میں جکڑ دیتے۔ ’’اپیل کا حق دینا ہوتا تو 1973؁ کے آئین ساز خود کیوں نہ لکھ دیتے‘‘ کو بڑی دلیل کے طورپر دوہرانے اور وکیلوں سے پیہم استفسار کرنے والے دو جج صاحبان اُس عالی مرتبت بینچ کا بھی حصہ تھے جس کی سربراہی جسٹس بندیال کررہے تھے اور جس نے صدارتی ریفرنس پر فیصلہ دیا تھا کہ آئین کے آرٹیکل 63-A کے تحت پارٹی ہدایت کی خلاف ورزی کرنے والا رُکن نہ صرف اپنی نشست سے محروم ہوجائے گا بلکہ اس کا ووٹ بھی نہیں گِنا جائے گا۔ قطعِ نظر اس کے کہ یہ فیصلہ بھی ’’رغبت وعناد‘‘ میں لتھڑا ہوا تھا، سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اگر آئین سازوں کا مقصد یہی تھا کہ مذکورہ رُکن اسمبلی کا ووٹ بھی نہ گنا جائے تو اُنہیں یہ جملہ لکھنے میں کیا مشکل مانع تھی؟ تب حمزہ شریف کی حکومت ختم کرنے اور تحریک انصاف کو تخت نشیں کرنے کے لئے آپ نے تعبیر وتشریح سے دس ہاتھ آگے نکل کر، آئین سازوں کی مرضی ومنشا کے بالکل برعکس اپنی مرضی کا آئین لکھ لیا، اور آج عناد کی چتا میں جھونک دئیے جانے والے کسی شخص کو اپیل کا حق دیتے ہوئے آپ آئین لکھنے والوں کو نعوذ باللہ ’’کاتبانِ وحی‘‘ کے مقام پر بٹھا رہے ہیں؟

اس سب کچھ کے باوجود عدلیہ نے ’آزادی‘ کے نام پر اپنے گرد ایک مقدس نورانی ہالے کا حصار سا بنا رکھا ہے۔ وہ مظلوم کی دادرسی، لوگوں کے بنیادی حقوق اور عدلیہ کی عالمی رینکنگ میں تنزل سے کہیں زیادہ اپنی بے مہار آزادی میں دلچسپی رکھتی ہے۔ ہر سوال سے آزاد۔ پارلیمنٹ سے بھی ماوریٰ۔ ڈکٹیٹروں کو خلعتِ جواز دینے میں آزاد، انہیں آئین کی چیر پھاڑ کی اجازت دینے میں آزاد، جج کے گھر جاکر دھمکیاں دینے والے جرنیل سے بازپرس نہ کرنے میں آزاد، جج کو برق رفتاری سے نمونۂِ عبرت بنا دینے میں آزاد، رغبت وعناد سے فیصلے کرنے میں آزاد، اللہ سے باندھا گیا عہدِ وفا توڑنے میں آزاد، پارلیمان کے بطن میں پڑے قانون کا سانس لینے سے بھی پہلے گلا گھونٹ دینے میں آزاد، ساٹھ ہزار زیرِالتوا مقدمات کو بھاڑ میں جھونک کر سردیوں اور گرمیوں کی طویل چھٹیاں منانے میں آزاد اور تقاضا یہ کہ پارلیمنٹ سمیت تمام ادارے اور چھبیس کروڑ پاکستانی اندھے عقیدت مندوں کی طرح دست بستہ اس کے حضور کھڑے رہیں۔

نوازشریف چار سالہ جلا وطنی کے بعد ان شاء اللہ 21 اکتوبر کو واپس وطن آرہے ہیں۔ بغض و عناد اور ناانصافی کے طمانچے کھانے والے شخص کو ایک بار پھر قانون وانصاف کے مراحل درپیش ہوں گے۔ لیکن اس کے ساتھ روا رکھے گئے ’’عدالتی سلوک‘‘ کی شرمناک کہانی کو پیش نظر رکھا جائے تو نوازشریف نہیں، خود عدالت کٹہرے میں کھڑی ہے۔ معاملہ نوازشریف نہیں، عدلیہ کی ساکھ کا ہے۔ اس کے وقار کا ہے۔ سوال یہ ہے کہ کیا عزت مآب چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے عہد میں بھی عدلیہ کے بال وپر’’غبار آلودۂِ رغبت وعناد‘‘ ہی رہیں گے اور کیا عدلیہ کے ماتھے کا داغ بن جانے والے فیصلے کسی تکنیکی موشگافی کے باعث اسی طرح اُس کی پیشانی پر چِپکے رہیں گے؟ کیا قاضی صاحب کے دور میں بھی ’’عناد‘‘، انصاف پر حاوی رہے گا؟

بشکریہ روزنامہ جنگ 

 

الوداع لندن!



پیر، دو اکتوبر کی سہ پہر میں ہیتھرو کے ہوائی اڈّے سے باہر نکلا تو لندن اپنے روایتی موسم کی رومانوی قبا اوڑھے، دِل نواز سی خنکی میں لپٹا ہوا تھا۔ آسمان گہرے سرمئی بادلوں سے ڈھکا تھا۔ ہلکی بارش سے سُرخ اینٹوں، سفید کھڑکیوں والے دُھلے دھلائے گھروں کے اَنگ انگ سے لندن پھوٹ رہا تھا۔

اُسی دِن، سرِشام ایک ریستوران میں کافی کی میز پر میاں صاحب سے ملاقات ہوئی۔ اِس ملاقات میں کوئی تیسرا نہیں تھا سو گھنٹہ بھر کی نشست میں بہت سے اِشکالات دور ہوگئے۔ بہت سی گرہیں کھل گئیں۔ ایک بات حتمی پن کے ساتھ سامنے آئی کہ منفی یا مثبت پہلوئوں کی زائچہ تراشی کا وقت تمام ہوا۔فیصلہ حتمی ہے کہ نوازشریف 21 اکتوبر کی شام پاکستان آ رہے ہیں۔ انہوں نے مجھے اپنے پروگرام کی تفصیلات سے آگاہ کیا اور بتایا کہ تمام متعلقہ معاملات کو دیکھنے کے بعد یہ فیصلہ کیاگیا ہے۔ 21 اکتوبر کو اپنی آمد کے بارے میں میاں صاحب نے مجھ سے رازداری کا عہدلیتے ہوئے کوئی ایک مہینہ پہلے ہی بتادیا تھا لیکن میں نے اسے راز ہی رکھا۔

طے پایا کہ ہم صبح 8 بجے ملا کریں گے تاکہ 11 بجے تک یکسوئی سے بات چیت ہوسکے۔ منگل سے جمعہ تک یہ سلسلہ جاری رہا۔ 11 بجے کے بعد کی مصروفیات میں رُخصتی کا رنگ نمایاں تھا۔ میاں صاحب کے لئے مشوروں کی بھرمار تھی۔ جو بھی آتا پھولوں کا ایک بڑا سا گلدستہ اور پندونصائح کابڑا سا ٹوکرابھی ضرور ہمراہ لاتا۔ اُن کے پاس کوئی نصف درجن تقریروں کے مسودے بھی دھرے تھے۔

مہمانوں کی کثرت اور مشوروں کے ہجوم کے باوجود میاں صاحب کی بدَن بولی میں اُکتاہٹ یا بیزاری کی کوئی جھلک نہ تھی۔ جسٹس (ر) نوید احمد خواجہ، طیارہ اغوا کیس میں اُن کے وکیل تھے۔ ملاقات کو آئے تو میاں صاحب نے پرانی یادوں کی بیاض کھول لی۔ کہنے لگے __ ’’صدیقی صاحب! خواجہ صاحب ہائی جیکنگ کیس میں میرے وکیل تھے۔ ایک دن عدالت لگی تو خواجہ صاحب نے دلیل دی کہ میرے موکل کے بنیادی حقوق بری طرح مجروح ہوئے ہیں۔ ایک جج نے پوچھا_ ’’کیسے ؟‘‘ خواجہ صاحب بڑی سنجیدگی سے بولے __ ’’مائی لارڈ ! میرے موکل نوازشریف کو ہتھکڑی لگا کر زنجیر جہاز کی سیٹ کے ساتھ باندھ دی گئی۔ اگر خدانخواستہ جہاز گر جاتا تو میرا موکل کس طرح چھلانگ لگاتا؟‘‘ عدالت میں ایک زوردار قہقہہ پڑا۔ میری بھی ہنسی چھوٹ گئی۔ میں نے دل ہی دل میں سوچا_ ’’وکیل ایہوجے نے تے فیر اللّٰہ ہی حافظ اے۔‘‘ (اگر وکیل ایسے ہی ہیں تو پھر اللّٰہ ہی حافظ ہے)

میرے ساتھ طویل ملاقاتوں میں ماضی کا تذکرہ کرتے ہوئے وہ دِل گرفتہ سے ہوجاتے۔ ’’حالات کیسے سدھریں گے۔ میں تین دفعہ وزیراعظم منتخب ہوا۔ تینوں دفعہ تلخ تجربوں سے گزرا۔ ہر بار تصادم اور محاذ آرائی سے بچنے کی کوشش کی۔ اپنی طبیعت کے برعکس بہت سی باتیں مان لیں کہ نظام چلتا رہے اور ملک کی تعمیر وترقی کا سلسلہ نہ ٹوٹے لیکن ہر بار میں ہار گیا۔ اصل میں ہر بار پاکستان ہار گیا۔ اپنی ذات اور اپنے خاندان سے ہونے والی ناانصافی اور ظلم کا معاملہ اللّٰہ پر چھوڑ دیا ہے لیکن پروجیکٹ 2017 سے پاکستان اور کروڑوں عوام پر جوگزری اور گزر رہی ہے اِس کا حساب کون دے گا؟‘‘ گفتگو کے اِس بہائو میں میاں صاحب لمحہ بھر کو رُکے۔ پھر بولے __ ’’میں ایک اور بات بھی پہلی بار، صرف آپ سے کہنا چاہتا ہوں جو میرے اور آپ ہی کے درمیان رہنی چاہیے۔‘‘ میں نے کہا _’’ میاں صاحب ایسی لاتعداد باتیں پہلے بھی میرے دِل کی تجوری میں بند ہیں۔ اس لئے آپ بے دھڑک کہیں۔ ‘‘اس کے بعد میاں صاحب نے اوپن ہارٹ سرجری کی طرح اپنا دِل کھول کے میز پر پڑی طشتری میں رکھ دیا۔ کبھی کوئی موزوں وقت آنے تک یہ بات میرے اور میاں صاحب کے درمیان ہی رہے گی تاہم میں جانے کب تک میاں صاحب کے عمیق سینے میں بپا تلاطم کا ہیجان محسوس کرتا رہوں گا۔

جمعہ، دفتر میں الوداعی دن تھا۔وہ چار سال تک اُن کی مصروفیات کی لمحہ لمحہ کوریج کرنے والے صحافیوں سے ملے۔ بیرونی ممالک سے آئے وفود سے ملاقات کی۔ مقامی کارکنوں کی بڑی تعداد سے فرداً فرداً ملے۔ تصویریں بنوائیں۔سب کو اپنے گھر سے بن کر آنے والا کھانا کھلایا۔ کچھ آنکھیں ’وفورِ جذبۂِ بے اختیارِ شوق‘ سے بھیگ رہی تھیں۔ کچھ خوش تھے کہ بالآخر نوازشریف گھر جارہے ہیں۔

اگرچہ پاکستان میں افواہ سازی اور دروغ بافی کا بازار اب بھی گرم ہے لیکن اللّٰہ نے چاہا تو میاں صاحب کا پروگرام حتمی ہے۔ میرے علم کے مطابق وہ چین جا رہے ہیں نہ قطر۔ عمرہ کے لئے سعودی عرب جاتے ہوئے دوحا کے ہوائی اڈے پر، پرواز بدلنے کے لئے مختصر قیام ہوسکتا ہے۔ عمرہ کے بعد وہ کچھ دِن مدینہ منورہ میں گزاریں گے۔ وطن واپسی سے دو دِن قبل متحدہ عرب امارات آنے اور 21 اکتوبر کی شام لاہور کے علّامہ اقبال ائیر پورٹ پر اترنے کا پروگرام طے ہے۔ 21 اکتوبر ہی کو ایک اور چھوٹی سی پرواز کا پیوند بھی لگ سکتا ہے __ لیکن یہ تجسس برقرار رہنا چاہیے۔

جمعہ کی سہ پہر میاں صاحب دفتر سے گھر کیلئے نکلے تو کارکنوں کے ایک بڑے ہجوم نے انہیں الوداع کہا۔ سڑک کے اُس طرف کھڑی دو نوجوان لڑکیاں اور ایک لڑکا، پی۔ٹی۔آئی کا جھنڈا اُٹھائے، میگافون پر ’’چور چور، ڈاکو ڈاکو‘‘ کے آوازے کس رہے تھے۔ کارکنوں کے پرجوش نعروں ’’وزیراعظم نوازشریف‘‘ کی گونج میں میگافون کی سِسکیاں کسی کو سنائی نہ دیں۔

نوازشریف کی جلاوطنیوں کا دورانیہ، اُن کے اقتدار کے عہد سے کہیں زیادہ ہے۔ وہ کل ملا کر کوئی سوا نو برس وزیراعظم رہے لیکن قیدوبند کے علاوہ کوئی گیارہ سال جلا وطن رہنا پڑا۔ پہلی بار وہ 10 دسمبر2000سے 25نومبر2007تک، تقریباً سات برس جبری طورپر ملک بدر رکھے گئے۔ اگست 2007میں سپریم کورٹ نے فیصلہ دیا کہ کسی پاکستانی شہری کو اپنے وطن آنے سے نہیں روکا جاسکتا۔ اِس فرمان کا پروانہ تھامے میاں صاحب وطن آئے تو میں اُن کے ہمراہ تھا۔ اُنہیں لائونج سے باہر نہ نکلنے دیا گیا۔ کمانڈوز دھکے دیتے ہوئے ایک اور طیارے تک لے گئے جو اُنہیں ایک بار پھرجدہ کے کنگ عبدالعزیز ہوائی اڈے کے شاہی ٹرمینل (جدہ) پر لے گیا۔ اکتوبر2007میں محترمہ بے نظیر بھٹو جلاوطنی ترک کرکے پاکستان آگئیں تو مشرف کی تمام تر کوششوں کے باوجود، سعودی عرب نے میاں صاحب کو پاکستان جانے کی اجازت دے دی اور وہ 25 نومبر2007کو لاہور پہنچ گئے۔ شدید بیماری کی حالت میں حکومت اور عدلیہ نے انہیں 19 نومبر2019کو لندن جانے کی اجازت دے دی۔ صحت کے گونا گوں مسائل اور پاکستان کے نوازدشمن، انصاف کُش ماحول نے اس جلاوطنی کو چار سال تک پھیلا دیا۔

نوازشریف آہنی اعصاب کا مالک ہے لیکن بہرطور گوشت پوست کا ایک انسان ہے۔

غالب نے کہا تھا

کیوں گردشِ مدام سے گھبرا نہ جائے دل

انسان ہوں پیالہ و ساغر نہیں ہوں میں

وہ دکھوں اور غموں کی کتھا کم کم ہی سناتے ہیں ۔ ایک دن دفتر کے چھوٹے سے ذیلی کمرے میں بیٹھے وہ دیر تک ماضی کی راکھ کریدتے رہے۔ یہاں تک کہ میں اُن کے چہرے پر لندن کے سرمگیں بادلوں کی سنولاہٹ محسوس کرنے لگا۔ اٹھتے ہوئے انہوں نے میز پر دھرا اپنا سیل فون آن کیا اور مجھے دکھایا۔ پس منظر میں وال پیپر کے طور پر لگی جواں سال کلثوم نوازکی تصویر مسکرا رہی تھی۔ کلثوم کے ’بائو جی‘ نے چہرہ دوسری طرف موڑتے ہوئے گہری محبت میں گندھا صرف ایک سادہ و معصوم سا جملہ کہا __ ’’یہ مجھے بہت یاد آتی ہے۔‘‘

بشکریہ روزنامہ جنگ

نواز شریف کی واپسی کا پروگرام فائنل ، نہ آنے کی خبریں غلط ہیں ، عرفان صدیقی



 مسلم لیگ ن  کے سینیٹر عرفان صدیقی نے کہا ہے کہ نواز شریف کی واپسی کا پروگرام فائنل ہے، پروگرام میں کوئی تبدیلی  نہیں ہوئی۔ 

اپنے ویڈٰو پیغام میں عرفان صدیقی  نے کہا  کہ نواز شریف پہلے سعودی عرب عمرہ کی ادائیگی  کیلیے جائیں گے، اس کے علاوہ  وہ متحدہ امارات بھی قیام کریں گے جس کے بعد 21 اکتوبر کو پاکستان آئیں گے۔

عرفان صدیقی  نے مزید کہا کہ نوازشریف کی واپسی کے  پروگرام کو حتمی شکل دے دی گئی ہے،  کسی مفاہمتی گروپ کی جانب سے  ان کے واپس نہ آنے کی خبریں  درست نہیں، مسلم لیگ ن میں  کوئی مفاہمتی گروپ ہے نہ مزاحمتی گروپ، نواز شریف کی واپسی سے متعلق تمام افواہوں کی تردید کرتا ہوں ۔

ایک اور سیاسی جماعت



تحریر:۔ عرفان صدیقی

کیا پاکستان کو درپیش گوناگوں مسائل کا حل ایک نئی سیاسی جماعت کا قیام ہے؟

یہ سوال میڈیا کی زینت بنا ہوا ہے۔ تین جانے پہچانے سیاستدان، شاہد خاقان عباسی، مفتاح اسماعیل اور مصطفی نوازکھوکھر اِس مفروضہ نئی سیاسی جماعت کے مبلّغین یا محرّکین سمجھے جاتے ہیں۔ تینوں سے میری بہت گہری دوستانہ قربت نہ سہی لیکن بہت اچھی دعا سلام ہے۔ میں تینوں کے بارے میں نہایت مثبت رائے رکھتا ہوں۔ تینوں اعلیٰ تعلیم یافتہ ہیں۔ تینوں قومی مسائل کا درد بھی رکھتے ہیں اور مسیحائی کا جذبہ بھی۔ ان کی نیک نیّتی پر بھی کوئی سوال نہیں اٹھایا جاسکتا۔ لیکن کیا وہ پاکستان کے مرضِ کہن کی ٹھیک تشخیص کررہے ہیں؟ کیا اُن کا اخذ کردہ نتیجہ درست ہے کہ پہلے سے موجود تمام سیاسی جماعتیں کُلّی طور پر ناکام رہی ہیں؟ کیا پاکستان کے موجودہ زوال وانحطاط کی ذمہ داری صرف سیاستدانوں اور سیاسی جماعتوں پر عائد ہوتی ہے؟ اور کیا پون صدی پر محیط تمام المیے، سقوط ڈھاکہ کا سانحہ، مختلف شعبوں کی شکست وریخت، اداروں کی ٹوٹ پھوٹ، آسیب کی طرح خیمے گاڑے بے یقینی، جڑیں تک ہلا ڈالنے والا عدمِ استحکام اور اِن عوارض کے بطن سے پھوٹنے والی معاشی غارت گری کی ذمہ داری سیاسی جماعتوں اور سیاستدانوں کے کندھوں پر ہے؟ سب سے اہم سوال یہ کہ اس صورتِ حال میں انقلابی تبدیلی لانے اور پاکستان کو کمزوری ولاغری سے نکال کر توانا جوانِ رعنا بنانے کا واحد نسخہ کیا ایک نئی پارٹی کا قیام ہی ہے؟ وہ بھی ایسی جس کے ڈاکٹر، طبیب، وید، سنیاسی اور مسیحا برسوں کسی نہ کسی سیاسی شفاخانے میں عرق کشید کرتے ، معجونیں اور کشتے بناتے اور پُڑیاں لپیٹتے رہے ہوں؟

سقوطِ ڈھاکہ کے بعد سے اب تک وفاق میں تین سیاسی جماعتوں کی حکومتیں رہی ہیں۔ پیپلزپارٹی نے مجموعی طورپر پندرہ برس، مسلم لیگ (ن) نے سوا دس سال اور تحریک انصاف نے پونے چار برس حکومت کی۔ اِس دوران ذوالفقار علی بھٹو، محترمہ بے نظیر بھٹو (دو بار)، محمد نوازشریف (تین بار)، جزوی طورپر شاہد خاقان عباسی ، یوسف رضاگیلانی، راجہ پرویز اشرف اور عمران خان (ایک ایک بار) وزارت عظمٰی کے منصب پر فائز رہے۔ ایک چوتھی ہمہ مقتدر جماعت نے کم وبیش اکیس برس کمال جاہ وجلال کے ساتھ حکمرانی کی۔(نگرانوں کو چھوڑ کر) 29 برس9 منتخب وزرائے اعظم کے حِصّے میں آئے۔ یہ بھی یاد رکھنے کی بات ہے کہ آمروں کے عہد میں میائوں کی آواز نکالنے سے عاجز بھیگی بلّیاں بن جانے والے ادارے، جمہوری حکمرانوں کا دور آتے ہی شیروں کا رُوپ دھار کر شاہراہِ دستور کے چار سُو دھاڑنے لگے۔ سپریم کورٹ کی پیشانی پر جھومر کی طرح آراستہ ترازو کے پلڑے کبھی متوازن نہ ہوپائے۔ مارگلہ سے آتی موسم شناس بلکہ موسم گَر ہوائوں کے ساتھ ساتھ مسلسل ہلکورے کھاتے رہے۔ آمروں کو خلعتِ جواز بخشنے اور اُنہیں وردی سمیت سیاسی اکھاڑوں میں کشتی لڑنے کی اجازت دینے والی عدالتوں نے سیاستدانوں کے بارے میں ایسے ایسے فیصلے صادر کئے کہ تصّور سے بھی جھُرجھری آجاتی ہے۔ وہ قاتل قرار پاکر مصلُوب ہوئے، ہائی جیکر قرار پاکر طویل قیدوبند کی سزائیں پائیں، بدعنوان قرار پاکر زندانوں کا رزق ہوئے، خائن قرار پاکر تاحیات سیاست بدر کردئیے گئے، برسوں عدالتوں، کچہریوں میں رُلتے رہے، الزام ودُشنام کے تیروں سے چھلنی کئے جاتے رہے اور قتل ہوتے رہے۔ کیا تاریخ کا یہ منظر نامہ نئی پارٹی کے کہنہ مشق محرّکین کی آنکھوں سے محو ہوچکا ہے؟ کیا وہ اپنے دل پر ہاتھ رکھ کر اطمینانِ قلب سے کہہ سکتے ہیں کہ سیاستدان اور سیاسی جماعتیں واقعی ناکام رہیں؟ کیا وہ بقائمی ہوش وحواس یہ دعویٰ کرسکتے ہیں کہ سیاستدانوں کو ہمیشہ اپنے منشور پر عمل درآمد، اپنے اہداف کی تکمیل، اپنے فلسفۂِ حکمرانی کی عملی تشکیل اور کسی خارجی رخنہ اندازی سے بے نیاز ہوکر پوری توجہ اور انہماک سے کام کرنے کے مواقع ملے اور وہ ناکام رہے؟ یہ نہیں کہا جاسکتا کہ سیاسی حکومتیں ہر طرح کی کجی، عیب، نقص یا نااہلی سے کُلّی طور پر پاک تھیں۔ بس وہ ایسے ہی تھیں جیسے بیسیوں دوسرے ممالک میں ہیں۔ ہماری سیاست پر دو جماعتوں کا غلبہ رہا۔ اگر اُن کی لغزشوں اور کمزوریوں کی فہرست بنائی جاسکتی ہے تو جمہوریت اور پاکستان کیلئے اُن کی جدوجہد، اُن کی قربانیوں اور عوامی فلاح وبہبود، پاکستان کی ترقی وخوشحالی کیلئے اُن کی مقدور بھر کارکردگی کی بیاض بھی مرتّب کی جاسکتی ہے۔ اگر یہ سیاستدان اقتدار کے ایوانوں کی زینت رہے تو دارورسن اور زندانوں کی رونق بھی اُنہی کے دم قدم سے رہی۔ اچھی یا بُری کارکردگی کی فہرست بناتے وقت ایک وسیع وعریض کالم اِس تفصیل کیلئے بھی رکھ لینا چاہئے کہ اُن کے عہدِحکومت میں حکمرانی کی باگیں کس کے ہاتھ میں تھیں؟

قصور نہ دو روایتی جماعتوں کا ہے نہ دوجماعتی نظام کا۔ سیاست کے مفکرین، دوجماعتی نظام کو کسی بھی معاشرے کی بلوغت اور جمہوریت کی پختگی کی علامت قرار دیتے ہیں۔ امریکہ میں گزشتہ پونے دو سو برس سے دو جماعتیں ہی حکمراں چلی آرہی ہیں۔ ستّر فی صد عوام دوبڑی جماعتوں، ری پبلکن اور ڈیموکریٹس کے ساتھ رجسٹرڈ ہیں۔ کسی کے ساتھ وابستہ نہ ہونے والوں کی تعداد ساڑھے ستائیس فی صد ہے۔ صرف ڈھائی فی صد کے لگ بھگ تیسرے آپشن کے دلدادہ ہیں۔ برطانیہ میں کنزرویٹو اور لیبر پارٹیاں ایک سو سال سے باری باری حکومت کررہی ہیں۔ گزشتہ بتیس انتخابات میں انیس بار کنزرویٹو اور تیرہ مرتبہ لیبرز نے حکومت بنائی۔ کوئی نہیں کہتا کہ یہ باریاں لے رہے ہیں۔ کہتا بھی ہے تو اس کا چراغ نہیں جلتا۔ برسوں سے تیسری سیاسی قوت پیرہن بدل بدل کر جتن کررہی ہے لیکن بات بننے میں نہیں آرہی۔

بھارت میں بھی عملاً دو جماعتی نظام ہی کارفرما ہے۔ بھارت کے الیکشن کمیشن نے سیاسی جماعتوں کی درجہ بندی کا ایک اچھا نظام وضع کررکھا ہے۔ یہ درجہ بندی جماعتوں کی انتخابی کارکردگی کی بنیاد پر کی جاتی ہے۔ ایک خاص حد تک نشستیں یا ووٹ نہ لے سکنے والی جماعت درجہ بندی میں نیچے لڑھک جاتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ وہاں ڈھائی ہزار سے زائد رجسٹرڈ سیاسی جماعتوں میں سے صرف چھ کو قومی جماعتیں ہونے کا سرکاری اعزاز حاصل ہے۔ صرف چوّن جماعتیں، ریاستی جماعتوں کا تشخص رکھتی ہیں۔ باقی کو محض شامل باجہ قرار دیاجاسکتا ہے۔ ہمارے ہاں دو سو کے لگ بھگ جماعتیں رجسٹرڈ ہیں۔ سب کی حیثیت ، سب کا درجہ ایک سا ہے۔ ان میں آئے دن اضافہ ہورہا ہے کیونکہ آئین اس کی اجازت دیتا ہے۔ 2018کے انتخابات میں پچاسی جماعتیں میدان میں اتریں۔ تین جماعتوں، پی۔ٹی۔آئی(31.82 فی صد)، مسلم لیگ ’ن‘ (24.35 فی صد) اور پیپلزپارٹی (13.03 فی صد) نے مجموعی طورپر ستّر فی صد کے لگ بھگ (69.20 فی صد) ووٹ لئے۔ باقی کے 30 فی صد ووٹ 82 جماعتوں میں تقسیم ہوگئے۔ تینتیس جماعتیں ایسی تھیں جس میں سے ہر ایک کے ووٹ تین ہزار سے کم رہے۔ پندرہ جماعتیں دَس ہزار تک بھی نہ پہنچیں۔ بیس ایسی تھیں جن میں سے ہر ایک کو ایک لاکھ سے بھی کم ووٹ ملے۔ متحدہ مجلس عمل، جس میں جمعیت علما اسلام (ف) اور جماعت اسلامی بھی شامل تھیں، صرف 4.85 فی صد (پچیس لاکھ سے کچھ زائد) ووٹ حاصل کرپائیں۔ اگر قومی جماعت کے لئے بھارتی الیکشن کمیشن والا فارمولا یہاں بھی ہوتا تو بڑے بڑے نام، بے نام ہوجاتے اور بیسیوں نام نہاد جماعتیں معدوم ہوچکی ہوتیں۔

علّامہ اقبال نے مردِمومن کے زوال کے بارے میں کہا تھا ۔ ’’سبب کچھ اور ہے تُو جس کو خود سمجھتا ہے۔‘‘ علّامہ کے الفاظ مستعار لیتے ہوئے ایک نئی جماعت کے محرّکین سے کہا جاسکتا ہے کہ ملک وقوم کو درپیش موجودہ مسائل کا سبب وہ نہیں، جسے وہ جواز بنارہے ہیں۔ نہ ہی اُن کی دانا وبینا قیادت کے پرچم تلے کوئی نئی جماعت ہمارے دامانِ پارہ پارہ کی بخیہ گری کرسکتی ہے۔ سبب کیا ہے ؟ وہ خود اچھی طرح جانتے ہیں۔

بشکریہ جنگ نیوز اردو