Tag Archives: عطاالحق قاسمی

نواز شریف اور ہتھیلی پر بیٹھا سفید کبوتر!



تحریر:۔ عطاالحق قاسمی

چار روز قبل محمد نواز شریف چار سال بعد اپنے وطن پاکستان واپس آئے اور مینار پاکستان کے سائے تلے تقریر کی،اپنی سیاسی زندگی کے متعدد جھوٹے مقدموں میں قید و بند کی صعوبتیں برداشت کرنے، پی ٹی آئی کے لیڈر اور اس کی آغوشِ مغلظات میں پرورش پاتے اس کے کارکنوں کی مسلسل غلیظ حرکتوں اور گالی گلوچ برداشت کرنے والے اس رہنما نے اپنی تقریر میں ان سب کو ایسے نظر انداز کیا جیسے وہ سب کچھ بھول چکے ہیں اور اپنے نئے سفر میں یہ سب کچھ نظر انداز کرکے دوبارہ تعمیر و ترقی کی اس منزل کی طرف رواں دواں ہوں گے جس کا سلسلہ تین بار منقطع کیا گیا تھا۔

میرے لئے اس تاریخی جلسے کی چند چیزیں بہت اہم ہیں، ایک یہ کہ پاکستان کے چاروں صوبوں سے مسلم لیگی کارکن اپنی مقامی قیادت کے ساتھ طویل سفر طے کرکے لاہور آئے تھے جن میں گلگت بلتستان کے کارکن بھی اپنے مخصوص لباس میں موجود تھے۔ دوسرے یہ کہ مسلم لیگ (ن) کا یہ استقبالی جلسہ بہت چارجڈ تھا۔ عوام کے پُرجوش جذبے نواز شریف کی تقریر کے ایک ایک لفظ پر اپنا بھرپور اظہار کر رہے تھے، جلسہ اتنا بڑا تھا کہ مینار پاکستان تنگیٔ داماں کا گلہ کرتا دکھائی دیتا تھا اور صرف یہی نہیں بلکہ موٹر وے تقریباً تیس کلومیٹر تک گاڑیوں کے اژدہام کی وجہ سے جام ہو کر رہ گئی تھی اور یوں وہ سب لوگ جلسہ گاہ تک پہنچ ہی نہیں سکے جو دور دراز مقامات سے اپنے لیڈر کی جھلک دیکھنے اور اس کی تقریر سننےکیلئے آئے تھے۔اس کے علاوہ رنگ روڈ پر بھی ٹریفک جام ہوکر رہ گیا تھا۔ اس جلسے کی ایک اور اہم بات مجھے یہ لگی کہ مریم نواز نے میاں صاحب کی آمد سے پہلے سامعین کے ولولے اور جوش کو مہمیز دینے کیلئے جلسے کی جزوی نظامت بہت احسن طریقے سے کی اور ان کے بعد خواجہ سعد رفیق نے یہ ذمہ داری سنبھالی۔ مسلم لیگ (ن) کی قیادت میں دو ’’خواجے‘‘ میرے بہت پسندیدہ ہیں اور ان میں بھی خواجہ سعد رفیق اَن تھک کارکن اور پارٹی کیلئے بےپناہ قربانیاں دینے کے سبب میرے دل کے زیادہ قریب ہیں۔ جلسے کے دو مناظر ہی ایسے ہیں جو بہت دل گداز تھے، ایک جب نواز شریف اسٹیج پر آئے اور ان کی بیٹی مریم نواز انہیں گلے لگانے کے دوران شدت جذبات سے آبدیدہ ہوگئی، اس نے والد کے پائوں کو چھوا اور اس دوران نواز شریف کا چہرہ چغلی کھا رہا تھا کہ وہ اپنے جذبات پر قابو پا رہے ہیں، تاہم یہ ایک منظر ایسا تھا جسے ’’حاصلِ غزل‘‘ کہا جاسکتا ہے، دو تین سفید کبوتروں میں سے ایک کبوتر نواز شریف کے روسٹرم پر آ کر بیٹھ گیا، نواز شریف نے اسے پیار کرنے کیلئے اس کی طرف ہاتھ بڑھایا مگر وہ خود ان کے ہاتھ پر آ کر بیٹھ گیا، میاں صاحب نے اپنا ہاتھ فضا میں بلند کیا اور پھر اسے واپس کھلی فضائوں میں چھوڑدیا، میرے خیال میں ’’آزادی، آزادی‘‘ کا شور مچانے والوں کے مقابلے میں یہ منظر آزادی کا خوبصورت استعارہ تھا۔ مسلم لیگ کو چاہیے کہ وہ اس تصویر کو جس میں نواز شریف کے ہاتھ پر خوبصورت کبوتر بیٹھا ہوا ہے اپنے مونو گرام کے طور پر استعمال کرے۔ آزادی کا اس سے بہتر نعرہ اور تشریح ممکن نہیں۔میں نے نواز شریف کی بہت سی تقریریں سنی ہیں مگر اس تقریر کا کوئی جواب نہیں تھا، اس کا ایک ایک لفظ جچا تلا تھااور اس میں جہانِ معانی آباد تھا، میاں صاحب کچھ نہ کہتے ہوئے بھی سب کچھ کہہ گئے اور میرے خیال میں نواز شریف کو اس تقریر کے ہر جملے کو اپنے لائحہ عمل سے منسلک کردینا چاہیے۔ نواز شریف کی وطن واپسی کے حوالے سے بہت سے لوگ بہت سی باتیں کر رہے ہیں، ان میں سے سب سے زیادہ اہم بات یہ ہے کہ میاں صاحب کو اپنے تین ادوار میں سے ایک بھی پورا نہیں کرنے دیا گیااور یوں ترقی کا سفر ہر بار رک گیا۔اب ملک اس نہج پر پہنچ چکا ہے کہ ملک کو ایک بار پھر وژنری نواز شریف کی ضرورت تھی جس کے چھوٹے چھوٹے ادوار میں بھی ملک قدم بہ قدم ترقی کی سمت گامزن رہا۔ ہمسایوں کے ساتھ مناسب حد تک تعلقات، یعنی بس اتنے ہی جتنے مقتدرہ سے برداشت ہو سکتے تھے، تاہم مراسم بھی وقتی طور پر قابل قبول تھے۔ بہرحال دنیا کے دوسرے ممالک خصوصاً چین کے ساتھ تعلقات کا مزید بڑھاوا اور سی پیک جیسے منصوبوں کا وسیع پھیلائو بھی ان کے دور میں دکھائی دیا۔ ترقیاتی کام جتنے نواز شریف کے دور میں نظر آئےاور عوام کو جتنی سہولتیں دی گئیں، اس سے پہلے کی حکومتوں میں اس کی نظیر نہیں ملتی۔

باتیں اور بھی بہت سی کرنے کی ہیں جو قارئین سے ہوتی رہیں گی، فی الحال آخر میں میں پاکستان کیلئے اپنی ایک دعائیہ غزل نذر قارئین کرتا ہوں۔

کچھ ایسے طے ہماری زندگانی کے سفر ہوں

ہمارے پائوں کے نیچے فلک ہوں بحر وبر ہوں

اتر آئیں زمین پر سب ستارے آسماں کے

ہمارے در پہ باندھے ہاتھ یہ مہر و قمر ہوں

کسی دن آسماں سے بارشیں برسیں کچھ ایسی

ہمارے ہر شجر کی ڈال پر بیٹھے ثمر ہوں

جگا دیں جو ہماری آنکھ کے خوابیدہ جوہر

ہمارے درمیاں بھی کاش ایسے دیدہ ور ہوں

سفینے پر مکمل دسترس ہو ناخدا کی

سمندر کی تہوں میں جس قدر چاہے بھنور ہوں

ارادہ باندھتے ہیں ان دنوں ایسے سفر کا

ہماری پیش قدمی کے لئے نجم و قمر ہوں

ہمیں جو گھر میں دیتے ہیں اذیت بے گھری کی

کچھ ایسے ہو کہ اب کے ہم نہیں وہ دربدر ہوں

مزااونچی اڑانوں کا تبھی آئے گا تم کو

عطاؔ صاحب فضا اپنی ہو اپنے بال و پر ہوں

بشکریہ جنگ نیوز اردو

نجکاری؟ لاحول ولا!



تحریر:۔ عطاالحق قاسمی

بہت دنوں سے اسکول اساتذہ کا بھرپور احتجاج جاری تھا، جو اسکولوں کی نجکاری کے حوالے سے تھا، اساتذہ اس مبینہ منصوبے کے خلاف صدائے احتجاج بلند کر رہے تھے، اب اس حوالے سے تین خبریں سامنے آئی ہیں کہ مریم نواز سے اساتذہ کے قائدین کا ایک وفد ملا اور انہیں اس مسئلے سے آگاہ کیا، جس پر انہوں نے انہیں تسلی دی اور کہا کہ ایسا نہیں ہوگا، دوسری خبر یہ کہ عدالت نے اساتذہ کی رہائی کا حکم دیا ہے جن پر پولیس نےبہت بے دردی سے تشدد کیا تھا اور انہیں ایک ہی بیرک میں جانوروں کی طرح رکھاگیاتھا اور تیسری سب سے اہم خبر یہ ہے کہ پنجاب کے نگران وزیر اعلیٰ محسن نقوی نے صحافیوں کے سوالوں کا جواب دیتے ہوئےکہا کہ اسکولوں کی نجکاری کا کوئی ارادہ نہیں اور نہ ہی یہ تجویز کسی بھی میٹنگ میں زیر غور آئی۔

یہ تینوں حوالے بہت خوش آئند ہیں،مگر سوال یہ ہے کہ اساتذہ جن میں خواتین اور مرد شامل ہیں، کئی ہفتوں سے سڑکوں پر بھرپور احتجاجی مظاہرے کر رہے تھے۔بعض مقامات پر ان کے طلبہ بھی اس مظاہرے میں شریک تھے، ان پر آنسو گیس بھی پھینکی گئی، لاٹھی چارج بھی ہوا اور بہت بری طرح گھسیٹتے ہوئے انہیں پولیس وین میں پھینک دیاگیا۔ تو سوال یہ بنتا ہے کہ اگر ایسا کچھ نہیں تھا تو اس احتجاج کی نوبت کیوں آئی اور احتجاج کو اتنا طویل کیوں ہونے دیاگیا اگر پہلے دن اس’ ’افواہ‘‘کی تردید کر دی جاتی تو یہ چنگاری شعلہ بننے سے پہلےبجھ جاتی اور ویسے بھی نجکاری کی ’’افواہ‘‘ کی کچھ نہ کچھ بنیاد ضرور تھی ورنہ اساتذہ کو احتجاج کرنے اور اس ذلت آمیز سلوک کو برداشت کرنے کی ضرورت ہی نہیں تھی۔ یہ ’’شرلی‘‘ کسی نے کہیں نہ کہیںضرور چھوڑی تھی اور یہ اس قدر خطرناک تھی کہ اساتذہ ہی نہیں، تعلیم سے محبت کرنے والے افراد بھی اس پر سیخ پا تھے اور ان کے یہ جذبات غیر حقیقی نہیں تھے۔

اسکولوں کی نجکاری کا مطلب یہ ہے کہ سرکاری اسکولوں میں بچوں کو جو تعلیم تقریباً مفت دی جاتی تھی اب ان کے والدین سے اتنی بھاری فیسوں کا مطالبہ کیا جائےگا جو پرائیویٹ اسکولوں میں وصول کی جاتی ہیں اور جہاں صرف امیروں کےبچے داخلہ لے سکتے ہیں۔ اگر خدانخواستہ ایسا کیا گیاتو یہ منصوبہ بچوں کی ایک بہت بڑی تعداد کو تعلیم سے محروم رکھنے کا باعث بنے گا۔ کسی زمانے میں گورنمنٹ کالج لاہور اعلیٰ اور معیاری تعلیم کا ادارہ تھا یہاں امیر غریب سب کو میرٹ پر داخلہ ملتا تھا اور فیس بالکل نارمل تھی، ہمارے اکابر کی ایک بہت بڑی تعداد اسی درس گاہ سے فیض یاب ہے مگر جب اسے یونیورسٹی بنایا گیا تو اس کی داخلہ اور ماہانہ فیس میں اس قدر اضافہ ہواکہ اب اس میں داخلے کا میرٹ صرف یہ ہے کہ آپ کےپاس اچھے خاصے پیسے ہوں اور بچہ تعلیمی میرٹ پر بھی ہو۔ اگر اسکولوں کی نجکاری ہوئی تو غریبوں کے بچے کبھی اسکول نہیں جائیں گے اور یوں ہماری خواندگی کی شرح مزید نیچے آ جائے گی۔

مسئلہ صرف بچوں اور ان کی تعلیم کا نہیں، پرائیوٹائزیشن کی صورت میں اساتذہ بھی ایک بہت بڑے مسئلے کا شکار ہوںگے۔ ان کے بڑھاپے کا واحد معاشی سہارا یعنی پنشن انہیں نہیں ملے گی، میرے نزدیک یہ ظلم کی اخیر ہوگی۔ وہ بے چارے پہلے کہاں امیر وکبیر ہیں، ان کی کون سی فیکٹریاں چلتی ہیں،وہ کونسے اس مراعات یافتہ طبقے سے تعلق رکھتے ہیں، جن کو بے پناہ معاشی سہولتیں دورانِ ملازمت اور ریٹائرمنٹ کے بعد بھی فراہم کی جاتی ہیں، ان کی حالت عام پاکستانیوں جیسی ہے، جنہیں صرف دو وقت کی روٹی میسر ہو جاتی ہے، خدا کے لئے ان سے یہ دو وقت کی روٹی تو نہ چھینو!۔

اور ہاں خطرہ صرف اسکولوں کو نہیں، اگلے مرحلے میں ’’صیاد‘‘ کی نظر کالجوں پر بھی پڑسکتی ہے اوریوں وہ سب لوگ جو کسی نہ کسی طور اپنے بچوں کو تعلیم کے زیور سے آراستہ کرتے ہیں اور اس کے بعد یہ بچے معاشرے میں قدرے بہتر زندگی گزارتے ہیں یا گزار سکتے ہیں، اس کی امید بھی نہیں رہے گی۔میں ارباب اقتدار سے گزارش کروںگا کہ اگر کسی کے ذہن میں اس منصوبے کی کوئی آلائش موجود ہے تو وہ کسی معالج سے یہ آلائش صاف کرائے ورنہ یہ کام خود قدرت کردیا کرتی ہے۔

بشکریہ جنگ نیوز اردو

آج نواز شریف کا دن ہے!



تحریر:۔ عطاالحق قاسمی

آج محمد نواز شریف ایک با رپھر ہمارے درمیان ہیں’’تھا جس کا انتظار وہ شہکارآ گیا‘‘۔ انہیں سیاست میں آئے چار دہائیاں ہو چکی ہیں ان چار دہائیوں میں بہت سی اونچ نیچ دیکھنا پڑی اور ہر کسی کو لگا کہ ان کی سیاست ختم لیکن نواز شریف موت کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر اپنی خاص مسکراہٹ سے سب کو شکست دیکر ہر بار واپس آ جاتے ہیں ،یہ ان کی خوش قسمتی ہے ۔میرے اور بھی بہت سے دوست میاں صاحب پر لکھ چکے ہیں۔ کوئی انہیں قسمت کا دھنی قرار دیتا ہے تو کوئی انہیں مقدر کا سکندر کہتا ہے،’ کوئی کس شیر کی آمد ہے کہ رن کانپ رہا ہے‘ تو کوئی کہتا ہے’ ایہوجے پت جمن ماواں کدرے کدرے کوئی (اس طرح کے بیٹے مائیں کبھی کبھی پیدا کرتی ہیں )کسی بھی شخص کیلئے یہ انعام قابل رشک ہے۔ 1993ءمیں جب نواز شریف پہلی بار وزیراعظم بنےاور ایک اسٹریٹجی سے صدر غلام اسحاق خان اور وزیر اعظم نواز شریف کی حکومت ختم ہو گئی تو دوسری بار قسمت نےپھر موقع دیا ،وزیر اعظم بنے لیکن اس بار جنرل پرویز مشرف کی وجہ سے گھر بھیج دیئے گئے اور ان پر جہاز اغوا کرنے کا مقدمہ لگایا گیا نہ صرف حکومت گئی جلاوطنی بھی برداشت کرنی پڑی اور لگا اب اس بار دنیا کی کوئی طاقت انہیں واپس سیاست میں نہیں لا سکتی لیکن 10ستمبر 2007ء کو جلاوطنی ختم ہوئی اور وہ پاکستان واپس لوٹے یہ الگ بات ہے کہ انہیں اسی وقت واپس جدہ بھیج دیا گیا۔

کہانی میں ایک بار پھر ٹوئسٹ (TWIST)آیا ، قسمت ان پر ایک بار پھر مہربان ہوئی اور 2012ء میں وہ تیسری بار پاکستان کے وزیر اعظم بنے یہ اعزاز بھی نواز شریف ہی کو جاتا ہے کہ وہ پاکستان کے لونگسٹ سرونگ پرائم منسٹر LONGEST SERVING PRIME MINISTER رہے۔ اپنے تین ادوار میں برسوں سے زیادہ خدمات انجام دیں مگر نواز شریف کا امتحا ن یہیں ختم نہیں ہوا 2017میں جو ہوا وہ کسی سے ڈھکا چھپا نہیں اور نہ ہی یہ زیادہ پرانی بات ہے ۔ پانامہ کا بہانہ بنا کر انہیں ایک بار پھر رخصت کیا گیا اور اسکے ساتھ ساتھ انہوں نے جیل بھی کاٹی وہ بھی اپنی بیٹی کے ساتھ جو کسی بھی باپ کیلئے آسان نہیں ۔نواز شریف نے ان تمام حالات کا جواں مردی سے مقابلہ کیا خصوصاً جب وہ بیگم کلثوم نوازکو بستر مرگ پرچھوڑ کر اپنی بیٹی مریم کے ساتھ وطن واپس آئے اور جیل گئے، اس پر ہر درد دل رکھنے والا انسان دل گرفتہ ہوا ،انہیں صرف جیل ہی کی سختیاں برداشت نہیں کرنی پڑیں بلکہ عمران خان کی صورت میں ایک کم ظرف دشمن کا بھی مقابلہ کرنا پڑا!جیل میں تمام تکالیف برداشت کرتے کرتے وہ بیمار سے بیمارتر ہوتے چلے گئے مگر ملک سے باہر جانے کا نام نہیں لیا ۔حتیٰ کہ ان کے دشمنوں کو یہ ڈر لگنے لگا کہ اگر ان کو جیل میں کچھ ہو گیا تو قوم انہیں معاف نہیں کرے گی چنانچہ انہیں ملک سے باہر جانے پر رضامند کیا گیا لیکن پھر وہی جھوٹا پروپیگنڈہ کیا گیا کہ ڈیل کے نتیجے میں باہر گئے ہیں۔حالانکہ تمام رپورٹس مرتب کرنے والے ڈاکٹر یاسمین راشد اور ڈاکٹر فیصل سلطان تھے اور انہی کے مشورے کے بعد باہر بھیجا گیا تھا، اس کے بعد عمران خان کو لگا کہ انہوں نے اپنے دشمنوں کو ٹھکانے لگا دیا اور وہ اس ملک کے سیاہ و سفید کے مالک بن گئے لہٰذا اب وہ من مانی کرسکیں گے ۔خان صاحب کو ماحول بھی اس قسم کا مہیا کیا گیا یعنی’ گلیاں ہو جان سنجیاں تے وچ مرزا یار پھرے‘ لیکن اللہ کی لاٹھی بے آواز ہوتی ہے دیکھتے ہی دیکھتے 2022ءمیں خان صاحب کی حکومت کو بھی گھر جانا پڑا اور پھر چودہ جماعتوں کی مخلوط حکومت قائم ہوئی ، اگرچہ یہ سارا دورانیہ بہت مشکل تھا اور ایسے میں جب لوگ کہہ رہے تھے کہ مسلم لیگ نون اب آخری سانسیں لے رہی ہے تو میاں صاحب ایک بار پھر دبئی سےپاکستان آ گئے اور عوام نے ان سےبہت سی امیدیں بھی وابستہ کرلی ہیں، اللہ کرے مقدر کا یہ سکندر عوام کی تقدیر ہی بدل کر رکھ دے۔موجودہ نگران وفاقی اور صوبائی حکومتوں نے کہا ہے کہ نواز شریف کے ساتھ قانون کے مطابق سلوک کیا جائے گا اور ہونا بھی یہی چاہئے کیونکہ کوئی بھی شخص یا ادارہ قانون سے بالا تر نہیں ۔یہ سب اپنی جگہ مگر مسلم لیگی یہ بات نہ بھولیں کہ ان کا پالا جس شخص سے پڑا ہے وہ بھی قسمت کا دھنی ہے اب دیکھنا ہے کہ جب الیکشن ہوں گے تو کون واقعی مقدر کاسکندر کہلائے گا۔

مسلم لیگ ان دنوں بہت فعال ہو گئی ہے کاش وہ میاںصاحب کی آمد کے اعلان سے پہلےہی عوام سے اس طرح رابطے میں ہوتی جیسے آج نظر آتی ہے چلیں دیر آید درست آید مگر یہ بات اسے ذہن نشین کر لینا چاہئے کہ پی ٹی آئی کے چاہنے والے خاصی بڑی تعداد میں ہیں اور سوشل میڈیا پر بہت ووکل بھی ہیں لہٰذا اپنے حریف کو ایزی نہیں لینا چاہئے چنانچہ اگر الیکشن ہوتے ہیں اور نواز شریف کو عوام اپنا وزیراعظم منتخب کرتے ہیں تو جہاں پارٹی کو ازسر نو منظم کیا جانا چاہئے اور خامیاں دور کرنی چاہئیں وہاں ایک بات ذہن نشین کر لی جائے تو بہتر ہے کہ خدمات کا وہ سلسلہ پہلے سے بھی کہیں زیادہ زور شور سے شروع ہونا چاہئے جو نواز شریف کا خاصا رہا ہے ملک معاشی بحران کا شکار ہے دوست ممالک سے نوازشریف نے پاکستان کے تعلقات مضبوط بنانے تھے، وہ عمران کی حکومت میں کمزور ہوتے چلے گئے اب یہ تعلقات مضبوط سے مضبوط تر بنائے جانے چاہئیں۔ ن واز شریف کو بار بار حکومت سے بے دخل کیا جاتا ہے، ان پر سراسر بیہودہ، جھوٹ اور لغو مقدمات بنائے جاتے ہیں اور اب عوام کی نظرمیں ان الزامات کی حقیقت اچھی طرح واضح ہو گئی ہے کہ انکی حریف سیاسی جماعتیں بھی یہ کہنے پر مجبور ہو گئی ہیں کہ نواز شریف ہر دور میں ناانصافی کا شکار ہوئے ،بہرحال اب ’’ڈاکٹر ‘‘نواز شریف واپس پاکستان آگئے ہیں ’’مریض‘‘ کی ساری ’’رپورٹیں‘‘ انکے سامنے ہیں اللّٰہ کرے ان کے دست شفا سے پاکستان دوبارہ تندرست و توانا ہو جائے!

بشکریہ جنگ نیوز اردو

برادرم سہیل وڑائچ سے!



تحریر:۔ عطاالحق قاسمی

برادرم سہیل وڑائچ میرے پسندیدہ کالم نگار، اینکر اور تجزیہ نگار ہیں، وہ معقول اور مقبول شخصیت ہیں،عاجزی اور انکساری ان کی شخصیت کا ایک اور روشن پہلو ہے۔ وہ بہت پڑھے لکھے ہیں اس کے باوجود ان کی تحریر اور گفتگو مجھ ایسے ان پڑھ کو کسی کمپلیکس میں مبتلا نہیں کرتی میں ان سے بہت محبت کرتا ہوں کیونکہ وہ بھی مجھ سے بہت محبت کرتے ہیں، اللہ کرے میں نے ان کی بڑائی کے حوالے سے شروع میں جو باتیں سچے دل سے کی ہیں وہ موقع ملنے پر کچھ اسی قسم کی باتیں میرے حوالے سے جھوٹےمنہ ہی کر دیں!

تفنن برطرف میں نے سہیل وڑائچ کا کوئی کالم ٹی وی پر ان کا پروگرام اور کسی پروگرام میں ان کی بطور مہمان گفتگو بھی کبھی مس نہیں کی ۔انہوں نے تقریباً سال بھر سے کوئی کالم نہیں لکھا تھا اگر میں غلطی پر نہیں ہوں تو اس عرصے میں ان کا آخری کالم غالباً اپریل 2022میں شائع ہوا تھا جو حمزہ شہباز کے حوالے سے تھا اور انہوں نے شریف خاندان کے اس سپوت کے بہت سے روشن پہلو بیان کئے تھے اس کے بعد ان کا کالم آج شائع ہواہے جو چار سال بعد محمدنواز شریف کی لندن سے پاکستان آمد اور ان کی ممکنہ وزارت عظمیٰ کے حوالے سے ہے ۔

سہیل کا یہ کالم بھی ان کی متوازن سوچ کا آئینہ دار ہے انہوں نے لکھا ہے کہ معاملات صرف اسٹیبلشمنٹ اور ان کے درمیان ہی طے نہیں ہوئے بلکہ اس حوالےسے پاکستان کے دوست ممالک کی معاونت بھی شامل نظر آتی ہے ۔یوں محسوس ہوتا کہ دوست ممالک نے پاکستان کی مالی امداد کا جو اشارہ دے رکھا ہے اس کے لئے شرط یہ باندھی گئی ہے کہ ایسا سیاسی چہرہ لایا جائے جو لانگ ٹرم معاشی پالیسی کی ضمانت دے ۔سہیل وڑائچ کے مطابق اگر یہ سب کچھ طے نہ ہوا ہوتا تو وہ واپس ہی نہ آتے ان کے بقول یہ بھی صاف نظر آرہا ہے کہ اگر وہ اکیس اکتوبر کو واپس آ گئے تو جیل نہیں جائیں گے بلکہ انہیں ریلیف دے کر سیاسی میدان میں فری ہینڈ دیا جائے گا، یہ بھی تقریباً طے ہے کہ اگر وہ واپس آتے ہیں تو الیکشن کرائے بغیر کوئی چارہ نہیں ہوگا اور پھر جب ملک میں الیکشن کی سیاست ہو گی تو پھر تحریک انصاف اور اس کے چیئرمین کے بارے میں بھی فیصلے جلد از جلد کرنا پڑیںگے۔سہیل وڑائچ نے مستقبل کا احوال اپنے نقطہ نظر سے بیان کر دیا ہے اور اس میں بھی ان کی متانت پوری طرح جھلکتی ہے۔تاہم آگے چل کر انہوں نے کچھ ایسی باتیں بھی کی ہیں جن کے بارے میں مزید اظہار خیال کی خاصی گنجائش موجود ہے ۔مجموعی طور پر انہوں نے کہا ہے کہ نواز شریف ممکنہ طور پر واپس آکر، پی ٹی آئی کے چیئرمین نے ان کے ساتھ اور ان کی پارٹی کے ساتھ جو کچھ کیا تھا،اس کا بدلہ لیں گے اور یہ کہ جمہوریت کی بقااور اس کے تسلسل کیلئے ایسا نہیں کیا جانا چاہئےبلکہ مفاہمت کا راستہ تلاش کیا جائے۔سہیل وڑائچ نے بتایا ہے کہ لندن میں نواز شریف سے ملاقات کے دوران انہوں نے یہی باتیں نواز شریف سے بھی کی تھیں۔

جہاں تک چیئرمین پی ٹی آئی سے مفاہمت کے حوالے سے سہیل وڑائچ نے کہا ہے تو اس کالم میں وہ بتاتے ہیں کہ نو مئی کے واقعہ سے پہلے ان کی تین ملاقاتیں چیئرمین سے ہو ئی تھیںایک ملاقات میں ان کے ساتھ مجیب الرحمان شامی بھی تھے، دوسری ملاقات امتیاز عالم اور ان کے وفد کے ہمراہ ہوئی ، تیسری ملاقات میں اسلام آباد اور لاہور کے نمایاں ٹی وی اینکر موجودتھے ،ان تینوں ملاقاتوں کا محور یہی تھا کہ حکومت میں شامل سیاسی جماعتوں سے پی ٹی آئی مذاکرات کرے مگر چیئرمین کا موقف یہ تھا کہ وہ ان کرپٹ سیاسی حکمرانوں کے ساتھ مذاکرات نہیں کریں گے ۔انہیں دوسرا مشورہ یہ دیا گیا تھا کہ آپ اسٹیبلشمنٹ سے اپنے بگڑے ہوئے معاملات درست کریں، انہوں نے کہا وہ اسٹیبلشمنٹ سے رابطہ کرتے ہیں مگر ادھر سے کوئی مثبت جواب نہیں ملتا۔

ان سطور سے پتہ چلتا ہے کہ چیئرمین جن لوگوں کو کرپٹ کہتے رہے ہیں اور نہ صرف مسلسل کہتے رہے ہیں بلکہ ان کے نام بھی بگاڑتے رہے ہیں ان کے پیرو کاروں نے گالی گلوچ کا بازار بھی گرم رکھا ہے اور مسلسل چار سال لندن میں نواز شریف کی قیام گاہ کے باہر ’’چور، چور، ڈاکو، ڈاکو‘‘ کے نعرے لگاتے رہے۔ لندن میں بھی اور پاکستان میں بھی ان سے اختلاف رکھنے والے سیاست دانوں پر بھی آوازے کسنے کا سلسلہ جاری رہا۔اب چیئرمین ان کرپٹ سیاست دانوں کے ساتھ کیسے مفاہمت کریں گے اور جنہیں بدترین جیلوں میں رکھا گیا اور ان کی ہر طرح کردار کشی کی گئی وہ ان سے مفاہمت کیوں چاہیں گے اور یہ مفاہمت کن شرائط پر ہو گی۔ یہ سوچیں اور اس کے ساتھ یہ بھی کہ دونوں ’’گروہ‘‘کس دل گردے سے یہ معاملات طے کریں گے۔جہاں تک اسٹیبلشمنٹ کا معاملہ ہے نومئی کے بعد وہ سب کچھ بھول جائیں گے جو عسکری تنصیبات اور شہدا کی یادگاروں کے ساتھ کیا گیا ؟ اور وہ سب غلیظ گالیاں بھی جو فوج اور اس کی قیادت کے خلاف آج تک جاری ہیں۔اور ایک سوال یہ بھی کہ اس صورتحال کے پس منظر میں ممکنہ وزیر اعظم ،چیئرمین کو از خود رہا بھی کریں گے اور ان کی پارٹی کو الیکشن میں حصہ دینے کیلئے اپنی پوری کوشش بھی کریں گے؟میرے خیال میں یہ سب کچھ حقیقت پسندانہ نہیں ہے بلکہ جو جمہوری تسلسل شروع ہونے والا ہے وہ اپنے آغاز ہی میں دم توڑ دے گا!ہم نواز شریف سے یہ توقع رکھتے ہیں کہ وہ اپنے اندر ولیوں کے اوصاف پیدا کریں اور وہ سب کچھ بھول جائیں جو انہوں نے نواز شریف ان کی پارٹی اور ملک وقوم کے ساتھ کیا۔جس نے ایک ایسی سیاست کی بنیاد ڈالی جو ہماری نئی نسل کے رگ و پے میں بھی رچ بس گئی ہے۔ چلیں بالفرض محال وہ سب کچھ ہو جائے جو برادرم سہیل وڑائچ کے نزدیک جمہوریت کے تسلسل کیلئے ضروری ہے تو کیا گارنٹی ہے کہ اپنے عشق میں بہت بری طرح مبتلا اور دوسروں کو بدترین مخلوق سمجھنے والاچیئرمین اس کے بعد ایک نیا جنم لے گا اور وہ ایک سیاست دان کی طرح بی ہیو کرنے لگے گا؟ میرے خیال میں برادرم سہیل وڑائچ بھی شاید اس حوالے سے ضمانت نہ دے سکیں۔اپنے کالم کے آخر میں سہیل وڑائچ نے بجا طور پر کہا ہے کہ ملک میں ابتری کی جو فضا پیدا ہوئی اس سے کسی کو فائدہ نہیں ہوا اور نہ آئندہ ہو گا ۔اس کے بعد انہوں نے ساری امیدیں نواز شریف سے باندھی ہیں اس بیان کے حوالے سے میں اس امیدکا اظہار کرتا ہوں کہ نواز شریف واپس آکر اپنی فراست سے کام لیتے ہوے پیچیدہ مسائل حل کریں گے۔ملک کو اسی طرح ترقی کی راہ پر چلائیں گے جو ماضی میں ان کا وطیرہ رہا ہے اور جس کے سبب ہر بحران کےبعد ملک و قوم کو ان کی ضرورت پڑتی ہے۔

میں آخر میں سہیل وڑائچ کی اس بات سے سوفیصد اتفاق کرتا ہوں کہ کسی کے ساتھ ناانصافی نہیں ہونی چاہئے ،کسی کو انتقام کا نشانہ نہیں بنانا چاہئے، ہر ایک کےساتھ آئین اور قانون کے مطابق انصاف ہونا چاہئے کہ آئین اور قانون سے کوئی مبرا نہیں!

بشکریہ جنگ نیوز اردو

شکرانے کے نفل!



تحریر:۔ عطاالحق قاسمی

بزرگوار نے حسرت بھری نظروں سے آسمان کی طرف دیکھا اور کہا ’’واہ میرے مولا، و ہ بھی کیا دن تھے جب میں کڑیل جوان تھا جو مجھے دیکھتا تھا بس دیکھتا ہی رہ جاتا تھا! یہ چوڑا چکلا سینہ، تنے ہوئے ڈولے، سرخ وسپید رنگ، میں شیر کی طرح دھاڑتا تھا، زمین پر پاؤں رکھتا تو زمین کانپنے لگتی تھی ‘‘میں نے عرض کی’’بزرگوار پھر تو آپ نے مظہر شاہ اور سلطان راہی کے ساتھ فلموں میں بھی کام کیا ہو گا‘‘ انہوں نے میرے ان ریمارکس کو خراج تحسین جانا اور فرمایا فلم انڈسٹری کی طرف سے آفرز تو بہت ہوئی تھیںمگر قبلہ والد محترم نے اجازت نہ دی ان کا کہنا تھا کہ انڈسٹری کا ماحول اچھا نہیں، تمہارا اخلاق مزید خراب ہو جائے گا !‘‘ میں نے پوچھا ’’تو گویا تھوڑا بہت اخلاق پہلے سے خراب تھا ؟‘‘ اس پر وہ شرما کر بولے کیا پوچھتے ہو میاں، ہر شب ، شب برات تھی، ہر روز، روز عید ۔میں اس قصے کو طول نہیں دینا چاہتا تھا کہ جانتا تھا بزرگوار شروع ہو جائیں گے اور استغفراللہ کا ورد کرتے کانوں کو ہاتھ لگاتے اور خود کو گناہ گارقرار دیتے ہوئے کتنے ہی پردہ نشینوں پر الزام تراشی شروع کر دیں گے چنانچہ میں نے موضوع کا رخ موڑتے ہوئے کہا آپ دور جوانی میں جتنے طاقتور تھے لوگ تو آپ سے خوفزدہ رہتے ہوں گے ؟” بولے، ایسے ویسے ؟ مجھے دیکھ کر وہ ادھر ادھر ہو جاتے تھے لیکن میں نے کبھی اپنی طاقت کا غلط استعمال نہیں کیا، جب بھی طاقت استعمال کی صحیح جگہ استعمال کی، بس مجھے باڈی بلڈنگ کا شوق تھا میاں اب تمہیں اور کیا کیا بتاؤں‘‘ میں نے کہا نہیں آپ بتائیں جو بتانا چاہتے ہیں’’ فرمایا میں ایک گھنٹہ ایکسر سائز کرتا تھا روزانہ دس میل بھاگتا تھا، میں دفتر جاتا تھا تو کبھی ایک ایک کرکے سیڑھی نہیں چڑھا بلکہ ہمیشہ دو دو تین تین سیڑھیاں پھلانگتا ہوا تیسری منزل تک جاتا تھا جہاں میرا دفتر تھا۔‘‘ میں نے کہا واقعی آپ تو غیر معمولی طور پر طاقتور تھے بزرگوار نے ماضی کے جھروکوں سے جھانکتے ہوئے مجھے مخاطب کیا ’’مجھے بیٹھے بیٹھے جوش آتا تھا تو میں اپنے گھر کے برآمدے کے شیڈ سے لٹک جاتا تھا اور پھر پوری طاقت سے اپنے جسم کو اوپر کی طرف کھینچتا ، حتیٰ کہ میرے گھٹنے شیڈ کے برابر آ جاتے تھے صرف یہی نہیں محض زور آزمائی کیلئے میں مضبوط سے مضبوط لکڑی کو گھٹنے پر رکھ کر اس کے دو ٹکڑے کر دیتا تھا ۔ میں اپنے دو تین دوستوں کو کہتا کہ تم سب مجھے زمین پر گرانے کی کوشش کرو وہ اپنا پورا زور صرف کر دیتے مگر مجھے چت کرنے میں کامیاب نہ ہوتے‘‘، بزرگوار اپنی جوانی بلکہ بھرپور جوانی کی مزید روداد سنانے کے موڈ میں تھے کہ اچانک انہیں کھانسی کا دورہ پڑا، ان کی آنکھیں باہر کو ابل پڑیں سانس ٹوٹنے لگا اور مجھے ان کی جان کے لالے پڑ گئے مگر اللہ کا شکر ہے کہ چند منٹوں کے بعد آہستہ آہستہ وہ نارمل ہو گئے۔

یں نے انہیں پانی لاکر دیا ، انہوں نے گلاس میز پر رکھتے ہوئے کہا میاں اس دمے کے ہاتھوں زندگی اجیرن ہو کر رہ گئی ہے، دعا کرو اب اللہ ایمان کی سلامتی کے ساتھ مجھے واپس بلا لے ! میں نے عرض کی بزرگوار زندگی اللہ تعالیٰ کی دی ہوئی ایک بیش بہا نعمت ہے اس کی قدر کرنا چاہئے، بولے’’ تم ٹھیک کہتے ہو، لیکن صورتحال یہ ہے کہ دس میل روزانہ دوڑلگانے، ایک گھنٹہ ایکسر سائز کرنے، تین تین سیڑھیاں پھلانگنے اور دو دو تین نوجوانوں سے زیر نہ ہونے والا یہ شخص جو تمہارے سامنے ہڈیوں کے ڈھانچے کی صورت میں موجود ہے اب چند قدم بھی چلتا ہے تو اس کا سانس پھولنے لگتا ہے گھٹنوں میں درد اس کے علاوہ ہے بغیر چلے پھرے بھی ان میں ٹیسیں اٹھتی رہتی ہیں ،رات کو بستر پر لیٹتا ہوں تو لیٹا نہیں جاتا سانس رکنے لگتا ہے چنانچہ کبھی صوفے پرجاکر بیٹھ جاتا ہوں کبھی بستر پر بازو کے بل لیٹنے کی کوشش کرتا ہوں اور کبھی لاؤنج میں آکر ٹی وی آن کرکے اپنا دھیان ہٹانے کی کوشش کرتا ہوں۔ بس رات اسی طرح گزر جاتی ہے چنانچہ جب صبح ہوتی ہے تو جوڑ جوڑ درد کر رہا ہوتا ہے میں تو اس زندگی سے تنگ آ چکا ہوں بس دعا کرو اللہ تعالیٰ ایمان کی سلامتی کے ساتھ اب مجھے اٹھا لے !۔‘‘

اس گفتگو کے دوران میرے دوست مرزا عبدالقیوم بھی آ گئے تھے جو بزرگوار سے بہت انس رکھتے ہیں انہوں نے انہیں مخاطب کیا اور کہا آپ ایسی باتیں نہ کریں، آپ کی صحت اس وقت بھی ماشاء اللہ دوسروں سے بہتر ہے میں تو آپ پر رشک کرتا ہوں، یہ سن کر بزرگوار کے چہرے پر ناگواری کے آثار ابھرے اور بولے خاک اچھی صحت ہے میں جوانی میں…مگر مرزا صاحب نے انہیں درمیان میں ہی ٹوک دیا اور کہا میں جانتا ہوں آپ کی جوانی بلاخیز تھی اسی لئے تو میں کہتا ہوں کہ عمر عزیز کا یہ حصہ بھی آپ خدا کا شکر ادا کرتے ہوئے گزار دیں! آپ اپنی زندگی کی بہترین اننگ کھیل چکے ہیں چوکے اور چھکے مارتے رہے ہیں اب اگر ٹک ٹک کر رہے ہیں تو کوئی بات نہیں آپ انہیں دیکھیں جو زیرو پر آؤٹ ہو جاتے ہیں، میں نے محسوس کیا کہ مرزا صاحب کی ان باتوں سے بزرگوار کے چہرے پر امید کی ایک نہایت روشن کرن ابھری ان لمحوں میں مجھے لگا جیسے ان کی ساری مایوس سوچیں ہوا ہو گئی ہیں وہ اپنی جگہ سے اٹھ کھڑے ہوئے ،میں نے پوچھا کہاں جا رہے ہیں ؟ بولے وضو کرنے جا رہا ہوں سوچا شکرانے کے دو نفل ادا کر لوں ۔(قند مکرر)

بشکریہ جنگ نیوز اردو

پی ٹی آئی کے مجاہدین سے



تحریر:۔ عطاالحق قاسمی

اس وقت سارا عالم اسلام مغموم اور بے بس ہے، سوائے دعا اور مظاہروں کے اپنے جذبات کے اظہار کے اور کچھ نہیں، سارا امریکہ اور یورپ اسرائیل کی حمایت کیلئے متحد ہے، انہوں نے اسرائیل پر حملے کو اپنے ملک پر حملہ قرار دیا ہے اور اپنی تمام تر توانائیوں، اپنی تمام تر فوجی قوت کے ساتھ اسرائیل کا ہم رکاب ہیں۔

اس وقت فلسطینی مسلمانوں کی اخلاقی مدد اور اسرائیل کی فسطائیت کے خلاف اپنی آواز پوری دنیا تک اگر کوئی پہنچا سکتا ہے تو وہ امریکہ اور یورپ کے ممالک میں آباد پی ٹی آئی کے مجاہدین ہیں، انہوں نے پاکستان میں پی ٹی آئی کے رہنمائوں کی قید و بند کے خلاف مسلسل آواز اٹھائی اوریوں پوری دنیا تک یہ پیغام پہنچایا کہ پاکستان کی فوج اور ریاست کے تمام ادارے فاشسٹ ہیں، درندے ہیں، وحشی ہیں، بھیڑیئے ہیں۔ نیز یہ کہ اس ملک کے تمام رہنما چور ہیں، ڈاکو ہیں،لٹیرے ہیں۔ چنانچہ ان کی یہ کاوشیں کامیاب ہوئیں اور یوں پاکستان کا کچا چٹھا پوری دنیا کے سامنے آگیا۔ انہوں نے دنیا کو بتایا کہ اگر کوئی مسیحا ہے تو وہ صرف عمران خان ہے، وہ عالم اسلام ہی کا نہیں ایک عالمی لیڈر کا درجہ حاصل کر چکا ہے، اسے صرف چار سال حکومت کرنے کیلئے سہولتیں مہیا کی گئیں مگر اس دوران اسے کام ہی نہیں کرنے دیا گیا اور یوں عوام کی فلاح و بہبود کے جو منصوبے اس کے ذہن میں تھے انہیں عملی شکل دینے کی نوبت ہی نہ آسکی، اسے قید کردیا گیا اور اس بیرک میں رکھا گیا جس میں لٹیرے سیاست دانوں کو رکھا جاتا رہا ہے۔

پی ٹی آئی کے دوستوں کا خیال ہے کہ اگر اس وقت خان حکومت میں ہوتا تو وہ مظاہروں اور عملی اقدامات سے اسرائیل کی اینٹ سے اینٹ بجا دیتا۔ بہرحال بدقسمتی ہے عمران ان دنوں حکومت میں نہیں بلکہ باہر بھی نہیں، امریکہ اوریورپ کے مختلف ملکوں میں مقیم پاکستانیوں کا فرض ہے کہ وہ یہودیوں کے ان سرپرستوں کے خلاف اتنے بھرپور مظاہرے کریں کہ انہیں لگ پتہ جائے کہ عمران کے مجاہد اور کچھ نہیں تو مظاہرے تو کر ہی سکتے ہیں۔ مظاہروں کی انہیں پریکٹس بھی بہت ہے، وہ پورے چار سال لندن میں نواز شریف کی قیام گاہ ایون فیلڈ کے سامنے اودھم مچاتے رہے ہیں، نواز شریف کو گالیاں دیتے رہے ہیں اور مسلم لیگ کا جو لیڈر انہیں لندن میں کہیں نظر آ جاتا اس کا پیچھا کرتے اور اس پر آوازے کستے۔

یوکے چونکہ ایک جمہوری ملک ہے چنانچہ اظہار رائے کی آزادی کی وجہ سے پولیس انہیں کچھ نہ کہتی، چونکہ یہ بریگیڈ نواز شریف کے پاکستان آنے کے اعلان کے بعد فارغ ہوگئی ہے اب اسے چاہیے کہ وہ اپنے مظاہروں کا آغاز کریں، یہودیوں کی دہشت گردی کے خلاف پہلا مظاہرہ جمائما کے گھر کے باہر کریں جہاں وہ عمران کے دو بیٹوں اور ایک بیٹی کے ساتھ رہتی ہے۔ اسی طرح برطانیہ، امریکہ، جرمنی، اٹلی، یونان، کینیڈا، بلجیم اور دیگر ممالک میں تہلکہ خیز مظاہروںسے ثابت کر دیں کہ ان کا لیڈر اگر جیل میں ہے تو اس کے مجاہد تو آزاد ملکوں میں رہتے ہیں جہاں رائے کے اظہار پر کوئی پابندی نہیں، پرامن احتجاج کی اجازت ہے۔ ان مظاہروں کے دوران انہیں ان ممالک میں اظہار رائے کی آزادی کا صحیح مفہوم بھی سمجھ میں آ جائے گا اور ہوسکتا ہے وہاں کی نادان حکومتیں ان کی شہریت منسوخ کرکے انہیں واپس پاکستان بھیج دیں۔ خدا نخواستہ اگر ایسا ہوا تو عمران خان کی شمع کے یہ پروانے بہت خوشی سے اپنے سابقہ وطن میں واپس آ جائیں گے،گو یہاں بھی اب آزادی اظہار کی وہ سہولت میسر نہیں جو سہولت انہیں نو مئی تک میسر تھی۔

میں یہ سطور لکھ رہا تھا کہ مجھے ایک دوست نے بتایا کہ عمران خان کے ایک مجاہد سابق پاکستانی اور حال امریکی معید پیرزادہ نے اپنے ایک ٹویٹ میں کہا ہے کہ حماس ایک دہشت گرد تنظیم ہے اور اس کے ساتھ یہ مشورہ بھی دیا ہے کہ اس جنگ میں اگر کوئی فلسطینی مسلمان مر جائے تو اسے شہید نہ کہیں بلکہ اسے بھی اسی طرح ہلاک قرار دیں جس طرح اسرائیلیوں کی موت کو ہلاکت قرار دیا جاتا ہے۔ واہ، مجھے معیدپیرزادہ کے بیان کی تائید کرنی چاہیے کہ میں بھی پیرزادہ ہوں مگر افسوس میں پنجاب کے ان پیرزادوں میں سے نہیں ہوں جن کا اقبال نے نوحہ پڑھا ہے۔ بہرحال میں نے بہت خلوص سے امریکی اور برطانوی پاکستانی شہریوں کو مشورہ دیا ہے اپنے ملکوں میں اسرائیل کی دہشت گردی کے خلاف مظاہرے کریں، میں یہ مشورہ تاحال پاکستان میں مقیم پی ٹی آئی کے دوستوں کو نہیں دے رہا کہ وہ آزاد ملک کے شہری نہیں ہیں، آزاد ملکوں کے پاکستانی شہریوں کو یہ تجربہ ضرور کرنا چاہیے تاکہ انہیں معلوم ہو سکے کہ کیا وہ واقعی ایک آزاد ملک کے شہری ہیں؟۔

بشکریہ جنگ نیوز اردو

نواز شریف کی آمد!



تحریر:۔ عطاالحق قاسمی

پاکستان کے تین بار منتخب ہونے والے وزیراعظم اور ہر بار ’’ناپسندیدہ‘‘ قرار دیئے گئے میاں نواز شریف چار سال بعد واپس پاکستان آ رہے ہیں، پہلے اس حوالے سے کوئی حتمی بات نہیں کی جاتی تھی، اب اس خبر کی تصدیق کر دی گئی ہے اور مسلم لیگ (ن) بھرپورطریقے سے مینار پاکستان کے جلسے میں ان کے استقبال کی تیاریوں میں مشغول ہے۔ یہ استقبال ایئر پورٹ پر نہیں ہوگا کہ انہوں نے وہاں سے ہیلی کاپٹر پر جاتی امرا چلے جانا ہے یا ممکن ہے کچھ دیر کیلئے اسلام آباد رکیں۔ ایئر پورٹ پر استقبال کی کوئی اپیل نہیں کی گئی کہ اس صورت میں اسی دن ایئر پورٹ اور اس کے فوراً بعد مینار پاکستان کے جلسے میں شرکت عملی طور پر ممکن نہیں تھی۔

میں نے آج اپنے دفتر جاتے ہوئے سڑک کے دونوں جانب مسلم لیگ (ن) کے پرچم نواز شریف کی تصویر سے سجے دیکھے۔ اس کے علاوہ جماعت کے کارکن لوگوں سے تجدید ملاقات کرتے بھی دکھائی دیئے اور شاید جلسے سے بھی زیادہ اہم چیز ان سب لوگوں سے ملاقاتیں ہیں جو ہر مشکل وقت میں جماعت اور نواز شریف کی ہر آواز پر لبیک کہتے رہے۔ مگر بعد میں ایک عجیب صورت حال نظر آئی اور وہ یہ کہ آپ کس کے ساتھ ہیں اور کس کے ساتھ نہیں ہیں، اس کے علاوہ ووٹروں کو ان کے حال پر بھی چھوڑ دیا گیا،ان کا پرسان حال کوئی نہ تھا، مہنگائی کے حوالے سے تو ان کی دلجوئی کسی طور پر بھی ممکن نہ تھی۔ مگر اپنی حکومت میں بھی جائز کاموںکیلئے کوئی دستگیر انہیں دستیاب نہیں تھا اور اب تو نگران حکومت ہے۔ تاہم یہ بات تسلی بخش ہے کہ اب لوگوں تک رسائی کی جا رہی ہے اور ان کے شکوے شکایتیں سنی جا رہی ہیں۔

مگر میرے نزدیک اس کوتاہی کی وجہ یہ تھی کہ عوام کے ’’سر کا سائیں‘‘ ان سے دور تھا۔ نواز شریف اپنے اور پرائے دونوں سے ملتے تھے، عوام کے ساتھ ان کا رابطہ مسلسل تھا۔ ایک سیزنڈ پالیٹیشن کے طور پر ان کا ہاتھ عوام کی نبض پر رہتا تھا۔ وہ کوئی بڑا فیصلہ کرنے سے پہلے اپنے ادنیٰ و اعلیٰ ملاقاتیوں سے گفتگو کے دوران حیلے بہانے سے ان کی رائے لیا کرتے تھے۔ آغا حشر کاشمیری کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ جب وہ تھیٹر کیلئے کوئی ناٹک لکھنے بیٹھتے تو کئی مرتبہ باہر بازار میں آ جاتے اور کسی ریڑھی والے کو اپنے مکالمے سناتے، اگر وہ پاس کردیتا تو اسے ناٹک میں شامل کردیتے، بصورت دیگررہنے دیتے۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ ان کے مخاطب عوام ہوتے تھے اور وہ ان کی پسند کا خیال بھی رکھتے تھے۔ سیاستدانوں اور حکمرانوں کا ووٹ بینک بھی عوام ہوتے ہیں جو سیاست دان ان کے خوابوں کی تعبیر نہیں بنتا وہ اس سے دور ہٹتے چلے جاتے ہیں۔ میاں نواز شریف اس حوالے سے جادوگر ہیں، وہ عوام اورخواص دونوں کی ذہنی کیفیت سے پور ی طرح آگاہ ہیں، وہ ملک کے تین بار وزیراعظم ایسے ہی نہیں بنے اور انہیں اس منصب سے یونہی نہیں ہٹایا گیا۔

اب اکیس اکتوبر کو میاں صاحب واپس آ رہے ہیں جہاں عوام مینار پاکستان کے جلسے میں ان کا استقبال کریں گے،میں مایوس لوگوں میں بھی ایک نیا ولولہ اور جوش و خروش دیکھ رہا ہوں، انہیں یقین ہے کہ یہ وژنری شخص ایک بار پھر انہی رستوں پر گامزن ہوگا جو رستے ملک کو ترقی کی جانب لے جا رہے تھے اور جو عوام کی امنگوں اور خواہشات کے ترجمان تھے۔ ایک بات میں پہلے بھی لکھ چکا ہوں اور دہرا رہا ہوں کہ اس وقت بظاہر اس جماعت کے ہم نوا بہت کم ہیں،یہ بات درست نہیں ہے۔میں مسلم لیگی کارکنوں کو ’’گونگا پہلوان‘‘ سمجھتا ہوں، وہ وقت آنے پر گونگے نہیں رہتے۔ تاہم اس کا مطلب یہ نہیں کہ پی ٹی آئی کمزور ہوگئی ہے، اس خیال خام کو دل سے نکال باہر پھینک دینا چاہیے، عمران خان نے اپنےسپورٹرز کے ذہنوں کو ملک کیلئے تیلا تک نہ توڑنے کے باوجود پوری طرح مسمرائز کیا ہوا ہے، آپ جو مرضی کر لیں وہ کوےّ کو سفید ہی کہیں گے، چنانچہ مسلم لیگرز کو اپنے حریف کے بارے میں کسی خوش فہمی میں مبتلا نہیں رہنا چاہیے۔

مجھے علم ہے کہ مسلم لیگ کے رہنما موجودہ انتہائی مہنگائی اور اس حوالے سے عوام کے جذبات سے ناواقف نہیں ہیں، لوگ گزشتہ حکومت کو ان کے کھاتے میں ڈالتے رہے ہیں اور یوں اس دور کے بہت سے تکلیف دہ اقدامات کا ذمہ دار بھی انہی کو ٹھہراتے ہیں جبکہ مسلم لیگ نہیں بلکہ چودہ سیاسی جماعتوں کی مشترکہ حکومت تھی اور اس دور میں جتنے فیصلے ہوئے اس کی ذمہ داری کسی ایک نہیں سب جماعتوں پر عائد ہوتی ہے۔ اب نواز شریف آ رہے ہیں، اللہ کرے عوام اور ان کے درمیان کوئی رکاوٹ نہ کھڑی کی جائے۔ قید و بند سے تو نواز شریف ڈرنے والا نہیں، وہ بہت کٹھن مراحل میں بھی چٹان کی طرح کھڑا رہا ہے۔ وہ اگر ملک کے وزیر اعظم بنتے ہیں تو اس کے فوراً بعد تو نہیں لیکن کچھ عرصے کے بعد عوام بہت سی خوشخبریاں سنیں گے، ملک کی ترقی کی جانب گامزن ہوگا، عوام کیلئے آسانیاں پیدا ہوں گی اور ترقی و خوشحالی کا وہ قافلہ ازسر نو وہیں سے اپنے سفر کا آغاز کرے گا جہاں زبردستی اس کا اختتام کیا گیا تھا۔

بشکریہ جنگ نیوز اردو

علاج کے لیے تشریف لائیں



تحریر:۔ عطاالحق قاسمی

اللہ نہ کرے آپ میں سے کسی کو کوئی بیماری لاحق ہو، خواہ پراسٹیٹ کا پرابلم ہو، نزلہ زکام، کھانسی، قبض ہو، خدانخواستہ کینسر ہو،گھٹنوں میں تکلیف ہو، ہارٹ کا مسئلہ ہو، آپ کو گھبرانے کی ضرورت نہیں، میں ان میں سے کچھ بیماریاں بھگتا چکا ہوں اور کچھ مجھے بھگت رہی ہیں، میری آئے روز کسی نہ کسی ڈاکٹر سے DATE ہوتی ہے، بس ہم ایک دوسرے کو پھول پیش کرتے ، صرف محبت بھری باتیں ہوتی ہیں اور ان کا تعلق کسی نہ کسی بیماری سے ہوتا ہے، اصل میں ڈاکٹر صاحب کو میری بیماری سے پیار ہوتا ہے کہ انکے گھر کا چولہا اسی سے چلتا ہے اور مجھے ڈاکٹر کی ان ادویات کے حوالے سے جو میری جیون ساتھی بن چکی ہیں، اور ہاں ایک شے تو میں بھول ہی گیا تھا اور وہ یہ کہ میں پاگل ہوں، ہر وقت بس اسی سوچ میں گم رہتا ہوں کہ ہمارے عوام اور ہمارے حکمران کب ٹھیک ہونگے، عوام میں خود ہوں، اور میرا ٹھیک ہونے کا کوئی ارادہ نہیں، حکمران کہتے ہیں ہم ٹھیک ہو جائینگے،یہ مسئلہ کئی دہائیوں سے چل رہا ہے چنانچہ دونوں ہر وقت مشکل میں رہتے ہیں۔

چلیں باقی باتیں بعد میں ہوں گی پہلے میں آپ کو اپنے پاگل پن کی ابتدائی کہانی سنا لوں، یہ ان دنوں کی بات ہے جب میرے پاس لمبریٹا اسکوٹر ہوتا تھا۔ میں ایک دوست کے پاس بیٹھا تھا کہ اچانک میں گم سم ہوگیا۔ میں بول سکتا تھا، سن سکتا تھا مگر لگتا تھا یہ سب کچھ خواب میں ہو رہا ہے، مگر عجیب بات ہے کہ میں نے اس وقت اپنا اسکوٹر اسٹارٹ کیا اور اسی ٹرانس کی حالت میں اللہ جانے کیسے میوہسپتال سیدھا سائیکائٹرسٹ کے کمرے میں پہنچ گیا۔ اس نے میری باتیں سنیں اور پھر پوچھا آپ نماز پڑھتے ہیں، روزے رکھتے ہیں، چونکہ اس وقت میری دماغی حالت ٹھیک نہیں تھی چنانچہ میں سمجھا کہ میں فوت ہوگیا ہوںاور منکر نکیر میرے ایمان کے بارے میں تفتیش کرنے آگئے ہیں۔ سو میں نے ان کے سوالوں کے جواب دیئے اور ڈاکٹر صاحب نے بہت ساری ادویات کی فہرست میرے ہاتھ میں تھما دی۔ میں نے فوراً ان کا استعمال شروع کردیا اور اس کے نتیجے میں بلاوجہ او ر بلاموقع خوش رہنے لگا۔ انہی دنوں میرے ایک دوست کے والد کا انتقال ہوا، میں تعزیت کیلئے گیا اور اسے گلے لگاتے ہوئے کہا یار بہت افسوس ہوا مجھے سارے گندے لطیفے مرحوم سنایا کرتے تھے، پھر میں نے مرحوم کی یاد تازہ کرنے کیلئے ایک لطیفہ اس دوست کو سنانے کی کوشش کی مگر اس کی آنکھوں میں غیظ و غضب کی چنگاریاں دیکھ کر حوصلہ نہیں پڑا۔ خیر ان ادویات کے اتنے گھٹیا قسم کے آفٹر افیکٹس دیکھ کر میںنے یہ کورس پورا نہیں کیا اور درمیان میں چھوڑ دیا۔ ایک دن ہو بہو میری وہی حالت ہوئی اور میں ایک بار پھر اسی ٹرانس میں چلا گیا۔ میں جس دوست کے پاس بیٹھا تھا اس کے ملازم نے کھانے پینے کی چیزیں میز پر سجا دیں، مجھے پیاس محسوس ہو رہی تھی چنانچہ میں نے ایک مشروب اپنے اندر انڈیل لیا اور دوبارہ ڈاکٹر کے پاس جانےکیلئے اٹھ کھڑا ہوا، مگر میں نے محسوس کیا کہ شربت پینے کے بعد میں بالکل نارمل ہوگیا ہوں، میں اس ٹھنڈے میٹھے شربت کے اس جادو سے بہت حیران ہوا مگر بعد میں پتہ چلا کہ نہ اس روز اور نہ آج مجھے کوئی دماغی مسئلہ تھابلکہ میری شوگر لو ہوئی تھی جو ایک میٹھے شربت نے پوری کردی۔

یہ حکایت خاصی طویل ہوگئی مگر چلتے چلتے یہ بھی بتاتا چلوں کہ دماغ کی ایک اور نوع کی خرابی اب بھی موجود ہے اور وہ یہ کہ ہر وقت اس سوچ میں ہوتا ہوں کہ ملک و قوم کا کیا بنے گا، گھروں میں غربت کی سب سے نیچے لکیر میں زندگی بسر کرنے والے ہمارے لئے انواع و اقسام کے کھانے بناتے ہیں اور انکے گھروں میں محرومیوں نے ڈیرے ڈالے ہوئے ہیں، وہ ہمارے بچوں کو اسکول چھوڑنے جاتے ہیں اور ان کے اپنے بچے تعلیم سے محروم ہیں وہ ہمارے وسیع و عریض اور سجے سجائے گھر دیکھتے ہیں جہاں سے واپس انہیں اپنے ایک کمرے کے گھر میں جانا ہوتا ہے، بس اس قسم کی سوچیں مجھے پاگل بنائے رکھتی ہیں، اس کا علاج میرے ایک دوست نے بتایا ،اس نے پوچھا تم نے اقبال کا وہ مصرعہ سنا ہوا ہے ’’درد دل کے واسطے پیدا کیا انسان کو‘‘ میں نے کہا ہاں سنا ہوا ہے۔ کہنے لگا بس آج کے بعد تم یہی سمجھو کہ تم نے یہ مصرعہ کبھی سنا ہی نہیں، ہمیشہ سکھی رہو گے۔ میں نے اس کے بعد اپنے اس دوست کو بھی ڈاکٹر کہنا شروع کردیا ہے کیونکہ مجھے اس کی ’’دوا‘‘ سے بھی آرام نہیں آیا اور باقی رہے وہ امراض جن کا میں نے کالم کے آغاز میں بیان کیا ہے اور جن کے بارے میں ایک شاعر نے کہا ہے ؎

ایک دکھ ہو تو کوئی اس کا مداوا بھی کرے

دردِ دل، دردِ جگر، دردِ کمر تینوں ہیں

تو میں نے جو بیماریاں بیان کی تھیں ان میں سے دل میں درد کا ایک مجرب نسخہ ایک شاعر نے عطا کر رکھا ہے اور وہ کچھ یوں ہے ؎

ہاتھ رکھ کر میرے سینے پہ وہ فرمانے لگے

درد کیوں ہوتا ہے، کب ہوتا ہے، اب ہوتا ہے

اور جہاں تک باقی امراض کا تعلق ہے، آپ میرے پاس تشریف لائیں، اپنا مرض بتائیں اور مجھ سے نسخہ لکھوا کرلے جائیں، کیونکہ میں مختلف النوع بیماریوں کوبھگت چکا ہوں ، ان کیلئےڈاکٹروں نے مجھے جو ادویات تجویز کی تھیں وہ میرے پاس لکھی ہوئی ہیں، میں آپ کوبھی وہی لکھ دوں گا کہ ڈاکٹر کے پاس جائیں گےتو وہ بھی یہی لکھ کر دیگا۔ میں آپ سے کوئی فیس بھی طلب نہیں کروں گا، اپنی خوشی سے جو دیں گے قبول کرلوں گا۔

حلال رقص و سرود!



تحریر:۔ عطاالحق قاسمی

میں بہت عرصے سے احساس گناہ میں مبتلا تھا کہ اسلام میں ناچ گانا ممنوع ہے اور میں اس کے باوجود بہت شوق سے گانے سنتا ،صرف گانا نہیں بلکہ دوستوں کی شادی کے موقع پر چھوٹا موٹا بھنگڑا بھی ڈال لیا کرتا تھا۔ اللّٰہ کا شکر ہے کہ اس احساسِ گناہ سے مجھے نجات مل گئی ہے جس کے لئے میں ٹک ٹاک کا تہہ دل سے ممنون ہوں کہ فارغ اوقات میں میں فنی قسم کی ویڈیو کلپ بڑے شوق سے دیکھتا ہوں، اس میں حلال ناچ گانا ہوتا ہے حلال اس لئے کہ ہمارے ’’علماء کرام‘‘ اور ’’پیرانِ عظام‘‘ اس کے مین کردار ہوتے ہیں صرف ناچ گانا نہیں بلکہ اسلام کے حوالے سے ان کے مناظرے، دلائل اور کرامتیں بھی ہنستے ہنستے پیٹ میں بل ڈالنے والی ہوتی ہیں ۔

ان ویڈیو کلپس میںسب سے زیادہ دیدنی ’’پیران ِعظام ‘‘ کے ڈانس ہوتے ہیں جو کبھی کبھی گروپ کی صورت میں اور کبھی سولو پرفارمنس کی ذیل میں آتے ہیں، مجھے ان میں سے سب سے زیادہ ایک بہت خوبصورت پیر صف اول کے رقاص لگتے ہیں انہوں نے قیمتی لباس پہنا ہوتا ہے اور ان کے ماہرانہ اسٹیپس سے مجھے یہ گمان گزرتا ہے کہ انہوں نےلاہور کے مشہور رقاص مہاراج کتھک کے سامنے زانوے تلمذ تہہ کیا ہو گا ۔پیر صاحب نازو ادا کے ساتھ سولو پرفارمنس کرتے ہیں اور ان کے مرید ینِ با صفا دائرے میں کھڑے سبحان اللّٰہ کا ورد کرتے دکھائی دیتے ہیں اس کے علاوہ ایک پیر صاحب پورے جاہ وجلال کے ساتھ ایک صوفے پر بیٹھے دکھائی دیتے ہیں، ایک نوجوان مرید آتا ہے ان کے ہاتھوں کو بوسہ دیتا ہے اور پھر الٹے پائوں چلتا ہوا ایک جگہ رک جاتا ہے اور پھر رقص شروع کر دیتا ہے ان تماش بین پیروں اور ان کے مریدوں نے ایک خاص طرز کی ٹوپی پہنی ہوتی ہے، ان میں سے جو ٹوپی مجھے سب سے زیادہ پسند آئی وہ چائے دانی ٹکوزی کی طرز پر تھی ایک پیر صاحب اور ان کے مریدوں کی ٹوپیاںکشتی کے ماڈل لگتی ہیں ان پیروں کی شان وشوکت بھی دیدنی ہوتی ہے قیمتی لباس پہنے مریدوں کے جھرمٹ میں بیٹھے ہوتے ہیں اور سینکڑوں لوگ باری باری پیر صاحب کے ہاتھ چومتے ہیں اور مجھے یقین ہے کہ حضرت گھر جاتے ہی اپنے ہاتھ ڈیٹول سے دھوتے ہوں گے بہت سے مرید پیر صاحب کو سجدہ کرتے ہیں اور مرید کو یہ اجازت ہوتی ہے کہ وہ جب تک چاہے حضرت کے پائوں میں سجدہ ریز رہے۔

میں نے ایک اور بات بھی نوٹ کی ہے اور وہ یہ کہ اب پیری مریدی کیلئے پیر صاحب کا معمر ہونا ضروری نہیں رہا بلکہ معصوم سے بچے مسند پر فائز نظر آتے ہیں اور مرید ان کے ہاتھ چومتے اور سجدہ ریز ہوتے نظر آتے ہیں ،انہیں نذر ونیاز بھی دیتے ہیں اور اس کے عوض پیر صاحب انہیں جنت کی بشارت بھی دیتے ہوں گے۔ یہاں یہ وضاحت ضروری ہے کہ ان پیروں کے نام مقام کا کوئی پتہ نہیں بس یہ ٹک ٹاک پر نظر آتے ہیں اور ہاں ایک کم عمر پیر صاحب کا ذکر بھی ضروری ہے ۔انہیں ’’چُمی سرکار ‘‘ کہا جاتا ہے چنانچہ مریدین آتے ہیں ان کی چُمی (بوسہ) لیتے ہیں یا دیتے ہیں اور دل کی مرادیں پاتے ہیں۔ ایک رکشہ پیر بھی ہیں ان کے آستانے پر ایک رکشہ کھڑا ہوتا ہے جس پر مرید حسب توفیق نذر نیاز کرتے ہیں۔ ایک اور آستانہ ہے جہاں ایک درخت پر عقیدت مند اپنی شلواریں ٹانگ جاتے ہیں جن سے شائد اُن کے گناہ دھل جاتے ہوں ۔ٹک ٹاک پر جو ویڈیو کلپ کثیر تعداد میں نظر آتے ہیں وہ عیدمیلاد النبی ؐاور محرم کے مہینے کی مناسبت سے ہوتے ہیں ،عزاداری کے دوران ہر کوئی ذوالجناح کی زیارت کا خواہاں ہوتا ہے جسے ذوالجناح کی زیارت ،اسے ہاتھ لگانے یا بوسہ لینے کا موقع مل جائے لوگ اسےرشک سے دیکھتے ہیں، ان دنوں عیدمیلاد النبی ؐ کے موقع پر لڑکے بالے ڈھول کی تھاپ پر رقص کرتے دکھائی دیتے ہیں، ملتان کے ایک جلوس میں ایک لڑکے کو ٹرک پر بطورحور بٹھایا گیا اس حور کو پہلے پارلر میں لے جایا گیا اور پھر وہاں سے حور بن جانے کے بعد زائرین کے سامنے پیش کیا گیا ،اس حور کے ارد گرد بہت رش تھا مجھے امید ہے اس حور کو دیکھنے والے جنت میں جانے اور وہاں حور ملنے کی آس میں اپنی نیکیاں جمع کرنے میں لگ جائیں گے، یا بدذوق لوگ جنت کا خیال ہی دل سے نکال دیں گے !اورہاں اس موقع پر ہمارے جیدبزرگان دین کی ایسی ایسی کرامات ٹک ٹاک پر سننے کو ملیں کہ میرا دل بھر آیا اور زارو قطار رونے کو جی چاہا ،اپنی بدقسمتی بھی دل کو کچوکے دینے لگی کہ میں ان کے دور میں کیوں پیدا نہیں ہوا تھا ورنہ کوئی خواہش دل میں نہ رہ جاتی اور کوئی آسمانی بلا میرا کچھ نہ بگاڑ سکتی !ٹک ٹاک پر سنی اور شیعہ علما کے درمیان زبردست مناظرے بھی سننے کو ملتے ہیں اور بزرگان دین کی وہ ایسی کی تیسی کی جاتی ہے کہ ہر ایک جملے پر ایف آئی آر کاٹی جا سکتی ہے اور ہاں ایک نیا ٹرینڈ بھی دیکھنے میں آیا ہے اور اس حوالے سے بالکل نئے لوگوں کو روزگار کا موقع ملا ہے، اس کا تعلق جن نکالنے یا قریب المرگ مریض کو ایک پھونک میں ٹھیک ٹھاک کر دینے سے ہےاس پر بات بھی ہو جائے گی بہرحال میرے لئے سب سے خوشگوار بات یہ تھی کہ مجھے گانا سننے اور رقص دیکھنے کی اجازت مل گئی اور یوں احساس ندامت سے نکل آیا ہوں ،میں اس حلال رقص کیلئے ’’پیران عظام‘‘ کا دل کی گہرائیوں سے شکر گزار ہوں۔

بشکریہ جنگ نیوز اردو