Tag Archives: محمد بلال غوری

امریکہ میں اسرائیلی لابی کتنی مضبوط؟



تحریر:۔ محمد بلال غوری

امریکہ میں اسرائیلی لابی اس قدر مضبوط اور طاقتور ہے کہ کانگریس کے 250 سے 300 ارکان ہر وقت اس لابی کی جیب میں ہوتے ہیں اور کسی وقت کوئی بھی قانون منظور یا نامنظور کروایا جا سکتا ہے۔ امریکہ سپر پاور کہلاتا ہے مگر یہ طاقتور ترین ریاست ایک چھوٹے سے ملک اسرائیل کے ہاتھوں میں کھلونا بن چکی ہے۔ اسرائیل کا رقبہ 21937 مربع کلومیٹر ہے جبکہ امریکہ کے صرف ایک شہر نیویارک کا رقبہ ایک لاکھ 22 ہزار 283مربع کلومیٹر ہے یعنی اسرائیل جو نیویارک کے مقابلے میں پانچ گنا چھوٹا ہے، اس نے ریاست ہائے متحدہ امریکہ کو یرغمال بنا رکھا ہے۔ یہودی لابی نے امریکہ میں کب اور کیسے قدم جمائے؟اسرائیل امریکہ کا اثاثہ ہے یا پھر بوجھ؟ صہیونی لابی کس طرح سے امریکہ کی خارجہ پالیسی کو کنٹرول کرتی ہے۔ آپ یہ تفصیل پڑھیں گے تو حیران رہ جائینگے۔ آپ نے اکثر مشاہدہ کیا ہوگا کہ جب بھی امریکہ میں صدارتی انتخابات ہوتے ہیں تو ڈیموکریٹک اور ری پبلکن پارٹی کے امیدوار کم و بیش ہر موضوع پراختلاف رائے کا اظہار کرتے ہیں، مثال کے طور پر اسقاط حمل پر متضاد خیالات سامنے آتے ہیں۔ شہریوں کے پاس اسلحہ ہونا چاہئے یا نہیں، بیرون ملک جنگ امریکہ کے مفاد میں ہے یا نہیں، ان سب معاملات پر مختلف صدارتی امیدواروں کی رائے اور بیانیہ یکساں نہیں ہوتا مگر جب اسرائیل کی بات آتی ہے تو سب ایک پیج پر آجاتے ہیں اور یک زبان ہوکر کہتے ہیں کہ ہم برسراقتدار آنے کے بعد ہر حال میں ،ہرقیمت پر اسرائیل کا تحفظ کریں گے۔مثال کے طور پر 2008ء کے صدارتی الیکشن کے موقع پر امریکی ریاست Massachusetts کے سابق گورنر Mitt Romney نے اسرائیل کے ایران سے متعلق خدشات کا ذکر کرتے ہوئے کہا، وقت آگیا ہے کہ اب دنیا تین سچ بول دے ـ۔ ایران کو روکا جانا چاہئے، ایران کو روکا جا سکتا ہے،ایران کو روکا جائے گا۔ ایک اور صدارتی امیدوار جان مکین نے کہا، صاف بات یہ ہے کہ جب بات اسرائیل کے تحفظ کی ہو تو ہم سمجھوتہ نہیں کر سکتے۔ ہیلری کلنٹن نے American Israel Public Affairs Committee (AIPAC) سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ اسرائیل کو درپیش مشکلات اور اندیشوں کے تناظر میں سب سے اہم بات یہ ہے کہ ہم اپنی اقدار پر چلتے ہوئے اپنے دوست اور اتحادی کیساتھ کھڑے رہیں۔باراک اوبامہ جو اس سے پہلے ایک بار فلسطینیوں کے حق میں بات کر چکے تھے انہیں بھی یہ یقین دہانی کروانا پڑی کہ امریکہ اور اسرائیل کے تعلقات کی نوعیت تبدیل کرنے کی کوشش نہیں کرینگے۔ اسکی وجہ یہ ہے کہ اسرائیلی لابی امریکہ کا سب سے بڑا Interest Groupہے اور کوئی بھی صدارتی امیدوار اس کی مخالفت مول لینے کے بعد الیکشن نہیں جیت سکتا۔امریکی جریدے ماہنامہ Atlanticکی طرف سے سن 2000ء میں دو امریکی پروفیسروں سے رابطہ کیا گیا اور ان سے درخواست کی گئی کہ اسرائیلی لابی اور اس کے امریکی خارجہ پالیسی پر اثرات سے متعلق تحقیق کرکے ایک جامع مضمون لکھیں۔ یونیورسٹی آف شکاگو کے پروفیسر John J. Mearsheimer اور یونیورسٹی آف ہاورڈ کے پروفیسر Stephen M. Walt نے اس حوالے سے کام کرنے پر آمادگی ظاہر کردی۔ جنوری 2005ء میں جب خاصی تگ و دو کے بعد اس حوالے سے ایک ضخیم مضمون امریکی جریدے کی انتظامیہ کے حوالے کیا گیا تو انہوں نے بتایا کہ یہ تحریر شائع نہیں ہوسکتی۔ ایٹلانٹک کے ایڈیٹر کی طرف سے بتایا گیا کہ یہ مضمون نظر ثانی اور ایڈیٹنگ کے بعد بھی شامل اشاعت نہیں بنایا جاسکتا ۔چند دیگر جرائد سے رابطہ کیا گیا تو انہوں نے یہ بھاری پتھر اُٹھانے سے معذرت کرلی۔ کتابی شکل میں یہ تحقیق سامنے لانے کی کوشش بھی کامیاب نہ ہوئی۔ بعدازاں ایک اور جریدے لندن ریویو آف بکس کی ایڈیٹر Mary-Kay Wilmers نے اس مسترد شدہ آرٹیکل کو چھاپنے کی ہامی بھری۔ چنانچہ جنوری 2006ء میں یہ مضمون لندن ریویو آف بکس کی زینت بنا۔ لندن ریویو آف بکس میں اشاعت پر بہت اچھا رسپانس آیا، چند ہی ماہ میں یہ مضمون دو لاکھ 75ہزار افراد نے ڈائون لوڈ کیا۔ مگر مصنفین کو شدید تنقید کا نشانہ بھی بنایا گیا، انہیں Anti-Semites یعنی یہودی مخالف قرار دیا گیا، یہودی لابی متحرک ہوگئی، یروشلم پوسٹ، نیویارک سن، واشنگٹن پوسٹ اور وال اسٹریٹ جرنل سمیت کئی اخبارات میں اس مضمون کی مخالفت میں آرٹیکل شائع ہوئے، ادارئیے لکھے گئے۔ مخالفت کے باوجود JOHN J . MEARSHEIMER اور STEPHEN M. WALT نے اس تحقیق کو کتابی شکل میں سامنے لانے کا فیصلہ کیا اور 2007ء میں یہ کتاب The Israel Lobby and US Foreign Policyکے نام سے شائع ہوئی۔

اس کتاب میں ناقابل تردید حقائق اور زور دار دلائل کی روشنی میں یہ بتایا گیا ہے کہ اسرائیل امریکہ کیلئے دفاعی اثاثہ نہیں بلکہ بوجھ بن چکا ہے، اسی طرح اسرائیل دہشت گردی کیخلاف جنگ میں امریکہ کا ناگزیر اتحادی نہیں بلکہ اسرائیل کی وجہ سے امریکہ کو دہشت گردی اور دنیا بھر میں نفرت کا سامنا ہے۔مصنفین نے اس مفروضے کو بھی غلط ثابت کیا ہے کہ امریکہ کو اپنی اقدار و روایات کی روشنی میں اسرائیل کا ساتھ دینا چاہئے، انکا کہنا ہے کہ اگر ہائی مورال گرائونڈز کی بات کی جائے تو امریکہ کو اسرائیل کے بجائے فلسطینیوں کے ساتھ کھڑے ہونا چاہئے ۔یونیورسٹی آف شکاگو کے پروفیسر John J. Mearsheimer اوریونیورسٹی آف ہاورڈکے پروفیسر Stephen M. Walt کی تصنیفThe Israel Lobby and US Foreign Policy میں بتایا گیا ہے کہ ایک سروے کے مطابق 40فیصد امریکی شہری سمجھتے ہیں کہ دنیا بھر میں امریکہ مخالف جذبات کی وجہ اسرائیل کی حمایت کرنا ہے۔اسی طرح 2006ء میں ہونیوالے ایک اور سروے کے دوران 66فیصد امریکی شہریوں نے اس بات سے اتفاق کیا کہ اسرائیلی لابی امریکی خارجہ پالیسی پر بہت زیادہ اثر انداز ہوتی ہے۔ امریکہ اسرائیل کو کس قدر امدا د دیتا ہے اور کیسے کیسے اسرائیل کو نوازا جاتا ہے، آپ یہ حقائق سنیں گے تو دنگ رہ جائینگے۔ اس کی تفصیل اگلے کالم میں سامنے رکھوں گا۔

بشکریہ جنگ نیوز اردو