Tag Archives: نوازشریف

نواز شریف کی سزا کے خلاف اپیلیں بحال، گرفتاری نہیں چاہئے، نیب نے ریلیف دینے کی حمایت کر دی



نیب نے سابق وزیراعظم نوازشریف کو ایون فیلڈ اور العزیزیہ ریفرنس میں ریلیف دینے اور سزاکے خلاف اپیلیں بحال کرنے کی حمایت کردی جس کے بعد اسلام آباد ہائی کورٹ نے اپیلیں بحال کردی ہیں۔

ایون فیلڈ اور العزیزیہ ریفرنس میں سابق وزیراعظم نواز شریف کی سزا کے خلاف اپیل بحال کرنے کی درخواستوں پر اسلام آباد ہائی کورٹ کے چیف جسٹس کی سربراہی میں دو رکنی بینچ نے سماعت کی۔

 نیب پراسکیوٹر جنرل سید غلام قادر شاہ نے روسٹرم پرآکراہم بیان دیتے ہوئے کہا کہ چیئرمین نیب اور میری متفقہ رائے ہے کہ عدالت اگر نواز شریف کی سزا کے خلاف اپیلیں بحال کرتی ہے تو ہمیں اعتراض نہیں ۔

نیب پراسیکیوٹر نے کہا کہ اگر اپیلیں بحال ہو گئیں تو پھر شواہد کا جائزہ لے کر موقف پیش کریں گے۔

پراسکیوٹر جنرل نیب نے کہا کہ سپریم کورٹ کے فیصلے کی روشنی میں جے آئی ٹی قائم ہوئی اور احتساب عدالت کے فیصلے کے خلاف اپیلیں دائر ہوئیں، ریفرنس واپس لینے کی گنجائش احتساب عدالت میں موجود تھی، اپیل سماعت کے لیے منظور ہونے کے بعد عدم پیروی پر بھی خارج نہیں ہوسکتی۔

اگر اپیل دائر ہو جائے تو اس کا فیصلہ کرنا ہوتا ہے، اگر ان اپیلوں کو بحال کریں گے تو پھر انہیں میرٹس پر دلائل سن کر فیصلہ کرنا ہوگا۔ میڈیا پر چلا کہ شاید نیب نے سرنڈر کردیا ہے لیکن ایسی کوئی صورتحال نہیں ہے۔

نیب پراسیکیوٹر نے کہا کہ پراسیکیوٹر کی ذمہ داری ہے کہ اگر کوئی شواہد ملزم کے حق میں ہوں تو انہیں بھی نہ چھپائے، پراسیکیوٹر کو ملزم کے لیے متعصب نہیں ہونا چاہیے۔

پراسیکیوٹر جنرل نیب نے کہا کہ پراسیکیوٹر کا فرض ہے کہ وہ ریاست کے مفادات کی حفاظت کرے، بلکہ انصاف کو بھی ملحوظ خاطر رکھے، ملزم قانون میں موجود تمام ریلیف کا حقدار ہوتا ہے اگر وہ قانون کی پاسداری کرے، اگر اشتہاری ملزم سرنڈر کرتا ہے تو اس کو قانون کے مطابق تمام ریلیف ملنا چاہیے۔

چیف جسٹس عامر فاروق نے نیب پراسیکیوٹر سے استفسار کیا کہ کیا آپ کو اپیل کنندہ کی گرفتاری درکار ہے ؟ اس پر نیب پراسیکیوٹر  کا  کہناتھا کہ یہ میں پہلے ہی واضح کر چکا ہوں کہ ہمیں گرفتاری نہیں چاہئے ۔ عدالت نے ریمارکس دیئے کہ اب ہم دیکھیں گے کیا فیصلہ کرنا ہے،عدالت نے نوازشریف کی اپیلیں بحال کرنے کی درخواستوں پر فیصلہ محفوظ کرلیا۔

بعدازاں عدالت نے فیصلہ سناتے ہوئے العزیزیہ  اور ایون فیلڈ ریفرنس میں سزا کے خلاف نوازشریف کی اپیلیں بحال کردیں ۔

قبل ازیں سابق وزیر اعظم میاں محمد نواز شریف اسلام آباد ہائی کورٹ میں پیشی کے لئے مری سے اسلام آباد پہنچے تھے۔ سابق وزیراعظم نواز شریف کے ہمراہ انکے بھائی شہباز شریف، اسحاق ڈار، خواجہ محمد آصف، خواجہ سعد رفیق، عطا تارڑ، انجینیئر خرم دستگیر، سردار ایاز صادق، چوہدری تنویر، عابد شیر علی اور احسن اقبال سمیت دیگر رہنما بھی عدالت میں موجود تھے۔

عدالتی  فیصلے کے بعد مسلم لیگ ن کے صدر اور سابق وزیراعظم شہباز شریف کا کہنا تھاکہ  العزیزیہ اور ایون فیلڈ مقدمات میں ناحق سزاؤں کے خلاف  نواز شریف کی اپیلوں کی بحالی ناانصافی کے سیاہ دور  میں نظام عدل پر لگنے  والے دھبےکو دھونے کی طرف ایک قدم ہے۔

شہباز شریف نے کہا کہ  پانامہ سے اقامہ اور بیٹے سے تنخواہ کیوں نہ لی، کے تصور پر بلیک لاء ڈکشنری کی تشریح سزا بنا دی گئی، ان شاءاللہ  فتح انصاف کی ہوگی، ترازو کے پلڑے برابر ہونے سے ہی پاکستان بحرانوں سے نکلے گا۔

مریم اورنگزیب کا کہنا تھا کہ آج اُس نا انصافی کےخاتمےکی طرف پیشرفت ہوئی ہے، جس کا شکار  پچھلے سات سال سے پاکستان تھا۔

ان کا کہنا ہے کہ جیسے جیسے ناانصافی کا خاتمہ ہوگا، پاکستان خوشحالی اور ترقی کی طرف بڑھنا شروع ہوگا۔

سابق وزیر قانون اور  نواز  شریف کے وکیل اعظم نذیر تارڑ کا کہناتھاکہ ایون فیلڈ ریفرنس میں نواز شریف کی اپیل بحال ہونے پر  ضمانت بھی ہوگئی ہے جب کہ العزیزیہ کیس میں پنجاب حکومت نوازشریف کی سزا معطل کرچکی ہے۔

نواز شریف اور ہتھیلی پر بیٹھا سفید کبوتر!



تحریر:۔ عطاالحق قاسمی

چار روز قبل محمد نواز شریف چار سال بعد اپنے وطن پاکستان واپس آئے اور مینار پاکستان کے سائے تلے تقریر کی،اپنی سیاسی زندگی کے متعدد جھوٹے مقدموں میں قید و بند کی صعوبتیں برداشت کرنے، پی ٹی آئی کے لیڈر اور اس کی آغوشِ مغلظات میں پرورش پاتے اس کے کارکنوں کی مسلسل غلیظ حرکتوں اور گالی گلوچ برداشت کرنے والے اس رہنما نے اپنی تقریر میں ان سب کو ایسے نظر انداز کیا جیسے وہ سب کچھ بھول چکے ہیں اور اپنے نئے سفر میں یہ سب کچھ نظر انداز کرکے دوبارہ تعمیر و ترقی کی اس منزل کی طرف رواں دواں ہوں گے جس کا سلسلہ تین بار منقطع کیا گیا تھا۔

میرے لئے اس تاریخی جلسے کی چند چیزیں بہت اہم ہیں، ایک یہ کہ پاکستان کے چاروں صوبوں سے مسلم لیگی کارکن اپنی مقامی قیادت کے ساتھ طویل سفر طے کرکے لاہور آئے تھے جن میں گلگت بلتستان کے کارکن بھی اپنے مخصوص لباس میں موجود تھے۔ دوسرے یہ کہ مسلم لیگ (ن) کا یہ استقبالی جلسہ بہت چارجڈ تھا۔ عوام کے پُرجوش جذبے نواز شریف کی تقریر کے ایک ایک لفظ پر اپنا بھرپور اظہار کر رہے تھے، جلسہ اتنا بڑا تھا کہ مینار پاکستان تنگیٔ داماں کا گلہ کرتا دکھائی دیتا تھا اور صرف یہی نہیں بلکہ موٹر وے تقریباً تیس کلومیٹر تک گاڑیوں کے اژدہام کی وجہ سے جام ہو کر رہ گئی تھی اور یوں وہ سب لوگ جلسہ گاہ تک پہنچ ہی نہیں سکے جو دور دراز مقامات سے اپنے لیڈر کی جھلک دیکھنے اور اس کی تقریر سننےکیلئے آئے تھے۔اس کے علاوہ رنگ روڈ پر بھی ٹریفک جام ہوکر رہ گیا تھا۔ اس جلسے کی ایک اور اہم بات مجھے یہ لگی کہ مریم نواز نے میاں صاحب کی آمد سے پہلے سامعین کے ولولے اور جوش کو مہمیز دینے کیلئے جلسے کی جزوی نظامت بہت احسن طریقے سے کی اور ان کے بعد خواجہ سعد رفیق نے یہ ذمہ داری سنبھالی۔ مسلم لیگ (ن) کی قیادت میں دو ’’خواجے‘‘ میرے بہت پسندیدہ ہیں اور ان میں بھی خواجہ سعد رفیق اَن تھک کارکن اور پارٹی کیلئے بےپناہ قربانیاں دینے کے سبب میرے دل کے زیادہ قریب ہیں۔ جلسے کے دو مناظر ہی ایسے ہیں جو بہت دل گداز تھے، ایک جب نواز شریف اسٹیج پر آئے اور ان کی بیٹی مریم نواز انہیں گلے لگانے کے دوران شدت جذبات سے آبدیدہ ہوگئی، اس نے والد کے پائوں کو چھوا اور اس دوران نواز شریف کا چہرہ چغلی کھا رہا تھا کہ وہ اپنے جذبات پر قابو پا رہے ہیں، تاہم یہ ایک منظر ایسا تھا جسے ’’حاصلِ غزل‘‘ کہا جاسکتا ہے، دو تین سفید کبوتروں میں سے ایک کبوتر نواز شریف کے روسٹرم پر آ کر بیٹھ گیا، نواز شریف نے اسے پیار کرنے کیلئے اس کی طرف ہاتھ بڑھایا مگر وہ خود ان کے ہاتھ پر آ کر بیٹھ گیا، میاں صاحب نے اپنا ہاتھ فضا میں بلند کیا اور پھر اسے واپس کھلی فضائوں میں چھوڑدیا، میرے خیال میں ’’آزادی، آزادی‘‘ کا شور مچانے والوں کے مقابلے میں یہ منظر آزادی کا خوبصورت استعارہ تھا۔ مسلم لیگ کو چاہیے کہ وہ اس تصویر کو جس میں نواز شریف کے ہاتھ پر خوبصورت کبوتر بیٹھا ہوا ہے اپنے مونو گرام کے طور پر استعمال کرے۔ آزادی کا اس سے بہتر نعرہ اور تشریح ممکن نہیں۔میں نے نواز شریف کی بہت سی تقریریں سنی ہیں مگر اس تقریر کا کوئی جواب نہیں تھا، اس کا ایک ایک لفظ جچا تلا تھااور اس میں جہانِ معانی آباد تھا، میاں صاحب کچھ نہ کہتے ہوئے بھی سب کچھ کہہ گئے اور میرے خیال میں نواز شریف کو اس تقریر کے ہر جملے کو اپنے لائحہ عمل سے منسلک کردینا چاہیے۔ نواز شریف کی وطن واپسی کے حوالے سے بہت سے لوگ بہت سی باتیں کر رہے ہیں، ان میں سے سب سے زیادہ اہم بات یہ ہے کہ میاں صاحب کو اپنے تین ادوار میں سے ایک بھی پورا نہیں کرنے دیا گیااور یوں ترقی کا سفر ہر بار رک گیا۔اب ملک اس نہج پر پہنچ چکا ہے کہ ملک کو ایک بار پھر وژنری نواز شریف کی ضرورت تھی جس کے چھوٹے چھوٹے ادوار میں بھی ملک قدم بہ قدم ترقی کی سمت گامزن رہا۔ ہمسایوں کے ساتھ مناسب حد تک تعلقات، یعنی بس اتنے ہی جتنے مقتدرہ سے برداشت ہو سکتے تھے، تاہم مراسم بھی وقتی طور پر قابل قبول تھے۔ بہرحال دنیا کے دوسرے ممالک خصوصاً چین کے ساتھ تعلقات کا مزید بڑھاوا اور سی پیک جیسے منصوبوں کا وسیع پھیلائو بھی ان کے دور میں دکھائی دیا۔ ترقیاتی کام جتنے نواز شریف کے دور میں نظر آئےاور عوام کو جتنی سہولتیں دی گئیں، اس سے پہلے کی حکومتوں میں اس کی نظیر نہیں ملتی۔

باتیں اور بھی بہت سی کرنے کی ہیں جو قارئین سے ہوتی رہیں گی، فی الحال آخر میں میں پاکستان کیلئے اپنی ایک دعائیہ غزل نذر قارئین کرتا ہوں۔

کچھ ایسے طے ہماری زندگانی کے سفر ہوں

ہمارے پائوں کے نیچے فلک ہوں بحر وبر ہوں

اتر آئیں زمین پر سب ستارے آسماں کے

ہمارے در پہ باندھے ہاتھ یہ مہر و قمر ہوں

کسی دن آسماں سے بارشیں برسیں کچھ ایسی

ہمارے ہر شجر کی ڈال پر بیٹھے ثمر ہوں

جگا دیں جو ہماری آنکھ کے خوابیدہ جوہر

ہمارے درمیاں بھی کاش ایسے دیدہ ور ہوں

سفینے پر مکمل دسترس ہو ناخدا کی

سمندر کی تہوں میں جس قدر چاہے بھنور ہوں

ارادہ باندھتے ہیں ان دنوں ایسے سفر کا

ہماری پیش قدمی کے لئے نجم و قمر ہوں

ہمیں جو گھر میں دیتے ہیں اذیت بے گھری کی

کچھ ایسے ہو کہ اب کے ہم نہیں وہ دربدر ہوں

مزااونچی اڑانوں کا تبھی آئے گا تم کو

عطاؔ صاحب فضا اپنی ہو اپنے بال و پر ہوں

بشکریہ جنگ نیوز اردو

نوازشریف نے احتساب عدالت کے سامنے سرینڈر کر دیا، دائمی وارنٹ منسوخ، اسلام آباد ہائیکورٹ میں بھی پیش ہو گئے



قائد مسلم لیگ ن نوازشریف نے احتساب عدالت کے سامنے سرینڈر کر دیا جس کی بنیاد پر ان کے دائمی وارنٹ منسوخ کر دیے گئے بعدازاں سابق وزیراعظم اسلام آباد ہائی کورٹ کے سامنے بھی پیش ہوگئے۔

منگل کے روزاسلام آباد کی احتساب عدالت میں  سابق وزیراعظم  نوازشریف توشہ خانہ کیس میں پیش ہوئے اورعدالت کے روبروحاضری لگائی۔ احتساب عدالت کے جج محمد بشیر نے کیس کی سماعت کی اور سابق وزیراعظم کے دائمی وارنٹ منسوخ کرتے ہوئے ان کی ضمانت منظور کی، عدالت نے نوازشریف کو 10 لاکھ روپے کے مچلکے جمع کرانے کا حکم دیا۔

نوازشریف کی احتساب عدالت میں پیشی کے موقع پر ان کے ہمراہ مریم نوازشریف اور وکلا کی ٹیم تھی۔ جبکہ احسن اقبال، حنیف عباسی، طارق فضل چوہدری کمرہ عدالت میں موجود تھے۔

سابق وزیراعظم نوازشریف کے ضمانتی کے طور پر عدالت نے طارق فضل چوہدری کو مقرر کیا۔

عدالت نے توشہ خانہ سے گاڑیاں لینے کے کیس میں نوازشریف کی ضمانت منظور کرتے ہوئے مزید سماعت کو 20 نومبر تک ملتوی کر دیا۔

سابق وزیراعظم نوازشریف توشہ خانہ کیس میں اسلام آباد کی احتساب عدالت میں پیشی  کے بعد اسلام آباد ہائیکورٹ پہنچے جہاں سرنڈر کرنے کے بعد چیف جسٹس عامر فاروق کی سربراہی میں 2 رکنی بینچ نے کیس کی سماعت کی۔

چیف جسٹس اسلام آباد ہائیکورٹ جسٹس عامر فاروق نے ریمارکس دیے کہ عدالت کو مطمئن کرنا ہو گا کہ آپ غیرحاضر کیوں رہے ۔ ابھی ہم نے اس پر نوٹس جاری کر کے نیب کو سننا ہے۔ اپیلوں کی بحالی روٹین کا معاملہ نہیں۔

جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب نے کہاکہ ہم قانون کے مطابق آگے بڑھیں گے۔نواز شریف نے جیسٹیفائی کرنا ہے کہ وہ اشتہاری کیوں ہوئے؟۔

اعظم نذیر تارڑ نے دلائل دیے کہ نواز شریف جان بوجھ کر غیر حاضر نہیں رہے، عدالت کی اجازت سے باہر گئے تھے۔ ہم عدالت میں میڈیکل رپورٹس پیش کرتے رہے ہیں۔

دوران سماعت پراسیکیوٹر جنرل نیب بھی عدالت کے سامنے پیش ہوئے اور موقف اختیار کیا کہ اگر نوازشریف کی حفاظتی ضمانت میں توسیع کی جاتی ہے تو ہمیں اس پر کوئی اعتراض نہیں۔

اس پر جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب نے پراسیکیوٹر جنرل نیب سے مکالمہ کرتے ہوئے کہا کہ’کیا اب نیب یہ کہے گی کہ کرپٹ پریکٹسز کا الزام برقرار ہے اور ان کو چھوڑ دیں‘۔ انہوں نے کہا کیا یہ وہی نیب ہے۔ ان ریمارکس پر عدالت میں قہقے لگ گئے۔

انہوں نے مزید ریمارکس دیے کہ ہم چیئرمین نیب کو نوٹسز جاری کر کے پوچھ لیتے ہیں کہ عوام کا وقت کیوں ضائع کرتے ہیں۔

چیف جسٹس عامر فاروق نے ریمارکس دیے کہ اگر نیب نوازشریف کی ضمانت کی مخالفت نہیں کررہی تو پھر ریفرنسز واپس کیوں نہیں لے لیے جاتے، نیب جب کسی چیز کی مخالفت ہی نہیں کر رہا تو پھر اپیلیں کیسی؟۔

اس موقع پر جسٹس گل حسن اورنگزیب نے پراسیکیوٹر سے مکالمہ کیا کہ چیئرمین نیب سے ہدایات لے کر عدالت کو آگاہ کریں۔ ہمیں واضح بتا دیں تاکہ ہم فیصلہ دے کر کوئی اور کام کریں

عدالت نے نیب پراسیکیوٹر سے پوچھا کہ کیا نوازشریف کی گرفتاری مطلوب ہے؟ جس پر پراسیکیوٹر نے کہا کہ سابق وزیراعظم کی گرفتاری مطلوب نہیں۔

بعد ازاں عدالت نے نواز شریف کی سزا کے خلاف درخواستیں بحال کرنے کی اپیلوں پر نیب کو نوٹس جاری کرتے ہوئے سماعت جمعرات تک ملتوی کر دی۔

واضح رہے کہ سابق وزیراعظم نواز شریف کو العزیزیہ کرپشن ریفرنس اور ایون فیلڈ کرپشن ریفرنس میں بالترتیب 7 اور 10 سال قید کی سزا سنائی گئی تھی۔ ان دونوں مقدمات میں عدم پیشی پر نواز شریف کو دسمبر 2020 میں اشتہاری قرار دیا گیا تھا۔

پنجاب حکومت نے العزیزیہ ریفرنس میں نوازشریف کی سزا معطل کرنے کی منظوری دیدی



پنجاب کی نگران حکومت نے سابق وزیراعظم نوازشریف کی العزیزیہ ریفرنس میں سزا معطل کر دی ہے۔

سابق وزیراعظم و قائد پاکستان مسلم لیگ ن نوازشریف نے پنجاب حکومت کو درخواست کی تھی کی ان کی سزا معطل کی جائے۔

نوازشریف نے سزا معطل کرنے کی درخواست اسلام آباد ہائی کورٹ کے فیصلے کی روشنی میں دی تھی۔

نوازشریف کی درخواست پر پنجاب کی نگران کابینہ نے مسلم لیگی قائد کی سزا معطل کرنے کی منظوری دے دی ہے۔

نواز شریف معاشی بحران حل کر لیں گے، 30 فیصد پاکستانیوں کی رائے



30فیصد پاکستانیوں نے ملکی معاشی بحران کے حل کیلئے سابق وزیر اعظم نواز شریف سے امیدیں باندھ لیں۔

22 فیصد نے پاکستان تحریک انصاف کےچیئرمین کو واحد امید کہا۔

تفصیلات کے مطابق گیلپ پاکستان نے اسنیپ پول جاری کر دیا جس میں 30 فیصد مایوس نظر آئے اور کہا کہ معاشی بحران کوئی حل نہیں کر سکتا۔

سنیپ پول کے مطابق نواز شریف کی مینار پاکستان پر تقریر بھی 34 فیصد پاکستانیوں نے سنی، 80 فیصد نے تقریر کی تعریف کی، 50 فیصد پاکستانیوں نے نواز شریف کی وطن واپسی کو ملکی مستقبل کیلیے بہتر قرار دیا۔

51فیصد نے ن لیگ کیلئے آئندہ عام انتخابات میں جیتنے میں بھی مددگار ثابت ہونے کا کہا، 70 فیصد مفاہمت کے بھی حامی نظر آئے۔

ملکی ترقی کے لیے نواز شریف کو چیئرمین پی ٹی آئی سمیت تمام سیاسی رہنمائوں کے ساتھ مل کرکام کرنے کا مشورہ دیا ہے۔

اس کے آنے کے بعد؟



تحریر:۔ سہیل وڑائچ

کوئی مانے یا نہ مانے اس کے آنے کے بعد سیاسی منظر نامہ بدل چکا ہے، مستقبل کی سیاسی سکیم واضح ہوچکی ہے، صاف نظر آ رہا ہے کہ اسے اقتدار دینے کی تیاریاں کی جا رہی ہیں۔

اس کے پاکستان میں اترتے ہی نگران حکومتوں کا سحر ٹوٹنا شروع ہوگیا ہے۔ نوکر شاہی یا اقتدار پسندوں کے دوسرے گروہ، سب اس کے گرد جمع ہونا شروع ہو جائیں گے، نئی سیاسی صف بندیاں ہونگی اور نئے تانے بانے بُنے جائیں گے۔

کہا گیا ہے کہ انتقام نہیں لیا جائے گا یہ خوش آئند اعلان ہے لیکن اس کی عملی شکل کیا ہوگی؟ کیا کھلاڑی اور اس کی پارٹی کو بھی کھلا میدان ملے گا یا پھر اس کو جیل میں ہی کوئی رعایت ملے گی؟

بظاہر 9مئی کے ذمہ داروں اور کھلاڑی کے نمایاں ساتھیوں کے ساتھ کوئی ڈھیل ہوتی نظر نہیں آرہی شکنجہ اور کسا جا رہا ہے، نونی لیڈر اور مقتدرہ کے لئے سب سے پہلا مسئلہ یہی ہے کہ کھلاڑی کے بارے میں کسی فیصلے تک پہنچیں، ظاہر ہے کہ یہ ایسا فیصلہ ہونا چاہئے جو عقلی طور پر سب کے لئے قابل قبول ہو ۔

وہ واپس آیا ہے تو سب کچھ یک دم بھول تو نہیں سکتا اس کے خلاف پاشوں، ظہیر الاسلاموں اور رضوانوں نے جو جو گل کھلائے جو جو سازشیں کیں وہ سب اسے یاد ہوں گی۔ فیض حمیدوں، باجوئوں اور راحیل شریفوں کے خفیہ اور کھلے وار اسے کچوکے تو لگاتے ہوں گے۔

کھلاڑی اور عسکری خان مل کر جو جو کرتے رہے وہ بھلانا مشکل ہو گا اسے وہ انصاف خان بھی نہیں بھول سکتے جنہوں نے پانامہ کے نام پر اقامہ کے ذریعے اسے سزا دی، نااہل قرار دیا، اسکے مینڈیٹ کے باوجود اسے گھر بھیج دیا اسے وہ گالیاں، بے عزتی اور نفرت بھی نہیں بھولی ہو گی جس کا سامنا اس کو لندن میں کرنا پڑتا رہا۔

اگر تو وہ عام لیڈر رہنا چاہتا ہے تو ان سب زیادتیوں کو یاد رکھ کر اپنی پالیسیاں بنائے اور ایک ایک سے بدلہ لے تاکہ آئندہ کوئی منتخب وزیراعظموں کے ساتھ ایسا نہ کر سکے لیکن اگر وہ عظیم لیڈر بننا چاہتا ہے تو پھر نیلسن منڈیلا بننا ہوگا۔

بے نظیر بھٹو کی طرح اپنی جان کے دشمنوں کو بھی مفاہمت کی طرف لانا ہوگا، سب سے پہلے سیاست کے کرداروں میں مفاہمت ہونی چاہئے پھر ہی سیاست اور مقتدرہ کے معاملات طے ہوں گے۔

اسکے آنے کے بعد سے مقتدرہ اور اہل سیاست کے درمیان کئی دہائیوں سے جاری لڑائی بھی پھر سے یاد آئے گی، اسے یہ سوال ضرور پریشان کرتا ہوگا کہ اگر اسے اقتدار مل بھی گیا تو کیا اس میں اختیار بھی ہوگا؟

کیا مقتدرہ کو نئے وزیر اعظم کی بجائے کہیں نئے کاکڑ کی تلاش تو نہیں۔ اگر مقتدرہ نے معیشت، زراعت اور خارجہ پالیسی خود چلانی ہے تو پھر وہ اقتدار لیکر کیا کرے گا ؟وہ تین بار پہلے وزیراعظم رہ چکا ہے اس لئے اس کے لئے اختیار سے خالی وزیراعظم کا عہدہ بیکار ہوگا۔

دوسری طرف مقتدرہ زراعت، معیشت، معدنیات اور خارجہ امور کے بارے میں بہت سے معاملات پہلے سے طے کئے بیٹھی ہے، ایسے میں وزیراعظم کو اختیار کہاں ملے گا؟ یہی وجہ ہے کہ نئی بحث یہ اٹھائی گئی ہے کہ وہ پارٹی کو چلائے، انتخابی مہم کو لیڈ کرے، پلان بنائے مگر خود وزیر اعظم نہ بنے بلکہ اپنے چھوٹے بھائی کو ہی دوبارہ وزیر اعظم بنائے کیونکہ وہ مقتدرہ کے ساتھ چلنے کا کامیاب تجربہ رکھتا ہے۔

میرا اندازہ یہ ہے کہ معاملہ خاندانی طور پر پہلے سے طے ہوچکا ہے، جس کے مطابق نونیوں کے وزیراعظم کے امیدوار نواز شریف ہونگے الیکشن جیتے تو وہ وزیر اعظم بنیں گے تاہم وہ اپنی ٹرم مکمل نہیں کریں گے سال دو سال بعد وہ اپنے بھائی کو اپنی جگہ لے آئیں گے اور خود حکومت سے باہربیٹھ کر ان کی رہنمائی کریں گے۔

اگلی سیاست میں ان کی نمائندہ مریم ہونگی، مریم کی خواہش وزیراعلیٰ پنجاب بننے کی ہے مگر اب تک جو معاملات نظر آ رہے ہیں اس میں انکی یہ خواہش الیکشن کے فوراً بعد پوری ہوتی نظر نہیں آتی، اس خاندان کو دوبارہ اقتدار ملے تو اوپر اور نیچے دونوں بڑی سیٹوں پر خود کو رکھنا سیاسی خودکشی کے مترادف ہوگا۔

بہتر ہوگا کہ مریم کو موقع ملے تو وہ بلاول کی طرح ابھی کسی وزارت یا مشاورت کے ذریعے گورننس کا مزید تجربہ حاصل کریں۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اگر واقعی ایسا ہوجاتا ہے تو شہباز شریف اور حمزہ شہباز کہاں اکاموڈیٹ ہونگے؟ لگتا ہے کہ اسے اس بات کا احساس ہے کہ شہباز اور حمزہ کو جگہ دینی ہے اسی لئے مینار پاکستان کے سٹیج پر مریم کے بعد اسکی توجہ کا سب سے بڑا مرکز شہباز شریف اور حمزہ رہے ۔

بڑا لیڈر وہ ہوتا ہے جو صرف اپنے بارے میں نہ سوچے بلکہ اپنے مخالفوں کے بارے میں بھی سوچے، صرف اپنے حامیوں کو خوش کرنے کی پالیسی نہ بنائے بلکہ اپنے مخالفوں کو بھی خوش کرنے کے بارے میں سوچے اکثر لیڈر تنگ نظر ہوتے ہیں وہ مخالف کو مار کر سمجھتے ہیں کہ انہیں زندگی مل جائے گی جبکہ مخالف مرجائے تو مارنے والے کی زندگی کے دن بھی گنے جانے شروع ہو جاتے ہیں۔

یاد رکھیں کہ جس دن میاں نواز شریف نے لاہور ہائیکورٹ کے بدنام زمانہ فیصلے کے ذریعے بے نظیر بھٹو کو نااہل قرار دیا تھا اسی روز سے یہ طے ہو گیا تھا کہ اب اگلی باری نواز شریف کی ہو گی اور ویسا ہی ہوا۔

حالیہ تاریخ میں جب عمران خان اپنے حریف نواز شریف کو جیل میں ڈال کر فخر سے سینہ پُھلائے پھرتے تھے اسی وقت سے نظر آنا شروع ہو گیا تھا کہ نواز شریف رہا ہونگے اور جب عمران خان اقتدار سے اتریں گے تو وہ بھی جیل یاترا کرینگے ۔

حیرانی کی بات ہے کہ اہل سیاست کو یہ سادہ سی بات کیوں سمجھ نہیں آرہی کہ دوسروں کے لئے گڑھا کھودنے والا خود اسی میں گرتا ہے ۔اب وقت ہے کہ وہ بڑا لیڈر بنے دوسرے کے کھودے گڑھے مٹی سے بھرے اور ایک نئی سیاست کا آغاز کرے۔

وہ اس وقت اس خطے کا سب سے تجربہ کار سیاست دان ہے مودی ہو، طالبان ہو، حسینہ واجد ہو یا ایرانی قیادت سب اس سے تجربے میں جونیئر ہیں وہ آج سے 33سال پہلے بھی وزیر اعظم تھا ضرورت اس بات کی ہے کہ وہ اب صرف وزیر اعظم نہ بنے بلکہ تاریخ بنائے۔

دیکھنا یہ ہوگا کہ اگر اسے اقتدار ملتا ہے تو وہ کھلاڑی کے ساتھ کیا معاملہ کرتا ہے، اگر تو اس نے کھلاڑی کو اس کے حال پر چھوڑ دیا، وہ جیل میں سڑتا رہا، اسے الیکشن میں برابر کے مواقع نہ دیئے تو پھر اس میں اور کھلاڑی میں کیا فرق رہ جائے گا۔

اسے بڑا بننا ہے تو کھلاڑی اور اس کے مینڈیٹ کو بھی عزت دے، اس کا ہاتھ پکڑ کر گڑھے سے نکالے اور اپنے سامنے والی نشست پر بٹھائے، جس دن تضادستان میں ہم نے سیاسی مخالفوں کو عزت دینا شروع کر دی اس دن سے ہی پاکستان کا ایک نیا جنم ہوگا۔

اسی دن سے ہی آئین، جمہوریت اور پارلیمانی روایات کا بول بالا ہوگا، اس کے آنے کے بعد بہت کچھ کا انحصار اس کے رویے پر ہوگا اگر وہ نہلے پر دہلے مارتا رہا تو پھر کچھ تبدیل نہیں ہوگا۔ ہاں اگر اس نے تاریخ میں اپنا نام بنانا ہے تو اسے کھلاڑی کو بھی کھلانا ہوگا ۔

بشکریہ جیونیوز اردو

نوازشریف کی ایون فیلڈ اور العزیزیہ ریفرنس میں اپیلیں بحال کرنے کی درخواستیں دائر



سابق وزیراعظم و قائد پاکستان مسلم لیگ ن نوازشریف نے ایون فیلڈ اور العزیزیہ ریفرنس میں سزا کے خلاف اپیلوں کی بحالی کے لیے اسلام آباد ہائیکورٹ میں درخواستیں دائر کر دی ہیں۔

نوازشریف کے وکیل امجد پرویز ایڈووکیٹ نے اسلام آباد ہائیکورٹ میں نوازشریف کی جانب سے درخواستیں دائر کیں۔

نوازشریف نے اسلام آباد ہائیکورٹ سے استدعا کی ہے کہ اپیلوں کو بحال کرتے ہوئے میرٹ پر دلائل سنے جائیں اور پھر فیصلہ سنایا جائے۔

واضح رہے کہ عدالت نے سابق وزیراعظم نوازشریف کو ایون فیلڈ اور العزیزیہ ریفرنس میں سزا سنائی ہے اور انہیں 10 سال تک کسی بھی عوامی عہدے کے لیے نااہل قرار دیا ہے۔

اس سے قبل نوازشریف نے 21 اکتوبر کو وطن واپسی پر اسلام آباد ایئرپورٹ پر اپنے وکلا سے مشاورت کی تھی اور اپیلوں کی بحالی کے لیے درخواستوں پر دستخط بھی کیے تھے۔

نوازشریف کی واپسی سے غریب کی امید زندہ


Featured Video Play Icon

نواز شریف کی4 سال بعد رائیونڈ آمد، والدین اور اہلیہ کی قبروں پر فاتحہ خوانی



مسلم لیگ ن کے قائد اور سابق وزیراعظم نوازشریف چار سال بعد رائے ونڈ میں اپنی رہائش گاہ جاتی امرا پہنچ گئے ۔
نوازشریف جاتی امرا پہنچے تو کارکنوں نے آتش بازی کرکے استقبال کیا اور بکرے کاصدقہ بھی کیا۔ جاتی امرا پہنچنے پر نوازشریف اپنے والدین کی قبروں پر گئے اور مرحومہ اہلیہ کلثوم نوازسمیت خاندان کے دیگر افراد کی قبروں پر بھی فاتحہ خوانی کی۔
خیال رہےکہ نواز شریف چار سال بعد ہفتہ کے روزوطن واپس پہنچے تھے، سابق وزیراعظم کے طیارے نے اسلام آباد انٹرنیشنل ائیرپورٹ پر لینڈ کیا جہاں اسحاق ڈار اور اعظم نذیر تارڑ نے پارٹی قائد کا استقبال کیا۔
ائیرپورٹ پر اسٹیٹ لاؤنج میں نواز شریف کی مسلم لیگ (ن) کی قانونی ٹیم سے مشاورت ہوئی جس کے بعد انہوں نے قانونی دستاویزات پر دستخط کیے۔
انہوں نے ایون فیلڈ اور العزیزیہ ریفرنسز میں سزا کے خلاف اپیلیں بحال کرنے کی درخواست پر دستخط کیے، ان کا بائیو میٹرک سرٹیفکیٹ بھی لیاگیا۔
اسلام آباد ائیرپورٹ پرنواز شریف نے تقریباً دوگھنٹے قیام کیا، بعدازاں نواز شریف خصوصی پرواز پر لاہور پہنچ گئے جہاں شہباز شریف سمیت کارکنوں نے ان کا استقبال کیا۔
لاہور ائیرپورٹ سے نواز شریف ہیلی کاپٹر کے ذریعے جلسہ گاہ کے لیے روانہ ہوئے۔ ان کے ہیلی کاپٹر کیلئے شاہی قلعےکے پاس دیوان خاص پر ہیلی پیڈ بنایا گیا تھا، نواز شریف نے ہیلی کاپٹر سے اترنے کے بعد نماز ادا کی۔
بعدازاں مینار پاکستان پر ایک بڑے جلسے سے خطاب کیا اور جلسے کے بعد اپنی رہائش گاہ رائیونڈ پہنچے ۔

نواز شریف نے امن کی فاختہ کو فضا میں چھوڑا، فلسطین کا پرچم لہرایا، جلسے کے اختتام پر دعائی کرائی



پاکستان مسلم لیگ ن کے قائد اور سابق وزیراعظم نواز شریف نے تقریر شروع کرنے سے قبل امن کی علامت فاختہ کو فضا میں چھوڑا۔
جلسے کااغاز تلاوت کلام پاک سے کیاگیا جبکہ نعت رسول مقبول کے لئے ان اشعار کاانتخاب کیا گیا جس میں فلسطین کے ساتھ ہمدردی کااظہار ہوتاہے۔
اپنے خطاب کے دوران نوازشریف نے فلسطین کا پرچم لہرایا اور پوری قوم سے اپیل کی کہ وہ فلسطین کے عوام کی مدد کریں،جلسے کے دوران نوازشریف نے دعا بھی کرائی ۔ نوازشریف نے جلسے کے شرکا کو کو وظائف بھی بتائے ۔
سابق وزیراعظم نے جیل میں گزرے دنوں اور جلاوطنی کے دوران پیش آنے والے واقعات کا بھی ذکر کیا اور اپنے دور کے منصوبوں پر کابھی خصوصی ذکر کرتے رہے۔

نواز شریف کے سٹیج پر پہنچنے کے جذباتی مناظر، بھائی ،بیٹی اور پارٹی رہنما آبدیدہ ہو گئے



لاہور: پاکستان مسلم لیگ ن کے قائد اور سابق وزیراعظم نواز شریف چار سالہ جلاوطنی ختم کرکے وطن واپس پہنچے تو استقبال کے دوران کئی جذباتی مناظر دیکھنے کو ملے ۔

نوازشریف مینار پاکستان گرائونڈ میں پہنچے تو کارکنوں نے فلک شگاف نعروں کے ساتھ استقبال کیا۔ اس دوران جب نوازشریف سٹیج پر پہنچے تو ان کی بیٹی مریم نواز اپنے والد کے ساتھ لپٹ کر روتی رہیں اور والد کی قدم بوسی بھی کی۔اس موقع پر شہبازشریف بھی اپنے بھائی سے گلے لگ کرآبدیدہ ہوگئے اور  پارٹی کے دیگر رہنما بھی انتہائی جذباتی نظرآگئے۔ نوازشریف نے سب کو گلے لگایا۔

۔

نوازشریف کے تاریخی استقبال کیلئے عوام سڑکوں پر


Featured Video Play Icon