Tag Archives: ansaar abbasi

عمران خان کی معافی تلافی کے امکانات؟



پہلے یہ حقیقت تسلیم کر لینی چاہیے کہ موجودہ حالات میں سیاسی جماعتیں اور سیاستدان بہت کمزور ہوچکے ہیں اور اس کی بڑی وجہ 9 مئی ہے۔

جب عمران خان کی گرفتاری پر ملک کے مختلف شہروں میں تحریک انصاف کے ووٹرز، سپورٹرز کی طرف سے ایک تسلسل کے ساتھ فوج پر حملے کیے گئے۔ فوج، حکومت، پولیس اور انٹیلی جنس ایجنسیوں کے مطابق یہ حملے سوچی سمجھی سازش کا نتیجہ تھے جس کی باقاعدہ پلاننگ کی گئی اور اس سازش کے ماسٹر مائنڈ عمران خان تھے۔

عمران خان کہتے ہیں کہ 9 مئی تو تحریک انصاف کے خلاف سازش تھی۔ سازش کے بارے میں فیصلہ تو عدالتیں کریں گی لیکن اس میں کوئی شک نہیں کہ 9 مئی والے دن تحریک انصاف کے احتجاجیوں نے شرپسندوں کی طرح فوج پر مختلف شہروں میں حملے کیے، جلاؤ گھیراؤ کیا، توڑ پھوڑ کی، شہیدوں کے یادگاروں کی بے حرمتی کی۔

یہ بات بھی طے ہے کہ تحریک انصاف کے احتجاجیوں کو کہا گیا تھا کہ احتجاج فوج کے خلاف کرنا ہے اور اس کیلئے عمران خان کے ایک سال سے زیادہ فوج مخالف بیانیہ کا بہت اہم کردار تھا۔

پہلے جنرل باجوہ کو نشانہ بنایا اور جب نئے آرمی چیف جنرل عاصم آ گئے تو عمران خان نے اُن کو نشانہ بنانا شروع کر دیا۔ ہر قسم کے جھوٹے سچے الزامات لگائے اور 9 مئی کے واقعات پر شرمندگی اور مذمت کی بجائے دوسرے تیسرے دن موجودہ آرمی چیف کا نام لے کر اُن کو ہی ان حالات کا ذمہ دار ٹھہرا دیا۔ آئی ایس آئی چیف، آئی ایس آئی کے ڈی جی سی اور کچھ دوسرے جرنیلوں کا نام لے لے کر اُنہیں بھی نشانہ بناتے رہے۔

عمران خان کے لیے یہ سب سیاست تھی اور 9 مئی ایک ’’جمہوری‘‘ احتجاج لیکن 9 مئی اگر ایک طرف پاکستان کے لیے بلیک ڈے تھا تو فوج کے سینے پر اس کی مثال ایک خنجر کی سی تھی۔

9 مئی کا زخم فوج کیلئے بہت گہرا ہے جسے بھلایا نہیں جا سکتا۔ ایسے میں عمران خان کیلئے سیاست کے رستوں کا کھلنا کتنا ممکن ہے؟؟

یہ بات تو کی جا سکتی ہے کہ سب پاکستان کی خاطر ماضی کو بھلا کر ایک نیا سفر شروع کریں، معافی تلافی کر لیں، دل بڑے کریں۔ نواز شریف کو بھی یہی مشورہ دیا جا رہا ہے کہ عمران خان کے ساتھ ہاتھ ملا لیں اور اُنہیں انتخابی سیاست میں واپس لانے میں اپنا کردار ادا کریں۔

اس بارے میں بحث یہ کی جاتی ہے کہ عمران خان آج بھی پاکستان کے مقبول ترین رہنما اور تحریک انصاف مقبول ترین سیاسی جماعت ہے جنہیں انتخابات سے باہر رکھا گیا تو پاکستان کیلئے سنگین نتائج برآمد ہو سکتے ہیں۔

زمینی حقائق کی روشنی میں کیا ایسا ممکن ہے اور اگر ایسا ہوگیا تو اس کے نتائج کیا ہوں گے؟

سب سے پہلے کیا عمران خان 9 مئی کے واقعات پر معافی مانگیں گے؟ کیا وہ فوج مخالف اپنے اور تحریک انصاف کے سوشل میڈیا کے بیانیے کو مٹانے کیلئے اقدامات کریں گے؟ فوج اور سیاسی مخالفوں کے خلاف تحریک انصاف کے اندر پیدا کی گئی نفرت کو کم کرنے میں اپنا کردار ادا کریں گے؟

اگر عمران خان ایسا نہیں کرتے تو سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا فوج عمران خان کو معاف کر سکتی ہے؟ کیا فوج کیلئے 9 مئی کے واقعات کو عمران خان کی سیاست کی خاطر بھلانا ممکن ہوگا؟

اگر یہ معافی تلافی نہیں ہوتی اور عمران خان اور تحریک انصاف کو الیکشن لڑنے کا پورا موقع دیا جاتا ہے تو پھر ممکنہ طور پر عمران خان اور تحریک انصاف آئندہ انتخابات جیتیں گے۔

انتخابات کا مقصد ملک میں سیاسی استحکام لانا ہے۔ لیکن موجودہ صورتحال میں اگر بغیر معافی تلافی عمران خان اور تحریک انصاف حکومت بنا لیتے ہیں تو پھر پہلے دن سے نئی حکومت اور اسٹیبلشمنٹ کے درمیان ایک ایسا تناؤ پیدا ہوگا جو ملک میں بدترین سیاسی عدم استحکام کو جنم دے گا۔

عمران خان، آرمی چیف سمیت، متعدد حاضر سروس جرنیلوں کے خلاف بار بار بولتے رہے اور فوج کے ساتھ ڈائریکٹ لڑائی مول لے لی، اس صورتحال میں عمران خان یا تحریک انصاف کی نئی حکومت کی شروعات ہی، حکومت اور فوج کے درمیان ،ایک بڑی لڑائی سے ہوگی جس کا پاکستان متحمل نہیں ہو سکتا۔

فوری طور پر عمران خان اور تحریک انصاف کیلئے سب سے بہتر حکمت عملی یہ ہوگی کہ وہ اور اُن کا سوشل میڈیا فوج مخالفت اور فوج دشمنی کے تاثر کو رد کرنےکیلئے فوکس ہو کر کام کریں، نفرت اور گالم گلوچ کی سیاست سے باز رہیں۔

اگر ایسا ہوا تو مستقبل میں کوئی بہتری آنے کی توقع ہے۔ ورنہ مجھے تو عمران خان اور تحریک انصاف کیلئے مشکلات ہی نظر آ رہی ہیں۔

بشکریہ روزنامہ جنگ

پروٹوکول کی بھوکی اشرافیہ



ہمارا ملک دیکھیں، ہمارے حالات پر نظر دوڑائیں، معاشی ابتری اور مہنگائی کا جائزہ لیںیا طرز حکمرانی کے زوال اور دنیابھر میں ہماری انتہائی گرتی ہوئی شہرت پر بات کریں،ایک پاکستانی کے طور پر بہت مایوسی ہوتی ہے ۔افسوس اس امر کا ہے کہ سب کچھ خراب ہو رہا ہے، ہم روز برو ز تنزلی کی طرف رواں دواں ہیں، کچھ ٹھیک نہیں رہا۔ حکمراں طبقہ اور اشرافیہ ،جن پر حالات کو درست کرنے کی بنیادی ذمہ داری ہے وہ اپنی عیاشیوں اور اللے تللوں میں مصروف ہیں۔ دنیا سے ہم اپنے اخراجات پورے کرنے کیلئے بھیک مانگتے ہیں لیکن ہماری اشرافیہ اور حکمراں طبقے کی عیاشیاں ہیں کہ ختم ہونے کا نام ہی نہیں لے رہیں۔وی آئی پی کلچر سے اتنے مرعوب ہیں کہ ہر کوئی وی آئی پی بننا چاہتا ہے۔ پروٹوکول اور سیکورٹی کے نام پر قوم کے اربوں کھربوں روپے ہوا میں اُڑا دیئے جاتے ہیں۔ پروٹوکول اور وی آئی پی کلچر کی اس بیماری نے ہماری عدلیہ کو بھی ایک ایسی علت میں مبتلا کر دیا ہے جس کی دوسرے ممالک میں کوئی نظیر نہیں ملتی۔ دی نیوز کے سینئر صحافی عمر چیمہ کی خبر پڑھی اور دکھ ہوا کہ ہمیں کیا ہو گیا ہے اور ہم کیسے ٹھیک ہوں گے۔خبر کے مطابق لاہور ہائی کورٹ کے جسٹس علی باقر نجفی کےبیٹے کو اُس کے بیرون ملک دورے کیلئے پروٹوکول دینے کے معاملے پر وزارتِ خارجہ کو باقاعدہ خط لکھا گیا۔ قواعد و ضوابط کے مطابق کسی کو اس طرح ترجیحی پروٹوکول نہیں دیا جا سکتا لیکن وزارت خارجہ سے کہا گیا کہ وہ اس ضمن میں ضروری اقدامات کرے۔ پروٹوکول دینے کی درخواست لاہور ہائی کورٹ کے جج کی طرف سے آئی ہے جن کا بیٹا پاکستان سے باہر جا رہا ہے۔ جج کا بیٹا سید محمد علی ایک ڈاکٹر ہے اور امریکا جا رہا ہے۔یہ خواہش ظاہر کی گئی کہ محمد علی کو ابو ظہبی میں امیگریشن کے دوران اور پھر نیویارک ایئر پورٹ پر پروٹوکول دیا جائے جہاں سفارت خانے کا عملہ محمد علی کو ان کی منزل تک پہنچائے۔ یہی پروٹوکول محمد علی کی پاکستان واپسی کے موقع پر تمام ائیرپورٹس پر مانگا گیا۔خبر شائع ہوئی تو حکومت نے جواب لکھ دیا کہ جج کے بیٹے کو ایسا پروٹوکول دینا ممکن نہیں لیکن ذرائع کے مطابق ہمارے سفارت خانوں کا سب سے اہم کام ہی پاکستانی اشرافیہ کو پروٹوکول دینا ہوتا ہے جبکہ اصل کام پر کوئی توجہ نہیں ہوتی۔ میری چیف جسٹس قاضی فائز سے درخواست کہ عمر چیمہ کی خبر پر نوٹس لیں اور کم از کم اپنے گھر یعنی (عدلیہ) کو پروٹوکول اور وی آئی پی کلچر کی بیماری سے پاک کریں۔ اشرافیہ کے ظلم سے پاکستان کو بچائیں۔

بشکریہ روزنامہ جنگ