Tag Archives: irfan siddiqui

کیا عناد، انصاف پر حاوی رہے گا؟



عزت مآب جج صاحبان کا اللہ تعالیٰ کو حاضروناظر جان کر، صدقِ دل سے اٹھائے گئے حلف کا اہم ترین جُملہ ہے ’’میں تمام لوگوں کے ساتھ ، کسی خوف یا رعایت کے بغیر اور کسی رغبت اور عناد کے بغیر انصاف کروں گا۔‘‘ اعلیٰ عدلیہ کا ہر جج، مسند انصاف پر براجمان ہونے سے پہلے یہ حلف اٹھاتا ہے۔ ہر اردو لُغت میں حلف کے معنی قسم کھانا ہے۔ گویا ہر جج اپنے مذہب، عقیدے یا نظریے کے مطابق قسم کھا کر یہ عہد کرتا ہے کہ انصاف کا وظیفہ سرانجام دیتے ہوئے وہ سائل کے بارے میں اپنے ذاتی جذبہ واحساس کو ایک طرف رکھ دے گا۔

کیا سابق وزیراعظم نوازشریف کوبیٹے سے تنخواہ نہ لینے کے جرم میں مَنصَب سے برطرف کرکے عمر بھر کی نااہلی کی مہر لگا دینا، جج صاحبان کے حلف کی درست عکاسی کرتا ہے؟ ’’سسلین مافیا‘‘ اور ’’گاڈفادر‘‘ جیسی متعفن گالیوں کو نظرانداز بھی کردیں تو کیا یہ مضحکہ خیز فیصلہ اور اس کی کوکھ سے پھوٹنے والے متعدد فیصلے ’عناد‘ میں لتھڑے ہوئے نہ تھے؟

’’سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجرایکٹ‘‘ کا فیصلہ آگیا۔ اہم نکتہ یہ ہے کہ دوتہائی جج صاحبان کی اکثریت سے ایکٹ کو درست قانون قرار دے دیا گیا۔ یوں قانون سازی کے حوالے سے پارلیمنٹ کی بالادستی تسلیم کرلی گئی ہے۔ اس اصول کا طے پاجانا بھی نہایت مثبت پیش رفت ہے کہ عدلیہ کے صوابدیدی اختیار (184/3) کے تحت سزا پانے والے شخص کو اپیل کا حق حاصل ہوگا۔ تاہم سات کے مقابلے میں آٹھ جج صاحبان کا فیصلہ ہے کہ اپیل کا حق موثر بہ ماضی نہیں ہوگا۔ 184/3 کے تحت دی جانے والی سزا کو حتمی قرار دینے اور ملزم کو اپیل کے حق سے محروم رکھنے والے دو عالی مرتبت جج صاحبان مسلسل وکلا کو زچ کرتے رہے کہ اگر آئین سازوں نے دستور میں اپیل کا حق نہیں دیا تو پارلیمنٹ قانون کے ذریعے یہ حق کیسے دے سکتی ہے؟ پچاس برس پہلے آئین سازوں کے حاشیۂِ وہم وگماں میں بھی کہاں ہوگا کہ برسوں بعد اسلامی جمہوریہ پاکستان کی سب سے بڑی بارگاۂِ عدل میں کچھ ایسے نابغے بھی جلوہ افروز ہوں گے جواپنے صوابدیدی اختیار کا ڈھول پیٹتے ہوئے، تین بار کے منتخب وزیراعظم کا ہانکا لگا کر اپنی شکار گاہ میں لائیں گے، زیرِزمین گروہوں جیسی خفیہ کاری کے ذریعے نامی گرامی شکاریوں کاغول تلاش کرکے اُسے جے۔آئی۔ٹی کا نام دیں گے، شکاریوں کی بندوقوں کا نشانہ ’’شکار‘‘ پر مرکوز رکھنے کے لئے تین جج صاحبان اونچی مچان پر بیٹھ کر مسلسل نگرانی کرتے اور راہنمائی فرماتے رہیں گے، محصور شکار کی تذلیل کے لئے بغض وعناد میں لت پت جُملے کستے رہیں گے، کروڑوں روپے خرچ کرکے دنیا بھر میں ملزم کی کرپشن کے کھُرے تلاش کرتے رہیں گے اور جب رائی برابر کرپشن، معمولی سی بدعنوانی، اپنے عہدے کے غلط استعمال کا رتی بھر ثبوت نہ پائیں گے تو بھیڑیے اور میمنے کی روایتی کہانی کی نظیر دہراتے ہوئے حکم صادر کریں گے __ ’’تم نے اپنے بیٹے سے تنخواہ نہیں لی اس لئے ’’خائن‘‘ ہو لہٰذا وزیراعظم نہیں رہ سکتے اور زندگی کی آخری سانس تک سیاست کا رُخ بھی نہیں کرسکتے۔‘‘عناد کی آگ اسی پر ٹھنڈی نہیں ہوجاتی، نیب کو نادر شاہی حکم جاری ہوتا ہے کہ اس شخص پر مقدور بھر ریفرنس دائر کرو۔ احتساب عدالت کو حکم دیا جاتا ہے کہ چھ ماہ کے اندر اندر فیصلہ کرو (تاکہ انتخابات سے پہلے وہ جیل میں ہو)، نوازشریف کے خلاف فیصلہ صادر کرنے والے ایک جج کو ہی جی۔الیون میں واقع احتساب عدالت کی چھت پر بطور مانیٹر جج بٹھا دیا جاتا ہے تاکہ احتساب عدالت، عناد کی وہ رسیّاں کاٹ کر شکار کو رہا نہ کردے جن میں جکڑنے کے لئے انہوں نے بڑی تگ ودو، بڑی محنت کی تھی۔ یہاں تک کہ اپنے حلف کے پُرزے بھی اڑا دئیے اور اپنے اللہ سے باندھے گئے عہدوپیماں کو بھی جنسِ کوچہ وبازار بنادیا۔ اُدھر ایک وردی پوش جرنیل، ایک جج کے گھر جاکر نواز اور مریم کے خلاف فیصلے کا تقاضا کرتے ہوئے ’’دوسال کی محنت‘‘ کی دہائی دے رہا تھا اور اِدھر عزّت مآب جج صاحبان، طلائی گوٹہ کناری والی سیاہ ریشمی عبائیں زیب تن کئے، محض عناد کی بنیاد پر احتساب عدالتوں کی مُشکیں کس رہے تھے کہ کہیں اُن کی محنت اکارت نہ چلی جائے۔ اگر 1973؁ کے آئین سازوں کے پاس کوئی ایسی دوربین ہوتی کہ وہ ’’بیٹے سے تنخواہ نہ لینے والے‘‘ مکروہ ناٹک اور اس کے اداکاروں کو دیکھ سکتے تو شاید وہ اس ’’صوابدید‘‘ ہی کو ختم کردیتے یا پھر اسے پارلیمنٹ کے موجودہ ایکٹ سے کہیں زیادہ کڑے شکنجوں میں جکڑ دیتے۔ ’’اپیل کا حق دینا ہوتا تو 1973؁ کے آئین ساز خود کیوں نہ لکھ دیتے‘‘ کو بڑی دلیل کے طورپر دوہرانے اور وکیلوں سے پیہم استفسار کرنے والے دو جج صاحبان اُس عالی مرتبت بینچ کا بھی حصہ تھے جس کی سربراہی جسٹس بندیال کررہے تھے اور جس نے صدارتی ریفرنس پر فیصلہ دیا تھا کہ آئین کے آرٹیکل 63-A کے تحت پارٹی ہدایت کی خلاف ورزی کرنے والا رُکن نہ صرف اپنی نشست سے محروم ہوجائے گا بلکہ اس کا ووٹ بھی نہیں گِنا جائے گا۔ قطعِ نظر اس کے کہ یہ فیصلہ بھی ’’رغبت وعناد‘‘ میں لتھڑا ہوا تھا، سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اگر آئین سازوں کا مقصد یہی تھا کہ مذکورہ رُکن اسمبلی کا ووٹ بھی نہ گنا جائے تو اُنہیں یہ جملہ لکھنے میں کیا مشکل مانع تھی؟ تب حمزہ شریف کی حکومت ختم کرنے اور تحریک انصاف کو تخت نشیں کرنے کے لئے آپ نے تعبیر وتشریح سے دس ہاتھ آگے نکل کر، آئین سازوں کی مرضی ومنشا کے بالکل برعکس اپنی مرضی کا آئین لکھ لیا، اور آج عناد کی چتا میں جھونک دئیے جانے والے کسی شخص کو اپیل کا حق دیتے ہوئے آپ آئین لکھنے والوں کو نعوذ باللہ ’’کاتبانِ وحی‘‘ کے مقام پر بٹھا رہے ہیں؟

اس سب کچھ کے باوجود عدلیہ نے ’آزادی‘ کے نام پر اپنے گرد ایک مقدس نورانی ہالے کا حصار سا بنا رکھا ہے۔ وہ مظلوم کی دادرسی، لوگوں کے بنیادی حقوق اور عدلیہ کی عالمی رینکنگ میں تنزل سے کہیں زیادہ اپنی بے مہار آزادی میں دلچسپی رکھتی ہے۔ ہر سوال سے آزاد۔ پارلیمنٹ سے بھی ماوریٰ۔ ڈکٹیٹروں کو خلعتِ جواز دینے میں آزاد، انہیں آئین کی چیر پھاڑ کی اجازت دینے میں آزاد، جج کے گھر جاکر دھمکیاں دینے والے جرنیل سے بازپرس نہ کرنے میں آزاد، جج کو برق رفتاری سے نمونۂِ عبرت بنا دینے میں آزاد، رغبت وعناد سے فیصلے کرنے میں آزاد، اللہ سے باندھا گیا عہدِ وفا توڑنے میں آزاد، پارلیمان کے بطن میں پڑے قانون کا سانس لینے سے بھی پہلے گلا گھونٹ دینے میں آزاد، ساٹھ ہزار زیرِالتوا مقدمات کو بھاڑ میں جھونک کر سردیوں اور گرمیوں کی طویل چھٹیاں منانے میں آزاد اور تقاضا یہ کہ پارلیمنٹ سمیت تمام ادارے اور چھبیس کروڑ پاکستانی اندھے عقیدت مندوں کی طرح دست بستہ اس کے حضور کھڑے رہیں۔

نوازشریف چار سالہ جلا وطنی کے بعد ان شاء اللہ 21 اکتوبر کو واپس وطن آرہے ہیں۔ بغض و عناد اور ناانصافی کے طمانچے کھانے والے شخص کو ایک بار پھر قانون وانصاف کے مراحل درپیش ہوں گے۔ لیکن اس کے ساتھ روا رکھے گئے ’’عدالتی سلوک‘‘ کی شرمناک کہانی کو پیش نظر رکھا جائے تو نوازشریف نہیں، خود عدالت کٹہرے میں کھڑی ہے۔ معاملہ نوازشریف نہیں، عدلیہ کی ساکھ کا ہے۔ اس کے وقار کا ہے۔ سوال یہ ہے کہ کیا عزت مآب چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے عہد میں بھی عدلیہ کے بال وپر’’غبار آلودۂِ رغبت وعناد‘‘ ہی رہیں گے اور کیا عدلیہ کے ماتھے کا داغ بن جانے والے فیصلے کسی تکنیکی موشگافی کے باعث اسی طرح اُس کی پیشانی پر چِپکے رہیں گے؟ کیا قاضی صاحب کے دور میں بھی ’’عناد‘‘، انصاف پر حاوی رہے گا؟

بشکریہ روزنامہ جنگ 

 

الوداع لندن!



پیر، دو اکتوبر کی سہ پہر میں ہیتھرو کے ہوائی اڈّے سے باہر نکلا تو لندن اپنے روایتی موسم کی رومانوی قبا اوڑھے، دِل نواز سی خنکی میں لپٹا ہوا تھا۔ آسمان گہرے سرمئی بادلوں سے ڈھکا تھا۔ ہلکی بارش سے سُرخ اینٹوں، سفید کھڑکیوں والے دُھلے دھلائے گھروں کے اَنگ انگ سے لندن پھوٹ رہا تھا۔

اُسی دِن، سرِشام ایک ریستوران میں کافی کی میز پر میاں صاحب سے ملاقات ہوئی۔ اِس ملاقات میں کوئی تیسرا نہیں تھا سو گھنٹہ بھر کی نشست میں بہت سے اِشکالات دور ہوگئے۔ بہت سی گرہیں کھل گئیں۔ ایک بات حتمی پن کے ساتھ سامنے آئی کہ منفی یا مثبت پہلوئوں کی زائچہ تراشی کا وقت تمام ہوا۔فیصلہ حتمی ہے کہ نوازشریف 21 اکتوبر کی شام پاکستان آ رہے ہیں۔ انہوں نے مجھے اپنے پروگرام کی تفصیلات سے آگاہ کیا اور بتایا کہ تمام متعلقہ معاملات کو دیکھنے کے بعد یہ فیصلہ کیاگیا ہے۔ 21 اکتوبر کو اپنی آمد کے بارے میں میاں صاحب نے مجھ سے رازداری کا عہدلیتے ہوئے کوئی ایک مہینہ پہلے ہی بتادیا تھا لیکن میں نے اسے راز ہی رکھا۔

طے پایا کہ ہم صبح 8 بجے ملا کریں گے تاکہ 11 بجے تک یکسوئی سے بات چیت ہوسکے۔ منگل سے جمعہ تک یہ سلسلہ جاری رہا۔ 11 بجے کے بعد کی مصروفیات میں رُخصتی کا رنگ نمایاں تھا۔ میاں صاحب کے لئے مشوروں کی بھرمار تھی۔ جو بھی آتا پھولوں کا ایک بڑا سا گلدستہ اور پندونصائح کابڑا سا ٹوکرابھی ضرور ہمراہ لاتا۔ اُن کے پاس کوئی نصف درجن تقریروں کے مسودے بھی دھرے تھے۔

مہمانوں کی کثرت اور مشوروں کے ہجوم کے باوجود میاں صاحب کی بدَن بولی میں اُکتاہٹ یا بیزاری کی کوئی جھلک نہ تھی۔ جسٹس (ر) نوید احمد خواجہ، طیارہ اغوا کیس میں اُن کے وکیل تھے۔ ملاقات کو آئے تو میاں صاحب نے پرانی یادوں کی بیاض کھول لی۔ کہنے لگے __ ’’صدیقی صاحب! خواجہ صاحب ہائی جیکنگ کیس میں میرے وکیل تھے۔ ایک دن عدالت لگی تو خواجہ صاحب نے دلیل دی کہ میرے موکل کے بنیادی حقوق بری طرح مجروح ہوئے ہیں۔ ایک جج نے پوچھا_ ’’کیسے ؟‘‘ خواجہ صاحب بڑی سنجیدگی سے بولے __ ’’مائی لارڈ ! میرے موکل نوازشریف کو ہتھکڑی لگا کر زنجیر جہاز کی سیٹ کے ساتھ باندھ دی گئی۔ اگر خدانخواستہ جہاز گر جاتا تو میرا موکل کس طرح چھلانگ لگاتا؟‘‘ عدالت میں ایک زوردار قہقہہ پڑا۔ میری بھی ہنسی چھوٹ گئی۔ میں نے دل ہی دل میں سوچا_ ’’وکیل ایہوجے نے تے فیر اللّٰہ ہی حافظ اے۔‘‘ (اگر وکیل ایسے ہی ہیں تو پھر اللّٰہ ہی حافظ ہے)

میرے ساتھ طویل ملاقاتوں میں ماضی کا تذکرہ کرتے ہوئے وہ دِل گرفتہ سے ہوجاتے۔ ’’حالات کیسے سدھریں گے۔ میں تین دفعہ وزیراعظم منتخب ہوا۔ تینوں دفعہ تلخ تجربوں سے گزرا۔ ہر بار تصادم اور محاذ آرائی سے بچنے کی کوشش کی۔ اپنی طبیعت کے برعکس بہت سی باتیں مان لیں کہ نظام چلتا رہے اور ملک کی تعمیر وترقی کا سلسلہ نہ ٹوٹے لیکن ہر بار میں ہار گیا۔ اصل میں ہر بار پاکستان ہار گیا۔ اپنی ذات اور اپنے خاندان سے ہونے والی ناانصافی اور ظلم کا معاملہ اللّٰہ پر چھوڑ دیا ہے لیکن پروجیکٹ 2017 سے پاکستان اور کروڑوں عوام پر جوگزری اور گزر رہی ہے اِس کا حساب کون دے گا؟‘‘ گفتگو کے اِس بہائو میں میاں صاحب لمحہ بھر کو رُکے۔ پھر بولے __ ’’میں ایک اور بات بھی پہلی بار، صرف آپ سے کہنا چاہتا ہوں جو میرے اور آپ ہی کے درمیان رہنی چاہیے۔‘‘ میں نے کہا _’’ میاں صاحب ایسی لاتعداد باتیں پہلے بھی میرے دِل کی تجوری میں بند ہیں۔ اس لئے آپ بے دھڑک کہیں۔ ‘‘اس کے بعد میاں صاحب نے اوپن ہارٹ سرجری کی طرح اپنا دِل کھول کے میز پر پڑی طشتری میں رکھ دیا۔ کبھی کوئی موزوں وقت آنے تک یہ بات میرے اور میاں صاحب کے درمیان ہی رہے گی تاہم میں جانے کب تک میاں صاحب کے عمیق سینے میں بپا تلاطم کا ہیجان محسوس کرتا رہوں گا۔

جمعہ، دفتر میں الوداعی دن تھا۔وہ چار سال تک اُن کی مصروفیات کی لمحہ لمحہ کوریج کرنے والے صحافیوں سے ملے۔ بیرونی ممالک سے آئے وفود سے ملاقات کی۔ مقامی کارکنوں کی بڑی تعداد سے فرداً فرداً ملے۔ تصویریں بنوائیں۔سب کو اپنے گھر سے بن کر آنے والا کھانا کھلایا۔ کچھ آنکھیں ’وفورِ جذبۂِ بے اختیارِ شوق‘ سے بھیگ رہی تھیں۔ کچھ خوش تھے کہ بالآخر نوازشریف گھر جارہے ہیں۔

اگرچہ پاکستان میں افواہ سازی اور دروغ بافی کا بازار اب بھی گرم ہے لیکن اللّٰہ نے چاہا تو میاں صاحب کا پروگرام حتمی ہے۔ میرے علم کے مطابق وہ چین جا رہے ہیں نہ قطر۔ عمرہ کے لئے سعودی عرب جاتے ہوئے دوحا کے ہوائی اڈے پر، پرواز بدلنے کے لئے مختصر قیام ہوسکتا ہے۔ عمرہ کے بعد وہ کچھ دِن مدینہ منورہ میں گزاریں گے۔ وطن واپسی سے دو دِن قبل متحدہ عرب امارات آنے اور 21 اکتوبر کی شام لاہور کے علّامہ اقبال ائیر پورٹ پر اترنے کا پروگرام طے ہے۔ 21 اکتوبر ہی کو ایک اور چھوٹی سی پرواز کا پیوند بھی لگ سکتا ہے __ لیکن یہ تجسس برقرار رہنا چاہیے۔

جمعہ کی سہ پہر میاں صاحب دفتر سے گھر کیلئے نکلے تو کارکنوں کے ایک بڑے ہجوم نے انہیں الوداع کہا۔ سڑک کے اُس طرف کھڑی دو نوجوان لڑکیاں اور ایک لڑکا، پی۔ٹی۔آئی کا جھنڈا اُٹھائے، میگافون پر ’’چور چور، ڈاکو ڈاکو‘‘ کے آوازے کس رہے تھے۔ کارکنوں کے پرجوش نعروں ’’وزیراعظم نوازشریف‘‘ کی گونج میں میگافون کی سِسکیاں کسی کو سنائی نہ دیں۔

نوازشریف کی جلاوطنیوں کا دورانیہ، اُن کے اقتدار کے عہد سے کہیں زیادہ ہے۔ وہ کل ملا کر کوئی سوا نو برس وزیراعظم رہے لیکن قیدوبند کے علاوہ کوئی گیارہ سال جلا وطن رہنا پڑا۔ پہلی بار وہ 10 دسمبر2000سے 25نومبر2007تک، تقریباً سات برس جبری طورپر ملک بدر رکھے گئے۔ اگست 2007میں سپریم کورٹ نے فیصلہ دیا کہ کسی پاکستانی شہری کو اپنے وطن آنے سے نہیں روکا جاسکتا۔ اِس فرمان کا پروانہ تھامے میاں صاحب وطن آئے تو میں اُن کے ہمراہ تھا۔ اُنہیں لائونج سے باہر نہ نکلنے دیا گیا۔ کمانڈوز دھکے دیتے ہوئے ایک اور طیارے تک لے گئے جو اُنہیں ایک بار پھرجدہ کے کنگ عبدالعزیز ہوائی اڈے کے شاہی ٹرمینل (جدہ) پر لے گیا۔ اکتوبر2007میں محترمہ بے نظیر بھٹو جلاوطنی ترک کرکے پاکستان آگئیں تو مشرف کی تمام تر کوششوں کے باوجود، سعودی عرب نے میاں صاحب کو پاکستان جانے کی اجازت دے دی اور وہ 25 نومبر2007کو لاہور پہنچ گئے۔ شدید بیماری کی حالت میں حکومت اور عدلیہ نے انہیں 19 نومبر2019کو لندن جانے کی اجازت دے دی۔ صحت کے گونا گوں مسائل اور پاکستان کے نوازدشمن، انصاف کُش ماحول نے اس جلاوطنی کو چار سال تک پھیلا دیا۔

نوازشریف آہنی اعصاب کا مالک ہے لیکن بہرطور گوشت پوست کا ایک انسان ہے۔

غالب نے کہا تھا

کیوں گردشِ مدام سے گھبرا نہ جائے دل

انسان ہوں پیالہ و ساغر نہیں ہوں میں

وہ دکھوں اور غموں کی کتھا کم کم ہی سناتے ہیں ۔ ایک دن دفتر کے چھوٹے سے ذیلی کمرے میں بیٹھے وہ دیر تک ماضی کی راکھ کریدتے رہے۔ یہاں تک کہ میں اُن کے چہرے پر لندن کے سرمگیں بادلوں کی سنولاہٹ محسوس کرنے لگا۔ اٹھتے ہوئے انہوں نے میز پر دھرا اپنا سیل فون آن کیا اور مجھے دکھایا۔ پس منظر میں وال پیپر کے طور پر لگی جواں سال کلثوم نوازکی تصویر مسکرا رہی تھی۔ کلثوم کے ’بائو جی‘ نے چہرہ دوسری طرف موڑتے ہوئے گہری محبت میں گندھا صرف ایک سادہ و معصوم سا جملہ کہا __ ’’یہ مجھے بہت یاد آتی ہے۔‘‘

بشکریہ روزنامہ جنگ