Tag Archives: mazhar abbas

بے نظیر کے استقبال پر خون کی ہولی



ہماری انتہا پسند سوچ نے محترمہ فاطمہ جناح کو قبول کیا نہ بے نظیر بھٹو کو۔ بانی پاکستان کی بہن تو سیاست سے کنارہ کش ہو گئیں ۔ایوب خان کے دھاندلی زدہ الیکشن کے بعد، عورت کی حکمرانی پرسوال اٹھنے کے بعد مگر بے نظیر نے ڈٹ جانے کا فیصلہ کیا تو راستے سے ہی ہٹا دیا گیا جس کے بعد پاکستان کاسیاسی بیانیہ ہی بدل گیا۔ 18؍اکتوبر 2007 کو محترمہ نےجنرل پرویز مشرف مرحوم کی اس واضح دھمکی کے باوجود کہ، اگر آپ الیکشن سے پہلے پاکستان آتی ہیں تو پھر وہ سیکورٹی کی ضمانت نہیں دے سکتے، واپسی کی تاریخ کا اعلان کر دیا۔ جو ہوا وہ اب ہماری خون آلود سیاست کا حصہ ہے۔ اس خون کی ہولی کے ایک گواہ سابق وزیر داخلہ ڈاکٹر ذوالفقار مرزا اور ا ن کی بیگم ڈاکٹر فہمیدہ مرزا بھی ہیں۔ کچھ عرصہ پہلے ان کے ساتھ ایک نشست میں دیگر باتوں کے علاوہ اس بھیانک واقعہ کا بھی ذکر نکل آیا کیونکہ مرزا صاحب سیکورٹی انچارج تھے۔

’’جس طرح ذوالفقار نے بی بی کو وہاں سے نکالا اور پھر واپس آ کر لاشوں کے ٹکڑے اٹھائے وہ صرف وہی کر سکتا تھا۔ ایک قیامت تھی جو گزر گئی مگر ہمیں کیا پتا تھا کہ قاتل اس کا پیچھا اس وقت تک کریںگے جب تک وہ اسے شہید نہ کر دیں اور پھر وہ 27دسمبر کو کامیاب ہو گئے۔ ’’ڈاکٹر فہمیدہ مرزا نے بات ختم کی تو میں نے مرزا سے پوچھا اس دن کیا ہوا اور اس کے بعد ۔ ’’مجھے سیکورٹی کی ذمہ داری آصف اور بے نظیر دونوں نے دی تھی۔ میں نے جانثارانِ بے نظیرکے نام سے کارکنوں کی ٹیم بنائی انکی بس ایک ذمہ داری تھی کچھ بھی ہو جائے اس کنٹینر کے حصار کے اندر کسی کو نہیں آنے دینا چاہے جان چلی جائے ہماری پوری ٹیم تھی،دو خود کش حملے ہوئے لڑکوں نے جان دے دی مگر حملہ آور کو حصار میں نہ آنے دیا۔ مرزا نے بتایا کہ ہمیں اطلاع تھی حملے کی لہٰذا بی بی کو مشورہ دیا جاتا تھا کہ زیادہ دیر تک ٹرک پر کھڑی نہ رہیں مگر ان کا کہنا تھا لوگ ان کو دیکھنے اور سننے آئے ہیں۔ تاہم دھماکے سے کچھ دیر پہلے ان کی ٹانگوں میں درد ہونے لگا تو وہ تھوڑی دیر کیلئے نیچے آ کر بیٹھ گئیں۔ چند ایک کو چھوڑ کر باقی رہنما اوپر ہی رہے ، جب پہلا دھماکہ ہوا تو کچھ رہنما ایک دوسرے پر گر پڑے۔ بی بی کو میں نے کہا کہ آپ اوپر نہ آئیں جب تک میں نہ کہوں۔ میںنے فہمیدہ اور دوسرے پارٹی لیڈروں سے بھی یہ کہا اور باہر گیا تاکہ دیکھوں حصار تو نہیں ٹوٹا۔ ابھی میں بی بی کو یہ بتانے آیا ہی تھا تو دوسرا دھماکہ، جو زیادہ خوفناک تھا، ہوگیا بس صرف چیخوں کی آوازیں تھیں۔ ہم نے ممکنہ خطرات کے پیش نظر ایسے انتظام کیے ہوئے تھے جن میں ایمبولینس اور ایک دو بلٹ پروف گاڑیاں تھیں۔ میں نے ایک گاڑی حصارکو توڑ کر ٹرک کے پاس لگائی اور بی بی کو لے کر بلاول ہائوس پہنچا یاپھر اسپاٹ پر واپس آیا تو ہر طرف لاشیں ہی لاشیں تھیں۔ کوئی پہچان میں نہیں آ رہا تھا۔ سارے دوستوں نے مل کر لاشوں کو یا ان کے ٹکڑوں کوجمع کیا زخمیوں کو اسپتال پہنچایا۔ وہ سارے واقعی جانثارانِ بے نظیر ثابت ہوئے۔ میں حیران ہوا تو اس بات پر کہ دوسری صبح تقریباً 9بجے وہ جناح اسپتال میں زخمیوں کے درمیان تھیں وہ بھی بغیر کسی سیکورٹی کے اور پھر لیاری میں جولوگ شہید ہوئے ان کے گھروں کا رخ کیا پھر اسی طرح دیگر علاقوں کا۔

مرزا کی ذمہ داری سندھ تک تھی پنجاب اور کے پی کی سابق وزیر داخلہ رحمٰن ملک مرحوم کی تھی۔ ’’میں اور فہمیدہ کراچی میں تھے جب مشرف کی ایمرجنسی لگی بی بی کچھ دنوں کیلئے دبئی میں تھیں بچوں کے پاس۔ انہوں نے لاہور آنے کا فیصلہ کیا تو مجھے فون کیا اور لاہور میں سیکورٹی کا کہا۔ میں نے کئی جگہیں دیکھیں پھر لطیف کھوسہ کا گھر زیادہ محفوظ اور مناسب قرار دیا اور وہ وہیں ٹھہریں۔ یہ الگ بات ہے کہ ہم سب کو مشرف حکومت نے اس گھر میں نظر بند کر دیا ۔ بعد میں رہائی ملی تو میں اور فہمیدہ کراچی آگئے۔‘‘

بعد میں جو ہوا وہ ہماری سیاسی تاریخ کا المیہ ہے تاہم بے نظیر کی شہادت کے بعد کوئی تین سال مرزا پی پی پی میں رہا پھر راہیں جدا ہو گئیں۔ آصف مرزا دوستی سے جدائی تک کی ایک الگ کہانی ہے جو میں کسی اور وقت لکھوں گا ۔ ان 15سال میں کیا ہوانہ 18؍اکتوبر کا پتا چلا نہ 27 ؍دسمبر کی اصل کہانی سامنے آئی۔

ہم اکثر تاریخ کی درستی کی بات کرتے ہیں حال ہی میں سپریم کورٹ آف پاکستان میں ایک سماعت کے دوران جو براہ راست دکھائی جا رہی تھی چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے اپنے ریمارکس میں کمرہ عدالت کی دیوار پر آویزاں ان تصاویر کی طرف اشارہ کیا جو سابق چیف جسٹس صاحبان کی تھیں اور کہا ’’ان میں وہ بھی چیف جسٹس شامل ہیں جنہوں نے مارشل لا اور فوجی ادوار کو آئینی تحفظ دیا‘‘۔ پچھلے 40سال میں دو آمر آئے اور دو منتخب وزرائے اعظم مارے گئے ایک پھانسی چڑھا تو دوسرا سرِ عام قتل کر دیا گیا۔ کیوں نہ اعلیٰ عدلیہ ان ججزز کی تصاویر بھی آویزاں کرے جنہوںنے PCO کے تحت حلف نہ لے کر آئین کی پاسداری کی۔ ان میں سے ایسے بھی ہیں جو حلف لیتے تو چیف جسٹس بھی بن سکتے تھے ۔ تاریخ کو درست کرنا ہے تو ایوان صدر اور ایوان وزیر اعظم سے آمر صدور کی تصاویر بھی بہرحال جمہوری حکمرانوں سے الگ نظر آنی چاہئیں تاکہ آنے والی نسلوں کو صحیح تاریخ کا علم ہو سکے۔

یہ بات اس لیے بھی چل نکلی کہ اکتوبر کا مہینہ ہماری سیاسی تاریخ میں خاص اہمیت رکھتا ہے۔ 7 اکتوبر 1958کو ملک میں پہلا مارشل لا لگا، 12 اکتوبر1999کو چوتھا مارشل لایا ملٹری ٹیک اوور ہوا اور اسی ادوار میں پہلے بے نظیر پر حملہ ہوا اور پھر شہادت۔ 18اکتوبرکو حملہ کرنے والے صحیح لوگ پکڑے جاتے تو شاید 27دسمبرنہ ہوتا۔

18اکتوبر صرف’’سیاسی شہیدوں‘‘ کویاد کرنے کا دن نہیں۔ یہ سوال بہرحال ان 15 برسوں میں سندھ میں پی پی پی کی حکومتوں سے بھی بنتا ہے کہ آج جلسے میں صرف کارساز کے شہیدوں کیلئے فاتحہ خوانی کے سوا یہ بھی تو بتائیں کہ کوئی ایک جامع رپورٹ یاکمیشن بنا ہو تو وہ کہاں ہے اور اگر نہیں تو کیو ں نہیں۔ شاید اس سوال پر میرے بہت سے پی پی پی کے دوست ناراض ہو جائیں ۔دوسرا سوال میں 27دسمبر کو پوچھوں گا، کارکن کی شہادت اس کے پورے خاندان کی شہادت ہوتی ہے۔ اس 18کوجواب نہیں دے پائے اورزندگی رہی تو 2024 میں بھی یہی سوال پوچھوں گا، جب عین ممکن ہے کہ دوبارہ آپ ہی کی حکومت ہو۔

بشکریہ روزنامہ جنگ 

’ ایک ترانہ مجاہدینِ فلسطین کیلئے‘



؎ ہم جیتیں گے

حقا ہم اک دن جیتیں گے

بالآخر اک دن جیتیں گے

انقلابی شاعر فیض احمد فیض نے1983ءمیں یہ ترانہ ’ مجاہدین فلسطین‘کیلئے لکھا تھا۔ آج کا فلسطینی نوجوان جو انہی گولیوں اور بمباریوں میں جوان ہوا ایک نئے فلسطین کو جنم د ےرہا ہے اس سازش کو ناکام بنارہا ہے۔ اپنوں کی بے وفائی کا بھی شکوہ کررہا ہےبرسوں گولیوں کا جواب پتھر سے دینے والا آج اپنے ہی علاقےپر قابض اسرائیل اور صہیونی قوتوں کوپیچھے دھکیل رہا ہے۔ وہ فیض صاحب کے اسی نعرہ کی تعبیر بننے جارہا ہے۔

دوستو؛ یہ مسئلہ جذباتی نہیں مگر جذبات سے عاری بھی نہیں کیونکہ سچ تو یہ ہے کہ ہم نےاور عرب و اسلامی دنیا نے جب قابض کا قبضہ قبول کرنے کی سازش کی تو وہ مظلوم فلسطینی چیخ پڑا ۔ اسرائیل اور عرب دنیا نے خاموشی سے رشتے قائم کرنے شروع کیے تو ہم خاموش رہے۔ ہم نے بھارت اور اسرائیل کے تعلقات پر تو تشویش کا اظہار کیا مگرعرب ۔ اسرائیلی بات چیت پرہم خاموش رہے۔فلسطینیوں نے آج ایک بار پھر اس مسئلے کو زندہ کردیا ہے جس کو مکمل طور پر سردخانے میں ڈالنے کی تیاریاں مکمل تھیں۔ چین نے ایران اور سعودی عرب کو قریب لانے کی کامیاب کوشش کی تو یہ بات ’ سفید ہاتھی‘ امریکہ کو پسند نہ آئی اور اس نے اپنے ناجائز بچے کو جائز بنانے کی خاطر فلسطینیوں کو عرب دنیا میں تنہا کرنے کی کوششیں تیز کردیں۔ اگر آج کا یہ فلسطینی نوجوان کھڑا نہ ہوتا تو شاید سازش کامیاب ہوجاتی۔

ہم خاموش رہے جب شام اور لیبیا تباہ کیے گئے جو عرب دنیا میں دو ایسے ممالک تھے جو فلسطین کاز کے ساتھ کھڑے رہتے تھے، عملی طور پر ساتھ دیتے تھے۔ آج ایک ایران بچا ہے جو حزب اللہ اور حماس کےشانہ بشانہ ہے۔ ایک وقت تھا ’ نیو اسلامک ورلڈ‘ کا تصور آیاتھا جس کے پس منظر میں دوسری اسلامی سربراہی کا نفرنس لاہور میں منعقد کی گئی۔ کیا لمحہ تھا وہ جب پاکستان کے ذوالفقار علی بھٹو، سعودی عرب کے شاہ فیصل، شام کے حافظ اسد ، لیبیا کے کرنل قدافی ،فلسطین کے یاسر عرفات ہاتھ میں ہاتھ ڈالے کھڑے ہوئے، عربوں نے اس سے پہلے تیل کو بطور ہتھیار استعمال کرنے کا تجربہ کرلیاتھا۔ تیسری دنیا اور غیر جانبدارانہ تحریکیں منظم ہورہی تھیں۔ پاکستان نے اپنا ایٹمی پروگرام شروع کیا تو اسے ’ اسلامی بم‘ کا نام دیا گیا۔ امریکہ کیلئے یہ سب کچھ ناقابل برداشت تھا۔ آہستہ آہستہ ان رہنماؤں کو راستے سے ہٹانے کامنصوبہ تیار ہوا اور پھر وہ اس میں کامیاب ہوگئے کوئی پھانسی چڑھا تو کوئی قتل کروا یا گیا ،ہم خاموش رہے کیونکہ ہم امریکی اتحادی تھے اور یوں فلسطینی کاز کمزور ہوتا گیا کیونکہ آواز اٹھانے والے خاموش کر دیئے گئے۔

جنگ بہرحال کسی مسئلے کا حل نہیں ہوتی، جنگ تو بجائےخود ایک مسئلہ ہے۔ مگر یہ جنگ حقوق کی جنگ ہے ظالم کو ظالم اور ناجائز کو ناجائز کہنے کی جنگ، اپنے گھر پر قبضہ خالی کرانے کی جنگ ہے۔ ہم تو خیر کیا کسی کا ساتھ دینگے البتہ اتنا تو کر ہی سکتے ہیںکہ کسی ایسی سازش کا حصہ نہ بنیں جس کے ذریعہ شاید ہمیں بھی مجبور کیا جارہا ہے کہ ہم خاموشی سے اس ڈپلومیسی کا حصہ بنیں جس کے نتیجے میں اسرائیل،بھارت، اور چند اہم عرب ممالک کو قریب لایا جارہا ہے۔ ہم معاشی طور پر اتنے کمزور ہوگئے ہیں کہ ہمارے لیے صورتحال مشکل سے مشکل تر ہوگئی ہے۔ ایک طرف عالمی معاشی اداروں کا دباؤ تو دوسری طرف جو ممالک امداد ینے کو تیار بھی ہورہے ہیں وہ بھی اگر اس کھیل کا حصہ ہیں تو آپ کیا کریں گے۔ ہم نے اپنےآپ کو معاشی طور پر اتنا مفلوج کردیا ہے کہ ’ بھیک دینے والا بھی ’’خیرات ‘‘ دینے کو تیار نہیں ‘۔

قومیں جذبوں سے بنتی ہیں محض نعروں سے نہیں۔ ہم جاپان اور ویتنام کی مثالیں اپنے سامنے رکھیں ،جنوبی افریقہ کے سیاہ فاموں کی جدوجہد کو دیکھیں۔ہم بدقسمتی سے75 سال میں امریکی پراکسی وار کا حصہ رہے کبھی سوویت یونین کے خلاف کبھی کمیونسٹوں اور بائیں بازو کی تحریکوں کو امریکہ کو خوش کرنے کیلئے کچلا ، کبھی ’ جہاد افغانستان‘ تو کبھی ایک ایسی ’ دہشت گردی کے خلاف عالمی جنگ‘ کا حصہ بنے جس کے نتیجے میں دنیا سے دہشت گردی تو ختم نہ ہوئی البتہ نئے دہشت گردوں نے جنم لے لیا۔ آج اسلامی دنیا میں قوم ایک طرف ہے اور حکمران دوسری طرف معاشی طور پر بھی یرغمال اور سیاسی طور پر بھی ۔خیر آزادی اظہار تو عرب دنیا کا مسئلہ کبھی نہیں رہا کہ ماسوائے الجزیرہ کے، جسے بند کرنے کی بہت کوشش بھی کی گئی انہی عرب ممالک کی طرف سے ۔باقی تو خبروں کیلئے مغربی میڈیا کا ہی رخ کرنا پڑتا ہے۔

ہم کیا اور ہماری اوقات کیا کہ محض بیانات سے آگے جانے کی نہ ہمت ہے نہ طاقت۔حیران ہوں ان لوگوں پر اور خارجہ امور رکھنے والوں پر جو سمجھتے ہیں کہ ہماری خارجہ پالیسی بڑی کامیاب رہی ہے۔ حال ہی میں کراچی میں نجی شعبہ کی یونیورسٹی میں ایک کتاب کی رونمائی میں جو پاکستان کی خارجہ پالیسی پرتھی زیادہ تر تقاریر میں75سالہ پالیسی کو کامیاب قرار دیا جارہا تھا اور مجھ جیسا ،جسے اس حوالے سے اپنی کم علمی اور جہالت کا اعتراف ہے ،بس یہ سوچ رہاتھا کہ آخر ان برسوں میں ہم تنہا ہوئے ہیں کہ توانا؟ ہمارے دوستوں میں اضافہ ہوا یا کمی۔ فلسطین کو تو چھوڑیں کتنے اسلامی اور عرب ممالک ہیں جو کشمیر پر آپ کے ساتھ کھڑے ہیں، اور کیوں کھڑے ہوں جب ہم نے خود ہی اپنے پیروں پر کھڑے رہنا نہیں سیکھا۔

ہمارے دوست اور جیو کے ساتھی شاعر فاضل جمیلی نے چند سال پہلے فلسطینیوں پر مظالم کے حوالے سے ایک خوبصورت نظم’عالمی مقتول‘ لکھی تھی جس کے دواشعار آج کی صورتحال کی خوبصورت عکاسی کرتے ہیں؎

کوئی یہاں سے پرے بھی ہے جشن میں شامل

جو میرے خون کو پیتا ہے اور جیتا ہے

مگر لہو کے نشے میں یہ بھول بیٹھا ہے

کہ زخم کھا کے فلسطین ہوگیا ہوں میں