افغان مہاجرین کے ساتھ دہائیوں کی رفاقت کے دوران دیکھا یہ گیا ہے کہ افغان مہاجریں کو معاشی حیثیت طور پر تین طبقات میں تقسیم کیا جا سکتا ہے۔پہلا طبقہ ناجائز ذرائع سےدولت حاصل جمع کرکے اس قدر بلند مقام پر پہنچ چکا ہے جس کا مقابلہ پاکستان کا صف اول کا وہ کاروباری طبقہ بھی نہیں کر سکتا جن کا جدی پشتی کاروبار قیام پاکستان سے پہلے سے چلا آرہا ہے اور وہ کاروبار کی دنیا میں منفرد مقام کا حامل ہے۔افغان مہاجرین کا یہ طبقہ جس کا ماننا ہے کہ پاکستان کے وسائل استعمال کرتے ہوئے ہر جائز اور ناجائز ذریعہ سے دولت حاصل کی جائے۔یہی وہ طبقہ ہے جس نے مارکیٹ پر گرفت مضبوط کرنے کے لئے پراپرٹی کے کاروبار کو بھاری رشوت کے ذریعے کیپچر کیااور اپنے کاروبار کو ملک بھر میں پھیلانے کی غرض سے پاکستان کی شہریت حاصل کرنے کے لئے کوئی قانونی راستہ اختیار کرنے کی بجائے لاکھوں کی رشوت کے عوض نادرہ میں رجسٹرڈ دیہی اور شہری علاقوں میں مقیم ل خاندانوں کو استعمال کرتے ہوئے ان کی “Family Trees” میں گھس کر ان کے فیملی نمبرز کے تحت قومی شناختی کارڈز نبوا لئے اور پاکستانی شہریت کے ساتھ پوری دنیا میں پھیل گئے، ملک میں کرپشن کو قانونی تصور کیا جانے لگا،مہنگائی کی جڑیں پھیلنے لگیں جو رفتہ رفتہ قابو سے سے باہر ہو گئیں اور آج پاکستان معاشی بحران کا شکار ہے، اگرچہ اس معاشی بحران کی تمام تر ذمہ داری افغان مہاجرین کے اس طبقہ پرعائد نہیں کی جاسکتی بلکہ پاکستانی حکومتوں کی غلط معاشی پالیسیاں بھی اس بحران میں اضافہ کی ذمہ دار ہیں لیکن اس طبقہ کی جانب سے ڈالر کی ذخیرہ اندوزی اور اس کی افغانستان منتقلی کے کاروبار نے پاکستان کی معیشت کی تباہی میں کلیدی کردار ادا کیا۔دوسرا طبقہ جس نے غربت کی لکیر سے اوپر آنے کی کوشش میں جرائم کا راستہ اختیار کیا اور بے خوف ہر وہ جرم کیا جس کا ارادہ کرنا بھی جرائم کے زمرے میں آتا ہے۔یہی وہ طبقہ ہے جس کے جرائم کا خوف امن پسند عوام کے اعصاب پر حاوی ہو گیا جس نے معاشرے میں افغان مہاجرین کے لئے بیزاری اور عوام کےدلوں میں نفرت پیدا کی اورانجام کار حکومت پاکستان نے غیر قانونی طور پر آباد افغانوں کو پاکستان سے نکالنے کا فیصلہ کیا۔تیسرا طبقہ جو غربت کی انتہائی نچلی لکیر سے بھی نیچے زندگی گزار رہا ہے اور اس طبقہ کو اپنے زیر کفالت کنبہ کے لئے ایک وقت کی خوراک میسر نہیں جس کے لئے وہ انتہائی مشقت کرتا ہے، کوڑا کرکٹ جمع کرکے فروخت کرنا ان کا معمول کا ذریعۂ رزق ہے جس کے لئے گھر کا ہر فرد اپنا حصہ ڈالتا ہے یہاں تک کہ ان کے کنبہ کا بچہ جو چلنے کےابتدائی مرحلے میں ہوتا ہے، کندھے پر چھوٹی سی بوری ڈال کر علی الصبح روٹی کمانے کے مشن میں شامل ہوتا ہے۔انتہائی کم معاوضہ پر سڑکوں، پائپ بچھانے کے لئے زمین کی کھدائی کرنے کے علاوہ مشکل مزدوری کرکے رزق کمانا ہی کا ذریعۂ رزق ہے۔وہ طبقہ ہے جو رزق حلال پر پختہ یقین رکھتا ہے اور مشقت کے اسی راستے پر چلنے کو ترجیح دیتا ہے۔ ادھر قانون نافذ کرنے والے اداروں نے عوام کو جرائم پیشہ افغانیوں سے بچانے کے لئے کئی منصوبے بنائے اور ان پر عمل درآمد بھی کیا لیکن کوئی حکمت عملی کارگر ثابت نہیں ہوئی۔قانون نافذ کرنے والے اداروں کی نصف سے زیادہ قوت صرف عوام کو جرائم پیشہ افغانیوں سے تحفظ فراہم کرنے میں صرف ہوجاتی ہے اس کے باوجود افغان کرمینلز عوام کو لوٹنے کے لئے اپنا مقررہ ہدف کسی رکاوٹ کے بغیر حاصل کرلیتے ہیں اس کی وجہ پولیس کا غیر پیشہ ورانہ رویہ اور کمزورحکمت عملی ہے۔اگرچہ حکومت غیر قانونی طور پر مقیم افغان مہاجرین کے خلاف کریک ڈاؤن میں سنجیدہ دکھائی دیتی ہے لیکن پولیس کی صفوں میں تاثر عام ہے کہ چھاپہ مار ٹیموں میں بعض اہلکار افغانیوں کی بجائے ان کے ڈالروں کی تلاش میں رہتے ہیں جبکہ گشتی پولیس کی اپنی ترجیحات ہیں۔وہ کسی مشکوک شخص کوبھانپنے کی بجائے اس کی حیثیت کا تخمینہ کرنے پر اپنی تمام تر توجہ مرکوز رکھتی ہے۔
بشکریہ روزنامہ جنگ