Tag Archives: sohail warraich

پختون بازی لے گئے۔۔۔



ایسے میں کہ جب پنجابی سیاست دان انتقام کی آگ میں جل بھن رہے ہیں، اور ایسے میں کہ جب سندھی سیاست دان چوٹ لگنے کا احساس ہونے کے باوجود پہل کرنے کو تیار نہیں ہیں، اسی طرح ایسے میں کہ جب بلوچستان کے اہل سیاست گہرے کچوکے لگنے کےبعد بھی حل تک نہیں پہنچ پا رہے ،ایسے میں پختونوں کو داد دینی پڑے گی کہ وہ بازی لے گئے۔

محاذ آرائی کے شدید ترین ماحول سے گزر کر آنے کے باوجود اسد قیصر اور علی محمد خان کا اپنے سیاسی حریف مولانا فضل الرحمن کےگھر جانا، تدبر اور عقلمندی کی نشانی ہے اور دو متحارب فریقوں میں سیاست پر بات ہوئی یا نہ ہوئی، ان کا آپس میں کیمروں کے سامنے ملنا ہی بہت بڑا واقعہ ہے۔ اسے سیاسی ماحول میں تبدیلی کا نقطہ آغاز سمجھنا چاہئے ۔

کہنے کو تو کہا جاتا ہے کہ پنجابی سب سے سیانے ہیں باقی قومیتوں میں سے سوچ اور ترقی میں آگے ہیں مگر تاریخ یہ بتاتی ہے کہ جب سیاسی مخالفت کے معاملات کا حل نکالنا ہوتو پنجاب کے اہل سیاست پہل نہیں کرپاتے، مصلحت اور مفادات کا شکار رہتے ہیں۔

سندھیوں کے بارے میں انکے سیاسی حریف الطاف حسین نے ایک بار مجھے کہا تھا کہ سندھی سب سے عقلمند سیاست دان ہیں ان سے ڈیل کرنا اور ان سے ڈیل لینا سب سے مشکل ہے۔سندھ کی بڑ ی پارٹی کے سربراہ زرداری صاحب اور ان کا چیئرمین صاحبزادہ بلاول حالات کی سختی کا ادراک تو رکھتے ہیں مگر ابھی بھی وہ مقتدرہ کے ساتھ اپنے معاملات کو ٹھیک کرنے کو ترجیح دے رہے ہیں۔

بلوچستان پے درپے آپریشنوں کے بعد سے زخم خوردہ ہے وہاں کی سیاست نارمل نہیں بلکہ ابنارمل ہے، ایسے میں ان سے توقع کرنا ہی عبث ہے کہ وہ متحارب سیاسی فریقوں کے درمیان جمی برف کو توڑ سکیں۔ پختونوں کے بارے میں مشہور کر دیا گیا ہے کہ اسلحہ انکا زیور ہے غصہ انکی ناک پر دھرا رہتا ہے وہاں معاملات مکالمے سے نہیں گولی سے طے کئے جاتے ہیں مگر پی ٹی آئی کے سرکردہ رہنمائوں کی مولانا فضل الرحمن سے ملاقات نے پختونوں کے بارے میں اس جھوٹے تاثر کو تار تار کر دیا ہے اس ملاقات نے تو ثابت کیا ہے کہ لڑائی شدید بھی ہو تو پختونوں کوصلح کرنے کا فن آتا ہے۔

یہ مثبت پیشرفت دیکھ کر اور سن کر یہ خیال ضرور آیا کہ کاش یہ پہلے ہو جاتا۔ سیاست دان مل بیٹھتے ، الیکشن کی تاریخ کا تعین ہو جاتا تو نہ 9مئی کا واقعہ ہوتا اور نہ تحریک انصاف مشکلات کا شکار ہوتی۔

اگر ماضی کے واقعات کی راکھ کو کھنگالا جائے تو جس وقت کھلاڑی خان کو یہ مشورہ دیا جا رہا تھا کہ اہل سیاست کے ساتھ میز پر بیٹھ جائو اس وقت بہت سے لوگوں کو دیوار پہ لکھا صاف نظر آ رہا تھا کہ اگر مصالحت نہ ہوئی تو تحریک انصاف اور مقتدرہ میں ایک روز تصادم ہو جائےگا۔

تاریخ کو درست رکھنے کے لئے یہ بتانا ضروری ہے کہ راقم ان تین ملاقاتوں میں موجود تھا جن میں کھلاڑی خان کو آمادہ کرنے کی کوشش کی گئی کہ وہ سیاست دانوں کے ساتھ مذاکرات کی میز پر بیٹھ کر مسائل حل کریں، ایک ملاقات میں یہ راقم اور جناب مجیب الرحمن شامی شامل تھے دوسری ملاقات امتیاز عالم اور سول سوسائٹی کے نمائندگان کے ہمراہ ہوئی اور تیسری ملاقات لاہور اور اسلام آباد میں اینکرز کے ہمراہ ہوئی، کھلاڑی خان صاف کہتے رہے کہ میں ان چوروں کے ساتھ نہیں بیٹھوں گا۔

کھلاڑی خان کے سوا تحریک انصاف کے کئی رہنمائوں کو بھی یہ نظر آگیا تھا کہ تصادم کے نتیجے میں نقصان انکی جماعت کا ہی ہوگا مگر ان رہنمائوں میں سے کوئی بھی کھلاڑی خان سے اختلاف کی جرات نہیں کر سکتاتھا ۔آج تحریک انصاف کے جو حالات ہیں ان میں اپنے حریفوں کے ساتھ ہاتھ ملانے سے انکار سب سے بڑی وجہ ہے، یہی وہ رویہ تھا جس کی وجہ سے اسمبلیوں کو خیر باد کہا گیا۔

پنجاب اور کے پی کی اسمبلیاں توڑ دی گئیں حالانکہ اگر یہ اسمبلیاں رہتیں تو نہ صرف دو صوبوں میں انکی حکومت قائم رہتی بلکہ انکا اپنے سیاسی حریف اور مقتدرہ دونوں سےنامہ و پیام بھی جاری رہتا۔ سب راستے توڑ کر سڑکوں پر آنا اچھی حکمت عملی نہیں تھی مگر اب تحریک انصاف اور مولانا فضل الرحمن کی ملاقات دیرآید درست آید کے مصداق ماضی کی تلخیاں مٹانے میں اہم کردار ادا کرسکتی ہے۔

اس اہم پیش رفت کے بعد اگلا سوال یہ ہوگا کہ کیا تحریک انصاف اور اسکی مخالف سیاسی جماعتوں میں الیکشن سےپہلے مصالحت ہو گی یا الیکشن کے بعد؟ تحریک انصاف کی خواہش یہ ہو گی کہ مصالحت الیکشن سے پہلے ہو تاکہ اس مصالحت کے نتیجے میں انہیں لیول پلینگ فیلڈ مل سکے مگر قرائن یہ بتاتے ہیں کہ مقتدرہ اور نونی الیکشن سے پہلے کھلاڑی خان سے کسی مصالحت پر رضامند نہیں ہونگے وہ چاہیں گے کہ الیکشن میں تحریک انصاف کو شکست دیکر اور خود حکومت سنبھال کر پی ٹی آئی سے مصالحت کی جائے۔

مولانا فضل الرحمٰن سے ہونے والی مصالحتی ملاقات ان انصافیوں کے لئے بری خبر ہے جو انتقام، گالیوں اور نفرت کو مسائل کا حل سمجھنے لگ گئے ہیں، انہیں بھول چکا ہے کہ تحریک انصاف ایک سیاسی اور جمہوری جماعت ہے جس نے آئینی نظام کے اندر ہی رہ کر کام کرنا ہے۔

کھلاڑی خان کبھی نہیں چاہے گا کہ اسکی جماعت دہشت گرد یا تخریب کار گروہ بن کر ریاست کے خلاف مزاحمت پر اتر آئے۔ماضی میں الذوالفقار سے لیکر طالبان تک ایسے تمام انتہا پسند گروہ مقتدرہ سے شکست کھا چکے ہیں اس لئے تحریک انصاف کے لئے پرامن جمہوری جدوجہد اور الیکشن کے ذریعے اقتدار لینا ہی واحد راستہ ہے۔

پاکستان جیسے ملک میں بغاوت اور انقلاب کا امکان بھی دور دور تک نظر نہیں آتا اس لئے تحریک انصاف کو حقائق کو سمجھتے ہوئے اپنی پالیسی بنانی ہو گی۔سوچا نہ تھا کہ اسد قیصر اور علی محمد خان کے ہاتھ یہ سعادت آئے گی کہ وہ روٹھی اور دلبرداشتہ تحریک انصاف کو دوبار مین اسٹریم سیاست میں لانے کی راہ ہموار کرینگے۔

تحریک انصاف کو چاہئے کہ چودھری پرویز الٰہی اور شاہ محمود قریشی کو مقتدرہ کے ساتھ مذاکرات کا مینڈیٹ دے اور اپنا یہ پیغام پہنچائے کہ وہ پرامن جمہوری سیاست کرنا چاہتے ہیں 9مئی کا واقعہ ایک بڑی غلطی تھی جس سے سبق سیکھ کر وہ آئندہ کی سیاست میں نیا راستہ بنانا چاہتے ہیں…..

بشکریہ روزنامہ جنگ

بہتے خون کا مزہ لینے والے



تاریخ کے اوراق پلٹیں توپتہ چلتا ہے کہ کئی دفعہ معاشرے ابنارمل ہو جاتے ہیں، ہر دل میں نفرت بھر جاتی ہے، تشدد، گالی گلوچ، ہر شخص پر شک، الزامات اور سکینڈل عام ہو جاتے ہیں۔ پیٹرایکرائڈ کی کتاب’ لندن ‘میں لکھا ہے کہ آج کے مہذب اور تہذیب یافتہ شہر لندن میں 16ویں اور 17ویںصدی میں ایک وقت ایسا بھی تھا کہ ہر گلی محلے میں روز لڑائیاں ہوتی تھیں۔ تشدد، مارپیٹ اور گالیوں کا عام رواج تھا ۔ ابنارمیلٹی اس حد تک زیادہ بڑھ چکی تھی کہ لوگ تشدد اور مارپیٹ کو دیکھ کر محظوظ ہوتے تھے، جوش اور جنون میں نعرے لگاتے تھے، اسی زمانے میں ریچھ کا وہ تماشا مشہور تھا جس کے دوران ریچھ کو ڈنڈے سے مارا جاتا تھا اور وہ چیختا چلاتا تھا، تشدد کے دلدادہ عوام خوشی سے چیختے تھے اور چلاتے تھے۔ لندن شہر کی تاریخ میں یہ واقعہ بھی درج ہے کہ اس زمانے کے تھیٹر پر بھی تشدد کو گلیمرائز کیا جاتا تھا، لوگوں کی مارپیٹ اور تشدد سے تسلی نہ ہوئی تواسٹیج پر خون بہتا ہوا دکھایا جانے لگا۔ لوگوں کا جنون اور جوش اس حد تک بڑھا کہ ایک بار اسٹیج پر واقعی قتل کا منظر اور بہتا ہوا خون دکھایا گیا، اس وقت کے ابنارمل شائقین نے اس کو پسندیدہ ترین تھیٹر قرار دیا ۔ یہ شائقین بہتے خون کا مزہ لیتے، جوش اور جنون سے نعرے مارتے اور خوش ہوتے۔

تضادستان کے آج کے شہری بھی نفرت، تشدد اور انتقام میں پل رہے ہیں، انہیں احساس نہیں ہورہا کہ وہ نارمل انسان سے ابنارمل انسانوں میں تبدیل ہو چکے ہیں۔ کل کے لندن اور آج کے تضادستان میں بہت مماثلت ہے۔ یہاں نونی چاہتے ہیں کہ عمران خان کو تُن دیا جائے، نشان عبرت بنا دیا جائے، نہ اسے جیل سے نکالا جائے اور نہ اسے الیکشن میں حصہ لینے دیا جائے۔ دوسری طرف انصافی چاہتے ہیں کہ نواز شریف کو جیل میں ڈال دیا جائے اور اس کے حامیوں کو بولنے بھی نہ دیا جائے۔ یہ تفریق اور تضاد یہیں ختم نہیں ہوتا جنرل باجوہ اور انکے قبیل کے لوگ یہ کہتے نہیں تھکتے کہ اگر سینٹ، پارلیمان اور صوبائی اسمبلیوں کے ہزار بارہ سو اراکین کو مار دیا جائے تو ملک کے معاملات ٹھیک ہو جائیں گے۔ دوسری طرف کے انتہا پسند اس حد تک چلے جاتے ہیں کہ فوج کو ختم کرنا ہی ملکی مسائل کا حل ہے۔ نفرت کا یہ سلسلہ اس قدر گہرا ہے کہ فوج کے بارے میں تصور ہے کہ وہ عوام کو بلڈی سویلین سمجھتی ہے اور دوسری طرف کئی سویلین فوج کے جرنیلوں کو سوچ اور سمجھ سے عاری خیال کرتے ہیں۔ ایک وقت تھا کہ میڈیا کی بڑی عزت تھی مگر نفرت کے اس ماحول میں میڈیا بھی ایسے ہی حالات کاشکار ہے۔ انصافی سرعام کہتے ہیں کہ میڈیا بِک چکا ہے، ہر کسی پر الزام لگا دیتے ہیں کہ وہ لفافہ ہے۔ فیس بک اور ٹویٹر پر پڑھے لکھے لوگ ایک دوسرے کو گالیاں لکھ رہے ہیں۔ بالکل وہی ابنارمیلٹی دیکھنے میں آ رہی ہے جو لندن میں بہتے خون کو دیکھ کر مزہ لینے والوں میں تھی۔

یاد کریں کہ کبھی یورپ کے ممالک میں نفرت، دشمنی، عناد یا ایک دوسرے کو مٹانے کی خواہش موجودتھی، فرانس اور انگلینڈ کے درمیان سو سال تک جنگ ہوتی رہی مگر ایک وقت ایسا آیا کہ یورپ میں یہ احساس جاگا کہ نفرت کی بجائے امن اور محبت کا آپشن اپنایا جائے، تجویز یہ آئی کہ فرانس اور انگلینڈ کے درمیان زیر آب انگلش چینل بنانے کے بارے میں منصوبہ بندی کی گئی اس معاملے میں دوسری جنگ عظیم کے ہیرو فیلڈ مارشل منٹگمری سے انگلش چینل بنانے کے حوالے سے رائے طلب کی گئی۔ فیلڈ مارشل منٹگمری نے فوراً جواب دیا کہ فرانسیسی بڑے سازشی اور ناقابل اعتبار ہیں اگر انگلش چینل بن گیا تو فرانسیسی فوج رات کے اندھیرے میں اس میں آ کر چھپ جائے گی اور صبح انگلینڈ پر قبضہ کرلے گی۔ آج کی نئی دنیا میں گزشتہ کئی دہائیوں سے کامیابی سے چلتے انگلش چینل کو دیکھ کر فیلڈ مارشل کی سوچ پر رونا آتا ہے۔ نفرت میں انسان صحیح طرح سے سوچ ہی نہیں پاتا۔ آج کے تضادستان میں لوگ نفرت سے بھرے ہوئے ہیں اس لئے وہ جو بھی سوچ رہے ہیں وہ مسائل کو حل نہیں کرے گا بلکہ اور پیچیدہ بنا دے گا۔

فرض کرلیں کہ نونی اقتدار میں آ جاتے ہیں، انصافی لیڈر اور اس کی جماعت کو جیلوں میں رکھتے ہیں، مقدمات چلاتے ہیں،سزائیں سناتے ہیں اور اپنے سارے بدلے چکاتے ہیں تو کیا اس سے ملک کا سیاسی بحران ختم ہو جائیگا؟ ہر گز نہیں۔ اب دوسرا رخ دیکھ لیں انصافیوں نے نونیوں کے لیڈر کو جیل میں رکھا، 2018ء کا الیکشن اس کی اسیری کے دوران ہوا، اس وقت فوج اور انصافی ایک صفحے پر تھے کیا وہ نونیوں کو سیاسی طور پر ختم کر سکے؟ ہر گز نہیں۔ ایک اور پہلو پر غور کرلیں کہ اسٹیبلشمنٹ چاہتی ہے کہ ملک سے سیاسی اور معاشی بحران ختم ہو۔ کیا انصافیوں کو جیلو ںمیں رکھ کر سیاسی بحران ختم ہو جائیگا۔ ہرگز نہیں، بلکہ یہ اور بڑھے گا۔ انصافیوں کی اپروچ بھی سراسر غلط ہے، کبھی فوج کو گالی ، کبھی میڈیا پر الزام تراشی، کبھی نونیوں کیخلاف نفرت انگیز رویہ۔ کیا اس سے وہ اقتدار حاصل کرلیں گے؟ ہرگز نہیں۔ غصے سے بھرے اس ماحول میں دنیا کی طرف دیکھنا ہوگا کہ انہوں نے نفرت، انتقام اور گالیوں سے اپنے مسائل حل کئے یا مصالحت اور مفاہمت سے۔ یورپ نے عالمی جنگیں لڑنے کے بعد بالآخر اپنے دشمنوں جرمنی اور جاپان کی تعمیر نو میں حصہ لے کر مفاہمت اور مصالحت کا راستہ اپنایا۔ ہمیں بھی تضادستان کے اندر اگر تضادات کو ختم کرنا ہے تو مفاہمت اور مصالحت کا رویہ اپنانا ہوگا۔ پاکستان کی واحد مشترکہ اور متفق علیہ دستاویز آئینِ پاکستان ہے، یہ آئین ملک کے تمام صوبوں، تمام جماعتوں اور تمام مکاتبِ فکر نے مصالحت اور مفاہمت سے بنایا، ملک اسی آئین کے تحت چلنا چاہیے، فوج بھی اسی آئین پر حلف لیتی ہے اسے بھی اپنے تمام فیصلے اسی کے تحت کرنے چاہئیں۔

سب سے پہلے تو سیاسی جماعتوں اور ان کے کارکنوں کو نفرت اور انتقام کے رویے ترک کرنا ہوں گے ، ایک دوسرے کو برداشت کرنا ہوگا، دنیا میں کبھی ایسا نہیں ہوا اور نہ ہی ہوگا کہ پوری قوم ہی ایک جماعت کی حامی بن جائے اور اس کے سارے مخالف صفحہ ہستی سے مٹ جائیں، جمہوریت کی ماڈرن تشریح بھی یہی ہے کہ اکثریت کی ایسی حکومت جو اقلیت کے حقوق تسلیم کرے۔ اگر آپ اپنے مخالف کو زندہ رہنے اور اسے اپنی رائے کا حق رکھنے کو تسلیم نہیں کرتے تو آپ جمہوری نہیں بلکہ فاشسٹ سوچ کے مالک ہیں۔ اہل سیاست ایک دوسرے کو برداشت کرلیں تو پھر اسٹیبلشمنٹ اور سیاستدانوں کو بھی پاکستان کو آگے بڑھنے کیلئے مفاہمت اور مصالحت کے راستے پر چلنا ہو گا۔ منتخب حکومتیں گرانا اور نئے نئے تجربے کرنا بیکار ثابت ہوا ہے، سیاست کو نیچرل انداز میں چلنے دیں بالآخر بنگلہ دیش اور بھارت کی طرح سیاستدان ملک کوبہتر طریقے سے چلانا شروع کردیں گے، حکومت چلانا سیاست دانوں کا حق ہے، دنیا بھر میں اس حق کو تسلیم کیا جاتا ہے، آئینِ پاکستان بھی اہلِ سیاست کو یہ حق دیتا ہے۔ پاکستان کی سلامتی اور استحکام کا راستہ آئین کی حکمرانی ہی میں ہے۔

بشکریہ روزنامہ جنگ

وہ آکر کیا کرے؟



ایسا لگتا ہے کہ پسِ پردہ سب کچھ طے ہو چکا ہے وہ اسی لئے واپس آ رہا ہے کہ اسے اقتدار تک کا راستہ واضح نظر آ رہا ہے۔معاملات صرف اس کے اور اسٹیبلشمنٹ کے درمیان ہی طے نہیں ہوئے بلکہ اس حوالے سے پاکستان کے دوست ممالک کی معاونت بھی شامل نظر آتی ہے، یوں محسوس ہوتا ہے کہ دوست ممالک نے پاکستان کی مالی امداد کا جو اشارہ دے رکھا ہے اس کے لئے شرط یہ باندھی گئی ہے کہ ایسا سیاسی چہرہ لایا جائے جو لانگ ٹرم معاشی پالیسی کی ضمانت دے۔ میری رائے ہے کہ اگر یہ سب کچھ طے نہ ہوا ہوتا تو وہ واپس ہی نہ آتا۔ یہ بھی صاف نظر آر ہا ہے کہ اگر وہ 21 اکتوبر کو واپس آگیا تو وہ جیل نہیں جائے گا بلکہ اسے ریلیف دے کر سیاسی میدان میں فری ہینڈ دیا جائے گا۔ یہ بھی تقریباً طے ہے کہ اگر وہ واپس آتا ہے تو پھر الیکشن کروائے بغیر کوئی چارہ نہیں ہوگا اور جب ملک میں الیکشن کی سیاست ہوگی تو پھر تحریک انصاف اور اس کے چیئرمین کے بارے میں بھی فیصلے جلد از جلد کرنا پڑیں گے۔

عمومی تاثر یہ ہے کہ وہ واپس آکر اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ مل کر تحریک انصاف اور اس کے چیئرمین کے خلاف جاری منتقمانہ پالیسیوں کا حصہ بنے گا اور جوکچھ خود اس کے اور اس کی پارٹی کے ساتھ ہوا تھا، اس کا بدلہ لے گا۔ میری ذاتی رائے ہے کہ اگر انتقام لینا ڈیل کا حصہ ہے تو اُسے یہ نہیں کرنا چاہئے اُسے انتقام اور بدلے کی سیاست کا خاتمہ کرنا ہوگا، جو کچھ تحریک انصاف کے ساتھ ہو رہا ہے اسے روکنا ہوگا۔ میری یہ رائے نئی نہیں ہے، میں 19 اگست 2022ء کو لندن میں میاں نواز شریف سے ملا تھا اور یہ عرض کیا تھا کہ آپ تین بار وزیر اعظم پاکستان رہے ہیں ملک کے سب سے سینئر اور تجربہ کار سیاستدان ہیں آپ کو چیئرمین پی ٹی آئی کے خلاف انتقام کا حصہ نہیں بننا چاہئے۔ میاں نواز شریف نے میری رائے سے اتفاق نہ کیا اور کہا کہ تحریک انصاف کے چیئرمین سیاستدان نہیں بلکہ وہ تو سیاست اور سیاست دانوں کے سرے سے ہی مخالف ہیں اب جبکہ وہ خود اپنی ہی پالیسیوں کی سزا بھگت رہے ہیں تو ہمیں ان کو بچانے کی کیا ضرورت ہے۔میں نے اس ملاقات میں بھی میاں صاحب کی رائے سے اختلاف کیا تھا اور آج بھی اسی رائے کا اظہار کر رہا ہوں کہ اگر ملک میں جمہوریت اور پارلیمانی سیاست کو چلانا ہے تو انتقام کا سلسلہ بند کیا جائے، جب پی ٹی آئی برسراقتدار تھی تو نواز شریف اور ان کی جماعت جیلوں میں بند تھی اور ان سے انتقام لیا جا رہا تھا، میں اس وقت بھی بار بار تحریک انصاف کی حکومت کی توجہ اس طرف دلاتا رہا کہ انتقام کا یہ سلسلہ بند ہوناچاہئے وگرنہ کل آپ کو بھی اس کا نتیجہ بھگتنا پڑے گا۔ چنانچہ وہی ہوا جس کا ڈر تھا ،اب تحریک انصاف اور اس کے چیئرمین کے خلاف انتقامی کارروائیاں جاری ہیں اور نونی خوش ہیں کہ ان کا بدلہ پورا ہورہا ہے، اگر انتقام کا یہ سلسلہ اسی طرح جاری رہا تو پھر سیاست اور جمہوریت کی بحالی کبھی بھی ممکن نہیں ہوگی، اسی لئے بطور ایک ادنیٰ طالب کےعلم میری خواہش ہے کہ وہ جو زیادہ تجربہ کار ہے، وہ جو چوتھی بار وزیر اعظم بننے والا ہے، وہ پہل کرے اور انتقام کا یہ دائرہ توڑے، ملک کی سیاسی تقسیم کی بجائے مفاہمت کا ڈول ڈالا جائے، کیا ہی اچھا ہو کہ وہ آئے اور آ کر کہے کہ میرے مخالف کو جیل سے نکالو اور اگر ایسا ممکن نہ ہو تو جب اسے اقتدار ملے تو پہلا کام یہ کرےکہ اپنے مخالف کو جیل سے نکال کر اس سے مفاہمت کرے۔ اگر اس نے ایسا نہ کیا تو نہ وہ کامیاب ہوگا اور نہ ہی پاکستان آگے چل سکے گا۔

یادش بخیر چیئرمین تحریک انصاف سے ان تین ملاقاتوں کا ذکر بھی ضروری ہے جو 9مئی سے پہلے ہوئیں پہلی ملاقات میں مجیب الرحمٰن شامی اور یہ کالم نگار موجود تھے۔ دوسری ملاقات امتیاز عالم اور ان کےوفد کے ہمراہ ہوئی۔ تیسری ملاقات میں اسلام آباد اور لاہور کے نمایاں ٹی وی اینکرز موجود تھے۔ ان تینوں ملاقاتوں کا محور و مرکز یہی تھا کہ تحریک انصاف حکومت میں شامل سیاسی جماعتوں سے مذاکرات کرے۔ چیئرمین تحریک انصاف کا موقف تھا کہ وہ ان کرپٹ سیاسی حکمرانوں کے ساتھ مذاکرات نہیں کریں گے انہیں دوسرا مشورہ یہ دیا گیا تھا کہ آپ اسٹیبلشمنٹ سے اپنے بگڑے ہوئے معاملات کو درست کریں، ان کا کہنا تھا کہ وہ اسٹیبلشمنٹ سے رابطہ کرتے ہیں مگر ادھر سے کوئی مثبت جواب نہیں ملتا۔ انہیں مشورہ دیا گیا کہ آپ یک طرفہ طور پر اعتماد سازی کے اقدامات شروع کردیں، اسٹیبلشمنٹ جب اعتماد سازی کے اقدامات دیکھے گی تو لازماً فاصلے کم ہونے شروع ہو جائیں گے۔ بدقسمتی یہی ہے کہ ان تین ملاقاتوں کا کوئی مثبت نتیجہ برآمد نہ ہوا اور پھر آخر وہی ہوا جس کا ڈر تھا یعنی 9مئی کا واقعہ جس میں اسٹیبلشمنٹ اور تحریک انصاف میں تصادم ہوگیا۔ اس واقعے سے تحریک انصاف کو تو جو نقصان ہوا سو ہوا ملک میں سیاست، جمہوریت، میڈیا کی آزادی اور انسانی حقوق کی جگہ کم ہوگئی اور اسٹیبلشمنٹ نہ صرف طاقتور ہوئی بلکہ اسے جمہوری جگہ پر اپنا قبضہ جمانے کا بیانیہ مل گیا۔

میری رائے میں ملک کو آگے چلانا ہے تو نفرت کی سیاست کو چھوڑنا ہوگا، سیاست میں ایک دوسرے سے نفرت اور ایک دوسرے کو برداشت نہ کرنے کے رویوں نے معاشرے کو بے یقینی اور ناامیدی کے کنارے پر لاکھڑا کیا ہے،تحریک انصاف سے کوئی لاکھ اختلاف کرے مگر وہ ایک پاپولر سیاسی جماعت ہے اسے دبا کر ملک اور جمہوریت کا کوئی بھلا نہیں بلکہ نقصان ہوگا۔ دوسری طرف چیئرمین تحریک انصاف کو بھی نفرت، غصے اور انتقام کو خیرباد کہنا ہوگا، اپنے مخالفین اور ان کے مینڈیٹ کو تسلیم کرنا ہو گا، ملک کو آگے چلانا ہے، جمہوریت اور آئین کو برقرار رکھنا ہے تو اس راہ کو اپنانا ہو گا۔ ہم نے گالیوں اور احتساب کی سیاست بہت دیکھ لی، نہ اس سے ملک کا کوئی سیاسی فائدہ ہوا اور نہ ہی کوئی معاشی فائدہ، بلکہ اس سے معاشرہ تقسیم ہوا ہے۔ اب وقت آگیا ہے کہ ساری سیاسی قوتیں اس عمل کی راہ روکیں اور اس حوالے سے سب سے بڑا کردار اس کا ہے جو چار سال بعد واپس آ رہا ہے اگر وہ انتقام میں چلتا رہا تو مایوسی اور بڑھے گی، ہاں البتہ اس نے مفاہمت کی راہ اپنائی تو ملک میں امید کی روشنی نظر آنا شروع ہو جائے گی۔

بشکریہ روزنامہ جنگ