Tag Archives: veto power

امریکا اور برطانیہ نے غزہ میں جنگ بندی سے متعلق روسی قرارداد ویٹو کر دی



ماسکو(این این آئی)روس کی طرف سے اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں غزہ میں اسرائیل اور حماس کے درمیان لڑائی میں انسانی بنیادوں پر جنگ بندی کا مطالبہ کرنے سے متعلق قرارداد پر ماسکو 15رکنی کونسل میں کم از کم مطلوبہ نو ووٹ حاصل کرنے میں ناکام رہا۔غیرملکی خبررساں ادرے کے مطابق قرارداد کے مسودے کے حق میں پانچ اور مخالفت میں چار ووٹ آئے جبکہ چھ ارکان نے ووٹنگ میں حصہ نہیں لیا۔

روس سمیت چین، متحدہ عرب امارات، موزنبیق اور گیبون نے قرارداد کے حق میں ووٹ ڈالا جبکہ امریکہ، فرانس، برطانیہ اور جاپان نے قرارداد کی مخالفت میں ووٹ دیا۔ چھ ملکوں البانیا، برازیل، ایکواڈور، گھانا، مالٹا اور سوئٹزر لینڈ نے ووٹنگ میں حصہ نہیں لیا۔روس نے مسودہ متن کی تجویز پیش کی، جس میں قیدیوں کی رہائی، انسانی امداد کی فراہمی اور ضرورت مند شہریوں کے محفوظ انخلا کا بھی مطالبہ کیا گیا تھا۔

روسی مندوب واسیلی نیبنزیا نے سلامتی کونسل کے سامنے اپنی تقریر میں کہا کہ اس منصوبے کا مقصد ایک باعزت انسانی جنگ بندی کا مطالبہ کرنا ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ سلامتی کونسل کے اراکین نے اس منصوبے کے بارے میں کوئی تعمیری تجاویز پیش نہیں کیں۔روس کے مندوب نے سلامتی کونسل کو مغربی دنیا کی خود غرضی کا یرغمال قرار دیا۔

سلامتی کونسل میں امریکی نمائندہ لنڈا تھامس گرین فیلڈ نے کہا کہ غزہ کے شہریوں کو حماس کے اقدامات کا خمیازہ نہیں بھگتنا چاہیے۔امریکی مندوب نے روسی اقدام پر تنقید کرتے ہوئے کہا کہ قرارداد کے مسودے میں حماس کی تحریک کا حوالہ نہیں دیا گیا اور نہ ہی اس کی مذمت کی گئی ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ یہ منافقت اور ناقابل دفاع پوزیشن ہے۔

برطانوی مندوب نے کہا کہ روسی مسودہ قرارداد کونسل میں سنجیدہ اتفاق رائے حاصل کرنے کی سنجیدہ کوشش نہیں تھی۔ انہوں نے مزید کہا کہ ہم ایسی قرارداد کی حمایت نہیں کر سکتے جس میں اسرائیل کے خلاف حماس کے حملوں کی مذمت نہ ہو۔

اس موقعے پر فلسطینی مندوب ریاض منصور نے کہا کہ سلامتی کونسل فلسطینیوں کے قتل عام کو جائز قرار دیتی ہے اور مقتول کو مورد الزام ٹھہراتی ہے۔ ہم کسی شہری کا قتل نہیں چاہتے، خواہ فلسطینی ہو یا اسرائیلی۔اقوام متحدہ میں فلسطینی مندوب نے مزید کہا کہ اسرائیل نے غزہ میں کسی پر رحم نہیں کیا اور وہ غزہ میں قتل عام کر رہا ہے اور مرنے والوں میں زیادہ تر خواتین اور بچے ہیں۔