Tag Archives: yasir pirzada

مجھے میری ’ایپس‘ سے بچاؤ



کسی گھر میں ایک شخص نے بارہ چودہ سال کی بچی کو دبوچ رکھا ہے ، وہ خوف کے عالم میں رو رہی ہے ، وہ بچی کو پلنگ پر پھینکتا ہے ،بچی بھاگ کر کمرے میں چھپنے کی کوشش کرتی ہے، وہ شخص الماری سے کلاشنکوف نکالتا ہے ،وہاں موجود دو لوگ اُس شخص کو روکنے کی کوشش کرتے ہیں مگر بظاہر وہ اُن کے قابو نہیں آتا۔

یہ اُس لمحے کی فوٹیج ہے جب سیاحوں سے بھری ہوئی بس اٹلی کے شہر وینس کے قریب ایک پُل سےنیچے گر گئی جس کے نتیجے میں بچوں سمیت اکیس افراد ہلاک ہوگئے۔ مرنے والے سیاحوں کی لاشیں سڑک کے کنارے پڑی ہیں۔میکسیکو کے ایک گرجا گھر میں لوگ عبادت کیلئے جمع ہیں ، پادری خطبہ دے رہا ہے کہ اچانک گرجےکی چھت گرجاتی ہے ، درجنوں افراد زخمی ہوجاتے ہیں، تین بچے مرجاتے ہیں، اُن بچوں کے والدین دھاڑیں مار مار کر رو رہے ہیں۔

یہ کراچی کے کسی بازار کا منظر ہے، ایک شخص ریڑھی سے کوئی چیز خرید رہا ہے ، دو نوجوان موٹر سائیکل پر آتے ہیں اور بندوق کے زور پر اُس کا موبائل فون اور پرس چھین لیتے ہیں، وہ بغیر کسی مزاحمت کے چیزیں اُن کے حوالے کر دیتا ہے مگر وہ جاتے جاتے اسے گولی ماردیتے ہیں۔ بعد میں پتا چلتا ہے کہ مرنے والا غریب آدمی تھا اور دو بچیوں کا باپ تھا۔

اگر آپ انسٹا گرام، ایکس(سابقہ ٹویٹر) ، فیس بک یا ٹِک ٹاک وغیرہ استعمال کرتے ہیں تواِس نوعیت کے واقعات کی فوٹیج آپ کی نظروں سے ضرور گزرتی ہوگی۔جیسے کہ سڑک کے کنارے کھڑے آدمی کے سر پر کھمبا گرگیا، کسی راہ چلتے شخص کو گولی لگ گئی ،کوئی ریل کی پٹری پار کرتا ہوا ٹرین کے نیچے آکر کُچلا گیا،کہیں کسی خاندان کے تمام افراد پکنک مناتے ہوئےدریا میں ڈوب کر مر گئے،زلزلے کے نتیجے میں عمارتیں زمین بوس ہوگئیں اور لوگ چیخ و پکار کرتے ہوئے گھروں سے باہر نکل آئے۔مجھے یوں لگتا ہے کہ اِن ایپس کی وجہ سے ہم بہت جلد ذہنی مریض بن جائیں گےیا شاید بن چکے ہیں مگر ابھی ہمیں احساس نہیں ہوا۔ہر روز کسی نہ کسی ایپ کے ذریعے ہم تک کوئی ایسی فوٹیج ضرور پہنچتی ہے جس میں کوئی عام شخص ناگہانی موت یا ظلم کا شکار ہوتاہوا دکھائی دیتا ہے۔سات ارب کی آبادی میںسے اگر اِن ناگہانی اموات یا واقعات کی شرح نکالی جائے تو شاید صفر سے کچھ ہی اوپر جواب آئے مگر جس طرح سے یہ مناظر ہماری ذہنی صحت کو متاثر کر رہے ہیں اُس کا اندازہ اُن فون کالز سے لگایا جا سکتا ہے جو ہم اپنے پیاروں کو گھر سے باہر بھیجنے کے بعد کرتے ہیں۔’کہاں پہنچے، کتنی دیر میں آؤ گے، فون کیوں نہیں اٹھا رہے تھے، فون بند کیوں جا رہا تھا….‘اُس ایک لمحے میں ہمارے لاشعور میں وہ تمام مناظر گھوم جاتے ہیں جو ہم نےسوشل میڈیا ایپس پر دیکھے ہوتےہیں بلکہ اِس صورتحال پر کسی ستم ظریف نے ایک کلپ بھی بنایا تھا جس کا عنوان تھا کہ اگر میں اپنی ماں کے فون کا جواب نہ دوں تووہ کیا سوچتی ہے اور پھر اُس کلپ میں ایک موٹر سائیکل سوار کو دکھایا جو تیز رفتاری کے باعث کسی ٹرک کے نیچے آکر ہلاک ہوجاتا ہے۔

میں کوئی ماہر نفسیات نہیں جو اِن مسائل کی پڑتال کروں اور فرائڈ کی طرح انسان کےتحت الشعور اور لا شعور میں پوشیدہ خوف کواُس زمانے سے جوڑوں جب انسان غاروں میں رہتا تھااور پھریہ نتیجہ نکالوں کہ یہ ہزاروں سال پہلے کا انجانا خوف ہے جس سے انسان کبھی جان نہیں چھڑوا پائے گا۔ممکن ہے کہ یہی بات ہو مگر آج کل اِس خوف نے ذہنی بیماری کی شکل اختیار کر لی ہے اور شاید اُس کی بڑی وجہ سوشل میڈیا ایپس کا ضرورت سے زیادہ استعمال ہے ۔رہی سہی کسر Reels نے پوری کردی ہے ،یہ ایک آدھ منٹ کے وہ ٹکڑے ہیں جو یکے بعد دیگرے فون کی سکرین پر نمودار ہونا شروع ہوتے ہیں اور آپ کو وقت گزرنے کا احساس ہی نہیں ہوپاتا ، آپ سونے سے پہلے آخری مرتبہ فون چیک کرنے کی غرض سے اٹھاتے ہیں کہ اچانک فون پر یہ reels چلنی شروع ہوجاتی ہیںاور پھرپتاہی نہیں چلتا کہ کب رات کے تین بج گئے۔ساری رات خواب بھی ویسے ہی آتے ہیں کہ آپ چھت پر ہوا خوری کیلئے گئے تھے کہ چھت گر گئی اور آپ ملبے تلے تب گئے!

اِس مسئلے کے تین حل ہیں۔پہلا یہ کہ ہم اسمارٹ فون کا استعمال ہی ترک کر دیں، نہ نومن تیل ہوگا نہ ریماناچے گی(رادھا سے ہمارے مذہبی جذبات مجروح ہونے کااندیشہ تھا اِس لیے میں نے احتیاطاً ریما کر دیا ہے )۔یہ حل قابل عمل نہیں ، کوئی بہت ہی اللّٰہ لوک اِس پر عمل کر سکتا ہے ، ہم فانی انسانوں سے یہ نہیں ہو پائے گا۔ دوسرا طریقہ یہ ہے کہ اسمارٹ فون کا استعمال جاری رکھیں مگر اُس میں سے سوشل میڈیا کی تمام ایپس نکال دیں۔یہ حل پہلے والے کی نسبت قدرے بہتر ہے مگر میں جانتا ہوں کہ ہم سے یہ بھی نہیں ہوپائے گا کیونکہ اِن ایپس پر صرف موت کا منظر ہی نہیں دیکھنے کو ملتا بلکہ بہت سا تفریحی مواد بھی ہوتا ہے جس سے کوئی بھی محروم نہیں ہونا چاہتا۔تیسرا حل جومجھے پسند ہے وہ یہ ہے کہ کال سننے کے علاوہ آپ موبائل فون کے استعمال کا وقت مقرر کر دیں ، جیسے صبح اور رات کوایک ایک گھنٹہ، اور زیادہ سے زیادہ اپنے فون کو ہوائی جہاز کی حالت (بولے تو ائیر پلین موڈ ) میں رکھیں، یہی نہیں بلکہ سوشل میڈیا ایپس سے اُن اکاؤنٹس کو فالو کرنا بند کردیں جو ذہنی دباؤ اور اضطراب کا باعث بنتے ہیں اور جن میں ہمہ وقت حادثات کی ویڈیوز اپ لوڈ کی جاتی ہیں۔

میرا اندازہ ہے کہ اگر ہم اِن طریقوں سے موبائل فون کا استعمال محدود کردیں تو ہماری ذہنی کیفیت خاصی بہتر ہوجائے گی مگر ایک الجھن بدستور رہے گی جو رفع نہیں ہوگی۔اُس الجھن کا تعلق اِس ذہنی تناؤ سے نہیں بلکہ اُس مسئلے سے ہے جس کا تا حال کوئی جواب ہمارے پاس نہیں اور وہ مسئلہ یہ ہے کہ ظلم، نا انصافی اور حادثات کے یہ مناظر اگر ہم اپنے موبائل فون سے غائب بھی کردیں تو اِس کا مطلب یہ نہیں ہوگا کہ دنیا سے بدی یا شر ختم ہوگیا،الجھن وہیں رہے گی کہ عادل و قادر کے جہاں میں معصوم بچے کیوں مر جاتے ہیں، نیک لوگوں پر زمین تنگ کیوں کی جاتی ہے اوربے گناہوں کو خواہ مخواہ ظلم کیوں سہنا پڑتا ہے؟ ہمیں اِن سوالوں کے جوابات بچپن میں ہی بتا دیے گئے تھےمگر کیا یہ جوابات تسلی بخش ہیں؟یہ ہے اصل الجھن!

بشکریہ روزنامہ جنگ