دنیا کی کسی بھی زبان میں خبریں پڑھنے کے لیے یہاں کلک کریں۔

گنج ہائے گراں مایہ!



میں ان تمام ’’کم زلف‘‘ دوستوں سے دل کی گہرائیوں سے معذرت خواہ ہوں جن کے سر پر مجھے بال نظر نہیں آتے تھے اور جو چند ایک نظر آتے تھے وہ گدّی سے کھینچ کھانچ کر ماتھے کی طرف لائے گئے ہوتے تھے، میں ان سے اخلاق سے گرے ہوئے مذاق کرتا، وہ اگرچہ دن میں کئی بار میرے ایسے دوستوں کی ایسی واہیات جگتوں کے عادی ہو چکے تھے چنانچہ برا نہیں مانتے تھے مگر میں خود اپنی حرکت پر شرمندہ ہوتا رہتا تھا۔ میں آج کے کالم میں ان سے تہہ دل سے معافی مانگتا ہوں کہ جس پر بیتی ہوتی ہے وہی جانتا ہے۔

سو مسئلہ یہ ہے کہ چند ماہ سے میں محسوس کر رہا ہوں کہ میرے سر پر بالوں کا جو چھتا ہوتا تھا وہ اب روپوش ہوگیا ہے، میں بار بار سر میں ہاتھ پھیرتا ہوںمگر ہاتھ میں سر سے بچھڑے ہوئے بالوں کے سوا کچھ نہ آتا۔ مجھے اس موقع پر پنجابی کا یہ دل پر کچوکے لگانے والا گیت یاد آتا :

کونج وچھڑ گئی ڈاروں

تے لب دی سجناں نوں

اور مجھے یہ گیت دن میں دو تین دفعہ گنگنانا پڑتا۔ایک دن میں نے محسوس کیا کہ سر کا ایک خاصا حصہ بے پردہ ہو رہا ہے، چنانچہ میں نے سر میں کنگھی الٹی پھیرنا شروع کردی جس سے کچھ دال دلیا ہوگیا، مگر بکرے کی ماں کب تک خیر منائے گی، سو اب بالوں کی یادیں ہی رہ گئی ہیں، اللّٰہ ’’مرحومین‘‘ کو میرے کسی ہمسر کے جوار رحمت میں جگہ دے۔

بات زیادہ لمبی کرنے کا فائدہ نہیں، میں نے یہ عرض کرنا تھا کہ میں جو جملے اپنے دوستوں کے کم ظرف بالوں پر کسا کرتا تھا اس سے کہیں زیادہ رکیک جملے ان دنوں مجھے سننا پڑ رہے ہیں۔ اب تو بچے، بڑے، بوڑھے سب جگتوں پر اتر آئے ہیں، ایک حجام کے ہاں شیو کرانے کیلئے گیا تو اس نے بہت ادب سے کہا سر آپ اگر برا نہ مانیں تو کیا میں آپ کے ہموار سر پر استرا تیز کرسکتا ہوں، ایک دوست نے بکواس کی یار خدا کا خوف کرو کبھی حجامت کروا لیا کرو، دیکھو تمہاری قلمیں کتنی لمبی ہوگئی ہیں اور سر کے پچھلے حصے میں تو بالوں کا جنگل اگا ہوا ہے، کچھ خبیث قسم کے دوستوں نے مجھے خواجہ زلف دراز کہنا شروع کر دیا ہے، ایک دوست کہتا ہے تم محبوب کی زلفِ دراز پر بہت شعر کہا کرتےتھے اور اس کی طرف سے اپنی خوبصورتی اور دلآویزی کا قصیدہ بھی پڑھا کرتے تھے، اگر وہ آج بھی بقول تمہارے تم پر مرتا ہے تو اس کی زلف دراز میں سے چھٹانک دو چھٹانک بال مستعار لے کر دکھائو۔ صرف یہی نہیں بچے بالے بھی راہ چلتے میرے پاس آتے ہیں اور کہتے ہیں ، سر آپ اپنی کنگھی عنایت کریں، اپنے بال بنانے ہیں۔ کچھ بدبخت بابے مجھے انکل کہنا شروع ہوگئے ہیں، بندہ ان سے پوچھے ایک ہینڈ سم نوجوان چند بالوں کی محرومی سے بابا کیسے لگ سکتا ہے۔

چلیں دفع کریں ان حاسدوں کو، لوگوں کا تو کام ہی غیبت کرنا ہے، مگر پرابلم یہ ہے کہ لوگ غیبت نہیں کرتے میرے منہ پر یہ اناپ شناپ بکتے ہیں۔ یہ ٹھیک ہے کہ میرے بال اتنے نہیں رہے کہ انہیں مٹھی بھر بھی کہہ سکیں، مگر مجھے ایک دم گنجا ڈکلیئر کردینے کا بھی کوئی جواز نہیں۔ مگر میں بھی تو ان دوستوں کو گنجِ گراں مایہ قرار دیا کرتا تھا، جن کے سر پر میں باآسانی ان کے بال گن سکتا تھا،تاہم جیسا کہ میں نے شروع میں کہا تھا جیسی کرنی ویسی بھرنی، سو آج کل میں وہ کاٹ رہا ہوں جو میں نے ماضی میں بویا تھا، اسی لئے تو میں نے کالم کے آغاز میں ان سے معافی مانگی تھی، میں تو انہیں مشورہ بھی دیا کرتا تھا کہ تم اب ٹوپی پہننا شروع کر دو کہ یہ ستار العیوب ہے مگر ساتھ ہی احمد ندیم قاسمی کا یہ شعر بھی سنا دیا کرتا تھا۔ ؎

آپ دستار اتاریں تو کوئی فیصلہ ہو

لوگ کہتے ہیں کہ سر ہوتے ہیں دستاروں میں

ظاہر ہے میرے سر ایسا ماضی رکھنے والے شخص کو اپنا حال بے حال ہوتے تو دیکھنا ہی تھا۔ ویسے اس حوالے سے کچھ بزعم خویش دانا لوگ یہ بھی کہتے ہیں کہ کاندھوں پر صرف سر ہونا کافی نہیں سر کے اندر بھی کچھ ہونا چاہیے، مگر کوئی پوچھنے والا ہو تو ان سے پوچھے ’’کہ جناب ’’خودسر‘‘ بھی تو کوئی چیز ہے جس میں بہت کچھ ہے، آپ اسے کہاں لے کر جائیں گے؟ آخر میں میں نے اپنے ان دوستوں سے تیسری بار معافی مانگنا ہے جن کے سر سے میں گستاخی کرتا رہا ہوں، ویسے ہم زندگی میں کتنے ہی لوگوں کو ’’سر‘‘ کہہ کر مخاطب ہوتے ہیں جن کے سروں میں کچھ نہیں ہوتا مگر وہ نہ صرف برا نہیں مانتے بلکہ آپ اگر انہیں سر نہ کہیں تو وہ برا مان جاتے ہیں، ایک بات میں نے یہ بھی کہناہے، جو اپنے حوالے سے ہے کہ مجھے ’’گنجِ گراں مایہ‘‘ کہنے والے بوجہ حسد ایسا کہتے ہیں اور فقرے کستے ہیں جب کہ الحمد للہ میں اب بھی سر پر اتنے بال ضرور رکھتا ہوں کہ آئندہ دو تین ماہ تک مجھ پر کوئی پھبتی نہیں کسی جاسکتی، مستقبل کا حال خدا جانتا ہے لہٰذا کوئی پتہ نہیں آپ اور مجھ میں سے کون کون خود کو اس خطاب کا حقدار ثابت کرتا ہے۔

چلتے چلتے میری ایک غزل بھی سنتے جائیں:

عاشقی نہیں کرنی شاعری نہیں کرنی

ظاہری نہیں کرنی باطنی نہیں کرنی

عاشقی سے توبہ کی بات کیوں غلط سمجھے

میں نے کب کہا کہ اب دل لگی نہیں کرنی

درد کیا ہے راحت کیا جانتا ہوں میںصاحب

واہمے ہیں دونوں کی بندگی نہیں کرنی

گُل کرو یہ سب شمعیں ان سے خوف آتا ہے

اب تو زندہ رہنا ہے زندگی نہیں کرنی

عشق کرکے سیکھاہے ہم نے یہ عطاؔ صاحب

ہیلو ہیلو رکھنی ہے عاشقی نہیں کرنی

بشکریہ روزنامہ جنگ

Spread the love

سب سے زیادہ پڑھی جانے والی مقبول خبریں




تازہ ترین

تمام اشاعت کے جملہ حقوق بحق ادارہ محفوظ ہیں۔
Copyright © 2024 Idraak.pk News. All Rights Reserved