دنیا کی کسی بھی زبان میں خبریں پڑھنے کے لیے یہاں کلک کریں۔

جسٹس بندیال کا حکم امتناع کالعدم ، پی ڈی ایم حکومت کا بنایا قانون درست قرار، چیف جسٹس کے اختیارات کم ہوگئے



سپریم کورٹ آف پاکستان کے فُل کورٹ بینچ نے چیف جسٹس کے اختیارات سے متعلق ’’ پریکٹس اینڈ پروسیجرایکٹ‘‘ کے خلاف تمام درخواستیں مسترد کردیں۔
پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ میں اصول طے کیاگیاتھا کہ مقدمات کی سماعت کے لیے بینچ صرف چیف جسٹس نہیں بنائیں گے بلکہ چیف جسٹس اپنے دو سینیئر ترین برادر ججوں سے مشورے کے بعد ہی بینچ کا اعلان کریں گے۔
یہ قانون پی ڈی ایم کی حکومت نے پارلیمان سے منظور کرایا تھا کیونکہ حکومت کواعتراض تھا کہ سابق چیف جسٹس عمرعطا بندیال اپنی مرضی کا بینچ بناتے ہیں جس میں مخصوص ججز شامل ہوتے ہیں۔
اس قانون کے خلاف درخواستیں دائر کی گئی تھیں اور سابق چیف جسٹس کی سربراہی میں سپریم کورٹ نے ان درخواستوں کو منظور کرتے ہوئے قانون کانفاذ روک دیاتھا ۔
بدھ کو سپریم کورٹ نے ان اپیلوں کو مسترد کرتے ہوئے اس قانون کو درست قرار دے دیا ہے۔
اس قانون کے تحت ازخود نوٹس پر فیصلے کے خلاف اپیل کا حق دیا گیا تھا جسے سپریم کورٹ کے بدھ کے روز دیے گئے فیصلے میں درست قرار دیا گیا ہے۔ تاہم سپریم کورٹ نے اپیل کے اس حق کو’موثر با ماضی‘ نہیں کیا اس طرح سپریم کورٹ کے ماضی کے فیصلوں کے خلاف اپیل نہیں ہو سکے گی۔
بدھ کو سپریم کورٹ کے فُل کورٹ بینچ کے سربراہ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے چیف جسٹس بننے کے بعد اپنا پہلا فیصلہ سنایا۔
انہوں نے فیصلہ سناتے ہوئے کہا کہ ’فل کورٹ کے 15 میں سے پانچ ججزجسٹس اعجازالاحسن، جسٹس منیب اختر، جسٹس عائشہ ملک، جسٹس مظاہرعلی نقوی اور جسٹس شاہد وحید نے ایکٹ کی مخالفت کی۔
باقی 10ججز نے ایکٹ کے حق میں فیصلہ دیا اور سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجرایکٹ کے خلاف دائر درخواستیں مسترد کردیں۔
سپریم کورٹ کے فیصلے کے بعد قانون اپنے وجود میں آنے کے دن سے نافذالعمل ہوگیا ہے۔
عدالتِ عظمیٰ کے اس فیصلے کے بعد سابق چیف جسٹس آف پاکستان عمر عطا بندیال کی جانب سے دیا گیا حکم امتناع ختم ہوگیا ہے۔
ایکٹ کے تحت اب آئین کے آرٹیکل 184(3) کے تمام مقدمات کے لیے بینچ چیف جسٹس کے علاوہ سپریم کورٹ کے دیگر دو سینیئر ترین ججوں پر مشتمل کمیٹی تشکیل دیا کرے گی اورازخود نوٹس کافیصلہ اکیلے چیف جسٹس نہیں کرسکیں گے۔
سپریم کورٹ نے ایکٹ کے تحت ماضی سے اطلاق کی شق 7-8 سے مسترد کردی۔ ’چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ، جسٹس سردار طارق مسعود اور جسٹس منصورعلی شاہ سمیت 7 ججوں نے ماضی سے اطلاق کی حمایت کی تھی۔
فیصلے کااطلاق ماضی کے کیسز پرنہ ہونے کامطلب یہ ہے نوازشریف اور جہانگیر ترین کو اپنی نااہلی ختم کرانے کے لئے اس فیصلے سے کوئی فائدہ نہیں ہوگا لیکن کچھ ماہرین کاخیال ہے کہ سپریم کورٹ کے اس فیصلے کے خلاف اپیل کاحق موجود ہے ۔ یہ ممکن ہے کہ اپیل کے دوران ماضی سے اطلاق کاراستہ بھی نکل آئے ۔
فل کورٹ نے 6-9 کے تناسب سے ازخود نوٹس ( 184/3) کے کیسزمیں اپیل کے حق کی شق کو برقرار رکھا ہے۔
جسٹس اعجازالاحسن، جسٹس منیب اختر، جسٹس یحییٰ آفریدی، جسٹس مظاہرنقوی، جسٹس عائشہ ملک اور جسٹس شاہد وحید نے اپیل کے حق کی مخالفت کی۔

Spread the love

سب سے زیادہ پڑھی جانے والی مقبول خبریں




تازہ ترین

تمام اشاعت کے جملہ حقوق بحق ادارہ محفوظ ہیں۔
Copyright © 2024 Idraak.pk News. All Rights Reserved