تحریر:۔ عطاالحق قاسمی
اس وقت سارا عالم اسلام مغموم اور بے بس ہے، سوائے دعا اور مظاہروں کے اپنے جذبات کے اظہار کے اور کچھ نہیں، سارا امریکہ اور یورپ اسرائیل کی حمایت کیلئے متحد ہے، انہوں نے اسرائیل پر حملے کو اپنے ملک پر حملہ قرار دیا ہے اور اپنی تمام تر توانائیوں، اپنی تمام تر فوجی قوت کے ساتھ اسرائیل کا ہم رکاب ہیں۔
اس وقت فلسطینی مسلمانوں کی اخلاقی مدد اور اسرائیل کی فسطائیت کے خلاف اپنی آواز پوری دنیا تک اگر کوئی پہنچا سکتا ہے تو وہ امریکہ اور یورپ کے ممالک میں آباد پی ٹی آئی کے مجاہدین ہیں، انہوں نے پاکستان میں پی ٹی آئی کے رہنمائوں کی قید و بند کے خلاف مسلسل آواز اٹھائی اوریوں پوری دنیا تک یہ پیغام پہنچایا کہ پاکستان کی فوج اور ریاست کے تمام ادارے فاشسٹ ہیں، درندے ہیں، وحشی ہیں، بھیڑیئے ہیں۔ نیز یہ کہ اس ملک کے تمام رہنما چور ہیں، ڈاکو ہیں،لٹیرے ہیں۔ چنانچہ ان کی یہ کاوشیں کامیاب ہوئیں اور یوں پاکستان کا کچا چٹھا پوری دنیا کے سامنے آگیا۔ انہوں نے دنیا کو بتایا کہ اگر کوئی مسیحا ہے تو وہ صرف عمران خان ہے، وہ عالم اسلام ہی کا نہیں ایک عالمی لیڈر کا درجہ حاصل کر چکا ہے، اسے صرف چار سال حکومت کرنے کیلئے سہولتیں مہیا کی گئیں مگر اس دوران اسے کام ہی نہیں کرنے دیا گیا اور یوں عوام کی فلاح و بہبود کے جو منصوبے اس کے ذہن میں تھے انہیں عملی شکل دینے کی نوبت ہی نہ آسکی، اسے قید کردیا گیا اور اس بیرک میں رکھا گیا جس میں لٹیرے سیاست دانوں کو رکھا جاتا رہا ہے۔
پی ٹی آئی کے دوستوں کا خیال ہے کہ اگر اس وقت خان حکومت میں ہوتا تو وہ مظاہروں اور عملی اقدامات سے اسرائیل کی اینٹ سے اینٹ بجا دیتا۔ بہرحال بدقسمتی ہے عمران ان دنوں حکومت میں نہیں بلکہ باہر بھی نہیں، امریکہ اوریورپ کے مختلف ملکوں میں مقیم پاکستانیوں کا فرض ہے کہ وہ یہودیوں کے ان سرپرستوں کے خلاف اتنے بھرپور مظاہرے کریں کہ انہیں لگ پتہ جائے کہ عمران کے مجاہد اور کچھ نہیں تو مظاہرے تو کر ہی سکتے ہیں۔ مظاہروں کی انہیں پریکٹس بھی بہت ہے، وہ پورے چار سال لندن میں نواز شریف کی قیام گاہ ایون فیلڈ کے سامنے اودھم مچاتے رہے ہیں، نواز شریف کو گالیاں دیتے رہے ہیں اور مسلم لیگ کا جو لیڈر انہیں لندن میں کہیں نظر آ جاتا اس کا پیچھا کرتے اور اس پر آوازے کستے۔
یوکے چونکہ ایک جمہوری ملک ہے چنانچہ اظہار رائے کی آزادی کی وجہ سے پولیس انہیں کچھ نہ کہتی، چونکہ یہ بریگیڈ نواز شریف کے پاکستان آنے کے اعلان کے بعد فارغ ہوگئی ہے اب اسے چاہیے کہ وہ اپنے مظاہروں کا آغاز کریں، یہودیوں کی دہشت گردی کے خلاف پہلا مظاہرہ جمائما کے گھر کے باہر کریں جہاں وہ عمران کے دو بیٹوں اور ایک بیٹی کے ساتھ رہتی ہے۔ اسی طرح برطانیہ، امریکہ، جرمنی، اٹلی، یونان، کینیڈا، بلجیم اور دیگر ممالک میں تہلکہ خیز مظاہروںسے ثابت کر دیں کہ ان کا لیڈر اگر جیل میں ہے تو اس کے مجاہد تو آزاد ملکوں میں رہتے ہیں جہاں رائے کے اظہار پر کوئی پابندی نہیں، پرامن احتجاج کی اجازت ہے۔ ان مظاہروں کے دوران انہیں ان ممالک میں اظہار رائے کی آزادی کا صحیح مفہوم بھی سمجھ میں آ جائے گا اور ہوسکتا ہے وہاں کی نادان حکومتیں ان کی شہریت منسوخ کرکے انہیں واپس پاکستان بھیج دیں۔ خدا نخواستہ اگر ایسا ہوا تو عمران خان کی شمع کے یہ پروانے بہت خوشی سے اپنے سابقہ وطن میں واپس آ جائیں گے،گو یہاں بھی اب آزادی اظہار کی وہ سہولت میسر نہیں جو سہولت انہیں نو مئی تک میسر تھی۔
میں یہ سطور لکھ رہا تھا کہ مجھے ایک دوست نے بتایا کہ عمران خان کے ایک مجاہد سابق پاکستانی اور حال امریکی معید پیرزادہ نے اپنے ایک ٹویٹ میں کہا ہے کہ حماس ایک دہشت گرد تنظیم ہے اور اس کے ساتھ یہ مشورہ بھی دیا ہے کہ اس جنگ میں اگر کوئی فلسطینی مسلمان مر جائے تو اسے شہید نہ کہیں بلکہ اسے بھی اسی طرح ہلاک قرار دیں جس طرح اسرائیلیوں کی موت کو ہلاکت قرار دیا جاتا ہے۔ واہ، مجھے معیدپیرزادہ کے بیان کی تائید کرنی چاہیے کہ میں بھی پیرزادہ ہوں مگر افسوس میں پنجاب کے ان پیرزادوں میں سے نہیں ہوں جن کا اقبال نے نوحہ پڑھا ہے۔ بہرحال میں نے بہت خلوص سے امریکی اور برطانوی پاکستانی شہریوں کو مشورہ دیا ہے اپنے ملکوں میں اسرائیل کی دہشت گردی کے خلاف مظاہرے کریں، میں یہ مشورہ تاحال پاکستان میں مقیم پی ٹی آئی کے دوستوں کو نہیں دے رہا کہ وہ آزاد ملک کے شہری نہیں ہیں، آزاد ملکوں کے پاکستانی شہریوں کو یہ تجربہ ضرور کرنا چاہیے تاکہ انہیں معلوم ہو سکے کہ کیا وہ واقعی ایک آزاد ملک کے شہری ہیں؟۔
بشکریہ جنگ نیوز اردو