دنیا کی کسی بھی زبان میں خبریں پڑھنے کے لیے یہاں کلک کریں۔

شکرانے کے نفل!



تحریر:۔ عطاالحق قاسمی

بزرگوار نے حسرت بھری نظروں سے آسمان کی طرف دیکھا اور کہا ’’واہ میرے مولا، و ہ بھی کیا دن تھے جب میں کڑیل جوان تھا جو مجھے دیکھتا تھا بس دیکھتا ہی رہ جاتا تھا! یہ چوڑا چکلا سینہ، تنے ہوئے ڈولے، سرخ وسپید رنگ، میں شیر کی طرح دھاڑتا تھا، زمین پر پاؤں رکھتا تو زمین کانپنے لگتی تھی ‘‘میں نے عرض کی’’بزرگوار پھر تو آپ نے مظہر شاہ اور سلطان راہی کے ساتھ فلموں میں بھی کام کیا ہو گا‘‘ انہوں نے میرے ان ریمارکس کو خراج تحسین جانا اور فرمایا فلم انڈسٹری کی طرف سے آفرز تو بہت ہوئی تھیںمگر قبلہ والد محترم نے اجازت نہ دی ان کا کہنا تھا کہ انڈسٹری کا ماحول اچھا نہیں، تمہارا اخلاق مزید خراب ہو جائے گا !‘‘ میں نے پوچھا ’’تو گویا تھوڑا بہت اخلاق پہلے سے خراب تھا ؟‘‘ اس پر وہ شرما کر بولے کیا پوچھتے ہو میاں، ہر شب ، شب برات تھی، ہر روز، روز عید ۔میں اس قصے کو طول نہیں دینا چاہتا تھا کہ جانتا تھا بزرگوار شروع ہو جائیں گے اور استغفراللہ کا ورد کرتے کانوں کو ہاتھ لگاتے اور خود کو گناہ گارقرار دیتے ہوئے کتنے ہی پردہ نشینوں پر الزام تراشی شروع کر دیں گے چنانچہ میں نے موضوع کا رخ موڑتے ہوئے کہا آپ دور جوانی میں جتنے طاقتور تھے لوگ تو آپ سے خوفزدہ رہتے ہوں گے ؟” بولے، ایسے ویسے ؟ مجھے دیکھ کر وہ ادھر ادھر ہو جاتے تھے لیکن میں نے کبھی اپنی طاقت کا غلط استعمال نہیں کیا، جب بھی طاقت استعمال کی صحیح جگہ استعمال کی، بس مجھے باڈی بلڈنگ کا شوق تھا میاں اب تمہیں اور کیا کیا بتاؤں‘‘ میں نے کہا نہیں آپ بتائیں جو بتانا چاہتے ہیں’’ فرمایا میں ایک گھنٹہ ایکسر سائز کرتا تھا روزانہ دس میل بھاگتا تھا، میں دفتر جاتا تھا تو کبھی ایک ایک کرکے سیڑھی نہیں چڑھا بلکہ ہمیشہ دو دو تین تین سیڑھیاں پھلانگتا ہوا تیسری منزل تک جاتا تھا جہاں میرا دفتر تھا۔‘‘ میں نے کہا واقعی آپ تو غیر معمولی طور پر طاقتور تھے بزرگوار نے ماضی کے جھروکوں سے جھانکتے ہوئے مجھے مخاطب کیا ’’مجھے بیٹھے بیٹھے جوش آتا تھا تو میں اپنے گھر کے برآمدے کے شیڈ سے لٹک جاتا تھا اور پھر پوری طاقت سے اپنے جسم کو اوپر کی طرف کھینچتا ، حتیٰ کہ میرے گھٹنے شیڈ کے برابر آ جاتے تھے صرف یہی نہیں محض زور آزمائی کیلئے میں مضبوط سے مضبوط لکڑی کو گھٹنے پر رکھ کر اس کے دو ٹکڑے کر دیتا تھا ۔ میں اپنے دو تین دوستوں کو کہتا کہ تم سب مجھے زمین پر گرانے کی کوشش کرو وہ اپنا پورا زور صرف کر دیتے مگر مجھے چت کرنے میں کامیاب نہ ہوتے‘‘، بزرگوار اپنی جوانی بلکہ بھرپور جوانی کی مزید روداد سنانے کے موڈ میں تھے کہ اچانک انہیں کھانسی کا دورہ پڑا، ان کی آنکھیں باہر کو ابل پڑیں سانس ٹوٹنے لگا اور مجھے ان کی جان کے لالے پڑ گئے مگر اللہ کا شکر ہے کہ چند منٹوں کے بعد آہستہ آہستہ وہ نارمل ہو گئے۔

یں نے انہیں پانی لاکر دیا ، انہوں نے گلاس میز پر رکھتے ہوئے کہا میاں اس دمے کے ہاتھوں زندگی اجیرن ہو کر رہ گئی ہے، دعا کرو اب اللہ ایمان کی سلامتی کے ساتھ مجھے واپس بلا لے ! میں نے عرض کی بزرگوار زندگی اللہ تعالیٰ کی دی ہوئی ایک بیش بہا نعمت ہے اس کی قدر کرنا چاہئے، بولے’’ تم ٹھیک کہتے ہو، لیکن صورتحال یہ ہے کہ دس میل روزانہ دوڑلگانے، ایک گھنٹہ ایکسر سائز کرنے، تین تین سیڑھیاں پھلانگنے اور دو دو تین نوجوانوں سے زیر نہ ہونے والا یہ شخص جو تمہارے سامنے ہڈیوں کے ڈھانچے کی صورت میں موجود ہے اب چند قدم بھی چلتا ہے تو اس کا سانس پھولنے لگتا ہے گھٹنوں میں درد اس کے علاوہ ہے بغیر چلے پھرے بھی ان میں ٹیسیں اٹھتی رہتی ہیں ،رات کو بستر پر لیٹتا ہوں تو لیٹا نہیں جاتا سانس رکنے لگتا ہے چنانچہ کبھی صوفے پرجاکر بیٹھ جاتا ہوں کبھی بستر پر بازو کے بل لیٹنے کی کوشش کرتا ہوں اور کبھی لاؤنج میں آکر ٹی وی آن کرکے اپنا دھیان ہٹانے کی کوشش کرتا ہوں۔ بس رات اسی طرح گزر جاتی ہے چنانچہ جب صبح ہوتی ہے تو جوڑ جوڑ درد کر رہا ہوتا ہے میں تو اس زندگی سے تنگ آ چکا ہوں بس دعا کرو اللہ تعالیٰ ایمان کی سلامتی کے ساتھ اب مجھے اٹھا لے !۔‘‘

اس گفتگو کے دوران میرے دوست مرزا عبدالقیوم بھی آ گئے تھے جو بزرگوار سے بہت انس رکھتے ہیں انہوں نے انہیں مخاطب کیا اور کہا آپ ایسی باتیں نہ کریں، آپ کی صحت اس وقت بھی ماشاء اللہ دوسروں سے بہتر ہے میں تو آپ پر رشک کرتا ہوں، یہ سن کر بزرگوار کے چہرے پر ناگواری کے آثار ابھرے اور بولے خاک اچھی صحت ہے میں جوانی میں…مگر مرزا صاحب نے انہیں درمیان میں ہی ٹوک دیا اور کہا میں جانتا ہوں آپ کی جوانی بلاخیز تھی اسی لئے تو میں کہتا ہوں کہ عمر عزیز کا یہ حصہ بھی آپ خدا کا شکر ادا کرتے ہوئے گزار دیں! آپ اپنی زندگی کی بہترین اننگ کھیل چکے ہیں چوکے اور چھکے مارتے رہے ہیں اب اگر ٹک ٹک کر رہے ہیں تو کوئی بات نہیں آپ انہیں دیکھیں جو زیرو پر آؤٹ ہو جاتے ہیں، میں نے محسوس کیا کہ مرزا صاحب کی ان باتوں سے بزرگوار کے چہرے پر امید کی ایک نہایت روشن کرن ابھری ان لمحوں میں مجھے لگا جیسے ان کی ساری مایوس سوچیں ہوا ہو گئی ہیں وہ اپنی جگہ سے اٹھ کھڑے ہوئے ،میں نے پوچھا کہاں جا رہے ہیں ؟ بولے وضو کرنے جا رہا ہوں سوچا شکرانے کے دو نفل ادا کر لوں ۔(قند مکرر)

بشکریہ جنگ نیوز اردو

Spread the love

سب سے زیادہ پڑھی جانے والی مقبول خبریں




تازہ ترین

تمام اشاعت کے جملہ حقوق بحق ادارہ محفوظ ہیں۔
Copyright © 2024 Idraak.pk News. All Rights Reserved