دنیا کی کسی بھی زبان میں خبریں پڑھنے کے لیے یہاں کلک کریں۔

برادرم سہیل وڑائچ سے!



تحریر:۔ عطاالحق قاسمی

برادرم سہیل وڑائچ میرے پسندیدہ کالم نگار، اینکر اور تجزیہ نگار ہیں، وہ معقول اور مقبول شخصیت ہیں،عاجزی اور انکساری ان کی شخصیت کا ایک اور روشن پہلو ہے۔ وہ بہت پڑھے لکھے ہیں اس کے باوجود ان کی تحریر اور گفتگو مجھ ایسے ان پڑھ کو کسی کمپلیکس میں مبتلا نہیں کرتی میں ان سے بہت محبت کرتا ہوں کیونکہ وہ بھی مجھ سے بہت محبت کرتے ہیں، اللہ کرے میں نے ان کی بڑائی کے حوالے سے شروع میں جو باتیں سچے دل سے کی ہیں وہ موقع ملنے پر کچھ اسی قسم کی باتیں میرے حوالے سے جھوٹےمنہ ہی کر دیں!

تفنن برطرف میں نے سہیل وڑائچ کا کوئی کالم ٹی وی پر ان کا پروگرام اور کسی پروگرام میں ان کی بطور مہمان گفتگو بھی کبھی مس نہیں کی ۔انہوں نے تقریباً سال بھر سے کوئی کالم نہیں لکھا تھا اگر میں غلطی پر نہیں ہوں تو اس عرصے میں ان کا آخری کالم غالباً اپریل 2022میں شائع ہوا تھا جو حمزہ شہباز کے حوالے سے تھا اور انہوں نے شریف خاندان کے اس سپوت کے بہت سے روشن پہلو بیان کئے تھے اس کے بعد ان کا کالم آج شائع ہواہے جو چار سال بعد محمدنواز شریف کی لندن سے پاکستان آمد اور ان کی ممکنہ وزارت عظمیٰ کے حوالے سے ہے ۔

سہیل کا یہ کالم بھی ان کی متوازن سوچ کا آئینہ دار ہے انہوں نے لکھا ہے کہ معاملات صرف اسٹیبلشمنٹ اور ان کے درمیان ہی طے نہیں ہوئے بلکہ اس حوالےسے پاکستان کے دوست ممالک کی معاونت بھی شامل نظر آتی ہے ۔یوں محسوس ہوتا کہ دوست ممالک نے پاکستان کی مالی امداد کا جو اشارہ دے رکھا ہے اس کے لئے شرط یہ باندھی گئی ہے کہ ایسا سیاسی چہرہ لایا جائے جو لانگ ٹرم معاشی پالیسی کی ضمانت دے ۔سہیل وڑائچ کے مطابق اگر یہ سب کچھ طے نہ ہوا ہوتا تو وہ واپس ہی نہ آتے ان کے بقول یہ بھی صاف نظر آرہا ہے کہ اگر وہ اکیس اکتوبر کو واپس آ گئے تو جیل نہیں جائیں گے بلکہ انہیں ریلیف دے کر سیاسی میدان میں فری ہینڈ دیا جائے گا، یہ بھی تقریباً طے ہے کہ اگر وہ واپس آتے ہیں تو الیکشن کرائے بغیر کوئی چارہ نہیں ہوگا اور پھر جب ملک میں الیکشن کی سیاست ہو گی تو پھر تحریک انصاف اور اس کے چیئرمین کے بارے میں بھی فیصلے جلد از جلد کرنا پڑیںگے۔سہیل وڑائچ نے مستقبل کا احوال اپنے نقطہ نظر سے بیان کر دیا ہے اور اس میں بھی ان کی متانت پوری طرح جھلکتی ہے۔تاہم آگے چل کر انہوں نے کچھ ایسی باتیں بھی کی ہیں جن کے بارے میں مزید اظہار خیال کی خاصی گنجائش موجود ہے ۔مجموعی طور پر انہوں نے کہا ہے کہ نواز شریف ممکنہ طور پر واپس آکر، پی ٹی آئی کے چیئرمین نے ان کے ساتھ اور ان کی پارٹی کے ساتھ جو کچھ کیا تھا،اس کا بدلہ لیں گے اور یہ کہ جمہوریت کی بقااور اس کے تسلسل کیلئے ایسا نہیں کیا جانا چاہئےبلکہ مفاہمت کا راستہ تلاش کیا جائے۔سہیل وڑائچ نے بتایا ہے کہ لندن میں نواز شریف سے ملاقات کے دوران انہوں نے یہی باتیں نواز شریف سے بھی کی تھیں۔

جہاں تک چیئرمین پی ٹی آئی سے مفاہمت کے حوالے سے سہیل وڑائچ نے کہا ہے تو اس کالم میں وہ بتاتے ہیں کہ نو مئی کے واقعہ سے پہلے ان کی تین ملاقاتیں چیئرمین سے ہو ئی تھیںایک ملاقات میں ان کے ساتھ مجیب الرحمان شامی بھی تھے، دوسری ملاقات امتیاز عالم اور ان کے وفد کے ہمراہ ہوئی ، تیسری ملاقات میں اسلام آباد اور لاہور کے نمایاں ٹی وی اینکر موجودتھے ،ان تینوں ملاقاتوں کا محور یہی تھا کہ حکومت میں شامل سیاسی جماعتوں سے پی ٹی آئی مذاکرات کرے مگر چیئرمین کا موقف یہ تھا کہ وہ ان کرپٹ سیاسی حکمرانوں کے ساتھ مذاکرات نہیں کریں گے ۔انہیں دوسرا مشورہ یہ دیا گیا تھا کہ آپ اسٹیبلشمنٹ سے اپنے بگڑے ہوئے معاملات درست کریں، انہوں نے کہا وہ اسٹیبلشمنٹ سے رابطہ کرتے ہیں مگر ادھر سے کوئی مثبت جواب نہیں ملتا۔

ان سطور سے پتہ چلتا ہے کہ چیئرمین جن لوگوں کو کرپٹ کہتے رہے ہیں اور نہ صرف مسلسل کہتے رہے ہیں بلکہ ان کے نام بھی بگاڑتے رہے ہیں ان کے پیرو کاروں نے گالی گلوچ کا بازار بھی گرم رکھا ہے اور مسلسل چار سال لندن میں نواز شریف کی قیام گاہ کے باہر ’’چور، چور، ڈاکو، ڈاکو‘‘ کے نعرے لگاتے رہے۔ لندن میں بھی اور پاکستان میں بھی ان سے اختلاف رکھنے والے سیاست دانوں پر بھی آوازے کسنے کا سلسلہ جاری رہا۔اب چیئرمین ان کرپٹ سیاست دانوں کے ساتھ کیسے مفاہمت کریں گے اور جنہیں بدترین جیلوں میں رکھا گیا اور ان کی ہر طرح کردار کشی کی گئی وہ ان سے مفاہمت کیوں چاہیں گے اور یہ مفاہمت کن شرائط پر ہو گی۔ یہ سوچیں اور اس کے ساتھ یہ بھی کہ دونوں ’’گروہ‘‘کس دل گردے سے یہ معاملات طے کریں گے۔جہاں تک اسٹیبلشمنٹ کا معاملہ ہے نومئی کے بعد وہ سب کچھ بھول جائیں گے جو عسکری تنصیبات اور شہدا کی یادگاروں کے ساتھ کیا گیا ؟ اور وہ سب غلیظ گالیاں بھی جو فوج اور اس کی قیادت کے خلاف آج تک جاری ہیں۔اور ایک سوال یہ بھی کہ اس صورتحال کے پس منظر میں ممکنہ وزیر اعظم ،چیئرمین کو از خود رہا بھی کریں گے اور ان کی پارٹی کو الیکشن میں حصہ دینے کیلئے اپنی پوری کوشش بھی کریں گے؟میرے خیال میں یہ سب کچھ حقیقت پسندانہ نہیں ہے بلکہ جو جمہوری تسلسل شروع ہونے والا ہے وہ اپنے آغاز ہی میں دم توڑ دے گا!ہم نواز شریف سے یہ توقع رکھتے ہیں کہ وہ اپنے اندر ولیوں کے اوصاف پیدا کریں اور وہ سب کچھ بھول جائیں جو انہوں نے نواز شریف ان کی پارٹی اور ملک وقوم کے ساتھ کیا۔جس نے ایک ایسی سیاست کی بنیاد ڈالی جو ہماری نئی نسل کے رگ و پے میں بھی رچ بس گئی ہے۔ چلیں بالفرض محال وہ سب کچھ ہو جائے جو برادرم سہیل وڑائچ کے نزدیک جمہوریت کے تسلسل کیلئے ضروری ہے تو کیا گارنٹی ہے کہ اپنے عشق میں بہت بری طرح مبتلا اور دوسروں کو بدترین مخلوق سمجھنے والاچیئرمین اس کے بعد ایک نیا جنم لے گا اور وہ ایک سیاست دان کی طرح بی ہیو کرنے لگے گا؟ میرے خیال میں برادرم سہیل وڑائچ بھی شاید اس حوالے سے ضمانت نہ دے سکیں۔اپنے کالم کے آخر میں سہیل وڑائچ نے بجا طور پر کہا ہے کہ ملک میں ابتری کی جو فضا پیدا ہوئی اس سے کسی کو فائدہ نہیں ہوا اور نہ آئندہ ہو گا ۔اس کے بعد انہوں نے ساری امیدیں نواز شریف سے باندھی ہیں اس بیان کے حوالے سے میں اس امیدکا اظہار کرتا ہوں کہ نواز شریف واپس آکر اپنی فراست سے کام لیتے ہوے پیچیدہ مسائل حل کریں گے۔ملک کو اسی طرح ترقی کی راہ پر چلائیں گے جو ماضی میں ان کا وطیرہ رہا ہے اور جس کے سبب ہر بحران کےبعد ملک و قوم کو ان کی ضرورت پڑتی ہے۔

میں آخر میں سہیل وڑائچ کی اس بات سے سوفیصد اتفاق کرتا ہوں کہ کسی کے ساتھ ناانصافی نہیں ہونی چاہئے ،کسی کو انتقام کا نشانہ نہیں بنانا چاہئے، ہر ایک کےساتھ آئین اور قانون کے مطابق انصاف ہونا چاہئے کہ آئین اور قانون سے کوئی مبرا نہیں!

بشکریہ جنگ نیوز اردو

Spread the love

سب سے زیادہ پڑھی جانے والی مقبول خبریں




تازہ ترین

تمام اشاعت کے جملہ حقوق بحق ادارہ محفوظ ہیں۔
Copyright © 2024 Idraak.pk News. All Rights Reserved