دنیا کی کسی بھی زبان میں خبریں پڑھنے کے لیے یہاں کلک کریں۔

فوجی عدالتوں میں عام شہریوں کا ٹرائل غیرقانونی ہے،9 مئی کے کیسز فوجداری عدالتوں میں بھیجے جائیں،سپریم کورٹ



سپریم کورٹ نے فوجی عدالتوں میں سویلین کے ٹرائل کو کالعدم قرار دے دیا۔
عدالت عظمیٰ کے پانچ رکنی بنچ نے فوجی عدالتوں میں سویلین کے ٹرائل کے خلاف درخواستیں منظور کرتے ہوئے ٹرائل کوغیرقانونی قرار دیا۔عدالت کاکہنا تھا کہ کسی سویلین کا فوجی عدالتوں میں ٹرائل ہوا ہے تو وہ بھی کالعدم قرار دیاجاتاہے۔
عدالت نے اپنے فیصلے میں ملٹری ایکٹ کی سیکشن ٹو ون ڈی کی دونوں ذیلی شقوں کو غیر آئینی قرار دیتے ہوئے 9 مئی کے تمام ملزموں کا ٹرائل عام عدالتوں کرنے کا حکم جاری کردیا۔ عدالت نے فیصلہ دیا کہ ملزموں کے جرم کی نوعیت کے اعتبار سے مقدمات عام عدالتوں میں چلائے جائیں۔ عدالت نے آفیشل سیکرٹ ایکٹ کی شق 59(4) کو بھی غیر آئینی قرار دیا۔

سویلین کا فوجی عدالتوں میں ٹرائل 5 رکنی بینچ نے متفقہ طور پرکالعدم قرار دیا ہے تاہم آرمی ایکٹ کے سیکشن 2 ڈی ون کو  آئین سےمتصادم 4 ججز نے قرار دیا ہے جب کہ جسٹس یحیٰی نے اس پر اپنی رائے محفوظ رکھی۔

 عدالت نے قرار دیا ہے کہ اگر کسی شہری کا فوجی عدالت میں ٹرائل شروع ہوگیا ہے تو وہ بھی کالعدم قرار دیا جاتا ہے۔

9 اور 10 مئی کے واقعات کی روشنی میں  گرفتار 102 افراد جن کی فہرست عدالت میں پیش کی گئی تھی، سپریم کورٹ نے  ان کا ٹرائل عام فوجداری عدالتوں میں چلانےکا حکم دیا ہے

فوجی عدالتوں میں سویلین کے ٹرائل کے خلاف درخواستوں کی سماعت کرنے والے بنچ کی سربراہی جسٹس اعجازالاحسن کررہے تھے جبکہ بنچ کے دیگر ججز میں جسٹس منیب اختر ، جسٹس یحیٰی آفریدی، جسٹس مظاہرنقوی اور جسٹس عائشہ ملک شامل تھیں۔

قبل ازیں کیس کی سماعت کا آغاز ہوا تو جواد ایس خواجہ کے وکیل احمد حسین نے عدالت میں کہا کہ میں گزشتہ سماعت کا حکمنامہ پڑھنا چاہوں گا۔ جس پر عدالت نے کہا کہ آج اٹارنی جنرل کو سنیں گے۔

سماعت کے آغاز پر سلمان اکرم راجہ نے دلائل دیے کہ عدالت کو یقین دہانی کروائی گئی تھی مگر اس کے باوجود فوجی عدالتوں میں سویلینز کا ٹرائل شروع کر دیا گیا ہے، اس پر بینچ کے سربراہ نے کہا کہ پہلے ہم اٹارنی جنرل کو سن لیتے ہیں۔

اٹارنی جنرل عثمان منصور نے دلائل دیے کہ آئین کے آرٹیکل 10 کے تمام تقاضے پورے کیے جائیں گے، فوجی عدالتوں سے جن لوگوں کو سزائیں ہوں گی وہ ہائیکورٹ اور پھر سپریم کورٹ میں اپیلیں کر سکیں گے۔

جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ میں سمجھ رہا ہوں کہ آپ کے دلائل کو سمجھوں، اگر دہشتگردوں کا ٹرائل کرنے کے لیے آئینی ترمیم ضروری تھی تو عام شہریوں کے لیے کیوں نہیں؟

اٹارنی جنرل نے وضاحت کی کہ اگر ملزمان کا تعلق آرمڈ فورسز سے ہو تو کسی آئینی ترمیم کی ضرورت نہیں ہوتی۔

اس پر جسٹس عائشہ ملک نے کہا کہ آرمی ایکٹ میں تو فورسز کے اندر ڈسپلن کی بات کی گئی ہے، جسٹس مظاہر علی اکبر نے اٹارنی جنرل کو آرمی ایکٹ کا دیباچہ پڑھنے کا کہہ دیا۔

بینچ کے سربراہ نے کہا کہ قانون میں تو واضح ہے کہ یہ فورسز کے اندر کے لیے ہے، اس کا سویلین سے تعلق کیسے ہو سکتا ہے، جس پر اٹارنی جنرل نے کہا کہ آرمی ایکٹ افسران کو اپنے فرائض سرانجام دینے کا بھی کہتا ہے، کسی کو اپنی ڈیوٹی ادا کرنے سے روکنا بھی اس قانون میں جرم بن جاتا ہے۔

اٹارنی جنرل نے دلائل دیے کہ بات فورسز میں ڈسپلن کی حد تک ہو تو یہ قانون صرف مسلح افواج کے اندر کی بات کرتا ہے، جب ڈیوٹی سے روکا جائے تو پھر دیگر افراد بھی اسی قانون میں آتے ہیں۔

اس پر بینچ کی ممبر جسٹس عائشہ ملک نے کہا کہ اگر ایسی صورت ہے تو پھر بنیادی حقوق کا کیا بنے گا۔ کیوں کہ آئین تو کہتا ہے کہ بنیادی حقوق کے خلاف کوئی قانون نہیں بن سکتا۔

بعدازاں عدالت نے اٹارنی جنرل کے دلائل مکمل ہونے پر کیس کا فیصلہ محفوظ کر لیا جو اب سنا دیا گیا ہے۔

Spread the love

سب سے زیادہ پڑھی جانے والی مقبول خبریں




تازہ ترین

تمام اشاعت کے جملہ حقوق بحق ادارہ محفوظ ہیں۔
Copyright © 2024 Idraak.pk News. All Rights Reserved