قائد مسلم لیگ ن نوازشریف نے احتساب عدالت کے سامنے سرینڈر کر دیا جس کی بنیاد پر ان کے دائمی وارنٹ منسوخ کر دیے گئے بعدازاں سابق وزیراعظم اسلام آباد ہائی کورٹ کے سامنے بھی پیش ہوگئے۔
منگل کے روزاسلام آباد کی احتساب عدالت میں سابق وزیراعظم نوازشریف توشہ خانہ کیس میں پیش ہوئے اورعدالت کے روبروحاضری لگائی۔ احتساب عدالت کے جج محمد بشیر نے کیس کی سماعت کی اور سابق وزیراعظم کے دائمی وارنٹ منسوخ کرتے ہوئے ان کی ضمانت منظور کی، عدالت نے نوازشریف کو 10 لاکھ روپے کے مچلکے جمع کرانے کا حکم دیا۔
نوازشریف کی احتساب عدالت میں پیشی کے موقع پر ان کے ہمراہ مریم نوازشریف اور وکلا کی ٹیم تھی۔ جبکہ احسن اقبال، حنیف عباسی، طارق فضل چوہدری کمرہ عدالت میں موجود تھے۔
سابق وزیراعظم نوازشریف کے ضمانتی کے طور پر عدالت نے طارق فضل چوہدری کو مقرر کیا۔
عدالت نے توشہ خانہ سے گاڑیاں لینے کے کیس میں نوازشریف کی ضمانت منظور کرتے ہوئے مزید سماعت کو 20 نومبر تک ملتوی کر دیا۔
سابق وزیراعظم نوازشریف توشہ خانہ کیس میں اسلام آباد کی احتساب عدالت میں پیشی کے بعد اسلام آباد ہائیکورٹ پہنچے جہاں سرنڈر کرنے کے بعد چیف جسٹس عامر فاروق کی سربراہی میں 2 رکنی بینچ نے کیس کی سماعت کی۔
چیف جسٹس اسلام آباد ہائیکورٹ جسٹس عامر فاروق نے ریمارکس دیے کہ عدالت کو مطمئن کرنا ہو گا کہ آپ غیرحاضر کیوں رہے ۔ ابھی ہم نے اس پر نوٹس جاری کر کے نیب کو سننا ہے۔ اپیلوں کی بحالی روٹین کا معاملہ نہیں۔
جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب نے کہاکہ ہم قانون کے مطابق آگے بڑھیں گے۔نواز شریف نے جیسٹیفائی کرنا ہے کہ وہ اشتہاری کیوں ہوئے؟۔
اعظم نذیر تارڑ نے دلائل دیے کہ نواز شریف جان بوجھ کر غیر حاضر نہیں رہے، عدالت کی اجازت سے باہر گئے تھے۔ ہم عدالت میں میڈیکل رپورٹس پیش کرتے رہے ہیں۔
دوران سماعت پراسیکیوٹر جنرل نیب بھی عدالت کے سامنے پیش ہوئے اور موقف اختیار کیا کہ اگر نوازشریف کی حفاظتی ضمانت میں توسیع کی جاتی ہے تو ہمیں اس پر کوئی اعتراض نہیں۔
اس پر جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب نے پراسیکیوٹر جنرل نیب سے مکالمہ کرتے ہوئے کہا کہ’کیا اب نیب یہ کہے گی کہ کرپٹ پریکٹسز کا الزام برقرار ہے اور ان کو چھوڑ دیں‘۔ انہوں نے کہا کیا یہ وہی نیب ہے۔ ان ریمارکس پر عدالت میں قہقے لگ گئے۔
انہوں نے مزید ریمارکس دیے کہ ہم چیئرمین نیب کو نوٹسز جاری کر کے پوچھ لیتے ہیں کہ عوام کا وقت کیوں ضائع کرتے ہیں۔
چیف جسٹس عامر فاروق نے ریمارکس دیے کہ اگر نیب نوازشریف کی ضمانت کی مخالفت نہیں کررہی تو پھر ریفرنسز واپس کیوں نہیں لے لیے جاتے، نیب جب کسی چیز کی مخالفت ہی نہیں کر رہا تو پھر اپیلیں کیسی؟۔
اس موقع پر جسٹس گل حسن اورنگزیب نے پراسیکیوٹر سے مکالمہ کیا کہ چیئرمین نیب سے ہدایات لے کر عدالت کو آگاہ کریں۔ ہمیں واضح بتا دیں تاکہ ہم فیصلہ دے کر کوئی اور کام کریں
عدالت نے نیب پراسیکیوٹر سے پوچھا کہ کیا نوازشریف کی گرفتاری مطلوب ہے؟ جس پر پراسیکیوٹر نے کہا کہ سابق وزیراعظم کی گرفتاری مطلوب نہیں۔
بعد ازاں عدالت نے نواز شریف کی سزا کے خلاف درخواستیں بحال کرنے کی اپیلوں پر نیب کو نوٹس جاری کرتے ہوئے سماعت جمعرات تک ملتوی کر دی۔
واضح رہے کہ سابق وزیراعظم نواز شریف کو العزیزیہ کرپشن ریفرنس اور ایون فیلڈ کرپشن ریفرنس میں بالترتیب 7 اور 10 سال قید کی سزا سنائی گئی تھی۔ ان دونوں مقدمات میں عدم پیشی پر نواز شریف کو دسمبر 2020 میں اشتہاری قرار دیا گیا تھا۔