اسلام آباد( مانیٹرنگ ڈیسک) وفاقی حکومت نے رواں مالی سال کے اندر جولائی اور اگست میں دو بڑے صوبوں کی جانب سے اخراجات کی حد سے بڑھنے پرخبردارکیا ہے اورکہا ہے کہ اس سے آئی ایم ایف پروگرم خطرے میں پڑ سکتا ہے۔
مالی محاذ پر رواں مالی سال میں آئی ایم ایف کے ساتھ معاہدے سے پھسلنے کے دو بڑے خطرات ہیں۔
ایک خطرہ تو خود مرکز سے تعلق رکھنا ہے کہ اس کے قرض کی ادائیگیوں کا بل بڑھ رہا ہے جبکہ دوسرے خطرے کا تعلق صوبوں سے ہےجہاں اخراجات پھول گئے ہیں اور اس کے نتیجے میں آئی ایم ایف سے طے کیے گئے اہداف کی خلاف ورزی ہوسکتی ہے۔
موقر قومی اخبار کی رپورٹ کے مطابق سرکاری ذرائع نے بتایا ہے کہ اس حوالے سے وزار ت خزانہ نے سرخ جھنڈی لہراتےہوئے متعلقہ صوبوں کو یہ بتانے کا فیصلہ کیا ہے کہ وہ اپنے اخراجات کے محاذ کو احتیاط کے ساتھ مینیج کریں۔
یہ خطرات اس کے باوجود بڑھ رہے ہیں کہ ایف بی آر نے اپنا ہدف 63 ارب روپے کے مارجن سے پہلی سہ ماہی میں حاصل کرلیا ہے۔ ایف بی آر کی ٹیکس جمع کرنے کی شرح 24.1 فیصد ہے لیکن اسے 31 فیصد تک بڑھانا ہوگااور آنے والے مہینوں میں یہ چیز مسائل کا سبب بن سکتی ہے۔
وزارت خزانہ کے تخمینوں سےپتہ چلتا ہے کہ پالیسی ریٹ میں ایک فیصد اضافے سے 600 ارب روپے سالانہ قرض کی رقم میں ضافہ ہوجاتا ہے اور اگر ایک مستقل پالیسی ریٹ ہو جو 22 سے 23 فیصد کے درمیان رہے تو قرض کی ادائیگی کا بل 73 کھرب سے بڑھ کر 85کھرب ہوسکتا ہے۔
ذرائع کے مطابق رواں مالی سال کی پہلی سہ ماہی کےلیے اخراجات369 ارب تم محدود رکھنا تھے جبکہ اس میں سے 65 فیصد رقم پہلے دو مہینوں میں ہی حاصل کر لی گئی اور کچھ ایسا ہی حال سندھ کا بھی ہے۔