ہم کیف کی مدد سے تھک جائیں گے، پوتین ایسا سوچ کر غلطی کر رہے، وائٹ ہائوس



واشنگٹن(این این آئی)وائٹ ہاس نے کریملن کے ان بیانات کو مسترد کر دیا کہ یوکرین کی حمایت کرتے ہوئے مغربی تھکاوٹ میں اضافہ ہو جائے گا۔

یاد رہے امریکی بجٹ معاہدے کے بعد کانگریس کی جانب سے وفاقی اداروں کی بندش سے بچنے کے لیے کیف کو نئی امداد سے محروم کر دیا گیا تھا۔

غیرملکی خبررساں ادارے کے مطابق وائٹ ہائوس کی ترجمان کرائن جین پیئر نے کہا کہ اگر پوتین سمجھتے ہیں کہ وہ ہم سے آگے نکل سکتے ہیں تو وہ غلط ہیں۔

روس کے خلاف جنگ میں یوکرین کی حمایت کرنے والا ایک بڑا مغربی اتحاد ہے۔وائٹ ہائوس کی یہ وضاحت اس وقت سامنے آئی ہے جب جب امریکی محکمہ دفاع (پینٹاگون) نے کانگریس کو خبر دار کیا ہے کہ یوکرین کو بھیجے گئے ہتھیاروں کو تبدیل کرنے کے لیے درکار فنڈنگ ختم ہو رہی ہے۔

اس کی وجہ سے وہ کچھ افواج کی دوبارہ سپلائی کو سست کرنے پر مجبور ہے۔ پینٹاگون کے کانگریس کو بھیجے گئے خط میں اس نے کانگریس سے یوکرین کے لیے فنڈنگ کی تجدید کا مطالبہ کیا ہے۔

پینٹاگون کے کمپٹرولرمائیکل میک کارڈ نے ایوان نمائندگان اور سینیٹ کے رہنمائوں کو بتایا کہ یوکرین میں امریکی فوجی سٹاک کو دوبارہ بھرنے کے لیے کانگریس کی طرف سے پیش کیے گئے 25.9 بلین ڈالر کے پیکج میں سے 1.6 بلین ڈالر باقی رہ گئے ہیں۔

ہم تعاون قبول کرتے ہیں، احسان یا خیرات نہیں، تونسی صدر نے 135 ملین ڈالر کی یورپی امداد مسترد کر دی



تونس سٹی(این این آئی)تونس کے صدر قیس سعید نے کہاہے کہ ان کا ملک یورپی یونین کی جانب سے حال ہی میں بجٹ سپورٹ اور غیر قانونی امیگریشن کے خلاف جنگ کے حوالے سے اعلان کردہ امداد کو مسترد کرتا ہے۔ ہم تعاون قبول کرتے ہیں، احسان یا خیرات نہیں۔

غیرملکی خبررساں ادارے کے مطابق جولائی میں دستخط کیے گئے معاہدے میں تونس کو ایک ارب یورو کی اہم امداد شامل ہے۔ یہ امداد اس کی سست روی کا شکار معیشت میں مدد، ریاست کے عوامی مالیات کو بچانے اور نقل مکانی کے بحران سے زیادہ سختی سے نمٹنے کے لیے ہے۔

تونس کے ایوان صدر کے ایک بیان میں قیس سعید نے وزیر خارجہ نبیل عمار کا استقبال کرتے ہوئے کہا کہ ہمارا ملک اور ہمارے عوام ہمدردی نہیں چاہتے ہیں لیکن اگر یہ احترام کے بغیر ہے تو اسے قبول نہیں کریں گے۔ انہوں نے یورپی یونین کی طرف سے اعلان کردہ امدادی رقم کو مسترد کر دیا۔

سعودی و ایرانی ٹیموں کے درمیان فٹبال میچ قاسم سلیمانی کے مجسموں کی بھینٹ چڑھ گیا



اصفہان(این این آئی)ایران کے شہر اصفہان میں جاری اے ایف سی چیمپیئنز لیگ میں سعودی فٹبال کلب الاتحاد کا ایرانی فٹبال کلب سباھان کے ساتھ میچ منسوخ کر دیا گیا ہے۔

عرب ٹی وی کے مطابق یہ میچ اس وقت باقاعدہ طور پر منسوخ ہوا جب سعودی کھلاڑیوں اور حکام نے سٹیڈیم میں قاسم سلیمانی کے مجسمے دیکھ کر میدان میں اترنے سے انکار کر دیا۔

.قاسم سلیمانی ایران کے پاسدارانِ انقلاب کی قدس فورس کے سربراہ تھے اور جنوری 2020 میں امریکی ڈرون حملے میں ہلاک ہو گئے تھے۔سعودی فٹبال ٹیم کا گروپ سی کا دوسرا میچ پیر کی شام سات بجے ہونا تھا لیکن سعودی کھلاڑیوں نے عندیہ دیا کہ جب تک مجسمے ہٹائے نہیں جاتے، وہ میچ نہیں کھیلیں گے۔

صورت حال کا جائزہ لینے کے لیے ڈیڑھ گھنٹے کا وقت لینے کے بعد، سعودی وفد نے فوری طور پر گرائونڈ چھوڑ دیا اور وہ وطن واپس جانے کے لیے ایئرپورٹ روانہ ہو گئے۔

اس کے بعد اے ایف سی نے ایک بیان جاری کیا جس کے مطابق اے ایف سی چیمپیئنز لیگ 2023/24 میں سعودی الاتحاد فٹبال کلب اور ایرانی سباھان فٹبال کلب کا اصفہان کے نقشِ جہاں سٹیڈیم میں گروپ سی کا میچ غیرمتوقع حالات کی وجہ سے منسوخ ہو گیا ہے۔

اے ایف سی کھلاڑیوں، میچ کے متعلق دیگر عملے اور تمام سٹیک ہولڈرز کی سلامتی اور تحفظ کے عزم کو دہراتا ہے۔ اب یہ معاملہ متعلقہ کمیٹیوں کو بھیجا جائے گا۔

سعودی سپورٹس کمپنی ایس ایس سی سٹیشن نے کہا ہے کہ سعودی فیڈریشن کے کھلاڑی ایران کے سباھان اصفہان سٹیڈیم میں قاسم سلیمانی کا مجسمہ دیکھ کر کھیلے بغیر چلے گئے اور میچ منسوخ کردیا گیا۔ سعودی فیڈریشن نے میچ کی منسوخی کے بعد اپنے بیان میں کہا کہ ہم اپنے کھلاڑیوں کی سلامتی کے پابند ہیں۔

کینیڈین سفارتکاروں کوبھارت سے نکل جانے کی ڈیڈ لائن



واشنگٹن(این این آئی) بھارت نے کینیڈا سے کہا ہے کہ وہ 10 اکتوبر تک اپنے 41 سفارت کاروں کو وطن واپس بلا لے۔

غیرملکی خبررساں ادارے کے مطابق بھارت اور کینیڈا کے درمیان تعلقات کینیڈا کے اس شبہ پر سخت کشیدہ ہو گئے ہیں کہ بھارتی حکومت کے ایجنٹس کا کینیڈا میں جون میں سکھ علاحدگی پسند رہنما اور کینیڈین شہری ہردیپ سنگھ نجار کے قتل میں کردار تھا جسے ہندوستان نے دہشت گرد قرار دیا تھا۔

بھارتی مطالبے سے واقف لوگوں کا حوالہ دیتے ہوئے امریکی اخبار نے کہا کہ ہندوستان نے ان سفارت کاروں کا سفارتی استثنی منسوخ کرنے کی دھمکی دی ہے جو 10 اکتوبر کے بعد رہ گئے۔

اخبار نے کہا کہ ہندوستان میں کینیڈا کے 62 سفارت کار ہیں اور ہندوستان نے کہا تھا کہ کل 41 کو کم کیا جائے۔

ہندوستان اور کینیڈا کی وزارتِ خارجہ نے اس خبر پر تبصرے کی درخواستوں کا فوری طور پر جواب نہیں دیا۔

ہندوستانی وزیر خارجہ سبرامنیم جے شنکر نے کہا کہ اس سے قبل کینیڈا میں ہندوستانی سفارت کاروں کے خلاف تشدد کی فضا اور ڈرانے دھمکانے والا ماحول تھا جہاں سکھ علیحدگی پسند گروپوں کی موجودگی نے نئی دہلی کو تنگ کر رکھا ہے۔

پیرس فیشن ویک میں ایشوریہ رائے کے جلوؤں نے دھوم مچادی



پیرس (این این آئی) پیرس فیشن ویک کے ریمپ پر بالی وڈ اسٹار ایشوریہ رائے بچن کے جلوؤں نے دھوم مچادی اور ایونٹ کی متعدد ویڈیوز اور تصاویر وائرل ہوگئیں۔

بھارتی اداکارہ نے خصوصی ایونٹ کیلئے خاکی اور سنہری رنگ کا لباس اور کیپ پہنی اور لباس کے رنگ کی مناسبت سے انہوں نے اپنے بالوں کو رنگ کیا ہوا تھا۔

جب وہ مشہور زمانہ فیشن ویک کے ریمپ پر واک کیلئے آئیں تو ان کی مخصوص مسکراہٹ، آنکھوں کے اشارے اور حاضرین کے لئے بوسے کے اسٹائل نے مداحوں کے دل جیت لئے۔

فیشن ویک کے موقع پر ایشوریہ کو دیگر معروف شوبز شخصیات کینڈل جینر، ایوا لونگوریا، کامیلا کابیلو اور دیگر کے ساتھ دیکھا جاسکتا ہے۔

واضح رہے کہ اداکارہ حال ہی میں منی رتنم کی فلم ‘پونین سیلوین 2’ میں نظر آئی تھیں جو ایک تاریخی ناول پر مشتمل ہے۔

جنسی تعلق بنانے سے انکار پر فلم سے نکال دیا گیا تھا، بالی وڈ اداکارہ کا انکشاف



ممبئی (این این آئی) بالی وڈ اداکارہ ایشا گپتا نے انکشاف کیا ہے کہ انہیں جنسی تعلق بنانے سے انکار پر ایک فلم سے نکال دیا گیا تھا۔ بھارت کی کئی اداکارائیں پروڈیوسرز اور ہدایتکاروں کی جانب سے کام کے بدلے جنسی تعلقات بنانے کی پیشکش کا انکشاف کرچکی ہیں اور متعدد نے کھل کر اس معاملے پر بات کی ہے۔

اب بالی وڈ کی ایک اور اداکارہ ایشا گپتا نے بھی کاسٹنگ کاؤچ پر بات کی ہے۔ حال ہی میں بھارتی میڈیا کو دیے گئے انٹرویو میں ایشا گپتا نے انکشاف کیا کہ ایک فلم کے معاون پروڈیوسر نے جنسی تعلق بنانے کی پیش کش کی۔

انہوں نے کہاکہ ان دنوں میں ان کے ساتھ ایک فلم میں کام کر رہی تھی، اس فلم کا آدھے سے زیادہ کام ختم ہوچکا تھا لیکن میں نے جنسی تعلق بنانے سے انکار کردیا تو مجھے فلم سے نکال دیا۔

انہوں نے ایک اور واقعے کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ میں ایک فلم میں کام کر رہی تھی اور فلم کا آؤٹ ڈور شوٹ چل رہا تھا اور فلم سے جڑے دو لوگ آؤٹ ڈور شوٹ کے بہانے میرے ساتھ کچھ غلط کرنے والے تھے اور انہوں نے پوری منصوبہ بندی کرلی تھی۔

ان کا کہنا تھاکہ ان دونوں نے مجھے اپنے منصوبے میں پھنسانے کی پوری کوشش کی لیکن میں نے سمجھداری سے کام لیتے ہوئے اپنی خاتون میک اپ آرٹس کو ساتھ کمرے میں سلا دیا تھا جس کے باعث میں بچ گئی۔

پاکستانی اور بھارتی فنکاروں کی مشترکہ پنجابی فلم ریلیز کے لیے تیار



لاہور(این این آئی) پاکستانی اور بھارتی فنکاروں پر مشتمل پنجابی فلم ‘اینی ہاؤ مٹی پاؤ’ 6 اکتوبر کو پوری دنیا میں ریلیز کی جائے گی۔

فلم کے حوالے سے لاہور میں پریس کانفرنس کا اہتمام کیا گیا جس میں اکرم اداس، وکی کوڈو، افتخار ٹھاکر، قیصر پیا، اظہر بٹ، شیخ عابد رشید، روبی انعم اور شاہد خان نے شرکت کی۔

اس موقع پر پاکستانی اداکار اکرم اداس کا کہنا تھا کہ یہ سب کے لئے خوشی کا مقام ہے کہ ہمارے آرٹسٹ ہمسایہ ملک کی فلموں میں کام کرکے پاکستان کا نام روشن کررہے ہیں۔

افتخار ٹھاکر نے کہا کہ ہمارے ہاں پنجابی فلمیں بن تو رہی ہیں لیکن وہ انٹرنیشنل لیول کی نہیں ہیں اور ہمارے فنکاروں نے ہمسایہ ملک کی فلموں میں کام کرکے ایک معیار بنایا ہے۔

انہوں نے مزید کہا کہ فلم ‘اینی ہاؤ مٹی پاؤ’ کا اصل فلسفہ یہ ہے کہ بے لوث ہوجاؤ، آپ کو کبھی نقصان نہیں ہوگا، فلم میں پاکستان سے اکرم اداس اور وکی کوڈو نے کام کیا ہے، ہم سب یہاں ان کی تحسین کے لئے آئے ہیں۔وکی کوڈو نے بتایا کہ فلم ‘اینی ہاؤ مٹی پاؤ’ میں کام کرکے بڑی خوشی ہوئی اور اکرم اداس نے انہیں فلم میں چانس دیا ہے۔

پاکستانی ٹک ٹاکر صندل خٹک کے ساتھ سعودی عرب میں فراڈ



ریاض (این این آائی) پاکستانی ٹک ٹاکر صندل خٹک سعودی عرب میں فراڈ کا شکار ہوگئیں۔

صندل خٹک کے ساتھ مبینہ طورپر سعودی عرب میں مقیم ایک پاکستانی نے ویزے کی مد میں فراڈ کیا، فراڈ کرنے والے شخص کا تعلق لاہور سے ہے۔

صندل خٹک نے بتایا کہ متعلقہ شخص پیسے لے کر پاسپورٹ رکھ لیتا ہے اور ویزا منسوخ کی اسٹیمپ دکھا دیتا ہے اور اس کام کے 10 ہزار ریال بٹور چکا ہے۔

ٹک ٹاکر کا کہنا ہے کہ اس کے خلاف ایف آئی اے میں رپورٹ درج کراؤں گی۔ دوسری جانب وفاقی تحقیقاتی ایجنسی کے حکام کا کہنا ہے کہ شکایت موصول ہونے کے بعد قانون کے مطابق کارروائی کی جائے گی۔

سلمان خان کو یہ اچانک کیا ہو گیا؟ مداح پریشان



بالی ووڈ کے معروف اسٹار سلمان خان کی ایک ڈانس ویڈیو سامنے آنے کے بعد ان کے مداحوں کو پریشانی لاحق ہو گئی ہے۔

سلمان خان نے ایک بھارتی صنعتکار کے پوتے کی سالگرہ میں ڈانس کی ہے جس میں تھکے ہوئے نظر آ رہے ہیں اور ڈانس میں خوبصورتی نظر نہیں آئی جس کے لیے وہ مشہور ہیں۔

ویڈیو سوشل میڈیا پر وائرل ہونے کے بعد سلمان خان کے مداحوں کو ان کی صحت کے حوالے سے تشویش لاحق ہوگئی ہے اور ان کو اپنا خیال رکھنے کا مشورہ دیا جا رہا ہے۔

ایک چاہنے والے نے سوشل میڈیا پر سلمان خان کو مشورہ دیا کہ کام سے بریک لیں، آپ کو اپنی صحت پر توجہ دینی چاہیے۔

ایک اور فین نے کہاکہ آپ تھکے ہوئے لگ رہے ہیں۔ مداحوں نے جہاں سلمان خان کو صحت کا خیال رکھنے کا مشورہ دیا ہے وہیں یہ امید بھی ظاہر کی ہے کہ وہ جلد اپنی پرانی فارم میں نظر آئیں گے۔

رزق اپنی ناقدری کبھی نہیں بھولتا



تحریر:۔ وسعت اللہ خان

آٹھ ارب کی دنیا میں روزانہ اسی کروڑ انسان بھوکے سوتے ہیں۔ایسا نہیں کہ خدا انھیں آزما رہا ہے یا قدرت نے کرہِ ارض پر انسان سمیت ہر ذی روح کے لیے خوراک کا حصہ مختص نہیں کیا۔ مگر پیٹ بھروں کی لاپرواہی، ناشکری اور ہوس ان اسی کروڑ لوگوں کا پیٹ خالی رکھنے کا بنیادی سبب ہے۔

اس دنیا میں کھیت سے باورچی خانے تک یا جانوروں کے باڑے سے ریستوران کے کچن تک جتنی بھی خوراک پہنچتی ہے اس کا تیرہ فیصد کھیت سے مارکیٹ تک پہنچتے پہنچتے ضایع ہو جاتا ہے اور باقی سترہ فیصد صارف کے ہاتھوں ضائع ہو جاتا ہے۔گویا سو کلو خوراک میں سے تیس کلو کسی کے استعمال میں نہیں آتی۔

کوئی نہیں سوچتا کہ یہ ضایع ہو جانے والی خوراک بھی زمین سے پیدا ہوتی ہے۔اس پر بھی کھاد، پانی، ادویات اور وقت صرف ہوتا ہے۔ سنچائی کے لیے توانائی کا استعمال ہوتا ہے۔مگر سب رائیگاں چلا جاتا ہے۔

ڈیڑھ ارب ٹن خوراک پیدا تو ہوتی ہے مگر پیٹ تک نہیں پہنچتی۔سب سے زیادہ پھل ، سبزیاں اور پھر غلہ اور دالیں ضایع ہوتے ہیں۔جو ملک جتنا خوشحال ہے وہاں اتنی ہی خوراک کچرے میں چلی جاتی ہے۔ مثلاً یورپی یونین میں سالانہ پونے دو سو ملین ٹن خوراک کسی کے کام نہیں آتی۔یورپ کا ہر شخص اوسطاً فی کس تین سو کلو گرام خوراک خریدنے کے باوجود ضایع کر دیتا ہے۔

آسٹریلیا میں انسانی استعمال کے قابل سالانہ بیس ارب ڈالر کی خوراک کوڑے کے ڈبے میں چلی جاتی ہے۔کینیڈا میں ایک سال میں پچیس ارب ڈالر کی خوراک ضایع ہوتی ہے۔ یہ اتنی مقدار ہے کہ اس سے پانچ ماہ تک کینیڈا کی پوری آبادی کا پیٹ مفت میں بھرا جاسکتا ہے۔ہر کینیڈین گھرانہ سالانہ کم ازکم اٹھارہ سو ڈالر کی اشیا ِ خور و نوش استعمال کیے بغیر پھینک دیتا ہے۔

آبادی کے اعتبار سے سب سے بڑے ملک چین میں روزمرہ کی پچیس فیصد خوراک اور بیس فیصد گوشت ضایع ہو جاتا ہے۔امریکا میں جتنی بھی خوراک خریدی جاتی ہے اس میں سے پینتیس تا چالیس فیصد بنا استعمال کے ضایع ہو جاتی ہے۔اس کی مالیت دو سو ارب ڈالر سے اوپر ہے۔اس میں سے پچاس ارب ڈالر مالیت کی پندرہ فیصد خوراک کو بنا چھوئے ہی کچرا دان میں ڈال دیا جاتا ہے۔

چھبیس فیصد مچھلی ، بیف اور مرغی کا گوشت فوڈ اسٹورز میں خراب ہو جاتا ہے یا گھریلو صارفین خریدنے کے باوجود استعمال نہیں کر پاتے۔ستم ظریفی یہ ہے کہ پھر بھی گوشت کی سالانہ پیداوار میں دس فیصد اضافہ ہو رہا ہے۔

اس کا مطلب یہ ہے کہ لاکھوں جانور کاٹے جاتے ہیں مگر ان کا گوشت بنا استعمال بڑے بڑے گڑھوں میں دفن ہو جاتا ہے اور ماحولیات کی مزید ایسی تیسی ہو جاتی ہے۔یہ جانور جو خوراک استعمال کرتے ہیں اور گیس خارج کرتے ہیں اس کے سبب زمین پر پڑنے والا ماحولیاتی دباؤ بھی کسی گنتی شمار میں نہیں۔

چونکہ خوراک تیار کرنے والی کمپنیوں کو اپنا مال زیادہ سے زیادہ بیچنے کی ہوس ہے لہٰذا وہ تو اپنے صارفین کی خوراک کے زیاں سے متعلق آگہی مہم بننے کا حصہ رہیں۔اگرچہ اقوام متحدہ نے دو ہزار تیس تک کے جو ملینیم اہداف ماحولیات کی بہتری کے لیے مقرر کیے ہیں ان میں سے ایک یہ بھی ہے کہ خوراک کے زیاں میں کم ازکم تیس فیصد تک کمی لائی جائے۔

یورپی یونین نے وعدہ تو کیا ہے کہ وہ یہ ہدف حاصل کرنے کی کوشش کرے گی۔مگر سوائے ڈنمارک کوئی اور یورپی ملک فی الوقت سنجیدہ نظر نہیں آتا۔جب کہ ایشیا میں جاپان اور سنگا پور نے اس بابت آگہی اور صارفین کو زیادہ سے زیادہ خوراک خریدنے کی ترغیب دینے والی کمپنیوں کو جرمانہ کرنے کا سلسلہ شروع کیا ہے۔یہ رقم آگہی مہم کی فنڈنگ میں ڈالی جاتی ہے۔

اس مہم کا مقصد یہ پیغام پھیلانا ہے کہ بس اتنا اشیا خریدیں جتنی ضرورت ہو۔بالخصوص وہ اشیا جن کی تازگی اور استعمال کی مدت مختصر ہے۔جن اشیا کے بارے میں آپ کو یقین ہو کہ یہ استعمال کے بغیر ضایع ہو سکتی ہیں انھیں اگر کسی طرح مستحقین تک پہنچا دیں تو یہ بھی قابلِ ستائش ہو گا۔کھانے پینے کی تازہ اشیا فریج میں رکھتے وقت پہلے سے خریدی اشیا کو آگے اور نئے سودے کو پیچھے رکھیں۔تاکہ پرانی اشیا پہلے استعمال ہو سکیں۔

ریسٹورنٹ میں جھوٹی شان دکھانے کے چکر میں دگنا کھانے کا آرڈر ہرگز مت دیں۔اس سے آپ کو مالی بچت بھی ہو گی اور کسی ضرورت مند کا بھلا بھی ہو سکے گا۔ریسٹورنٹس ایسی فلاحی تنظیموں سے تعاون کریں جو بچی کھچی خوراک جمع کر کے مستحقین تک پہنچانے کی کوشش کرتی ہیں۔

کئی ریستورانوں نے اپنے تئیں بھی مہم چلائی ہے کہ اگر آپ نے زائد از ضرورت کھانا آرڈر کیا اور پلیٹ میں چھوڑ دیا تو آپ کو پچاس فیصد اضافی بل دینا پڑے گا۔اگر آپ نے پلیٹ میں چھوڑنے کے بجائے سب استعمال کر لیا تو آپ کو بل میں رعایت بھی ملے گی۔

مگر خوراک کی مقدار کے ضایع ہونے کا جو حجم ہے۔اس میں یہ کوششیں حوصلہ افزا ہونے کے باوجود آٹے میں نمک کے برابر ہیں۔

یوکرین اور روس دنیا کی ایک چوتھائی گندم پیدا کرتے ہیں۔ ان کی آپس کی لڑائی کے سبب دنیا نہ صرف غذائی بحران سے دوچار ہے بلکہ خوراک کی قیمتیں بھی دو سال پہلے کے مقابلے میں پچاس فیصد زیادہ ہو گئی ہیں۔جب کہ ہر سال جو تیس فیصد خوراک گھر تک پہنچنے کے باوجود کسی کے کام نہیں آتی اس پر بہت کم لوگوں کا دھیان ہے۔اگر ایسا ہوتا تو یوکرین اور روس بھلے اگلے دس برس لڑتے رہتے مگر غذائی بحران پیدا نہ ہوتا۔

لیکن وہ انسان اور ریاست ہی کیا جو رازق کے عطا کردہ شعور کا پورا استعمال کر کے کم ازکم آدھے سے زائد خود ساختہ مسائل سے نمٹ سکے۔اسی لیے خدا کی گواہی ہے کہ بے شک انسان خسارے میں ہے۔

آیندہ کوئی بھی اپنی ہر غفلت کی طرح یہ ذمے داری بھی آسمان والے پر ڈالنے سے باز رہے کہ اس دنیا میں اسی کروڑ انسان ہر رات بھوکے کیوں سوتے ہیں ؟

( گزشتہ جمعہ کو ( انتیس ستمبر ) رزق کا زیاں روکنے کی آگہی کا عالمی دن حسبِ معمول خاموشی سے گذر گیا )

بشکریہ ایکسپریس نیوز اردو

31 برس بعد



تحریر:۔ جاوید چوہدری

ناصر محمود باجوہ جہلم میں ڈی پی او ہیں‘ یہ چند دن قبل میرے پاس تشریف لائے اور انھوںنے ایک عجیب واقعہ سنایا‘ ان کا کہنا تھا ’’میں روزانہ درجنوں فائلیں دیکھتا اور پراسیس کرتا ہوں‘ میری نظر سے چند ماہ قبل ایک فائل گزری جس میں ڈیڑھ لاکھ روپے کا چیک لگا ہوا تھا‘ چیک پولیس ویلفیئر فنڈ کے لیے تھا اور نیچے منجانب مظفر قریشی لکھا تھا۔

میں نے اپنے اسٹاف سے چیک کے بارے میں پوچھا تو جواب ملا‘ یہ صاحب 1992 سے ہر سال پولیس ویلفیئر فنڈ میں رقم جمع کرارہے ہیں‘ میں یہ سن کر حیران ہو گیا کیوں کہ میری پوری سروس میں اس نوعیت کا کوئی کنٹری بیوشن میری نظر سے نہیں گزرا تھا‘ ہم بڑی مشکل سے عوام سے ویلفیئر فنڈ کے لیے رقم جمع کرتے ہیں اور وہ بھی ایک دو بار ملتا ہے مگر ایک شخص 31 برسوں سے مسلسل رقم بھجوا رہا تھا۔

یہ بات عجیب تھی لہٰذا میں نے مظفر قریشی صاحب کا نمبر تلاش کیا اور انھیں فون کر دیا‘ قریشی صاحب نے مجھے عجیب داستان سنائی‘ یہ داستان اس قدر جذباتی تھی کہ میری آنکھوں میں آنسو آ گئے‘ میں نے بعدازاں آئی جی سے رابطہ کر کے انھیں یہ کہانی سنائی۔

یہ بھی متاثر ہو گئے اور انھوں نے مجھے مظفر قریشی صاحب کے لیے تعریفی سند بھجوا دی‘ میں آج یہ سند دینے کے لیے اسلام آباد آیا ہوں‘ میری وش لسٹ میں دو لوگوں کے نام تھے‘ مظفر قریشی صاحب اور آپ‘ آج میری دونوں سے ملاقات ہو گئی‘‘۔

میں نے ڈی پی او صاحب سے واقعہ سننے کے بعد مظفر قریشی صاحب کو فون کیا‘ یہ ریٹائرڈ فیڈرل سیکریٹری ہیں‘ 1962 میں سروس جوائن کی اور فیڈرل سیکریٹری بن کر ریٹائر ہوئے‘ اسلام آباد میں رہتے ہیں اور واک اور کتابیں ان کے دو شغل ہیں۔

میری بات سن کر یہ رو پڑے اور ان کے الفاظ نے مجھے بھی رلا دیا‘ یہ بار بار اﷲ تعالیٰ کا ذکر کر رہے تھے اور التجا کر رہے تھے یا باری تعالیٰ میری کوششیں ریت کے ذرے کے برابر ہیں تو انھیں قبول کر کے انھیں نیکی بنا دے‘ مجھے ان کی عاجزی نے اندر سے ہلا کر رکھ دیا‘ ان کی طبیعت بحال ہوئی تو انھوں نے بتایا‘ ہم چار بھائی تھے۔

ہمارے ایک بھائی ملک کے مشہور سائنس دان تھے‘ دوسرے ڈاکٹر تھے‘ تیسرے گورنمنٹ کالج لاہور میں کیمسٹری کے پروفیسر تھے اور میں سول سرونٹ تھا‘ ہم اسلام آباد میں رہتے تھے‘ میرے پروفیسر بھائی 1992میں بس سے لاہور سے اسلام آباد آ رہے تھے‘ اس زمانے میں جی ٹی روڈ سنگل ہوتی تھی۔

سوہاوہ کے قریب دو بہت خطرناک ٹرن ہوتے تھے اور وہاں اکثر حادثے ہوجاتے تھے‘ ہمارے بھائی کی بس جب وہاں پہنچی تو ڈرائیور توازن برقرار نہ رکھ سکا اوروہ کھائی میں گر گئی‘ 16 لوگ موقع پر جاں بحق ہو گئے‘ ان میں ہمارے بھائی بھی شامل تھے‘ میں ان دنوں فنانس ڈویژن میں کام کرتا تھا‘ حادثے کی شام تھکا ہارا دفتر سے گھر آیا تھا۔

ان دنوں آرٹس کونسل میں کوئی ڈرامہ چل رہا تھا اور وہ بہت پاپولر تھا‘ میں نے وہ دیکھنے جانا تھا لیکن تھکاوٹ کی وجہ سے میرا دل نہیں چاہ رہا تھا اور میں کاؤچ پر لیٹا ہوا تھا‘ اس دوران فون کی گھنٹی بجی‘ دوسری طرف جہلم تھانے کا کوئی اہلکار تھا‘ اس نے مجھے حادثے کی اطلاع دی‘ یہ خبر بم کی طرح میرے دماغ پر گری اور میں سکتے میں آگیا۔میں بڑی مشکل سے سنبھلا اور پھر میں نے اپنے دوسرے دونوں بھائیوں کو بتایا اور ہم جہلم کے لیے روانہ ہو گئے۔

ہمیں راستے میں ہمارے ڈرائیور نے بتایا‘سرمیت لانے کے لیے ایمبولینس چاہیے ہو گی‘ اس زمانے میں ایمبولینس صرف بڑے شہروں میں ہوتی تھی‘ ہم واپس اسلام آباد آئے‘ پی آئی ایم ایس سے ایمبولینس لی اور جہلم پہنچ گئے‘ تمام میتیں بی ایچ یو میں پڑی تھیں‘ ہم کمرے میں داخل ہوئے تو ہمارے مرحوم بھائی لاشوں کے درمیان فرش پر پڑے ہوئے تھے اور ان کے گرد برف کی سیلیں رکھی ہوئی تھیں‘ ہم تینوں بھائی صدمے سے بے حال تھے۔

ہمیں اسپتال کی انتظامیہ نے بتایا‘ آپ کو پہلے پولیس اسٹیشن جانا ہو گا‘ ضابطے کی کارروائی کرنا ہو گی اور آپ پھر میت لے جا سکیں گے‘ ہم پولیس اسٹیشن چلے گئے‘ اس زمانے میں بھی پولیس کے بارے میں رائے اچھی نہیں تھی۔

ہم بھی اسی مغالطے کا شکار تھے مگر جب ہم پولیس اسٹیشن پہنچے تو ہمارے ساتھ پولیس کا رویہ بہت اچھا تھا‘ ایس ایچ او نے ہمیں بٹھایا‘ دلاسا دیا‘ پانی پلایا اور فوری طور پر ضابطے کی کارروائی کر دی‘ ان کا رویہ دوسرے لواحقین کے ساتھ بھی بہت اچھا تھا‘ میں متاثر ہوئے بغیر نہ رہ سکا‘‘

میں نے قریشی صاحب کو ٹوک کر کہا’’ پولیس آپ کے اسٹیٹس سے متاثر ہو گئی ہو گی‘‘ قریشی صاحب نے جواب دیا’’ ہرگز نہیں‘ ہم نے کسی جگہ اپنا تعارف نہیں کرایا تھا‘ ہم وہاں صرف لواحقین کی حیثیت سے گئے تھے‘پولیس ہمارے مرحوم بھائی کے بارے میں بھی نہیں جانتی تھی‘ انھوں نے ان کے سامان سے میرا فون نمبر نکالا تھا اور مجھے اطلاع دی تھی‘ اطلاع کے دوران بھی ان کا رویہ ہمدردانہ اور سلجھا ہوا تھا۔

دوسرا وہ لوگ تھانے میں موجود دوسرے لواحقین کے ساتھ بھی ہمدردی اور محبت سے پیش آ رہے تھے‘ بہرحال ہم نے بھائی کی میت لی اور اسلام آباد آ گئے‘ ہم لوگ پولیس کے رویے سے اتنے متاثر ہوئے کہ ہم تینوں بھائیوں نے اپنے بھائی کی پہلی برسی پر رقم جمع کی اور تھانے میں بھجوا دی‘ یہ پولیس اہلکاروں کی ویلفیئر کے لیے ہماری طرف سے معمولی سا کنٹری بیوشن تھا۔

ہم اس کے بعد ہر سال یہ رقم بھجواتے رہے‘ آج اس کو 31 برس ہو چکے ہیں‘‘ میں نے ان سے پوچھا’’ کیا پولیس کی طرف سے کبھی آپ سے رابطہ کیا گیا‘‘ ان کا جواب تھا ’’صرف ایک بار اور وہ بھی چند ماہ قبل ڈی پی او ناصر محمود باجوہ کا فون آیا تھا‘‘ میں نے پوچھا ’’پولیس نے رابطہ کیوں نہیں کیا؟‘‘ ان کا جواب تھا’’ ہم نے انھیں کبھی اپنے بارے میں بتایا ہی نہیں‘‘ میں فیڈرل سیکریٹری بن گیا مگر پولیس کو میرے بارے میں پتا نہ چلا‘ ہم شروع میں تھانے میں رقم جمع کرا دیتے تھے لیکن پھر ہم ایس ایس پی کو بھجوانے لگے‘‘ میں نے پوچھا’’آپ اسے خفیہ کیوں رکھتے تھے؟‘‘ ان کا جواب تھا ہم یہ کام اﷲ کی رضا اور اپنے بھائی کی یاد میں کرتے تھے۔

اس سے ہمارے بھائی کی روح کو تسکین ملتی تھی اور پولیس کی ضرورتیں پوری ہو جاتی تھیں بس ہمیں مزید کچھ نہیں چاہیے تھا‘‘ میں نے پوچھا‘ آپ پولیس کے بجائے کسی خیراتی ادارے کو بھی فنڈ بھجوا سکتے تھے‘ یہ بولے‘ ہم یہ بھی کرتے رہتے ہیں مگر آپ یقین کریں 31 سال قبل پولیس کے رویے نے ہمارا پولیس کے بارے میں تاثر بدل دیا تھا لہٰذا ہم اس معمولی سی نیکی میں انھیں بھی شریک رکھنا چاہتے تھے۔

میں آگے بڑھنے سے قبل آپ کو بتاتا چلوں مظفر قریشی اپنا راز مجھے نہیں بتانا چاہتے تھے‘ یہ بار بار ڈی پی او کے بارے میں کہہ رہے تھے انھیں میرا راز نہیں کھولنا چاہیے تھا‘ یہ مجھے بھی راز کو راز رکھنے کا کہہ رہے تھے مگر میں نے ان سے عرض کیا‘ ہمارے معاشرے میں ہر طرف بری خبریں پھیلی ہوئی ہیں‘ ہم اخبار کھولتے ہیں یا ٹیلی ویژن اور موبائل اسکرین دیکھتے ہیں تو ہمارا انسانیت‘ اداروں اور ملک سے یقین ختم ہو جاتا ہے۔

ہمارے معاشرے کو آپ جیسی مثالیں چاہییں‘ یہ اس ملک کو چلائیں گی‘ میں آپ کو یہ بھی بتاتا چلوں میں نے قریشی صاحب کو بڑی مشکل سے راضی کیا اور یہ اس کے بعد اپنی کہانی سنانے پر قائل ہوئے تھے‘ قریشی صاحب کے فون کے بعد میں دیر تک اندھیرے میں بیٹھا رہا اوراپنے آپ سے یہ پوچھتا رہا‘ کیا یہ مظفر قریشی صاحب کی کہانی ہے؟ میں آخر میں اس نتیجے پر پہنچا یہ ہرگز ہرگز مظفر قریشی کی کہانی نہیں‘ یہ دراصل ایک تھانے اور ایک ایس ایچ او کی کہانی ہے‘ 1992 میں کسی نیک دل ایس ایچ او نے اپنے تھانے کا کلچر بدل دیا ہو گا۔

اس نے اپنے عملے کو انسانوں کو انسان سمجھنے کا سلیقہ سکھا دیا ہو گا لہٰذا اہلکاروں نے لواحقین کے ساتھ وہ سلوک کیا جو دنیا کا ہر لواحق پولیس سے چاہتا ہے اور اس کا نتیجہ جاریہ نیکی کی صورت میں نکلا‘ ملک کی ایک بیوروکریٹک فیملی کی پولیس کے بارے میں رائے بدل گئی اور وہ 31 برس سے پولیس کے شہداء اور غازیوں کے خاندانوں کی خدمت کر رہی ہے۔

اس معمولی رقم سے خدا جانے اب تک کتنے لوگوں کا مقدر بدل گیا ہو‘ اﷲ تعالیٰ نیکی اور رزق حلال کو بیج بنا دیتا ہے اور یہ بیج جس بھی زمین میں جڑ پکڑ لیتا ہے وہاں سے نیکی اور خیر کے کروڑوں درخت نکلتے ہیں‘ مظفر قریشی کی رقم معمولی ہو گی مگر اس کا نتیجہ چھوٹا نہیں رہا ہو گا‘ یہ رقم جس جس گھر گئی ہو گی اس کا مقدر اور راستہ بدل گیا ہو گا وہاں نہ جانے اب تک خیر کے کتنے چشمے پھوٹ چکے ہوں گے۔

دوسرا اس کہانی میں آج کی پولیس کے لیے بھی ایک سبق ہے‘ پولیس جب کسی دکھی فیملی کے ساتھ اچھے رویے سے پیش آتی ہے‘ یہ اس کو دلاسا دیتی ہے‘ اسے بٹھا کر پانی پلا دیتی ہے اور ضابطے کی کارروائی کے لیے اسے ذلیل نہیں کرتی‘ اسے بار بار چکر نہیں لگواتی‘ اس سے پیسے اینٹھنے کے لیے غیر ضروری اورنا مناسب سوال نہیں کرتی تو اس کا نتیجہ مظفر قریشی کی شکل میں نکلتا ہے۔

بااثر خاندانوں کے ذہن میں پولیس کا امیج تبدیل ہو جاتا ہے اور 31 سال بعد ہی سہی مگر میرے جیسے لوگ اس پر لکھنے پر مجبور ہو جاتے ہیں چناں چہ آئی جی پنجاب کو چاہیے یہ مظفر قریشی صاحب کو بلائیں اور ان کی کہانی ان کی زبانی پولیس فورس کو سنائیں اور پھر پولیس کوبتائیں مجرم ہو یا بے گناہ ہم سب انسان ہیں اور دنیا کے ہر انسان کو دوسرے انسان سے ہمدردی‘ محبت اور عزت چاہیے ہوتی ہے چناں چہ تھانے آنے والے ہر شخص کو عزت‘ محبت اور ہمدردی دیں اور پھر اس کا نتیجہ دیکھیں‘ ملک اور آپ دونوں بدل جائیں گے۔

بشکریہ ایکسپریس نیوز اردو

پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ کیس پر سماعت ملتوی، پیر کو فیصلہ سنا دینگے، چیف جسٹس



سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ کیس کی سماعت پیر تک ملتوی کر دی گئی ہے۔ اس موقع پر چیف جسٹس فائز عیسیٰ نے کہا کہ 9 اکتوبر کو کیس کا فیصلہ سنا دیں گے۔

چیف جسٹس پاکستان جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی سربراہی میں فل کورٹ بینچ نے کیس کی سماعت کی۔ پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ کیس کی کارروائی پی ٹی وی پر براہِ راست نشر کی گئی۔

چیف جسٹس پاکستان جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے 15 رکنی فل کورٹ بینچ میں جسٹس اعجاز الاحسن، جسٹس منصور علی شاہ، جسٹس سردار طارق مسعود، جسٹس منیب اختر، جسٹس یحییٰ آفریدی، جسٹس امین الدین خان، جسٹس سید مظاہر علی اکبر نقوی، جسٹس جمال خان مندوخیل، جسٹس محمد علی مظہر، جسٹس عائشہ اے ملک، جسٹس اطہر من اللہ، جسٹس سید حسن اظہر رضوی، جسٹس شاہد وحید اور جسٹس مسرت ہلالی شامل تھے

سماعت کے آغاز پر چیف جسٹس پاکستان جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے ریمارکس دیے کہ ہماری کوشش ہو گی آج اس کیس کو ختم کریں۔ ایک کیس کو ہی لے کر نہیں بیٹھ سکتے۔ سپریم کورٹ میں پہلے ہی بہت سے کیسز زیرالتوا ہیں۔

چیف جسٹس نے کہاکہ اس قانون کا اثر چیف جسٹس سپریم کورٹ اور 2 سینیئر ججز پر پڑے گا، اختیارات کو کم نہیں کیا جا رہا، بلکہ بانٹا جا رہا ہے۔

چیف جسٹس فائز عیسیٰ نے ریمارکس دیے کہ کچھ لوگ اس قانون کو بنیاد بنا کر کہتے ہیں کہ سپریم کورٹ اور پارلیمان آمنے سامنے آ گئے ہیں، پریکٹس اینڈ پروسیجر بل قانون بن چکا ہے، جبکہ حسبہ بل کبھی قانون بنا ہی نہیں تھا۔ اس بحث میں نہیں جانا چاہیے کہ پارلیمنٹ قانون سازی کر سکتی تھی یا نہیں۔

درخواست گزار نیازاللہ نیازی کے وکیل اکرام اللہ چوہدری کے دلائل

مقدمے کے درخواست گزار نیازاللہ نیازی کے وکیل اکرام اللہ چوہدری نے دلائل دیتے ہوئے کہا ہے کہ اس ایکٹ سے عدلیہ کی آزادی پر حملہ ہوا ہے، پارلیمنٹ نے پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ منظور کر کے عدلیہ کے اختیارات میں مداخلت کی جو ہمارے آئین میں اختیارات کی تقسیم کے تصور کے خلاف ہے۔

اس پر چیف جسٹس پاکستان نے ریمارکس دیے کہ آپ کے دلائل کی بنیاد اخباری خبریں ہیں۔ قاضی فائز عیسیٰ نے اکرام اللہ چوہدری سے مکالمہ کرتے ہوئے کہاکہ آپ کہتے ہیں عدالت کی آزادی پر حملہ کیا گیا تو یہ بتائیں کہ عدالتی آزادی نایاب ہوتی ہے یا یہ لوگوں کے لئے ہوتی ہے، آپ عدالتی آزادی سے آگے نہیں جا رہے۔

چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ فرد واحد کا اختیار کم نہ کرنے کی بات کی جا رہی ہے، فرد واحد کی وجہ سے ہی تو ملک کی تباہی ہوئی، مارشل لا میں یاک شخص ملک چلاتا ہے، ہم 3 لوگ فیصلہ کریں یا 5 کسی کو کیا مسئلہ ہے۔ ہمیں پارلیمان کو احترام دینا ہوگا۔

سپریم کورٹ کے سینیئر جج جسٹس اعجازالاحسن نے ریمارکس دیے کہ قانون سازی کرنے سے پہلے پارلیمنٹ کو مکمل طریقہ کار اپنانا  چاہیے تھا مگر ایسا نہیں کیا گیا۔

اس موقع پر جسٹس اطہر من اللہ نے سوال اٹھایا کہ کیا پارلیمنٹ کو یہ اختیار نہیں کہ وہ عوام کی بہتری کے لیے کوئی بھی قانون سازی کر سکے۔

واضح رہے کہ فریقین کی جانب سے عدالت عظمیٰ میں تحریری جوابات جمع کرا دیے گئے ہیں، اٹارنی جنرل، مسلم لیگ ن، مسلم لیگ ق کی جانب سے جمع جوابات میں ایکٹ کو برقرار رکھنے کا کہا گیا ہے جبکہ درخواست گزاروں اور پی ٹی آئی نے استدعا کی ہے کہ ایکٹ کو کالعدم قرار دیا جائے۔