فاسٹ بولر شاہین شاہ آفریدی نے صحافیوں سے کیا وعدہ کیا؟



کرکٹ کا عالمی مقابلہ بھارت میں جاری ہے، اور آج روایتی حریف پاکستان اور بھارت احمدآباد کے نریندرا مودی کرکٹ اسٹیڈیم میں آمنے سامنے ہوں گے۔

قومی کرکٹ ٹیم کے فاسٹ بولر شاہین شاہ آفریدی نے صحافیوں سے وعدہ کیا ہے کہ اگر وہ بھارت کے خلاف میچ میں 5 وکٹیں لینے میں کامیاب ہوئے تو پھر ان کے ساتھ سیلفی لیں گے۔

اس سے قبل پاکستان ایونٹ کے 2 میچز کھیل چکا ہے جن میں شاہین شاہ آفریدی کی کارکردگی کوئی متاثرکن نہیں رہی، تاہم شاہین شاہ آج کے میچ کے لیے پراعتماد ہیں کہ وہ 5 وکٹیں لے اڑیں گے۔

بھارتی میڈیا کا کہنا ہے کی نریندرامودی کرکٹ اسٹیڈیم میں پریکٹس سیشن کے دوران رپورٹرز نے شاہین شاہ سے فرمائش کی کہ وہ ان کے ساتھ سیلفی لینا چاہتے ہیں۔

شاہین شاہ آفریدی نے صحافیوں کو جواب دیا کہ اگر بھارت کے خلاف میچ میں 5 وکٹیں لینے میں کامیاب ہو گیا تو ضرور سیلفی لوں گا۔

پیٹرول 36، ہائی سپیڈ ڈیزل19روپے فی لٹر سستا ہونے کا امکان



لاہور (مانیٹرنگ ڈیسک)16اکتوبر سے پیٹرول کی قیمت میں 36 جبکہ ہائی سپیڈ ڈیزل کی قیمت میں 19 روپے فی لٹر کمی متوقع ہے۔

میڈیا رپورٹس کے مطابق پیٹرول کی ایکس ریفائنری قیمت 36 روپے کمی سے 206 روپے فی لٹر ہو گئی۔ ڈیزل کی ایکس ریفائنری قیمت 19 روپے کم ہو کر 233 روپے ہو گئی ہے۔

عالمی منڈی میں پیٹرول کی قیمت 10 ڈالر کمی سے 104 ڈالر فی بیرل پر آگئی جبکہ ڈیزل کی قیمت 8 ڈالر کم ہو کر 118 ڈالر فی بیرل ہوگئی ہے۔

تربت میں نامعلوم افراد کی فائرنگ، 6 مزدور جاں بحق



بلوچستان میں تربت کے علاقے سیٹلائیٹ ٹاؤن میں ایک مکان میں فائرنگ ہوئی ہے جس کے نتیجے میں 6 مزدور جاں بحق ہو گئے ہیں جبکہ 2 زخمی ہو گئے ہیں۔

پولیس نے بتایا ہے کہ نامعلوم مسلح افراد نے ایک گھر پر فائرنگ کی ہے جس کے نتیجے میں 6 افراد جاں بحق ہوئے ہیں۔ مرنے والوں کی لاشوں اور زخمیوں کو ہسپتال منتقل کر دیا گیا ہے۔

پولیس کے مطابق تربت میں فائرنگ سے جن لوگوں کی اموات ہوئی ہیں ان کا تعلق پنجاب سے بتایا جا رہا ہے۔ یہ لوگ تعمیراتی کام کے لیے علاقے میں موجود تھے۔

پولیس نے جائے وقوعہ پر پہنچ کر شواہد اکٹھے کیے ہیں اور ملزمان کی تلاش شروع کر دی ہے۔

پولیس کے مطابق نامعلوم افراد کی فائرنگ سے جاں بحق ہونے والے افراد کی شناخت رضوان، محمد نعیم، شفیق احمد، وسیم اور شہباز کے نام سے ہوئی ہے، جبکہ زخمی ہونے والوں میں توحید اور غلام مصطفیٰ شامل ہیں۔

پارلیمنٹ لاجز و ایم این اے ہا سٹل کرایہ، 51 سابق ایم این ایز نادہندہ نکلے



اسلام آ باد ( مانیٹرنگ ڈیسک )51 سابق ممبران قومی اسمبلی پارلیمنٹ لاجز اور ایم این ایز ہا سٹل اسلام آ باد کے نادہندہ ہیں اور انہوں نے اپنے فیملی سویٹ کے ماہانہ کرایہ کے واجبات ابھی تک ادا نہیں کئے۔

موقر قومی اخبار کی خبر کے مطابق ذ رائع کا کہنا ہے کہ آئندہ عام انتخابات میں حصہ لینے سے قبل ا ن سابق ممبران اسمبلی کیلئے یہ واجبات ادا کرکے این او سی لینالازمی ہوگا۔

پارلیمنٹ لاجز ڈائریکٹوریٹ کی جانب سے مرتب کردہ فہرست کے مطا بق نادہندگان میں منورہ بی بی بلوچ 108000 روپے ،عبد الشکور مرحوم 108000 ،سا بق سپیکرڈاکٹر فہمیدہ مرزا60000، سا بق سپیکراسد قیصر 54000 ، چوہدری شوکت علی بھٹی 48000،غزالہ سیفی 86000،جواد حسین108000،محمد اسرار ترین 108000، عالیہ حمزہ ملک 193600،ڈاکٹر حیدر علی خان 48000، سابق وزیر تجارت سید نوید قمر60000،غلام محمد مہر لا لی 54000،شازیہ مری 108000،ملک احسان اللہ ٹوانہ 108000،محمد ابر اہیم خان 48000،سابق اپوزیشن لیڈر راجہ ریاض احمد108000،امیر علی شاہ جاموٹ 204000، ثوبیہ کمال خان 96000،محمد فاروق اعظم 48000، عمر اسلم خان 48000،آسیہ عظیم 71800، سا بق وزیرشاہ زین بگٹی 10800 ،منزہ حسن 108000، شبیر علی قریشی 167000، رانا اسحقٰ خان 52000، شاندانہ گلزار خان 54600،سا بق وزیرسید مرتضی محمود 108000، شنیلا رتھ 48000،لال چند 108000،ساجد خان 48000،رائے مرتضیٰ اقبال 108000،امان اللہ بھٹی 108000، فخر زمان خان 54000،میر محمد علی 48000،عندلیب عباس 108000،روبینہ جمیل 108000، چوہدری جنید اقبال 108000،عمران خٹک 48000، ملک انور تاج 108000،مجاہد علی خان (48000، صداقت علی عبا سی 48000،سید فیض الحسن (48000، نوشین افتخار 180000،رضا نصر اللہ گھمن 108000، مخدوم خسرو بختیار 52200، گل ظفر خان 108000، چوہدری طاہر اقبال 48000،عبد المجید خان 48000، سا بق ڈپٹی سپیکرزاہد اکرم درانی 108000،اقبال خان 48000اور فہیم خان 54000 روپےشامل ہیں، ذرائع کے مطابق ان سابق ممبران کے بجلی اور گیس کے واجبات کی فہرستیں بھی تیار کی جا ر ہی ہیں۔

تیمور سلیم جھگڑا 5 ماہ روپوش رہنے کے بعد منظرعام پر آگئے



پشاور (پی پی آئی)خیبر پختونخوا کے سابق وزیر خزانہ تیمور سلیم جھگڑا نے کہا ہے کہ ’تحریک انصاف کے رہنماؤں اور کارکنوں پر دباؤ ڈال کر انہیں پارٹی چھوڑنے پر مجبور کیا گیا۔

روپوش رہنا میری سیاسی حکمت عملی تھی۔‘ تیمور سلیم جھگڑا پانچ ماہ روپوش رہنے کے بعد منظرعام پر آگئے ہیں۔

انہوں نے بتایا کہ ’مجھے 150 دن گھر سے دْور رہنا پڑا جو مشکل کام تھا۔‘’تاہم یہ فیصلہ میری سیاسی حکمتِ عملی کا حصہ تھا۔

پارٹی رہنماؤں اور کارکنوں کو مجبور کیا جا رہا ہے کہ وہ خوفزدہ ہو کر پارٹی کو چھوڑ دیں۔

پشاور، موبائل سمز کی سرعام فروخت پر پابندی



پشاور (اے پی پی) ڈپٹی کمشنر (ڈی سی )پشاور نے موبائل سمز کا غیر قانونی استعمال روکنے کیلئے سمز کی سرعام فروخت پر پابندی عائد کرتے ہوئے دفعہ 144نافذ کردی ۔

انتظامیہ کی جانب سے جاری اعلامیہ کے مطابق پابندی کے تحت بغیر اجازت سم فروخت کرنا ممنوع ہوگا ۔

ڈی سی پشاور نے پولیس کو غیر قانونی طریقوں سے موبائل سمز فروخت کرنے والوں کے خلاف کارروائی کی ہدایت کی ہے۔

دوست



تحریر:۔ جاوید چوہدری

یہ میرے بچپن کی بات ہے‘ ہم لوگ دیہاتی علاقے سے تعلق رکھتے ہیں‘ ہزاروں سال سے کھیتی باڑی‘ دوستیاں‘ دشمنیاں اور لڑائی جھگڑے ہمارا کام تھا‘ میرے والد اس خاندان کے پہلے فرد تھے جنھوں نے کاروبار شروع کیا‘ یہ مختلف کاروبار کرتے ہوئے آخر میں ’’بیو پار‘‘ میں ٹھہر گئے۔

ہمارے شہر میں دو منڈیاں تھیں‘ پرانی منڈی اور نئی منڈی۔ ہمارا گھر ان دونوں منڈیوں کے درمیان تھا‘ ہم ایک ایسے محلے میں رہتے تھے جو دونوں منڈیوں کو آپس میں ملاتا تھا‘ میرے والد نے گھر کی بیٹھک کو دکان بنا لیا‘ یہ اس محلے کی پہلی دکان تھی‘ لوگ مکانوں اور گھروں کے درمیان دکان دیکھ کر حیران ہوتے تھے مگر میرے والد ڈٹے رہے۔

اس دکان نے آہستہ آہستہ پوری گلی کو مارکیٹ بنا دیا لیکن یہ میرا موضوع نہیں‘میرا موضوع اس دکان کا حقہ ہے‘ یہ دکان محض دکان نہیں تھی‘ یہ محلے کی بیٹھک بھی تھی‘ یہ پنچایت بھی تھی اور یہ محلے کا چائے خانہ بھی تھی‘ میرے والد فجر کے وقت دکان کھول دیتے تھے‘ حقہ تازہ کر کے دکان میں رکھ دیا جاتا تھا‘ حقہ پنجاب کا سب سے بڑا سماجی رابطہ ہے‘ آپ اگر حقے کے مالک ہیں‘ آپ اگر دن میں تین بار یہ حقہ تازہ کر سکتے ہیں تو آپ جان لیں۔

آپ کا ڈیرہ آباد رہے گا‘ میرے والد کا حقہ تازہ ہوتا رہتا تھا اور گلی سے گزرنے والے لوگ دکان پر رکتے تھے‘ حقے کے ’’پف‘‘ لیتے تھے‘ گپیں لگاتے تھے‘ چائے یا لسی پیتے تھے اور اپنے اپنے کاموں کے لیے نکل جاتے تھے‘ غریب اور امیر اس حقے کے لیے سب برابر تھے‘ یہ حقہ بہت بڑی ’’ایکٹویٹی‘‘ تھا‘ میرے والد اس حقے کا بہت خیال رکھتے تھے۔

اس کا پیندا پیتل کا تھا‘ اس پیتل پر چمڑا چڑھا ہوا تھا‘ چمڑے کو ہر دو تین گھنٹے بعد گیلا کر دیا جاتا تھا‘ یہ گیلا چمڑا حقے کے پانی کو ٹھنڈا رکھتا تھا‘ حقے کی نلیاںا سپیشل بانس کی بنی ہوئی تھیں‘ اس بانس پر پیتل کے چمک دار چھلے چڑھے ہوئے تھے‘ نلی کے سرے پر تمباکو کی تہہ جم جاتی تھی‘ میرے والد چار پانچ دن بعد باریک چاقو سے یہ تہہ صاف کرتے تھے‘ نلیوں میں لوہے کی تار گھسا کر نلیاں بھی صاف کی جاتی تھیں۔

تمباکو مردان سے خصوصی طور پر منگوایا جاتا تھا‘ تمباکو کے اوپر گڑ رکھا جاتا تھا‘ یہ گڑ بھی خصوصی ہوتا تھا‘ حقے کی چلم (ہمارے علاقے میں اسے ٹوپی کہا جاتا ہے) گجرات شہر کی خصوصی مٹی سے بنائی جاتی ہے‘ یہ گجرات سے آتی تھی‘ کیکر کی چھال جلا کر چلم کی آگ بنائی جاتی تھی اور اس آگ کو چلم میں بھرنے کے لیے خصوصی چمٹا ہوتا تھا۔

وہ حقہ اس دکان کی رونق تھا‘ لوگ حقے کے لیے سارا دن وہاں رکتے رہتے تھے‘ حقہ پیتے تھے اور آگے چل پڑتے تھے‘ ہماری دکان کی دوسری ’’بڑی اٹریکشن‘‘ ٹیلی فون تھا‘ یہ محلے کا واحد ٹیلی فون تھا چناںچہ لوگ فون کرنے اور سننے کے لیے بھی وہاں رک جاتے تھے‘ پورے محلے نے اپنے عزیزوں اور رشتے داروں کو ہمارا فون نمبر دے رکھا تھا‘ ہم تمام بھائی اسکول سے واپسی پر ٹیلی فون آپریٹر بن جاتے تھے۔

لوگوں کے فون آتے تھے اور ہمارے والد ہم میں سے کسی نہ کسی کو محلے داروں کا نام بتا کر اس کے گھر کی طرف دوڑا دیتے تھے‘ ہم ان کے دروازے کی کنڈی بجا کر اونچی آواز میں نعرہ لگاتے تھے ’’چاچا جی آپ کا ٹیلی فون آیا ہے‘‘ اور اندر موجود لوگ ’’فون آیا‘ فون آیا‘‘ کے نعرے لگاتے ہوئے ننگے پاؤں دوڑ پڑتے تھے۔

اس فون اور اس حقے نے محلے میں ایک نئی کلاس کو جنم دے دیا‘ لوگ فون کرنے اور حقہ پینے کے لیے ہماری دکان پر آتے تھے اور گھنٹوں بیٹھے رہتے تھے‘ یہ ہمارے والد کو اپنے دکھڑے بھی سناتے تھے‘ یہ چائے بھی وہیں پیتے تھے اور ہمارے والد کے ساتھ کھانا بھی کھاتے تھے‘ یہ ادھار بھی لے جاتے تھے اور ہمارے والد کو کسی نہ کسی کام میں بھی استعمال کر جاتے تھے‘ ہم ان لوگوں کو اپنے والد کا گہرا دوست سمجھتے تھے‘ یہ ہمارے چاچا جی بن چکے تھے‘ ہم ان کا بے حد احترام کرتے تھے‘ میرے بچپن کی بات ہے۔

ایک بار میرے والد کا گلا خراب ہو گیا‘ گلے کے اندر انفیکشن ہو گیا‘ تمباکو بلکہ ہر قسم کا دھواں اس انفیکشن کے لیے انتہائی نقصان دہ تھا‘ ڈاکٹروں نے والد کی تمباکو نوشی بند کرا دی‘ میں آپ کو یہاں تمباکو نوشی کے بارے میں ایک دل چسپ حقیقت بھی بتاتا چلوں‘ دنیا میں تمباکو نوشی کی چند غیر مطبوعہ روایات ہیں‘ سگریٹ نوش دنیا کے کسی بھی کونے میں‘ کسی بھی شخص سے‘ کسی بھی وقت سگریٹ مانگ سکتے ہیں اور دوسرا سگریٹ نوش انکار نہیں کرتا‘ یہ تمباکو نوشی کے دوران عموماً گپیں بھی مارتے ہیں‘ میرے والد ’’چین اسموکر‘‘ تھے۔

یہ2012میں میرے ساتھ ایک بار پیرس گئے تھے‘ جہاز میں تمباکو نوشی کی اجازت نہیں تھی چناںچہ ابا جی نے چھ گھنٹے کی فلائٹ بڑی مشکل سے گزاری‘ ہم جوں ہی ائیرپورٹ پر اترے‘ اباجی امیگریشن کی ساری قطاریں اور کاؤنٹرز روند کر باہر نکل گئے‘ راستے میں انھیں جو بھی روکتا تھا‘ یہ انگلی سے سگریٹ کا نشان بناتے تھے اورگورا راستے سے ہٹ جاتا تھا‘ میں امیگریشن کے مسئلے حل کر کے باہر نکلا تو میں نے دیکھا‘ میرے والد ایک گورے کے ساتھ کھڑے ہو کر سگریٹ پی رہے تھے اور اس کے ساتھ گپ بھی لگا رہے تھے۔

میں اس عجیب و غریب تبادلہ خیال پر حیران رہ گیا‘ گورے کا تعلق آسٹریلیا سے تھا‘ وہ انجینئر تھا اور شارٹ کورس کے لیے پیرس آیا تھا‘ وہ انگریزی بول رہا تھا جب کہ ابا جی ان پڑھ تھے اور پنجابی کے علاوہ کوئی زبان نہیں جانتے تھے‘ میں ان کے قریب پہنچا تو میری حیرت کی انتہا نہ رہی‘ آسٹریلین انجینئر ابا جی کو انگریزی میں بتا رہا تھا‘ فلائٹ بہت لمبی تھی‘ میں نے دس گھنٹے سے سگریٹ نہیں پیا‘ یہ سفر میرے لیے بہت مشکل تھا اور ابا جی اسے پنجابی میں بتا رہے تھے‘ میں نے آخری سگریٹ دبئی میں پیا‘ چھ گھنٹے سے سگریٹ کے بغیر ہوں اور یہ سفر میرے لیے بھی بہت مشکل تھا‘ دونوں سگریٹ پھونک رہے تھے۔

دو مختلف زبانوں میں گفتگو کر رہے تھے اور قہقہے لگا رہے تھے‘مجھے اس وقت معلوم ہوا سگریٹ نوش زبان سے بھی بالا تر ہوتے ہیں ‘یہ مختلف زبانوں‘ علاقوں اور تہذیبوں سے تعلق رکھنے کے باوجود ایک دوسرے کا مسئلہ سمجھتے ہیں‘ یہ سگریٹ کی ویلیو سے بھی واقف ہوتے ہیں‘ ڈاکٹر نے جب میرے والد کے حقے پر پابندی لگائی تو یہ خبر میرے والد کے لیے صورِ اسرافیل کی حیثیت رکھتی تھی‘ یہ پریشان ہو گئے لیکن ڈاکٹر کا فیصلہ عدالتی فیصلہ تھا‘ میرے والد ڈسپلن کے بھی انتہائی سخت تھے‘ یہ جب کوئی بات ‘ کوئی چیز ٹھان لیتے تھے تو یہ پھر اس سے پیچھے نہیں ہٹتے تھے‘ میرے والد نے حقے پر پابندی لگا دی‘ ہم لوگوں نے حقہ اٹھایا اور گودام میں رکھ دیا یوں دکان کی بڑی اٹریکشن اچانک ختم ہو گئی۔

حسن اتفاق سے انھی دنوں ’’ایکس چینج‘‘کی ’’اپ گریڈیشن‘‘بھی شروع ہو گئی اور ہمارا فون بھی عارضی طور پر کٹ گیا یوں دکان کی دوسری اٹریکشن بھی ختم ہو گئی‘ ان اٹریکشنز کے خاتمے کے ساتھ ہی دکان کے رش میں کمی ہو گئی‘ لوگ دکان کے قریب پہنچ کر منہ نیچے کر لیتے تھے اور تیز تیز قدموں سے آگے نکل جاتے تھے‘ وہ لوگ جو روز صبح سویرے ہماری دکان پر آکر بیٹھ جاتے تھے اور ان کی شام بھی اسی دکان پر ہوتی تھی وہ بھی اچانک غائب ہو گئے‘ہم جن کو والد کا انتہائی قریبی دوست سمجھتے تھے‘ جو لوگ ہمارے چاچا جی ہوتے تھے‘ جو گلی میں داخل ہو کر اونچی آواز میں چوہدری صاحب کا نعرہ لگاتے تھے اور جو گھنٹوں ہمارے والد کی تعریفیں کرتے تھے‘ وہ سب بھی غائب ہو گئے‘ ہم ان کی شکلیں تک بھول گئے‘ میرے والد سارا دن دکان پر اکیلے بیٹھے رہتے تھے‘ گاہک آتے تھے‘ منشی اور دکان کے کارندے گاہکوں کو ڈیل کرتے تھے لیکن وہ لوگ بھی میرے والد کے قریب نہیں جاتے تھے‘ وہ دور سے انھیں سلام کرتے تھے‘ رسید بنواتے تھے اور رخصت ہو جاتے تھے‘ میں اس وقت پرائمری اسکول میں پڑھتا تھا‘ میرے کچے ذہن کے لیے یہ صورت حال ہضم کرنا مشکل تھا۔

میں ایک دن والد کے پاس بیٹھا اور میں نے ان سے پوچھا’’ابا جی آپ کے سارے دوست کہاں چلے گئے ہیں؟‘‘ میرے والد نے غور سے میری طرف دیکھا‘میری آنکھوں میں اس وقت آنسو تھے‘ میرے والد نے رومال سے میری آنکھیں صاف کیں‘ سر پر ہاتھ پھیرا اور بڑے پیار سے کہا’’بیٹا یہ لوگ میرے دوست نہیں تھے‘ یہ حقے اور ٹیلی فون کے دوست تھے‘ حقہ بند ہو گیا‘ ٹیلی فون کٹ گیا‘ یہ لوگ بھی کٹ گئے‘ یہ بھی بند ہو گئے‘ جس دن ٹیلی فون اور حقہ واپس آجائے گا‘ یہ لوگ بھی اس دن واپس آجائیں گے‘‘ میرے کچے ذہن نے یہ فلسفہ سمجھنے سے انکار کر دیا‘ میرے والد نے میرے چہرے کی گومگو پڑھ لی‘ وہ بولے بیٹا یاد رکھو اﷲ تعالیٰ جب آپ کو کوئی نعمت دیتا ہے تو یہ نعمت اپنے ساتھ نئے دوست لے کر آتی ہے لیکن ہم نعمت کے ان دوستوں کو اپنا دوست سمجھ بیٹھتے ہیں‘ یہ ہماری بے وقوفی ہوتی ہے۔

یہ نعمت جس دن چلی جاتی ہے‘ یہ سارے دوست بھی رخصت ہو جاتے ہیں‘ میرے والد نے اس کے بعد شان دار نصیحت کی‘ انھوں نے فرمایا ’’بیٹا آپ کا اصل کمال یہ ہو گا آپ نعمتوں کے دوستوں کو نعمتوں کا دوست رہنے دو‘ آپ ان لوگوں کو کبھی اپنا دوست نہ بننے دو‘ تم زندگی میں کبھی مایوس نہیں ہو گے‘‘ میرے والد نے فرمایا’’ بیٹا آپ کار کے دوستوں کو کار کا دوست سمجھو‘ کاروبار کے دوستوں کو کاروبار کا دوست سمجھو اور اپنے عہدے کے دوستوں کو عہدے کا دوست سمجھو‘ ان لوگوں کو کبھی اپنے دل تک نہ پہنچنے دو‘تمہارا دل کبھی زخمی نہیں ہو گا‘ تم کبھی خون کے آنسو نہیں رو ؤگے‘‘۔

بشکریہ ایکسپریس اردو

نواز شریف کی آمد!



تحریر:۔ عطاالحق قاسمی

پاکستان کے تین بار منتخب ہونے والے وزیراعظم اور ہر بار ’’ناپسندیدہ‘‘ قرار دیئے گئے میاں نواز شریف چار سال بعد واپس پاکستان آ رہے ہیں، پہلے اس حوالے سے کوئی حتمی بات نہیں کی جاتی تھی، اب اس خبر کی تصدیق کر دی گئی ہے اور مسلم لیگ (ن) بھرپورطریقے سے مینار پاکستان کے جلسے میں ان کے استقبال کی تیاریوں میں مشغول ہے۔ یہ استقبال ایئر پورٹ پر نہیں ہوگا کہ انہوں نے وہاں سے ہیلی کاپٹر پر جاتی امرا چلے جانا ہے یا ممکن ہے کچھ دیر کیلئے اسلام آباد رکیں۔ ایئر پورٹ پر استقبال کی کوئی اپیل نہیں کی گئی کہ اس صورت میں اسی دن ایئر پورٹ اور اس کے فوراً بعد مینار پاکستان کے جلسے میں شرکت عملی طور پر ممکن نہیں تھی۔

میں نے آج اپنے دفتر جاتے ہوئے سڑک کے دونوں جانب مسلم لیگ (ن) کے پرچم نواز شریف کی تصویر سے سجے دیکھے۔ اس کے علاوہ جماعت کے کارکن لوگوں سے تجدید ملاقات کرتے بھی دکھائی دیئے اور شاید جلسے سے بھی زیادہ اہم چیز ان سب لوگوں سے ملاقاتیں ہیں جو ہر مشکل وقت میں جماعت اور نواز شریف کی ہر آواز پر لبیک کہتے رہے۔ مگر بعد میں ایک عجیب صورت حال نظر آئی اور وہ یہ کہ آپ کس کے ساتھ ہیں اور کس کے ساتھ نہیں ہیں، اس کے علاوہ ووٹروں کو ان کے حال پر بھی چھوڑ دیا گیا،ان کا پرسان حال کوئی نہ تھا، مہنگائی کے حوالے سے تو ان کی دلجوئی کسی طور پر بھی ممکن نہ تھی۔ مگر اپنی حکومت میں بھی جائز کاموںکیلئے کوئی دستگیر انہیں دستیاب نہیں تھا اور اب تو نگران حکومت ہے۔ تاہم یہ بات تسلی بخش ہے کہ اب لوگوں تک رسائی کی جا رہی ہے اور ان کے شکوے شکایتیں سنی جا رہی ہیں۔

مگر میرے نزدیک اس کوتاہی کی وجہ یہ تھی کہ عوام کے ’’سر کا سائیں‘‘ ان سے دور تھا۔ نواز شریف اپنے اور پرائے دونوں سے ملتے تھے، عوام کے ساتھ ان کا رابطہ مسلسل تھا۔ ایک سیزنڈ پالیٹیشن کے طور پر ان کا ہاتھ عوام کی نبض پر رہتا تھا۔ وہ کوئی بڑا فیصلہ کرنے سے پہلے اپنے ادنیٰ و اعلیٰ ملاقاتیوں سے گفتگو کے دوران حیلے بہانے سے ان کی رائے لیا کرتے تھے۔ آغا حشر کاشمیری کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ جب وہ تھیٹر کیلئے کوئی ناٹک لکھنے بیٹھتے تو کئی مرتبہ باہر بازار میں آ جاتے اور کسی ریڑھی والے کو اپنے مکالمے سناتے، اگر وہ پاس کردیتا تو اسے ناٹک میں شامل کردیتے، بصورت دیگررہنے دیتے۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ ان کے مخاطب عوام ہوتے تھے اور وہ ان کی پسند کا خیال بھی رکھتے تھے۔ سیاستدانوں اور حکمرانوں کا ووٹ بینک بھی عوام ہوتے ہیں جو سیاست دان ان کے خوابوں کی تعبیر نہیں بنتا وہ اس سے دور ہٹتے چلے جاتے ہیں۔ میاں نواز شریف اس حوالے سے جادوگر ہیں، وہ عوام اورخواص دونوں کی ذہنی کیفیت سے پور ی طرح آگاہ ہیں، وہ ملک کے تین بار وزیراعظم ایسے ہی نہیں بنے اور انہیں اس منصب سے یونہی نہیں ہٹایا گیا۔

اب اکیس اکتوبر کو میاں صاحب واپس آ رہے ہیں جہاں عوام مینار پاکستان کے جلسے میں ان کا استقبال کریں گے،میں مایوس لوگوں میں بھی ایک نیا ولولہ اور جوش و خروش دیکھ رہا ہوں، انہیں یقین ہے کہ یہ وژنری شخص ایک بار پھر انہی رستوں پر گامزن ہوگا جو رستے ملک کو ترقی کی جانب لے جا رہے تھے اور جو عوام کی امنگوں اور خواہشات کے ترجمان تھے۔ ایک بات میں پہلے بھی لکھ چکا ہوں اور دہرا رہا ہوں کہ اس وقت بظاہر اس جماعت کے ہم نوا بہت کم ہیں،یہ بات درست نہیں ہے۔میں مسلم لیگی کارکنوں کو ’’گونگا پہلوان‘‘ سمجھتا ہوں، وہ وقت آنے پر گونگے نہیں رہتے۔ تاہم اس کا مطلب یہ نہیں کہ پی ٹی آئی کمزور ہوگئی ہے، اس خیال خام کو دل سے نکال باہر پھینک دینا چاہیے، عمران خان نے اپنےسپورٹرز کے ذہنوں کو ملک کیلئے تیلا تک نہ توڑنے کے باوجود پوری طرح مسمرائز کیا ہوا ہے، آپ جو مرضی کر لیں وہ کوےّ کو سفید ہی کہیں گے، چنانچہ مسلم لیگرز کو اپنے حریف کے بارے میں کسی خوش فہمی میں مبتلا نہیں رہنا چاہیے۔

مجھے علم ہے کہ مسلم لیگ کے رہنما موجودہ انتہائی مہنگائی اور اس حوالے سے عوام کے جذبات سے ناواقف نہیں ہیں، لوگ گزشتہ حکومت کو ان کے کھاتے میں ڈالتے رہے ہیں اور یوں اس دور کے بہت سے تکلیف دہ اقدامات کا ذمہ دار بھی انہی کو ٹھہراتے ہیں جبکہ مسلم لیگ نہیں بلکہ چودہ سیاسی جماعتوں کی مشترکہ حکومت تھی اور اس دور میں جتنے فیصلے ہوئے اس کی ذمہ داری کسی ایک نہیں سب جماعتوں پر عائد ہوتی ہے۔ اب نواز شریف آ رہے ہیں، اللہ کرے عوام اور ان کے درمیان کوئی رکاوٹ نہ کھڑی کی جائے۔ قید و بند سے تو نواز شریف ڈرنے والا نہیں، وہ بہت کٹھن مراحل میں بھی چٹان کی طرح کھڑا رہا ہے۔ وہ اگر ملک کے وزیر اعظم بنتے ہیں تو اس کے فوراً بعد تو نہیں لیکن کچھ عرصے کے بعد عوام بہت سی خوشخبریاں سنیں گے، ملک کی ترقی کی جانب گامزن ہوگا، عوام کیلئے آسانیاں پیدا ہوں گی اور ترقی و خوشحالی کا وہ قافلہ ازسر نو وہیں سے اپنے سفر کا آغاز کرے گا جہاں زبردستی اس کا اختتام کیا گیا تھا۔

بشکریہ جنگ نیوز اردو

غزہ سے فلسطینیوں کا جبری انخلا قبول نہیں: سعودی عرب



سعودی عرب نے اسرائیل کی جانب سے فلسطینیوں کے جبری انخلا کو مسترد کر دیا ہے اور سویلین آبادی کو نشانہ بنانے کی شدید مذمت کی ہے۔

سعودی وزیر خارجہ فیصل بن فرحان نے برطانوی ہم منصب اور یورپی یونین کے اعلیٰ عہدے دار کو ٹیلیفون کر کے کہا ہے کہ اسرائیل پر زور دیا جائے کہ وہ عالمی قوانین کی پابندی کرنے کے ساتھ ساتھ انسانی حقوق کا بھی احترام کرے۔

سعودی وزیرخارجہ نے کہا کہ اسرائیل پر غزہ کی ناکہ بندی ختم کرنے پر زور دیا جائے تاکہ امدادی اشیا کی ترسیل ممکن ہو سکے۔

فیصل بن فرحان نے برطانیہ پر زور دیا کہ عالمی امن و سلامتی کے تحفظ کے لیے وہ اپنا بھرپور کردار ادا کرے۔

دوسری طرف اسرائیلی میڈیا کہنا ہے کہ اسرائیل اور حماس کے درمیان جاری کشیدگی کے باعث سعودی عرب نے اسرائیل کے ساتھ تعلقات کو معمول پر لانے کا عمل روک دیا ہے۔

اسرائیل کا غزہ سے فلسطینیوں کے انخلا کا حکم، اقوام متحدہ کو تشویش لاحق



سیکریٹری جنرل اقوام متحدہ انتونیوگوتریس نے اسرائیل کے اس الٹی میٹم کو خطرناک اور تشویشناک قرار دیا ہے جس میں اسرائیل نے فلسطینیوں کو غزہ سے نکلنے کا کہا ہے۔

انتونیو گوتریس نے کہا ہے کہ اسرائیل کی جانب سے فلسطینیوں کو غزہ سے نکلنے کے الٹی میٹم کے تباہ کن انسانی اثرات مرتب ہو سکتے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ غزہ کے متاثرہ علاقے پہلے ہی اسرائیلی محاصرے اور بمباری کی زد میں ہیں، اب اسرائیل کی جانب سے جو الٹی میٹم دیا گیا ہے یہ کم از کم 11 لاکھ فلسطینیوں پر لاگو ہو گا۔

سیکریٹری جنرل نے کہا کہ اس وقت جو صورتحال چل رہی ہے اس میں فلسطین کے متاثرین ایندھن، پانی اور خوراک جیسی بنیادی ضروریات سے بھی محروم ہیں۔

واضح رہے کہ اسرائیل نے فلسطینیوں کو الٹی میٹم دیا ہے کہ 24 گھنٹے میں غزہ خالی کر دیا جائے مگر فلسطینیوں نے اس الٹی میٹم کو یکسر مسترد کرتے ہوئے اپنی سرزمین پر ڈٹے رہنے کا اعلان کیا ہے۔

روس غزہ پر اسرائیلی بربریت رکوانے کے لیے سامنے آ گیا



اسرائیل کی جانب سے غزہ پر چڑھائی کے بعد پیدا شدہ صورت حال پر روس میدان میں آ گیا ہے۔

روس کی جانب سے اسرائیل اور فلسطین کی لڑائی پر اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں قرارداد کا مسودہ پیش کر دیا گیا ہے۔

روس نے اقوام متحدہ کی 15 رکنی سلامتی کونسل کے بندہ کمرہ اجلاس میں مسودہ پیش کیا ہے۔

روس نے سلامتی کونسل کے اجلاس میں جو مسودہ پیش کیا ہے اس میں کہا گیا ہے کہ انسانی بنیادوں پر جنگ بندی کی جائے۔ روس نے شہریوں پر تشدد اور ہر قسم کی دہشتگردی کی مذمت کا مطالبہ کیا ہے۔

روس کی جانب سے پیش کی گئی قرار داد کے مسودے میں یہ مطالبہ بھی کیا گیا ہے کہ یرغمالیوں کو رہا کیا جائے۔

انہوں نے زور دیا ہے کہ انسانی بنیادوں پر متاثرین کو امداد کی فراہمی اور شہریوں کے محفوظ انخلا کو یقینی بنانے کے لیے اقدامات کیے جائیں۔

گیس کمپنیوں کی موسم سرما میں لوڈ مینجمنٹ پلان کی تیاری



اسلام آباد(آئی این پی)گیس کمپنیوں نے موسم سرما میں گیس لوڈ مینجمنٹ پلان کی تیاری شروع کردی۔

گھریلو سیکٹر کے لئے صبح، دوپہر اور شام کے اوقات میں گیس کی لوڈ شیڈنگ نہیں کی جائے گی۔

میڈیا رپورٹ کے مطابق موسم سرما میں گیس کی مقامی پیداوار 3ارب 60کروڑ کیوبک فٹ یومیہ رینے کا امکان ہے جس میں 1ارب کیوبک فٹ ایل این جی درآمد کرنے کی منصوبہ بندی کی جائے گی۔

موسم سرما میں سسٹم میں پونے 5ارب کیوبک فٹ یومیہ گیس دستیاب ہو گی۔

موسم سرما میں زیادہ سے زیادہ گیس کی طلب ساڑھے 6ارب کیوبک رہنے کا امکان، موسم سرما میں گیس کا شارٹ فال 1 ارب کیوبک فٹ یومیہ کی سطع پر پہنچ سکتا ہے تاہم سرما میں گھریلو صارفین کو گیس کی فراہمی پہلی ترجیح ہوگی اور پاور سیکٹر کو گیس کی فراہمی دوسری ترجیح ہوگی۔

زیرو ریٹڈ صنعتوں کو گیس کی لوڈ شیڈنگ سے مستثنی کیے جانے کا امکان ہے، عام صنتعوں کے لیے گیس کی فراہمی کے لئے اوقات مقرر کئے جائیں گے۔

سی این جی سیکٹر کو گیس کی فراہمی دستیابی سے مشروط ہوگی، گھریلو سیکٹر کے لئے صبح، دوپہر اور شام کے اوقات میں گیس کی لوڈ شیڈنگ نہیں کی جائے گی۔

گیس لوڈ مینجمنٹ پلان کو اکتوبر کے وسط تک حتمی شکل دے دی جائے گی، گیس لوڈ مینجمنٹ پلان کی منظوری وفاقی حکومت سے لی جائے گی، گیس لوڈ مینجمنٹ پلان کا اطلاق نومبر سے آئندہ سال مارچ تک ہوگا۔