پاکستان نے مشرق وسطیٰ میں اسرائیل اور فلسطینیوں کے درمیان مخاصمت میں حالیہ اضافے پر گہری تشویش کا اظہار کیا ہے۔
ترجمان دفتر خارجہ کے مطابق ہم مشرق وسطیٰ میں ابھرتی ہوئی صورتحال پر گہری نظر رکھے ہوئے ہیں، اسرائیل اور فلسطینیوں کے درمیان بڑھتی ہوئی کشیدگی پر تشویش ہے، ترجمان نے واضح کیا کہ 1967 سے پہلے کی سرحدوں کی بنیاد پر قابل عمل، خودمختار اور ملحقہ ریاست فلسطین قائم کی جائے ،جس کا دارالحکومت القدس الشریف ہو، ہم عالمی برادری سے شہریوں کے تحفظ اور مشرق وسطیٰ میں دیرپا امن کے لیے متحد ہونے کا مطالبہ کرتے ہیں۔
نگران وزیراعظم انوار الحق کاکڑ نے فلسطین اور اسرائیل کے مابین کشیدگی کے بارے میں کہا ہے کہ مشرق وسطیٰ میں بڑھتے ہوئے تشدد سے دل شکستہ ہے، مسئلہ فلسطین کو حل کرنے کی فوری ضرورت ہے۔ انہوں نے دونوں متحارب قوتوں سے اپیل کی ہے کہ وہ تحمل کا مطاہرہ کریں اور باہم بیٹھ کر مسئلے کا حل نکالیں۔وزیراعظم نے کہا کہ مشرق وسطیٰ کا امن دو ریاستی حل میں پوشیدہ ہے۔انہوں نے کہا کہ فلسطین کو فوری طور پر 1967 سے پہلے کی طرح خود مختار ریاست اور القدس کو دارالحکومت بنایا جائے۔
سابق صدر آصف زرداری نے فلسطینی عوام سے یکجہتی کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ پاکستان کے عوام کی ہمدردیاں اوردعائیں فلسطینی عوام کے ساتھ ہیں جوطویل عرصے سے فلسطینی عوام ظلم اور بربریت کا سامنا کر رہے ہیں۔
دوسری طرف حماس کے اسرائیل پر تاریخ کے سب سے بڑے حملے اور اسرائیل کی جوابی کارروائی پر عالمی ردعمل میں مسلم اور مغربی دنیا کے درمیان واضح خلیج دکھائی دے رہی ہے۔ مسلم دنیا کا کہنا ہے کہ اسرائیل کو مقبوضہ مغربی کنارے پر اپنی کارروائیوں میں کمی لاتے ہوئے فلسطینیوں پر مظالم کا سلسلہ ختم کرنا چاہئے کیونکہ حماس کا تازہ حملہ اسرائیلی مظالم کا رد عمل ہے ۔ جبکہ مغربی اقوام اس حملے کو حماس کی دہشتگردی قرار دینے پر مصر دکھائی دیتی ہیں۔
ادھرفلسطینی صدر محمود عباس کی زیر صدارت رام اللہ میں فلسطینی اتھارٹی کا ہنگامی اجلاس ہوا جس میں اعلیٰ حکام نے شرکت کی۔فلسطینی صدرنے کہا کہ فلسطینی عوام کو مسجد اقصیٰ کے احاطے اور فلسطینی علاقوں میں “یہودی آباد کاروں اور قابض فوجیوں کی دہشت گردی” کے خلاف اپنے دفاع کا حق حاصل ہے۔ انہوں نے فلسطینی عوام کی حفاظت یقینی بنانے کے لیے تمام تر ضروری اقدامات اٹھانے کا حکم بھی دیا۔
دریں اثنا ایرانی رہبر اعلیٰ علی خامنہ ای کے مشیر رحیم صفوی نے فلسطینی مزاحمت کاروں کو اسرائیل پر حملہ کرنے پر مبارک باد دی ہے، رحیم صفوی نے کہا کہ ہم فلسطین اور مقبوضہ بیت المقدس کی آزادی تک فلسطینی مزاحمت کاروں کے ساتھ کھڑے ہیں۔ قابض صہیونی ریاست پر حملہ کرنے پر ہم حماس کو مبارک باد پیش کرتے ہیں۔
دوسری جانب مصر اور ترکی نے صورت حال کے سنگین نتائج سے خبردار کرتے ہوئے تحمل اختیار کرنے پر زور دیا ہے ، جبکہ مصری وزارت خارجہ کی جانب سے جاری بیان میں کہا گیا ہے کہ شہریوں کو مزید خطرے میں ڈالنے سے بچانے کے لیے فریقین کو تحمل کا مظاہرہ کرنا چاہئے۔
ترک صدر رجب طیب اِردوان نے فریقین پر زور دیا ہے کہ وہ ایسے اقدامات سے گریز کریں جن سے کشیدگی میں اضافے کاخدشہ ہو۔ انقرہ میں حکمراں جماعت کی کانگریس سے خطاب کرتے ہوئے مزید کہا کہ مقبوضہ مشرقی یروشلم کی تاریخی اور مذہبی حیثیت اور مسجد اقصیٰ کو کسی بھی طرح سے نقصان پہنچانے کی کوششیں ناقابل برداشت ہوں گی۔
قطر نے اسرائیل فلسطین کشیدہ صورت حال کی مذمت کرتے ہوئے تمام تر ذمہ داری اسرائیل پر عائد کی ہے،ایک بیان میں قطری وزارت خارجہ کا کہنا تھا کہ حالیہ کشیدہ صورت حال اور تشددکا ذمہ دار صرف اسرائیل ہے، حالیہ کشیدگی میں فریقین سے تحمل کا مطالبہ کرتے ہیں۔ عالمی برادری اسرائیل کو ان واقعات کا بہانہ بنا کر فلسطینیوں پر جنگ مسلط کرنے سے روکے۔
سعودی وزارت خارجہ نے کہا ہےکہ فلسطین کی غیر معمولی صورت حال کا جائزہ لے رہے ہیں، فلسطین اسرائیل کشیدگی میں متعدد محاذوں پر تشدد کے واقعات ہوئے ہیں، فریقین فوری تشدد کو روکے۔ عالمی برادری اپنی ذمہ داریاں نبھانے اور امن کے لیے دو ریاستی حل پرکام کرے، دو ریاستی حل ہی خطے میں سلامتی، امن اور شہریوں کی حفاظت کا ضامن ہے۔
عمان نے مطالبہ کیا ہےکہ اسرائیل اور فلسطین تحمل سےکام لیں، بین الاقوامی برادری اسرائیل اور فلسطین میں کشیدگی رکوانےکی کوشش کرے۔دوسری طرف فرانس کے صدر ایمنول میکرون نے اسرائیل پر ان حملوں کی شدید الفاظ میں مذمت کی اُنھوں نے ’ان حملوں میں نشانہ بننے والے لوگوں اُن کے اہل خانہ اور متاثرین کے ساتھ اظہار یکجہتی کیا۔‘
جرمنی کے وزیر خارجہ نے کہا کہ ’عام شہریوں کے خلاف راکٹ اور میزائل داغنے کے اس سلسلے کو فوری طور پر بند ہونا چاہیے۔‘
یورپی کمشن کی چیئرمین نے اسرائیل پر حملے کو ’دہشت گردی کی ایک انتہائی گھناؤنی شکل قرار دیا۔‘ امریکہ کی جانب سے بھی فریقین پر حالات کو معمول پر لانے کے لیے زور دیا گیا ہے،روسی نائب وزیر خارجہ کے مطابق ’یہ کہنے کی ضرورت نہیں ہے کہ ہم ہمیشہ تحمل کا مطالبہ کرتے ہیں۔‘