اسلام آباد:چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا ہے کہ آئین اور قانون چیف جسٹس کی خواہشات کے تابع نہیں ہیں۔ ہم ماسٹرز نہیں بلکہ آئین اور عوام کے نوکر ہیں، چیف جسٹس کو آئین و قانون سے آگے نہیں بڑھنا چاہیے۔
چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی سربراہی میں فل کورٹ بینچ نے کیس کی سماعت کی۔ دوران سماعت، سپریم کورٹ میں پریکٹس پروسیجر کیس میں اضافی دستاویز جمع کرائی گئیں۔اضافی دستاویز میں پریکٹس اینڈ پروسیجر قانون کی پارلیمنٹ کارروائی کا ریکارڈ جمع کرایا گیا تو عدالت نے اس پر برہمی کا اظہار کیا۔ صدر سپریم کورٹ بار عابد زبیری نے دلائل کا آغاز کرتے ہوئے کہا کہ اس معاملے پر الگ قانون سازی اختیارات سے تجاوز ہوگا۔جسٹس اعجاز الاحسن نے استفسار کیا کہ آئینی اختیارات سے سپریم کورٹ رولز بنا لے تو بعد میں کوئی قانون سازی بدل سکتی ہے؟
چیف جسٹس پاکستان نے ریمارکس دیئے کہ اگرآپ یہ سمجھ کر دلائل دے رہے ہیں کہ نہ ختم ہونے والا کیس ہے تو ایسا نہیں ہے۔۔چیف جسٹس نے دوران سماعت اضافی کاغذات جمع کرانے پربرہمی کا اظہار کیا۔
وکیل عابد زبیری نے ایک مرحلہ پر نیو جرسی کی عدالت کے فیصلے کا حوالہ دینا چاہس تو چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ نیو جرسی کی عدالت کے فیصلے کو یہاں نظیر کے طور پر پیش کر ہمارا لیول نا گرائیں۔
چیف جسٹس پاکستان نے ریمارکس دیئے کہ ہمیں یہ سمجھ نہیں آرہی آپ کو اس قانون سے مسئلہ کیا ہے؟آپ ایک سیاسی جماعت کے وکیل ہیں۔
جس پر عابد زبیری نے بتایا کہ نہیں میں سپریم کورٹ بار کا صدر ہوں آزاد حیثیت میں پیش ہوا ہوں۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ آپ نے شروع میں پارلیمان کی نیت پر حملہ کیا اور میں کہتا ہوں پارلیمان کی نیت اچھی ہے۔جسٹس اعجاز الاحسن نے ریمارکس دیے ککہ اختیارات کی تقسیم کی وجوہات ہیں، اگر پارلیمان کو سپریم کورٹ کے معاملات میں مداخلت کے دروازے کھول دیں۔ ممکن ہے پارلیمان کا قانون اچھا ہو یا برا لیکن سوال دروازے کے کھولنے کا ہے۔
جسٹس اعجازالاحسن نے ریمارکس دیے کہ اگر پارلیمنٹ کے لیے دروازہ کھول دیتے ہیں کہ وہ سپریم کورٹ کے ہر معاملے میں مداخلت کرے گی، ایک بار دروازہ کھل گیا تو اس کا کوئی سرا نہیں ہوگا، قانون سازی اچھی یا بری بھی ہو سکتی ہے، یہ نہیں ہو سکتا کہ قانون سازی درست ہے تو ٹھیک ہے یا ورنہ اس کو کالعدم قرار دے دیں، آئین اس طرح سے نہیں چل سکتا۔
عدالت میں کچھ دیر وقفے کے بعد سماعت دوبارہ شروع ہوئی تو درخواست گزار عمر صادق کے وکیل ڈاکٹر عدنان خان نے اپنے دلائل میں کہا کہ قانون سازی کے ذریعے چیف جسٹس آفس کو بیکار کیا گیا۔
عدنان خان نے بتایا کہ پارلیمنٹ کو ایکٹ کے ذریعے سپریم کورٹ کے رولز بنانے کا اختیار حاصل نہیں،دوران سماعت، وکیل امتیاز صدیقی نے دلائل کے لیے وقت نا دینے پر اعتراض اٹھا دیا، جس پر چیف جسٹس اور وکیل امتیاز صدیقی کے درمیان سخت جملوں کا تبادلہ ہوا ۔ جس پر چیف جسٹس کو انہیں وارننگ دینا پڑی
درخواست گزاروں کے دلائل مکمل ہونے پر سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ سماعت میں مختصر وقفہ کیا گیا۔ جس کے بعد چیف جسٹس نے وکیل زاہد ابراہیم سے مکالمہ کرتے ہوئے کہا کہ اس عدالت سے یہ پیغام نہیں جانا چاہئے کہ قوانین کا انحصار چیف جسٹس کی خواہشات پر ہے، ایسا تاثر اور پیغام جانا تباہ کن ہوگا، میں آئین کا ملازم ہوں اور اللہ کو جوابدہ ہوں۔
سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ کے خلاف کیس کی سماعت کل صبح ساڑھے گیارہ بجے تک ملتوی کردی گئی، کل ایم کیو ایم کے وکیل فیصل صدیقی دلائل دیں گے۔