اعظم خان نے مجسٹریٹ کے سامنے اپنے بیان میں بتایا کہ چیئرمین پی ٹی آئی نے پاک فوج کی ہائی کمان کیخلاف سائفر کو اپنے سیاسی مقاصد کے لیے خاص پلان تیار کیا، چیئرمین پی ٹی آئی اداروں پر تحریک عدم اعتماد میں مدد کیلئے ڈباؤ ڈالنا چاہتے تھے ، سائفر کے حوالے سے اسپیکر نے غیر قانونی رولنگ چیئرمین پی ٹی آئی کی بطور وزیر اعظم ہدایات پر دی ۔
اعظم خان نے کہا کہ چیئرمین پی ٹی آئی نے سائفر کی کاپی حاصل کی ، بعد میں کہا کہ کاپی گم ہو گئی، عمومی طور پر سائفر جس چینل سے آتا ہے ،اسی چینل سے واپس بھیجا جاتا ہے، 8مارچ کو سائفر سے متعلق سیکرٹری خارجہ کا ٹیلی فون آیا جس میں سائفر کی کاپی وزیر اعظم آفس کو بھجوانے کے حوالے سے بتایا گیا، سیکرٹری خارجہ نے کہا کہ 9مارچ کو سائفر کی کاپی وزیر اعظم کے حوالے کریں جبکہ اس وقت کے وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی سائفر معاملے پر چیئرمین پی ٹی آئی کو پہلے ہی آگاہ کر چکے تھے۔
اعظم خان نے مزید بتایا کہ عمران خان نے 9 مارچ کو سائفر کے ڈاکیومنٹ کا معائنہ کیا اور اس پر رائے دیتے ہوئے سائفر کو امریکی بلنڈر کہا ، اس کے بعد انہوں نے اس پر اپوزیشن اور اداروں کے خلاف مؤثر بیانیہ ترتیب دینے کی ہدایت کی جب عدم اعتماد آئی تو سائفر کو اس سے جوڑنے کی بھی ہدایت کی۔
انہوں نے بتایا کہ سابق وزیر اعظم نے مجھ سے سائفر کی کاپی مانگی اور کہا کہ میں اس کو مزید پڑھنا چاہتا ہوں، میں نے کاپی دے دی تو انھوں نے اپنے پاس رکھ لی، میرے مانگنے پر کہا گیا کہ کاپی ادھر ادھر ہو گئی ہے۔
اعظم خان نے کہا کہ سابق وزیر اعظم نے ملٹری سیکرٹریز اور اپنے ذاتی اسٹاف کو کاپی ڈھونڈنے سے متعلق ہدایات دی، سابق وزیر اعظم سائفر کو ایک غیر ملکی سازش کے طور پر عوام کے سامنے پیش کرکے خود کو مظلوم ثابت کرنا چاہتے تھے۔ سائفر گم ہونے پر میں نے تجویز دی کہ معاملے پر سیکرٹری خارجہ سے رابطہ کیا جائے جنھوں نے سائفر سے متعلق بتایا ہے۔
اعظم خان کے بعد سیکرٹری خارجہ بھی چیئرمین پی ٹی آئی کیخلاف گواہوں کی فہرست میں شامل ہو گئے۔ انہوں نے بیان دیا کہ چیئرمین پی ٹی آئی کے سائفر معاملے نے پاکستان کے کمیونیکیشن سسٹم کو نقصان پہنچایا، ہمارے سفارت کار اور ان کی مستقبل کی سفارتکاری کی ساکھ پر بھی اس کا اثر پڑا ہے، 7 مارچ سے لے کر آج تک سابق وزیرا عظم سے کبھی ملا نہ ہی بلواسطہ اور بلا واسطہ بات چیت ہوئی۔
انہوں نے کہا کہ نہ ہی میں نے کبھی وزیر اعظم کے معاون خصوصی سے بھی کوئی ملاقات کی یا بات کی، میں نے اسسٹنٹ سیکرٹری یو ایس ڈیپارٹمنٹ ڈونلڈ لو 7مارچ کو پاکستان ہاؤس واشنگٹن میں ملاقات کیلیے ظہرانے پر مدعو کیا تھا۔
چئیرمین پی ٹی آئی کے خلاف سائفر کیس میں 28 گواہوں کی فہرست میں یوسف نسیم کھوکھر سیکرٹری وزارت داخلہ بطور کمپلینٹ، آفتاب اکبر درانی سیکرٹری داخلہ، اسد مجید، اعظم خان، ڈاکڑ حسیب بن عزیز، ساجد محمود، فیصل نیاز ترمزی، نعمان بشیر، محمد اشفاق ، حسیب گوہر، ٹیکنل ایکسپرٹ سائفر کرائم ونگ اسلام آباد گواہوں میں شامل ہیں۔