تحریر:۔ عطاالحق قاسمی
بہت دنوں سے اسکول اساتذہ کا بھرپور احتجاج جاری تھا، جو اسکولوں کی نجکاری کے حوالے سے تھا، اساتذہ اس مبینہ منصوبے کے خلاف صدائے احتجاج بلند کر رہے تھے، اب اس حوالے سے تین خبریں سامنے آئی ہیں کہ مریم نواز سے اساتذہ کے قائدین کا ایک وفد ملا اور انہیں اس مسئلے سے آگاہ کیا، جس پر انہوں نے انہیں تسلی دی اور کہا کہ ایسا نہیں ہوگا، دوسری خبر یہ کہ عدالت نے اساتذہ کی رہائی کا حکم دیا ہے جن پر پولیس نےبہت بے دردی سے تشدد کیا تھا اور انہیں ایک ہی بیرک میں جانوروں کی طرح رکھاگیاتھا اور تیسری سب سے اہم خبر یہ ہے کہ پنجاب کے نگران وزیر اعلیٰ محسن نقوی نے صحافیوں کے سوالوں کا جواب دیتے ہوئےکہا کہ اسکولوں کی نجکاری کا کوئی ارادہ نہیں اور نہ ہی یہ تجویز کسی بھی میٹنگ میں زیر غور آئی۔
یہ تینوں حوالے بہت خوش آئند ہیں،مگر سوال یہ ہے کہ اساتذہ جن میں خواتین اور مرد شامل ہیں، کئی ہفتوں سے سڑکوں پر بھرپور احتجاجی مظاہرے کر رہے تھے۔بعض مقامات پر ان کے طلبہ بھی اس مظاہرے میں شریک تھے، ان پر آنسو گیس بھی پھینکی گئی، لاٹھی چارج بھی ہوا اور بہت بری طرح گھسیٹتے ہوئے انہیں پولیس وین میں پھینک دیاگیا۔ تو سوال یہ بنتا ہے کہ اگر ایسا کچھ نہیں تھا تو اس احتجاج کی نوبت کیوں آئی اور احتجاج کو اتنا طویل کیوں ہونے دیاگیا اگر پہلے دن اس’ ’افواہ‘‘کی تردید کر دی جاتی تو یہ چنگاری شعلہ بننے سے پہلےبجھ جاتی اور ویسے بھی نجکاری کی ’’افواہ‘‘ کی کچھ نہ کچھ بنیاد ضرور تھی ورنہ اساتذہ کو احتجاج کرنے اور اس ذلت آمیز سلوک کو برداشت کرنے کی ضرورت ہی نہیں تھی۔ یہ ’’شرلی‘‘ کسی نے کہیں نہ کہیںضرور چھوڑی تھی اور یہ اس قدر خطرناک تھی کہ اساتذہ ہی نہیں، تعلیم سے محبت کرنے والے افراد بھی اس پر سیخ پا تھے اور ان کے یہ جذبات غیر حقیقی نہیں تھے۔
اسکولوں کی نجکاری کا مطلب یہ ہے کہ سرکاری اسکولوں میں بچوں کو جو تعلیم تقریباً مفت دی جاتی تھی اب ان کے والدین سے اتنی بھاری فیسوں کا مطالبہ کیا جائےگا جو پرائیویٹ اسکولوں میں وصول کی جاتی ہیں اور جہاں صرف امیروں کےبچے داخلہ لے سکتے ہیں۔ اگر خدانخواستہ ایسا کیا گیاتو یہ منصوبہ بچوں کی ایک بہت بڑی تعداد کو تعلیم سے محروم رکھنے کا باعث بنے گا۔ کسی زمانے میں گورنمنٹ کالج لاہور اعلیٰ اور معیاری تعلیم کا ادارہ تھا یہاں امیر غریب سب کو میرٹ پر داخلہ ملتا تھا اور فیس بالکل نارمل تھی، ہمارے اکابر کی ایک بہت بڑی تعداد اسی درس گاہ سے فیض یاب ہے مگر جب اسے یونیورسٹی بنایا گیا تو اس کی داخلہ اور ماہانہ فیس میں اس قدر اضافہ ہواکہ اب اس میں داخلے کا میرٹ صرف یہ ہے کہ آپ کےپاس اچھے خاصے پیسے ہوں اور بچہ تعلیمی میرٹ پر بھی ہو۔ اگر اسکولوں کی نجکاری ہوئی تو غریبوں کے بچے کبھی اسکول نہیں جائیں گے اور یوں ہماری خواندگی کی شرح مزید نیچے آ جائے گی۔
مسئلہ صرف بچوں اور ان کی تعلیم کا نہیں، پرائیوٹائزیشن کی صورت میں اساتذہ بھی ایک بہت بڑے مسئلے کا شکار ہوںگے۔ ان کے بڑھاپے کا واحد معاشی سہارا یعنی پنشن انہیں نہیں ملے گی، میرے نزدیک یہ ظلم کی اخیر ہوگی۔ وہ بے چارے پہلے کہاں امیر وکبیر ہیں، ان کی کون سی فیکٹریاں چلتی ہیں،وہ کونسے اس مراعات یافتہ طبقے سے تعلق رکھتے ہیں، جن کو بے پناہ معاشی سہولتیں دورانِ ملازمت اور ریٹائرمنٹ کے بعد بھی فراہم کی جاتی ہیں، ان کی حالت عام پاکستانیوں جیسی ہے، جنہیں صرف دو وقت کی روٹی میسر ہو جاتی ہے، خدا کے لئے ان سے یہ دو وقت کی روٹی تو نہ چھینو!۔
اور ہاں خطرہ صرف اسکولوں کو نہیں، اگلے مرحلے میں ’’صیاد‘‘ کی نظر کالجوں پر بھی پڑسکتی ہے اوریوں وہ سب لوگ جو کسی نہ کسی طور اپنے بچوں کو تعلیم کے زیور سے آراستہ کرتے ہیں اور اس کے بعد یہ بچے معاشرے میں قدرے بہتر زندگی گزارتے ہیں یا گزار سکتے ہیں، اس کی امید بھی نہیں رہے گی۔میں ارباب اقتدار سے گزارش کروںگا کہ اگر کسی کے ذہن میں اس منصوبے کی کوئی آلائش موجود ہے تو وہ کسی معالج سے یہ آلائش صاف کرائے ورنہ یہ کام خود قدرت کردیا کرتی ہے۔
بشکریہ جنگ نیوز اردو