All posts by ghulam mustafa

پیسے کی عزت کرنی چاہیے: گلوکار عاطف اسلم نے نوٹ نچھاور کرنے پر کنسرٹ روک دیا



عالمی شہرت رکھنے والے پاکستان کے معروف گلوکار عاطف اسلم نے ایک شخص کی جانب سے نوٹ پھینکنے کے موقع پر کنسرٹ روک دیا۔

پاکستانی گلوکار ان دنوں امریکا کے دورے پر ہیں جہاں پر وہ مداحوں کو اپنی جادو بھری آواز سے محظوظ کر رہے ہیں۔

سوشل میڈیا پر ایک ویڈیو وائرل ہے جس میں دیکھا جا سکتا ہے کہ گلوکار پر کنسرٹ کے دوران جب نوٹ پھینکے جاتے ہیں تو وہ غصہ کرنے کے بجائے مداح سے کہتے ہیں کہ اپنے پیسے آ کر سمیٹ لو اور کسی اچھی جگہ پر عطیہ کر دینا۔

عاطف اسلم مزید کہتے ہیں کہ آپ کے امیر ہونے کا مجھے علم ہے لیکن ضروری ہے کہ پیسے کی عزت کی جائے اور اسے اچھے مقاصد کے لیے استعمال کیا جائے۔

سوشل میڈیا پر ویڈیو وائرل ہونے پر صارفین نے عاطف اسلم کے اس عمل کو بہت پسند کیا ہے۔

سوشل میڈیا پر منفی پروپیگنڈا، اداکارہ مریم نفیس نے اکائونٹ بند کر دیئے



پاکستان کی معروف اداکارہ مریم نفیس نے کہا ہے کہ کسی بھی خاتون کا حاملہ ہونا ایک قدرتی عمل ہے، اس پر سوشل میڈیا پر منفی تبصروں سے گریز کرنا چاہیے۔

اپنے ایک انٹرویو میں مریم نفیس نے کہا کہ سوشل میڈیا پر منفی تبصرے ذہنی تنائو کا باعث بنتے ہیں۔

اداکارہ نے کہاکہ میں نے جب اپنی بیٹی کی پیدائش کے حوالے سے اپنے چاہنے والوں کو خوشخبری سنائی تو اس پر جو ردعمل دیا گیا وہ بہت ہی پریشان کن اور حیران کر دینے والا تھا۔

مریم نفیس کا کہنا تھا کہ جب سوشل میڈیا پر جاری میری تصاویر پر لوگوں کے منفی تبصروں کے انبار لگ گئے تو پھر مجھے مجبور ہو کر اکائونٹ ہی بند کرنا پڑ گیا۔

غزہ پر اسرائیلی بمباری جاری، شہادتیں 5800 سے متجاوز



اسرائیل اور فلسطین کی مزاحمتی تنظیم حماس کے درمیان ہونے والی کشیدگی کے بعد غزہ پر اسرائیلی بمباری کا سلسلہ جاری ہے اور 7 اکتوبر سے اب تک شہید ہونے والے فلسطینیوں کی تعداد 5800 سے تجاوز کر گئی ہے۔

غیرملکی میڈیا رپورٹس کے مطابق اسرائیلی فورسز نے ایک روز میں 182 بچوں سمیت 704 فلسطینیوں کو شہید کر دیا ہے، اسرائیلی فوج پناہ گزینوں کے کیمپوں کو بھی نشانہ بنا رہی ہے۔

اسرائیلی بمباری سے زخمی ہونے والے فلسطینیوں کی تعداد 15 ہزار سے زیادہ ہو چکی ہے اور غزہ میں اس وقت صورت حال انتہائی گھمبیر ہے۔

سیکریٹری جنرل اقوام متحدہ کی جانب سے جنگ بندی کی اپیل کے باوجود اسرائیل کی ہٹ دھرمی برقرار ہے اور دھمکی دی جا رہی ہے کہ کسی بھی وقت فلسطین پر زمینی فوج کے ذریعے حملہ کر دیا جائے گا۔

دوسری جانب حماس نے اسرائیلی فوج کو خبردار کر رکھا ہے کہ اگر زمینی حملہ کیا گیا تو آپ کی فوج کو نیست و نابود کر دیا جائے گا۔

فلسطینیوں کی حمایت کیوں کی؟ اسرائیل کا سیکریٹری جنرل اقوام متحدہ سے مستعفی ہونے کا مطالبہ



اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل انتونیو گوتریس کی جانب سے فلسطین کے مظلوم کی حمایت کرنے پر اسرائیل سیخ پا ہو گیا اور ان سے استعفیٰ دینے کا مطالبہ کر دیا ہے۔

غیرملکی میڈیا رپورٹس کے مطابق اسرائیل نے سیکرٹری جنرل اقوام متحدہ کے فلسطین کے حق میں بیان پر احتجاج کیا ہے۔

اسرائیلی وزیر خارجہ نے انتونیو گوتریس سے ملاقات کرنے سے انکار کر دیا ہے جبکہ اقوام متحدہ میں اسرائیلی مندوب نے مطالبہ کیا ہے کہ سیکریٹری جنرل اپنے عہدے سے استعفیٰ دیں۔

واضح رہے کہ سیکرٹری جنرل اقوام متحدہ نے اپنے خطاب میں فلسطین کے عوام کی حمایت کی تھی اور کہا تھا کہ بین الاقوامی انسانی حقوق کی خلاف ورزیاں روکی جائیں۔

بغاوت کیس: شہباز گل کے دوبارہ ناقابل ضمانت وارنٹ گرفتاری جاری



اسلام آباد کی ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن عدالت نے پی ٹی آئی کے رہنما شہباز گل کے بغاوت پر اکسانے کے کیس میں دوبارہ ناقابل ضمانت وارنٹ گرفتاری جاری کر دیے ہیں۔ جبکہ شریک ملزم عماد یوسف کے خلاف ٹرائل ختم کر دیا گیا ہے۔

ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن عدالت کے جج طاہر سپرا نے سماعت کرتے ہوئے شریک ملزم عماد یوسف کے خلاف ٹرائل ختم کرنے کے احکامات دیے۔

جج طاہر سپرا نے شہباز گل کے دوبارہ ناقابل ضمانت وارنٹ گرفتاری جاری کرتے ہوئے کہا کہ وہ جب بھی آئیں گرفتار کر کے عدالت میں پیش کیا جائے۔

ایلون مسک نے تیسری عالمی جنگ کا خدشہ ظاہر کر دیا



سماجی رابطے کی ویب سائٹ ایکس (سابق ٹوئٹر) کے مالک ایلون مسک نے کہا ہے کہ اسرائیل حماس کشیدگی اور روس یوکرین جنگ کی وجہ سے تیسری عالمی جنگ کا خطرہ بڑھ گیا ہے۔

اپنے ایک بیان میں انہوں نے کہا کہ تیسری عالمی جنگ ایسی ہو سکتی ہے کہ شاید کوئی بھی اس کے اثرات سے نکل نہ پائے، ضروری ہے کہ جنگ سے بچنے کے لیے ترجیحی بنیادوں پر اقدامات کئے جائیں۔

ایلون مسک نے کہا کہ امریکا کو روس، چین اور ایران کا اتحاد مشکل میں ڈال سکتا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ ضروری ہے یوکرین میں امن ہو، روس کے ساتھ تعلقات کی بحالی میں ہمیں دیر نہیں کرنی چاہیے۔

فلسطینیوں پر مظالم، اردن کی ملکہ کا مغرب کے دہرے معیار پر حیرت کا اظہار



اُردن کی ملکہ رانیہ نے غزہ میں تباہی پر مغرب کے دُہرے معیار پر حریت کا اظہار کیا ہے۔

امریکی میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے ملکہ رانیہ نے کہا کہ غزہ میں ہونے والی تباہی کے بعد دنیا کے رد عمل پر مشرق وسطیٰ کے لوگ حیران ہیں۔

انہوں نے کہا کہ عرب ممالک یہ سمجھتے ہیں کہ مغرب فلسطینیوں کے قتل عام میں اسرائیل کے ساتھ برابر کا شریک ہے۔

ملکہ رانیہ کا کہنا تھا کہ حماس کو اگر ختم بھی کر دیا جاتا ہے تو فلسطین کے عوام قابض اسرائیل کے خلاف اپنی مزاحمت جاری رکھیں گے۔

نواز شریف اور ہتھیلی پر بیٹھا سفید کبوتر!



تحریر:۔ عطاالحق قاسمی

چار روز قبل محمد نواز شریف چار سال بعد اپنے وطن پاکستان واپس آئے اور مینار پاکستان کے سائے تلے تقریر کی،اپنی سیاسی زندگی کے متعدد جھوٹے مقدموں میں قید و بند کی صعوبتیں برداشت کرنے، پی ٹی آئی کے لیڈر اور اس کی آغوشِ مغلظات میں پرورش پاتے اس کے کارکنوں کی مسلسل غلیظ حرکتوں اور گالی گلوچ برداشت کرنے والے اس رہنما نے اپنی تقریر میں ان سب کو ایسے نظر انداز کیا جیسے وہ سب کچھ بھول چکے ہیں اور اپنے نئے سفر میں یہ سب کچھ نظر انداز کرکے دوبارہ تعمیر و ترقی کی اس منزل کی طرف رواں دواں ہوں گے جس کا سلسلہ تین بار منقطع کیا گیا تھا۔

میرے لئے اس تاریخی جلسے کی چند چیزیں بہت اہم ہیں، ایک یہ کہ پاکستان کے چاروں صوبوں سے مسلم لیگی کارکن اپنی مقامی قیادت کے ساتھ طویل سفر طے کرکے لاہور آئے تھے جن میں گلگت بلتستان کے کارکن بھی اپنے مخصوص لباس میں موجود تھے۔ دوسرے یہ کہ مسلم لیگ (ن) کا یہ استقبالی جلسہ بہت چارجڈ تھا۔ عوام کے پُرجوش جذبے نواز شریف کی تقریر کے ایک ایک لفظ پر اپنا بھرپور اظہار کر رہے تھے، جلسہ اتنا بڑا تھا کہ مینار پاکستان تنگیٔ داماں کا گلہ کرتا دکھائی دیتا تھا اور صرف یہی نہیں بلکہ موٹر وے تقریباً تیس کلومیٹر تک گاڑیوں کے اژدہام کی وجہ سے جام ہو کر رہ گئی تھی اور یوں وہ سب لوگ جلسہ گاہ تک پہنچ ہی نہیں سکے جو دور دراز مقامات سے اپنے لیڈر کی جھلک دیکھنے اور اس کی تقریر سننےکیلئے آئے تھے۔اس کے علاوہ رنگ روڈ پر بھی ٹریفک جام ہوکر رہ گیا تھا۔ اس جلسے کی ایک اور اہم بات مجھے یہ لگی کہ مریم نواز نے میاں صاحب کی آمد سے پہلے سامعین کے ولولے اور جوش کو مہمیز دینے کیلئے جلسے کی جزوی نظامت بہت احسن طریقے سے کی اور ان کے بعد خواجہ سعد رفیق نے یہ ذمہ داری سنبھالی۔ مسلم لیگ (ن) کی قیادت میں دو ’’خواجے‘‘ میرے بہت پسندیدہ ہیں اور ان میں بھی خواجہ سعد رفیق اَن تھک کارکن اور پارٹی کیلئے بےپناہ قربانیاں دینے کے سبب میرے دل کے زیادہ قریب ہیں۔ جلسے کے دو مناظر ہی ایسے ہیں جو بہت دل گداز تھے، ایک جب نواز شریف اسٹیج پر آئے اور ان کی بیٹی مریم نواز انہیں گلے لگانے کے دوران شدت جذبات سے آبدیدہ ہوگئی، اس نے والد کے پائوں کو چھوا اور اس دوران نواز شریف کا چہرہ چغلی کھا رہا تھا کہ وہ اپنے جذبات پر قابو پا رہے ہیں، تاہم یہ ایک منظر ایسا تھا جسے ’’حاصلِ غزل‘‘ کہا جاسکتا ہے، دو تین سفید کبوتروں میں سے ایک کبوتر نواز شریف کے روسٹرم پر آ کر بیٹھ گیا، نواز شریف نے اسے پیار کرنے کیلئے اس کی طرف ہاتھ بڑھایا مگر وہ خود ان کے ہاتھ پر آ کر بیٹھ گیا، میاں صاحب نے اپنا ہاتھ فضا میں بلند کیا اور پھر اسے واپس کھلی فضائوں میں چھوڑدیا، میرے خیال میں ’’آزادی، آزادی‘‘ کا شور مچانے والوں کے مقابلے میں یہ منظر آزادی کا خوبصورت استعارہ تھا۔ مسلم لیگ کو چاہیے کہ وہ اس تصویر کو جس میں نواز شریف کے ہاتھ پر خوبصورت کبوتر بیٹھا ہوا ہے اپنے مونو گرام کے طور پر استعمال کرے۔ آزادی کا اس سے بہتر نعرہ اور تشریح ممکن نہیں۔میں نے نواز شریف کی بہت سی تقریریں سنی ہیں مگر اس تقریر کا کوئی جواب نہیں تھا، اس کا ایک ایک لفظ جچا تلا تھااور اس میں جہانِ معانی آباد تھا، میاں صاحب کچھ نہ کہتے ہوئے بھی سب کچھ کہہ گئے اور میرے خیال میں نواز شریف کو اس تقریر کے ہر جملے کو اپنے لائحہ عمل سے منسلک کردینا چاہیے۔ نواز شریف کی وطن واپسی کے حوالے سے بہت سے لوگ بہت سی باتیں کر رہے ہیں، ان میں سے سب سے زیادہ اہم بات یہ ہے کہ میاں صاحب کو اپنے تین ادوار میں سے ایک بھی پورا نہیں کرنے دیا گیااور یوں ترقی کا سفر ہر بار رک گیا۔اب ملک اس نہج پر پہنچ چکا ہے کہ ملک کو ایک بار پھر وژنری نواز شریف کی ضرورت تھی جس کے چھوٹے چھوٹے ادوار میں بھی ملک قدم بہ قدم ترقی کی سمت گامزن رہا۔ ہمسایوں کے ساتھ مناسب حد تک تعلقات، یعنی بس اتنے ہی جتنے مقتدرہ سے برداشت ہو سکتے تھے، تاہم مراسم بھی وقتی طور پر قابل قبول تھے۔ بہرحال دنیا کے دوسرے ممالک خصوصاً چین کے ساتھ تعلقات کا مزید بڑھاوا اور سی پیک جیسے منصوبوں کا وسیع پھیلائو بھی ان کے دور میں دکھائی دیا۔ ترقیاتی کام جتنے نواز شریف کے دور میں نظر آئےاور عوام کو جتنی سہولتیں دی گئیں، اس سے پہلے کی حکومتوں میں اس کی نظیر نہیں ملتی۔

باتیں اور بھی بہت سی کرنے کی ہیں جو قارئین سے ہوتی رہیں گی، فی الحال آخر میں میں پاکستان کیلئے اپنی ایک دعائیہ غزل نذر قارئین کرتا ہوں۔

کچھ ایسے طے ہماری زندگانی کے سفر ہوں

ہمارے پائوں کے نیچے فلک ہوں بحر وبر ہوں

اتر آئیں زمین پر سب ستارے آسماں کے

ہمارے در پہ باندھے ہاتھ یہ مہر و قمر ہوں

کسی دن آسماں سے بارشیں برسیں کچھ ایسی

ہمارے ہر شجر کی ڈال پر بیٹھے ثمر ہوں

جگا دیں جو ہماری آنکھ کے خوابیدہ جوہر

ہمارے درمیاں بھی کاش ایسے دیدہ ور ہوں

سفینے پر مکمل دسترس ہو ناخدا کی

سمندر کی تہوں میں جس قدر چاہے بھنور ہوں

ارادہ باندھتے ہیں ان دنوں ایسے سفر کا

ہماری پیش قدمی کے لئے نجم و قمر ہوں

ہمیں جو گھر میں دیتے ہیں اذیت بے گھری کی

کچھ ایسے ہو کہ اب کے ہم نہیں وہ دربدر ہوں

مزااونچی اڑانوں کا تبھی آئے گا تم کو

عطاؔ صاحب فضا اپنی ہو اپنے بال و پر ہوں

بشکریہ جنگ نیوز اردو

افغانستان، پاکستان: تناؤ سے تصادم کی جانب



تحریر:۔ سلیم صافی

گزشتہ ڈیڑھ ماہ علیل رہا۔علالت اتنی شدید تھی کہ ڈاکٹروں نے ذہنی دبائو سے بچنے کیلئےنیوز چینلز ،سوشل میڈیااور اخبار دیکھنے سے بھی گریز کی ہدایت دی تھی۔ اسلئے میں اس دوران سیاسی، معاشی اورخارجی محاذوں پر ہونے والے واقعات اور پیش رفت سے بے خبر رہا۔ حتیٰ کہ فلسطین میں نئی جنگ کا دو روز بعد پتہ چلا۔اللہ رب العالمین کے بے پناہ کرم اور کرم فرمائوں کی دعائوں کی برکت سے الحمدللہ اب میرے انفیکشنز مکمل ختم ہوگئے ہیں۔ اس دوران مجھے یہ سبق ملا کہ ہم روز میڈیا سے اس سوچ کے ساتھ جڑے رہتے ہیں کہ نہ جانے ایک منٹ میں کونسی قیامت آئی ہوگی لیکن اگر ہم سوشل میڈیا اور الیکٹرانک میڈیا پر اپنا وقت صرف نہ کریں تو بھی کوئی قیامت نہیں آتی ۔ دوسرا سبق یہ ملا کہ ہم میں سے ہر کوئی اپنے آپ کو بہت اہم سمجھتا ہےحالانکہ ہم نہیں ہوں گے یا اس دنیا سے جائیں گے، تو دو دن بعد ہماری جگہ کوئی اور پُر کردیگا۔اسی لئے اللہ نے سورہ آل عمران میں ارشاد فرمایاہے کہ :اور یہ دن ہیں جو ہم لوگوں کے درمیان پھیرتے رہتے ہیں۔

میری غیرحاضری کے دوران ملکی سطح پر کچھ اچھے اور حوصلہ افزا اقدامات بھی ہوئے جن میں ڈالر کی روپے کے مقابلے میں قدر کی کمی اور میاں نواز شریف کی واپسی جیسے اقدامات شامل تھے لیکن ایک تو فلسطینیوں کے خلاف اسرائیل کی نئی بربریت کے آغاز اور دوسراافغانستان اور پاکستان کی بڑھتی ہوئی کشیدگی سے بڑا دکھ ہوا۔ فلسطین کا زخم بہت گہرا اور مسئلہ نہائت سنگین ہے لیکن ظاہر ہے اس میں ہم یا ہماری حکومت ایک حد سے زیادہ کچھ نہیں کرسکتی۔ البتہ افغانستان کا معاملہ ہمارا اپنا کیا دھرا ہے اس لئے اس ضمن میں پہلی گزارش تو یہ ہےکہ حکومت پاکستان اور امارات اسلامی افغانستان دونوں کا ایک دوسرے سے متعلق رویہ مناسب نہیں۔ پاکستان صرف افغان طالبان پر احسانات کو مدنظر رکھ کر مطالبات کررہا ہے اور یہ تاثر دے رہا ہے کہ امارات اسلامی کے ذمہ داران احسان فراموشی کررہے ہیں جبکہ افغان طالبان اس وقت پاکستان کے احسانات کی بجائے ’وار آن ٹیرر ‘میں اس کے امریکہ کا ساتھ دینے اور پچھلے برسوں میں بعض افغان طالبان رہنمائوں کے پاکستان میں قتل کو سامنے لاکر ایسا تاثر دے رہے ہیں کہ پاکستان نے ان کی خاطر کچھ نہیں کیا۔ پاکستان کی یہ تشویش بالکل بجا ہے کہ طالبان کے زیراستعمال افغان سرزمین اسکے خلاف استعمال ہورہی ہے لیکن وہ جس طرح افغان طالبان سے ایک ہی دن میں ٹی ٹی پی کے مسئلے کو حل کرانے کا مطالبہ کررہا ہے، مناسب نہیں اور اسے اماراتِ اسلامی کی اندرونی اور نظریاتی مجبوریوں کو مدنظر رکھنا چاہئے۔ دوسرا ماضی قریب میں پاکستان نے افغان طالبان کو ایک عذر بھی ہاتھ دے دیا ہے۔ہماری موجودہ سیاسی اور عسکری قیادت یقیناً اس عمل کی مخالف تھی یا اس میں شریک نہیں تھی لیکن طالبان تو پاکستان کو جنرل باجوہ اور جنرل حافظ عاصم منیر یا پھر عمران خان اور شہباز شریف کے تناظر میں نہیں دیکھتے ۔ وہ یہ کہتے ہیں کہ ریاست پاکستان نے (جنرل باجوہ اور جنرل فیض حمید ) یا پھر عمران خان کے کہنے پرہم نے ٹی ٹی پی کو پاکستانی نمائندوں کے ساتھ مذاکرات کیلئے بٹھایا لیکن معاملے کو منطقی انجام تک پہنچائے بغیر پاکستان نے یک طرفہ طور پر وہ سلسلہ ختم کیا۔ اس طرح ہمارے ماضی کے انصار اور محسن (ٹی ٹی پی) کے سامنے ہماری اخلاقی پوزیشن کمزور ہوگئی۔ امارات اسلامی کی طرف سے یہ غلطی ہورہی ہے کہ وہ صرف افغانستان میں رہنے والے افغانوں کے مسائل کو اپنی ذمہ داری سمجھتے ہیں حالانکہ اگر امارات اسلامی کے کسی قدم کے رد عمل میں مہاجرین کو کوئی تکلیف پہنچتی ہے تو روز قیامت اس کا بھی امارات اسلامی کے ذمہ داران سے پوچھا جائے گا ۔ ریاست پاکستان کی یہ خواہش اور کوشش بالکل حق بجانب ہے کہ یہاں پر مقیم غیرملکی خواہ وہ افغانستان کے ہوں، ایران کے یا کسی اور کے ، کو قانونی تقاضے پورا کرنے پر مجبور کرے یا انکی انکے ممالک واپسی کی راہ ہموار کرے لیکن امارات اسلامی سے ناراضی کی سزا مہاجرین کو دینا مناسب نہیں۔ پہلی بات تو یہ ہے کہ جن لوگوں کے ویزے ایکسپائر ہوگئے ہیں یا جن کے پاس قانونی دستاویزات نہیں، وہ زیادہ تر وہ افغان ہیں جو طالبان کے برسراقتدار آنے کے بعد یہاں آئے ہیں ۔ ان لوگوں کی نہ امارات اسلامی سے ہمدردی ہے اور نہ شاید ان کی واپسی سےامارات اسلامی پریشان ہوگی۔ جو طالبان کے وابستگان تھے یا پھر سابق مجاہدین تھے ، ان کی اکثریت کے پاس پاکستان کی قانونی اور کمپیوٹرائزڈ دستاویزات موجود ہیں۔ یوں کارروائی کی زد میں پہلے نمبر پر یا تو وہ افغان آئیں گے جو بالکل بے آسرا ہیں یا پھر وہ آئیں گےجو طالبان کے اقتدار کے بعد یہاں آئے ہیں ۔ ریاست پاکستان سے میری گزارش ہوگی کہ وہ اپنی پالیسی پر نظر ثانی کرے۔ جو لوگ طالبان کے قبضے کے بعد یہاں آئے ہیں، ان کو رجسٹریشن اور طویل المیعاد ویزے جاری کرنے کی سہولت دے۔ اسی طرح یواے ای کی حکومت کی طرز پر امیرافغانوں کیلئے دس سال کے گولڈن ویزے جاری کرنے ، بینک اکائونٹ کھولنے، پراپرٹی خریدنے اور کاروبار کرنے کی اجازت دے۔ اگرچہ وفاقی وزیر داخلہ سرفراز بگٹی بار بار پولیس کو یہ ہدایت کررہے ہیں کہ وہ قانونی دستاویزات رکھنے والے افغانوں کو تنگ نہ کرے لیکن حقیقت یہ ہے کہ حکومتی اعلان کے بعد پولیس بہت ساری جگہوں پر قانونی دستاویزات رکھنے والے مہاجرین کو بھی تنگ کررہی ہے ۔ سندھ سے سب سے زیادہ شکایات موصول ہورہی ہیں اور ایسے کیسز بھی ہوئے ہیں کہ جب مہاجر قانونی دستاویزات دکھاتا ہے تو پولیس والا اسے گرفتار کرکے دستاویزات پھاڑ دیتا ہے۔یہاں میں دونوں حکومتوں کو متنبہ کرنا ضروری سمجھتا ہوں کہ مغربی طاقتیں ایک سوچی سمجھی سازش کے تحت دونوں کو ورغلا کر لڑانا چاہتی ہیں۔ اس لئے پاکستان اور امارات اسلامی کو یہ پہلو بھی مدنظر رکھ کر تحمل سے کام لینا چاہئے اور ایک دوسرے کی مجبوریوں سے فائدہ اٹھانے کی بجائے ان مجبوریوں کو مدنظر رکھنا چاہئے۔ آخر میں اپنے ہم پیشہ لوگوں سے ایک اپیل یوں کرنا چاہوں گا کہ گزشتہ برسوں میں ڈیڑھ سو کے قریب افغان صحافی پاکستان آئے۔ ان میں اکثریت کے ویزے کی میعاد ختم ہوگئی ہے ۔ ہم گزشتہ ایک سال سے کوشش کررہے ہیں کہ انہیں لانگ ٹرم ویزے دلوا دیں لیکن کہیں نہ کہیں سے رکاوٹ حائل ہوجاتی ہے جبکہ وہ بیچارے گھروں سے باہر نہیں نکل سکتے اور نہ کوئی روزگارحاصل کر سکتے ہیں۔ میں وزیراعظم انوار الحق کاکڑ، وزیر داخلہ سرفراز بگٹی اور دیگر متعلقہ بااختیار لوگوں سے دردمندانہ اپیل کرتا ہوں کہ وہ انسانی ہمدردی کی بنیاد پر فی الفور ان مردوخواتین افغان صحافیوں کو لانگ ٹرم اور ورکنگ ویزے جاری کریں۔

بشکریہ جنگ نیوز اردو

بلاول ٹھیک کہتا ہے ….



تحریر:۔ سہیل وڑائچ

ویسے تو بلاول بھٹو زرداری پاکستان کی بڑی سیاسی قیادت سے عمر میں بہت چھوٹا ہے مگر وہ جو کہہ رہا ہے اسے بڑوں کو سمجھنا چاہئے اور اپنی سیاسی حکمت عملی تبدیل کرنی چاہئے۔ مسلم لیگ ن کے قائد ہوں یا تحریک انصاف کے چیئرمین، بلاول بھٹو سے برسوں بڑے ہیں اور ہمارے خطے میں بڑے چھوٹوں کی بات کو درخور اعتنا نہیں سمجھتے، یہی حال بلاول بھٹو کے بیانات کا ہو رہا ہے۔ بلاول بار بار کہہ رہا ہے کہ فوراً الیکشن ہونا چاہئے، مستقبل کو بہتر بنانا ہےتو لیول پلینگ فیلڈ ہونا چاہئے، سب کو برابر کا موقع ملنا چاہئے وہ بار بار متنبہ کر رہا ہے کہ اس وقت ہم ایک نئی قسم کی آمریت کا شکار ہو رہے ہیں، ہمیں ملک بچانا ہے تو اس سے بچنا ہوگا اور ملک کو آئین کے مطابق چلانا ہوگا۔ اصول اور حق کی بات کریں تو بلاول کی باتیں ٹھیک ہیں، ہاں اگر پارٹی مفادات اور ذاتی عناد کے ترازو استعمال کئے جائیں تو پھر ان اقوال پر بہت سے اعتراضات اور تحفظات اٹھائے جا سکتے ہیں۔

کہنے والے کہتے ہیں کہ بلاول اور پیپلز پارٹی تکلیف میں ہیں کہ ان کی اتحادی نون نے انہیں نظرانداز کر کے مقتدرہ کے ساتھ ڈیل کرلی ہے اس ڈیل کے ذریعے وہ مستقبل میں اقتدار میں آتی دکھائی دے رہی ہے۔ دوسری طرف پیپلز پارٹی کو تنہا چھوڑ دیا گیا ہے، سندھ میں نگران وزیر اعلیٰ کے علاوہ ساری نگران حکومت پیپلز پارٹی کے مخالفوں کو شہہ دینے میں مصروف ہے۔ پیپلز پارٹی کو لگتا ہے کہ مقتدرہ انہیں صوبہ سندھ میں بھی اقتدار میں آنے نہیں دے گی، بلوچستان میں پیپلز پارٹی نے بہت سے اہم لوگوں کو رام کرلیا تھا مگر طاقتوروں نے انہیں اس پارٹی میں جانے سے روک دیا ہے۔ پیپلز پارٹی کو امید تھی کہ تحریک انصاف کے جنوبی پنجاب سے جو لوگ ٹوٹیں گے وہ انکی پارٹی میں آئیں گے اور وہ آئندہ الیکشن میں پنجاب میں 20،25نشستیں لے لی گی مگر استحکام پاکستان پارٹی بنا کر پیپلز پارٹی کی یہ امید بھی توڑ دی گئی۔ غلط یا صحیح پیپلز پارٹی کو یہ اطلاع بھی دی گئی ہے کہ لیاقت جتوئی سمیت انتخابی گھوڑوں کا ایک گروہ ن لیگ میں شامل ہو کر سندھ میں پیپلز پارٹی سے برسر پیکار ہو گا، یہ بھی کہا جا رہا ہے کہ مولانا فضل الرحمن کی جماعت تو پہلے ہی پیپلز پارٹی مخالف جی ڈی اے کی اتحادی بن گئی ہے آنے والے دنوں میں نون بھی سندھ میں پیپلز پارٹی کے خلاف میدان میں اترے گی، اگر ان باتوں میں تھوڑی سی بھی سچائی ہے تو پیپلز پارٹی کی ناراضی اور شکوے بے جا نہیں ہیں۔ پیپلز پارٹی 2007ء تک پنجاب کی ایک بڑی سیاسی قوت ہوا کرتی تھی مگر اپنا اینٹی اسٹیبلشمنٹ موقف تبدیل کرنے، نون لیگ سے صلح کرنے اور آخر میں گیلانی حکومت کی ڈیلیوری میں ناکامی نے اسکی ہوا اکھاڑ دی، پیپلز پارٹی کے بہت سے حامی جو اینٹی ن لیگ سیاست کرتے تھے وہ تحریک انصاف میں چلے گئے اور اپنی اینٹی ن لیگ سیاست جاری رکھی ابھی چند روز پہلے میری تحریک انصاف کی اسیر رہنما صنم جاوید کے والد اور صنم کے بچوں سے ایک شادی میں ملاقات ہوئی، صنم کے والد نے بتایا کہ وہ ایک پکا پپلیا اور جیالا ہے اسکی ساری سیاست نون لیگ کیخلاف رہی ہے اور اپنے علاقے میں اسی سیاست میں اسکے بھائی کو انکے نونی مخالفوں نے موت کے گھاٹ اتار دیا۔ صنم کے والد نے بتایا کہ صنم کے دل میں نون لیگ کے خلاف جو جذبات ہیں وہ خاندان سے وراثت میں ملے ہیں، اس مثال سے آسانی سے سمجھا جا سکتا ہے کہ پیپلزپارٹی کی اکثریت نےپنجاب میں نون لیگ سے اسکے اتحاد کو پسند نہیں کیا تھا۔ گویا پیپلز پارٹی کو چارٹر آف ڈیمو کریسی اور ان سے دوستی کے بدلے پنجاب میں اپنے ووٹ بینک کی قربانی دینا پڑی ۔آج اگر بلاول اور پیپلز پارٹی نونیوں سے گلے شکوے کر رہے ہیں تو اسکا یہی پس منظر ہے۔

پیپلز پارٹی کی قیادت ذوالفقار علی بھٹو سے ہوتے ہوئے بے نظیر بھٹو اور اب بلاول بھٹو کے پاس پہنچی ہے، پیپلز پارٹی کا ووٹ بینک ذوالفقار علی بھٹو نے بنایا انہوں نے روٹی، کپڑا اور مکان کے بیانیے سے پہلے پارٹی کو کھڑا کیا اور بعد میں حکومت میں آکر اپنے ووٹ بینک کو مضبوط تر بنایا اور آخر میں پھانسی کے تختے پر جھول کر وہ غریب اور غیر مراعات یا فتہ طبقے کا ایسا ووٹ بینک چھوڑ گئے جو جنرل ضیاء الحق کے استبداد کے باوجود کئی دہائیوں تک پیپلز پارٹی سے جڑا رہا!

محترمہ بے نظیر بھٹو نے پیپلز پارٹی کی باگ ڈور سنبھالی تو سوشلزم کا دور ختم ہو رہا تھا مارکیٹ اکانومی او رلبرل ازم نئی دنیا کے چلن بن چکے تھے ،محترمہ نے انتہائی کامیابی سے بھٹو کے ووٹ بینک کو نئے حقائق کے ساتھ چلایا انہوں نے سیاست میں آکر بھٹو سے الگ اپنا بھی ووٹ بینک بنایا جو بےنظیر کی جمہوری جدوجہد اور انکے لبرل آئیڈیاز کو پسند کرتے تھے، محترمہ کے بعد جب سے بلاول بھٹو آئے ہیں بدقسمتی سے کوئی ایک بھی نیا ووٹ اپنی پارٹی میں شامل نہیں کر سکے باوجود یہ کہ ان کا امیج بہت اچھا ہے انکے خیالات محترمہ کے آئیڈیاز کا عکس ہیں مقتدرہ کے بھی وہ پسندیدہ ہیں ،ان کے حوالے سے کرپشن کا الزام تک نہیں بطورِ وزیر خارجہ انہوں نے پاکستان کی ہرفورم پر کامیاب وکالت کی ہے، دن رات انتھک محنت کرکے اپنے رول کو بخوبی نبھایا ہے ان سب مثبت باتوں کے باوجود وہ کوئی نیا بیانیہ، کوئی ایسا نیا منشور دینے میں ناکام رہے ہیں جس سے ان کی پارٹی میں تازہ خون آتا اور وہ پنجاب میں اس قابل ہو جاتی کہ اپنے ووٹ بینک کے سہارے پر 25،30نشستیں ہی جیت لیتی مگر اب تک ایسانہیں ہو سکا۔ بلاول بھٹو ملک کی ساری قیادت میں سب سے جوان، سب سے زیادہ پڑھے لکھے اورسب سے زیادہ روشن خیال ہیں مگر بدقسمتی سے وہ پنجاب کی یوتھ کو اپنی طرف متوجہ نہیں کر پائے۔

بلاول سوچتے ہونگے کہ اب بھی وقت انکے ساتھ ہے انکے پاس اب بھی نیا بیانیہ بنانے، نئے نعرے دینے یا نیا منشور لانے کیلئے بہت وقت پڑا ہے انکے سارے سیاسی حریف انکے مقابلے میں اتنے بوڑھے ہیں کہ پانچ دس سال بعد بلاول کو میدان صاف ملے گا اور وہ ملک کے سب سے تجربہ کارسیاست دان تصور ہونگے، دیکھنا یہ ہو گا کہ بلاول اپنے آپ کو آنے والے دنوں کیلئے کیسے تیار کرتے ہیں۔ انکے نانا اور والدہ عوامی مقبولیت کے راستے اقتدار میں آئے قبولیت والوں کو انہیں باامر مجبوری قبول کرنا پڑا بلاول قابل قبول تو ہیں لیکن پنجاب اورخیبر پختونخوا میں اتنے مقبول نہیں ہیں کہ انہیں وزارتِ عظمیٰ کا تاج مل سکے۔ کاش وہ اپنی ذہانت اور لیڈر شپ کو عوام کے مسائل حل کرنے کی طرف موڑ پائیں اور اقتدار میں آنے سے پہلے ان مسائل کا حل تلاش کریں مسائل کا حل ہی انکا منشور بن سکتا ہے ….

بشکریہ جنگ نیوز اردو

نوازشریف نے احتساب عدالت کے سامنے سرینڈر کر دیا، دائمی وارنٹ منسوخ، اسلام آباد ہائیکورٹ میں بھی پیش ہو گئے



قائد مسلم لیگ ن نوازشریف نے احتساب عدالت کے سامنے سرینڈر کر دیا جس کی بنیاد پر ان کے دائمی وارنٹ منسوخ کر دیے گئے بعدازاں سابق وزیراعظم اسلام آباد ہائی کورٹ کے سامنے بھی پیش ہوگئے۔

منگل کے روزاسلام آباد کی احتساب عدالت میں  سابق وزیراعظم  نوازشریف توشہ خانہ کیس میں پیش ہوئے اورعدالت کے روبروحاضری لگائی۔ احتساب عدالت کے جج محمد بشیر نے کیس کی سماعت کی اور سابق وزیراعظم کے دائمی وارنٹ منسوخ کرتے ہوئے ان کی ضمانت منظور کی، عدالت نے نوازشریف کو 10 لاکھ روپے کے مچلکے جمع کرانے کا حکم دیا۔

نوازشریف کی احتساب عدالت میں پیشی کے موقع پر ان کے ہمراہ مریم نوازشریف اور وکلا کی ٹیم تھی۔ جبکہ احسن اقبال، حنیف عباسی، طارق فضل چوہدری کمرہ عدالت میں موجود تھے۔

سابق وزیراعظم نوازشریف کے ضمانتی کے طور پر عدالت نے طارق فضل چوہدری کو مقرر کیا۔

عدالت نے توشہ خانہ سے گاڑیاں لینے کے کیس میں نوازشریف کی ضمانت منظور کرتے ہوئے مزید سماعت کو 20 نومبر تک ملتوی کر دیا۔

سابق وزیراعظم نوازشریف توشہ خانہ کیس میں اسلام آباد کی احتساب عدالت میں پیشی  کے بعد اسلام آباد ہائیکورٹ پہنچے جہاں سرنڈر کرنے کے بعد چیف جسٹس عامر فاروق کی سربراہی میں 2 رکنی بینچ نے کیس کی سماعت کی۔

چیف جسٹس اسلام آباد ہائیکورٹ جسٹس عامر فاروق نے ریمارکس دیے کہ عدالت کو مطمئن کرنا ہو گا کہ آپ غیرحاضر کیوں رہے ۔ ابھی ہم نے اس پر نوٹس جاری کر کے نیب کو سننا ہے۔ اپیلوں کی بحالی روٹین کا معاملہ نہیں۔

جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب نے کہاکہ ہم قانون کے مطابق آگے بڑھیں گے۔نواز شریف نے جیسٹیفائی کرنا ہے کہ وہ اشتہاری کیوں ہوئے؟۔

اعظم نذیر تارڑ نے دلائل دیے کہ نواز شریف جان بوجھ کر غیر حاضر نہیں رہے، عدالت کی اجازت سے باہر گئے تھے۔ ہم عدالت میں میڈیکل رپورٹس پیش کرتے رہے ہیں۔

دوران سماعت پراسیکیوٹر جنرل نیب بھی عدالت کے سامنے پیش ہوئے اور موقف اختیار کیا کہ اگر نوازشریف کی حفاظتی ضمانت میں توسیع کی جاتی ہے تو ہمیں اس پر کوئی اعتراض نہیں۔

اس پر جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب نے پراسیکیوٹر جنرل نیب سے مکالمہ کرتے ہوئے کہا کہ’کیا اب نیب یہ کہے گی کہ کرپٹ پریکٹسز کا الزام برقرار ہے اور ان کو چھوڑ دیں‘۔ انہوں نے کہا کیا یہ وہی نیب ہے۔ ان ریمارکس پر عدالت میں قہقے لگ گئے۔

انہوں نے مزید ریمارکس دیے کہ ہم چیئرمین نیب کو نوٹسز جاری کر کے پوچھ لیتے ہیں کہ عوام کا وقت کیوں ضائع کرتے ہیں۔

چیف جسٹس عامر فاروق نے ریمارکس دیے کہ اگر نیب نوازشریف کی ضمانت کی مخالفت نہیں کررہی تو پھر ریفرنسز واپس کیوں نہیں لے لیے جاتے، نیب جب کسی چیز کی مخالفت ہی نہیں کر رہا تو پھر اپیلیں کیسی؟۔

اس موقع پر جسٹس گل حسن اورنگزیب نے پراسیکیوٹر سے مکالمہ کیا کہ چیئرمین نیب سے ہدایات لے کر عدالت کو آگاہ کریں۔ ہمیں واضح بتا دیں تاکہ ہم فیصلہ دے کر کوئی اور کام کریں

عدالت نے نیب پراسیکیوٹر سے پوچھا کہ کیا نوازشریف کی گرفتاری مطلوب ہے؟ جس پر پراسیکیوٹر نے کہا کہ سابق وزیراعظم کی گرفتاری مطلوب نہیں۔

بعد ازاں عدالت نے نواز شریف کی سزا کے خلاف درخواستیں بحال کرنے کی اپیلوں پر نیب کو نوٹس جاری کرتے ہوئے سماعت جمعرات تک ملتوی کر دی۔

واضح رہے کہ سابق وزیراعظم نواز شریف کو العزیزیہ کرپشن ریفرنس اور ایون فیلڈ کرپشن ریفرنس میں بالترتیب 7 اور 10 سال قید کی سزا سنائی گئی تھی۔ ان دونوں مقدمات میں عدم پیشی پر نواز شریف کو دسمبر 2020 میں اشتہاری قرار دیا گیا تھا۔

قومی ٹیم کی افغانستان سے شکست پر شعیب اختر دلبرداشتہ



راولپنڈی ایکسپریس کے نام سے مشہور قومی کرکٹ ٹیم کے سابق فاسٹ بولر شعیب اختر نے قومی کرکٹ ٹیم اور مینجمنٹ کو شدید تنقید کا نشانہ بنایا ہے۔

سوشل میڈیا پر جاری اپنی ایک ویڈیو میں شعیب اختر نے کہا کہ قومی کرکٹ ٹیم کا آج جو مقام ہے یہ اِس کی اپنی وجہ سے ہے۔

بابر الیون کو ورلڈ کپ میں افغانستان کے ہاتھوں شکست پر شعیب اختر نے ٹیم مینجمنٹ کو کھری کھری سنائی ہیں۔

دوسری جانب بھارتی میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ قومی ٹیم ابھی بھی سنبھل سکتی ہے۔ 1992 میں بھی یہی صورت حال تھی مگر دیکھنا ہو گا کہ بابر اعظم عمران خان بن سکتا ہے یا نہیں۔