All posts by ghulam mustafa

بلوچستان کے 84 مدارس افغان شہری کنٹرول کرتے ہیں: ایپکس کمیٹی اجلاس میں انکشاف



صوبہ بلوچستان میں 84 دینی مدارس کا انتظام افغان شہریوں کے پاس ہونے کا انکشاف ہوا ہے جن میں زیر تعلیم طلبا کی تعداد 8500 ہے، حکومت نے اس حوالے سے بڑا فیصلہ کر لیا ہے۔

ذمہ دار ذرائع کے مطابق چند دن قبل بلوچستان کی ایپکس کمیٹی کے اجلاس میں مدارس کے حوالے سے اہم فیصلے کئے گئے ہیں۔ ذرائع کے مطابق قانون نافذ کرنے والے حکام نے اجلاس کو بتایا گیا کہ بلوچستان میں اس وقت205 مدارس کام کر رہے ہیں اوران تمام مدارس کی جیو ٹریکنگ کی گئی ہے۔

ایپکس کمیٹی اجلاس کے شرکا کو بتایا گیا کہ ان مدارس میں سے 121 مدارس میں 8 ہزار طالبعلم زیر تعلیم ہیں جبکہ 84 مدارس کا انتظام افغان شہریوں کے پاس ہے جن میں زیر تعلیم طلبا کی تعداد 8500 ہے۔

کمیٹی نے فیصلہ کیا ہے کہ جن مدارس کا انتظام افغانیوں کے پاس ہے وہ پاکستانیوں کو سونپا جائے گا۔

اجلاس کو بتایا گیا کہ ان مدارس کے اکائونٹس کی جانچ پڑتال اور مہاجر کیمپس کے ساتھ رابطوں کی سکروٹنی بھی کی گئی ہے۔

ایپکس کمیٹی کو یہ بھی بتایا گیا کہ مدارس کے نصاب کو نفرت انگیز مواد سے پاک کیا گیا ہے۔

پاکستانیوں کا فلسطین سے رشتہ کیا؟



تحریر:۔ حامد میر

جس کے پاس کھونے کیلئے کچھ نہ ہو وہ اپنے طاقتور دشمن پر فتح پانے کیلئے موت کو اپنا ہتھیار بنا لیتا ہے ۔ فلسطینیوں کی مزاحمتی تنظیم حماس کو بہت اچھی طرح پتہ تھا کہ اسرائیل پر ایک بڑے حملے کا نتیجہ غزہ کی تباہی کی صورت میں نکل سکتا ہے لیکن حماس نے دنیا کو صرف یہ بتانا تھا کہ اسرائیل ناقابل شکست نہیں اور مسئلہ فلسطین حل کئے بغیر مشرق وسطیٰ میں امن قائم نہیں ہو سکتا۔

اب آپ حماس کو دہشت گرد کہیں یا جنونیوں کا گروہ کہیں لیکن حماس نے دنیا کو بتا دیا ہے کہ کچھ عرب ممالک کے حکمران اسرائیل کے سہولت کار بن کر مشرق وسطیٰ میں امن قائم نہیں کرسکتے امن قائم کرنا ہے تو فلسطینیوں سے بھی بات کرنا پڑیگی۔اس سوال پر بحث بے معنی ہے کہ اسرائیل اور امریکہ کی طاقتور انٹیلی جنس ایجنسیاں حماس کے اتنے بڑے حملے سے کیسے بے خبر رہیں؟

حماس کی تاریخ یہ بتاتی ہے کہ شیخ احمد یاسین نے تنظیم آزادی فلسطین (پی ایل او) کے سربراہ یاسر عرفات سے مایوسی کے بعد حماس قائم کی تھی ۔شیخ احمد یاسین کو 2004ء میں اسرائیل نے نماز فجر کے وقت میزائل حملے کے ذریعہ شہید کر دیا تھا لہٰذا حماس اور اسرائیل میں کسی بھی قسم کی مفاہمت کا کوئی امکان نہیں تھا۔اگست 2021ء میں افغانستان سے امریکی فوج کے انخلا کے بعد یہ طے تھا کہ فلسطین اور کشمیر میں مزاحمت کی چنگاریاں دوبارہ بھڑکیں گی۔

فلسطین اور کشمیر کا آپس میں بہت گہرا تعلق ہے ۔یہ تعلق مجھے 2006ء میں لبنان کے شہر بیروت کے علاقے صابرہ اورشتیلا میں سمجھ آیا۔ یہ وہ علاقہ ہے جہاں اسرائیلی فوج نے 1982ء میں فلسطینی مہاجرین کا قتل عام کرایا تھا ۔2006ء کی لبنان اسرائیل جنگ کے دوران میں کئی دن کیلئے بیروت میں موجود رہا ۔

ایک دن میں نے اپنے ٹیکسی ڈرائیور کے سامنے مفتی امین الحسینی کا ذکر کیا تو وہ مجھے صابرہ شتیلا کے علاقے میں لے گیا جہاں شہداء کے ایک قبرستان میں مفتی امین الحسینی دفن ہیں ۔مفتی امین الحسینی فلسطینیوں کی تحریک مزاحمت کے بانیوں میں سےتھے۔ مفتی اعظم فلسطین کی حیثیت سے انہوں نے علامہ اقبال ؒ، قائد اعظم ؒ اور مولانا محمد علی جوہر ؒسمیت برصغیر کے کئیی مسلمان رہنمائوں کو مسئلہ فلسطین کی اہمیت سے آشنا کیا ۔2006ء میں امریکی سی آئی اے نے ان کے بارے میں ایک خفیہ رپورٹ کو ڈی کلاسیفائی کیا جو 1951ء میں تیار کی گئی تھی ۔

اس رپورٹ میں بتایا گیا کہ مفتی امین الحسینی نے فروری 1951ء میں پاکستان کے شہر کراچی میں کشمیر پر منعقد ہونے والی ایک کانفرنس میں شرکت کی جس کے بعد وہ آزاد کشمیر کے علاقے اوڑی گئے اور انہوں نے کشمیریوں کی تحریک آزادی کی حمایت کی۔اسی دورے میں وہ جنوبی وزیرستان کے علاقے وانا گئے اور وہاں کے قبائلی عمائدین سے ملاقات کی ۔ایک قبائلی رہنما نے مفتی امین الحسینی کو ایک سٹین گن کا تحفہ دیا جو اس نے 1948ء میں مقبوضہ کشمیر میں بھارتی فوج سے چھینی تھی۔

مفتی صاحب نے وزیر قبائل سے درخواست کی کہ وہ پاکستان کے خلاف بھارتی سازشوں کا حصہ نہ بنیں۔ امریکی سی آئی اے کی رپورٹ کے مطابق پاکستان سے مفتی صاحب کابل گئے اور انہوں نے بیت المقدس کے امام کی حیثیت سے افغان حکومت سے اپیل کی کہ وہ ’’پشتونستان‘‘ کی سازش کا حصہ نہ بنیں۔ ان کے مزار پر فاتحہ خوانی کے بعد مجھے ایک بزرگ فلسطینی ملا اور اس نے کہا کہ وہ بہت سوچتا تھا کہ مفتی اعظم فلسطین کو اتنی دور پاکستان جانے کی کیا ضرورت تھی اور کشمیریوں کی اتنی فکر کیوں تھی لیکن آج ایک پاکستانی کو ان کی قبر پر دیکھ کر سمجھ آئی کہ پاکستانیوں کو فلسطینیوں کے لئے اتنی پریشانی کیوں لاحق رہتی ہے۔

ہمارے بزرگوں نے تحریک پاکستان کے ساتھ ساتھ فلسطین اور کشمیر کیلئے تحریکوں میں بھی دل وجان سے حصہ لیا اس لئے عام پاکستانی فلسطین اور کشمیر کے درد کو اپنا درد سمجھتے ہیں ۔علامہ اقبالؒ نے 3جولائی 1937ء کو اپنے ایک تفصیلی بیان میں کہا تھا کہ عربوں کو چاہئے کہ اپنے قومی مسائل پر غوروفکر کرتے وقت اپنے بادشاہوں کے مشوروں پر اعتماد نہ کریں کیونکہ یہ بادشاہ اپنے ضمیروایمان کی روشنی میں فلسطین کے متعلق کسی صحیح فیصلے پر نہیں پہنچ سکتے۔

قائد اعظم ؒنے 15ستمبر 1937ء کو مسلم لیگ کے سالانہ اجلاس منعقدہ لکھنؤمیں مسئلہ فلسطین پر تقریر کرتے ہوئے برطانیہ کو دغا باز قرار دیا ۔اس اجلاس میں ایک قرارداد کے ذریعہ تمام مسلم ممالک سے درخواست کی گئی کہ وہ بیت المقدس کو غیر مسلموں کے قبضے سے بچانے کیلئے مشترکہ حکمت عملی وضع کریں ۔ پھر 23مارچ 1940ء کو آل انڈیا مسلم لیگ کے سالانہ اجلاس منعقدہ لاہور میں بھی مسئلہ فلسطین پر ایک قرار داد منظور کی گئی ۔

میں ان حقائق کو ان صاحبان کی توجہ کیلئے بیان کر رہا ہوں جو دعویٰ کیا کرتے تھے کہ قیام پاکستان تو دراصل انگریزوں کی سازش تھی اور قائد اعظم ؒنے 23مارچ کی قرارداد انگریزوں سے تیار کرائی ۔اگر قائداعظم ؒ انگریزوں کے ایجنٹ تھےتو انگریزوں کے دشمن مفتی امین الحسینی سے خط وکتابت کیوں کرتے تھے اور اسرائیل کے قیام کیلئے برطانوی سازشوں کی مخالفت کیوں کرتے رہے ؟ سچ تو یہ ہے کہ برطانوی سازشوں کے نتیجے میں قائم ہونے والی فلسطینی ریاست کو امریکہ کے بعد اگر کسی ملک کی سب سے زیادہ حمایت حاصل ہے تو وہ بھارت ہے ۔آج بھارت میں مسلمانوں کےساتھ وہی سلوک ہو رہا ہے جو اسرائیل نے فلسطینیوں کے ساتھ روا رکھا اور اس ظلم وستم کا ردعمل حماس کے حملے کی صورت میں سامنے آیا۔علامہ اقبال ؒ نے فلسطینیوں کو بہت پہلے بتا دیا تھا کہ

تری دوا نہ جنیوا میں ہے نہ لندن میں

فرنگ کی رگ جاں پنجہ یہود میں ہے

سنا ہے میں نے غلامی سے امتوں کی نجات

خودی کی پرورش و لذت نمود میں ہے

فیض احمد فیض نے تو فلسطین کی تحریک آزادی میں اپنے قلم کے ذریعہ حصہ لیا اور 1980ء میں بیروت میں یہ اشعار کہے۔

جس زمیں پر بھی کھلا میرے لہو کا پرچم

لہلہاتا ہے وہاں ارض فلسطیں کا علم

تیرے اعدا نے کیا ایک فلسطیں برباد

میرے زخموں نے کیے کتنے فلسطیں آباد

ابن انشاءنے ’’دیوار گریہ‘‘ کے عنوان سے اپنی ایک نظم میں عرب بادشاہوں پر طنز کرتے ہوئے کہا تھا

وہ تو فوجوں کے اڈے بنایا کریں

آپ رونق حرم کی بڑھایا کریں

ایک دیوار گریہ بنائیں کہیں

جس پر مل کے یہ آنسو بہائیں کہیں

اور حبیب جالب بھی کسی سے پیچھے نہ رہے انہوں نے فلسطینی مجاہدین کو کعبے کے پاسبان قرار دیتے ہوئے ان کے مخالفین کے بارے میں کہا۔

ان سامراجیوں کی ہاں میں جو ہاں ملائے

وہ بھی ہے اپنا دشمن، بچ کے نہ جانے پائے

بشکریہ جیو نیوز اردو

نوازشریف لندن سے سعودی عرب پہنچ گئے، جدہ پہنچنے پر استقبال



پاکستان مسلم لیگ ن کے قائد نواز شریف لندن سے سعودی عرب پہنچ گئے ہیں۔

نوازشریف لندن کے ہیتھرو ایئرپورٹ سے سعودی ایئرلائن کی پرواز کے ذریعے جدہ پہنچے جہاں مسلم لیگ ن کے رہنمائوں اور کارکنوں کی جانب سے ان کا استقبال کیا گیا۔

لیگی قائد نواز شریف کچھ روز سعودی عرب میں قیام کے بعد دبئی روانہ ہو جائیں گے جہاں سے 21 اکتوبر کو پاکستان پہنچیں گے۔

سعودی عرب روانگی کے لیے نوازشریف لندن کی ایون فیلڈ رہائشگاہ سے ہیتھرو ایئرپورٹ پہنچے تھے، اس موقع پر پاکستانی ہائی کمشنر کی جانب سے ان کا استقبال کیا گیا۔

نواز شریف جب لندن سے سعودی عرب کے لیے روانہ ہوئے تو اس موقع پر کارکنوں کی بھی بڑی تعداد ان کی رہائشگاہ کے باہر موجود تھی۔

میانوالی میں ٹریفک حادثہ، سرائیکی گلوکار شرافت علی سمیت 7 افراد جاں بحق



پنجاب کے علاقے میانوالی میں تیز رفتار جیپ نہر میں گر گئی ہے جس کے نتیجے میں سرائیگی گلوکار شرافت علی خیلوی سمیت 7 افراد جاں بحق ہو گئے ہیں۔

میڈیا رپورٹس کے مطابق بدقسمت جیپ کو حادثہ میانوالی کے علاقے واں بھچراں میں پیش آیا ہے جہاں تیزرفتاری کے باعث جیپ بے قابو ہو کر نہر میں گر گئی۔

حادثے میں 7 افراد کے جاں بحق ہونے کی تصدیق ہو گئی ہے جن میں سرائیکی گلوکار شرافت علی خیلوی بھی شامل ہیں۔

ٹریفک حادثے کی اطلاع ملتے ہی ریسکیو ٹیمیں موقع پر پہنچ گئیں اور جاں بحق ہونے والے افراد کی لاشوں کو نہر سے نکال کر ہسپتال منتقل کیا۔

اسرائیل فلسطین کشیدگی: سعودی ولی عہد سے ترکیہ اور ایران کے صدور کا ٹیلفونک رابطہ



ترکیہ کے صدر رجب طیب اردوان اور ایرانی صدر ابراہیم رئیسی نے سعودی ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان سے رابطہ کیا ہے۔

رجب طیب اردوان اور ابراہیم رئیسی کی محمد بن سلمان سے ٹیلیفونک گفتگو میں فلسطین کی صورت حال پر تبادلہ خیال کیا گیا۔

غیرملکی میڈیا رپورٹس کے مطابق ایران اور سعودی عرب کے درمیان معاہدے کے بعد ایرانی صدر اور سعودی ولی عہد کا یہ پہلا ٹیلیفونک رابطہ ہے۔

دونوں رہنماؤں کے درمیان اس بات پر اتفاق کیا گیا کہ فلسطینیوں کے خلاف جنگی جرائم کے خاتمے کے لیے اقدامات کیے جائیں گے۔

دوسری جانب ترکیہ کے صدر رجب طیب اردوان اور سعودی ولی عہد کے درمیان گفتگو میں بھی خطے کی کشیدہ صورت حال پر بات چیت کی گئی ہے۔

سعودی ولی عہد نے اس موقع پر کہا کہ سعودی عرب کی جانب سے کشیدگی کو روکنے کے لیے کوششیں کی جا رہی ہیں۔

حماس کے حملوں میں ہلاک ہونے والے اسرائیلیوں کی تعداد 1300 سے تجاوز کر گئی



اسرائیل اور فلسطین کے درمیان جاری جارحیت میں حماس کی کارروائیوں کے دوران اب تک ہلاک ہونے والے اسرائیلیوں کی تعداد 1400 سے تجاوز کر گئی ہے جبکہ 3 ہزار سے زیادہ اسرائیلی زخمی ہو چکے ہیں۔

حماس کی جانب سے اسرائیلی بمباری کا جواب دیتے ہوئے تل ابیب، عسقلان، اشدود اور سیدروت پر راکٹ برسائے گئے ہیں۔

حماس کی جانب سے کیے گئے حملوں میں 22 امریکی شہریوں اور اس کے علاوہ 188 اسرائیلی فوجیوں کے مارے جانے کی تصدیق کی گئی ہے۔

دوسری جانب حزب اللہ کی جانب سے اسرائیلی فوجیوں کو نشانہ بنانے کی ویڈیو بھی جاری کر دی گئی ہے۔

اسرائیلی میڈیا اعتراف کر رہا ہے کہ حماس کے حملوں میں تل ابیب سمیت دیگر شہروں میں کئی اہداف کو نقصان پہنچا ہے۔

غزہ اور گمشدہ مسلم اُمہ



تحریر:۔ انصار عباسی

ایک واٹس ایپ میسیج ملا جس میں کچھ یوں لکھا تھا کہ آئندہ 72 گھنٹے بہت اہم ہیں، تین لاکھ اسرائیلی فوج کسی بھی وقت غزہ میں داخل ہو کر غزہ اور حماس کو مکمل طور پر تباہ و برباد کر دیں گے اس لیے مسلم امہ سے درخواست ہے کہ مظلوم فلسطینیوں کے حق میں دعا کریں۔ میسیج میں ایک مخصوص دعا بھی لکھی گئی تھی۔

بلاشبہ ہم سب مسلمانوں کو اس موقع پر اپنے مظلوم بہنوں، بھائیوں، بچوں کے لیے دعا ضرور کرنی چاہیے لیکن میں سوچ میں پڑ گیا کہ مسلم امہ ہے کہاں؟ پچاس کے قریب مسلمان ممالک، دنیا بھر میں ڈیڑھ ارب سے زیادہ مسلمان، ہماری فوجیں، ہماری حکومتیں، ہمارا اثرورسوخ سب کچھ ہوتے ہوئے مسلم امہ کو صرف دعاؤں کے لیے کہا جا رہا ہے۔ عملاً کچھ نہیں کرنا۔ کوئی مسلمان ملک، کوئی مسلم حکمران، کوئی بھی اپنے فلسطینی بھائیوں کو ظلم سے بچانے کے لیے کھڑا کیوں نہیں ہو رہا۔

مظلوم کی مددنہیں کر سکتے، ظالم کا ہاتھ نہیں روک سکتے، تو کوئی مسلمان حکمران، کوئی مسلمان ملک غزہ پر اسرائیلی حملے رکوانے کے لیے بھاگتا دوڑتا بھی نظر کیوں نہیں آ رہا۔ زبانی کلامی مذمتوں یا اظہار یکجہتی اور مطالبوں سے غزہ کے مظلوموں پر ڈھائے جانے والے مظالم رک تو نہیں سکتے۔ اسرائیل کی گذشتہ چار دن کی لگاتار بمباری سے غزہ کے کئی علاقے ملبے کا ڈھیر بن چکےہیں۔ مسجدوں،ا سکولوں،ا سپتالوں، رہائشی اور کاروباری عمارتوں سب کو بلاتفریق نشانہ بنایا جا رہا ہے۔

اطلاعات کے مطابق ہزار سے زیادہ فلسطینیوں کو شہید کیا جا چکا ہے، جن میں بڑی تعداد میں بچے اور خواتین بھی شامل ہیں۔ غزہ کا پانی، بجلی بند کر دیے گئے اور خوراک، دواؤں اور کسی بھی قسم کی سپلائی نہیں کی جا رہی۔ اتنا بڑا انسانی المیہ جنم لے رہا ہے، ظالم اپنے ظلم کی تمام حدوں کو پار کر تے ہوئے دنیا بھر کے سامنے بلاتفریق غزہ میں رہنے والوں کا قتل عام کر رہا ہے اور دنیا تماشہ دیکھ رہی ہے جبکہ مسلم امہ کہیں نظر نہیں آ رہی۔ امریکا ہمیشہ کی طرح ظالم اسرائیل کے پیچھے کھڑا ہے، اسلحہ بھی فراہم کر رہا ہے کیوں کہ مرنے والے مسلمان ہیں۔ حماس کے حملے نے اسرائیل کو پاگل کر دیا۔

اسرائیل اپنے بارے میں یہ سمجھتا تھاکہ اُس کی طرف کوئی آنکھ اُٹھا کر نہیں دیکھ سکتا، اُس کا دفاعی نظام، اُس کے جدید ہتھیار، فوج، سیکیورٹی اور انٹیلیجنس نظام اُسے ایک طاقت ور ملک بناتے ہیں ،لیکن حماس کے حملہ نے اسرائیل کے پورے کے پورے دفاعی اور انٹلیجنس کے نظام کو ننگا کر دیا۔ اسرائیل کی ناک کے نیچے نجانے کب سے حماس اس حملے کی تیاری کر رہا تھا لیکن کسی کو کانوں کان خبر نہیں ہوئی اوراتنا بڑا حملہ ہو گیا ۔

حماس کا اسرائیل پر یہ حملہ فلسطینیوں پر اسرائیل کی دہائیوں پر محیط نہ ختم ہونے والے مظالم کا نتیجہ تھا۔ اس بات پر بحث ہو رہی ہے کہ آیا حماس نے یہ حملہ کرنے سے پہلے اس کے ممکنہ نتائج کے بارے میں سوچا یا نہیں لیکن سوال یہ بھی پیدا ہوتا ہے کہ کیا ظالم کومظلوم پر ظلم کرنے کی ہمیشہ کھلی چھٹی رہے گی، اور مظلوم ہمیشہ ظلم ہی سہتا رہے گا اور خاص طور پر جب مظلوم مسلمان ہو چاہے اُس کا تعلق فلسطین سے ہو یا کشمیر سے ہو۔ کیا مسلمانوں کا خون یوں ہی بہتا رہے گا۔

فلسطین اور کشمیر تو کئی دہائیوں سے اسرائیل اور بھارت کے مظالم کا شکار ہیں اور اقوام متحدہ کی قراردادوں کے باوجود ظالم اپنا ظلم ڈھائے جا رہے ہیں ۔ یہاں تو مختلف حیلہ بہانوں سے افغانستان، عراق، لیبیا، شام وغیرہ میں بھی لاکھوں مسلمانوں کو بے دردری سے مارا گیا ،ان ممالک کو تباہ کیا گیا۔ پاکستان کو بھی عراق اور افغانستان بنانے کی سازشیں بنیں گئی، جو ناکام و نامرادہوئیں۔ یہ سب کچھ دیکھ کر بھی مسلمان متحد نہیں ہوتے۔ یاد رکھیں جب تک مسلمان ممالک میں اتحاد نہیں ہوتا، ہم ایک ایک کر کے پٹتے ہی رہیں گے، خون ہمارا ہی بہتا رہے گا۔

بشکریہ جیو نیوز اردو

جماعت اسلامی کا بجلی بلوں میں اضافی ٹیکسوں کیخلاف سپریم کورٹ سے رجوع



جماعت اسلامی پاکستان نے بجلی کے بلوں میں اضافی ٹیکسوں کے خلاف سپریم کورٹ سے رجوع کر لیا ہے۔

بجلی کے بلوں میں اضافی ٹیکسوں کے خلاف عدالت عظمیٰ میں دائر ہونے والی درخواست میں وفاق، نیپرا سمیت دیگر کو فریق بنایا گیا ہے۔

جماعت اسلامی کی درخواست میں یہ نکتہ اٹھایا گیا ہے کہ نیپرا ایکٹ کے خلاف بجلی ٹیرف کا تعین نہیں کیا جا سکتا۔ کم نرخ پر بجلی فراہم نہ کرنا آئین پاکستان کی خلاف ورزی ہے۔

درخواست میں موقف اختیار کیا گیا ہے کہ حکومت کی جانب سے بجلی کے بلوں پر ٹیکس بڑھایا جا رہا ہے، دوسری طرف ٹیکسٹائل صنعتیں بجلی کی کمی کے باعث مشکلات کا شکار ہیں۔

درخواست میں کہا گیا ہے کہ فیول پرائس ایڈجسٹمنٹ قانون کے خلاف ہے، آئین میں واضح طور پر درج ہے کہ نیپرا کو بطور ریگولیٹر کوئی پالیسی بنانے کا اختیار نہیں ہے۔

جماعت اسلامی نے کہا ہے کہ اس وقت چونکہ نگران حکومت ہے لہٰذا عدلیہ ہی واحد ادارہ ہے جہاں سے اس معاملے کا نوٹس لے کر اس کو حل کیا جا سکتا ہے۔

غیر قانونی مقیم افغان باشندوں کا انخلا شروع



پاکستان میں غیر قانونی طور  پر مقیم افغان باشندوں کا انخلا شروع ہو گیا ہے، 30 افغان خاندانوں کو لے کر 16 ٹرک طورخم بارڈر  پہنچ گئے ہیں۔

ٹرکوں میں ساڑھے تین سو افراد میں خواتین اور بچے بھی شامل ہیں، قانونی تقاضے پورے ہونےکے بعد ان افراد کو  افغانستان جانےکی اجازت دی جائے گی۔

ادھر ملک بھر کی پانچ بڑی جیلوں میں ایف آئی اے امیگریشن کاؤنٹر بنانے کا فیصلہ کیا گیا ہے، رہائش کا ثبوت نہ رکھنے والے غیر ملکیوں کو جیل بھیجا جائے گا، امیگریشن حکام جیل سے ہی ڈی پورٹ کرنے کا فیصلہ کریں گے، متعلقہ پولیس اور بارڈر ایریا پولیس ان باشندوں کو سرحد پار کرائے گی۔

اکادمی ادبیات کے زیرِ اہتمام ربیع الاول کی مناسبت سے اردو شعرا سے متعلق سیمینار



اکادمی ادبیات اسلام آباد پاکستان کے زیرِ اہتمام ربیع الاول کی مناسبت سے اردو شعرا کے حوالے سے منفرد سیمینار کا اہتمام کیا گیا ،اس سیمینار کا عنوان ـ غیر مسلم شعراء کی نعتیہ شاعری ہی شعر و ادب سے تعلق رکھنے والے افراد کو متوجہ کر گیا۔

 اردو شاعری کی تاریخ میں نعت ایک الگ صنف کا مقام حاصل کر چکی ہے ،اور مسلم شعرا کے ساتھ ساتھ غیر مسلم ،جن میں جگن ناتھ آزاد ہ| جگن ناتھ کمال کرتار پوری | دلو رام کوثری | ستیا پال آنند | شنکر لال ساقی | عرش ملسیانی | ہری چند اختر، ،مہندر سنگھ بیدی سے نذیر قیصر تک ایک طویل فہرست بنتی ہے، نے نبیِ آخرالزمانؐ  کی سیرت کو شعر کیا۔
تقریب کی صدارت معروف مسیحی صدارتی ایوارڈ یافتہ شاعر نذیر قیصر نے کی ، مہمان خصوصی ڈاکٹر نجیبہ عارف چیرمین اکادمی پاکستان تھیں، ملک کے نامور شعراء جن میں ڈاکٹر ریاض مجید، نسیم سحر، ڈاکٹر احسان اکبر و دیگر نے اس موقع پر اظہار خیال کرتے ہوئے کہا کہ نعتیہ شاعری کا آغاز اسلام کے ساتھ ہی ہو گیا تھا اور اس میں غیر مسلم شعراء کی خدمات کو کبھی فراموش نہیں کیا جا سکتا کیونکہ انہوں نے آخری نبی حضرت محمد ﷺ کی سیرت کا ہر پہلو اجاگر کیا۔

مقررین نے چیئرمین اکادمی ادبیات کا شکریہ ادا کرتے ہوئے کہا کہ انہوں نے اپنی نوعیت کا پہلا تاریخی اور منفرد پروگرام اکادمی میں منعقد کیا جس میں آپ ص سے محبت کرنے والے دیگر مذاہب کے شعرا کے کام کو بھی سامنے لایا گیا ہے۔
تقریب کے صدر معروف شاعر  نذیر قیصر کا گفتگو کہتے ہوئے کہنا تھا کہ اسلام امن و محبت کا دین ہے ،آپ ص کی سیرت بنی نو ع انسانیت کے لیے مشعلِ راہ ہے۔
ڈاکٹر نجیبہ عارف چیئرمین اکادمی ادبیاتِ پاکستان کا خطاب کرتے ہوئے کہنا تھا کہ اکادمی ادبیات پاکستان ،اردو شعر و ادب کے فروغ اور عالمی سطح پر پاکستانی ادب کو اجاگر کرنے کے لئیے دن رات کوشاں ہے اور آپؐ کی سیرت پر کام کرنے والے تمام ادبا شعرا کو پلیٹ فارم مہیا کرنا ہمارا فرض ہے،سیمینار کے اختتام پر بزرگ شاعر ڈاکٹر توصیف تبسم کے لیے فاتحہ خوانی کی گئی۔