All posts by ghulam mustafa

31 برس بعد



تحریر:۔ جاوید چوہدری

ناصر محمود باجوہ جہلم میں ڈی پی او ہیں‘ یہ چند دن قبل میرے پاس تشریف لائے اور انھوںنے ایک عجیب واقعہ سنایا‘ ان کا کہنا تھا ’’میں روزانہ درجنوں فائلیں دیکھتا اور پراسیس کرتا ہوں‘ میری نظر سے چند ماہ قبل ایک فائل گزری جس میں ڈیڑھ لاکھ روپے کا چیک لگا ہوا تھا‘ چیک پولیس ویلفیئر فنڈ کے لیے تھا اور نیچے منجانب مظفر قریشی لکھا تھا۔

میں نے اپنے اسٹاف سے چیک کے بارے میں پوچھا تو جواب ملا‘ یہ صاحب 1992 سے ہر سال پولیس ویلفیئر فنڈ میں رقم جمع کرارہے ہیں‘ میں یہ سن کر حیران ہو گیا کیوں کہ میری پوری سروس میں اس نوعیت کا کوئی کنٹری بیوشن میری نظر سے نہیں گزرا تھا‘ ہم بڑی مشکل سے عوام سے ویلفیئر فنڈ کے لیے رقم جمع کرتے ہیں اور وہ بھی ایک دو بار ملتا ہے مگر ایک شخص 31 برسوں سے مسلسل رقم بھجوا رہا تھا۔

یہ بات عجیب تھی لہٰذا میں نے مظفر قریشی صاحب کا نمبر تلاش کیا اور انھیں فون کر دیا‘ قریشی صاحب نے مجھے عجیب داستان سنائی‘ یہ داستان اس قدر جذباتی تھی کہ میری آنکھوں میں آنسو آ گئے‘ میں نے بعدازاں آئی جی سے رابطہ کر کے انھیں یہ کہانی سنائی۔

یہ بھی متاثر ہو گئے اور انھوں نے مجھے مظفر قریشی صاحب کے لیے تعریفی سند بھجوا دی‘ میں آج یہ سند دینے کے لیے اسلام آباد آیا ہوں‘ میری وش لسٹ میں دو لوگوں کے نام تھے‘ مظفر قریشی صاحب اور آپ‘ آج میری دونوں سے ملاقات ہو گئی‘‘۔

میں نے ڈی پی او صاحب سے واقعہ سننے کے بعد مظفر قریشی صاحب کو فون کیا‘ یہ ریٹائرڈ فیڈرل سیکریٹری ہیں‘ 1962 میں سروس جوائن کی اور فیڈرل سیکریٹری بن کر ریٹائر ہوئے‘ اسلام آباد میں رہتے ہیں اور واک اور کتابیں ان کے دو شغل ہیں۔

میری بات سن کر یہ رو پڑے اور ان کے الفاظ نے مجھے بھی رلا دیا‘ یہ بار بار اﷲ تعالیٰ کا ذکر کر رہے تھے اور التجا کر رہے تھے یا باری تعالیٰ میری کوششیں ریت کے ذرے کے برابر ہیں تو انھیں قبول کر کے انھیں نیکی بنا دے‘ مجھے ان کی عاجزی نے اندر سے ہلا کر رکھ دیا‘ ان کی طبیعت بحال ہوئی تو انھوں نے بتایا‘ ہم چار بھائی تھے۔

ہمارے ایک بھائی ملک کے مشہور سائنس دان تھے‘ دوسرے ڈاکٹر تھے‘ تیسرے گورنمنٹ کالج لاہور میں کیمسٹری کے پروفیسر تھے اور میں سول سرونٹ تھا‘ ہم اسلام آباد میں رہتے تھے‘ میرے پروفیسر بھائی 1992میں بس سے لاہور سے اسلام آباد آ رہے تھے‘ اس زمانے میں جی ٹی روڈ سنگل ہوتی تھی۔

سوہاوہ کے قریب دو بہت خطرناک ٹرن ہوتے تھے اور وہاں اکثر حادثے ہوجاتے تھے‘ ہمارے بھائی کی بس جب وہاں پہنچی تو ڈرائیور توازن برقرار نہ رکھ سکا اوروہ کھائی میں گر گئی‘ 16 لوگ موقع پر جاں بحق ہو گئے‘ ان میں ہمارے بھائی بھی شامل تھے‘ میں ان دنوں فنانس ڈویژن میں کام کرتا تھا‘ حادثے کی شام تھکا ہارا دفتر سے گھر آیا تھا۔

ان دنوں آرٹس کونسل میں کوئی ڈرامہ چل رہا تھا اور وہ بہت پاپولر تھا‘ میں نے وہ دیکھنے جانا تھا لیکن تھکاوٹ کی وجہ سے میرا دل نہیں چاہ رہا تھا اور میں کاؤچ پر لیٹا ہوا تھا‘ اس دوران فون کی گھنٹی بجی‘ دوسری طرف جہلم تھانے کا کوئی اہلکار تھا‘ اس نے مجھے حادثے کی اطلاع دی‘ یہ خبر بم کی طرح میرے دماغ پر گری اور میں سکتے میں آگیا۔میں بڑی مشکل سے سنبھلا اور پھر میں نے اپنے دوسرے دونوں بھائیوں کو بتایا اور ہم جہلم کے لیے روانہ ہو گئے۔

ہمیں راستے میں ہمارے ڈرائیور نے بتایا‘سرمیت لانے کے لیے ایمبولینس چاہیے ہو گی‘ اس زمانے میں ایمبولینس صرف بڑے شہروں میں ہوتی تھی‘ ہم واپس اسلام آباد آئے‘ پی آئی ایم ایس سے ایمبولینس لی اور جہلم پہنچ گئے‘ تمام میتیں بی ایچ یو میں پڑی تھیں‘ ہم کمرے میں داخل ہوئے تو ہمارے مرحوم بھائی لاشوں کے درمیان فرش پر پڑے ہوئے تھے اور ان کے گرد برف کی سیلیں رکھی ہوئی تھیں‘ ہم تینوں بھائی صدمے سے بے حال تھے۔

ہمیں اسپتال کی انتظامیہ نے بتایا‘ آپ کو پہلے پولیس اسٹیشن جانا ہو گا‘ ضابطے کی کارروائی کرنا ہو گی اور آپ پھر میت لے جا سکیں گے‘ ہم پولیس اسٹیشن چلے گئے‘ اس زمانے میں بھی پولیس کے بارے میں رائے اچھی نہیں تھی۔

ہم بھی اسی مغالطے کا شکار تھے مگر جب ہم پولیس اسٹیشن پہنچے تو ہمارے ساتھ پولیس کا رویہ بہت اچھا تھا‘ ایس ایچ او نے ہمیں بٹھایا‘ دلاسا دیا‘ پانی پلایا اور فوری طور پر ضابطے کی کارروائی کر دی‘ ان کا رویہ دوسرے لواحقین کے ساتھ بھی بہت اچھا تھا‘ میں متاثر ہوئے بغیر نہ رہ سکا‘‘

میں نے قریشی صاحب کو ٹوک کر کہا’’ پولیس آپ کے اسٹیٹس سے متاثر ہو گئی ہو گی‘‘ قریشی صاحب نے جواب دیا’’ ہرگز نہیں‘ ہم نے کسی جگہ اپنا تعارف نہیں کرایا تھا‘ ہم وہاں صرف لواحقین کی حیثیت سے گئے تھے‘پولیس ہمارے مرحوم بھائی کے بارے میں بھی نہیں جانتی تھی‘ انھوں نے ان کے سامان سے میرا فون نمبر نکالا تھا اور مجھے اطلاع دی تھی‘ اطلاع کے دوران بھی ان کا رویہ ہمدردانہ اور سلجھا ہوا تھا۔

دوسرا وہ لوگ تھانے میں موجود دوسرے لواحقین کے ساتھ بھی ہمدردی اور محبت سے پیش آ رہے تھے‘ بہرحال ہم نے بھائی کی میت لی اور اسلام آباد آ گئے‘ ہم لوگ پولیس کے رویے سے اتنے متاثر ہوئے کہ ہم تینوں بھائیوں نے اپنے بھائی کی پہلی برسی پر رقم جمع کی اور تھانے میں بھجوا دی‘ یہ پولیس اہلکاروں کی ویلفیئر کے لیے ہماری طرف سے معمولی سا کنٹری بیوشن تھا۔

ہم اس کے بعد ہر سال یہ رقم بھجواتے رہے‘ آج اس کو 31 برس ہو چکے ہیں‘‘ میں نے ان سے پوچھا’’ کیا پولیس کی طرف سے کبھی آپ سے رابطہ کیا گیا‘‘ ان کا جواب تھا ’’صرف ایک بار اور وہ بھی چند ماہ قبل ڈی پی او ناصر محمود باجوہ کا فون آیا تھا‘‘ میں نے پوچھا ’’پولیس نے رابطہ کیوں نہیں کیا؟‘‘ ان کا جواب تھا’’ ہم نے انھیں کبھی اپنے بارے میں بتایا ہی نہیں‘‘ میں فیڈرل سیکریٹری بن گیا مگر پولیس کو میرے بارے میں پتا نہ چلا‘ ہم شروع میں تھانے میں رقم جمع کرا دیتے تھے لیکن پھر ہم ایس ایس پی کو بھجوانے لگے‘‘ میں نے پوچھا’’آپ اسے خفیہ کیوں رکھتے تھے؟‘‘ ان کا جواب تھا ہم یہ کام اﷲ کی رضا اور اپنے بھائی کی یاد میں کرتے تھے۔

اس سے ہمارے بھائی کی روح کو تسکین ملتی تھی اور پولیس کی ضرورتیں پوری ہو جاتی تھیں بس ہمیں مزید کچھ نہیں چاہیے تھا‘‘ میں نے پوچھا‘ آپ پولیس کے بجائے کسی خیراتی ادارے کو بھی فنڈ بھجوا سکتے تھے‘ یہ بولے‘ ہم یہ بھی کرتے رہتے ہیں مگر آپ یقین کریں 31 سال قبل پولیس کے رویے نے ہمارا پولیس کے بارے میں تاثر بدل دیا تھا لہٰذا ہم اس معمولی سی نیکی میں انھیں بھی شریک رکھنا چاہتے تھے۔

میں آگے بڑھنے سے قبل آپ کو بتاتا چلوں مظفر قریشی اپنا راز مجھے نہیں بتانا چاہتے تھے‘ یہ بار بار ڈی پی او کے بارے میں کہہ رہے تھے انھیں میرا راز نہیں کھولنا چاہیے تھا‘ یہ مجھے بھی راز کو راز رکھنے کا کہہ رہے تھے مگر میں نے ان سے عرض کیا‘ ہمارے معاشرے میں ہر طرف بری خبریں پھیلی ہوئی ہیں‘ ہم اخبار کھولتے ہیں یا ٹیلی ویژن اور موبائل اسکرین دیکھتے ہیں تو ہمارا انسانیت‘ اداروں اور ملک سے یقین ختم ہو جاتا ہے۔

ہمارے معاشرے کو آپ جیسی مثالیں چاہییں‘ یہ اس ملک کو چلائیں گی‘ میں آپ کو یہ بھی بتاتا چلوں میں نے قریشی صاحب کو بڑی مشکل سے راضی کیا اور یہ اس کے بعد اپنی کہانی سنانے پر قائل ہوئے تھے‘ قریشی صاحب کے فون کے بعد میں دیر تک اندھیرے میں بیٹھا رہا اوراپنے آپ سے یہ پوچھتا رہا‘ کیا یہ مظفر قریشی صاحب کی کہانی ہے؟ میں آخر میں اس نتیجے پر پہنچا یہ ہرگز ہرگز مظفر قریشی کی کہانی نہیں‘ یہ دراصل ایک تھانے اور ایک ایس ایچ او کی کہانی ہے‘ 1992 میں کسی نیک دل ایس ایچ او نے اپنے تھانے کا کلچر بدل دیا ہو گا۔

اس نے اپنے عملے کو انسانوں کو انسان سمجھنے کا سلیقہ سکھا دیا ہو گا لہٰذا اہلکاروں نے لواحقین کے ساتھ وہ سلوک کیا جو دنیا کا ہر لواحق پولیس سے چاہتا ہے اور اس کا نتیجہ جاریہ نیکی کی صورت میں نکلا‘ ملک کی ایک بیوروکریٹک فیملی کی پولیس کے بارے میں رائے بدل گئی اور وہ 31 برس سے پولیس کے شہداء اور غازیوں کے خاندانوں کی خدمت کر رہی ہے۔

اس معمولی رقم سے خدا جانے اب تک کتنے لوگوں کا مقدر بدل گیا ہو‘ اﷲ تعالیٰ نیکی اور رزق حلال کو بیج بنا دیتا ہے اور یہ بیج جس بھی زمین میں جڑ پکڑ لیتا ہے وہاں سے نیکی اور خیر کے کروڑوں درخت نکلتے ہیں‘ مظفر قریشی کی رقم معمولی ہو گی مگر اس کا نتیجہ چھوٹا نہیں رہا ہو گا‘ یہ رقم جس جس گھر گئی ہو گی اس کا مقدر اور راستہ بدل گیا ہو گا وہاں نہ جانے اب تک خیر کے کتنے چشمے پھوٹ چکے ہوں گے۔

دوسرا اس کہانی میں آج کی پولیس کے لیے بھی ایک سبق ہے‘ پولیس جب کسی دکھی فیملی کے ساتھ اچھے رویے سے پیش آتی ہے‘ یہ اس کو دلاسا دیتی ہے‘ اسے بٹھا کر پانی پلا دیتی ہے اور ضابطے کی کارروائی کے لیے اسے ذلیل نہیں کرتی‘ اسے بار بار چکر نہیں لگواتی‘ اس سے پیسے اینٹھنے کے لیے غیر ضروری اورنا مناسب سوال نہیں کرتی تو اس کا نتیجہ مظفر قریشی کی شکل میں نکلتا ہے۔

بااثر خاندانوں کے ذہن میں پولیس کا امیج تبدیل ہو جاتا ہے اور 31 سال بعد ہی سہی مگر میرے جیسے لوگ اس پر لکھنے پر مجبور ہو جاتے ہیں چناں چہ آئی جی پنجاب کو چاہیے یہ مظفر قریشی صاحب کو بلائیں اور ان کی کہانی ان کی زبانی پولیس فورس کو سنائیں اور پھر پولیس کوبتائیں مجرم ہو یا بے گناہ ہم سب انسان ہیں اور دنیا کے ہر انسان کو دوسرے انسان سے ہمدردی‘ محبت اور عزت چاہیے ہوتی ہے چناں چہ تھانے آنے والے ہر شخص کو عزت‘ محبت اور ہمدردی دیں اور پھر اس کا نتیجہ دیکھیں‘ ملک اور آپ دونوں بدل جائیں گے۔

بشکریہ ایکسپریس نیوز اردو

پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ کیس پر سماعت ملتوی، پیر کو فیصلہ سنا دینگے، چیف جسٹس



سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ کیس کی سماعت پیر تک ملتوی کر دی گئی ہے۔ اس موقع پر چیف جسٹس فائز عیسیٰ نے کہا کہ 9 اکتوبر کو کیس کا فیصلہ سنا دیں گے۔

چیف جسٹس پاکستان جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی سربراہی میں فل کورٹ بینچ نے کیس کی سماعت کی۔ پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ کیس کی کارروائی پی ٹی وی پر براہِ راست نشر کی گئی۔

چیف جسٹس پاکستان جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے 15 رکنی فل کورٹ بینچ میں جسٹس اعجاز الاحسن، جسٹس منصور علی شاہ، جسٹس سردار طارق مسعود، جسٹس منیب اختر، جسٹس یحییٰ آفریدی، جسٹس امین الدین خان، جسٹس سید مظاہر علی اکبر نقوی، جسٹس جمال خان مندوخیل، جسٹس محمد علی مظہر، جسٹس عائشہ اے ملک، جسٹس اطہر من اللہ، جسٹس سید حسن اظہر رضوی، جسٹس شاہد وحید اور جسٹس مسرت ہلالی شامل تھے

سماعت کے آغاز پر چیف جسٹس پاکستان جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے ریمارکس دیے کہ ہماری کوشش ہو گی آج اس کیس کو ختم کریں۔ ایک کیس کو ہی لے کر نہیں بیٹھ سکتے۔ سپریم کورٹ میں پہلے ہی بہت سے کیسز زیرالتوا ہیں۔

چیف جسٹس نے کہاکہ اس قانون کا اثر چیف جسٹس سپریم کورٹ اور 2 سینیئر ججز پر پڑے گا، اختیارات کو کم نہیں کیا جا رہا، بلکہ بانٹا جا رہا ہے۔

چیف جسٹس فائز عیسیٰ نے ریمارکس دیے کہ کچھ لوگ اس قانون کو بنیاد بنا کر کہتے ہیں کہ سپریم کورٹ اور پارلیمان آمنے سامنے آ گئے ہیں، پریکٹس اینڈ پروسیجر بل قانون بن چکا ہے، جبکہ حسبہ بل کبھی قانون بنا ہی نہیں تھا۔ اس بحث میں نہیں جانا چاہیے کہ پارلیمنٹ قانون سازی کر سکتی تھی یا نہیں۔

درخواست گزار نیازاللہ نیازی کے وکیل اکرام اللہ چوہدری کے دلائل

مقدمے کے درخواست گزار نیازاللہ نیازی کے وکیل اکرام اللہ چوہدری نے دلائل دیتے ہوئے کہا ہے کہ اس ایکٹ سے عدلیہ کی آزادی پر حملہ ہوا ہے، پارلیمنٹ نے پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ منظور کر کے عدلیہ کے اختیارات میں مداخلت کی جو ہمارے آئین میں اختیارات کی تقسیم کے تصور کے خلاف ہے۔

اس پر چیف جسٹس پاکستان نے ریمارکس دیے کہ آپ کے دلائل کی بنیاد اخباری خبریں ہیں۔ قاضی فائز عیسیٰ نے اکرام اللہ چوہدری سے مکالمہ کرتے ہوئے کہاکہ آپ کہتے ہیں عدالت کی آزادی پر حملہ کیا گیا تو یہ بتائیں کہ عدالتی آزادی نایاب ہوتی ہے یا یہ لوگوں کے لئے ہوتی ہے، آپ عدالتی آزادی سے آگے نہیں جا رہے۔

چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ فرد واحد کا اختیار کم نہ کرنے کی بات کی جا رہی ہے، فرد واحد کی وجہ سے ہی تو ملک کی تباہی ہوئی، مارشل لا میں یاک شخص ملک چلاتا ہے، ہم 3 لوگ فیصلہ کریں یا 5 کسی کو کیا مسئلہ ہے۔ ہمیں پارلیمان کو احترام دینا ہوگا۔

سپریم کورٹ کے سینیئر جج جسٹس اعجازالاحسن نے ریمارکس دیے کہ قانون سازی کرنے سے پہلے پارلیمنٹ کو مکمل طریقہ کار اپنانا  چاہیے تھا مگر ایسا نہیں کیا گیا۔

اس موقع پر جسٹس اطہر من اللہ نے سوال اٹھایا کہ کیا پارلیمنٹ کو یہ اختیار نہیں کہ وہ عوام کی بہتری کے لیے کوئی بھی قانون سازی کر سکے۔

واضح رہے کہ فریقین کی جانب سے عدالت عظمیٰ میں تحریری جوابات جمع کرا دیے گئے ہیں، اٹارنی جنرل، مسلم لیگ ن، مسلم لیگ ق کی جانب سے جمع جوابات میں ایکٹ کو برقرار رکھنے کا کہا گیا ہے جبکہ درخواست گزاروں اور پی ٹی آئی نے استدعا کی ہے کہ ایکٹ کو کالعدم قرار دیا جائے۔

ایک اور سیاسی جماعت



تحریر:۔ عرفان صدیقی

کیا پاکستان کو درپیش گوناگوں مسائل کا حل ایک نئی سیاسی جماعت کا قیام ہے؟

یہ سوال میڈیا کی زینت بنا ہوا ہے۔ تین جانے پہچانے سیاستدان، شاہد خاقان عباسی، مفتاح اسماعیل اور مصطفی نوازکھوکھر اِس مفروضہ نئی سیاسی جماعت کے مبلّغین یا محرّکین سمجھے جاتے ہیں۔ تینوں سے میری بہت گہری دوستانہ قربت نہ سہی لیکن بہت اچھی دعا سلام ہے۔ میں تینوں کے بارے میں نہایت مثبت رائے رکھتا ہوں۔ تینوں اعلیٰ تعلیم یافتہ ہیں۔ تینوں قومی مسائل کا درد بھی رکھتے ہیں اور مسیحائی کا جذبہ بھی۔ ان کی نیک نیّتی پر بھی کوئی سوال نہیں اٹھایا جاسکتا۔ لیکن کیا وہ پاکستان کے مرضِ کہن کی ٹھیک تشخیص کررہے ہیں؟ کیا اُن کا اخذ کردہ نتیجہ درست ہے کہ پہلے سے موجود تمام سیاسی جماعتیں کُلّی طور پر ناکام رہی ہیں؟ کیا پاکستان کے موجودہ زوال وانحطاط کی ذمہ داری صرف سیاستدانوں اور سیاسی جماعتوں پر عائد ہوتی ہے؟ اور کیا پون صدی پر محیط تمام المیے، سقوط ڈھاکہ کا سانحہ، مختلف شعبوں کی شکست وریخت، اداروں کی ٹوٹ پھوٹ، آسیب کی طرح خیمے گاڑے بے یقینی، جڑیں تک ہلا ڈالنے والا عدمِ استحکام اور اِن عوارض کے بطن سے پھوٹنے والی معاشی غارت گری کی ذمہ داری سیاسی جماعتوں اور سیاستدانوں کے کندھوں پر ہے؟ سب سے اہم سوال یہ کہ اس صورتِ حال میں انقلابی تبدیلی لانے اور پاکستان کو کمزوری ولاغری سے نکال کر توانا جوانِ رعنا بنانے کا واحد نسخہ کیا ایک نئی پارٹی کا قیام ہی ہے؟ وہ بھی ایسی جس کے ڈاکٹر، طبیب، وید، سنیاسی اور مسیحا برسوں کسی نہ کسی سیاسی شفاخانے میں عرق کشید کرتے ، معجونیں اور کشتے بناتے اور پُڑیاں لپیٹتے رہے ہوں؟

سقوطِ ڈھاکہ کے بعد سے اب تک وفاق میں تین سیاسی جماعتوں کی حکومتیں رہی ہیں۔ پیپلزپارٹی نے مجموعی طورپر پندرہ برس، مسلم لیگ (ن) نے سوا دس سال اور تحریک انصاف نے پونے چار برس حکومت کی۔ اِس دوران ذوالفقار علی بھٹو، محترمہ بے نظیر بھٹو (دو بار)، محمد نوازشریف (تین بار)، جزوی طورپر شاہد خاقان عباسی ، یوسف رضاگیلانی، راجہ پرویز اشرف اور عمران خان (ایک ایک بار) وزارت عظمٰی کے منصب پر فائز رہے۔ ایک چوتھی ہمہ مقتدر جماعت نے کم وبیش اکیس برس کمال جاہ وجلال کے ساتھ حکمرانی کی۔(نگرانوں کو چھوڑ کر) 29 برس9 منتخب وزرائے اعظم کے حِصّے میں آئے۔ یہ بھی یاد رکھنے کی بات ہے کہ آمروں کے عہد میں میائوں کی آواز نکالنے سے عاجز بھیگی بلّیاں بن جانے والے ادارے، جمہوری حکمرانوں کا دور آتے ہی شیروں کا رُوپ دھار کر شاہراہِ دستور کے چار سُو دھاڑنے لگے۔ سپریم کورٹ کی پیشانی پر جھومر کی طرح آراستہ ترازو کے پلڑے کبھی متوازن نہ ہوپائے۔ مارگلہ سے آتی موسم شناس بلکہ موسم گَر ہوائوں کے ساتھ ساتھ مسلسل ہلکورے کھاتے رہے۔ آمروں کو خلعتِ جواز بخشنے اور اُنہیں وردی سمیت سیاسی اکھاڑوں میں کشتی لڑنے کی اجازت دینے والی عدالتوں نے سیاستدانوں کے بارے میں ایسے ایسے فیصلے صادر کئے کہ تصّور سے بھی جھُرجھری آجاتی ہے۔ وہ قاتل قرار پاکر مصلُوب ہوئے، ہائی جیکر قرار پاکر طویل قیدوبند کی سزائیں پائیں، بدعنوان قرار پاکر زندانوں کا رزق ہوئے، خائن قرار پاکر تاحیات سیاست بدر کردئیے گئے، برسوں عدالتوں، کچہریوں میں رُلتے رہے، الزام ودُشنام کے تیروں سے چھلنی کئے جاتے رہے اور قتل ہوتے رہے۔ کیا تاریخ کا یہ منظر نامہ نئی پارٹی کے کہنہ مشق محرّکین کی آنکھوں سے محو ہوچکا ہے؟ کیا وہ اپنے دل پر ہاتھ رکھ کر اطمینانِ قلب سے کہہ سکتے ہیں کہ سیاستدان اور سیاسی جماعتیں واقعی ناکام رہیں؟ کیا وہ بقائمی ہوش وحواس یہ دعویٰ کرسکتے ہیں کہ سیاستدانوں کو ہمیشہ اپنے منشور پر عمل درآمد، اپنے اہداف کی تکمیل، اپنے فلسفۂِ حکمرانی کی عملی تشکیل اور کسی خارجی رخنہ اندازی سے بے نیاز ہوکر پوری توجہ اور انہماک سے کام کرنے کے مواقع ملے اور وہ ناکام رہے؟ یہ نہیں کہا جاسکتا کہ سیاسی حکومتیں ہر طرح کی کجی، عیب، نقص یا نااہلی سے کُلّی طور پر پاک تھیں۔ بس وہ ایسے ہی تھیں جیسے بیسیوں دوسرے ممالک میں ہیں۔ ہماری سیاست پر دو جماعتوں کا غلبہ رہا۔ اگر اُن کی لغزشوں اور کمزوریوں کی فہرست بنائی جاسکتی ہے تو جمہوریت اور پاکستان کیلئے اُن کی جدوجہد، اُن کی قربانیوں اور عوامی فلاح وبہبود، پاکستان کی ترقی وخوشحالی کیلئے اُن کی مقدور بھر کارکردگی کی بیاض بھی مرتّب کی جاسکتی ہے۔ اگر یہ سیاستدان اقتدار کے ایوانوں کی زینت رہے تو دارورسن اور زندانوں کی رونق بھی اُنہی کے دم قدم سے رہی۔ اچھی یا بُری کارکردگی کی فہرست بناتے وقت ایک وسیع وعریض کالم اِس تفصیل کیلئے بھی رکھ لینا چاہئے کہ اُن کے عہدِحکومت میں حکمرانی کی باگیں کس کے ہاتھ میں تھیں؟

قصور نہ دو روایتی جماعتوں کا ہے نہ دوجماعتی نظام کا۔ سیاست کے مفکرین، دوجماعتی نظام کو کسی بھی معاشرے کی بلوغت اور جمہوریت کی پختگی کی علامت قرار دیتے ہیں۔ امریکہ میں گزشتہ پونے دو سو برس سے دو جماعتیں ہی حکمراں چلی آرہی ہیں۔ ستّر فی صد عوام دوبڑی جماعتوں، ری پبلکن اور ڈیموکریٹس کے ساتھ رجسٹرڈ ہیں۔ کسی کے ساتھ وابستہ نہ ہونے والوں کی تعداد ساڑھے ستائیس فی صد ہے۔ صرف ڈھائی فی صد کے لگ بھگ تیسرے آپشن کے دلدادہ ہیں۔ برطانیہ میں کنزرویٹو اور لیبر پارٹیاں ایک سو سال سے باری باری حکومت کررہی ہیں۔ گزشتہ بتیس انتخابات میں انیس بار کنزرویٹو اور تیرہ مرتبہ لیبرز نے حکومت بنائی۔ کوئی نہیں کہتا کہ یہ باریاں لے رہے ہیں۔ کہتا بھی ہے تو اس کا چراغ نہیں جلتا۔ برسوں سے تیسری سیاسی قوت پیرہن بدل بدل کر جتن کررہی ہے لیکن بات بننے میں نہیں آرہی۔

بھارت میں بھی عملاً دو جماعتی نظام ہی کارفرما ہے۔ بھارت کے الیکشن کمیشن نے سیاسی جماعتوں کی درجہ بندی کا ایک اچھا نظام وضع کررکھا ہے۔ یہ درجہ بندی جماعتوں کی انتخابی کارکردگی کی بنیاد پر کی جاتی ہے۔ ایک خاص حد تک نشستیں یا ووٹ نہ لے سکنے والی جماعت درجہ بندی میں نیچے لڑھک جاتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ وہاں ڈھائی ہزار سے زائد رجسٹرڈ سیاسی جماعتوں میں سے صرف چھ کو قومی جماعتیں ہونے کا سرکاری اعزاز حاصل ہے۔ صرف چوّن جماعتیں، ریاستی جماعتوں کا تشخص رکھتی ہیں۔ باقی کو محض شامل باجہ قرار دیاجاسکتا ہے۔ ہمارے ہاں دو سو کے لگ بھگ جماعتیں رجسٹرڈ ہیں۔ سب کی حیثیت ، سب کا درجہ ایک سا ہے۔ ان میں آئے دن اضافہ ہورہا ہے کیونکہ آئین اس کی اجازت دیتا ہے۔ 2018کے انتخابات میں پچاسی جماعتیں میدان میں اتریں۔ تین جماعتوں، پی۔ٹی۔آئی(31.82 فی صد)، مسلم لیگ ’ن‘ (24.35 فی صد) اور پیپلزپارٹی (13.03 فی صد) نے مجموعی طورپر ستّر فی صد کے لگ بھگ (69.20 فی صد) ووٹ لئے۔ باقی کے 30 فی صد ووٹ 82 جماعتوں میں تقسیم ہوگئے۔ تینتیس جماعتیں ایسی تھیں جس میں سے ہر ایک کے ووٹ تین ہزار سے کم رہے۔ پندرہ جماعتیں دَس ہزار تک بھی نہ پہنچیں۔ بیس ایسی تھیں جن میں سے ہر ایک کو ایک لاکھ سے بھی کم ووٹ ملے۔ متحدہ مجلس عمل، جس میں جمعیت علما اسلام (ف) اور جماعت اسلامی بھی شامل تھیں، صرف 4.85 فی صد (پچیس لاکھ سے کچھ زائد) ووٹ حاصل کرپائیں۔ اگر قومی جماعت کے لئے بھارتی الیکشن کمیشن والا فارمولا یہاں بھی ہوتا تو بڑے بڑے نام، بے نام ہوجاتے اور بیسیوں نام نہاد جماعتیں معدوم ہوچکی ہوتیں۔

علّامہ اقبال نے مردِمومن کے زوال کے بارے میں کہا تھا ۔ ’’سبب کچھ اور ہے تُو جس کو خود سمجھتا ہے۔‘‘ علّامہ کے الفاظ مستعار لیتے ہوئے ایک نئی جماعت کے محرّکین سے کہا جاسکتا ہے کہ ملک وقوم کو درپیش موجودہ مسائل کا سبب وہ نہیں، جسے وہ جواز بنارہے ہیں۔ نہ ہی اُن کی دانا وبینا قیادت کے پرچم تلے کوئی نئی جماعت ہمارے دامانِ پارہ پارہ کی بخیہ گری کرسکتی ہے۔ سبب کیا ہے ؟ وہ خود اچھی طرح جانتے ہیں۔

بشکریہ جنگ نیوز اردو

مہنگائی کی شرح میں 2 فیصد اضافہ ریکارڈ، اعدادوشمار جاری



پاکستان میں ایک بار پھر مہنگائی کی شرح 31.44 فیصد پر پہنچ گئی ہے، ستمبر کے دوران ملک میں مہنگائی کی شرح میں 2 فیصد اضافہ ریکارڈ کیا گیا ہے۔

ادارہ شماریات کی جانب سے جاری کیے گئے اعدادوشمار کے مطابق ماہ ستمبر کے دوران شہری علاقوں میں مہنگائی کی شرح میں 1.67 فیصد اضافہ ہوا ہے۔

رپورٹ کے مطابق ستمبر میں دال لوبیا7.1 فیصد، دال ماش 9.46، چینی 10.8، سبزیاں 11.7، دال مسور 19.8 اور پیاز 39.3 فیصد مہنگا ہوا۔

اس کے علاوہ پیٹرولیم مصنوعات 11.3 جبکہ ایل پی جی کی قیمت میں 9.2 فیصد اضافہ ہوا جس کی وجہ سے ٹرانسپورٹ کے کرائے 4.2 فیصد بڑھ گئے۔

ادارہ شماریات نے بتایا ہے کہ ستمبر 2022 سے ستمبر 2023 تک بجلی کی قیمت میں 163.7 فیصد اضافہ ریکارڈ کیا گیا ہے، جبکہ چینی 93.4، آٹا 87.5 اور چائے کی قیمت میں 83.6 فیصد اضافہ ہوا۔

ادارہ شماریات نے بتایا ہے کہ ایک سال کے دوران ملک میں ٹرانسپورٹ کے کرائے 55.6 فیصد بڑھے، اس کے علاوہ اسٹیشنری 42.7 جبکہ گھریلو سامان کی قیمت میں 38.2 فیصد اضافہ ریکارڈ کیا گیا۔

انسداد دہشتگردی کے لیے پاکستان سے تعاون جاری رکھا جائے گا: امریکا



امریکا نے کہا ہے کہ واشنگٹن انسداد دہشت گردی کے لیے پاکستان کے ساتھ کثیرالجہتی فورمز پر تعاون جاری رکھے گا۔

امریکی محکمہ خارجہ کے ترجمان میتھیو ملر نے پریس بریفنگ دیتے ہوئے کہاکہ انسداد دہشت گردی کے لیے پاکستان سے تعاون کیا جا رہا ہے۔

انہوں نے کہاکہ پُرتشدد انتہا پسندی کے مقابلے کی خاطر پاکستان کی کوششوں میں بہتری کے لیے تعاون جاری رکھا جائے گا۔

میتھیو ملر نے پاکستان میں ہونے والے خود کش حملے کی مذمت کی۔ اس کے علاوہ کینیڈا میں سکھ رہنما کے قتل پر ان کا کہنا تھا کہ کینیڈا کی حکومت کے ساتھ اس معاملے پر قریبی رابطے میں ہیں۔

انہوں نے کہاکہ ہردیپ سنگھ کے قتل کے معاملے پر بھارتی حکومت پر زور دیا ہے کہ وہ تحقیقات میں کینیڈا کے ساتھ تعاون کرے۔

اسلام آباد ہائیکورٹ: بشریٰ بی بی کی شوہر کو سیکیورٹی سے متعلق درخواست سماعت کے لیے مقرر



اسلام آباد ہائی کورٹ نے سابق وزیراعظم عمران خان کی اہلیہ بشریٰ بی بی کی جانب سے شوہر کو سیکیورٹی سے متعلق دائر درخواست پر اعتراضات دور کر دیئے ہیں اور 5 اکتوبر کو سماعت کے لیے مقرر کر دیا گیا ہے۔

چیف جسٹس اسلام آباد ہائیکورٹ جسٹس عامر فاروق نے بشریٰ بی بی کی درخواست پر سماعت کی، اس موقع پر سابق خاتون اول کے وکیل لطیف کھوسہ عدالت میں پیش ہوئے۔

چیف جسٹس اسلام آباد ہائی کورٹ جسٹس عامر فاروق نے استفسار کیا کہ آپ کی جانب سے درخواست میں کیا استدعا کی گئی ہے۔

لطیف کھوسہ کی جانب سے دلائل دیے گئے کہ عمران کی زندگی کو خطرات لاحق ہیں، اس سے قبل وزیر آباد میں ان پر قاتلانہ حملہ ہو چکا ہے، ہمارا درخواست دائر کرنے کا مقصد جیل میں سیکیورٹی اور حقوق کا تحفط ہے۔

لطیف کھوسہ کی جانب سے دیئے گئے دلائل پر عدالت نے رجسٹرارآفس کے اعتراضات دور کر دیئے اور حکم دیا کہ درخواست کو 5 اکتوبر کو سماعت کے لیے مقرر کیا جائے۔

ریل میں سفر کے دوران سیٹ کا جھگڑا ایک شخص کی جان لے گیا



اسلام آباد(آئی این پی) پاکستان ایکسپریس میں مسافر نے سیٹ کے جھگڑے پر دوسرے مسافر کو قتل کردیا جس کی لاش کو فیصل آباد ریلوے سٹیشن پر پاکستان ایکسپریس سے اتارا گیا جبکہ مبینہ قاتل فرار ہونے میں کامیاب ہوگیا۔

قاتل کی فیملی کو پولیس نے تحویل میں لینے کے بعد چھوڑدیا، اور مرکزی ملزم کی گرفتاری کے لیے ریلوے پولیس چھاپے ماررہی ہے ۔

خبر رساں ادارے کے مطابق یکم اکتوبربروز اتوار راولپنڈی سے کراچی جانے والی پاکستان ایکسپریس میں یہ واقعہ ہوا۔ جس کو ریلوے نے بھرپور چھپانے کی کوشش کی۔ ٹرین 46DN پاکستان ایکسپریس کا ایک مسافر نام ثنا اللہ ولد شیر محمد عمر قریب 50/55 سال جوکہ اپنی فیملی کے ہمراہ ریلوے اسٹیشن علی پور سے فیصل آباد تک سفرکررہا تھا۔

ٹرین جب ریلوے اسٹیشن سانگلہ ہل پہنچی تو ایک مسافر نام ندیم ولد محمد بوٹا فیملی کے ہمراہ سانگلہ ہل سے حیدر آباد کے لیے ٹرین کی بوگی نمبر 16 اکانومی کلاس میں سوار ہوا۔

دونوں مسافروں کی رواں ٹرین میں سیٹ کی بکنگ کیوجہ سے تو تکار ہوئی اس دوران ایک نے دوسرے کو قتل کر دیا۔

عمران خان کے خلاف کل سائفر کیس کی سماعت کہاں ہو گی؟ وزارت قانون سے رائے طلب



آفیشل سیکرٹ ایکٹ کے تحت قائم اسلام آباد کی خصوصی عدالت نے سائفر کیس کی کل 4 اکتوبر کو ہونے والے سماعت کے حوالے سے وزارت قانون سے رائے طلب کر لی ہے۔

خصوصی عدالت کے جج ابوالحسنات محمد ذوالقرنین نے استفسار کیا ہے کہ کل عمران خان کے خلاف سماعت اڈیالہ جیل میں ہو گی ی جوڈیشل کمپلیکس میں؟ اس حوالے سے رائے دی جائے۔

وزارت قانون کو لکھے گئے خط میں کہا گیا ہے کہ عمران خان اہم سیاسی جاعت کے سربراہ ہیں، ان کو پیشی پر لانے کے لیے سیکیورٹی کو مدنظر رکھنا ہو گا، بتایا جائے کیا کوئی سیکیورٹی خدشات لاحق ہیں۔

ابوالحسنات نے لکھا ہے کہ اگر عمران خان کو پیش کرنے میں کوئی سیکیورٹی خدشات نہیں ہیں تو پھر سماعت جوڈیشل کمپلیکس میں ہو گی۔

سندھ: ’نپاہ‘ وائرس کے ممکنہ پھیلاؤ کے پیش نظر ایڈوائزری جاری



محکمہ صحت سندھ نے بھارت میں پھیلنے والے خطرناک وائرس ’نپاہ‘ کے پاکستان میں ممکنہ پھیلاؤ کے خطرے کے پیش نظر سرکاری ہسپتالوں کے سربراہان کو ایڈوائزری جاری کر دی ہے۔

ہسپتالوں کو جاری کیے گئے مراسلے میں کہا گیا ہے کہ وائرس پھیلنے کے خطرے کے پیش نظر عملے کو الرٹ رکھا جائے۔

ڈی جی ہیلتھ سندھ کی جانب سے ہسپتالوں کو مراسلہ لکھنے کے علاوہ محکمہ صحت نے ہسپتالوں کے ایم ایس، ڈائریکٹرز اور محکمہ لائیو سٹاک کو بھی الرٹ رہنے کا کہا ہے۔

محکمہ صحت کے مطابق یہ نپاہ وائرس پہلے جانوروں سے انسانوں میں پھیلتا ہے اور پھر تیزی سے منتقل ہوتا ہے۔

یہ بھی بتایا گیا ہے کہ وائرس کا شکار افراد کو بخار، سر میں درد، جسم میں درد جیسی علامات سامنے آتی ہیں۔

ٹی وی شو میں جھگڑا: شیر افضل مروت کی 4 اکتوبر تک ضمانت منظور



اسلام آباد کی عدالت نے ٹی وی شو میں جھگڑا کرنے پر پی ٹی آئی کے وکیل شیر افضل مروت کی 4 اکتوبر تک عبوری ضمانت منظور کر لی ہے۔

تحریک انصاف کے وکیل شیر افضل مروت نے اسلام آباد کی عدالت میں عبوری ضمانت کی درخواست دائر کی تھی۔

شیر افضل مروت کے خلاف ن لیگ کے سینیٹر افنان اللہ کی درخواست پر تھانہہ آبپارہ میں مقدمہ درج ہے۔

ایڈیشنل سیشن عدالت کے جج طاہر عباس سپرا نے شیر افضل کی درخواست ضمانت منظور کی ہے اور 5 ہزار روپے کے مچلکے جمع کرانے کی ہدایت کی ہے۔

واضح رہے کہ اینکرپرسن جاوید چوہدری کے پروگرام میں سینیٹر افنان اللہ اور شیر افضل مروت کے درمیان لڑائی ہوئی تھی۔

فیض آباد دھرنا نظر ثانی کیس،فریقین کو حقائق پیش کرنے کا ایک اور موقع، تحریری حکمنامہ جاری



سپریم کورٹ آف پاکستان نے فیض آباد دھرنا نظر ثانی کیس کی 28 ستمبر کو ہونے والی سماعت کا تحریری حکمنامہ جاری کر دیا ہے۔ چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کا تحریر کیا گیا فیصلہ 4 صفحات پر مشتمل ہے۔

عدالت عظمیٰ کے حکمنامے میں کہا گیا ہے کہ فریقین کو ایک اور موقع دے رہے ہیں کہ حقائق پیش کریں۔ اس کے لیے بیان حلفی کے ذریعے حقائق جمع کرائے جا سکتے ہیں۔

عدالتی حکمنامے میں لکھا گیا ہے کہ فریقین 27 اکتوبر تک اپنے جوابات جمع کرائیں، کیس کی مزید سماعت یکم نومبر کو ہو گی۔

حکمنامے کے مطابق اٹارنی جنرل نے موقف اختیار کیا کہ وزارت دفاع نظر ثانی کی درخواست پر کارروائی نہیں چاہتی، اس کے علاوہ آئی بی، پیمرا اور پی ٹی آئی نے بھی نظرثانی درخواستیں واپس لینے کی استدعا کی ہے۔

حکمنامے میں لکھا گیا ہے کہ درخواست گزار شیخ رشید کی جانب سے نیا وکیل کرنے کے لیے مزید مہلت مانگی گئی ہے۔ جبکہ درخواست گزار اعجازالحق نے سوالات اٹھائے ہیں۔

عدالت عظمیٰ نے کہا ہے کہ کچھ درخواست گزار حاضر نہیں ہو سکے جس کی وجہ سے ایک اور موقع دیا جاتا ہے۔

واضح رہے کہ مسلم لیگ ن کی سابق حکومت کے دور میں ایک مذہبی تنظیم کی جانب سے فیض آباد کے مقام پر دھرنا دیا گیا تھا، اُس وقت جسٹس قاضی عیسیٰ کی سربراہی میں بینچ نے ایک فیصلہ سنایا تھا جس پر بعد میں نظر ثانی کی اپیلیں دائر کی گئیں۔

الحمرا میں اسٹیج ڈرامے شروع کرنے کی اجازت دی جائے، سخاوت ناز کا مطالبہ



لاہور (این این آئی) نامور کامیڈین اداکار سخاوت ناز نے الحمرا میں اسٹیج ڈرامے شروع کرنے کی اجازت دینے کا مطالبہ کرتے ہوئے کہا ہے کہ چند لوگوں کی وجہ سے سینکڑوں لوگوں کے روزگار کو متاثر نہ کیا جائے۔

انہوں نے کہا کہ اسٹیج ڈرامے میں صرف فنکار کام نہیں کرتے بلکہ اسے پیش کرنے کے لئے درجنوں لوگوں کا کردار ہوتا ہے جن سے ان کے خاندانوں کا روزگار جڑا ہوتا ہے۔

انہوں نے کہا کہ حکومت ایس او پیز بنا کر الحمرا میں اسٹیج ڈرامے کا آغاز کرنے کی اجازت دے تاکہ لوگوں کا روزگار بحال ہو سکے۔