All posts by ghulam mustafa

راشمیکا مندانہ کی فلم ’دی گرل فرینڈ‘ کی جھلک سامنے آ گئی



بھارتی فلم انڈسٹری بالی وڈ کی معروف اداکارہ راشمیکا مندانا اپنی نئی فلم ’دی گرل فرینڈ‘ کی جھلک سامنے لے آئی ہیں۔

بالی وڈ اداکارہ کے 7 سالہ مختصر کیریئر کی یہ 24ویں فلم ہے جس میں وہ اپنی اداکاری کے جوہر دکھاتی نظر آئیں گی۔

سماجی رابطے کی ویب سائٹ انسٹا گرام پر اداکارہ نے فلم کا ٹیزر جاری کیا اور کیپشن میں لکھا کہ دنیا محبت کی عظیم کہانیوں نے بھری پڑی ہے۔

راشمیکا مندانا نے مزید لکھا دی گرل فرینڈ فلم میں آپ کو محبت کی وہ کہانی دیکھنے کو ملے گی جس کو پہلے سنا اور دیکھا بھی نہ گیا ہو گا۔

پاکستان اور ترکیہ کی مشترکہ تاریخی ویب سیریز ’صلاح الدین ایوبی‘ کا ٹیزر جاری



پاکستان اور ترکیہ کے فنکاروں کی جانب سے مل کر بنائی جانے والی ویب سیریز القدس صلاح الدین ایوبی کا ٹیزر جاری کر دیا گیا ہے۔

اسلامی تاریخ کے مشہور حکمران اور فوجی کمانڈر سلطان صلاح الدین کی زندگی پر مبنی نئی ویب سیریز کا سب کو انتظار ہے۔

سلطان صلاح الدین نے بیت المقدس کو فتح کیا تھا اور یہ ویب سیریز ایسے وقت میں آ رہی ہے جب اسرائیل اور فلسطین تنازع سلگ رہا ہے۔

ترکیہ کے معروف اداکار اوورگونیش نے فلم میں سلطان صلاح الدین ایوبی کا مرکزی کردار ادا کیا ہے۔ اس کے علاوہ عدنان صدیقی، ہمایوں سعید، کاشف انصاری، جنید علی شاہ اور دیگر بھی ایکشن میں نظر آئیں گے۔

پاکستانی اداکار عدنان صدیقی نے سوشل میڈیا سائٹ انسٹاگرام پر ٹیزر شیئر کرتے ہوئے ناظرین کو خبر دی۔

پاکستان اور ترکیہ کے فنکاروں کے اشتراک سے بنائی گئی ویب سیریز آئندہ ماہ 13 نومبر کو ریلیز کی جائے گی جسے دیکھنے کا لوگوں کو شدت سے انتظار ہے۔

فلسطینی طالبعلموں پر حملہ، ظفربٹ اور پولیس کا رویہ



تحریر:۔ شکیل انجم

جہاں ملک کا ہر شعبہ تنزلی اورقحط سالی کا شکار ہے، نوجوان نسل جن سےقوم نے توقعات وابستہ کر رکھی تھیں کہ تاریخ کے نازک ترین دور میں سہارا بنے گی، گمراہی اور بے حسی کے راستے پر ہے۔ساری قوم کا سر جھکانے اور دنیا بھر میں خصوصاً عالم اسلام میں شرمندگی کا سبب بننے کے لئے’’سانحۂ گوجرانوالہ‘‘ کافی ہے جس میں قومی اور مذہبی اقدار سے نابلد گمراہ نوجوانوں نے دولت کے نشے میں دھت وہ کچھ کر دیا جو پاکستانی قوم کے چہرے پر سیاہ دھبے کی صورت میں رہتی دنیا تک نمایاں رہے گا۔

یہ افسوسناک واقعہ 7اکتوبر کو اسرائیل کی جانب سے فلسطین کی نسل کشی کے لئے شروع کی جانے والی جنگ کے 7روز بعد گوجرانوالہ میں پیش آیا جب یہاں کے کچھ بے راہرو نوجوانوں نے گوجرانوالا میڈیکل کالج میں زیر تعلیم دو فلسطینی طالب علموں کو معمولی بات پر چھریوں کے وار کرکے شدید زخمی کر دیا۔یہ جاں خراش واقعہ گوجرانوالہ کے علاقہ گارڈن ٹاؤن کے پلاٹینیم مال میں پیش آیا جہاں گوجرانوالہ میڈیکل کالج میں زیر تعلیم دو فلسطینی نوجوان خلدون الشیخ اور عبدالکریم کرائے کےایک کمرے میں رہائش پذیر تھے۔ وقوعہ کے رات خلدون الشیخ اس عمارت کے پہلے فلور پر اپنے ساتھی عبدالکریم سے موبائل فون پر بات کر رہا تھا کہ یکایک ایک متکبر نوجوان ایک کمرے سے نکلا اور خلدون یہ کہتے ہوئے گالیوں کی بوچھاڑ کردی کہ فون پر بلند آواز میں کیوں بات کررہے ہو،خلدون نے نوجوان کے اس غیر مہذب رویہ پر احتجاج کیا تو نوبت ہاتھاپائی تک پہنچ گئی اور حملہ آور نوجوان خلدون کو نتائج کی دھمکیاں دیتے ہوئے اپنے کمرے کی طرف بھاگا تو خلدون نتائج سے بے خبر اپنے کمرے میں چلاگیا لیکن چند لمحوں میں ہی پستول،چاقو اور شیشے کی ٹوٹی ہوئی بوتل کا تیز دھار ٹکڑے سے مسلح پانچ نوجوانوں کا جتھہ ان کے کمرے میں گھس آیا اور چاقو اورتیزدھار کانچ سے دونوں فلسطینی نوجوانوں پر حملہ کر دیا اور ان کے چہرے سمیت جسم کے مختلف حصوں پر وار کرکے شدید زخمی حالت میں چھوڑ کر بھاگ گئے تاہم آس پاس کے لوگوں نے انہیں ہسپتال پہنچایا۔ان حملہ آوروں کے خلاف مقدمہ درج کرنے کا وقت آیا ان نوجوانوں کے بااثر ورثا اور عزیزواقارب اپنی دولت اور اثرورسوخ کے زور پر مقدمہ کی کارروائی رکوانے میں لگ گئے۔پولیس نے تو ان بااثر کا اثر قبول کر لیا اور مضروب فلسطینیوں پر مقدمہ واپس لینے کےلئے دباؤ ڈالنے والوں میں شامل ہو گئے اورانصاف پر ایمان رکھنے والے اعلیٰ حکام کی زبانیں بھی مہر رسیدہ ہوگئیں جو معمولی غلطیوں پر چھوٹے درجے کے ملازمین کو’’قانون کے مطابق‘‘سزائیں دینے میں تاخیر نہیں کرتے لیکن اس ہائی پروفائل بین الاقوامی اہمیت کے حامل کیس کو دبانے کی کوششوں میں شریک ہیں کیونکہ قانون سب کیلئے برابر نہیں۔

بات آگے بڑھانے سے پہلے ضروری ہے ایک ایسی شخصیت کا تعارف کرایا جائے جس نے اس سنگین واقعہ کو دولت کے ڈھیر میں دبانے کی کوششوں کی مزاحمت کی اور اس طبقے کا مقابلہ جو اس افسوسناک واقعہ کو اپنی دولت اور اثرورسوخ کی طاقت سے غیر موثر کرنا چاہتے تھے۔ظفربٹ کا شمار گوجرانوالہ کے مدبر،انسان دوست اور جھوٹ کے خلاف ڈٹ جانے والے لوگوں میں ہوتا ہے۔ ایسا پکا پاکستانی اور راسخ العقیدہ دیندار جس پر دولت یا طاقت کا دباؤ اثر انداز نہیں ہوسکتا۔پانچ سے زائد غیر ملکی زبانوں پر عبور رکھنے کی وجہ سے قومی اور بین الاقوامی حلقوں میں مقبول ہیں،یہی وجہ سے کہ پاکستان میں فلسطینی سفارتخانہ کیجانب سے انہیں ان مضروب فلسطینی نوجوانوں کو انصاف دلانے پر معمور کیاگیا ہے۔

ظفر بٹ کا ماننا ہے کہ نظریۂ آزادئ فلسطین اور کشمیر ہمارے ایمان کا حصہ ہیں جنہیں ایک لمحہ کے لئے بھی فراموش کرنا ایمان سے انحراف کے مترادف ہے۔ اس موقعہ پر جب صیہونی طاقتیں فلسطینیوں کی نسل کشی کےلئے ان پر بارود برسا رہی ہیں،معصوم بچوں کا قتل عام کیا جارہا ہے اور ان کے لئے پناہ کی کوئی جگہ نہیں،ان گمراہ نوجوانوں نے دنیا کو یہ پیغام دیا ہے کی ہم اسرائیلی بربریت کے ساتھ ہیں،معصوم فلسطینیوں کے لئے ہمارے پاس بھی کوئی جگہ نہیں۔ان گمراہ نوجوانوں نے فلسطینیوں کو ہی گھائل نہیں کیا بلکہ قومی وقار اور نظریۂ آزادئ فلسطین پر چھریاں چلائی ہیں۔

بشکریہ جنگ نیوز اردو

کہانی ’’سیاہ کاریوں‘‘ اور ’’سہولت کاریوں‘‘ کی



تحریر:۔ عرفان صدیقی

بلاشبہ عزت وعظمت اور ذلّت و رسوائی کے فیصلے قادر مطلق کے دست قدرت میں ہیں۔ احساسِ کامرانی سے سرشار کسی سہولت شعار جرنیل کا ٹویٹ اُسکے باطن کی ترجمانی تو کرسکتا ہے، ہمیشہ کیلئے لوحِ محفوظ پہ لکھے اٹل فیصلے نہیں مٹا سکتا۔ یہ فیصلے، کئی سالہ محنت بچانے پر کمربستہ کسی جرنیل کے دائرۂِ اختیار واقتدار سے بھی ماوریٰ ہوتے ہیں۔ بندوق یا ترازو کا عقدِمصلحت (Marriage of convenience) کچھ عرصے کیلئے اپنی مرضی کے موسم تخلیق کرسکتا ہے، ازلی وابدی تقویم کے دائمی اصولوں کو نہیں بدل سکتا۔ جبر، چہروں پر کالک تو تھوپ سکتا ہے، لیکن یہ سیاہ کاریاں کبھی طویل العمر نہیں ہوتیں۔ ہوا کے ایک ہی مصفّیٰ جھونکے سے دُھل جاتی ہیں۔

بہت دن ہوچکے لیکن میری لوحِ چشم پر وہ نامطلوب مناظر، رنگین فوٹواسٹیٹ کاپیوں کی طرح چسپاں ہیں۔ 10ستمبر2007ء۔لندن سے اڑنے والا طیارہ اسلام آباد کے پرانے ہوائی اڈّے کے ایک دور افتادہ گوشے میں آ رُکا۔ میں، کم وبیش سات برس کی جلاوطنی کاٹ کر وطن واپس آنے والے نوازشریف کے پہلو میں بیٹھا تھا۔ طیّارے کے دریچے سے باہر بالشت بھر زمین بھی دکھائی نہ دی۔ چپّے چپّے پر مستعد مسلح وردی پوش کھڑے تھے۔ نوازشریف ہم سب کیساتھ بس میں بیٹھ کر راول لائونج پہنچا۔ ذرا دیر بعد اُسے ایک دوسرے طیّارے میں بٹھا کر بارِدگر جدہ بھیج دیاگیا۔ یہ ’’سیاہ کاری‘‘ اب پس منظر میں جاچکی ہے۔ 13 جولائی 2018:ءنوازشریف اور مریم کو احتساب عدالت نے لمبی قید کی سزائیں سنادیں۔ دونوں جاں بہ لب بیگم کلثوم نواز کو بستر مرگ پر چھوڑ کر سزا بھگتنے لندن سے نکلے۔ میں تب بھی اُن کے ہمراہ تھا۔ ہیتھرو سے لاہور تک ہم تینوں منتشر سوچوں میں الجھے بے ربط مکالموں سے ایک دوسرے یا خود اپنے آپ کو فریب دیتے رہے۔ لاہور کا ہوائی اڈہ گیارہ برس پہلے والا منظر پیش کررہا تھا۔ سینکڑوں مسلح اہلکاروں کے نرغے میں کھڑے طیارے کے دریچے سے غول درغول جتھوں کے سوا کچھ دکھائی نہیں دے رہا تھا۔ ایک غول طیارے کے اندر گھُس آیا۔ باپ اور بیٹی کو دھکیلتے ہوئے ایک اور چھوٹے سے طیارے میں ڈال کر پہلے اسلام آباد اور پھر اڈیالہ جیل پہنچا دیاگیا۔ یہ ’’سیاہ کاری‘‘ بھی قِصّہ پارینہ ہوچکی ہے۔

نوازشریف سب سے زیادہ ریاستی اور عدالتی سیاہ کاریوں کا نشانہ بننے والا زندہ سیاستدان ہے۔ ہماری تاریخ کے کسی دوسرے وزیراعظم پر وہ نہیں گزری جو 12اکتوبر1999ءکو نوازشریف پر بیتی۔ اُسے وزیراعظم ہائوس سے اٹھا کر کالے شیشوں والی گاڑی میں ڈالا گیا اور چکلالہ چھائونی کے کسی نامعلوم مقام پر پہنچا دیاگیا۔ تنگ وتاریک بیرک کے چھوٹے سے کمرے میں چار جرنیلوں نے اس کے سامنے ایک کاغذ رکھا ’’میں بطورِ وزیراعظم، قومی اسمبلی تحلیل کرتا ہوں۔‘‘اُس نے انکار کردیا۔ کرخت دھمکیوں کا سلسلہ دراز ہوا تو اُس نے کہا __ ’’مجھے چاہے گولی مار دو۔ میں دستخط نہیں کروں گا۔‘‘ لمحہ بھر بعد وہ بولا __ ’’اسکے لئے تمہیں میری لاش پر سے گزرنا ہوگا ‘‘ (OVER MY DEAD BODY)۔ اُسے گورنر ہائوس مری کے ایسے کمرے میں ڈال دیاگیا جس کی کھڑکی پر گہرے رنگ کا کاغذ چڑھا دیاگیا تھا۔ دن اور رات کی تمیز بھی مشکل تھی۔ ہفتوں کسی کو خبر نہ ہوئی کہ وہ کہاں ہے؟ گئے زمانوں کے آدم خور قبائل جیسی یہ ’’سیاہ کاری‘‘ بھی کم لوگوں کو یاد رہ گئی ہے۔ اٹک قلعے سے لانڈھی جیل لے جاتے ہوئے ہتھکڑیاں ڈال کر اُسے سیٹ سے باندھ دینے والی مکروہ ’’سیاہ کاری‘‘ بھی بھولی بسری کہانی ہے۔ اٹک قلعہ، اڈیالہ، کوٹ لکھ پت، لانڈھی، گم نام بیرکس، بے نام بندی خانے، سب سیاہ کار قصّے، قصہ ہائے پارینہ ہوچکے۔

گزشتہ چھ برس کے دوران، جرنیلوں اور ججوں کے گٹھ جوڑ سے سیاہ کاریوں کی جو متعّفن داستان لکھی گئی، اُس کی نظیر خود ہماری سیاہ رُو تاریخ میں بھی نہیںملتی۔ صرف پانامہ کو دیکھ لیں۔ پی۔ٹی۔آئی کو، کھوسہ کی طرف سے پانامہ کیس عدالت میں لانے کی سیاہ کار پیشکش، سیاہ کاروٹس ایپ کالز، سیاہ کار جے۔آئی۔ٹی، سیاہ کار ہیرے، سیاہ کار مانیٹرنگ بینچ، ’’سسلین مافیا‘‘ اور ’’گاڈفادر‘‘جیسے سیاہ کار ریمارکس، بیٹے سے تنخواہ نہ لینے پر وزارت ِعظمیٰ سے سبکدوشی اور عمر بھر کی نااہلی کا سیاہ کار فیصلہ، سیاہ کار ریفرنسز اور سیاہ کارسزائوں کی ایک لمبی قطارہے۔

تاریخ کے اسی عہدِ بے ننگ ونام میں، ’’سیلِ سیاہ کار‘‘ کے متوازی چلتی، ’’سہولت کاری‘‘ کی ایک جُوئے نغمہ خواں بھی ہے۔ عاشقانہ فریفتگی، والہانہ دِل بستگی اور مجنونانہ فداکاری کی رومانوی کہانی جس کے انگ انگ سے ’’سہولت کاری‘‘ پھوٹ رہی ہے۔ یہ سہولت کاری پیہم، عمران خان کی بلائیں لیتی رہی۔ وہ اپوزیشن میں تھا تو اُس کے جلسوں، اس کے جلوسوں، اس کے دھرنوں اور اس کے لانگ مارچوں میں رنگ بھرتی رہی۔ اس کے لئے ذرائع ابلاغ کی مُشکیں کستی رہی۔ اس کی انتخابی مہم کو بال وپر عطا کرتی رہی اور اُس کے لئے عدالتوں سے صداقت وامانت کی خلعتِ فاخرہ کا اہتمام کرتی رہی۔ انتخابات کا ناقوس بجا تو یہی ’’سہولت کاری‘‘ شرم وحیا سے عاری ہوکر، آر۔ٹی۔ایس کے حلق سے اس کی ’’فتحِ مبین‘‘ نکال لائی۔ وہ تخت نشین ہوا تو یہ سہولت کاری کنیزوں اور خادمائوں کی طرح اس کی دربار داری میں لگی رہی۔ عدلیہ، ایک ہُنرمند مشاطّہ کی طرح اس کے عارض وگیسو سنوارنے لگی۔ وہ پکڑا گیا تو ریمانڈ پر پولیس کی تحویل میں ہوتے ہوئے سرشام سپریم کورٹ بیٹھ گئی، اُسے مرسڈیز میں بٹھا کر عدالت لایاگیا، رات شاہانہ بنگلے میں بصدسامانِ عیش وطرب گزارنے کی ’’سہولت کاری‘‘ ملی، ایک ہی دن میں بارہ ضمانتوں کا ریکارڈ قائم ہوا، سہولت کاری کو معجزہ کاری کی حدوں تک پہنچاتے ہوئے فرمان جاری ہوا کہ یہ کچھ بھی کرتا پھرے، اسے گرفتار نہ کیاجائے۔ دشتِ بے اماں کے بگُولوں جیسی ’’سیاہ کاریوں‘‘ کے طمانچے کھانے اور چار برس دیار غیر میں گزار کر وطن واپس آنے والے شخص نے، قانون کے تقاضے پورے کرتے ہوئے عدالت سے استدعا کی کہ میں پاکستان واپس آ کر آپ کے سامنے پیش ہونا چاہتا ہوں۔ عدالت نے حفاظتی ضمانت کی عرضی منظور کرلی۔ وہ جیل کی دیواریں پھلانگ کر نہیں، ڈاکٹروں کی رپورٹس کے بعد حکومت اور عدالت کی اجازت سے گیا تھا۔ واپس آتے ہی خود کو قانون کے حوالے کردیا لیکن کچھ دل بغض وکدورت کی ’’کچرا کنڈیاں‘‘ بن چکے ہیں۔ خودساختہ دانشوروں کی دانشِ بیمار، انگاروں پہ لوٹنے لگی ہے۔ کل تک ’’لُغت قانونِ سیاہ‘‘ (Black Law Dictionary) سے برآمد کئے گئے ایک ’’سیاہ کار‘‘ فیصلے پر سردھننے والے آج آئین کی کتابِ سبز کی دہائی دینے لگے ہیں۔ یہ نہیں بتا پارہے کہ عدالت نے آئین اور قانون کی کس شِق کو نظرانداز کیا ہے؟

21 اکتوبر کو جب فلائی دبئی کی چارٹرڈ پرواز FZ-4525 نے اسلام آباد کے ہوائی اڈے کو چھوا تو نوازشریف نے بے ساختہ کہا ’’الحمدللہ۔‘‘ اسکی آنکھوں میں نمی تیر رہی تھی۔ اُس نے دعا کیلئے ہاتھ اٹھائے اور پھر دیر تک دعا گو ہاتھوں سے چہرہ ڈھانپے رکھا۔ طیارے میں بیٹھے بیسیوں مسلم لیگی کارکن نعرہ زن تھے ’’وزیراعظم نوازشریف۔‘‘ میں نے دریچے سے جھانک کر دیکھا۔ دور ونزدیک کوئی غول تھا نہ جتھہ۔ چار سُو اکتوبر کی نرم خُو دھوپ رُوپَہلی قالین کی طرح بچھی تھی۔

بشکریہ جنگ نیوز اردو

اس کے آنے کے بعد؟



تحریر:۔ سہیل وڑائچ

کوئی مانے یا نہ مانے اس کے آنے کے بعد سیاسی منظر نامہ بدل چکا ہے، مستقبل کی سیاسی سکیم واضح ہوچکی ہے، صاف نظر آ رہا ہے کہ اسے اقتدار دینے کی تیاریاں کی جا رہی ہیں۔

اس کے پاکستان میں اترتے ہی نگران حکومتوں کا سحر ٹوٹنا شروع ہوگیا ہے۔ نوکر شاہی یا اقتدار پسندوں کے دوسرے گروہ، سب اس کے گرد جمع ہونا شروع ہو جائیں گے، نئی سیاسی صف بندیاں ہونگی اور نئے تانے بانے بُنے جائیں گے۔

کہا گیا ہے کہ انتقام نہیں لیا جائے گا یہ خوش آئند اعلان ہے لیکن اس کی عملی شکل کیا ہوگی؟ کیا کھلاڑی اور اس کی پارٹی کو بھی کھلا میدان ملے گا یا پھر اس کو جیل میں ہی کوئی رعایت ملے گی؟

بظاہر 9مئی کے ذمہ داروں اور کھلاڑی کے نمایاں ساتھیوں کے ساتھ کوئی ڈھیل ہوتی نظر نہیں آرہی شکنجہ اور کسا جا رہا ہے، نونی لیڈر اور مقتدرہ کے لئے سب سے پہلا مسئلہ یہی ہے کہ کھلاڑی کے بارے میں کسی فیصلے تک پہنچیں، ظاہر ہے کہ یہ ایسا فیصلہ ہونا چاہئے جو عقلی طور پر سب کے لئے قابل قبول ہو ۔

وہ واپس آیا ہے تو سب کچھ یک دم بھول تو نہیں سکتا اس کے خلاف پاشوں، ظہیر الاسلاموں اور رضوانوں نے جو جو گل کھلائے جو جو سازشیں کیں وہ سب اسے یاد ہوں گی۔ فیض حمیدوں، باجوئوں اور راحیل شریفوں کے خفیہ اور کھلے وار اسے کچوکے تو لگاتے ہوں گے۔

کھلاڑی اور عسکری خان مل کر جو جو کرتے رہے وہ بھلانا مشکل ہو گا اسے وہ انصاف خان بھی نہیں بھول سکتے جنہوں نے پانامہ کے نام پر اقامہ کے ذریعے اسے سزا دی، نااہل قرار دیا، اسکے مینڈیٹ کے باوجود اسے گھر بھیج دیا اسے وہ گالیاں، بے عزتی اور نفرت بھی نہیں بھولی ہو گی جس کا سامنا اس کو لندن میں کرنا پڑتا رہا۔

اگر تو وہ عام لیڈر رہنا چاہتا ہے تو ان سب زیادتیوں کو یاد رکھ کر اپنی پالیسیاں بنائے اور ایک ایک سے بدلہ لے تاکہ آئندہ کوئی منتخب وزیراعظموں کے ساتھ ایسا نہ کر سکے لیکن اگر وہ عظیم لیڈر بننا چاہتا ہے تو پھر نیلسن منڈیلا بننا ہوگا۔

بے نظیر بھٹو کی طرح اپنی جان کے دشمنوں کو بھی مفاہمت کی طرف لانا ہوگا، سب سے پہلے سیاست کے کرداروں میں مفاہمت ہونی چاہئے پھر ہی سیاست اور مقتدرہ کے معاملات طے ہوں گے۔

اسکے آنے کے بعد سے مقتدرہ اور اہل سیاست کے درمیان کئی دہائیوں سے جاری لڑائی بھی پھر سے یاد آئے گی، اسے یہ سوال ضرور پریشان کرتا ہوگا کہ اگر اسے اقتدار مل بھی گیا تو کیا اس میں اختیار بھی ہوگا؟

کیا مقتدرہ کو نئے وزیر اعظم کی بجائے کہیں نئے کاکڑ کی تلاش تو نہیں۔ اگر مقتدرہ نے معیشت، زراعت اور خارجہ پالیسی خود چلانی ہے تو پھر وہ اقتدار لیکر کیا کرے گا ؟وہ تین بار پہلے وزیراعظم رہ چکا ہے اس لئے اس کے لئے اختیار سے خالی وزیراعظم کا عہدہ بیکار ہوگا۔

دوسری طرف مقتدرہ زراعت، معیشت، معدنیات اور خارجہ امور کے بارے میں بہت سے معاملات پہلے سے طے کئے بیٹھی ہے، ایسے میں وزیراعظم کو اختیار کہاں ملے گا؟ یہی وجہ ہے کہ نئی بحث یہ اٹھائی گئی ہے کہ وہ پارٹی کو چلائے، انتخابی مہم کو لیڈ کرے، پلان بنائے مگر خود وزیر اعظم نہ بنے بلکہ اپنے چھوٹے بھائی کو ہی دوبارہ وزیر اعظم بنائے کیونکہ وہ مقتدرہ کے ساتھ چلنے کا کامیاب تجربہ رکھتا ہے۔

میرا اندازہ یہ ہے کہ معاملہ خاندانی طور پر پہلے سے طے ہوچکا ہے، جس کے مطابق نونیوں کے وزیراعظم کے امیدوار نواز شریف ہونگے الیکشن جیتے تو وہ وزیر اعظم بنیں گے تاہم وہ اپنی ٹرم مکمل نہیں کریں گے سال دو سال بعد وہ اپنے بھائی کو اپنی جگہ لے آئیں گے اور خود حکومت سے باہربیٹھ کر ان کی رہنمائی کریں گے۔

اگلی سیاست میں ان کی نمائندہ مریم ہونگی، مریم کی خواہش وزیراعلیٰ پنجاب بننے کی ہے مگر اب تک جو معاملات نظر آ رہے ہیں اس میں انکی یہ خواہش الیکشن کے فوراً بعد پوری ہوتی نظر نہیں آتی، اس خاندان کو دوبارہ اقتدار ملے تو اوپر اور نیچے دونوں بڑی سیٹوں پر خود کو رکھنا سیاسی خودکشی کے مترادف ہوگا۔

بہتر ہوگا کہ مریم کو موقع ملے تو وہ بلاول کی طرح ابھی کسی وزارت یا مشاورت کے ذریعے گورننس کا مزید تجربہ حاصل کریں۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اگر واقعی ایسا ہوجاتا ہے تو شہباز شریف اور حمزہ شہباز کہاں اکاموڈیٹ ہونگے؟ لگتا ہے کہ اسے اس بات کا احساس ہے کہ شہباز اور حمزہ کو جگہ دینی ہے اسی لئے مینار پاکستان کے سٹیج پر مریم کے بعد اسکی توجہ کا سب سے بڑا مرکز شہباز شریف اور حمزہ رہے ۔

بڑا لیڈر وہ ہوتا ہے جو صرف اپنے بارے میں نہ سوچے بلکہ اپنے مخالفوں کے بارے میں بھی سوچے، صرف اپنے حامیوں کو خوش کرنے کی پالیسی نہ بنائے بلکہ اپنے مخالفوں کو بھی خوش کرنے کے بارے میں سوچے اکثر لیڈر تنگ نظر ہوتے ہیں وہ مخالف کو مار کر سمجھتے ہیں کہ انہیں زندگی مل جائے گی جبکہ مخالف مرجائے تو مارنے والے کی زندگی کے دن بھی گنے جانے شروع ہو جاتے ہیں۔

یاد رکھیں کہ جس دن میاں نواز شریف نے لاہور ہائیکورٹ کے بدنام زمانہ فیصلے کے ذریعے بے نظیر بھٹو کو نااہل قرار دیا تھا اسی روز سے یہ طے ہو گیا تھا کہ اب اگلی باری نواز شریف کی ہو گی اور ویسا ہی ہوا۔

حالیہ تاریخ میں جب عمران خان اپنے حریف نواز شریف کو جیل میں ڈال کر فخر سے سینہ پُھلائے پھرتے تھے اسی وقت سے نظر آنا شروع ہو گیا تھا کہ نواز شریف رہا ہونگے اور جب عمران خان اقتدار سے اتریں گے تو وہ بھی جیل یاترا کرینگے ۔

حیرانی کی بات ہے کہ اہل سیاست کو یہ سادہ سی بات کیوں سمجھ نہیں آرہی کہ دوسروں کے لئے گڑھا کھودنے والا خود اسی میں گرتا ہے ۔اب وقت ہے کہ وہ بڑا لیڈر بنے دوسرے کے کھودے گڑھے مٹی سے بھرے اور ایک نئی سیاست کا آغاز کرے۔

وہ اس وقت اس خطے کا سب سے تجربہ کار سیاست دان ہے مودی ہو، طالبان ہو، حسینہ واجد ہو یا ایرانی قیادت سب اس سے تجربے میں جونیئر ہیں وہ آج سے 33سال پہلے بھی وزیر اعظم تھا ضرورت اس بات کی ہے کہ وہ اب صرف وزیر اعظم نہ بنے بلکہ تاریخ بنائے۔

دیکھنا یہ ہوگا کہ اگر اسے اقتدار ملتا ہے تو وہ کھلاڑی کے ساتھ کیا معاملہ کرتا ہے، اگر تو اس نے کھلاڑی کو اس کے حال پر چھوڑ دیا، وہ جیل میں سڑتا رہا، اسے الیکشن میں برابر کے مواقع نہ دیئے تو پھر اس میں اور کھلاڑی میں کیا فرق رہ جائے گا۔

اسے بڑا بننا ہے تو کھلاڑی اور اس کے مینڈیٹ کو بھی عزت دے، اس کا ہاتھ پکڑ کر گڑھے سے نکالے اور اپنے سامنے والی نشست پر بٹھائے، جس دن تضادستان میں ہم نے سیاسی مخالفوں کو عزت دینا شروع کر دی اس دن سے ہی پاکستان کا ایک نیا جنم ہوگا۔

اسی دن سے ہی آئین، جمہوریت اور پارلیمانی روایات کا بول بالا ہوگا، اس کے آنے کے بعد بہت کچھ کا انحصار اس کے رویے پر ہوگا اگر وہ نہلے پر دہلے مارتا رہا تو پھر کچھ تبدیل نہیں ہوگا۔ ہاں اگر اس نے تاریخ میں اپنا نام بنانا ہے تو اسے کھلاڑی کو بھی کھلانا ہوگا ۔

بشکریہ جیونیوز اردو

فوجی عدالتوں میں عام شہریوں کا ٹرائل غیرقانونی ہے،9 مئی کے کیسز فوجداری عدالتوں میں بھیجے جائیں،سپریم کورٹ



سپریم کورٹ نے فوجی عدالتوں میں سویلین کے ٹرائل کو کالعدم قرار دے دیا۔
عدالت عظمیٰ کے پانچ رکنی بنچ نے فوجی عدالتوں میں سویلین کے ٹرائل کے خلاف درخواستیں منظور کرتے ہوئے ٹرائل کوغیرقانونی قرار دیا۔عدالت کاکہنا تھا کہ کسی سویلین کا فوجی عدالتوں میں ٹرائل ہوا ہے تو وہ بھی کالعدم قرار دیاجاتاہے۔
عدالت نے اپنے فیصلے میں ملٹری ایکٹ کی سیکشن ٹو ون ڈی کی دونوں ذیلی شقوں کو غیر آئینی قرار دیتے ہوئے 9 مئی کے تمام ملزموں کا ٹرائل عام عدالتوں کرنے کا حکم جاری کردیا۔ عدالت نے فیصلہ دیا کہ ملزموں کے جرم کی نوعیت کے اعتبار سے مقدمات عام عدالتوں میں چلائے جائیں۔ عدالت نے آفیشل سیکرٹ ایکٹ کی شق 59(4) کو بھی غیر آئینی قرار دیا۔

سویلین کا فوجی عدالتوں میں ٹرائل 5 رکنی بینچ نے متفقہ طور پرکالعدم قرار دیا ہے تاہم آرمی ایکٹ کے سیکشن 2 ڈی ون کو  آئین سےمتصادم 4 ججز نے قرار دیا ہے جب کہ جسٹس یحیٰی نے اس پر اپنی رائے محفوظ رکھی۔

 عدالت نے قرار دیا ہے کہ اگر کسی شہری کا فوجی عدالت میں ٹرائل شروع ہوگیا ہے تو وہ بھی کالعدم قرار دیا جاتا ہے۔

9 اور 10 مئی کے واقعات کی روشنی میں  گرفتار 102 افراد جن کی فہرست عدالت میں پیش کی گئی تھی، سپریم کورٹ نے  ان کا ٹرائل عام فوجداری عدالتوں میں چلانےکا حکم دیا ہے

فوجی عدالتوں میں سویلین کے ٹرائل کے خلاف درخواستوں کی سماعت کرنے والے بنچ کی سربراہی جسٹس اعجازالاحسن کررہے تھے جبکہ بنچ کے دیگر ججز میں جسٹس منیب اختر ، جسٹس یحیٰی آفریدی، جسٹس مظاہرنقوی اور جسٹس عائشہ ملک شامل تھیں۔

قبل ازیں کیس کی سماعت کا آغاز ہوا تو جواد ایس خواجہ کے وکیل احمد حسین نے عدالت میں کہا کہ میں گزشتہ سماعت کا حکمنامہ پڑھنا چاہوں گا۔ جس پر عدالت نے کہا کہ آج اٹارنی جنرل کو سنیں گے۔

سماعت کے آغاز پر سلمان اکرم راجہ نے دلائل دیے کہ عدالت کو یقین دہانی کروائی گئی تھی مگر اس کے باوجود فوجی عدالتوں میں سویلینز کا ٹرائل شروع کر دیا گیا ہے، اس پر بینچ کے سربراہ نے کہا کہ پہلے ہم اٹارنی جنرل کو سن لیتے ہیں۔

اٹارنی جنرل عثمان منصور نے دلائل دیے کہ آئین کے آرٹیکل 10 کے تمام تقاضے پورے کیے جائیں گے، فوجی عدالتوں سے جن لوگوں کو سزائیں ہوں گی وہ ہائیکورٹ اور پھر سپریم کورٹ میں اپیلیں کر سکیں گے۔

جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ میں سمجھ رہا ہوں کہ آپ کے دلائل کو سمجھوں، اگر دہشتگردوں کا ٹرائل کرنے کے لیے آئینی ترمیم ضروری تھی تو عام شہریوں کے لیے کیوں نہیں؟

اٹارنی جنرل نے وضاحت کی کہ اگر ملزمان کا تعلق آرمڈ فورسز سے ہو تو کسی آئینی ترمیم کی ضرورت نہیں ہوتی۔

اس پر جسٹس عائشہ ملک نے کہا کہ آرمی ایکٹ میں تو فورسز کے اندر ڈسپلن کی بات کی گئی ہے، جسٹس مظاہر علی اکبر نے اٹارنی جنرل کو آرمی ایکٹ کا دیباچہ پڑھنے کا کہہ دیا۔

بینچ کے سربراہ نے کہا کہ قانون میں تو واضح ہے کہ یہ فورسز کے اندر کے لیے ہے، اس کا سویلین سے تعلق کیسے ہو سکتا ہے، جس پر اٹارنی جنرل نے کہا کہ آرمی ایکٹ افسران کو اپنے فرائض سرانجام دینے کا بھی کہتا ہے، کسی کو اپنی ڈیوٹی ادا کرنے سے روکنا بھی اس قانون میں جرم بن جاتا ہے۔

اٹارنی جنرل نے دلائل دیے کہ بات فورسز میں ڈسپلن کی حد تک ہو تو یہ قانون صرف مسلح افواج کے اندر کی بات کرتا ہے، جب ڈیوٹی سے روکا جائے تو پھر دیگر افراد بھی اسی قانون میں آتے ہیں۔

اس پر بینچ کی ممبر جسٹس عائشہ ملک نے کہا کہ اگر ایسی صورت ہے تو پھر بنیادی حقوق کا کیا بنے گا۔ کیوں کہ آئین تو کہتا ہے کہ بنیادی حقوق کے خلاف کوئی قانون نہیں بن سکتا۔

بعدازاں عدالت نے اٹارنی جنرل کے دلائل مکمل ہونے پر کیس کا فیصلہ محفوظ کر لیا جو اب سنا دیا گیا ہے۔

عدالت کسی جماعت یا شخصیت کے الیکشن لڑنے پر پابندی لگاتی ہے تو تسلیم کرنا ہوگا،کاکڑ



اسلام آباد: نگران وزیراعظم پاکستان انوار الحق کاکڑ نے کہا ہے کہ عام انتخابات کی تاریخ کا اعلان جلد ہو جائے گا اور پھر ہم سب ووٹ ڈالنے جائیں گے۔

اسلام آباد میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے انوار الحق کاکڑ نے کہا کہ لیول پلئینگ فیلڈ اگر ایک مخصوص جماعت کو جتوانے کا نام ہے تو میں کچھ نہیں کہہ سکتا۔ 2018 کی لیول پلئینگ فیلڈ یاد ہے جب جنوبی پنجاب محاذ بنا تھا،انہوں نے کہا کہ اگر کوئی کہے کہ عدالت اور پارلیمنٹ کو آگ لگا کر میں جمہوریت کا چیمپئن رہوں گا تو قانون یہ چیز نہیں مانتا،اگر یہ سمجھتے ہیں کہ نگران حکومت آگ لگانے کا لائسنس دے دے تو یہ نہیں ہوسکتا، وزیراعظم نے استفسار کیا کہ اگر یہ سب حرکتیں جے یوآئی نے کی ہوتیں تو کیالوگوں کا نقطہ نظر پھر بھی یہی ہوتا؟

انوارالحق کاکڑ نے کہا کہ ہم نہیں چاہتے کہ کوئی بھی سیاسی جماعت یاشخصیت سیاسی عمل سے باہر ہو،عدالتی فیصلے سے کسی پر پابندی لگ جاتی ہے تو درست یاغلط ہمیں تسلیم کرنا ہے۔

مسلم لیگ ن کے قائد کی وطن واپسی سے متعلق سوال پر انوار الحق کاکڑ نے کہا کہ نوازشریف پیدائشی پاکستانی شہری ہیں تو بائیومیٹرک ان کا حق ہے، کیا بائیومیٹرک کے لئے وزیراعظم ہائوس سے کسی منظوری کی ضرورت ہوتی ہے؟ یہ ایک قانونی عمل ہے اس سے کسی کو کیا سیاسی فائدہ ہوسکتاہے ۔ ایک سوال پر نگران وزیراعظم نے کہا کہ غیرقانونی طورپرمقیم افغان مہاجرین واپس اپنے ملک جائیں اور اپنی حکومتوں سے پاسپورٹ لے کر پاکستان آئیں۔

نگران وزیراعظم انوار الحق کاکڑ نے کہا کہ چینی صدر کی دعوت پر چین کا دورہ کیا، صدر شی کے ساتھ ملاقات مثبت رہی، چین نے مسئلہ کشمیر پر پاکستان کے موقف کی حمایت کی، انہوں نے کہا کہ پاکستان پرعزم ہے کہ حالیہ ملاقات کے بعد سی پیک کا تسلسل جاری رہے گا۔ سی پیک منصوبہ دونوں ممالک کے درمیان تعلقات کو مزید فروغ دے گا۔

انہوں نے کہا کہ جو بھی حکومت ہو پاک چین تعلقات کا تسلسل جاری رہنا چاہئے اس سے بے یقینی کا تاثر زائل ہوجاتا ہے۔

انوار الحق کاکڑ کا کہناتھا کہ چین کے ساتھ 20 کے قریب مفاہمتی یادداشتوں پر دستخط ہوئے ہیں۔

انہوں نے تجویز پیش کی کہ پاکستان اور چین کے درمیان ایک دوسرے کے علاقوں کی معلومات کا تبادلہ ہوناچاہئے، مجھے یہ جان کر حیرانی ہوئی کہ ارومچی دنیا کے جدید ترین شہروں میں سے ایک ہے۔

انوار الحق کاکڑ کاکہناتھا کہ دورہ چین کے دوران روس، کینیا اور دیگر ممالک کے سربراہان سے بھی ملاقات ہوئی۔ اس دوران کینیا کے صدر سے ارشد شریف کے قتل پربات ہوئی، ان کے مطابق کینیا کے صدر نے یقین دہانی کرائی ہے کہ ارشد شریف قتل کی کافی حد تک تحقیقات ہو چکی ہیں اور جو رہ گئی ہیں وہ بھی مکمل ہوں گی۔

وزیراعظم کا کہناتھا کہ مختلف ممالک کی قیادت کے ساتھ مشرق وسطیٰ کی صورت حال پر بات کی ہے۔

الیکشن کی تاریخ ہی تو مانگی ہے ،ایک نئی طرز کی آمریت شروع ہوگئی: بلاول



پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے کہا کہ آمریت کا دروازہ بند ہوچکا مگر پھر ایک نئی طرز کی آمریت شروع ہوگئی، الیکشن میں تاخیر کا مطلب الیکشن سے انکار ہے، فوری طور پر انتخابات کی تاریخ دی جائے۔
سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ آئین کی گولڈن جوبلی کی تقریب میں بلانے پر مشکور ہوں، سپریم کورٹ نے ہمیشہ آئین کی بالادستی کے لیے کام کیا، سپریم کورٹ نے ڈکٹیٹر کے خلاف اپنا کردار ادا کیا۔
بلاول نے کہا کہ 1973ء کا آئین قانون کی حکمرانی کے اصول وضع کرتا ہے، آئین کسی بھی ریاست کے تابع ہوتا ہے، جمہوریت آئین کا تحفظ کرتی ہے اور آئین انسانی حقوق کا تحفظ کرتا ہے، ہر سیاست دان نے عدلیہ کے سامنے خود کو احتساب کے لیے پیش کیا اس لیے ججز کو بھی سب سے پہلے خود کو احتساب کے لیے پیش کرنا چاہیے، پریکٹس اینڈ پروسیجر کیس کے فیصلے میں امید کی کرن نظر آئی۔
چیئرمین پیپلز پارٹی نے کہا کہ الیکشن میں تاخیر کا مطلب الیکشن سے انکار ہے، کہا گیا تھا کہ آمریت کا دروازہ بند ہوچکا مگر پھر ایک نئی طرز کی آمریت شروع ہوگئی۔

غزہ میں قیامت کا منظر: اسرائیلی بمباری سے شہید فلسطینیوں کی تعداد 4700 ہو گئی



اسرائیل کی جانب سے نہتے فلسطینیوں پر بمباری کا سلسلہ جاری ہے اور غزہ میں قیامت صغریٰ کا منظر ہے۔ اب تک ہونے والی بمباری میں شہید فلسطینیوں کی تعداد 4700 تک پہنچ گئی ہے۔ جبکہ 14 ہزار سے زیادہ افراد زخمی ہیں۔

غزہ پر اسرائیلی بمباری سے شہید ہونے والوں میں 2 ہزار کے قریب بچے، ایک ہزار سے زیادہ خواتین شامل ہیں جبکہ فرائض کی انجام دہی کے دوران 21 صحافیوں نے بھی جام شہادت نوش کیا ہے۔

اسرائیلی جارحیت کے باعث غزہ میں قیامت صغریٰ کا منظر ہے، علاقے میں غذا کی شدید قلت پیدا ہو گئی ہے، اس کے علاوہ ادویات ناپید ہیں۔ ڈاکٹرز کو ہسپتالوں میں زخمیوں کے آپریشنز کرنے میں مشکلات پیش آ رہی ہیں۔

دوسری جانب اسرائیلی فوج کی غزہ میں داخلے کی پہلی کوشش ناکام ہو گئی ہے اور حماس کے عسکری ونگ نے اسرائیل کے 2 بلڈوزر اور ایک ٹینک تباہ کر دیا ہے۔

اس کے علاوہ مشرق وسطیٰ کی صورتحال کو دیکھتے ہوئے چین نے بھی اپنے 6 بحری جہاز تعینات کر دیئے ہیں جبکہ امریکی بحری بیڑا پہلے سے ہی مشرق وسطیٰ میں موجود ہے۔

انیل کپور کی ‘مسٹر انڈیا 2’ کا اعلان کرنے کے بعد پوسٹ ڈیلیٹ



ممبئی (این این آئی) بالی ووڈ کے سینیئر اداکار انیل کپور کی جانب ہر ایک کی توجہ اس وقت مبذول ہوئی، جب انہوں نے انسٹاگرام پر لگی اپنی ڈسپلے تصویر اور تمام پوسٹ ہٹا دیں۔

66 سالہ انیل کپور جو آئندہ آنے والی ایکشن تھرلر فلم اینیمل میں نظر آئیں گے، انکی جانب سے سوشل میڈیا ایپ سے تمام پوسٹس ہذف کرنے کے اقدام پر نہ صرف انکے پرستار بلکہ انکی بیٹی اور معروف اداکارہ سونم کپور بھی حیران ہیں۔

حالانکہ ابتدا میں تو لوگ یہ سمجھے کہ یہ انکی جانب سے اس سال 2 دسمبر کو ریلیز ہونے والی فلم اینیمل کی پروموشن کا کوئی طریقہ ہے، اس فلم میں انکے ساتھ رنبیر کپور اور رشمیکا مندانا اہم کردار ادا کر رہے ہیں۔

واضح رہے کہ انیل کپور سوشل میڈیا پر فلم کو کک آف کرنے کے حوالے سے نادیدہ رہے۔ بھارتی میڈیا کے مطابق اپنی 1987 کی فلم مسٹر انڈیا کی طرح وہ سوشل میڈیا پر نادیدہ و پوشیدہ ہوگئے ہیں۔

عمران خان 8 برس بعد بالی ووڈ میں واپسی کے لیے تیار



ممبئی (این این آئی) بالی ووڈ اداکار عمران خان سے متعلق انکشاف ہوا ہے کہ وہ 8 برس بعد بالی ووڈ میں واپسی کیلئے تیار ہیں جس کیلیے انکی ایک نامور ہدایتکار سے بات چیت بھی شروع ہوگئی ہے۔

اپنی مشہور فلموں جانے تو یا جانے نا، دہلی بیلی، آئی ہیٹ لوو اسٹوریز، گوری تیرے پیار میں اور کڈنیپ سمیت دیگر کی وجہ سے کافی معروف ہیں۔

بالی ووڈ سپر اسٹار عامر خان کے بھانجے عمران خان آخری بار 2015 کی بالی ووڈ فلم کٹی بٹی میں نظر آئے تھے۔ جس کے بعد سے 40 سالہ عمران خان فلمی دنیا سے دور رہے۔ اس دوران انکے پرستار انکی واپسی کے حوالے سے حیران و پریشان رہے۔

تاہم اب 8 برس بعد عمران خان کی جانب سے ممبئی کی فلم نگری میں واپسی کے حوالے سے انکشاف ہوا ہے۔ اس سلسلے میں بھارتی میڈیا میں یہ اطلاع تھی کہ عمران خان کی معروف بھارتی فلمی ہدایتکار اور اسکرین رائٹر عباس ٹائر والا سے ایک جاسوسی و ایکشن ڈرامہ سیریز کے حوالے سے پہلے ہی بات چیت چل رہی ہے، یہ سیریز ایک معروف او ٹی ٹی پلیٹ فارم پر اسٹریم ہوگی۔

90 روز میں انتخابات کرانے کا کیس: وفاق اور الیکشن کمیشن کو نوٹس جاری



سپریم کورٹ آف پاکستان نے 90 روز میں عام انتخابات سے متعلق کیس کی سماعت کے دوران الیکشن کمیشن پاکستان اور وفاق کو نوٹس جاری کرتے ہوئے مزید سماعت 2 نومبر تک ملتوی کر دی ہے۔

چیف جسٹس پاکستان جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کیس کی سماعت کے دوران صدر سپریم کورٹ بار عابد زبیری پر اظہار برہمی کرتے ہوئے کہا کہ آپ کو غلط بیانی سے کام نہیں لینا چاہیے۔

چیف جسٹس پاکستان جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی سربراہی میں 3 رکنی بینچ نے 90 روز میں عام انتخابات سے متعلق کیس کی سماعت کی، بینچ کے ممبران میں جسٹس اطہرمن اللہ اور جسٹس امین الدین شامل ہیں۔

دوران سماعت پاکستان تحریک انصاف کے وکیل علی ظفر ویڈیو لنک کے ذریعے پیش ہوئے۔

صدر سپریم کورٹ بار عابد زبیری نے عدالت کے سامنے دلائل دیے کہ ہم نے 5 اگست کو مشترکہ مفادات کونسل کا فیصلہ عدالت عظمیٰ میں چیلنج کیا تھا۔ جس پر چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ یہ فوری نوعیت کا معاملہ تھا آپ نے جلد سماعت کے لیے درخواست کیوں نہ دی؟۔

وکیل عابد زبیری کا کہنا تھا کہ جلد سماعت کے لیے ہم نے درخواست دی تھی جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ درخواست کو بروقت مقرر کر دیا جاتا تو اب تک فیصلہ ہو جاتا۔

عابد زبیری نے مشترکہ مفادات کونسل کا فیصلہ کالعدم قرار دیتے ہوئے 90 روز میں الیکشن کرانے کا حکم دینے کا مطالبہ کیا۔

چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ آپ چاہتے ہیں کہ انتخابات 2017 کی مردم شماری کے مطابق ہوں، جس پر عابدزبیری نے کہاکہ مردم شماری اور حلقہ بندیوں کی وجہ سے الیکشن میں تاخیر نہیں ہونی چاہیے۔

جسٹس اطہر من اللہ نے استفسار کیا کہ اسمبلی کی تحلیل کے بعد کب 90 روز پورے ہو رہے ہیں تو عابد زبیری نے کہا کہ 3 نومبر کو 90 دن ہو جائیں گے جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ اگر ہم 90 روز میں انتخابات کا حکم دیں تو اس پر عملدرآمد ہو جائے گا تو عابد زبیری نے کہا کہ نہیں۔ چیف جسٹس نے اس پر انہیں کہا کہ پھر درخواست میں ترمیم کر لیں۔

بعدازاں عدالت نے وفاق اور الیکشن کمیشن آف پاکستان کو نوٹس جاری کرتے ہوئے سماعت 2 نومبر تک ملتوی کر دی۔