Tag Archives: نواز شریف

نواز شریف کو وطن واپسی پر گرفتار نہ کیا جائے، اسلام آباد ہائی کورٹ نے حفاظتی ضمانت منظور کر لی



اسلام آباد ہائیکورٹ نے سابق وزیراعظم و قائد پاکستان مسلم لیگ ن نوازشریف کی حفاظتی ضمانت منظور کر لی ہے اور انہیں وطن واپسی پر گرفتار کرنے سے روک دیا ہے۔

عدالت العالیہ اسلام آباد نے العزیزیہ اور ایون فیلڈ ریفرنسز میں نواز شریف کی 24 اکتوبر تک حفاظتی ضمانت منظور کی ہے۔

چیف جسٹس اسلام آباد ہائیکورٹ جسٹس عامر فاروق اور جسٹس گل حسن اورنگزیب نے العزیزیہ اور ایون فیلڈ ریفرنسز میں نواز شریف کی حفاظتی ضمانت کی درخواستوں پر سماعت کی۔

اس موقع پر نواز شریف کے وکلا امجد پرویز اور اعظم نذیر تارڑ عدالت میں پیش ہوئے، جبکہ نیب پراسیکیوٹر رافع مقصود اور افضل قریشی نے پیروی کی۔

اعظم نذیر تارڑ نے احتساب عدالت سے وارنٹ معطلی کے احکامات کا بتایا جس پر چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ کیا وہ آرڈر آپ کے پاس ہے۔ اعظم نذیر تارڑ نے جواب دیا کہ ہمارے وکلا احتساب عدالت سے آ رہے ہیں۔

ہائیکورٹ نے احتساب عدالت کے فیصلے کو مد نظر رکھتے ہوئے نواز شریف کی 24 اکتوبر تک حفاظتی ضمانت منظور کر لی ہے اور گرفتاری سے روک دیا ہے۔

توشہ خانہ کیس: احتساب عدالت نے نواز شریف کے وارنٹ گرفتاری معطل کر دیئے



اسلام آباد کی احتساب عدالت نے توشہ خانہ کیس میں سابق وزیراعظم پاکستان نوازشریف کے وارنٹ گرفتاری معطل کر دیئے ہیں۔

احتساب عدالت کے جج محمد بشیر نے قائد مسلم لیگ ن نوازشریف کی توشہ خانہ کیس میں وارنٹ معطلی کی درخواست پر سماعت کی، اس موقع پر نواز شریف کے وکیل قاضی مصباح عدالت میں پیش ہوئے جبکہ نیب کے پراسیکیوٹر نے پیروی کی۔

جج محمد بشیر نے وارنٹ گرفتاری معطل کرتے ہوئے کہا ہے کہ اگر نواز شریف 24 اکتوبر کو پیش نہ ہوئے تو وارنٹ بحال ہو جائیں گے۔

قبل ازیں نوازشریف کے وکیل قاضی مصباح نے عدالت کے روبر موقف اختیار کیا کہ نوازشریف 21 اکتوبر کو پاکستان پہنچ رہے ہیں، وہ کیسز کا سامنا کرنا چاہتے ہیں، ہماری عدالت سے استدعا ہے کہ 24 اکتوبر تک وارنٹ معطل کر دیے جائیں۔

اس موقع پر احتساب عدالت کے جج محمد بشیر نے استفسار کیا کہ کیا ہائیکورٹ میں بھی درخواست دی گئی ہے؟ جس پر وکیل نے جواب دیا کہ اس کیس میں ہائی کورٹ سے رجوع نہیں کیا گیا۔

سماعت کے موقع پر نیب کے پراسیکیوٹر نے کہا کہ نواز شریف عدالت کے سامنے سرنڈر کرنا چاہ رہے ہیں، نواز شریف کو سننا چاہتے ہیں تو وارنٹ معطل کر دیئے جائیں۔

عدالت کی جانب سے وکیل صفائی اور نیب پراسیکیوٹر کے دلائل سننے کے بعد وارنٹ معطلی کی درخواست پر فیصلہ محفوظ کیا گیا تھا جو اب سنا دیا گیا ہے۔

 نواز شریف کو جیل جانےسے بچانے کیلئے (ن) لیگ کی قانونی ٹیم نے حکمت عملی تیار کر لی



 وطن واپسی پر مسلم لیگ ن کے قائد  نواز شریف کو جیل جانے سے بچانے کے لئے پارٹی کی قانونی ٹیم نے حکمت عملی تیار کر لی۔

ذرائع کا کہنا ہے کہ نوازشریف کی جانب سے العزیزیہ اور ایون فیلڈ ریفرنس میں سزا کیخلاف اسلام آباد ہائیکورٹ سے رجوع کرنے کیلئے  درخواستوں کا ابتدائی مسودہ  تیار کر لیا گیا ہے۔

ذرائع نے بتایا کہ  قائد ( ن ) لیگ کی جانب سے 48 گھنٹے میں درخواست دائر کئے جانے کا امکان ہے ، مختلف قانونی نکات پر غور کے بعد منگل تک درخواستوں کا مسودہ فائنل کیا جائے گا۔

واضح رہے کہ احتساب عدالت نے ایون فیلڈ اور العزیزیہ ریفرنسز میں نوازشریف کو 10 سال قید اور جرمانے کی سزا سنائی تھی ، عدالت نے انہیں 10 سال کے لئے عوامی عہدے کیلئے بھی نااہل قرار دیا تھا۔

نوازشریف اور عمران خان کو انتخابات میں حصہ لینے کا موقع ملنا چاہیے: اسد عمر



پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے سابق سیکریٹری جنرل اسد عمر نے کہا ہے کہ نواز شریف اور عمران خان دونوں کو آئندہ عام انتخابات میں حصہ لینے کا موقع ملنا چاہیے۔

انسداد دہشتگردی عدالت لاہور کے باہر میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے اسد عمر نے کہا کہ ملک میں عام انتخابات جلد سے جلد ہونے چاہئیں۔

اسد عمر نے کہا کہ پیٹرول کی قیمتوں میں کمی کا فائدہ عام آدمی تک پہنچنا چاہیے۔ عالمی مارکیٹ میں تیل کی قیمتیں نیچے آئی ہیں اس لیے ضروری تھا کہ پاکستان میں بھی قیمتیں کم ہوں۔

سابق وزیر خزانہ نے کہا کہ تحریک انصاف کو جلسے کی اجازت نہیں دی گئی، اس حوالے سے درخواست عدالت میں موجود ہے۔ ہمارا موقف ہے کہ تمام پارٹیوں کو جلسے کرنے کی اجازت ہونی چاہیے۔

اسد عمر نے فلسطین کے عوام کی حمایت کرتے ہوئے کہا کہ اگر نگران حکومت کا یہ خیال ہے کہ فلسطین کے معاملے پر خاموشی کی صورت میں انہیں باہر سے کوئی آشیر باد مل جائے گی تو یہ ان کی غلط فہمی ہے۔ پاکستان کو چاہیے کہ ہر مظلوم کے حق میں آواز اٹھائے۔

’’اکبر نام لیتا ہے، خدا کا‘‘



تحریر:۔ حفیظ اللہ نیازی

21 اکتوبر کو میاں محمد نواز شریف وطن قدم رنجا فرمانے کو ، انگلستان چھوڑ چُکے ، سفر کا آغاز ہوچُکا ۔ کم و بیش ایک ماہ قبل ارادہِ سفر باندھا تو جوشِ خطابت یا وفورِ جذبات میں’’چند قومی مجرموں ‘‘ کا نام لیکر مطالبہ کر ڈالاکہ’’اُنکے خلاف مقدمات چلانے ہونگے‘‘۔

بس نام لینے کی دیر ، مملکت کے طاقتور حلقوں میں بھونچال آگیا۔ ن لیگی رہنماؤں میں کھلبلی مچ گئی۔ تب سے آج تک رہنماؤں کی طرف سے دو درجن وضاحتی بیان آ چُکے ہیں ۔تازہ بہ تازہ بیان ، سیاسی فہم و فراست سے عاری ہمارے دوست اسحاق ڈار کا اعلان ، ’’معیشت کی بحالی نواز شریف کا بہترین انتقام ہوگا ‘‘۔ نہیں معلوم کہ’’اگر‘‘الیکشن ہو بھی گیا ’’اگر‘‘ نواز شریف اقتدار میں آ بھی گئے اور’’اگر‘‘معیشت بحال بھی ہو گئی تو بدلہ کس کی مد میں چُکتا ہوگا۔ معیشت کی بحالی پر جنرل باجوہ یا جنرل فیض یا ثاقب نثاریا آصف کھوسہ یا عمران خان، کیا سب سے حساب بیباک ہو پائے گا؟

موجودہ حالات اورمعروضی حقائق میں معیشت کی بحالی کا عزم، معاشی بحران بارے ڈار صاحب کی کم علمی یاغیر سنجیدگی پر حیرت زدہ ہوں ۔ سیاسی عدم استحکام ہی تو موجودہ معاشی بحران کی وجہ بنا ہے ۔ 2014ء سے’’سیاست نہیں ریاست بچاؤ‘‘ ، جیسے ڈھکوسلے نعرہ پراستوارغیر آئینی اور غیر قانونی ہتھکنڈوں نے مملکت کو ایک عرصہ سے متزلزل کر رکھا ۔ یکے بعد دیگر ذمہ داری سنبھالنے والوں نے بھی کسی بُخل کا مظاہرہ نہ کیا اسکو کمال فن بنایا ۔ آج مملکت سیاسی عدمِ استحکام کی دلدل میں گردن تک دھنس چُکی۔

خاطر جمع رکھیں ، جب تک اپریل 2014ءسے اپریل 2022ءتک مملکت کو اس حال تک پہنچانے والوں کاتعین نہیں ہو گا ۔ جب تک ’’ طاقتور ‘‘آئین اور قانون کے زیرِ دست نہیں ہونگے، دھجیاں اُڑانے والوں کو سزائیں نہیں ملیں گی، مملکت کا سیاسی مستقبل مخدوش ہی رہنا ہے ۔ میرا عقیدہ ہے کہ خواجہ ناظم الدین کی معزولی پر یا1956 ءکے آئین کی منسوخی کا سدِ باب ہو جاتا تو 1971 ءکا سانحہ اور ہتک آمیز شکست نصیب نہ بنتی۔ مملکت کی بد قسمتی کہ طاقت کے زور پر سیاست ہتھیانے کا کھیل ، وطنی شکست و ریخت کئی مراحل کے بعد زخم خوردہ سیاسی استحکام کا سفر جب جنرل راحیل اور جنرل باجوہ تک پہنچا تودونوں نے اُسکو مزید چار چاند لگائے ۔

جنرل راحیل اور جنرل باجوہ نے اپنے عہدوں کو دوام بخشنے کی خاطر جو’’ شر‘‘تخلیق کیا، آج عفریت بن کر سامنے ہے ۔ دونوں کا مقصدایک ہی کہ تاحیات آرمی چیف رہنا ہے ۔ جنرل باجوہ کا اضافی بوجھ کہ اپنے ادارے پر بھی رحم نہ آیا۔ اپنے عزائم کو ادارے کیخلاف استعمال کر ڈالا ۔ پہلا موقع کہ ادارے کی وجہ شہرت ’’اتحاد اور تنظیم ‘‘بذریعہ اپنے سربراہ تختہِ مشق بنی رہی۔ امریکہ کے مضبوط صدر ہیری ٹرومین ( 1945-53)نے اپنے دفتر میں دیوا رپر کندہ کرایا ( THE BUCK STOPS HERE ) یعنی کہ’’ سب کچھ میں ہی میں ہوں‘‘۔آج امریکہ کے سیاسی استحکام کا راز اِسی میں پنہاں ہے ۔ ہمارے ہاں اُلٹی گنگا بہتی ہے ۔ ماضی کریدیں تو 70 سال سے مملکت میں سانپ سیڑھی کا کھیل جاری ہے۔ پہلا المیہ! طاقت کا سر چشمہ کبھی منتخب حکومت (ما سوا ئےلیاقت علی خان ) نہ بن پائی ۔ بگاڑ کی ساری ذمہ داری ہمیشہ سیاسی حکومت پر جبکہ اختیارات و احکامات ہمیشہ طاقت کے زیرِ اثر رہے ۔ دوسرا المیہ! ہر 8/10سال بعد مملکت زیرو پوائنٹ سے اپنے سیاسی استحکام کی بازیابی کے نئے سفر کا آغاز کرتی ہے۔ اس لحاظ سے 70سال کے مختصر سفر میں ہم انواع واقسام کے نظام آزما چُکے۔ تیسرا المیہ ! خواجہ ناظم الدین کی معزولی سے لیکر نگران وزیراعظم کاکڑ تک ، لمبی فہرست میں ایک وزیراعظم بھی نہیں جسکو اقتدار میں لانےکیلئے اسٹیبلشمنٹ موثر نہ رہی ہو یا کسی کو ضرورت پڑنے پر گھر بھیجنے میں کبھی کنجوسی نہ دکھائی ہو؟ ایسی اُکھاڑ پچھاڑ میں مملکت کا باجا بجتا رہا ۔ پردہِ سیمیں کے پیچھے کاریگر فراخدلی سے اپنے آپکو مسیحا، مُصلح اور مجدد گردانتے رہے ۔ 6سال میں جنرل باجوہ اور عمران خان دلجمعی سے نئی تعیناتی سے پہلے حالات کو جہاں دھکیل گئے ہیں، اُسکا منطقی انجام آج کی صورتحال ہی تھی ۔ دونوں موجودہ آرمی چیف کیلئے کانٹے بو گئے۔

دو دن پہلے اسلام آباد میں وزیراعظم انوار الحق کاکڑ صاحب کیساتھ ایک طویل نشست ہوئی ۔ ملک کے پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا کے نامی گرامی افراد شریک ہوئے ۔ یوں تو میٹنگ آف دی ریکارڈ رکھنے کی فرمائش تھی ، بہت کچھ سامنے آ چُکا ہے ۔ وزیراعظم کے جوابات تو میری امانت ، البتہ میرا سوال میری ملکیت، یہاں درج کیے دیتا ہوں ۔’’ وزیراعظم صاحب! میں اس معاملہ میں یکسو ہوں کہ آئین کےمطابق 90 روز میں الیکشن کروانا آپ کیلئے کوئی مشکل نہ تھا۔ مرضی کے مطلوبہ نتائج بھی حاصل ہونا تھے ۔ شہباز حکومت نے وسیع تر قومی مفاد اور ناگزیر وجوہات پرجو اقدامات کیے انتخابات کو فروری تک ملتوی کرنے کی گنجائش دے گئے ۔ اگر موافق حالات کے باوجود ا لیکشن نہیں ہوسکے تو یہ بات طے کہ فروری میں بھی الیکشن کے انعقاد میں آپکی حوصلہ شکنی رہنی ہے ۔ میرا ڈر ہے کہ آئین سے جو انحراف’’ نظریہِ ضرورت‘‘ کے تحت ہوچُکا ۔ ایسے نظریہ کی ضرورت من و عن فروری میں بھی موجودرہنی ہے ۔ خدشہ ہے ، انتخابات کے مزید التوا پریقیناً آئین ساقط ہونے کو ہے ‘‘ ۔

آج کی تاریخ تک تو حکومت سے حکمران’’ کمبل‘‘بن کر بغل گیر رہے ہیں ۔ ملکی تاریخ میں پہلا موقع کہ حکومت’’کمبل‘‘بن کر حکمرانوں کو اپنی لپیٹ میں لے چُکی ہے ۔ بظاہر موجودہ حکومت کا اس کمبل سے جان چھڑانا ناممکن نظر آتا ہے ۔ نواز شریف آ بھی گئے تو بلا شبہ بہت پُر تپاک استقبال متوقع ہے ۔ اگرچہ مینار پاکستان پر بہت بڑا شو ہوگا۔ بیانیہ مع الیکشن کی غیر موجودگی میں چند ماہ اندر تاثر زائل ہو جائے گا ۔ یوں اسحاق ڈار ایسی صورتحال میں انتقام کی زحمت سے بھی محفوظ رہینگے اور معیشت کی بحالی بھی وعدہ فردا رہنی ہے ۔ معمہ لاینحل کہ جنرل باجوہ اور جنرل فیض حمید کو سیاسی عدمِ استحکام کی دلدل میں دھکیلنے پر معاف کیونکر کیا جائے؟

یقیناً ماضی میں ایسا کام شجر ممنوعہ رہا ۔ مگر ادارے کیخلاف گھناؤنی سازش پر تو اُنکو گرفت میں نہ لانا ادارے کے اپنے لیے مضر ہے۔ نواز شریف نے قومی مجرموں کا نام لے ہی لیا تو ایسا شور شرابا کیوں؟ کہ بے چارے نواز شریف کو شرمندگی اُٹھانا پڑی ۔ نواز شریف ! تمہاری مجال کہ’’ اکبر نام لیتا ہے، خدا کا اس زمانے میں‘‘۔ بالآخر غائب ہونے کے بعدآج بروز جمعرات 12بجے دوپہر میری حسان نیازی سے ملاقات ہو گئی ہے۔ بہت کچھ کہنے کو،فی الحال زبان گنگ، ملاقات پر اللہ کا سجدہ شکر بجا لاتا ہوں۔

بشکریہ جیو نیوز اردو

نواز شریف کی وطن واپسی کاسفر آج سے شروع ، سعودی عرب پہلی منزل، خصوصی طیارہ بک



مسلم لیگ (ن) کے قائد نواز  شریف کی وطن واپسی کے لیے دبئی سے خصوصی طیارہ بُک  کرا لیا گیا۔

ذرائع کے مطابق کہ نواز شریف جس خصوصی پرواز سے پاکستان پہنچیں گے اسے ’امید پاکستان‘ کا نام دیا جائے گا ، اس اسپیشل فلائٹ میں تقریباً 150 افراد کی گنجائش ہے۔

ذرائع نے بتایا کہ نواز شریف عمرے کی ادائیگی کیلئے آج لندن سے سعودی عرب روانہ ہوں گے جہاں ایک ہفتہ قیام کے دوران وہ سعودی اعلیٰ حکام سے ملاقاتیں کریں گے ، سعودی عرب کا دورہ مکمل کرکے 17 یا 18 اکتوبر کو دبئی پہنچیں گے۔

ذرائع کے مطابق نواز شریف کی دبئی میں بھی کئی ملاقاتیں طے ہیں، وہ دبئی میں 3 دن قیام کے بعد 21 اکتوبر لاہور کیلئے روانہ ہوں گے، ان کے ہمراہ طیارے میں لیگی رہنما اور صحافی بھی ہونگے۔

پاکستان واپسی سے قبل نواز شریف کے 4 ممالک کے دورے کا شیڈول آ گیا



  مسلم لیگ (ن) کے ذرائع کا کہنا ہے کہ نوازشریف کا 9 اکتوبر کو لندن سے سعودی عرب روانہ ہونے کا امکان ہے۔

لیگی ذرائع کے مطابق نوازشریف سعودی عرب سے 14 اکتوبر کو دبئی روانہ ہوں گے،ان کا دبئی سے چین او رقطر جانے کا بھی امکان ہے۔نوازشریف 21 اکتوبر کو دبئی سے لاہور روانہ ہوں گے،ن لیگی ذرائع کا کہنا ہے کہ 19اکتوبر کو لاہور ہائیکورٹ میں ضمانت کی درخواست دائر کرنے کا امکان ہے۔

نوازشریف 21 اکتوبر شام 7 بجے لاہور پہنچیں گے،اگر نوازشریف کو حفاظتی ضمانت مل جاتی ہے تو پھر وہ لاہور ائیر پورٹ سے مینار پاکستان پہنچیں گے۔

افسوس،آج تک صرف سیاستدانوں کا ہی احتساب ہوا: شہباز شریف



 

سابق وزیراعظم میاں شہباز شریف نے کہا ہے کہ افسوس کی بات ہے کہ ہمیشہ سیاستدانوں کا ہی احتساب کیا گیا ہے۔لیکن اب بہت کچھ بدل چکا ہے ۔وہ لاہور میں پریس کانفرنس سے خطاب کر رہے تھے۔ پریس کانفرنس کے دوران صحافی کے سوال پر شہباز شریف برہم ہو گئے۔ صحافی نے جب نواز شریف کی آمد کے حوالے سے سوال کیا تو شہباز شریف نے غصہ سے کہا کہ”نواز شریف نے کب انا ہے بار بار نہ پوچھیں”: شہباز شریف نے کہا کہ
اللہ کو منظور ہوا تو نواز شریف 21 اکتوبر کو پاکستان آئینگے، یہ سوال اب بار بار نہیں پوچھا جانا چاہیے’ پریس کانفرنس کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ نواز شریف کی واپسی میں کوئی قانونی رکاوٹیں حائل نہیں ،لیگل ٹیم نے انہیں آنے کیلئے کہہ دیا ہے ۔سابق وزیراعظم قانون کا سامنا کرنے کیلئے ہر جگہ پیش ہونگے۔انہوں نے کہا کہ2013اور 2018 میں عوام نے ووٹ کو عزت دو کے نعرے پر ووٹ دیا ۔عوام اب بھی ہم پر اعتبار کرتے ہیں اور ہمیں یقین ہے کہ وہ ہمیں مایوس نہیں کریں گے۔ووٹ کو عزت دو کا مطلب ہے ووٹروں کی خدمت کرو۔جب ان سے نواز شریف کے
وطن واپسی سے قبل سعودی عرب جانے سے متعلق پوچھا گیا تو انہوں نے کہا کہ انہیں سعودی عرب روانگی کی تفصیلات کا علم نہیں ۔ مستقبل میں پیپلز پارٹی کے ساتھ چلنے کے حوالے سے شہباز شریف کا کہنا تھا کہ (ن ) لیگ ، پیپلز پارٹی کی سیاست علیحدہ علیحدہ ہے
ریاست بچ گئی ہے تو سیاست بھی بچ جائے گی گزشتہ ایک سال کے دوران جو کچھ کیا اس پر کوئی ملال نہیں ۔انہوں نے کہا کہ ہم نے معاشی ایجنڈا تیار کر لیا ہے،نواز شریف خود قوم کے سامنے معاشی ایجنڈا پیش کرینگے۔احتساب کے بارے نیں ان کا کہنا تھا کہ
آج تک احتساب کی لاٹھی صرف سیاستدانوں پر چلی ہے اور یہ تاریخ کاسیاہ باب ہے۔

مسلم لیگ ن کا مفاہمتی گروپ نواز شریف کی وطن واپسی ملتوی کرانے کیلئے سرگرم ہو گیا



مسلم  لیگ ن کا مفاہمتی پالیسی کا حامی گروپ نواز شریف کی واپسی مؤخر کرانے میں سرگرم ہو گیا جبکہ پارٹی کے دوسرے گروپ کی خواہش ہے کہ واپسی ملتوی نہ ہو۔

پارٹی ذرائع  کا کہنا ہے کہ مفاہمتی گروپ نے وطن واپسی ملتوی کرنے کی تجویز دی ہے، تاہم قائد ن لیگ  نے اس تجویز پر فوری ردعمل دینے سے گریز کیا ہے۔

 ذرائع کے مطابق  مفاہمتی گروپ کا مؤقف ہے کہ مہنگائی، بے روزگاری سے پریشان عوام کو نواز شریف کی وطن واپسی میں زیادہ دلچسپی نہیں، موجودہ حالات میں عوام کی جانب سے نواز شریف کے شایان شان استقبال کی توقع رکھنا مناسب نہیں۔

ذرائع نے مزید بتایا کہ الیکشن کے قریب یا اس کی باقاعدہ تاریخ کا اعلان ہونے کے بعد نواز شریف کو واپس آنا چاہئے۔

نواز شریف اِن، عمران خان آؤٹ



تحریر:۔ انصار عباسی

ن لیگ اور نواز شریف نے اُس بیانیہ کو فوراً بدل دیا جواُن کو اسٹیبلشمنٹ اور عدلیہ کے ساتھ ٹکراؤ کی طرف لے جا سکتا تھا۔ حال ہی میں میاں نواز شریف نے ایک ویڈیو خطاب میں اپنے پارٹی رہنماؤں سے بات کرتے ہوئے سابق آرمی چیف جنرل باجوہ، سابق آئی ایس آئی چیف جنرل فیض، سابق چیف جسٹسز ثاقب نثار، آصف کھوسہ اور آئندہ سال اکتوبر میں بننے والے مستقبل کے چیف جسٹس اعجاز الاحسن کو 2017میں اپنی حکومت ختم کروانے کی سازش کا ذمہ دار ٹھہراتے ہوئے اس بات کا ارادہ ظاہر کیا تھاکہ اب سب کا احتساب کیا جائے گااور قوم کسی صورت اُن کو معاف نہیں کرے گی۔

میاں صاحب کے اس بیان کے حوالے سے کہا گیا کہ یہ نواز شریف اور ن لیگ کا آئندہ انتخابات کے لئے بیانیہ ہو گا جس پر اس خطرےکا اظہار کیا گیا کہ ایسا بیانیہ نواز شریف کو فوج اور عدلیہ کے ساتھ ایک بار پھر ٹکراو کی طرف لے جائے گا۔

یہ بھی کہا گیا کہ اس بیانیہ سے نواز شریف کی واپسی کے راستے میں رکاوٹیں پیدا ہو سکتی ہیں۔ یہ بھی کہا گیا کہ نواز شریف کے اس بیان کے بعد شہباز شریف کے ذریعے اُن کو پیغام دیا گیا کہ اس بیانیہ کو اپنانے سے گریز کریں۔ عمومی طور پر یہ خیال کیا جارہا ہے کہ نواز شریف اور ن لیگ کو آئندہ انتخابات کیلئے طاقتور حلقوں کی حمایت حاصل ہے۔ بہر حال وجہ جو بھی ہوئی ن لیگ اور نواز شریف نے اپنا بیانیہ بدل لیا جس کا باقاعدہ اعلان دو دن قبل اسحاق ڈار نے لندن میں میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کیا۔

ڈار صاحب نے کہا کہ میاں صاحب ،اُن سب کے احتساب کا معاملہ اپنے رب کے سپرد کر چکے ہیں،جنہوں نے اُن کے خلاف سازش کی اور اُن کی حکومت کو ختم کیا ۔ ڈار صاحب نے یہ بھی کہا نواز شریف پاکستان کے موجودہ حالات میں پوری توجہ کے ساتھ ملک و قوم کے حالات بہتر بنانے کیلئےمعاشی ایجنڈے پر فوکس کریں گے نہ کہ انتقام اور بدلے کی طرف۔میاں نواز شریف نے کسی کے کہنے پر ایسا کیا یا خود سے ہی خیال آ گیا ،دونوں صورتوں میں ن لیگ نے فوج اور عدلیہ سے ٹکراو کی پالیسی نہ اپنانے کا فیصلہ کیا ہے۔ نواز شریف کے ویڈیو بیان کے بعد پیدا ہونے والی صورتحال میں اُن کی 21 اکتوبر کو واپسی کے پروگرام سے متعلق شکوک و شبہات پیدا ہو گئے تھے۔

لیکن اب لگ ایسا رہا ہے کہ میاں صاحب پروگرام کے مطابق پاکستان واپس آ جائیں گے اور ن لیگ کو آئندہ انتخابات کیلئے الیکشن مہم میں لیڈ کریں گے۔ یعنی میاں صاحب جن کو ماضی میں سیاست سے آئوٹ کر دیا گیا تھا وہ سیاست میں دوبارہ اِن ہونے جا رہے ہیں۔ ایسے میں جب میاں صاحب سیاست میں اِن ہو رہے ہیں عمران خان سیاست سے آئوٹ ہو رہے ہیں۔ توشہ خانہ کیس میں عمران خان پہلے ہی الیکشن لڑنے کیلئے نااہل ہو چکے ہیں،جب کہ سائفر کیس میں پیش کئے گئے چالان میںچیئرمین تحریک انصاف کو ایف آئی اے قصور وار تصور کرتی ہے۔

سائفر کیس کے ساتھ ساتھ9 مئی کے مقدمات عمران خان اور اُن کی سیاست کیلئے سنجیدہ خطرہ ہیں لیکن ان تمام تر خطرات کے باوجود خان صاحب اور تحریک انصاف کی طرف سے اُس فوج مخالف بیانیے اور 9مئی کےواقعات کی مذمت اور اس ماضی سے دوری کیلئے کوئی کوشش نہیں ہو رہی۔ ضرورت اس امر کی تھی کہ تحریک انصاف کی قیادت اداروں سے ٹکراو والی صورتحال کو ختم کرنے کیلئے اپنے ووٹرز ،سپورٹرز اور سوشل میڈیا میں فوج مخالف بیانیہ کے خلاف آواز اُٹھاتی، اُسے سختی سے رد کرتی اور ہر ایسے فرد (جو اپنے آپ کو تحریک انصاف سے جوڑتا ہے) سے لاتعلقی کا اظہار کرتی جو فوج اور اس کی قیادت کو بدنام کر رہا ہے۔

تاہم افسوس کہ نہ عمران خان ایسا کر رہے ہیں نہ ہی تحریک انصاف کی دوسری قیادت۔ ویسے تو خان صاحب اور تحریک انصاف کی بڑی خواہش ہے کہ فوج کے ساتھ اُن کے تعلقات بہتر ہوں لیکن ایسا اُس وقت تک ناممکن ہے جب تک کہ تحریک انصاف فوج مخالف بیانیہ کو رد نہیں کرتی۔ یہ بنیادی نکتہ سمجھنے میں عمران خان کو کتنا وقت لگے گا اس بارے میں کچھ نہیں کہا جا سکتا۔

بشکریہ جیونیوز اردو