Tag Archives: پاکستان

گلگت بلتستان کے مختلف علاقوں میں زلزلے کے جھٹکے، خوف و ہراس



پاکستان کے شمالی علاقے گلگت بلتستان اور گردونواح میں زلزلے کے جھٹکے محسوس کیے گئے ہیں۔

ابتدائی اطلاعات کے مطابق زلزلے کے باعث لوگوں میں خوف و ہراس پھیل گیا، گھروں اور دفاتر سے باہر نکل آئے۔

ابھی تک زلزلے کے باعث کسی جانی یا مالی نقصان کی اطلاع موصول نہیں ہوئی۔

’ابھی تو مین جوان ہوں ‘، اداکارہ میرا فلم میں ہیروئن بننے کی خواہاں



لاہور( این این آئی) نامور اداکارہ میرا نے کہا ہے کہ میرا کیرئیر ابھی ختم نہیں ہوا بلکہ میں نے تو ابھی بہت کام کرنا ہے، فلم انڈسٹری کے جو حالات ہیں وہ سب کے سامنے ہیں۔

اپنے بیان میں انہوں نے کہا کہ شوبز سے ہرگز دور نہیں ہو ئی، مجھے یقین ہے جب اچھی فلمیں بنیں گی تو یقینی طور پر میں بطور ہیروئن کسی بھی ہدایتکار کی پہلی ترجیح ہوں گی۔

انہوں نے کہا کہ میں وہی کردار ادا کرنا چاہتی ہوں جن کی وجہ سے مجھے مقبولیت ملی۔

میرا نے کہا کہ مجھے بھارت سے بھی کام کرنے کی پیشکش ہوئی لیکن میں نے پاکستان کو ترجیح دی ہے ۔

یوکرین کی مدد کے حوالے سے پاکستان خود کوئی بات کر سکتا ہے: امریکا



ترجمان امریکی نیشنل سیکیورٹی کونسل جان کربی نے کہا ہے کہ پاکستان کی جانب سے اگر یوکرین کی مدد کی گئی ہے تو اس پر وہی بات کر سکتا ہے۔

پریس بریفنگ کے دوران جان کربی نے کہاکہ دنیا کے کئی ممالک کی جانب سے یوکرین کی مدد کی جا رہی ہے ان میں سے کچھ ممالک ایسے ہیں جو عوامی سطح پر توجہ چاہتے۔

ترجمان نے کہاکہ امریکا کا عمران خان اور وائٹ ہائوس کے باہر ہونے والے مظاہرے سے کوئی تعلق نہیں۔

جان کربی کا کہنا تھا کہ عمران کا معاملہ پاکستان کا داخلی ایشو ہے اس پر کوئی بھی موقف پاکستانی حکومت کی جانب سے ہی دیا جا سکتا ہے۔

کرکٹ ورلڈ کپ: آسٹریلیا کی وارم اپ میچ میں پاکستان کیخلاف بیٹنگ جاری



کرکٹ کے عالمی مقابلے سے قبل پاکستان اور آسٹریلیا کی ٹیمیں آج وارم اپ میچ میں آمنے سامنے ہیں۔

آسٹریلیا نے وارم اپ میچ میں پاکستان کے خلاف ٹاس جیت کر بیٹنگ کا فیصلہ کیا ہے جس کے بعد کھیل جاری ہے۔

پاکستان اور آسٹریلیا کی ٹیمیں وارم اپ میچ میں حیدرآباد کے راجیوگاندھی اسٹیڈیم میں آمنے سامنے ہیں۔

آج کے میچ میں قومی ٹیم کی قیادت شاداب خان کر رہے ہیں، بابر اعظم بحیثیت بیٹر ٹیم میں موجود ہیں جبکہ وکٹ کیپر بیٹر محمد رضوان کو آرام دیا گیا ہے۔ ان کی جگہ محمد حارث فرائض سنبھالیں گے۔

واضح رہے کہ کرکٹ ورلڈ کپ کا آغاز 5 اکتوبر سے ہونے جا رہا ہے اور پاکستان اپنا پہلا میچ 6 اکتوبر کو نیدرلینڈ کے خلاف کھیلے گا۔

قومی ٹیم کو اس سے قبل پہلے وارم اپ میچ میں نیوزی لینڈ کے ہاتھوں شکست کا سامنا کرنا پڑا تھا۔

ورلڈ کپ: حسن علی کے سسر پاک بھارت میچ کے لیے بے تاب کیوں؟



قومی کرکٹ ٹیم کے فاسٹ بولر حسن علی کے سسر لیاقت خان احمد آباد میں پاکستان اور بھارت کے درمیان میچ کے لیے بے تاب ہیں اور ان کو اس گھڑی کا انتظار ہے جب پاکستانی ٹیم احمد آباد پہنچے گی۔

فاسٹ بولر حسن علی کے سسر لیاقت خان پاکستان اور بھارت کے درمیان میچ کے موقع پر اپنی بیٹی اور نواسی سے ملنے کے خواہشمند ہیں۔

حسن علی کے سسر لیاقت خان بھارتی شہر ہریانہ سے تعلق رکھتے ہیں۔ حسن علی اور سامعہ کی شادی 2019 میں دبئی میں ہوئی تھی جس کے بعد سامعہ اب تک بھارت نہیں گئیں۔

لیاقت خان نے میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ میں اپنی نواسی سے ملنا چاہتا ہوں اور مزید انتظار میرے لیے مشکل ہو رہا ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ جب میری بیٹی نے حسن علی سے شادی کی خواہش کا اظہار کیا تو میں رکاوٹ نہیں بنا تھا کیوں کہ اگر میری بیٹی خوش ہے تو میں بھی خوش ہوں۔ اور اس سے فرق نہیں پڑتا کہ شادی کس سے ہو رہی ہے۔

ایک اور سیاسی جماعت



تحریر:۔ عرفان صدیقی

کیا پاکستان کو درپیش گوناگوں مسائل کا حل ایک نئی سیاسی جماعت کا قیام ہے؟

یہ سوال میڈیا کی زینت بنا ہوا ہے۔ تین جانے پہچانے سیاستدان، شاہد خاقان عباسی، مفتاح اسماعیل اور مصطفی نوازکھوکھر اِس مفروضہ نئی سیاسی جماعت کے مبلّغین یا محرّکین سمجھے جاتے ہیں۔ تینوں سے میری بہت گہری دوستانہ قربت نہ سہی لیکن بہت اچھی دعا سلام ہے۔ میں تینوں کے بارے میں نہایت مثبت رائے رکھتا ہوں۔ تینوں اعلیٰ تعلیم یافتہ ہیں۔ تینوں قومی مسائل کا درد بھی رکھتے ہیں اور مسیحائی کا جذبہ بھی۔ ان کی نیک نیّتی پر بھی کوئی سوال نہیں اٹھایا جاسکتا۔ لیکن کیا وہ پاکستان کے مرضِ کہن کی ٹھیک تشخیص کررہے ہیں؟ کیا اُن کا اخذ کردہ نتیجہ درست ہے کہ پہلے سے موجود تمام سیاسی جماعتیں کُلّی طور پر ناکام رہی ہیں؟ کیا پاکستان کے موجودہ زوال وانحطاط کی ذمہ داری صرف سیاستدانوں اور سیاسی جماعتوں پر عائد ہوتی ہے؟ اور کیا پون صدی پر محیط تمام المیے، سقوط ڈھاکہ کا سانحہ، مختلف شعبوں کی شکست وریخت، اداروں کی ٹوٹ پھوٹ، آسیب کی طرح خیمے گاڑے بے یقینی، جڑیں تک ہلا ڈالنے والا عدمِ استحکام اور اِن عوارض کے بطن سے پھوٹنے والی معاشی غارت گری کی ذمہ داری سیاسی جماعتوں اور سیاستدانوں کے کندھوں پر ہے؟ سب سے اہم سوال یہ کہ اس صورتِ حال میں انقلابی تبدیلی لانے اور پاکستان کو کمزوری ولاغری سے نکال کر توانا جوانِ رعنا بنانے کا واحد نسخہ کیا ایک نئی پارٹی کا قیام ہی ہے؟ وہ بھی ایسی جس کے ڈاکٹر، طبیب، وید، سنیاسی اور مسیحا برسوں کسی نہ کسی سیاسی شفاخانے میں عرق کشید کرتے ، معجونیں اور کشتے بناتے اور پُڑیاں لپیٹتے رہے ہوں؟

سقوطِ ڈھاکہ کے بعد سے اب تک وفاق میں تین سیاسی جماعتوں کی حکومتیں رہی ہیں۔ پیپلزپارٹی نے مجموعی طورپر پندرہ برس، مسلم لیگ (ن) نے سوا دس سال اور تحریک انصاف نے پونے چار برس حکومت کی۔ اِس دوران ذوالفقار علی بھٹو، محترمہ بے نظیر بھٹو (دو بار)، محمد نوازشریف (تین بار)، جزوی طورپر شاہد خاقان عباسی ، یوسف رضاگیلانی، راجہ پرویز اشرف اور عمران خان (ایک ایک بار) وزارت عظمٰی کے منصب پر فائز رہے۔ ایک چوتھی ہمہ مقتدر جماعت نے کم وبیش اکیس برس کمال جاہ وجلال کے ساتھ حکمرانی کی۔(نگرانوں کو چھوڑ کر) 29 برس9 منتخب وزرائے اعظم کے حِصّے میں آئے۔ یہ بھی یاد رکھنے کی بات ہے کہ آمروں کے عہد میں میائوں کی آواز نکالنے سے عاجز بھیگی بلّیاں بن جانے والے ادارے، جمہوری حکمرانوں کا دور آتے ہی شیروں کا رُوپ دھار کر شاہراہِ دستور کے چار سُو دھاڑنے لگے۔ سپریم کورٹ کی پیشانی پر جھومر کی طرح آراستہ ترازو کے پلڑے کبھی متوازن نہ ہوپائے۔ مارگلہ سے آتی موسم شناس بلکہ موسم گَر ہوائوں کے ساتھ ساتھ مسلسل ہلکورے کھاتے رہے۔ آمروں کو خلعتِ جواز بخشنے اور اُنہیں وردی سمیت سیاسی اکھاڑوں میں کشتی لڑنے کی اجازت دینے والی عدالتوں نے سیاستدانوں کے بارے میں ایسے ایسے فیصلے صادر کئے کہ تصّور سے بھی جھُرجھری آجاتی ہے۔ وہ قاتل قرار پاکر مصلُوب ہوئے، ہائی جیکر قرار پاکر طویل قیدوبند کی سزائیں پائیں، بدعنوان قرار پاکر زندانوں کا رزق ہوئے، خائن قرار پاکر تاحیات سیاست بدر کردئیے گئے، برسوں عدالتوں، کچہریوں میں رُلتے رہے، الزام ودُشنام کے تیروں سے چھلنی کئے جاتے رہے اور قتل ہوتے رہے۔ کیا تاریخ کا یہ منظر نامہ نئی پارٹی کے کہنہ مشق محرّکین کی آنکھوں سے محو ہوچکا ہے؟ کیا وہ اپنے دل پر ہاتھ رکھ کر اطمینانِ قلب سے کہہ سکتے ہیں کہ سیاستدان اور سیاسی جماعتیں واقعی ناکام رہیں؟ کیا وہ بقائمی ہوش وحواس یہ دعویٰ کرسکتے ہیں کہ سیاستدانوں کو ہمیشہ اپنے منشور پر عمل درآمد، اپنے اہداف کی تکمیل، اپنے فلسفۂِ حکمرانی کی عملی تشکیل اور کسی خارجی رخنہ اندازی سے بے نیاز ہوکر پوری توجہ اور انہماک سے کام کرنے کے مواقع ملے اور وہ ناکام رہے؟ یہ نہیں کہا جاسکتا کہ سیاسی حکومتیں ہر طرح کی کجی، عیب، نقص یا نااہلی سے کُلّی طور پر پاک تھیں۔ بس وہ ایسے ہی تھیں جیسے بیسیوں دوسرے ممالک میں ہیں۔ ہماری سیاست پر دو جماعتوں کا غلبہ رہا۔ اگر اُن کی لغزشوں اور کمزوریوں کی فہرست بنائی جاسکتی ہے تو جمہوریت اور پاکستان کیلئے اُن کی جدوجہد، اُن کی قربانیوں اور عوامی فلاح وبہبود، پاکستان کی ترقی وخوشحالی کیلئے اُن کی مقدور بھر کارکردگی کی بیاض بھی مرتّب کی جاسکتی ہے۔ اگر یہ سیاستدان اقتدار کے ایوانوں کی زینت رہے تو دارورسن اور زندانوں کی رونق بھی اُنہی کے دم قدم سے رہی۔ اچھی یا بُری کارکردگی کی فہرست بناتے وقت ایک وسیع وعریض کالم اِس تفصیل کیلئے بھی رکھ لینا چاہئے کہ اُن کے عہدِحکومت میں حکمرانی کی باگیں کس کے ہاتھ میں تھیں؟

قصور نہ دو روایتی جماعتوں کا ہے نہ دوجماعتی نظام کا۔ سیاست کے مفکرین، دوجماعتی نظام کو کسی بھی معاشرے کی بلوغت اور جمہوریت کی پختگی کی علامت قرار دیتے ہیں۔ امریکہ میں گزشتہ پونے دو سو برس سے دو جماعتیں ہی حکمراں چلی آرہی ہیں۔ ستّر فی صد عوام دوبڑی جماعتوں، ری پبلکن اور ڈیموکریٹس کے ساتھ رجسٹرڈ ہیں۔ کسی کے ساتھ وابستہ نہ ہونے والوں کی تعداد ساڑھے ستائیس فی صد ہے۔ صرف ڈھائی فی صد کے لگ بھگ تیسرے آپشن کے دلدادہ ہیں۔ برطانیہ میں کنزرویٹو اور لیبر پارٹیاں ایک سو سال سے باری باری حکومت کررہی ہیں۔ گزشتہ بتیس انتخابات میں انیس بار کنزرویٹو اور تیرہ مرتبہ لیبرز نے حکومت بنائی۔ کوئی نہیں کہتا کہ یہ باریاں لے رہے ہیں۔ کہتا بھی ہے تو اس کا چراغ نہیں جلتا۔ برسوں سے تیسری سیاسی قوت پیرہن بدل بدل کر جتن کررہی ہے لیکن بات بننے میں نہیں آرہی۔

بھارت میں بھی عملاً دو جماعتی نظام ہی کارفرما ہے۔ بھارت کے الیکشن کمیشن نے سیاسی جماعتوں کی درجہ بندی کا ایک اچھا نظام وضع کررکھا ہے۔ یہ درجہ بندی جماعتوں کی انتخابی کارکردگی کی بنیاد پر کی جاتی ہے۔ ایک خاص حد تک نشستیں یا ووٹ نہ لے سکنے والی جماعت درجہ بندی میں نیچے لڑھک جاتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ وہاں ڈھائی ہزار سے زائد رجسٹرڈ سیاسی جماعتوں میں سے صرف چھ کو قومی جماعتیں ہونے کا سرکاری اعزاز حاصل ہے۔ صرف چوّن جماعتیں، ریاستی جماعتوں کا تشخص رکھتی ہیں۔ باقی کو محض شامل باجہ قرار دیاجاسکتا ہے۔ ہمارے ہاں دو سو کے لگ بھگ جماعتیں رجسٹرڈ ہیں۔ سب کی حیثیت ، سب کا درجہ ایک سا ہے۔ ان میں آئے دن اضافہ ہورہا ہے کیونکہ آئین اس کی اجازت دیتا ہے۔ 2018کے انتخابات میں پچاسی جماعتیں میدان میں اتریں۔ تین جماعتوں، پی۔ٹی۔آئی(31.82 فی صد)، مسلم لیگ ’ن‘ (24.35 فی صد) اور پیپلزپارٹی (13.03 فی صد) نے مجموعی طورپر ستّر فی صد کے لگ بھگ (69.20 فی صد) ووٹ لئے۔ باقی کے 30 فی صد ووٹ 82 جماعتوں میں تقسیم ہوگئے۔ تینتیس جماعتیں ایسی تھیں جس میں سے ہر ایک کے ووٹ تین ہزار سے کم رہے۔ پندرہ جماعتیں دَس ہزار تک بھی نہ پہنچیں۔ بیس ایسی تھیں جن میں سے ہر ایک کو ایک لاکھ سے بھی کم ووٹ ملے۔ متحدہ مجلس عمل، جس میں جمعیت علما اسلام (ف) اور جماعت اسلامی بھی شامل تھیں، صرف 4.85 فی صد (پچیس لاکھ سے کچھ زائد) ووٹ حاصل کرپائیں۔ اگر قومی جماعت کے لئے بھارتی الیکشن کمیشن والا فارمولا یہاں بھی ہوتا تو بڑے بڑے نام، بے نام ہوجاتے اور بیسیوں نام نہاد جماعتیں معدوم ہوچکی ہوتیں۔

علّامہ اقبال نے مردِمومن کے زوال کے بارے میں کہا تھا ۔ ’’سبب کچھ اور ہے تُو جس کو خود سمجھتا ہے۔‘‘ علّامہ کے الفاظ مستعار لیتے ہوئے ایک نئی جماعت کے محرّکین سے کہا جاسکتا ہے کہ ملک وقوم کو درپیش موجودہ مسائل کا سبب وہ نہیں، جسے وہ جواز بنارہے ہیں۔ نہ ہی اُن کی دانا وبینا قیادت کے پرچم تلے کوئی نئی جماعت ہمارے دامانِ پارہ پارہ کی بخیہ گری کرسکتی ہے۔ سبب کیا ہے ؟ وہ خود اچھی طرح جانتے ہیں۔

بشکریہ جنگ نیوز اردو

مہنگائی کی شرح میں 2 فیصد اضافہ ریکارڈ، اعدادوشمار جاری



پاکستان میں ایک بار پھر مہنگائی کی شرح 31.44 فیصد پر پہنچ گئی ہے، ستمبر کے دوران ملک میں مہنگائی کی شرح میں 2 فیصد اضافہ ریکارڈ کیا گیا ہے۔

ادارہ شماریات کی جانب سے جاری کیے گئے اعدادوشمار کے مطابق ماہ ستمبر کے دوران شہری علاقوں میں مہنگائی کی شرح میں 1.67 فیصد اضافہ ہوا ہے۔

رپورٹ کے مطابق ستمبر میں دال لوبیا7.1 فیصد، دال ماش 9.46، چینی 10.8، سبزیاں 11.7، دال مسور 19.8 اور پیاز 39.3 فیصد مہنگا ہوا۔

اس کے علاوہ پیٹرولیم مصنوعات 11.3 جبکہ ایل پی جی کی قیمت میں 9.2 فیصد اضافہ ہوا جس کی وجہ سے ٹرانسپورٹ کے کرائے 4.2 فیصد بڑھ گئے۔

ادارہ شماریات نے بتایا ہے کہ ستمبر 2022 سے ستمبر 2023 تک بجلی کی قیمت میں 163.7 فیصد اضافہ ریکارڈ کیا گیا ہے، جبکہ چینی 93.4، آٹا 87.5 اور چائے کی قیمت میں 83.6 فیصد اضافہ ہوا۔

ادارہ شماریات نے بتایا ہے کہ ایک سال کے دوران ملک میں ٹرانسپورٹ کے کرائے 55.6 فیصد بڑھے، اس کے علاوہ اسٹیشنری 42.7 جبکہ گھریلو سامان کی قیمت میں 38.2 فیصد اضافہ ریکارڈ کیا گیا۔

انسداد دہشتگردی کے لیے پاکستان سے تعاون جاری رکھا جائے گا: امریکا



امریکا نے کہا ہے کہ واشنگٹن انسداد دہشت گردی کے لیے پاکستان کے ساتھ کثیرالجہتی فورمز پر تعاون جاری رکھے گا۔

امریکی محکمہ خارجہ کے ترجمان میتھیو ملر نے پریس بریفنگ دیتے ہوئے کہاکہ انسداد دہشت گردی کے لیے پاکستان سے تعاون کیا جا رہا ہے۔

انہوں نے کہاکہ پُرتشدد انتہا پسندی کے مقابلے کی خاطر پاکستان کی کوششوں میں بہتری کے لیے تعاون جاری رکھا جائے گا۔

میتھیو ملر نے پاکستان میں ہونے والے خود کش حملے کی مذمت کی۔ اس کے علاوہ کینیڈا میں سکھ رہنما کے قتل پر ان کا کہنا تھا کہ کینیڈا کی حکومت کے ساتھ اس معاملے پر قریبی رابطے میں ہیں۔

انہوں نے کہاکہ ہردیپ سنگھ کے قتل کے معاملے پر بھارتی حکومت پر زور دیا ہے کہ وہ تحقیقات میں کینیڈا کے ساتھ تعاون کرے۔

پاکستان عالمی بینک سے قرض لینے والا سب سے بڑا ملک بن گیا



اسلام آباد (این این آئی) پاکستان عالمی بینک سے قرض لینا والا سب سے بڑا ملک بن گیا۔

ایک رپورٹ کے مطابق سال 2023 میں پاکستان نے انٹرنیشنل ڈویلپمنٹ ایسوسی ایشن پروگرام کے تحت 2 ارب 30 کروڑ ڈالرز کا قرض لیا جبکہ آئی ڈی اے سے سیلاب متاثرین کو ایک ارب 70 کروڑڈالرکی امداد فراہم کی گئی۔

رپورٹ کے مطابق سیلاب متاثرین کو مکانات کی تعمیر اور فصلوں کے لیے امداد دی گئی، سیلاب متاثرین کو تعلیم و صحت کے شعبوں کے لیے امداد دی گئی، آئی ڈی اے کے ذریعے پاکستان کو بجٹ سپورٹ کے لیے ایک ارب ڈالرز فراہم کیے گئے۔

رپورٹ میں بتایا گیا کہ پنجاب میں موسمیاتی تبدیلیوں کا مقابلہ کرنے کے لیے 20 کروڑ ڈالر کا پروگرام شروع کیا گیا۔

پاکستان کی ہونہار بیٹی نائلہ کیانی کا ایک اور اعزاز



پاکستان کی خاتون کوہ پیما نائلہ کیانی ایک اور اعزاز اپنے نام کرنے میں کامیاب ہو گئی ہیں۔

نائلہ کیانی نے چین میں ماؤنٹ چو ایو کو سر کر لیا ہے اور وہ یہ کامیابی حاصل کرنے والی پاکستان کی پہلی خاتون بن گئی ہیں۔

نائلہ کیانی نے آج 8 ہزار 188 میٹر بلند ماؤنٹ چو ایو کو سر کیا، اس چوٹی کا شار دنیا کی چھٹی بلند ترین چوٹی میں ہوتا ہے۔

نائلہ کیانی کو یہ اعزاز بھی حاصل ہے کہ وہ 8 ہزار میٹر بلند 10 چوٹیاں سر کرنے والی پہلی پاکستان خاتون کوہ پیما بن گئی ہیں۔ نائلہ کیانی اور سربازخان آج چو ایو سر کرنے والی ٹیم میں شامل تھے۔

واضح رہے کہ نائلہ کیانی کا تعلق راولپنڈی کی تحصیل گوجر خان سے ہے۔

قائمہ کمیٹی سینیٹ: حکومت پاکستان اور آزاد کشمیر کے درمیان معاملات معاہدہ کراچی کے مطابق حل نہ ہونے کا انکشاف



سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے امور کشمیر و گلگت کے اجلاس میں میں انکشاف ہوا ہے کہ حکومت پاکستان اور آزادکشمیر کے درمیان معاملات معاہدہ کراچی کے مطابق حل نہیں ہو رہے۔

پروفیسر ساجد میر کی زیر صدارت سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے امور کشمیر وگلگت بلتستان کے اجلاس میں سیکریٹری وزارت امور کشمیر نے انکشاف کیا ہے کہ پاکستان اور جموں کشمیر کے درمیان مالی معاملات معائدہ کراچی کے مطابق نہیں ہو رہے۔

سیکریٹری امور کشمیر کے مطابق دونوں حکومتوں کے درمیان معاملات میں وزارت کو اعتماد نہیں نہیں لیا جاتا۔

انہوں نے کہاکہ جب کشمیر اور گلگت بلتستان کا حصہ بنیں گے تو انہیں صوبائی خود مختاری دی جائے گی۔ 77.5 ارب روپے آذاد کشمیر حکومت نے جمع کر رکھے ہیں اس رقم کا ان سے حساب لیا جائے گا۔

اس موقع پر سلیم مانڈووی والا نے کہاکہ مقامی محصولات ان کے پاس ہی ہوں گے۔ اٹھارویں ترمیم آزاد کشمیر اور گلگت بلتستان پر اثر انداز نہیں ہوتی۔

اجلاس میں اراکین کمیٹی نے کہاکہ پاکستان اور جموں و کشمیر کا رشتہ معائدہ کراچی کی بنیاد پرہے، ہماری ذمہ داری ہے ہم کشمیر و گلگت بلتستان کی قیادت کے ساتھ مل کر مسائل حل کریں۔

آزادکشمیر میں بجلی کے زیادہ بلوں کے خلاف ہونے والے احتجاج کا معاملہ بھی کمیٹی میں پہنچ گیا۔ کمیٹی کے ممبر سینیٹر شہادت اعوان نے کہا کہ کل بھی آزادکشمیر میں ایف آئی آرز کاٹی گئی ہیں۔ لوگوں نے دھرنے دے رکھے ہیں۔

چیئرمین کمیٹی ساجد نے کہا کہ آزادکشمیر اور گلگت بلتستان حکومت کے ساتھ وزارت کے روابط مزید بہتر ہونے چاہئیں۔

سیکریٹری وزارت امور کشمیر نے آزادکشمیر اور گلگت بلتستان کے منصوبوں کے حوالے سے تفصیلات سامنے رکھیں اور کہا کہ آزاد کشمیر و جی بی میں ترقیاتی منصوبے ریویو کئے جا رہے ہیں۔

انہوں نے کہاکہ آزادکشمیر اور گلگت بلتستان حکومت نے لکھا ہے کہ ہمیں سیکشن آفیسر بھی جواب نہیں دیتا، بجلی کے منصوبوں کے لئے جی بی اور کشمیر کو جنریٹرز چاہیئیں۔

سیکریٹری امور کشمیر کی معروضات پر کمیٹی نے معاملے کو دیکھتے ہوئے ایک ہفتے میں وزارت کو رپورٹ جمع کرنے کی ہدایت کر دی۔

سینیٹر سلیم مانڈووی والا نے آزادکشمیر اور گلگت بلتستان میں ایک ایک میٹنگ کرنے کی تجویز دی جس پر چیئرمین نے کہا کہ چیئرمین سینیٹ نے کہا ہے کہ سینیٹ کمیٹی پاکستان کی حدود سے باہر نہیں جا سکتی۔

اجلاس میں کمیٹی کو بتایا گیا کہ سیرینا ہوٹل کے باہر کشمیر کی خصوصی حیثیت میں تبدیلی کی نشاندہی کرنے والی گھڑی ہٹا دی گئی ہے۔

کمیٹی اراکین نے مقبوضہ کشمیر میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کو مناسب فورم پر نہ اٹھانے پر عدم اطمینان کا اظہار کیا۔

اس موقع پر چیئرمین کمیٹی کا کہنا تھا کہ وزارت خارجہ مسئلہ کشمیر کو مناسب فورمز پر نہیں اٹھا رہی، سیرینا ہوٹل کے باہر لگی گھڑی بے بسی کا اظہار تھا۔

کون جیتے گا ورلڈکپ۔پیشن گوئیاں سامنے آگئیں


Featured Video Play Icon