Tag Archives: امتیاز عالم

نواز شریف کا چوتھا اُوتار



تحریر:۔ امتیاز عالم

دم تحریر:آج بروز ہفتہ ’’اُمید کی پرواز‘‘ پر جب نواز شریف لاہو رکی تاریخی یادگار پہ تاریخی جلسہ سے مخاطب ہونگے تو کیا تاریخ رقم ہوگی؟ پہلے بھی تین بار تاریخ رقم ہوئی تھی اور چراغ گل کردئیے گئے تھے۔ میاں صاحب کی واپسی کیسے ممکن ہوئی کن شرائط پہ ہوئی؟ باہر کیسے گئے اور واپس کیسے آئے؟ جتنے منہ اتنی باتیں۔ البتہ یہ کہنا بنتا ہے کہ نواز شریف تین بار وزارتِ عظمیٰ سے ناجائز طور پر نکال باہر کیے جانے کے باوجود ہر بار پلٹ آنے میں کامیاب ہوتے رہے۔ پھنس کر نکلنے اور واپس پلٹنے میں انکا کوئی ثانی نہیں۔ وہ گریٹ سروائیور ہیں۔ مقتدرہ کے سیاسی گناہوں کو تاریخ کے کٹہرے میں کھڑا کرنے کے دبنگ اعلانات اور ’’ووٹ کو عزت دو‘‘ کی دہائی دینے کے بعد وہ جس طرح منت زاریاں کرواتے ہوئے گوشہ عافیت سدھارے اور اب اپنا مقدمہ اللہ کے حوالے کرتے ہوئے ’’آئو پھر سے سنبھالو، یہ ملک بچالو‘‘ کے نعروں کی گونج میں پرتپاک استقبال سے باغ باغ ہوئے جارہے ہیں۔ کیا سیاسی کایا پلٹ ہے یا پھر قلا بازی؟ ناانصافی کے ازالے اور ’’ہموار میدان‘‘ کی فراہمی کی فرمائشیں ایک حد تک پوری ہوتی لگتی ہیں۔ عالیشان پروٹوکول سے ایسی واپسی کب کسی نے دیکھی؟ خواہشیں کتنی پوری ہوتی ہیں، اور اصل میں کتنی برآئیں گی یہ تو سیاسی تقدیر کے کاتب ہی جانتے ہیں۔ وِلن عمران خان سلاخوں کے پیچھے اور نواز شریف میدان میں ہیں اور مدمقابل کوئی بھی نہیں۔ پرانا بیانیہ دفن اور نیا بیانیہ ہر سو گونج رہا ہے: ’’ملک سنبھالو، ملک بچالو‘‘ (لیکن جنہوں نے بلاشرکت غیرے سنبھالنا اور بچانا ہے، وہ مملکت خداداد کو اپنے آہنی ہاتھوں میں پہلے ہی سے لے چکے ہیں)۔ لاہور کے جلسے کی زبردست تیاریاں ہیں (جسکی روح رواں دو مریم بیبیاں ہیں) جو اچھا خاصا کامیاب ہوتا دکھائی پڑتاہے۔ میدان میں اسوقت وزیراعظم کا ایک ہی امیدوار ہے، وہ ہے نواز شریف ! وزارت عظمیٰ کے دوسرے ممکنہ اُمیدوار ہونہار بلاول بھٹو کے پرواز سے پہلے ہی پدرانہ شفقت کے ہاتھوں پرکاٹ دئیے گئے ہیں۔ لیکن ایک چبھتا ہوا سوال ہے کہ کیا میاں صاحب کو چوتھی بار وزارت عظمیٰ کی گدی پر بیٹھنے دیا جائے گا یا یہ کہ انکی بھاری بھرکم شخصیت کا بار پھر سے اُٹھانے کی کسی میں کتنی سکت ہے؟

میاں صاحب لندن سے نہیں آرہے، روضہ رسول پہ دعائیں مانگ کر اور خانہ کعبہ کا طواف کر کے آرہے ہیں۔ اللہ اور اس کے رسول سے معافی مانگ کر اور اپنے دشمنوں کی معافی اللہ کے سپرد کرکے آرہے ہیں۔ اس مقدس سرزمین پہ سجدہ کر کے آرہے ہیں جنکے حکمران مامور من اللہ ہیں اور جنکی مشرقِ وسطیٰ کے جنوبی ایشیا خاص طور پر برصغیر کے ساتھ نئے بندھن باندھنے کی نئی سوچ میاں صاحب کی پرانی سوچ سے ہم آہنگ ہے۔ جیو اسٹرٹیجک سلامتی کی جگہ، اب معاشی سلامتی کی جانب مجبوراً مراجعت میاں صاحب کے کردہ و ناکردہ گناہوں کی بخشش کیلئے کافی ہے۔ وہ اس تبدیلی کیلئے موزوں سیاسی عامل ہوسکتے ہیں، لیکن آنکھ کے تارے وہ نہیں، نیویں نیویں، پیچھے پیچھے آداب بجالاتے شہباز شریف کی سویلین اقتدار مقتدرہ کے پائوں پہ رکھنے کی اسپیڈ کا کوئی متبادل نہیں۔ کہیں یہ نہ ہو کہ دکھ بھریں بی فاختہ اور کوے انڈے کھائیں! بعداز انہدام ہائبرڈ رجیم (عمران- 1) اور 16 ماہ کے ہائبرڈ رجیم- 2 (شہباز حکومت ) نے تقریباً تمام سویلین سپیس چھائونی کے حوالے کردی ہوئی ہے۔ اب وفاق اور صوبوں میں کابینائوں سے بالا بالا ایپکس کمیٹیوں کا راج ہے، آئینی نظام حکومت کب کا فارغ ہوا۔ جو بچا کھچا ہے اس پر کاکڑ ماڈل ہی صادق آتا ہے۔ اگر انتخابات آزادانہ اور منصفانہ نہ ہوئے، پھر میدان میں ایک ہی شیر دھاڑے گا تو انتخابی ساکھ کے پلے کیا رہ جائے گا؟ اب تک کے قرائن سے تو یہی ظاہر ہے کہ عوام کے بنیادی حق رائے شماری کو ٹھکانے لگانے کا پورا پورا بندوبست کرلیا گیا ہے۔ عمران خان کی نکمی ہائبرڈ حکومت اور شہباز شریف کی دوسری ہائبرڈ حکومت کی ناکام اسپیڈ کے بعد اور مخالف کیمپوں میں بٹے سیاستدانوں کی چھائونی کی چاپلوسی کے ہاتھوں جمہوریت اور سویلین حکمرانی کے پلے بچاہی کیاہے؟مقتدرہ سے عوامی بغضِ معاویہ اور پرانی قیادتوں سے بیزاری سے عمران خان کو پذیرائی تو ملی جو اس نے اپنی نرگسیت پسندانہ مہم جوئی اور کینہ پروری کی نذر کردی۔ اب جیل میں سائیکل کی سواری بھی میسر نہیں۔ 9 مئی جیسے واقعات تو دنیا بھر میں ہوتے رہتے ہیں جیسے امریکہ کے گزشتہ انتخابات کے بعد کیپٹل ہل پر ٹرمپ کے حامیوں کا حملہ۔ لیکن پاکستانی ٹرمپ کے جانثار بھول گئے کہ پاکستان کی چھائونیوں میں احتجاج اور وہ بھی پنجاب میں کرنے کے کیا سنگین مضمرات ہونگے۔ وہ تو جیسے شالامار گارڈن کی سیر کو نکلے تھے اور بعد میں معافیوں اور آہ وزاریوں کے سوا کوئی نعرہ مستانہ بلند نہ ہوا جیسے کہ ہم جنرل ایوب خان، جنرل یحییٰ خان اور جنرل ضیا الحق کے خلاف عوام کی مزاحمتی جنگ کی صورت دیکھ چکے تھے۔ ناکام و ناپختہ مزاحمت مسلسل جمہوری جدوجہد کے خلاف اشتعال انگیزوں کے کام آتی ہے۔ آج کا سیاسی مزاحمتی سناٹا اسی کا خمیازہ ہے اور سب کی سب پارٹیاں جمہوریت کی صفیں لپیٹ کر آمرانہ قوتوں کے سامنے کورنش بجالائی ہیں۔ اب میدان میں کوئی ٹھہرے بھی تو کیسے کہ شیخ رشید جیسے کاسہ لیسوں کو بھی چلہ کاٹنا پڑتا ہے۔

اس جمہوری سناٹے میں نواز لیگ نے فتح کے راگ ابھی سے الاپنا شروع کردئیے ہیں۔ حالانکہ ملک کو درپیش سیاسی، معاشی، اداراتی اور آئینی بحران کسی ایک سیاستدان، کسی ایک جماعت اور کسی ایک ادارے کے بس کی بات نہیں۔ بندوق کی نالی سے مسئلے حل نہیں ہوتے اور نہ پاکستان کی تاریخ میں ایسا ہوا ہے۔ مصر بننے یا میانمار کی راہ لینے والے ذرا سوچیں پاکستان کی تاریخ میں حالات ہاتھ سے نکلتے دیر نہیں لگتی۔ یہ ہم 1968، 1970، 1986 اور 2018 کے تاریخی یدھوں میں بار بار دیکھ چکے ہیں۔ پاکستان کے ہر مقبول اور منتخب وزیراعظم کے ساتھ کئے جانے والے سلوک سے پاکستان کے تشخص کے پلے کوئی مہذبانہ پہلو بچا ہے یا ملک کی کوئی کل سیدھی ہوئی ہے؟ کل حسین شہید سہروردی، شیخ مجیب الرحمان، ذوالفقار علی بھٹو، بے نظیر بھٹو ، نواز شریف اور آج عمران خان سب کے سب سلامتی کیلئے خطرہ کیوں ٹھہرے؟ اب ایک اور سابقہ وزیراعظم اور قومی ہیرو کو قومی راز فاش کرنے کے جرم میں اور نہ جانے کون کون سے جرائم میں قید و بند میں انصاف کی سولی پہ چڑھائے جانے کا بندوبست کیا جارہا ہے۔ خدارا ہمیں بریک دیں۔ آگے بڑھیں! میاں نواز شریف اسوقت سینئر ترین رہنما ہیں، انہیں سولو پرواز کی بجائے تمام سیاسی جماعتوں کو ایک نئے چارٹر آف ڈیموکریسی ، چارٹر آف انسانی حقوق اور چارٹر آف اکنامکس پہ ایک ساتھ بیٹھنے کی دعوت دینی چاہیے۔ جب تک سیاستدانوں میں رولز آف دی گیم اور جمہوری چلن پہ اتفاق نہیں ہوتا اور ادارے آئین کی پاسداری نہیں کرتے، ہمارا ملک یونہی اندھیروں میں بھٹکتا رہے گا۔ ایسے میں آج ہی کے دن یہ پوچھنا چاہیے کہ چوتھی بار وزیراعظم بننے کے اُمیدوار نواز شریف عوام سے کیا نیا عمرانی معاہدہ کرنے جارہے ہیں؟

بشکریہ جنگ نیوز اردو

مسئلہ فلسطین: پندار جنوں، حوصلہ راہ عدم



تحریر:۔ امتیاز عالم

یہودیوں کے مقدس یوم کپورپہ پچاس برس بعد (1973 کی عرب اسرائیل چوتھی جنگ) غزہ کی پٹی سے دو تین میل دور ایک نخلستان میں نووا جشن منایا جارہا تھا، اسرائیلی اور غیر ملکی شہری ناچ گانے میں مست تھے کہ حماس کے قسام بریگیڈ نے الاقصیٰ طوفان بپا کردیا۔ 260 لوگ لقمہ اجل بنے۔حماس کے تقریباً 1500کارکنوں نے مقبوضہ علاقے کی ناقابل شکست رکاوٹوں کو توڑ کر پورے جنوبی اسرائیل کے سرحدی علاقوں میں داخل ہوکر 1300 کے قریب بچوں، بوڑھوں، جوانوں اور فوجیوں کو تہہ تیغ کردیا۔ پچاس برس بعد یہ دوسرا حیران کن حملہ تھا جس نے اسرائیل کے جدید ترین سیکورٹی حصار کو توڑ ڈالا۔ منقسم اسرائیلی حکومت اور سیاسی خلفشار کے ماحول میں نیتن یاہو کی مخلوط حکومت کچھ ایسی الجھی کہ سلامتی کو درپیش خطرات سے اوجھل ہوگئی جسکا فائدہ گوریلاز کے سرپرائز اٹیک کو ہوا اور اسرائیل کے قومی دفاع کا تصور پاش پاش ہوگیا۔ غزہ 40×20 میل کی ساحلی پٹی کی کھلی قید میں دہائیوں سے محبوس فلسطینیوں کی دلخراش بے بسی، اوسلو کے فلسطینی و اسرائیلی امن پراسس کی ناکامی ،جس کے تحت مئی 1999 تک اسرائیل کے پہلو بہ پہلو فلسطینی ریاست نے (1967 میں فتح کیے گئے علاقوں سے اسرائیلی انخلا پر) وجود میں آنا تھا کی ناکامی، ابراہیمی معاہدات کے تحت پے درپے عرب ملکوں کے اسرائیل کے ساتھ سفارتی تعلقات کی بحالی اور اسرائیل و سعودی عرب کے درمیان ہونے والے مذاکرات کی کامیابی کے امکانات اور فلسطینیوں کی اپنے حق خود اختیاری، مقبوضہ علاقوں کی بازیابی اور فلسطینی ریاست کے قیام کے عالمی وعدوں کی بے وفائی ایسے مقام پہ پہنچ چکی تھی کہ کچھ بھی ردعمل آسکتا تھا۔ حماس جو غزہ پہ حکمران تھی، کی مقبولیت میں تیزی سے کمی آرہی تھی ،نے ایک تاریخی کھڑاک کا فیصلہ کیا۔ یہ وہ وقت تھا جب فلسطینی اتھارٹی، فلسطینی محاذ آزادی اور صدر محمود عباس کی حکومت (جسے حماس نے کمزور کردیا تھا) پھر سے عوامی حمایت حاصل کرنے جارہی تھی۔ کمال کی منصوبہ بندی سے اور اسرائیلی انٹیلی جنس سروسز کو دھوکہ دیتے ہوئے، حماس نے وہ حربی حربہ آزمایا کہ پورےاسرائیل اور مغربی دنیا کو حیرت زدہ کردیا۔ لیکن یہ مظلوموں کی اسرائیلی شہریوں کے خلاف ایسی جارحیت تھی جوپیدائشی جارح اسرائیل کو مشتعل کرنے کیلئے بے مثال تھی۔ لیکن اس بار مشکل یہ آن پڑی کہ حماس کے جنگجو ڈیڑھ سو کے قریب اسرائیلی شہریوں اور فوجیوں کو یرغمال بنا کر غزہ کی پناہ گاہوں میں لاکر مغوی بنانے میں کامیاب ہوگئے۔

اس پر مغربی ردعمل آنا لازمی تھا اور اسرائیل نواز مغربی میڈیا نے اسرائیل کی مظلومیت اور حماس کی مہم جوئی کو خوب اچھالا خاص طور پر سویلین کی اموات کو۔ امریکہ اور یورپین یونین کھل کھلا کر اسرائیل کی پشت پر کھڑے ہوگئے اور اسرائیل کے حق دفاع (بشمول حق جارحیت؟) کا ایسا پرچار کیا گیا کہ اسرائیل نے غزہ کی چھوٹی سے پٹی میں 23 لاکھ فلسطینی شہریوں پہ چھ روز میں اب تک چھ ہزار سے زائد بم برسادئیے ہیں جس میں تادم تحریر 1900 فلسطینی جن میں 614 بچے شامل ہیںشہید اور 7696 زخمی ہوچکے ہیں۔ یہ ایسی بربریت ہے جو فلسطینی اسرائیلیوں کی مسلسل بربریت کے ہاتھوں کئی بار دیکھ چکے ہیں۔ ابھی بھی چوبیس گھنٹے کا الٹی میٹم دیا گیا ہے کہ تمام فلسطینی شمالی غزہ خالی کر کے جنوبی غزہ کوچ کرجائیں ورنہ انکی موت کا اسرائیل ذمہ دار نہ ہوگا۔ انخلا کی یہ دھمکی 370 ہزار اسرائیلی فوج کے غزہ میں زمینی حملے کو ہموار کرنے کیلئے دی گئی ہے جو کسی بھی وقت ہوسکتا ہے۔ عالمی رائے عامہ نے پہلے حماس کو جارح قرار دیا تھا اور سویلین ناجائز اموات کی دہائی دی تھی تو اب اخلاقی مشکل آن پڑی ہے کہ غزہ میں سویلین آبادی کی نسل کشی کو عالمی انسانی حقوق اور جنگ کے قواعد کے مطابق کیسے روکا جائے۔ اقوام متحدہ جسے مسلم دنیا میں بہت مطعون کیا جاتا ہے کہ سیکرٹری جنرل نے زمینی حملے اور فلسطینی انخلا کے خلاف سخت موقف اختیار کیا ہے اور انسانی المیہ کو روکنے کی اپیل کی ہے۔ اب دیکھنا ہے کہ اسرائیل کی جنگی کابینہ کیا فیصلہ کرتی ہے جبکہ اسرائیلی رائے عامہ کا زیادہ زور اسرائیلی مغویوں کی بحفاظت بازیابی پہ ہے۔ اگر زمینی حملہ ہوا تو پھر ان مغویوں کی جان خطرے میں پڑسکتی ہے۔ سوال یہاں یہ اُٹھتا ہے کہ حماس نے جب یہ حملہ پلان کیا، اسکے پاس غزہ کی شہری آبادی کے تحفظ کا کیا منصوبہ تھا؟ اس دوران امریکیوں، عربوں اور اسرائیلیوں میں مغویوں کی رہائی سمیت جنگ بندی اور مسئلے کے سیاسی حل کی کوئی بھولی بسری راہ نکالنے کی کوششیں شروع ہوگئی ہیں۔ کم از کم حماس نے 23 لاکھ غزہ کے شہریوں کی زندگی دائو پر لگا کر مسئلہ فلسطین کو عالمی ایجنڈے پہ لاکھڑا کیا ہے لیکن اس جنگ کے علاقائی پھیلائو کا خطرہ بھی بڑھ گیا ہے۔ اگر اوسلو کے معاہدوں پہ عمل ہوجاتا تو آج دہائیوں سے جاری فلسطینیوں کے قتل عام کا سلسلہ بند ہوجاتا اور اسرائیلی و عرب و فلسطینی ساتھ ساتھ زندہ رہو اور زندہ رہنے دو کے بھلائے گئے سنہری اصول پہ کاربند ہوچکے ہوتے۔ سارے الہامی ادیان کا سلسلہ حضرت ابراہیم ؑسے ہے، تورات، انجیل مقدس اور قرآن مجید الہامی سلسلے ہی کی کڑیاں ہیں اور دلچسپ بات ہے کہ ان کا علاقائی ماخذ بھی تقریباً ایک ہی علاقہ ہے۔ حضرت اسحاق اور ان کے فرزند حضرت یعقوب (قرآن 19:49.50) انکے اولین نبیوں میں سے ہیں۔ تاریخی طور پر اسرائیلی اپنے مقدس وطن سے بار بار اجاڑے جاتے رہے کبھی روم، کبھی پرشیا، کبھی بزنطینیوں، کبھی بابل، کبھی عربوں اور کبھی عثمانیوں کے ہاتھوں وہ دربدر ہوتے رہے۔ تاآنکہ نازیوں کی سامیت دشمن (Anti-Semitism) فسطائیت کے ہاتھوں دسیوں لاکھ یہودیوں کا ہولوکاسٹ (قتل عام) ہوا اور کہیں جاکر 15 مئی 1948 کو اسرائیل کی ریاست کا قیام ہوا۔ 1948-1967 کے درمیان اسرائیلی نوآبادیاتی آباد کار ریاست کی توسیع پسندی کے نتیجے میں اردن کے مغربی کنارے، غزہ، مصر کی وادی سینا اور شام کی گولان کی پہاڑیوں کے علاقے اسرائیل کے قبضے میں آگئے۔ بجائے اس کے کہ ان مقبوضہ علاقوں پر فلسطینی ریاست بنتی، اسرائیلی آبادکاروں نے وہاں اپنی بستیاں بسانا شروع کردیں اور خود یروشلم جہاں تین مذاہب کے مقدس مقامات ہیں عرب اسرائیل تنازع کی بڑی وجہ بن گیا جو آج تک جاری ہے۔ فلسطینیوں کی آزادی کی طویل جدوجہد میں PLO اسکی نمائندہ تنظیم بن کر ابھری اور فلسطینی اتھارٹی کا قیام عمل میں آیا، لیکن صدر یاسر عرفات کے انتقال کے بعد فلسطینیوں کو سیکولر اور مذہبی بنیادوں پر تقسیم کیا جاتا رہا۔ حماس بھی اخوان المسلمین کے زیر اثر ایک جنگجو تنظیم کے طور پر سامنے آئی۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ طوفان الاقصیٰ کے بعد غزہ اسرائیلیوں کے ہاتھوں زمین بوس ہوتا اور فلسطینی صحرائے سینا میں غرق کیے جاتے ہیں یا پھر دو ریاستوں کے حل کی جانب کوئی پیشرفت ہوتی ہے؟

اب قاتل جاں چارہ گرِکلفتِ غم ہے

گلزار ارم پر توِ صحرائے عدم ہے

بشکریہ جنگ نیوز اردو