ہر طرف موت کا رقص۔۔۔ گری ہوئی عمارتوں کےملبے کے ڈھیروں سے چیختی چلاتی آوازیں ۔۔۔آسمان سے برستی آگ کی لپیٹ میں آ کر تڑپتے انسانی لاشے۔۔۔۔ یہ مقبوضہ فلسطین کا شہرغزہ ہے۔۔۔جس پر اسرائیل قہر بن کر ٹوٹ پڑا ہے۔۔۔ سوموار کی صبح سے شروع ہونے والی اسرائیلی طیاروں کی بمباری مسلسل جاری ہے ۔ آسمان سے برستی مسلسل آگ میں غزہ کے شہریوں کیلئے کوئی جائے پناہ نہیں ہے۔ مغرب کو اسرائیل پر حماس کے حملوں سے ہونے والے نقصان پرتو دکھ ہے لیکن اسے غزہ پر ڈھائی جانے والی قیامت سے کوئی غرض نہیں ۔۔۔
اسرائیلی فضائی حملوں کی زد میں آ کر تباہ ہونے والی عمارتوں کے ملبے کے اوپر نیچے اور درمیان درجنوں فلسطینی بچوں کے لاشے پڑے اقوام عالم کا منہ چڑا رہے ہیں اور پوچھ رہے ہیں کہ کیا مسلمان کے خون کی قیمت پانی سے بھی کم ہے؟ اسرائیلی پر حملے پر میڈیا پر آنسو بہانے والے اہل مغرب کی آنکھوں سے معصوم بے گورو کفن لاشوں پر ایک آنسو بھی ٹپکنا تو درکنار ان کے منہ سے اسرائیلی بربریت پر مزمت کا ایک لفظ بھی نہیں نکلا۔۔۔
حماس فوجی چوکیوں پر حملے کرے تو ناجائز ۔۔۔لیکن اسرائیلی طیارے فلسطین کے شہریوں کا براہ راست نشانہ بنائیں تو ان کیلئے شاباش۔۔۔۔ یہ وہ دوغلا پن ہے جس کے خلاف حماس میدان میں نکلی ہے۔ ہر حملے کے وقت ایسا لگتا ہے جیسے کسی زلزلے نے عمارت کو ہلا دیا ہو۔ مجھے اپنا دل خوف سے دھڑکتا ہوا محسوس ہوتا ہے اور میرا پورا جسم کانپ جاتا ہے۔‘
بی بی سی کی ایک رپورٹ میں اسرائیلی بربریت کا احوال غزہ کے شہریوں کی زبانی بیان کیا گیا ہے
نادیہ سوموار کی صبح اپنے گھر کی کھڑکیاں اور دروازے ٹوٹنے کی آوازوں سے بیدار ہوئیں۔ صبح آٹھ بجے شروع ہونے والی بمباری کسی وقفے کے بغیر رات دیر گئے تک جاری رہی۔ نادیہ کے مطابق ’ایک سیکنڈ کے لیے بھی بمباری بند نہیں ہوئی۔اس کے خاندان نے غزہ کی پٹی کے ساحل پر حال ہی میں فلیٹ خریدا تھا۔ اس وقت وہ گھر میں اکیلی تھیں کیوں کہ ان کے شوہر، جو ایک بین الاقوامی تنظیم میں ڈاکٹر ہیں، زخمیوں کی مدد کرنے کے لئے گئے ہوئے تھے۔ اُن کا تین سال کا بیٹا کھانا نہیں کھا پا رہا اور اسے دورے پڑ رہے ہیں۔
سوموار کی رات ان کو ہمسائیوں کی چلانے کی آواز آئی جو سیڑھیوں سے نیچے اترتے ہوئے کہہ رہے تھے ’(گھر) خالی کرو، باہر نکلو۔نادیہ چند سیکنڈز تک ہچکچائیں۔ ان سے یہ فیصلہ نہیں ہو پا رہا تھا کہ وہ اپنے ساتھ گھر سے کیا لے کر جائیں۔ تب وہ مایوسی اور دہشت کے زیر اثر رو پڑیں۔اپنے دونوں بچوں کے ساتھ عمارت سے باہر نکلنے پر انھوں نے دیکھا آس پاس کی تمام عمارات زمین بوس ہو چکی تھیں۔اب وہ اپنے والدین کے گھر محفوظ طریقے سے پہنچنے کی کوشش کر رہی ہیں لیکن وہ کہتی ہیں کہ “جب آسمان سے موت برس رہی ہو تو آپ کہاں چھپ سکتے ہیں؟”نادیہ اور غزہ کے دیگر رہائشیوں نے بی بی سی سے بات چیت میں بتایا کہ اس بار ہونے والی تباہی کی ماضی سے نظیر نہیں ملتی۔ دینا ’اپنا گھر، اپنی یادیں اور اس جگہ کو کھو دینے کے صدمے‘ سے نکلنے کی کوشش کر رہی ہیں جہاں وہ خود کو محفوظ تصور کرتی تھیں۔وہ کہتی ہیں کہ اب غزہ میں کوئی جگہ محفوظ نہیں رہی۔