ہمارے ہاں میرٹ کی کوئی قدر نہیں ‘ افتخار عفی



لاہور( این این آئی) معروف ڈرامہ رائٹر و اداکار افتخار عفی نے کہا ہے کہ ہمارے ہاں میرٹ کی کوئی قدر نہیں یہاں پر صرف سفارشی کلچر ہی پروموٹ ہوا ہے ۔

ایک انٹر ویو میں انہوں نے کہا کہ یہاں بہت سے ایسے فنکار ہیں جنہوں نے فن کے لئے اپنی زندگیاں وقف کر دیں لیکن ان کی اس قربانی کو تسلیم نہیں کیا گیا ۔

افتخار عفی نے کہاکہ ذوالقرنین حیدر،انعام خان، شہزاد رضا، اسلم شیخ، قیصر جاوید، پرویز رضا، جواد وسیم، انور علی جیسے سینئر اداکار کو دیکھ کر شوبز کی دنیا میں قدم رکھا اور ان لوگوں کو شوبز کی دنیا میں کم سے کم تین سے چا ر دہائیوں کی محنت ہے لیکن انہیں حکومتی سطح پر کبھی انہیں تسلیم نہیں کیا گیا ۔

انہوں نے کہا کہ میری تجویز ہے کہ ایسے سینئر فنکاروں کو تحسین پیش کرنے کے لئے خصوصی تقریبات کا انعقاد ہونا چاہیے ۔

مجھے ایوارڈ شو میں جانا پسند نہیں ہے’ سونیا حسین



لاہور( این این آئی) خوبرو اداکار ہ سونیا حسین نے کہا ہے کہ مجھے ایوارڈ شو میں جانا پسند نہیں ہے ۔

ایوارڈ شو میں جانا صرف اپنا وقت ضائع کرنے کے مترادف ہے ۔ ایک انٹر ویو میں اداکارہ نے سوال کے جواب میں کہا کہ اگر ایوارڈ د ینے کی ذمہ داری سونپی جائے تو میں سجل علی کو بہترین اداکارہ اور نعمان اعجاز کو بہترین اداکار کا ایوارڈ دینا چاہوں گی ۔

انہوں نے کہا کہ بعض لوگ ایوارڈ شوز میں جانے والوںکے لباس پر بلا وجہ تنقید کرتے ہیں ۔ جس کو جیسا لباس پسند ہے وہ پہنتا ہے کسی کو اس پر اعتراض نہیں ہونا چاہیے ۔

پاکستانی موسیقار طلال قریشی ٹائمز اسکوائر پر جلوہ گر ہوگئے



لاہور( این این آئی) نامور موسیقار طلال قریشی نیویارک کے ٹائمز اسکوائر پر جلوہ گر ہوگئے، ان کے نئے البم ٹربو کو اسپاٹی فائی کی جانب سے لانچ کیا جارہا ہے۔

عالمی میوزک اسٹریمنگ سروس اسپاٹی فائی طلال قریشی کے نئے البم ٹربو کو لانچ کرنے جارہی ہے جس کے بعد طلال پاکستان کے پہلے فنکار ہوں گے جنہیںیہ اعزاز حاصل ہوگا۔

کلاسیقی پاکستانی موسیقی اور جدید الیکٹرانک طرز کے امتزاج کے لیے مشہور طلال قریشی نے اسپاٹی فائی کا تعاون حاصل کرنے کا شاندار کارنامہ انجام دیا ہے جس کی وجہ سے ان کی آواز دنیا بھر کے سامعین تک پہنچی ہے۔

میوزک پروڈیوسر کی نئی البم 6 اکتوبر کو ریلیز ہوئی ہے اور اس کیلئے اسپاٹی فائی ایک ہفتے تک تشہیری مہم چلائے گی۔

ٹربو میں طلال قریشی نے مشرق اور مغرب کی موسیقی کو جدید آلات کے ساتھ پیش کیا ہے جبکہ اس میں ثقافتی دوریوں کو بھی کم کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔

نئے البم کو بنانے کے لیے میوزک پروڈیوسر کے ساتھ مختلف فنکاروں زا علی، ظہور، بلال بلوچ، نتاشہ نورانی اور مانو نے بھی اپنا حصہ ڈالا ہے۔

بجلی کا بل زیادہ آنے پر بھائی کے ہاتھوں بھائی قتل



اسلام آباد(مانیٹرنگ ڈیسک) بجلی کا بل زیادہ آنے کے جھگڑے پر چھوٹے بھائی نے چھری کے وار کرکے بڑے بھائی کو قتل کردیا۔

پولیس ذرائع کے مطابق  کھرڑیانوالا کے رہائشی محمد قیس کےگھرکا بجلی کا بل آیا تو اس نے ادائیگی کے لیے ساتھ رہنے والے چھوٹے بھائی سے پیسے طلب کیے۔

گھر میں مشترکہ میٹر تھا اور دونوں بھائی آدھا آدھا بل ادا کرتے تھے۔ بل کے معاملے پر دونوں بھائیوں میں جھگڑا ہوگیا جس کے دوران طیش میں آکر چھوٹے بھائی غلام فرید نے چھری سے وار کر کے بڑے بھائی کو قتل کردیا۔

پولیس نے مقتول کی بیوہ کی مدعیت میں تھانہ بلوچنی میں مقدمہ درج کرکے ملزم کو گرفتار کرلیا ہے ۔

اسرائیل میں ہلاکتوں کے ریکارڈ ٹوٹ گئے،امریکانے مدد کے لئے بحری بیڑہ بھیج دیا،غزہ کامکمل محاصرہ



حماس کے حملوں میں اسرائیلی ہلاکتوں کے ریکارڈ ٹوٹ گئےجس کے بعد امریکا نے اسرائیل کی مدد کے لئے بحری بیڑہ روانہ کردیاہے۔
ہفتہ کے روز شروع ہونے والی لڑائی پیر کے روز بھی جاری رہی۔
عالمی میڈیا کے مطابق حماس کے اچانک حملے کے بعد سے اسرائیلی فوج اب تک سنبھل نہیں پائی ۔ مختلف جھڑپوں میں اسرائیلیوں کی ہلاکت کی تعداد 1000 سے تجاوز کرگئی جن میں سیکڑوں فوجی اور پولیس اہلکار شامل ہیں۔
حماس کے جنگجو اب بھی اسرائیلی مقبوضہ علاقوں کے اندر موجود ہیں جہاں ان کی کئی مقامات پر اسرائیلی فوج سے دو بدو جھڑپیں ہورہی ہیں
اسرائیل ڈیفنس فورسز (آئی ڈی ایف) کے مطابق حماس کے بڑے پیمانے پر حملے کے بعد سے اب تک 1000 سے زیادہ اسرائیلی ہلاک ہوچکے ہیں، یہ 1973 کی عرب-اسرائیل جنگ کے بعد اس کا سب سے بڑا نقصان ہے۔
اسرائیل کے وزیر دفاع یوو گیلنٹ نے غزہ کی پٹی کے ’مکمل محاصرے‘ کا اعلان کیا ہے جس کے تحت وہاں کھانے، ایندھن، بجلی اور پانی کی سپلائی روکی جائے گی۔
اسرائیل پرحماس کے حملے کے بعد حزب اللہ بھی لبنان سے صہیونی ریاست کو نشانہ بنا رہی ہے ۔
حزب اللہ نے اسرائیلی سرزمین پر مارٹر شیلز سے حملے کیے جس میں بڑے پیمانے پر اسرائیلیوں کی ہلاکتوں کی اطلاعات ہیں ۔
اسرائیلی وزیر اعظم نیتن یاہو نے زہ میں حماس کے ٹھکانوں کوملیا میٹ کرنے کی دھمکی دیتے ہوئے اسرائیلی شہریوں کو 24 گھنٹوں میں غزہ چھوڑنے کی ہدایت کی ہے۔
حماس کے سربراہ اسماعیل ہنیہ کا کہنا ہے غزہ میں کامیابی کے بعد یہ جنگ مغربی کنارے اور یروشلم تک جائے گی اور اپنی سرزمین سے قابضین کے خاتمے تک جاری رہے گی۔

دوسری طرف امریکا نے فلسطینیوں کے خلاف جنگ میں اسرائیل کی مدد کے لیے فوری طور پر طیارہ بردار بحری بیڑہ روانہ کردیاہے۔
عالمی خبر رساں ادارے کے مطابق اسرائیل کی مدد کے لیے بھیجی گئی فوجی امداد میں اسٹرائیک گروپ کو روانہ کر رہا ہے جس میں فورڈ طیارہ بردار بحری جہاز شامل ہے۔
امریکا نے اسرائیل کی مدد کا اقدام اس لیے بھی اُٹھایا کہ بقول وائٹ ہاؤس حماس کے اسرائیل پر حملے میں کئی امریکی شہری بھی لاپتا ہوگئے جنھیں یا تو حماس نے قتل کردیا یا اغوا کرکے لے گئے۔
حماس اور اسرائیل کے درمیان لڑائی شروع ہونے کے بعد سے غزہ کی پٹی میں اب تک ایک لاکھ 23 ہزار افراد بے گھر ہوچکے ہیں۔
اقوام متحدہ کی ایجنسی (او سی ایچ اے) نے بتایا کہ غزہ میں اب تک ایک لاکھ 23 ہزار 538 افراد بے گھر ہو چکے ہیں، جس کی بڑی وجہ خوف، عدم تحفظ اور گھروں کا تباہ ہونا ہے۔
او سی ایچ اے نے بتایا کہ 73 ہزار سے زائد افراد نے اسکولوں میں پناہ لے رکھی ہے، جن میں سے کچھ افراد کو ہنگامی شیلٹرز دیے گئے ہیں

پاکستان میں 37 لاکھ افغان پناہ گزیں، کراچی میں 20 لاکھ بنگلہ دیشی رہائش پذیر



لاہور (مانیٹرنگ ڈیسک ) پاکستان ان ممالک میں شامل ہے جہاں بیرون ممالک سے پناہ گزیں کثیر تعداد میں رہائش پذیر ہیں ۔ ان میں37لاکھ افغان باشندے بھی شامل ہیں ۔ جو1979 ء میں افغانستان پر سوریت یونین کے حملے کے بعد نقل مکانی کرکے پاکستان آگئے تھے۔

موقر قومی اخبار کی خبر کے مطابق پاکستان اپنی بین الاقوامی سر حدوں کا تقدس بحال کرنے کے لئے 17لاکھ غیر قانونی تا رکین وطن کو بے داخل کرنا چاہتا ہے ۔

اقوام متحدہ کے ہائی کمیشن برائے پناہ گزیں (یو این ایچ سی آر) کی ایک رپورٹ کے مطابق رواں سال جون تک پاکستان میں رجسٹرڈ افغان پناہ گزینوں کی تعداد 13لاکھ ہے ۔

ان کے علاوہ 10لاکھ بنگلہ دیشی بھی پاکستان میں غیر قانونی طور پر آباد ہیں ۔ جو صرف کراچی میں رہتے ہیں ۔

کراچی میں بنگالی برادری کی افراد ی قوت 20لاکھ بتاتی جاتی ہے ۔ جن کے پاس شناخت کے لئے کوئی سرکاری دستاویزات نہیں ہیں ۔

امریکی تھنک ٹینک پیور یسرچ سنٹر واشنگٹن کی رپورٹ کے مطابق امریکا میں تارکین وطن کی تعداد 4کروڑ 41لاکھ ، جرمنی میں ایک کروڑ21لاکھ 70ہزار ، روس میں ایک کروڑ 16 لاکھ 50ہزار ، برطانیہ میں88لاکھ 40ہزار ،فرانس میں79لاکھ ، کینیڈا میں78لاکھ 60ہزار ، آسٹر یلیا میں 70لاکھ 4ہزار ، اسپین میں59لاکھ 50ہزار اور جنوبی افریقا میں40لاکھ 4ہزار ہے ۔

جن دیگر ممالک میں پناہ گزیں رہتے ہیں ۔ ان میں جاپان (23لاکھ )ہالینڈ (20لاکھ ) اسرائیل 19لاکھ سو ئیڈن 17لاکھ 50ہزار ، میکسیکو 12لاکھ یونان 12لاکھ ، پولینڈ 6لاکھ 40ہزار اور ہنگری 5لاکھ شامل ہیں۔

الوداع لندن!



پیر، دو اکتوبر کی سہ پہر میں ہیتھرو کے ہوائی اڈّے سے باہر نکلا تو لندن اپنے روایتی موسم کی رومانوی قبا اوڑھے، دِل نواز سی خنکی میں لپٹا ہوا تھا۔ آسمان گہرے سرمئی بادلوں سے ڈھکا تھا۔ ہلکی بارش سے سُرخ اینٹوں، سفید کھڑکیوں والے دُھلے دھلائے گھروں کے اَنگ انگ سے لندن پھوٹ رہا تھا۔

اُسی دِن، سرِشام ایک ریستوران میں کافی کی میز پر میاں صاحب سے ملاقات ہوئی۔ اِس ملاقات میں کوئی تیسرا نہیں تھا سو گھنٹہ بھر کی نشست میں بہت سے اِشکالات دور ہوگئے۔ بہت سی گرہیں کھل گئیں۔ ایک بات حتمی پن کے ساتھ سامنے آئی کہ منفی یا مثبت پہلوئوں کی زائچہ تراشی کا وقت تمام ہوا۔فیصلہ حتمی ہے کہ نوازشریف 21 اکتوبر کی شام پاکستان آ رہے ہیں۔ انہوں نے مجھے اپنے پروگرام کی تفصیلات سے آگاہ کیا اور بتایا کہ تمام متعلقہ معاملات کو دیکھنے کے بعد یہ فیصلہ کیاگیا ہے۔ 21 اکتوبر کو اپنی آمد کے بارے میں میاں صاحب نے مجھ سے رازداری کا عہدلیتے ہوئے کوئی ایک مہینہ پہلے ہی بتادیا تھا لیکن میں نے اسے راز ہی رکھا۔

طے پایا کہ ہم صبح 8 بجے ملا کریں گے تاکہ 11 بجے تک یکسوئی سے بات چیت ہوسکے۔ منگل سے جمعہ تک یہ سلسلہ جاری رہا۔ 11 بجے کے بعد کی مصروفیات میں رُخصتی کا رنگ نمایاں تھا۔ میاں صاحب کے لئے مشوروں کی بھرمار تھی۔ جو بھی آتا پھولوں کا ایک بڑا سا گلدستہ اور پندونصائح کابڑا سا ٹوکرابھی ضرور ہمراہ لاتا۔ اُن کے پاس کوئی نصف درجن تقریروں کے مسودے بھی دھرے تھے۔

مہمانوں کی کثرت اور مشوروں کے ہجوم کے باوجود میاں صاحب کی بدَن بولی میں اُکتاہٹ یا بیزاری کی کوئی جھلک نہ تھی۔ جسٹس (ر) نوید احمد خواجہ، طیارہ اغوا کیس میں اُن کے وکیل تھے۔ ملاقات کو آئے تو میاں صاحب نے پرانی یادوں کی بیاض کھول لی۔ کہنے لگے __ ’’صدیقی صاحب! خواجہ صاحب ہائی جیکنگ کیس میں میرے وکیل تھے۔ ایک دن عدالت لگی تو خواجہ صاحب نے دلیل دی کہ میرے موکل کے بنیادی حقوق بری طرح مجروح ہوئے ہیں۔ ایک جج نے پوچھا_ ’’کیسے ؟‘‘ خواجہ صاحب بڑی سنجیدگی سے بولے __ ’’مائی لارڈ ! میرے موکل نوازشریف کو ہتھکڑی لگا کر زنجیر جہاز کی سیٹ کے ساتھ باندھ دی گئی۔ اگر خدانخواستہ جہاز گر جاتا تو میرا موکل کس طرح چھلانگ لگاتا؟‘‘ عدالت میں ایک زوردار قہقہہ پڑا۔ میری بھی ہنسی چھوٹ گئی۔ میں نے دل ہی دل میں سوچا_ ’’وکیل ایہوجے نے تے فیر اللّٰہ ہی حافظ اے۔‘‘ (اگر وکیل ایسے ہی ہیں تو پھر اللّٰہ ہی حافظ ہے)

میرے ساتھ طویل ملاقاتوں میں ماضی کا تذکرہ کرتے ہوئے وہ دِل گرفتہ سے ہوجاتے۔ ’’حالات کیسے سدھریں گے۔ میں تین دفعہ وزیراعظم منتخب ہوا۔ تینوں دفعہ تلخ تجربوں سے گزرا۔ ہر بار تصادم اور محاذ آرائی سے بچنے کی کوشش کی۔ اپنی طبیعت کے برعکس بہت سی باتیں مان لیں کہ نظام چلتا رہے اور ملک کی تعمیر وترقی کا سلسلہ نہ ٹوٹے لیکن ہر بار میں ہار گیا۔ اصل میں ہر بار پاکستان ہار گیا۔ اپنی ذات اور اپنے خاندان سے ہونے والی ناانصافی اور ظلم کا معاملہ اللّٰہ پر چھوڑ دیا ہے لیکن پروجیکٹ 2017 سے پاکستان اور کروڑوں عوام پر جوگزری اور گزر رہی ہے اِس کا حساب کون دے گا؟‘‘ گفتگو کے اِس بہائو میں میاں صاحب لمحہ بھر کو رُکے۔ پھر بولے __ ’’میں ایک اور بات بھی پہلی بار، صرف آپ سے کہنا چاہتا ہوں جو میرے اور آپ ہی کے درمیان رہنی چاہیے۔‘‘ میں نے کہا _’’ میاں صاحب ایسی لاتعداد باتیں پہلے بھی میرے دِل کی تجوری میں بند ہیں۔ اس لئے آپ بے دھڑک کہیں۔ ‘‘اس کے بعد میاں صاحب نے اوپن ہارٹ سرجری کی طرح اپنا دِل کھول کے میز پر پڑی طشتری میں رکھ دیا۔ کبھی کوئی موزوں وقت آنے تک یہ بات میرے اور میاں صاحب کے درمیان ہی رہے گی تاہم میں جانے کب تک میاں صاحب کے عمیق سینے میں بپا تلاطم کا ہیجان محسوس کرتا رہوں گا۔

جمعہ، دفتر میں الوداعی دن تھا۔وہ چار سال تک اُن کی مصروفیات کی لمحہ لمحہ کوریج کرنے والے صحافیوں سے ملے۔ بیرونی ممالک سے آئے وفود سے ملاقات کی۔ مقامی کارکنوں کی بڑی تعداد سے فرداً فرداً ملے۔ تصویریں بنوائیں۔سب کو اپنے گھر سے بن کر آنے والا کھانا کھلایا۔ کچھ آنکھیں ’وفورِ جذبۂِ بے اختیارِ شوق‘ سے بھیگ رہی تھیں۔ کچھ خوش تھے کہ بالآخر نوازشریف گھر جارہے ہیں۔

اگرچہ پاکستان میں افواہ سازی اور دروغ بافی کا بازار اب بھی گرم ہے لیکن اللّٰہ نے چاہا تو میاں صاحب کا پروگرام حتمی ہے۔ میرے علم کے مطابق وہ چین جا رہے ہیں نہ قطر۔ عمرہ کے لئے سعودی عرب جاتے ہوئے دوحا کے ہوائی اڈے پر، پرواز بدلنے کے لئے مختصر قیام ہوسکتا ہے۔ عمرہ کے بعد وہ کچھ دِن مدینہ منورہ میں گزاریں گے۔ وطن واپسی سے دو دِن قبل متحدہ عرب امارات آنے اور 21 اکتوبر کی شام لاہور کے علّامہ اقبال ائیر پورٹ پر اترنے کا پروگرام طے ہے۔ 21 اکتوبر ہی کو ایک اور چھوٹی سی پرواز کا پیوند بھی لگ سکتا ہے __ لیکن یہ تجسس برقرار رہنا چاہیے۔

جمعہ کی سہ پہر میاں صاحب دفتر سے گھر کیلئے نکلے تو کارکنوں کے ایک بڑے ہجوم نے انہیں الوداع کہا۔ سڑک کے اُس طرف کھڑی دو نوجوان لڑکیاں اور ایک لڑکا، پی۔ٹی۔آئی کا جھنڈا اُٹھائے، میگافون پر ’’چور چور، ڈاکو ڈاکو‘‘ کے آوازے کس رہے تھے۔ کارکنوں کے پرجوش نعروں ’’وزیراعظم نوازشریف‘‘ کی گونج میں میگافون کی سِسکیاں کسی کو سنائی نہ دیں۔

نوازشریف کی جلاوطنیوں کا دورانیہ، اُن کے اقتدار کے عہد سے کہیں زیادہ ہے۔ وہ کل ملا کر کوئی سوا نو برس وزیراعظم رہے لیکن قیدوبند کے علاوہ کوئی گیارہ سال جلا وطن رہنا پڑا۔ پہلی بار وہ 10 دسمبر2000سے 25نومبر2007تک، تقریباً سات برس جبری طورپر ملک بدر رکھے گئے۔ اگست 2007میں سپریم کورٹ نے فیصلہ دیا کہ کسی پاکستانی شہری کو اپنے وطن آنے سے نہیں روکا جاسکتا۔ اِس فرمان کا پروانہ تھامے میاں صاحب وطن آئے تو میں اُن کے ہمراہ تھا۔ اُنہیں لائونج سے باہر نہ نکلنے دیا گیا۔ کمانڈوز دھکے دیتے ہوئے ایک اور طیارے تک لے گئے جو اُنہیں ایک بار پھرجدہ کے کنگ عبدالعزیز ہوائی اڈے کے شاہی ٹرمینل (جدہ) پر لے گیا۔ اکتوبر2007میں محترمہ بے نظیر بھٹو جلاوطنی ترک کرکے پاکستان آگئیں تو مشرف کی تمام تر کوششوں کے باوجود، سعودی عرب نے میاں صاحب کو پاکستان جانے کی اجازت دے دی اور وہ 25 نومبر2007کو لاہور پہنچ گئے۔ شدید بیماری کی حالت میں حکومت اور عدلیہ نے انہیں 19 نومبر2019کو لندن جانے کی اجازت دے دی۔ صحت کے گونا گوں مسائل اور پاکستان کے نوازدشمن، انصاف کُش ماحول نے اس جلاوطنی کو چار سال تک پھیلا دیا۔

نوازشریف آہنی اعصاب کا مالک ہے لیکن بہرطور گوشت پوست کا ایک انسان ہے۔

غالب نے کہا تھا

کیوں گردشِ مدام سے گھبرا نہ جائے دل

انسان ہوں پیالہ و ساغر نہیں ہوں میں

وہ دکھوں اور غموں کی کتھا کم کم ہی سناتے ہیں ۔ ایک دن دفتر کے چھوٹے سے ذیلی کمرے میں بیٹھے وہ دیر تک ماضی کی راکھ کریدتے رہے۔ یہاں تک کہ میں اُن کے چہرے پر لندن کے سرمگیں بادلوں کی سنولاہٹ محسوس کرنے لگا۔ اٹھتے ہوئے انہوں نے میز پر دھرا اپنا سیل فون آن کیا اور مجھے دکھایا۔ پس منظر میں وال پیپر کے طور پر لگی جواں سال کلثوم نوازکی تصویر مسکرا رہی تھی۔ کلثوم کے ’بائو جی‘ نے چہرہ دوسری طرف موڑتے ہوئے گہری محبت میں گندھا صرف ایک سادہ و معصوم سا جملہ کہا __ ’’یہ مجھے بہت یاد آتی ہے۔‘‘

بشکریہ روزنامہ جنگ

اردو زبان کے معمر ترین شاعرانتقال کر گئے


Featured Video Play Icon

سیاستدانوں کے مستقبل کے بارے میں علم الاعداد کے ماہرسید خرم شاہ کے اہم انکشافات


Featured Video Play Icon

کیویز کی بڑی جیت


Featured Video Play Icon

آر ڈی اے اور پولیس نے راولپنڈی میں گھر مسمار کردیا، شیر افضل مروت کا دعویٰ



اسلام آباد(مانیٹرنگ ڈیسک)پی ٹی آئی  کے وکیل شیر افضل مروت نے الزام عائد کیا ہےکہ آر ڈی اے اور پولیس نے راولپنڈی میں ان کا گھر مسمار کردیا ہے۔

تفصیلات کے مطابق تحریک انصاف کے وکیل شیر افضل مروت نے دعویٰ کیا کہ گھر مسمار کرنے سے پہلے کوئی نوٹس نہیں دیا گیا۔شیر افضل مروت نے غیر قانونی کارروائی پر سول اور کرمنل کیسز دائر کرنے کا بھی کہا ہے۔

دوسری جانب  ڈی جی آر ڈی اے سیف انور جپہ نے شیر افضل مروت کے الزامات مسترد کرتے ہوئے کہا کہ شیر افضل مروت جس پراپرٹی کی بات کررہے ہیں وہ اسکیم ہی غیر قانونی ہے۔

جون میں ہاؤسنگ اسکیم کے مالکان کو نوٹسز دیے گئے تھے، نوٹسز کا جواب نہ دینے پر مالکان کےخلاف مقدمہ بھی درج کیا گیا ہے۔

سندھ واپس لینے کا بھارتی بیان، پاکستانی دفتر خارجہ کا شدید ردعمل



اسلام آباد(اے پی پی)پاکستان نے بھارتی ریاست اتر پردیش کے وزیر اعلیٰ کے سندھ واپس لینے کے حوالے سے دیئے گئے ریمارکس پر شدید ردعمل کا اظہار کیا ہے۔

بھارتی لیڈروں کو تسلط پسندانہ اور توسیع پسندانہ عزائم کو پروان چڑھانے کے بجائے پڑوسی ممالک کے ساتھ تنازعات کو حل کرنا چاہیے۔

دفتر خارجہ کی ترجمان ممتاز زہرہ بلوچ نے یہاں جاری بیان میں کہا کہ ہم لکھنؤ میں قومی سندھی کنونشن میں اتر پردیش کے وزیر اعلیٰ، بھارتی حکمران جماعت کے اہم رکن اور متعصب ”ہندوتوا“ نظریے کے پیروکار کے انتہائی غیر ذمہ دارانہ ریمارکس کی شدید الفاظ مذمت کرتے ہیں۔

ترجمان نے کہا کہ یہ بات بھی اتنی ہی قابل مذمت ہے کہ ”رام جنم بھومی“ کی نام نہاد بحالی کو وزیر اعلیٰ نے اس خطے کو دوبارہ حاصل کرنے کے سانچے کے طور پر پیش کیا ہے جو پاکستان کا حصہ ہے۔