“پری ہوں میں”شہناز گل کی فلم سکریننگ میں شرکت



ممبئی (این این آئی) بالی ووڈ کی خوبرو اداکارہ شہناز گل نے اپنی نئی فلم ‘تھینک یو فار کمنگ’ کی خصوصی اسکریننگ میں شرکت کی۔

فلم کی اسکریننگ ممبئی میں منعقد کی گئی تھی جس میں شہناز گل گلوکار گرو رندھاوا، ورون شرما اور چند دیگر دوستوں کے ساتھ گئیں۔

انہوں نے سنیما کی تصاویر شیئر کرتے ہوئے کیپشن دیا کہ ‘میری فیملی’۔تھینک یو فار کمنگ کے ڈائریکٹر کرن بولانی ہیں، فلم میں بھومی پڈنیکر، ڈولی سنگھ، کشا کپیلا اور شیبانی بیدی نے بھی اداکاری کی ہے۔

شہناز گل اور ان کی ساتھی اداکارائیں فلم پروموشن کیلئے بہت متحرک ہیں۔ انہوں نے شریک اداکاروں کے ساتھ ایک ویڈیو بھی اپ لوڈ کی جس کے پس منظر میں فلم کا گانا ‘پری ہوں میں’ بھی چلایا۔

پہلی منگنی ٹوٹی تو ڈپریشن میں خودکشی کرنے کی کوشش کی، آئمہ بیگ کا انکشاف



کراچی (این این آئی) معروف گلوکارہ آئمہ بیگ نے انکشاف کیا ہے کہ انہوں نے ڈپریشن کے باعث ایک بار خودکشی کرنے کی کوشش کی تھی اور میں خود پر متعدد سنگین الزامات لگنے کے بعد مزید زندہ نہیں رہنا چاہتی تھی۔

آئمہ بیگ نے ایک حالیہ انٹرویو میں ڈپریشن، آرتھرائٹس کی بیماری میں مبتلا رہنے، لوگوں کی جانب سے منگیتر کو دھوکا دینے اور برطانوی مرد ماڈل سے تعلقات جیسے سنگین الزامات لگانے جیسے معاملات پر بات کی۔

آئمہ بیگ نے مزید بتایا کہ جب ان کی منگنی ٹوٹی اور ان پر برطانوی خاتون ماڈل نے اپنے سابق بوائے فرینڈ سے تعلقات کے الزامات لگائے تب وہ اور ان کا پورا خاندان صدمے میں چلا گیا۔

انہوں نے کہا کہ اسی عرصے کے دوران خود پر ہونے والی تنقید اور الزامات کی وجہ سے وہ شدید ڈپریشن کا شکار ہوئیں اور اسی دوران ہی انہوں نے خودکشی کرنے کی بھی کوشش کی، کیوں کہ وہ جینا ہی نہیں چاہتی تھیں۔

بھارت میں مسلمانوں کے خلاف نفرت کا ایک اور واقعہ سامنے آ گیا



مودی سرکار کے بھارت میں مسلمانوں کے خلاف نفرت کا ایک اور واقعہ سامنے آ گیا ہے۔

بھارتی میڈیا کے مطابق ہندو انتہا پسند احمدآباد میں ایک سکول میں گھس گئے اور نماز سکھانے والے معلم پر بدترین تشدد کیا، جس کی ویڈیو وائرل ہو گئی ہے۔

ہندو انتہا پسندوں اور مقامی اہلکاروں نے نماز سکھانے والے ٹیچر کو معافی مانگنے پر مجبور کیا۔

دوسری جانب سکول انتظامیہ نے اپنے موقف میں بتایا ہے کہ طالبعلموں کو مختلف مذاہب سے متعلق آگاہی دینے کے لیے پروگرام منعقد کیا گیا تھا جس میں نماز کا طریقہ بھی بتایا گیا۔

انتظامیہ نے وضاحت کی ہے کہ کسی ہندو بچے کو زبردستی نماز پڑھنے پر مجبور نہیں کیا گیا۔

سکول ٹیچر کو تشدد کا نشانہ بنانے والے انتہاپسندوں کے خلاف اب تک کوئی کارروائی عمل میں نہیں لائی جا سکی۔

”رب نیڑے کے گھسن “ والا سوال



منگل کے دن ایک بار پھر سپریم کورٹ کے تمام ججوں پر مشتمل بنچ کی کارروائی ٹی وی سکرینوں پر براہ راست دکھائی گئی۔ ہماری اعلیٰ ترین عدالت کے عزت مآب جج باہم مل کر یہ فیصلہ کریں گے کہ شہباز حکومت نے اقتدار چھوڑنے سے قبل سپریم کورٹ کے ازخود اختیارات کے بارے میں جو قانون بنایا تھا وہ عدلیہ کی آزادی کو محدود کرتا ہے یا نہیں۔ عمر عطا بندیال نے مذکورہ قانون کی پارلیمان سے منظوری کے بعد اس پر عمل کو تحریک انصاف کی درخواست پر روک دیا تھا۔ یہ مگر طے نہیں کر پائے کہ اسے برقرار رکھنا ہے یا نہیں۔پارلیمان کے بنائے قانون کو اگرچہ وہ اتنی وقعت دیتے تھے کہ بہت سوچ بچار کے بعد نیب قوانین میں متعارف کروائی ترامیم کو اپنا عہدہ چھوڑنے سے قبل ”شارٹ اینڈ سویٹ“فیصلے کے ذریعے کالعدم ٹھہرادیا۔

نیب کو اب ”بدعنوان سیاستدانوں“ کے خلاف وہی جابرانہ اختیارات میسر ہیں جو جنرل مشرف کے اکتوبر1999ءمیں لگائے مارشل لائ کی بدولت فراہم کیے گئے تھے۔ ان اختیارات میں سنگین ترین اور انصاف کے بنیادی اصولوں کی ڈھٹائی سے خلاف ورزی کرتا یہ فیصلہ بھی شامل ہے کہ مبینہ طورپراپنی آمدنی سے زیادہ اثاثے رکھنے والے شخص کو اپنی ”بے گناہی“ خود ثابت کرنا ہوگی۔نیب کے تفتیش کاروں اور عدالت میں بھیجے سرکاری وکیلوں کو اس ضمن میں مغزماری کی ضرورت نہیں۔ اس کے علاوہ حراست کے بعد نوّے دنوں تک ملزم کی ضمانت کے حصول کے لئے عدالت سے رجوع کرنے کا حق بھی چھین لیا گیا تھا۔ ایسے جابرانہ اختیارات کے باوجود نیب وطن عزیز میں بدعنوانی کا خاتمہ تو دور کی بات ہے اسے کم کرنے میں بھی قطعاََ ناکام رہا ہے۔ عمر عطا بندیال صاحب مگر اس کے فرعونی اختیارات برقرار رکھنے کو مصررہے۔

بہرحال اس وقت سپریم کورٹ کو پا رلیمان کے بنائے ایک اور قانون کے مقدر کا فیصلہ کرنا ہے۔مذکورہ قانون کی بدولت چیف جسٹس کے ازخود اختیارات کو لگام ڈالنے کی کوشش ہوئی ہے۔ازخود اختیارات پر براہ راست کوئی قدغن نہیں لگائی گئی۔گزشتہ حکومت کے دوران محض یہ قانون بنایا گیا تھا کہ ”عوامی مفاد“ میں کسی معاملے پر ازخود غور کرتے ہوئے چیف جسٹس محض اپنی بصیرت پر ہی انحصار نہ کرے۔سپریم کورٹ کے دو سینئر ترین ججوں سے مشاورت کے بعد اس تناظر میں کوئی قدم اٹھائے۔ اس کے علاوہ دیگر معاملات پر بنچوں کا قیام بھی چیف جسٹس کی من مانی سے محفوظ رکھنے کی کوشش ہوئی۔بندیال صاحب کے دور میں ”ہم خیال ججوں“ کا تصور ا±بھرا تھا۔ ان پر مشتمل بنچ کو کوئی معاملہ بھیجاجاتا تو لوگ عدالتی کارروائی شروع ہونے سے قبل ہی طے کرلیتے کہ ”وہ کیا لکھیں گے جواب میں“اور بدقسمتی سے عوامی خدشات ہمیشہ درست ثابت ہوتے رہے۔

قانون کی مبادیات سے بھی نابلد ہوتے ہوئے میں یہ لکھنے کو مجبور ہوں کہ منگل کے روز بھی چیف جسٹس صاحب کے اٹھائے اس واجب سوال کا کوئی ایک محترم وکیل بھی سادہ اور دو ٹوک الفاظ میں جواب نہیں دے پایا کہ زیر بحث قانون نے اگرمبینہ طورپر چیف جسٹس کے اختیارات کو واقعتا گھٹانے کی کوشش کی ہے تو اس کے بارے میں سب سے زیادہ فکر مند انہیں بحیثیت چیف جسٹس ہونا چاہیے تھا۔نظر بظاہر وہ اس قانون سے ناخوش محسوس نہیں کررہے۔انہیں سمجھ نہیں آرہی کہ ان کے اختیارات کو قانون سازی کے ذریعے چند ضوابط کے تحت لانے کی کوشش ہوئی تو یہ میرے اور آپ جیسے عام پاکستانی کے بنیادی حقوق سے چھیڑچھاڑ کیسے ہوگئی۔

چیف جسٹس صاحب کی جانب سے اٹھائے اس کلیدی سوال کا جواب دینے کے بجائے زیر بحث قانون کے مخالف وکلاءآئین کی مختلف شقوں کا حوالہ دیتے ہوئے ”عدلیہ کی آزادی میں مداخلت“ والے پہلو کو اجاگر کرنے کی کوشش کررہے ہیں۔ جان کی امان پاتے ہوئے یہ لکھنے کو مجبور محسوس کررہا ہوں کہ بادشاہی اختیارات کی خواہش ہر نوع کی اشرافیہ کی جبلت میں شامل ہوتی ہے۔ عزت مآب قاضی فائز عیسیٰ صاحب اگرچہ ”صوفی منش“ نظر آتے ہیں۔افتخار چودھری کی طرح انہیں قوم کی ”مسیحائی“ کا جنون بھی لاحق نہیں۔وہ دیانتداری سے چیف جسٹس کے منصب کی فرعون بناتے اختیارات سے جان چھڑانے کے خواہاں نظر آرہے ہیں۔یہ مگر ضروری نہیں کہ ان کے بعد اس منصب پر فائز ہونے کے حقدار جج بھی ان کی خواہش سے متفق ہوں۔ سپریم کورٹ کی براہ راست دکھائی کارروائی کی بدولت بلکہ ہم اس خواہش کا اظہار بھی دیکھ رہے ہیں۔

بنچ کی صدارت کرتے ہوئے چیف جسٹس صاحب نے منگل کے دن ایسے کئی ریمارکس دئے ہیں جنہوں نے مجھ سادہ لوح کو یہ سوچنے کو ا±کسایا کہ وہ درحقیقت اپنے ہی چند ساتھیوں سے مخاطب ہیں۔اس ضمن میں سب سے چونکا دینے والے فقرے نے اس حقیقت کو نہایت دلیری مگر سادگی سے نمایاں کیاکہ ہماری سپریم کورٹ نے پاکستان میں لگائے مارشل لاءکو ”نظریہ ضرورت“ کے تحت واجب ٹھہرایا ہے۔عوام کی منتخب کردہ پارلیمان نے تاہم جب بھی عدالتی اختیارات کو ضوابط کی لگام ڈالنا چاہی تو عدلیہ کے کئی بڑے نام اس کے خلاف ڈٹ کر کھڑے ہوگئے۔

مارشل لاءکے روبرو آئین اور قانون کی بھاری بھر کم اصطلاحات استعمال کرتے ہوئے وکلا ءاور ججوں کا ڈھیر ہوجانا ایک حوالے سے سمجھاجاسکتا ہے۔ پنجابی کا ”ربّ نیڑے کہ گھسن؟“ والا سوال اس ضمن میں حیران کن سادگی سے اصل وجہ بیان کردیتا ہے۔مارشل لائ سے ہٹ کر بھی تاہم ہماری تاریخ میں کچھ واقعات نمودار ہوئے ہیں جہاں چیف جسٹس کا ذاتی تعصب اور ترجیح ہی اصل ”آئین اور قانون“ ثابت ہوا۔

مذکورہ بالا تناظر میں اہم ترین حوالے سپریم کورٹ کے اس رویے سے بآسانی مل جاتے ہیں جو اس نے آٹھویں ترمیم کے ہوتے ہوئے اختیارکیا تھا۔آئین میں آٹھویں ترمیم جنرل ضیاءکے دنوں میں متعارف ہوئی تھی۔اس کی بدولت صدر کو یہ اختیار ملا کہ وہ اگر کسی وزیر اعظم اور اس کی حامی قومی اسمبلی کو ”بدعنوانی“ کا مرتکب تصور کرے تو اس وزیر اعظم اور قومی اسمبلی کو جب چاہے برطرف کرسکتا ہے۔ جنرل ضیائ نے مئی 1988میں یہ اختیار اپنے ہی نامزد کردہ وزیر اعظم جونیجو کے خلاف استعمال کیا۔ موصوف کے فیصلے کے خلاف حاجی سیف اللہ سپریم کورٹ چلے گئے۔سپریم کورٹ ان کی درخواست سے غافل ہونے کا تاثر دیتی رہی۔17اگست 1988کے دن مگر جنرل صاحب کی فضائی حادثے میں رحلت ہوگئی تو اس کے چند ہی دن بعد سپریم کورٹ نے اپنا ریکارڈ جھاڑپونچھ کر حاجی سیف اللہ کی پیش کردہ رٹ کی سماعت روزانہ کی بنیاد پر شروع کردی۔ججوں کے دوران سماعت دئے ریمارکس سے تصور یہ ا±بھرا کہ جونیجو حکومت کو بحال کردیا جائے گا۔ اس تاثر نے مبینہ طورپر ان دنوں کے آرمی چیف جنرل اسلم بیگ کو مجبور کیا کہ وہ سپریم کورٹ کو تنبیہ دیتا پیغام بھجیں۔ ان کی جانب سے پیغام تھا یا نہیں مگر بالآخر جو فیصلہ آیا اس نے جونیجو حکومت کی برطرفی ”خلاف آئین“ تو ٹھہرائی تاہم اسے بحال کرنے کے بجائے نئے انتخاب کی افادیت کو تسلیم کرلیا۔

جنرل ضیا ءکے بعد صدر اسحاق نے1990ءمیں بے نظیر حکومت کو برطرف کیا تو سپریم کورٹ نے اس برطرفی کو آئین کی آٹھویں ترمیم کے تحت جائز وواجب ٹھہرایا۔اسی صدر اسحاق نے مگر جب 1993ءمیں آٹھویں ترمیم کے تحت میسر اختیار کی بدولت نواز حکومت کو برطرف کیا تو نسیم حسن شاہ کی قیادت میں کام کرنے والی سپریم کورٹ جوش میں آگئی۔ روزانہ کی بنیاد پر تیز ترین سماعتوں کے بعد ایک ”تاریخی فیصلہ“ لکھ کر نواز حکومت کو بحال کردیا گیا۔ وہ ”تاریخی فیصلہ“ آج بھی پارلیمان کی دیواروں پر کنندہ ہے۔ اس کے باوجود 1996ءکے نومبر میں جب صدر لغاری نے محترمہ بے نظیر بھٹو کی دوسر ی حکومت آٹھویں ترمیم کے تحت ہی برطرف کی تو جسٹس سجاد علی شاہ کی زیر قیادت کام کرتی سپریم کورٹ نے اسے جائز قرار دیا۔ میرے اور آپ جیسے عام پاکستانی لہٰذایہ طے ہی نہ کرپائے کہ آئین کی آٹھویں ترمیم صدر کو پارلیمان کے مقابلے میں کتنا بااختیار بناتی ہے۔ ربّ کریم سے فریاد ہی کرسکتا ہوں کہ ان دنوں جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی بدولت اعلیٰ عدالت کی جانب سے اپنے گریبان میں جھانکنے کی جوکاوش ہورہی ہے بالآخر قوم کے لئے خیر کی خبر لائے۔

بشکریہ نوائے وقت اردو

کرکٹ ورلڈ کپ: انگلینڈ کا نیوزی لینڈ کو 283 رنز کا ہدف



ون ڈے کرکٹ ورلڈ کپ کا آغاز بھارت میں ہو گیا ہے، آج کے افتتاحی میچ میں انگلینڈ اور نیوزی لینڈ کی ٹیمیں مد مقابل ہیں۔

انگلینڈ کی ٹیم نے پہلے کھیلتے ہوئے مقررہ اوورز میں 282 رنز بنائے۔

نیوزی لینڈ کے خلاف انگلینڈ کی پہلی وکٹ 14 رنز پر گری جب ڈیوڈ ملان آئوٹ ہوئے۔ اس کے بعد جونی بیرسٹو 33، ہیری بروک 25، معین علی 11 اور کپتان جوز بٹلر 43 رنز بناکر پویلین چلے گئے۔

ٹاس کے موقع پر گفتگو کرتے ہوئے نیوزی لینڈ کے کپتان نے کہا کہ میچ کے لیے اچھی تیاری کی ہے، دوسری جانب انگلش ٹیم کے کپتان نے کہا کہ ہم بھی اگر ٹاس جیت جاتے تو بولنگ ہی کرتے، میچ میں اچھی کارکردگی پیش کرنے کی کوشش کریں گے۔

قومی کرکٹ ٹیم اپنا پہلا میچ کل نیدر لینڈ میں کھیلے گی، جس کے لیے آج بھرپور پریکٹس سیشن ہو گا۔

پاکستان میں غیر قانونی طور پر مقیم سب کے خلاف کارروائی ہورہی ہے: دفتر خارجہ



ترجمان دفتر خارجہ نے کہا ہے کہ پاکستان میں غیرقانونی طور پر مقیم تمام افراد کے خلاف کارروائی کی جا رہی ہے، صرف افغان مہاجرین کے خلاف کارروائی نہیں ہو رہی۔

ترجمان دفتر خارجہ ممتاز زہرا نے پریس بریفنگ دیتے ہوئے کہاکہ بھارت پاکستان میں ہونے والی دہشت گردی میں ملوث ہے اور ہمیشہ مخالف پروپیگنڈے میں مصروف رہتا ہے۔

انہوں نے کہاکہ کرکٹ ورلڈ کپ کے دوران پاکستانی ٹیم کو سیکیورٹی کی فراہمی بھارتی حکومت کی ذمے داری ہے۔

ممتاز زہرا نے کہاکہ پاکستان افغان ٹرانزٹ ٹریڈ کے خلاف نہیں بلکہ اس کے غلط استعمال کے خلاف ہے۔ ہماری افغان مہاجرین سے متعلق پالیسی میں کوئی تبدیلی نہیں ہوئی۔ ہم غیر قانونی مہاجرین کے خلاف ہیں۔

ترجمان دفتر خارجہ نے کہاکہ تبت میں ہونے والی عالمی کانفرنس کے موقع پر پاکستان اور افغانستان کے وزرائے خارجہ کے درمیان ملاقات ہو گی جس میں دوطرفہ معاملات پر تبادلہ خیال کیا جائے گا۔

ممتاز زہرا نے انتخابات کے حوالے سے گفتگو کرتے ہوئے کہاکہ نگراں حکومت شفاف انتخابات کے لیے الیکشن کمیشن کے ساتھ ہر ممکن تعاون کرے گی۔

خیبرپختونخوا میں 75 فیصد خودکش دھماکوں میں افغان شہری ملوث ہیں: آئی جی کے پی کا دعویٰ



انسپکٹر جنرل پولیس خیبرپختونخوا اختر حیات خان نے کہا ہے کہ صوبے میں ہونے والے خودکش دھماکوں میں 75 فیصد افغان شہری ملوث نکلے ہیں۔

نجی ٹی وی کو دیے گئے ایک انٹرویو میں آئی جی خیبرپختونخوا نے کہا کہ حملہ آوروں کے فنگرپرنٹس سے شناخت کی گئی جس کے بعد معلوم ہوا ہے کہ علی مسجد، باڑہ، ہنگو، باجوڑ اور پولیس لائنز میں حملے کرنے والے افغان شہری تھے۔

انہوں نے کہاکہ بھتہ خوری کے واقعات میں بھی افغان شہریوں کے ملوث ہونے کے ثبوت ملے ہیں، رواں برس 76 کیسز رپورٹ ہوئے جن میں سے 49 کا سراغ لگایا گیا۔ بھتہ خوری میں مقامی افراد سمیت افغان شہری بھی ملوث پائے گئے جنہیں گرفتار کیا ہے۔

اختر حیات نے بتایا کہ جب سے بھتہ خوروں کے خلاف کارروائیوں کا آغاز ہوا ہے تب سے اس جرم میں کمی آئی ہے، جن ملزمان نے لوکل کنٹریکٹرز سے بھتہ طلب کیا تھا ان کو گرفتار کر لیا گیا۔

انسپکٹر جنرل پولیس نے کہاکہ خیبرپختونخوا میں ایک گروپ کے ساتھ ملوث ہونے پر 2 پولیس اہلکاروں کے خلاف بھی کارروائی کی جا رہی ہے اور ان کے خلاف مقدمات درج ہو چکے ہیں۔

پاکستان سے 212 اشیا افغانستان لے جانے پر پابندی عائد



اسلام آباد (مانیٹرنگ ڈیسک) وزارت تجارت کی جانب سے افغانستان ٹرانزٹ ٹریڈ معاہدے کے تحت پاکستان کی 212 اشیا افغانستان لے جانے پر پابندی عائد کر دی گئی ہے۔

وزارت تجارت کے مطابق 212 اشیا پاکستان کے راستے افغانستان لے جانے پر پابندی عائد کی گئی ہے۔

وزارت تجارت کے مطابق جن اشیا کے افغانستان لے جانے پر پابندی عائد کی گئی ہے ان میں 17 اقسام کا کپڑا، گاڑیوں کے ٹائرز، چائے کی پتی، کاسمیٹکس اور ٹوائلٹ میں استعمال کی جانے والی درجنوں اقسام کی اشیا شامل ہیں۔

وزارت تجارت نے نٹس، خشک اور تازہ پھل، فریج، ریفریجریٹر، ایئر کنڈیشنر، جوسر، مکسر بلینڈر سمیت دیگر اشیا بھی افغانستان لے جانے پر پابندی عائد کی ہے۔

کاہنہ میں شہباز شریف کی گاڑی روکے جانے کا واقعہ، لیگی صدر نے وضاحت کر دی



سابق وزیراعظم و صدر پاکستان مسلم لیگ ن شہباز شریف نے کہا ہے کہ گزشتہ روز میرے حلقے کے لوگوں نے میری گاڑی روک کر اپنے مسائل بیان کیے۔

سماجی رابطے کی ویب سائٹ ٹوئٹر پر اپنے ایک بیان میں شہباز شریف نے گزشتہ روز کاہنہ میں لوگوں کی جانب سے گاڑی روکے جانے کی تصدیق کرتے ہوئے کہاکہ آج میں نے حلقے کے نمائندوں کو اپنے پاس بلا کر مسائل کو سنا اور حل کے لیے کردار ادا کرنے کی یقین دہانی کرائی۔

شہباز شریف نے مزید کہا کہ سیاست عبادت کا درجہ رکھتی ہے اور یہ خلق خدا کی خدمت کر کے ہی حاصل کی جا سکتی ہے۔

واضح رہے کہ گزشتہ رات کاہنہ کے عوام نے شہباز شریف کی گاڑی کو روک لیا تھا، اس موقع پر ان کو برا بھلا کہا گیا اور گاڑی کا شیشہ بھی توڑ دیا گیا تھا۔

سوشل میڈیا پر ویڈیوز وائرل ہو رہی تھیں مگر اس کی تصدیق نہیں ہو سکی تھی، اب شہباز شریف نے خود واقعے کی وضاحت کی ہے۔

عمران خان کو جیل میں گھر جیسی سہولیات دینے کی درخواست پر سماعت ملتوی



اسلام آباد ہائیکورٹ نے پاکستان تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان کی اہلیہ بشریٰ بی بی کی جانب سے شوہر کو جیل میں سیکیورٹی اور تحفظ کے لئے دائر کی گئی درخواست پر سماعت اگلے ہفتے تک ملتوی کر دی ہے۔

چیف جسٹس اسلام آباد ہائی کورٹ جسٹس عامر فاروق نے عمران خان کی اہلیہ بشریٰ بی بی کی درخواست پر سماعت کی۔

بشریٰ بی بی کے وکیل لطیف کھوسہ نے عمران خان کو گھر کا کھانا فراہم کرنے کا مطالبہ کیا، انہوں نے موقف اختیار کیا کہ عمران خان کو جس سیل میں رکھا گیا ہے وہاں تو نماز پڑھنے کی بھی بمشکل جگہ ہے۔

لطیف کھوسہ نے کہا کہ یہاں جو بھی صدر یا وزیراعظم بنے وہ اڈیالہ یا اٹک جیل کا چکر ضرور لگاتا ہے، یہی ہماری تاریخ ہے۔

اس موقع پر چیف جسٹس ہائیکورٹ نے کہاکہ جو گنجائش بنتی ہو گی اس کے مطابق آرڈر کروں گا۔ بعدازاں انہوں نے سماعت اگلے ہفتے تک ملتوی کر دی۔

اسلام آباد میں مقیم غیر ملکیوں کی پڑتال شروع، 1126افراد کے خلاف فارن ایکٹ کے تحت کارروائی



اسلام آباد پولیس نے غیرقانونی طور پر مقیم غیر ملکیوں کے خلاف آپریشنز کے دوران 1126 افراد کی جانچ کی، اس دوران 503 افراد سے کوئی شناختی دستاویز نہ ملنے پر ان کے خلاف 14 فارنر ایکٹ کے تحت کارروائی کرکے مجاز عدالتوں میں پیش کیا گیا جو جوڈیشل ریمانڈ پر ہیں اور مقدمات کا سامنا کر رہے ہیں۔

ترجمان اسلام آباد پولیس کے مطابق 623 افراد کو منظور شدہ شناختی دستاویزات پیش کرنے پر رہا کیا گیا۔ اس تمام عمل کے دوران کوئی ناخوشگوار واقعہ پیش نہیں آیا۔

ترجمان نے بتایا کہ جرائم پیشہ عناصر کو غیر قانونی مقیم غیر ملکیوں کے ساتھ منسلک کرنا درست نہیں ہے۔ کسی بھی شہری کے پاس اگراطلاع ہو کہ کہیں پر کوئی غیرقانونی طور پر مقیم ہے تو پولیس کو اطلاع دی جائے، نام صیغہ راز میں رکھا جائے گا۔

ترجمان اسلام آباد پولیس نے بتایا کہ کسی غیر قانونی مقیم کو پناہ یا ملازمت دینا بھی جرم ہے جس پر قانونی کارروائی ہوسکتی ہے۔

گلگت بلتستان کے مختلف علاقوں میں زلزلے کے جھٹکے، خوف و ہراس



پاکستان کے شمالی علاقے گلگت بلتستان اور گردونواح میں زلزلے کے جھٹکے محسوس کیے گئے ہیں۔

ابتدائی اطلاعات کے مطابق زلزلے کے باعث لوگوں میں خوف و ہراس پھیل گیا، گھروں اور دفاتر سے باہر نکل آئے۔

ابھی تک زلزلے کے باعث کسی جانی یا مالی نقصان کی اطلاع موصول نہیں ہوئی۔