ایک اور سیاسی جماعت



تحریر:۔ عرفان صدیقی

کیا پاکستان کو درپیش گوناگوں مسائل کا حل ایک نئی سیاسی جماعت کا قیام ہے؟

یہ سوال میڈیا کی زینت بنا ہوا ہے۔ تین جانے پہچانے سیاستدان، شاہد خاقان عباسی، مفتاح اسماعیل اور مصطفی نوازکھوکھر اِس مفروضہ نئی سیاسی جماعت کے مبلّغین یا محرّکین سمجھے جاتے ہیں۔ تینوں سے میری بہت گہری دوستانہ قربت نہ سہی لیکن بہت اچھی دعا سلام ہے۔ میں تینوں کے بارے میں نہایت مثبت رائے رکھتا ہوں۔ تینوں اعلیٰ تعلیم یافتہ ہیں۔ تینوں قومی مسائل کا درد بھی رکھتے ہیں اور مسیحائی کا جذبہ بھی۔ ان کی نیک نیّتی پر بھی کوئی سوال نہیں اٹھایا جاسکتا۔ لیکن کیا وہ پاکستان کے مرضِ کہن کی ٹھیک تشخیص کررہے ہیں؟ کیا اُن کا اخذ کردہ نتیجہ درست ہے کہ پہلے سے موجود تمام سیاسی جماعتیں کُلّی طور پر ناکام رہی ہیں؟ کیا پاکستان کے موجودہ زوال وانحطاط کی ذمہ داری صرف سیاستدانوں اور سیاسی جماعتوں پر عائد ہوتی ہے؟ اور کیا پون صدی پر محیط تمام المیے، سقوط ڈھاکہ کا سانحہ، مختلف شعبوں کی شکست وریخت، اداروں کی ٹوٹ پھوٹ، آسیب کی طرح خیمے گاڑے بے یقینی، جڑیں تک ہلا ڈالنے والا عدمِ استحکام اور اِن عوارض کے بطن سے پھوٹنے والی معاشی غارت گری کی ذمہ داری سیاسی جماعتوں اور سیاستدانوں کے کندھوں پر ہے؟ سب سے اہم سوال یہ کہ اس صورتِ حال میں انقلابی تبدیلی لانے اور پاکستان کو کمزوری ولاغری سے نکال کر توانا جوانِ رعنا بنانے کا واحد نسخہ کیا ایک نئی پارٹی کا قیام ہی ہے؟ وہ بھی ایسی جس کے ڈاکٹر، طبیب، وید، سنیاسی اور مسیحا برسوں کسی نہ کسی سیاسی شفاخانے میں عرق کشید کرتے ، معجونیں اور کشتے بناتے اور پُڑیاں لپیٹتے رہے ہوں؟

سقوطِ ڈھاکہ کے بعد سے اب تک وفاق میں تین سیاسی جماعتوں کی حکومتیں رہی ہیں۔ پیپلزپارٹی نے مجموعی طورپر پندرہ برس، مسلم لیگ (ن) نے سوا دس سال اور تحریک انصاف نے پونے چار برس حکومت کی۔ اِس دوران ذوالفقار علی بھٹو، محترمہ بے نظیر بھٹو (دو بار)، محمد نوازشریف (تین بار)، جزوی طورپر شاہد خاقان عباسی ، یوسف رضاگیلانی، راجہ پرویز اشرف اور عمران خان (ایک ایک بار) وزارت عظمٰی کے منصب پر فائز رہے۔ ایک چوتھی ہمہ مقتدر جماعت نے کم وبیش اکیس برس کمال جاہ وجلال کے ساتھ حکمرانی کی۔(نگرانوں کو چھوڑ کر) 29 برس9 منتخب وزرائے اعظم کے حِصّے میں آئے۔ یہ بھی یاد رکھنے کی بات ہے کہ آمروں کے عہد میں میائوں کی آواز نکالنے سے عاجز بھیگی بلّیاں بن جانے والے ادارے، جمہوری حکمرانوں کا دور آتے ہی شیروں کا رُوپ دھار کر شاہراہِ دستور کے چار سُو دھاڑنے لگے۔ سپریم کورٹ کی پیشانی پر جھومر کی طرح آراستہ ترازو کے پلڑے کبھی متوازن نہ ہوپائے۔ مارگلہ سے آتی موسم شناس بلکہ موسم گَر ہوائوں کے ساتھ ساتھ مسلسل ہلکورے کھاتے رہے۔ آمروں کو خلعتِ جواز بخشنے اور اُنہیں وردی سمیت سیاسی اکھاڑوں میں کشتی لڑنے کی اجازت دینے والی عدالتوں نے سیاستدانوں کے بارے میں ایسے ایسے فیصلے صادر کئے کہ تصّور سے بھی جھُرجھری آجاتی ہے۔ وہ قاتل قرار پاکر مصلُوب ہوئے، ہائی جیکر قرار پاکر طویل قیدوبند کی سزائیں پائیں، بدعنوان قرار پاکر زندانوں کا رزق ہوئے، خائن قرار پاکر تاحیات سیاست بدر کردئیے گئے، برسوں عدالتوں، کچہریوں میں رُلتے رہے، الزام ودُشنام کے تیروں سے چھلنی کئے جاتے رہے اور قتل ہوتے رہے۔ کیا تاریخ کا یہ منظر نامہ نئی پارٹی کے کہنہ مشق محرّکین کی آنکھوں سے محو ہوچکا ہے؟ کیا وہ اپنے دل پر ہاتھ رکھ کر اطمینانِ قلب سے کہہ سکتے ہیں کہ سیاستدان اور سیاسی جماعتیں واقعی ناکام رہیں؟ کیا وہ بقائمی ہوش وحواس یہ دعویٰ کرسکتے ہیں کہ سیاستدانوں کو ہمیشہ اپنے منشور پر عمل درآمد، اپنے اہداف کی تکمیل، اپنے فلسفۂِ حکمرانی کی عملی تشکیل اور کسی خارجی رخنہ اندازی سے بے نیاز ہوکر پوری توجہ اور انہماک سے کام کرنے کے مواقع ملے اور وہ ناکام رہے؟ یہ نہیں کہا جاسکتا کہ سیاسی حکومتیں ہر طرح کی کجی، عیب، نقص یا نااہلی سے کُلّی طور پر پاک تھیں۔ بس وہ ایسے ہی تھیں جیسے بیسیوں دوسرے ممالک میں ہیں۔ ہماری سیاست پر دو جماعتوں کا غلبہ رہا۔ اگر اُن کی لغزشوں اور کمزوریوں کی فہرست بنائی جاسکتی ہے تو جمہوریت اور پاکستان کیلئے اُن کی جدوجہد، اُن کی قربانیوں اور عوامی فلاح وبہبود، پاکستان کی ترقی وخوشحالی کیلئے اُن کی مقدور بھر کارکردگی کی بیاض بھی مرتّب کی جاسکتی ہے۔ اگر یہ سیاستدان اقتدار کے ایوانوں کی زینت رہے تو دارورسن اور زندانوں کی رونق بھی اُنہی کے دم قدم سے رہی۔ اچھی یا بُری کارکردگی کی فہرست بناتے وقت ایک وسیع وعریض کالم اِس تفصیل کیلئے بھی رکھ لینا چاہئے کہ اُن کے عہدِحکومت میں حکمرانی کی باگیں کس کے ہاتھ میں تھیں؟

قصور نہ دو روایتی جماعتوں کا ہے نہ دوجماعتی نظام کا۔ سیاست کے مفکرین، دوجماعتی نظام کو کسی بھی معاشرے کی بلوغت اور جمہوریت کی پختگی کی علامت قرار دیتے ہیں۔ امریکہ میں گزشتہ پونے دو سو برس سے دو جماعتیں ہی حکمراں چلی آرہی ہیں۔ ستّر فی صد عوام دوبڑی جماعتوں، ری پبلکن اور ڈیموکریٹس کے ساتھ رجسٹرڈ ہیں۔ کسی کے ساتھ وابستہ نہ ہونے والوں کی تعداد ساڑھے ستائیس فی صد ہے۔ صرف ڈھائی فی صد کے لگ بھگ تیسرے آپشن کے دلدادہ ہیں۔ برطانیہ میں کنزرویٹو اور لیبر پارٹیاں ایک سو سال سے باری باری حکومت کررہی ہیں۔ گزشتہ بتیس انتخابات میں انیس بار کنزرویٹو اور تیرہ مرتبہ لیبرز نے حکومت بنائی۔ کوئی نہیں کہتا کہ یہ باریاں لے رہے ہیں۔ کہتا بھی ہے تو اس کا چراغ نہیں جلتا۔ برسوں سے تیسری سیاسی قوت پیرہن بدل بدل کر جتن کررہی ہے لیکن بات بننے میں نہیں آرہی۔

بھارت میں بھی عملاً دو جماعتی نظام ہی کارفرما ہے۔ بھارت کے الیکشن کمیشن نے سیاسی جماعتوں کی درجہ بندی کا ایک اچھا نظام وضع کررکھا ہے۔ یہ درجہ بندی جماعتوں کی انتخابی کارکردگی کی بنیاد پر کی جاتی ہے۔ ایک خاص حد تک نشستیں یا ووٹ نہ لے سکنے والی جماعت درجہ بندی میں نیچے لڑھک جاتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ وہاں ڈھائی ہزار سے زائد رجسٹرڈ سیاسی جماعتوں میں سے صرف چھ کو قومی جماعتیں ہونے کا سرکاری اعزاز حاصل ہے۔ صرف چوّن جماعتیں، ریاستی جماعتوں کا تشخص رکھتی ہیں۔ باقی کو محض شامل باجہ قرار دیاجاسکتا ہے۔ ہمارے ہاں دو سو کے لگ بھگ جماعتیں رجسٹرڈ ہیں۔ سب کی حیثیت ، سب کا درجہ ایک سا ہے۔ ان میں آئے دن اضافہ ہورہا ہے کیونکہ آئین اس کی اجازت دیتا ہے۔ 2018کے انتخابات میں پچاسی جماعتیں میدان میں اتریں۔ تین جماعتوں، پی۔ٹی۔آئی(31.82 فی صد)، مسلم لیگ ’ن‘ (24.35 فی صد) اور پیپلزپارٹی (13.03 فی صد) نے مجموعی طورپر ستّر فی صد کے لگ بھگ (69.20 فی صد) ووٹ لئے۔ باقی کے 30 فی صد ووٹ 82 جماعتوں میں تقسیم ہوگئے۔ تینتیس جماعتیں ایسی تھیں جس میں سے ہر ایک کے ووٹ تین ہزار سے کم رہے۔ پندرہ جماعتیں دَس ہزار تک بھی نہ پہنچیں۔ بیس ایسی تھیں جن میں سے ہر ایک کو ایک لاکھ سے بھی کم ووٹ ملے۔ متحدہ مجلس عمل، جس میں جمعیت علما اسلام (ف) اور جماعت اسلامی بھی شامل تھیں، صرف 4.85 فی صد (پچیس لاکھ سے کچھ زائد) ووٹ حاصل کرپائیں۔ اگر قومی جماعت کے لئے بھارتی الیکشن کمیشن والا فارمولا یہاں بھی ہوتا تو بڑے بڑے نام، بے نام ہوجاتے اور بیسیوں نام نہاد جماعتیں معدوم ہوچکی ہوتیں۔

علّامہ اقبال نے مردِمومن کے زوال کے بارے میں کہا تھا ۔ ’’سبب کچھ اور ہے تُو جس کو خود سمجھتا ہے۔‘‘ علّامہ کے الفاظ مستعار لیتے ہوئے ایک نئی جماعت کے محرّکین سے کہا جاسکتا ہے کہ ملک وقوم کو درپیش موجودہ مسائل کا سبب وہ نہیں، جسے وہ جواز بنارہے ہیں۔ نہ ہی اُن کی دانا وبینا قیادت کے پرچم تلے کوئی نئی جماعت ہمارے دامانِ پارہ پارہ کی بخیہ گری کرسکتی ہے۔ سبب کیا ہے ؟ وہ خود اچھی طرح جانتے ہیں۔

بشکریہ جنگ نیوز اردو

وائس ایڈمرل نوید اشرف پاک بحریہ کے نئے سربراہ مقرر



 وائس ایڈمرل نوید اشرف کو پاک بحریہ کا نیا سربراہ مقرر کردیا گیا ہے۔

ترجمان پاک بحریہ کے مطابق وائس ایڈمرل نوید اشرف کو 7 اکتوبر 2023 کو ایڈمرل کے عہدے پر ترقی دی جائے گی اور تبدیلی کمانڈ کی تقریب 7 اکتوبر 2023 کو اسلام آباد میں ہوگی۔

ترجمان کا کہنا ہے کہ وائس ایڈمرل نوید اشرف نے 1989 میں پاک بحریہ کی آپریشنز برانچ میں کمیشن حاصل کیا، وہ اہم کمانڈ اور اسٹاف عہدوں پر کام کرنے کا وسیع تجربہ رکھتے ہیں۔

وائس ایڈمرل نوید اشرف اس وقت نیول ہیدکوارٹرز میں چیف آف اسٹاف کے فرائض سرانجام دے رہے ہیں۔

ترجمان پاک بحریہ کے مطابق وائس ایڈمرل نوید اشرف کو ہلالِ امتیا ز(ملٹری) اورتمغہ بسالت سے نوازا جا چکا ہے۔

اسٹیبلشمنٹ سے معاملات طے پانے کا تاثر بالکل غلط ،یہ وقت ایسا نہیں ہم اپنے دکھڑے لیکر بیٹھ جائیں، رانا ثنا اللہ



لاہور( این این آئی)پاکستان مسلم لیگ (ن) پنجاب کے صدر و سابق وزیر داخلہ رانا ثنا اللہ خان نے کہا ہے کہ یہ تاثر بالکل بے بنیاد اور غلط ہے کہ اسٹیبلشمنٹ سے کوئی معاملات طے ہوئے ہیں،کیا ہم پرانے معاملات لے کر بیٹھ جائیں۔

یہ نہیں ہونا چاہیے کہ ہم اپنے دکھڑے لے کر بیٹھ جائیں ، اسی روش نے ملک کا بٹھہ بٹھایا ہے ،کوئی پلان بی نہیں ہے ،نوازشریف 21اکتوبر کو ضرور آئیں گے، نوازشریف کسی ڈیل سے گئے نہ واپس آرہے ہیں۔

کسی نے کوئی جرم کیا ہے تو کیا اسے اس لئے معاف کر دیا جائے کہ اس نے انتخابات میں حصہ لینا ہے،ہم اشاروں پر یقین نہیں رکھتے ،ہماری لیگل ٹیم کو کیس کے پیش نظر یقین ہے کہ نواز شریف کو ریلیف ملے گا ، ایسے ریلیف بیسیوں لوگوں ک پہلے بھی ملے ہیں۔

ہمیں بغیر کسی اشارے اور گارنٹی کے امید ہے ہمیں یہ ریلیف ملے گا۔ان خیالات کا اظہار انہوںنے پارٹی کے مرکزی سیکرٹریٹ ماڈل ٹائون میں لاہور ڈویژن کے رہنمائوں کے ہمراہ پریس کانفرنس کرتے ہوئے کیا ۔

مہنگائی کی شرح میں 2 فیصد اضافہ ریکارڈ، اعدادوشمار جاری



پاکستان میں ایک بار پھر مہنگائی کی شرح 31.44 فیصد پر پہنچ گئی ہے، ستمبر کے دوران ملک میں مہنگائی کی شرح میں 2 فیصد اضافہ ریکارڈ کیا گیا ہے۔

ادارہ شماریات کی جانب سے جاری کیے گئے اعدادوشمار کے مطابق ماہ ستمبر کے دوران شہری علاقوں میں مہنگائی کی شرح میں 1.67 فیصد اضافہ ہوا ہے۔

رپورٹ کے مطابق ستمبر میں دال لوبیا7.1 فیصد، دال ماش 9.46، چینی 10.8، سبزیاں 11.7، دال مسور 19.8 اور پیاز 39.3 فیصد مہنگا ہوا۔

اس کے علاوہ پیٹرولیم مصنوعات 11.3 جبکہ ایل پی جی کی قیمت میں 9.2 فیصد اضافہ ہوا جس کی وجہ سے ٹرانسپورٹ کے کرائے 4.2 فیصد بڑھ گئے۔

ادارہ شماریات نے بتایا ہے کہ ستمبر 2022 سے ستمبر 2023 تک بجلی کی قیمت میں 163.7 فیصد اضافہ ریکارڈ کیا گیا ہے، جبکہ چینی 93.4، آٹا 87.5 اور چائے کی قیمت میں 83.6 فیصد اضافہ ہوا۔

ادارہ شماریات نے بتایا ہے کہ ایک سال کے دوران ملک میں ٹرانسپورٹ کے کرائے 55.6 فیصد بڑھے، اس کے علاوہ اسٹیشنری 42.7 جبکہ گھریلو سامان کی قیمت میں 38.2 فیصد اضافہ ریکارڈ کیا گیا۔

ڈالر کی قیمت مزید گر گئی



کراچی (مانیٹرنگ ڈیسک)کاروباری ہفتے کے دوسرے روز انٹربینک میں ڈالر کی قیمت میں مزید کمی ریکارڈ کی گئی ہے۔

میڈیا رپورٹس کے مطابق کاروباری ہفتے کے دوسرے دن  پاکستانی روپے کے مقابلے میں امریکی ڈالر 98 پیسے گر گیا جس کے بعد ڈالر 285 روپے 78 پیسے میں فروخت ہوا۔

دوسری جانب سٹاک مارکیٹ میں تیزی کا رجحان دیکھا گیا، 190 پوائنٹس اضافے سے 100 انڈیکس 46 ہزار 800 پوائنٹس کی حد عبور کر گیا ہے۔

انسداد دہشتگردی کے لیے پاکستان سے تعاون جاری رکھا جائے گا: امریکا



امریکا نے کہا ہے کہ واشنگٹن انسداد دہشت گردی کے لیے پاکستان کے ساتھ کثیرالجہتی فورمز پر تعاون جاری رکھے گا۔

امریکی محکمہ خارجہ کے ترجمان میتھیو ملر نے پریس بریفنگ دیتے ہوئے کہاکہ انسداد دہشت گردی کے لیے پاکستان سے تعاون کیا جا رہا ہے۔

انہوں نے کہاکہ پُرتشدد انتہا پسندی کے مقابلے کی خاطر پاکستان کی کوششوں میں بہتری کے لیے تعاون جاری رکھا جائے گا۔

میتھیو ملر نے پاکستان میں ہونے والے خود کش حملے کی مذمت کی۔ اس کے علاوہ کینیڈا میں سکھ رہنما کے قتل پر ان کا کہنا تھا کہ کینیڈا کی حکومت کے ساتھ اس معاملے پر قریبی رابطے میں ہیں۔

انہوں نے کہاکہ ہردیپ سنگھ کے قتل کے معاملے پر بھارتی حکومت پر زور دیا ہے کہ وہ تحقیقات میں کینیڈا کے ساتھ تعاون کرے۔

اسلام آباد ہائیکورٹ: بشریٰ بی بی کی شوہر کو سیکیورٹی سے متعلق درخواست سماعت کے لیے مقرر



اسلام آباد ہائی کورٹ نے سابق وزیراعظم عمران خان کی اہلیہ بشریٰ بی بی کی جانب سے شوہر کو سیکیورٹی سے متعلق دائر درخواست پر اعتراضات دور کر دیئے ہیں اور 5 اکتوبر کو سماعت کے لیے مقرر کر دیا گیا ہے۔

چیف جسٹس اسلام آباد ہائیکورٹ جسٹس عامر فاروق نے بشریٰ بی بی کی درخواست پر سماعت کی، اس موقع پر سابق خاتون اول کے وکیل لطیف کھوسہ عدالت میں پیش ہوئے۔

چیف جسٹس اسلام آباد ہائی کورٹ جسٹس عامر فاروق نے استفسار کیا کہ آپ کی جانب سے درخواست میں کیا استدعا کی گئی ہے۔

لطیف کھوسہ کی جانب سے دلائل دیے گئے کہ عمران کی زندگی کو خطرات لاحق ہیں، اس سے قبل وزیر آباد میں ان پر قاتلانہ حملہ ہو چکا ہے، ہمارا درخواست دائر کرنے کا مقصد جیل میں سیکیورٹی اور حقوق کا تحفط ہے۔

لطیف کھوسہ کی جانب سے دیئے گئے دلائل پر عدالت نے رجسٹرارآفس کے اعتراضات دور کر دیئے اور حکم دیا کہ درخواست کو 5 اکتوبر کو سماعت کے لیے مقرر کیا جائے۔

ریل میں سفر کے دوران سیٹ کا جھگڑا ایک شخص کی جان لے گیا



اسلام آباد(آئی این پی) پاکستان ایکسپریس میں مسافر نے سیٹ کے جھگڑے پر دوسرے مسافر کو قتل کردیا جس کی لاش کو فیصل آباد ریلوے سٹیشن پر پاکستان ایکسپریس سے اتارا گیا جبکہ مبینہ قاتل فرار ہونے میں کامیاب ہوگیا۔

قاتل کی فیملی کو پولیس نے تحویل میں لینے کے بعد چھوڑدیا، اور مرکزی ملزم کی گرفتاری کے لیے ریلوے پولیس چھاپے ماررہی ہے ۔

خبر رساں ادارے کے مطابق یکم اکتوبربروز اتوار راولپنڈی سے کراچی جانے والی پاکستان ایکسپریس میں یہ واقعہ ہوا۔ جس کو ریلوے نے بھرپور چھپانے کی کوشش کی۔ ٹرین 46DN پاکستان ایکسپریس کا ایک مسافر نام ثنا اللہ ولد شیر محمد عمر قریب 50/55 سال جوکہ اپنی فیملی کے ہمراہ ریلوے اسٹیشن علی پور سے فیصل آباد تک سفرکررہا تھا۔

ٹرین جب ریلوے اسٹیشن سانگلہ ہل پہنچی تو ایک مسافر نام ندیم ولد محمد بوٹا فیملی کے ہمراہ سانگلہ ہل سے حیدر آباد کے لیے ٹرین کی بوگی نمبر 16 اکانومی کلاس میں سوار ہوا۔

دونوں مسافروں کی رواں ٹرین میں سیٹ کی بکنگ کیوجہ سے تو تکار ہوئی اس دوران ایک نے دوسرے کو قتل کر دیا۔

عمران خان کے خلاف کل سائفر کیس کی سماعت کہاں ہو گی؟ وزارت قانون سے رائے طلب



آفیشل سیکرٹ ایکٹ کے تحت قائم اسلام آباد کی خصوصی عدالت نے سائفر کیس کی کل 4 اکتوبر کو ہونے والے سماعت کے حوالے سے وزارت قانون سے رائے طلب کر لی ہے۔

خصوصی عدالت کے جج ابوالحسنات محمد ذوالقرنین نے استفسار کیا ہے کہ کل عمران خان کے خلاف سماعت اڈیالہ جیل میں ہو گی ی جوڈیشل کمپلیکس میں؟ اس حوالے سے رائے دی جائے۔

وزارت قانون کو لکھے گئے خط میں کہا گیا ہے کہ عمران خان اہم سیاسی جاعت کے سربراہ ہیں، ان کو پیشی پر لانے کے لیے سیکیورٹی کو مدنظر رکھنا ہو گا، بتایا جائے کیا کوئی سیکیورٹی خدشات لاحق ہیں۔

ابوالحسنات نے لکھا ہے کہ اگر عمران خان کو پیش کرنے میں کوئی سیکیورٹی خدشات نہیں ہیں تو پھر سماعت جوڈیشل کمپلیکس میں ہو گی۔

محکمہ پاسپورٹ نے عوام کے لیے نئی ہدایات جاری کردیں



کراچی(این این آئی)محکمہ پاسپورٹ نے کہا ہے کہ نارمل پاسپورٹ کا اجرا 21 اور ارجنٹ پاسپورٹ پانچ روز میں ملے گا۔

پاسپورٹ اجرا میں عوام تعاون کریں۔تفصیلات کے مطابق پاسپورٹ اجرا کے معاملے پر محکمہ پاسپورٹ نے عوام کے لیے نئی ہدایت جاری کردی ہیں، جس میں کہاگیا ہے کہ موجودہ صورتحال میں پاسپورٹ کا وقت پر اجرا مشکل ہوگیا ہے۔

چند شر پسند عناصر پاسپورٹ کو منفی طور پر استعمال کرنے کی کوشش کررہے ہیں۔

ترجمان محکمہ پاسپورٹ کے مطابق موجودہ صورتحال میں نارمل پاسپورٹ کااجرا 21روزمیں ہوگا اور ارجنٹ پاسپورٹ کا اجرا 5 روز میں ہوگا جبکہ فاسٹ ٹریک پاسپورٹ اجرا 2 دفتری روز میں کیا جائے گا۔

محکمہ پاسپورٹ نے اپیل کی کہ پاسپورٹ اجرا میں عوام تعاون کریں، متعلقہ پاسپورٹ دفاترمیں صبح 8تا دوپہرایک بجے تک جاسکتے ہیں اور جمعہ کے روز صبح 8 تا دوپہر 12 تک درخواست دی جاسکتی ہے۔

محکمہ پاسپورٹ کے مطابق پاسپورٹ سے متعلق پاکستان سٹیزن پورٹل میں شکایت درج کرائیں۔

سندھ: ’نپاہ‘ وائرس کے ممکنہ پھیلاؤ کے پیش نظر ایڈوائزری جاری



محکمہ صحت سندھ نے بھارت میں پھیلنے والے خطرناک وائرس ’نپاہ‘ کے پاکستان میں ممکنہ پھیلاؤ کے خطرے کے پیش نظر سرکاری ہسپتالوں کے سربراہان کو ایڈوائزری جاری کر دی ہے۔

ہسپتالوں کو جاری کیے گئے مراسلے میں کہا گیا ہے کہ وائرس پھیلنے کے خطرے کے پیش نظر عملے کو الرٹ رکھا جائے۔

ڈی جی ہیلتھ سندھ کی جانب سے ہسپتالوں کو مراسلہ لکھنے کے علاوہ محکمہ صحت نے ہسپتالوں کے ایم ایس، ڈائریکٹرز اور محکمہ لائیو سٹاک کو بھی الرٹ رہنے کا کہا ہے۔

محکمہ صحت کے مطابق یہ نپاہ وائرس پہلے جانوروں سے انسانوں میں پھیلتا ہے اور پھر تیزی سے منتقل ہوتا ہے۔

یہ بھی بتایا گیا ہے کہ وائرس کا شکار افراد کو بخار، سر میں درد، جسم میں درد جیسی علامات سامنے آتی ہیں۔

کورونا کے بعد پیٹرولیم مصنوعات کی فروخت میں کمی



کراچی(این این آئی)پیٹرولیم مصنوعات کی بلند قیمتوں کے سبب اس کی فروخت پر واضح اثر پڑا ہے۔

آئل کمپنیز ایڈوائزری کونسل(او سی اے سی)کی جانب سے جاری کیے گئے اعداد و شمار کے مطابق اگست کے مقابلے میں ستمبر میں پیٹرولیم مصنوعات کی فروخت 25 فیصد گھٹ گئی ہیں۔

او سی اے سیکے مطابق ستمبر کے دوران صرف 10 لاکھ ٹن پیٹرولیم مصنوعات فروخت ہوئیں۔بجلی پیدا کرنے والے فرنس آئل کی فروخت میں 61 فیصد کمی آئی ہے۔ماہرین کے مطابق کورونا کی وبا کے بعد پیٹرولیم مصنوعات کی یہ کم ترین فروخت ہے۔