پنجاب ہاؤس کراچی کو کرائے پر دینے کا فیصلہ



کراچی(آئی این پی ) نگراں وزیر اعلی پنجاب محسن نقوی نے پنجاب ہائوس کراچی کے ریونیو جنریشن اور اپ گریڈیشن پلان کی منظوری دیدی۔

منصوبے کے تحت نجی کمپنیاں اور ادارے پنجاب ہاوس کراچی میں تقریبات کر سکیں گے جسکی آن لائن بکنگ کی سہولت بھی میسر ہوگی۔

گراونڈ اور فرسٹ فلور کا کرایہ 3 لاکھ روپے ہوگا۔ وزیر اعلی پنجاب محسن نقوی نے پنجاب ہائوس کراچی کا دورہ کیا جہاں انہوں ڈائننگ ہال، ڈارئنگ روم اور کمروں کا معائنہ کیا، گرائونڈ اور فرسٹ فلور کا بھی تفصیلی جائزہ لیا اور اپ گریڈیشن کیلئے ضروری ہدایات دیں۔

صوبائی وزیر اطلاعات عامر میر بھی نگراں وزیراعلی پنجاب کے ہمراہ تھے۔

امجد صدیقی تسی گریٹ ہو



تحریر:۔ جاوید چوہدری

مجھے دو ہفتے قبل لاہور سے کسی صاحب نے اپنی کتاب بھیجی‘ کتاب کا ٹائٹل اور نام دونوں جذباتی تھے لہٰذا میں نے پڑھے اور دیکھے بغیر سائیڈ پر رکھ دی‘ میں نے چند دن قبل پڑھنے کے لیے کتابیں دیکھنی شروع کیں‘ یہ اچانک میرے ہاتھ لگ گئی اور میں نے نیم دلی کے ساتھ ورک گردانی شروع کر دی اور پھر میں ہرچیز بھول گیا اور کتاب پڑھتا چلا گیا۔

یہ کتاب‘ کتاب نہیں تھی‘ زندگی کا ایک ایسا درس تھا جسے ہم ننانوے فیصد فراموش کر بیٹھتے ہیں‘ میں نے دو دن میں چار سو صفحات کی کتاب ختم کر لی اور اس کے بعد مصنف کو فون کیا اور اس کی عظمت‘ ہمت اور استقلال کو کھڑے ہو کر سلام پیش کیا‘ بے شک اس شخص نے صرف کتاب نہیں لکھی تھی‘ اس نے کتاب زندگی تحریر کی اور اس کتاب زندگی کو ہر اس شخص کو پڑھنا چاہیے جو زندگی سے مایوس ہو رہا ہے یا پھر جسے زندگی کی قدر نہیں یا پھر جو زندگی کے مسائل سے جلد گھبرا جاتا ہے۔

میرا اب مصنف کے ساتھ عقیدت اور شاگردی کا رشتہ بن چکا ہے اور میرا دعویٰ ہے آپ بھی اگر یہ کتاب پڑھیں گے تو آپ بھی اسی بندھن میں بندھ جائیں گے۔یہ کتاب (درد کا سفر) پھلروان شہر کے ایک عام سے نوجوان امجد صدیقی کی داستان حیات ہے اور اسے اس ہی نے لکھا ہے، اگر وہ یورپ یا امریکا میں ہوتا تو اب تک ان پر دس بیس فلمیں بن چکی ہوتیں‘ بھارت میں بہرحال ان پر فلم بن رہی ہے تاہم یہ اب تک درجنوں بین الاقوامی ایوارڈز حاصل کر چکے ہیں۔

امجد صدیقی کون ہیں اور انھوں نے ایسا کیا کارنامہ سرانجام دیا جس نے مجھ جیسے پریکٹیکل شخص کو بھی حیران کر دیا‘ امجد صدیقی کے والد کپڑے کا کاروبار بھی کرتے تھے اور اخبارات کے ڈسٹری بیوٹر اور نامہ نگار بھی تھے‘ امجد صدیقی بچپن میں لوگوں کے گھروں میں اخبارات پھینکتے رہے‘ یہ 1979 میں روزگار کے سلسلے میں سعودی عرب چلے گئے اور بڑی مشکل سے بینک میں ٹائپسٹ کی نوکری حاصل کر لی‘ پنجاب میں اس زمانے میں اگر لڑکا سعودی عرب چلا گیاہو‘اسے ملازمت مل گئی ہو تو رشتوں کی لائین لگ جاتی تھی۔

امجد صدیقی کے ساتھ بھی یہی ہوا اور ان کی والدہ نے ایک خوب صورت لڑکی سے ان کی منگنی کر دی اور یوں یہ لوگ خوش اور مطمئن ہو گئے اور ہر چیز منشا کے مطابق پرفیکٹ چلنے لگی لیکن پھر یہ زیارت اور دعا کے لیے مدینہ منورہ گئے‘ واپسی پر کار کا ایکسیڈنٹ ہوا اور ان کی زندگی کا دھارا بدل گیا‘ ایکسیڈنٹ کے بعد زخمیوں کو ہمیشہ گاڑی کاٹ کر ڈاکٹر کی نگرانی میں باہر نکالا جاتا ہے کیوں کہ زخمی عموماً ایکسیڈنٹ میں اتنے مضروب نہیں ہوتے جتنے یہ گاڑی سے نکالنے کے عمل کے دوران مخدوش ہو جاتے ہیں۔

امجد صدیقی کو مقامی لوگوں نے گاڑی سے کھینچ کر نکالا جس کی وجہ سے ان کی ریڑھ کی ہڈی ٹوٹ گئی‘ ان کا جسم سینے سے نیچے معذور ہو گیا‘ یہ صرف بازو اور گردن ہلا سکتے تھے‘ اس سے نیچے ان کے جسم میں کوئی حرکت تھی اور نہ ہی حس‘ انھیں ٹھنڈے اور گرم کا احساس بھی نہیں ہوتا تھا اور ان کے جسم کو اگر چھری سے کاٹ دیا جاتا تو بھی انھیں پتا نہیں چلتا تھا‘ یہ ایک خوف ناک صورت حال تھی لیکن اس سے بھی زیادہ خوف ناک اور تشویش ناک صورت حال آگے تھی‘ ان کا اپنے پاخانے اور پیشاب پر کنٹرول ختم ہوگیا تھا۔

یہ مسلسل نکلتے رہتے تھے اور انھیں اس کا احساس تک نہیں ہوتا تھا بہرحال قصہ مختصر امجد صدیقی نے اس صورت حال میں بھی ہمت ہارنے سے انکار کر دیا اور کام یاب اور قابل فخر زندگی گزارنے کا فیصلہ کر لیا‘ خاندان‘ عزیز رشتے دار‘ دوست احباب اور معاشرہ انھیں بھکاری بنانا چاہتا تھا مگر یہ شخص پوری زندگی اپنی معذوری اور معاشرے سے لڑتا رہا‘ انھیں خاندان اور رشتے دار چھوڑ گئے‘ ان کی منگنی ٹوٹ گئی‘ لوگ ان سے ہاتھ ملانے کے لیے بھی تیار نہیں تھے۔

پورا خاندان انھیں پاکستان لا کر کمرے تک محدود کرنا چاہتا تھا مگر اس شخص نے ہمت نہ ہاری‘ امجد صدیقی نے اپنے دونوں بازوئوں کو اتنا مضبوط بنا لیا کہ یہ ان کا نوے فیصد معذور جسم اٹھانے لگے‘ یہ ویل چیئر پر آئے اور پوری دنیا فتح کر لی‘امجد صدیقی کی آپ بیتی ’’درد کا سفر‘‘ ایک ایسے معذور مگر کام یاب اور خوش حال شخص کی کہانی ہے جس نے معاشرے کی کسی بھی رکاوٹ کو اپنا راستہ نہیں روکنے دیا‘یہ اسپتال کیسے پہنچے‘ بستر سے کیسے اٹھے‘ ویل چیئر کو اپنا سہارا کیسے بنایا‘ گاڑی چلانا کیسے سیکھی‘ ویل چیئر پر بیٹھے بیٹھے گاڑی کے ٹائر کیسے بدلے‘ اپنی ویل چیئر اکیلے سیڑھیوں سے نیچے اتارنا کیسے سیکھا‘ یہ عزیزوں اور رشتے داروں کی نفرت اور حقارت سے کیسے نکلے اور معذوری کے باوجود نوکری کیسے حاصل کی یہ ایک حیران کن داستان ہے۔

یہ ہاتھ سے پندرہ پندرہ کلو میٹر ویل چیئر چلاکر دفترپہنچتے تھے‘ کیسے؟یہ بزنس کی دنیا میں کیسے آئے‘ کروڑوں روپے کیسے کمائے‘ معذوری کے باوجود 60 ملکوں کا سفر کیسے کیا اور آخر میں شادی کیسے کی اور یہ اب کیا کیا کر رہے ہیں؟ یہ ایک ناقابل یقین داستان ہے اور ملک کے ہر شخص بالخصوص ہر معذور شخص کو ضرور پڑھنی چاہیے‘ میرا بس چلے تو میں اس کتاب کو سلیبس کا حصہ بنا دوں ۔

امجد صدیقی کو زندگی گزارنے اور آگے بڑھنے کے لیے کن کن مشکلات کا سامنا کرنا پڑا یہ بھی ناقابل بیان ہے‘ مثلاً میں چند چیزیں آپ کے سامنے رکھتا ہوں‘آپ اس سے اس شخص کی اسٹرگل کا اندازہ کر لیجیے‘ صدیقی صاحب جس زمانے میں ویل چیئر پر آئے تھے اس دور میں نارمل انسان کو بھی نوکری نہیں ملتی تھی جب کہ یہ 90 فیصد مفلوج تھے لہٰذا یہ روزگار کیسے حاصل کرتے ؟

اس کا جواب کسی کے پاس نہیں تھا مگر امجد صدیقی نے یہ رکاوٹ بھی عبور کر لی‘ یہ مسلسل اپنے سابق بینک کے چکر لگاتے رہے اور انھیں بالآخر قائل کر لیا آپ مجھے تین ماہ کے لیے بلامعاوضہ ملازم رکھ لیں میں نے اگر آپ کی ریکوائرمنٹس پوری کر لیں تو مجھے ملازمت دے دیجیے گا ورنہ میں چلا جائوں گا‘ بینک راضی ہو گیا اور اس کے بعد یہ شخص روزانہ ہاتھ سے 15 کلو میٹر ویل چیئر چلا کر بینک جاتا رہا‘ یہ اس سفر کے لیے رات تین بجے اٹھتے تھے‘ تیار ہوتے تھے‘ہاتھ سے ویل چیئر دھکیل کر 15 کلو میٹر کا سفر کرتے تھے اور بینک کھلنے سے ایک گھنٹہ پہلے وہاں پہنچ جاتے تھے اور اس روٹین میں ایک دن بھی تعطل نہیں آیا‘ یہ اتنی تکلیف کیوں اٹھاتے تھے؟

کیوں کہ بسوں اور ٹیکسیوں میں اس زمانے میں ویل چیئر کی گنجائش نہیں ہوتی تھی‘ صدیقی صاحب نے دفتر میں اپنی ٹائپنگ اسپیڈ عام لوگوں سے بڑھا لی تھی لہٰذا یہ بینک میں چار لوگوں کے برابر کام کرتے تھے‘ انھیں جتنا بھی کام دے دیا جاتا تھا یہ انکار نہیں کر تے تھے اور اپنا کام مکمل کر کے گھر جاتے تھے‘ بینک کی انتظامیہ ان کے اس ڈسپلن اور کارکردگی سے متاثر ہوگئی اور انھیں پہلے مہینے ہی تنخواہ دے دی‘ سعودی عرب میں اس زمانے میں معذور آدمی کو کوئی شخص کرائے پر مکان نہیں دیتا تھا‘ امجد صدیقی نے مکان حاصل کرنے کے لیے جتنی جدوجہد کی یہ بھی ایک طلسم ہوش ربا ہے۔

ویل چیئر پر پڑے لوگوں کو عمارتوں اور مکانوں میں داخل ہونے کے لیے کتنے مسائل کا سامنا کرنا پڑتا ہے امجد صدیقی نے یہ واقعات بھی تفصیل سے لکھے‘ مثلاً میونسپل کمیٹی ایک بار ان کے گھر کے سامنے کھڈا کھود کر چلی گئی‘ یہ رات دیر گئے گھر واپس آئے تو ان کے گھر کے سامنے گڑھا کھدا ہوا تھا‘ یہ اکیلے رہتے تھے لہٰذا ویل چیئر سمیت گڑھے میں گر گئے اور پوری رات ویل چیئر کو گھسیٹ کر باہر نکلنے کی سعی کرتے رہے۔

میں کتاب کا یہ پورشن پڑھتے ہوئے رو پڑا تھا‘ اس زمانے میں معذوروں کو گاڑی چلانے کی اجازت نہیں تھی‘ امجد صدیقی نے یہ اجازت بھی حاصل کی‘ گاڑی بھی خریدی اور یہ اسے چلاتے بھی رہے‘ یہ ویل چیئر کو کس طرح گاڑی کے قریب لاتے تھے پھر بازوئوں کی طاقت سے کس طرح اچھل کر ڈرائیونگ سیٹ پر گرتے تھے اور پھر ویل چیئر کو کس طرح سڑک سے اٹھا کر فولڈ کرتے تھے اور اسے کس طرح سائیڈ سیٹ پر ایڈجسٹ کرتے تھے‘ یہ پورشن بھی ناقابل یقین ہے۔

ایک بار ہائی وے پران کی گاڑی کا ٹائر پنکچر ہو گیا‘ امجد صدیقی گھنٹوں ویل چیئر پر بیٹھ کر مدد کا انتظار کرتے رہے لیکن جب کوئی گاڑی نہ رکی تو پھر انھوں نے ویل چیئر پر بیٹھ کر ٹائر کیسے تبدیل کیا یہ بھی ایک دل دہلا دینے والی داستان ہے‘ ان کے ساتھ جہازوں میں کیا سلوک ہوتا تھا‘ ائیر لائینز کس طرح انکار کرتی تھیں‘ کس طرح انھیں گھسیٹ کر سیٹوں پر بٹھایا اور اٹھایا جاتا تھا‘ ساتھی مسافر کس طرح ان سے پرہیز کرتے تھے‘ ان کی ویل چیئر پیک کرتے وقت کس طرح توڑ دی جاتی تھی اور پھر یہ ائیرپورٹ سے کس طرح نکلتے تھے‘ ان کو نوکری سے کس طرح نکالا گیا اور انھوں نے کندھوں پر تولیے رکھ کر کس طرح ویل چیئر پر کاروبار شروع کیا اور یہ کس طرح ایک کام یاب بزنس مین بنے۔

یہ جہاز کے سفر کے دوران اپنا پیشاب اور پاخانہ کیسے کنٹرول کرتے تھے اور اگر سفر کے دوران ایمرجنسی ہو جاتی تھی تو ان کے ساتھ کیا سلوک ہوتا تھا اور پھر انھوں نے شادی کیسے کی اور اللہ تعالیٰ نے انھیں اولاد سے کیسے نوازا‘ یہ بھی ایک حیران کن داستان ہے اور یہ داستان بھی رونے پر مجبور کر دیتی ہے۔

امجد صدیقی واقعی پاکستان کے ہیرو ہیں‘ انھیں پاکستان کا بہادری کا سب سے بڑا ایوارڈ ملنا چاہیے اور ان کی کتاب ’’درد کا سفر‘‘ بھی ہر شخص کو پڑھنی چاہیے‘ میرا دعویٰ ہے یہ کتاب پڑھنے کے بعد آپ کو زندگی کی کوئی بھی مشکل‘ مشکل محسوس نہیں ہو گی‘ آپ کو زندگی کے تمام مسائل سے پیار ہو جائے گا اور آپ روز اپنے آپ سے کہیں گے اگر امجد صدیقی کر سکتا ہے تو میں یہ کیوں نہیں کر سکتا؟

دوسرا آپ اس اﷲ کا شکر ادا کرنے پر مجبور ہو جائیں گے جس نے آپ کو مکمل بھی بنایا اور آپ کو اپنا جسم اور اپنی ضروریات بھی خود پوری کرنے کا سلیقہ دیا‘ اﷲ آپ پر کتنا مہربان اور رحیم ہے آپ کو اس کا احساس بھی یہ کتاب پڑھ کر ہوگا اور آپ بھی میری طرح آخر میں یہ کہنے پر مجبور ہو جائیں گے، امجد صدیقی صاحب تسی گریٹ ہو اور آپ بھی دونوں ہاتھوں سے ان کی عظمت کو سلام پیش کرنے پر مجبور ہو جائیں گے۔

بشکریہ ایکسپریس نیوز اردو

نواز شریف اِن، عمران خان آؤٹ



تحریر:۔ انصار عباسی

ن لیگ اور نواز شریف نے اُس بیانیہ کو فوراً بدل دیا جواُن کو اسٹیبلشمنٹ اور عدلیہ کے ساتھ ٹکراؤ کی طرف لے جا سکتا تھا۔ حال ہی میں میاں نواز شریف نے ایک ویڈیو خطاب میں اپنے پارٹی رہنماؤں سے بات کرتے ہوئے سابق آرمی چیف جنرل باجوہ، سابق آئی ایس آئی چیف جنرل فیض، سابق چیف جسٹسز ثاقب نثار، آصف کھوسہ اور آئندہ سال اکتوبر میں بننے والے مستقبل کے چیف جسٹس اعجاز الاحسن کو 2017میں اپنی حکومت ختم کروانے کی سازش کا ذمہ دار ٹھہراتے ہوئے اس بات کا ارادہ ظاہر کیا تھاکہ اب سب کا احتساب کیا جائے گااور قوم کسی صورت اُن کو معاف نہیں کرے گی۔

میاں صاحب کے اس بیان کے حوالے سے کہا گیا کہ یہ نواز شریف اور ن لیگ کا آئندہ انتخابات کے لئے بیانیہ ہو گا جس پر اس خطرےکا اظہار کیا گیا کہ ایسا بیانیہ نواز شریف کو فوج اور عدلیہ کے ساتھ ایک بار پھر ٹکراو کی طرف لے جائے گا۔

یہ بھی کہا گیا کہ اس بیانیہ سے نواز شریف کی واپسی کے راستے میں رکاوٹیں پیدا ہو سکتی ہیں۔ یہ بھی کہا گیا کہ نواز شریف کے اس بیان کے بعد شہباز شریف کے ذریعے اُن کو پیغام دیا گیا کہ اس بیانیہ کو اپنانے سے گریز کریں۔ عمومی طور پر یہ خیال کیا جارہا ہے کہ نواز شریف اور ن لیگ کو آئندہ انتخابات کیلئے طاقتور حلقوں کی حمایت حاصل ہے۔ بہر حال وجہ جو بھی ہوئی ن لیگ اور نواز شریف نے اپنا بیانیہ بدل لیا جس کا باقاعدہ اعلان دو دن قبل اسحاق ڈار نے لندن میں میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کیا۔

ڈار صاحب نے کہا کہ میاں صاحب ،اُن سب کے احتساب کا معاملہ اپنے رب کے سپرد کر چکے ہیں،جنہوں نے اُن کے خلاف سازش کی اور اُن کی حکومت کو ختم کیا ۔ ڈار صاحب نے یہ بھی کہا نواز شریف پاکستان کے موجودہ حالات میں پوری توجہ کے ساتھ ملک و قوم کے حالات بہتر بنانے کیلئےمعاشی ایجنڈے پر فوکس کریں گے نہ کہ انتقام اور بدلے کی طرف۔میاں نواز شریف نے کسی کے کہنے پر ایسا کیا یا خود سے ہی خیال آ گیا ،دونوں صورتوں میں ن لیگ نے فوج اور عدلیہ سے ٹکراو کی پالیسی نہ اپنانے کا فیصلہ کیا ہے۔ نواز شریف کے ویڈیو بیان کے بعد پیدا ہونے والی صورتحال میں اُن کی 21 اکتوبر کو واپسی کے پروگرام سے متعلق شکوک و شبہات پیدا ہو گئے تھے۔

لیکن اب لگ ایسا رہا ہے کہ میاں صاحب پروگرام کے مطابق پاکستان واپس آ جائیں گے اور ن لیگ کو آئندہ انتخابات کیلئے الیکشن مہم میں لیڈ کریں گے۔ یعنی میاں صاحب جن کو ماضی میں سیاست سے آئوٹ کر دیا گیا تھا وہ سیاست میں دوبارہ اِن ہونے جا رہے ہیں۔ ایسے میں جب میاں صاحب سیاست میں اِن ہو رہے ہیں عمران خان سیاست سے آئوٹ ہو رہے ہیں۔ توشہ خانہ کیس میں عمران خان پہلے ہی الیکشن لڑنے کیلئے نااہل ہو چکے ہیں،جب کہ سائفر کیس میں پیش کئے گئے چالان میںچیئرمین تحریک انصاف کو ایف آئی اے قصور وار تصور کرتی ہے۔

سائفر کیس کے ساتھ ساتھ9 مئی کے مقدمات عمران خان اور اُن کی سیاست کیلئے سنجیدہ خطرہ ہیں لیکن ان تمام تر خطرات کے باوجود خان صاحب اور تحریک انصاف کی طرف سے اُس فوج مخالف بیانیے اور 9مئی کےواقعات کی مذمت اور اس ماضی سے دوری کیلئے کوئی کوشش نہیں ہو رہی۔ ضرورت اس امر کی تھی کہ تحریک انصاف کی قیادت اداروں سے ٹکراو والی صورتحال کو ختم کرنے کیلئے اپنے ووٹرز ،سپورٹرز اور سوشل میڈیا میں فوج مخالف بیانیہ کے خلاف آواز اُٹھاتی، اُسے سختی سے رد کرتی اور ہر ایسے فرد (جو اپنے آپ کو تحریک انصاف سے جوڑتا ہے) سے لاتعلقی کا اظہار کرتی جو فوج اور اس کی قیادت کو بدنام کر رہا ہے۔

تاہم افسوس کہ نہ عمران خان ایسا کر رہے ہیں نہ ہی تحریک انصاف کی دوسری قیادت۔ ویسے تو خان صاحب اور تحریک انصاف کی بڑی خواہش ہے کہ فوج کے ساتھ اُن کے تعلقات بہتر ہوں لیکن ایسا اُس وقت تک ناممکن ہے جب تک کہ تحریک انصاف فوج مخالف بیانیہ کو رد نہیں کرتی۔ یہ بنیادی نکتہ سمجھنے میں عمران خان کو کتنا وقت لگے گا اس بارے میں کچھ نہیں کہا جا سکتا۔

بشکریہ جیونیوز اردو

عمران خان کی مجھ سے دوری کی اصل وجہ بشریٰ بی بی تھیں، علیم خان



کراچی(مانیٹرنگ ڈیسک) استحکام پاکستان پارٹی کے صدر عبدالعلیم خان نے کہا ہے کہ عمران خان کو جتوانے کیلئے ایجنسیاں سپورٹ کررہی تھیں، خان صاحب کی مجھ سے دوری کی اصل وجہ بشریٰ بی بی تھیں۔شادی کے بعد خان صاحب کے بہت سارے فیصلے کمپرومائزڈ ہوگئے۔

نجی ٹی وی پروگرا م میں گفتگو کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ ہم سمجھتے تھے کہ پی ٹی آئی واقعی وہ جماعت ہے جو ایک نیا پاکستان بنا سکتی ہے۔ عمران خان کی صورت میں وہ واقعی نجات دہندہ ثابت ہوں گے اور واقعی اس ملک کو آگے لے کر جائیں گے۔ انہوں نے اس کے بالکل برعکس کرنا شروع کیا لوگوں کے انتخاب کا جو معیار تھا وہ بالکل الٹ ہوگیا اس میں دم درود آگیا۔

جو بنایا وہ آپ کے سامنے ہی ہے وہ نہ صرف نکما ترین تھا بلکہ کرپٹ ترین بھی تھا۔ میں تو عمرے پر گیا تھا میرے لئے تو بشریٰ بی بی بہنوں کی طرح تھیں بھابھی کی طرح تھیں ہمارے لئے وہ کوئی پیر تو نہیں تھیں۔ نہ ہم مرید تھے ہم مریدی تو نہیں کرسکتے تھے نہ وہ ہمارے لئے پیر مرشد تھیں۔ جن کو اگر یہ لگتا کہ ہم اس طرح کی تابعداری نہیں کرسکے تو وہ تو میں نہیں کرسکتا۔

خان صاحب کی مجھ سے دور ہونے کی اصل وجہ بشریٰ بی بی تھیں۔ جس طریقے سے پنجاب کو آپریٹ کیا گیا اور جو میکنزم بنایا گیا وہ علیم خان کے ہوتے ہوئے تو ممکن نہیں تھا۔

میں نے عمران خان سے بہت شکایت کی لیکن بشریٰ بی بی سے شکایت نہیں کی۔ عثمان بزدار کے علاوہ بھی بہت سے لوگوں کے نام آتے ہیں جو نیچے بیٹھتے تھے لیکن میں ان کا نام نہیں لینا چاہتا۔ میرے اثاثے اربوں میں ہیں میں چاہتا ہوں میری فاؤنڈیشن لوگوں کے لئے زیادہ سے زیادہ کا م کرے۔ سیاست پر اب تک تقریباً اربوں روپے سے زائد خرچ کرچکا ہوں۔

کون جیتے گا ورلڈکپ۔پیشن گوئیاں سامنے آگئیں


Featured Video Play Icon

لطیف ڈے پرسندھی جھومر،رقص،دھمال کاایسامظاہرہ شائد آپ نے کبھی نہ دیکھا ہو


Featured Video Play Icon

آزادی اظہارکیاہے؟ کیاپاکستان میں صحافت آزادہے؟منہاج برناسے افضل بٹ تک۔


Featured Video Play Icon

بغاوت کے راستے بند کردیئے،یورپی یونین سے کوئی توقعات نہیں، اردوان



انقرہ: ترک صدر رجب طیب اردوان نے کہاہے کہ بغاوت کے راستے بند کردیئے ۔
ترک پارلیمان کے اجلاس سے خطاب میں انہوں نے کہا کہ انقرہ میں دہشت گردی کرنے والے اپنے عزائم میں ناکام ہوگئے، پولیس کی بروقت کارروائی سے حملہ آور مارے گئے، شہرمیں دہشت گردی کی یہ آخری لہر ہے، ترکیہ دہشت گردی کے خلاف کوششیں جاری رکھے گا، دہشت گرد کبھی اپنے عزائم میں کامیاب نہیں ہوسکتے۔
ترک صدر نے کہا کہ نئے پارلیمانی سیشن کے لیے نیا آئین ترجیح ہے،ترکیہ مہنگائی کے خلاف کوششیں جاری رکھے گا، ترکیہ کی ترقی کیلئے بہت کام کیا گیا ہے، اب ہم ایسے ملک میں نہیں رہتے جہاں پارلیمان ختم کرکے بغاوت کی جائے، ہماری ذمہ داری ہے کہ شہری نئے آئین کے لیے کام کریں۔
انہوں نے کہا کہ ترکیہ کویورپی یونین سے کوئی توقعات نہیں ہیں۔

چاچاافتخار کی دیوانی بھارتی لڑکی کی شناخت سامنے آگئی



نئی دہلی:پاکستانی کرکٹ ٹیم کے بلے بازافتخاراحمد کو شادی کی پیشکش کرنے والی بھارتی لڑکی کی شناخت سامنے آگئی ۔
سوشل میڈیا پر وائرل ہونے والی ویڈیو میں ایک یوٹیوبر نے جب بھارتی لڑکی سے سوال کیا کہ آپ کو کون سا پاکستانی لڑکا پسند ہے جس سے آپ شادی کرنا چاہتی ہیں؟ جس پر لڑکی نے کہاکہ آپ نے نام تو سنا ہی ہوگا لوگ اْس کو ”چاچا چاچا” کہتے ہیں، وہ دنیا کیلئے ”چاچا” ہوگا مگر میرے لیے افتخارجانو ہے


 
میڈیا رپورٹس کے مطابق مذکورہ بھارتی لڑکی کا نام ہیر ہے جو دبئی میں رہتی ہے۔
بھارتی لڑکی ہیر کا آبائی تعلق ریاست پنجاب سے ہے۔ دوران انٹرویو ہیر نے بھارتی ٹیم کی شرٹ پہن رکھی تھی اور افتخار احمد کی تصویر والا پوسٹر ہاتھوں میں تھام رکھا تھا۔

کیاایشون کبھی شاہدآفریدی کے دو چھکے بھول پائیں گے



نئی دہلی: بھارت کے تجربہ کار آف اسپنر روی چندرن ایشون کئی سال گزر جانے کے باوجود بوم بوم شاہد آفریدی کے 2014 میں لگائے گئے دو چھکوں کو نہ بھول سکے۔
مارچ 2014 میں بنگلا دیش میں کھیلے گئے ایشیا کپ کے اہم میچ میں پاکستان نے بھارت کو ایک سنسنی خیز مقابلے کے بعد شکست دی تھی ، سابق کپتان شاہد آفریدی نے اس میچ میں 18 گیندوں پر 34 رنز کی برق رفتار اننگز کھیل کربھارت سے جیتا ہوا میچ چھین لیا تھا۔
ورلڈکپ کے دوران ٹوئٹر پرروی چندرن ایشون نے دنیش کارتک سے گفتگو کی تصویر شیئر کرتے ہوئے اپنے خیالات کا اظہار کیا تھا تاہم تصویر پر کمنٹ کرتے ہوئے ساول میر خان نامی صارف نے ایشون کو شاہد آفریدی کے چھکے یاد دلائے اور لکھا کہ شاہد آفریدی کو وہ دو چھکے آج بھی یاد ہیں۔
بھارتی کرکٹ ٹیم نے آئی سی سی ورلڈکپ کیلئے آخری لمحات میں اپنے اسکواڈ میں ایک اہم تبدیلی کرتے ہوئے انجرڈ اکشر پٹیل کی جگہ روی چندرن ایشون کو اسکواڈ میں شامل کیاہے ۔دفاعی چیمپئن انگلینڈ کے خلاف پہلے وارم اپ میچ سے قبل 37 سالہ ایشون نے بتایا کہ یہ بھارت کیلئے میراآخری ورلڈ کپ ہو سکتا ہے

ایک اننگ میں5 سنچریوں کانیاریکارڈ قائم



لاہور:قائداعظم ٹرافی کے میچ میں کراچی وائٹس نے لاہور کے خلاف ایک اننگ میں پہلی بار پانچ سنچریاں اسکور کرکے نیا ریکارڈ بنا دیا۔
قذافی اسٹیڈیم میں کھیلے جا رہے میچ میں کراچی وائٹس کے پانچ کھلاڑیوں خرم منظور، عماد عالم، اسد شفیق، رمیز عزیز اور سرفراز احمد نے شاندار سنچریاں اسکور کیں۔
قائد اعظم ٹرافی میں یہ کارنامہ پہلی بار ہوا جبکہ فرسٹ کلاس کرکٹ بشمول ٹیسٹ میچز، کی تاریخ میں پانچویں بار ایک اننگ میں 5 سنچریاں بنیں۔1945 میں بھارتی کی رانجی ٹرافی میں میسورکے خلاف ہولکرکی اننگز میں 6 سنچریاں بنی تھیں ،1901 میں نیو ساؤتھ ویلیز نے شیفلڈ شیلڈ میں ساؤتھ آسٹریلیا کے خلاف 5 سنچریاں کی تھیں۔اس کے علاوہ 1955 میں آسٹریلیا نے ویسٹ انڈیز اور 2001 میں پاکستان نے بنگلادیش کے خلاف ٹیسٹ اننگ میں 5، 5 سنچریاں اسکور کی تھیں۔

ہرشابھوگلے نے پاکستانی کھلاڑیوں کو ناقابل اعتبار قرار دے دیا



نئی ہلی: بھارت کے مشہور کمنٹیٹر ہرشا بھوگلے نے ورلڈکپ 2023 کیلئے فاسٹ بولر شاہین شاہ آفریدی کو پاکستان کے لیے کپتان بابر اعظم سے زیادہ اہم قرار دیدیا۔
کرکٹ ویب سائٹ کرک بز سے گفتگو کرتے ہوئے ہرشا بھوگلے نے کہاکہ شاہین شاہ آفریدی ایک طرح سے بابر اعظم سے زیادہ اہم ہے کیوں کہ اگر شاہین ایشیا کپ میں شروعات کے 10 اوورز میں وکٹیں نہ لیتے تو آپ دیکھ سکتے کہ پھر کیا ہوتا، اگر پاکستان کو پاور پلے میں وکٹیں نہ ملیں تو ان کی بولنگ سائیڈ مختلف ہوجاتی ہے، پاکستان ٹیم کیلئے نسیم شاہ کی غیر موجودگی بھی ایک بہت بڑا خلا ہے۔
ہرشا بھوگلے نے کہا کہ پاکستانی اسپنرز کو اچھا کھیل پیش کرنے کی ضرورت ہوگی، میرے خیال میں پاکستان کی صورتحال کچھ اس طرح سے ہوگی کہ کیا پاکستان کے اوپنرز اچھا کھیل پیش کرپائیں گے؟ یا پھر کیا پاکستان کے اسپنرز مڈل اوورز میں اچھی گیند کرسکیں گے؟ بھارتی کمنٹیٹر نے کہاکہ کرکٹر فخر زمان میں اگرچہ کچھ مسئلہ ہے لیکن مجھے یقین ہے کہ پاکستان کے پاس ایک بہترین اوپننگ کمبینشن ہے، امام الحق نے دیر سے ہی سہی لیکن اچھی کارکردگی دکھائی ہے تاہم جب ان کے پاس عبد اللہ شفیق جیسا کرکٹر موجود ہے تو وہ اسے کیوں نہیں کھلاتے؟ اگر مستقل طور پر عبداللہ شفیق اور امام الحق کو اوپننگ دی جائے تو بابر اعظم ایک مختلف کرکٹر بن کر سامنے آتے ہیں جس میں کوئی شک نہیں ہے۔
ہرشا بھوگلے نے اپنی گفتگو میں پاکستان کے مڈل آرڈرز بیٹرز کیلئے غیر یقینی جیسے الفاظ استعمال کیے اور کہا کہ محمد رضوان، سلمان علی آغا، افتخار احمد اور سعود شکیل اچھے کرکٹر ہیں تاہم کیا آپ ورلڈ کپ جیتنے کے لیے ان پر بھروسہ کر سکتے ہیں؟ ہم دیکھنے کیلئے منتظر ہیں، اگر وہ ایسا کرتے ہیں تو یہ پاکستان کے لیے بہت اچھا ہے۔ بھارتی کمنٹیٹر نے کہاکہ پاکستان کے اسکواڈ کیلئے جن3 اسپنرز کو منتخب کیا گیا ہے وہ بیٹنگ بھی کرسکتے ہیں، شاداب ان میں ایک اچھے بیٹر ہیں، نواز بیٹنگ کر سکتے ہیں۔